Sublimegate Urdu Stories

  • Home
  • Sublimegate Urdu Stories

Sublimegate Urdu Stories Urdu Stories with Urdu font, quotes, Islamic Stories in Urdu, Moral Stories in Urdu

Welcome to Shajee Voice Urdu Stories - Quotes, Quotes Realm, motivational quotes, life quotes, Moral stories, Urdu moral stories, life changing stories, best quotes, love quotes, Urdu Islamic Stories, islamic Stories in Urdu, Moral Stories in Urdu.

شمس کے حسن سلوک نے میرا دل جیت لیا۔ مجھے اس شخص کے پر خلوص ہونے کا یقین آگیا اور میں مسلمان ہونے پر تیار ہو گئی۔ موقع دی...
24/09/2025

شمس کے حسن سلوک نے میرا دل جیت لیا۔ مجھے اس شخص کے پر خلوص ہونے کا یقین آگیا اور میں مسلمان ہونے پر تیار ہو گئی۔ موقع دیکھ کر کرسی پر چڑھ کر الماری سے چابیاں اُٹھائیں اور دو ہزار کی رقم نکالی۔ تب دو ہزار ایک خطیر رقم ہوتی تھی۔ رات کا اندھیرا پھیلتے ہی میں گھر سے نکل گئی۔ شمس اپنی گھوڑی لیے میرا منتظر تھا۔ اس نے جلدی سے مجھے اپنے ساتھ بٹھایا اور گھوڑی کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے اپنےگاؤں لے آیا۔
👇👇

میرے والدین ایک ہندو گھرانے سے تھے اور سندھ میں رہتے تھے۔ جب برصغیر کو آزادی ملی اور انگریز جانے لگے، اور بٹوارہ ہوا، تو ہمیں سندھ سے بھارت نقل مکانی کرنے کو کہا گیا کیونکہ یہاں فسادات کی آگ پھیلنے کا خطرہ تھا۔ مشرقی پنجاب میں فسادات شروع ہو گئے تھے، جن کی ہولناک خبریں سن کر میری ماں نے ضروری سامان باندھ لیا۔ جب ہم نقل مکانی کرنے لگے، تو ایک بنیئے نے ہمیں روک لیا۔ دراصل پتا جی نے اس سے قرض لیا تھا، تب ہی اس نے والد کو بھارت جانے سے روکا اور مطالبہ کیا کہ پہلے میرا قرض ادا کرو، تبھی جا نےدوں گا۔ پتا جی کے پاس قرض ادا کرنے کے لیے رقم نہیں تھی۔ ہمارا سامان بندھا ہوا تھا۔

جب وہ رام لال ہمارے گھر آیا، تو اس کی نظر مجھ پر پڑی۔ ان دنوں میں سات برس کی تھی۔ ہم ذات کے تھے۔ رام لال کی رال مجھے دیکھ کر ٹپک پڑی۔ وہ کہنے لگا کہ اگر میرا قرض نہیں دے سکتے، تو اپنی بیٹی مجھے دے دو۔ میں بھی ہندو ذات کا ہوں۔ تمہاری لڑکی کی حفاظت رکھوں گا۔اس وقت حالات خراب تھے، فسادات آگ کی طرح بڑھ رہے تھے۔ مجبوراً میرے والد نے اس بنیئے کے ساتھ میری شادی کے پھیرے لگا دیے۔ یوں تقدیر نے مجھے ساٹھ سالہ بڑھے کی بیوی بنا دیا۔ درحقیقت رام لال کی دو بیویاں مر چکی تھیں اور اب اس کو اپنے لیے کوئی مناسب رشتہ نہیں مل رہا تھا۔ یوں والد کی مجبوری سے فائدہ اُٹھایا اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیے، پھر اس نے ہمارے خاندان کو بھارت کی طرف کوچ کرنے کی اجازت دے دی۔

جب میرا پریوار بھارت جا رہا تھا، میں ان کو جاتے دیکھ کر سسک رہی تھی۔ یہ لمحات میرے لیے بہت بھاری تھے۔ ماں باپ، بہن بھائی بھی مجھے ناچار روتا چھوڑ کر چلے گئے۔ پتا جی نے عافیت اسی میں جانی کہ ایک بیٹی کی قربانی دے کر باقی کنبے کو بچا لیا جائے۔ میں اتنی سمجھدار نہ تھی کہ بٹوارے کی باتوں کو سمجھ پاتی۔ میرا چھوٹا سادہ دماغ یہی سوچتا تھا کہ آخر کیوں یہ لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر کسی اور جگہ جا رہے ہیں۔ میں بچی تھی، اس لیے رام لال نے مجھے اپنی بھاوجوں کے سپرد کر دیا اور میرے جوان ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ اس کی بھابھیاں مجھ پر بہت ظلم کرتی تھیں۔ گھر کا سارا کام مجھ سے کرواتیں، اور ذرا سی بات پر مارنے لگتیں۔ہمارے گھر کے قریب تین افراد پر مشتمل ایک گھرانہ آباد تھا، جس میں ایک بڑھیا، اس کا بیٹا موہن اور بہو شامل تھے۔ موہن نے کسی مسلمان کی مخبری کی تھی، جس نے اُن کو کافی نقصان پہنچایا تھا، تبھی مسلمان گھرانے کے لوگ اس کے گھر پوچھ گچھ کو آئے۔ وہ سمجھا کہ یہ اسے قتل کرنے آئے ہیں، تب ہی اس نے ان پر حملہ کر دیا۔ اس دنگے میں موہن اور اس کے گھر والے مارے گئے۔

وہ لوگ عورتوں کو نہیں مارنا چاہتے تھے، مگر موہن کی ماں اور بیوی بار بار لڑائی کے بیچ آ جاتی تھیں، یوں ان کو بھی ہتھیار لگ گئے۔ بیچ بچاؤ کے لیے ایک اور شخص بھی آیا، تو اسے بھی ہتھیار لگے اور اس کا بازو کٹ گیا۔ میں اپنے دروازے پر کھڑی یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ زخمی آدمی بھاگا ہوا آیا، مجھے اندر کی طرف دھکا دے کر خود بھی اندر آ کر دروازہ بند کر دیا اور مجھ سے بولا، تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ مرنے کا ارادہ ہے کیا؟ میں اس شخص کو منہ پھاڑے دیکھ رہی تھی۔ اتنی نادان تھی کہ حالات کی سنگینی کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر مسلمانوں کا ایک گھرانہ آباد تھا۔ ان کے گھر پر کبھی کبھی شمس نامی ایک شخص آیا کرتا تھا۔ میں اکثر اپنے گھر کے دروازے پر کھڑی رہتی اور وہ مجھے دیکھا کرتا۔ جب میں مسلمانوں کو دیکھتی، دل چاہتا کہ کاش میں مسلمان ہوتی۔ جب اس شخص کو پتا چلا کہ میں ایک ہندو لڑکی ہوں اور میرا باپ مجھے مرض کے عوض بوڑھے بیٹے کو بیچ کر چلا گیا ہے، تو اسے بہت افسوس ہوا۔ ایک دن اس نے مجھے گھر بلایا اور میرے حالات پوچھے، تو میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

شمس نے مجھے تسلی دی اور پوچھا: کیا تم اسلام قبول کرنا پسند کرو گی؟ مجھے مسلم گھرانے اچھے لگتے تھے کیونکہ جس گھر جاتی، وہ مجھے پیار سے ملتے تھے۔ ان کی بہادری دیکھ کر مجھے ان پر رشک آتا تھا۔ شمس کے حسن سلوک نے میرا دل جیت لیا۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/09/beti-ki-qurbani.html


پانی کا قطرہ اگر مسلسل پتھر پر گرتا ر ہے تو پتھر میں بھی سوراخ ہو جاتا ہے۔ ماں کی مسلسل ایسی باتوں نے بالآخر میرا دل برا...
24/09/2025

پانی کا قطرہ اگر مسلسل پتھر پر گرتا ر ہے تو پتھر میں بھی سوراخ ہو جاتا ہے۔ ماں کی مسلسل ایسی باتوں نے بالآخر میرا دل برا کر دیا۔ تبھی میں نے میاں سے بات کرنے کی ٹھان لی اور وہ تھکے ہارے گھر آئے تو میں نے موڈ خراب کر لیا۔ وہ مجھ سے حسب معمول ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے اور میری تیوری پر بل پڑے تھے۔ کسی بات کا جواب نہ دیا تو تنویر کا ماتھا ٹھنک گیا۔
👇👇
میں اکلوتی ضرور تھی، مگر منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوئی تھی کیونکہ والد صاحب پرائمری اسکول کے ٹیچر تھے۔ صاف ظاہر ہے کہ پرائمری اسکول ٹیچر کی آمدنی کیا ہوتی ہے۔ ان کی تنخواہ میں دال روٹی بمشکل پوری ہوتی تھی، تو مجھے وہ کیسے عیش دیتے۔ والدہ ایک کمزور سی عورت تھیں اور سارا دن سلائی کڑھائی کا کام کرتیں، تب گزر بسر ہو رہی تھی۔ چھوٹے سے گاؤں میں رہنے کی وجہ سے امی ابو کے ذہن زیادہ ترقی نہ کر سکے۔ انہوں نے کبھی دنیا دیکھی اور نہ اپنے علاقے سے باہر نکلے، تو انہیں کیا پتا کہ دنیا کتنی آگے جا رہی ہے۔ میرے ساتھ اچھے گھرانوں کی لڑکیاں پڑھتی تھیں۔

ان کے گھر اور رہن سہن دیکھ کر میرا بھی جی چاہتا کہ ان کی طرح زندگی بسر کروں، خوب پڑھوں، لکھوں اور ویسی نظر آؤں۔ ایک بات سمجھ میں آتی تھی کہ اگر میں زیادہ پڑھ لکھ گئی تو ترقی کر سکوں گی اور میری شادی بھی کسی اچھے پڑھے لکھے گھرانے میں ہو جائے گی۔ تبھی دن رات محنت کرتی، کتابوں سے دل لگا کر رکھتی۔ ارادہ تھا کہ ایف ایس سی میں اچھے نمبر لے کر میڈیکل میں داخلہ لے لوں گی اور ڈاکٹر بن جاؤں گی، تاکہ تقدیر بدل جائے۔ ہمارے گاؤں میں اسکول میٹرک تک تھا، اس کے بعد لڑکیوں کو کالج کی تعلیم کے لیے لڑکوں کے کالج میں داخلہ لینا پڑتا تھا۔ جب میں نے میٹرک پاس کیا تو والد صاحب سے آگے پڑھنے کی اجازت طلب کی۔ انہوں نے صاف انکار کر دیا اور کہا، کیا تم اب لڑکوں کے ساتھ پڑھو گی؟ یہ مجھے ہر گز منظور نہیں، آرام سے گھر بیٹھو۔ ماں ایسے مواقع پر ہمیشہ ڈھال کا کام کرتی ہے اور بیٹیاں اپنے مسائل کے حل کے لیے ماؤں کا سہارالیتی ہیں، لیکن میری امی کچھ اور طرح کی تھیں۔ جب میں نے اس سلسلے میں ان سے مدد طلب کی تو وہ بولیں، آگے پڑھ کر کیا کرے گی؟ خواہ مخواہ کے خرچے ہوں گے، اچھا ہے کہ گھرداری سیکھ لے، تیری شادی کرنی ہے، وہاں سسرال میں کھانا بنانا اور سینا پرونا ہی کام آئے گا، کتابیں نہیں!

باشعور ہوتے ہی کچھ لڑکیاں شادی کے خواب دیکھتی ہیں اور کچھ اعلیٰ تعلیم پانے اور کچھ بن کر دکھانے کے دھیان میں رہتی ہیں۔ میں دوسری قسم کی لڑکیوں میں سے تھی۔ بدقسمتی سے ماں اور باپ کی سوچوں کے آگے کچھ نہ کر سکی اور سارے خواب چکنا چور ہو کر رہ گئے۔ ہم جماعت لڑکیوں نے کالج میں داخلہ لے لیا اور مجھے گھر آ کر بتایا کہ کالج کی زندگی بڑی سہانی ہوتی ہے، تم داخلہ لے لو۔ ایک نے تو داخلہ فارم بھی لا کر دیا، جو امی نے اس کے ہاتھ سے لے کر پھاڑ دیا اور کہا کہ آئندہ ملنے آئو تو کالج کی باتیں نہ کرنا۔ رخسانہ جب چلی گئی، میں بہت روئی۔ امی جان کا اپنا مزاج تھا، بھلا ان کو کیسے سمجھا سکتی تھی کہ ماں، آگے پڑھنا، آگے بڑھنا، کچھ بننا میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے۔ شادی تو ہر لڑکی کی ہو جاتی ہے، گھر بھی بس جاتے ہیں، لیکن پڑھائی کی ایک عمر ہوتی ہے۔ اگر یہ عمر نکل جائے تو پھر کچھ ہاتھ نہیں آتا، لیکن ماں بس ایک بات جانتی تھی کہ شادی جلدی ہونی چاہیے کیونکہ شادی کی بھی ایک عمر ہوتی ہے، اگر وہ نکل جائے تو پھر کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

رفتہ رفتہ میرے آنسو خشک ہو گئے۔ میں نے کالج کو خواب سمجھ کر بھلا دیا اور ماں کے ساتھ گھریلو کام کاج میں لگ گئی، جو وقت بچتا، سلائی کڑھائی کا کام کرتی۔ یہ معمول تھا کہ علاقے کے اچھے گھرانوں سے عورتیں امی کے پاس کام بنوانے آتی تھیں۔ وہ اپنے کپڑے، جوڑے اور دھاگے، موتی، ستارے دے جاتی تھیں اور ڈیزائن بھی سمجھا جاتی تھیں۔ میں نے امی سے کام سیکھا، لیکن میرے ہاتھ میں ان سے زیادہ نفاست اور صفائی تھی۔ عورتیں میرا کام دیکھ کر دنگ رہ جاتیں۔ وہ میرے سلیقے اور صورت کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکتیں۔ امی سے باتوں باتوں میں کہتیں، “آپ کی لڑکی بڑی اچھی ہے، جس گھر میں جائے گی، اجالا کر دے گی۔” ہاں بہن، دعا کرو، خدا اس کی اچھی قسمت کرے، اچھا گھر اور اچھا شوہر دے۔ ابھی تو کوئی رشتہ ملا نہیں، دن رات یہی فکر کھائے جاتی ہے۔

امی ابو میرے لیے رشتہ تلاش کر رہے تھے اور ساتھ مختلف اشیاء خریدنے میں لگے تھے۔ غریبوں کے ہاں تو اسی طرح جہیز جوڑا جاتا ہے۔ جو نہ ہی بیٹی جنم لیتی ہے، وہ اس کے لیے جہیز کی اشیاء ایک ایک کر کے ذخیرہ کرنے لگتے ہیں۔ امی نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔

ایک دن کا ذکر ہے۔ دوپہر کے کھانے سے فارغ ہو کر، ایک دوپٹے پر موتی ٹانکنے کا کام کر رہی تھی کہ فون بجنے لگا۔ امی نے اٹھ کر فون اٹینڈ کیا۔ باتوں سے اندازہ ہوا کہ میری ماں بہت خوش ہو رہی ہیں۔ آخر میں امی نے ان کا شکریہ ادا کیا اور سلام کر کے فون رکھ دیا۔ میں نے نگاہ اٹھا کر ماں کے چہرے کو دیکھا۔ وہ بہت مسرور لگیں۔ سر پر ہاتھ پھیرا، اپنے لگیں اور کہا، “شکر ہے میری چاند سی بیٹی کے لیے اتنا اچھا رشتہ ملا ہے۔” اس وقت ابو آ گئے۔ خوشی سے ماں نے پہلی بات یہی بتائی، “سنو ساجدہ کے ابو! ذکیہ بیگم، جو مجھ سے کڑھائی کروانے آتی تھیں، انہوں نے ہمارے لیے بیٹی کا رشتہ پسند کر لیا ہے۔ لڑکا محکمہ تعلیم میں سولہویں گریڈ کا افسر ہے اور اس کی عمر پچیس سال ہے۔ وہ ہفتے کے دن بات پکی کرنے آ رہے ہیں۔” امی کے منہ سے یہ باتیں سن کر میرا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/05/fasadi-mekaha.html

میں خود کو خوش قسمت ترین لڑکی سمجھ رہی تھی، تمام شب سوچتے ہی گزرگئی،  کہ چاہت اپنی جگہ، مگر امیر زادے پر بھروسہ نہیں کرن...
24/09/2025

میں خود کو خوش قسمت ترین لڑکی سمجھ رہی تھی، تمام شب سوچتے ہی گزرگئی، کہ چاہت اپنی جگہ، مگر امیر زادے پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔ صبح روبی آئی تو اپنے دل کی بات اس سے چھپا نہ سکی۔ پلان کے مطابق میں شام کو روبی کے گھر گئی۔ اس نے مجھے لان میں درختوں کے پیچھے چھپا دیا، اس طرح کہ میں خیام کو دیکھ سکتی تھی۔ روبی نے اُسے بلایا اور وہ دونوں تھوڑے فاصلے سے کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
👇👇
ربیعہ کو ہم پیار سے روبی کہتے تھے۔ وہ میری بچپن کی دوست تھی، لیکن کبھی کبھی میرے ذہن میں یہ خیال سمانے لگتا کہ ہم دونوں کی دوستی بے جوڑ ہے۔ اس کی اور میری حیثیت میں زمین آسماں کا فرق تھا۔ وہ ایک وسیع و عریض اور شاندار کو ٹھی میں رہتی تھی، جب کہ ہمارا دو کمروں کا کچا پکا سا گھر تھا۔ میری والدہ جب فوت ہوئی تھیں ، ان دنوں میں صرف چھ برس کی تھی۔ ابو اور پھر بھی نے پالا۔ پھو پھی بے اولاد اور بیوہ تھیں، تبھی ہمارے ساتھ رہتی تھیں۔

وہ مجھے بہت پیار کرتی تھیں۔ ہمارے گھر کے سامنے شوکت صاحب کی کوٹھی تھی۔ ان کا اکلوتا بیٹا عمر خیام بہت اچھا لڑکا تھا۔ اس میں غرور بالکل نہ تھا۔ میں روبی اور وہ، بچپن کے ساتھی تھے اور اکٹھے کھیلا کرتے تھے۔ یہ دونوں زیادہ تر میرے گھر کے صحن میں کھیلنے آتے تھے۔ خیام کی عادت تھی کہ ہر کھیل میں میری طرف داری کرتا تھا۔ اس بات سے روبی کو جلن ہوتی ۔ وہ سمجھتی تھی کہ خیام اسے نظر انداز کرتا ہے۔ وہ ذرا مغرور تھی اور وہ خود کو کسی سے کم نہیں سمجھتی تھی۔ ایک حامی اور بھی اس میں تھی کہ اس کی ہر خواہش پوری ہونا چاہئے۔

جب تک ہم بچے تھے، ساتھ اسکول آتے جاتے، پڑھتے لکھتے اور اکٹھے کھیلتے تھے، لیکن جب شعور آیا تو رستے بدلنے لگے۔ جو نہی میں نے آٹھویں کا امتحان دیا، ابو نے مجھے پر دے میں بٹھا دیا۔ اب کبھی کبھار ہی روبی سے ملتی تھی اور خیام سے تو ملنا اب خواب و خیال کی بات تھی کیونکہ ان کے گھر ہمار آنا جانا نہیں تھا۔ کوئی بہت غیر معمولی بات ہوتی، تو پھپھو چلی جاتی تھیں۔ میں جب کپڑے ڈالنے چھت پر جاتی، تو خیام کو اس کے بنگلے کے سامنے والے لان میں بیٹھے پاتی، جہاں سے ہماری چھت واضح نظر آتی تھی۔ جب ہماری نظریں ملتیں، ہم ایک دوسرے کو سلام کر لیا کرتے تھے۔ ہماری جان پہچان بس یہاں تک محدود ہو چکی تھی۔ انہی دنوں رزلٹ آگیا، میں پاس ہو گئی اور پھر سے اسکول جانے لگی۔ روبی گاڑی میں جاتی اور میں تانگے پر ، کبھی تبھی وہ مجھے لینے گھر آجاتی تھی کہ میرے ساتھ چلو، تو میں اس کی بات مان لیتی، بچپن کی دوستی جو تھی۔

ایک دن میں تانگہ اسٹینڈ پر کھڑی تھی کہ اچانک کسی نے مجھے پکارا۔ میں نے حیرت سے مڑ کر دیکھا، تو خیام کھڑا تھا۔ وہ میرے پاس آیا اور ایک کتاب مجھے تھما کر یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ میری طرف سے یہ تحفہ قبول کر لو اور گھر جا کر اسے بہت احتیاط سے کھولنا، مگر جب کوئی نہ ہو تب کھولنا۔ اتنی مدت کے بعد میں اس کو دیکھ کر حیران و پریشان رہ گئی۔ اسکول جانا مشکل ہو گیا تو واپس گھر آگئی۔ ابو اسکول ٹیچر تھے ، وہ جا چکے تھے۔ میں نے پھو پھی سے سر درد کا بہانہ کیا اور واپسی کمرے میں چلی گئی۔ لباس تبدیل کرنے کے بہانے کمرہ بند کیا، پھر کتاب کے اوپر بندھا ہوار بن کانپتے ہاتھوں سے کھولا۔ پہلے صفحہ میں ایک لفافہ رکھا تھا، جس میں خیام کا خط تھا۔ لکھا تھا، صاحب ! بچپن سے اب تک جب بھی تم سے کوئی خاص بات کرنے کی کوشش کی، ہمیشہ روبی درمیان میں آگئی۔ وہ میرا اور تمہارا ساتھ نہیں چاہتی، اس کی وجہ سے میں بھی تمہیں یہ بتانہ سکا کہ میں تم کو پسند کرتا ہوں۔ یہ خط پڑھ کر ضرور تمہارے دماغ میں خیال جاگے گا کہ ہمارا ساتھ ممکن نہیں اور روبی ٹھیک سوچتی ہے۔

وہ ٹھیک کہتی ہے کہ کہاں زمین اور کہاں آسمان، لیکن اس کے یہ خیالات غرور پر مبنی ہیں۔ میں ایسی گھٹیا سوچ سے نفرت کرتا ہوں، تم ایسے خیالات اپنے من میں نہ لانا، ورنہ میرے بچے جذبات کو سخت ٹھیس پہنچے گی۔ مجھے ان امیروں سے چڑ ہے ، جو انسان کو کم اور دولت کو زیادہ قیمتی سمجھتے ہیں۔ مجھے صرف تمہارا خلوص چاہئے اور اگر زندگی بھر کا ساتھ مل جائے، گا تو میں خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھوں گا۔ میں نے سر راہ تم کو تحفہ دیا۔ امید ہے کہ اس گستاخی کو معاف کر دو گی۔ کیا کرتا؟ مجبور ہو گیا تھا ۔ روبی کے ذریعے کوئی پیغام دینا چاہا مگر مجھے اس پر اعتبار نہیں۔ تمہارے بچپن کا ساتھی، خیام خط پڑھ کر پہلے تو مجھے پسینہ آگیا، پھر انجانی سی خوشی بھی محسوس ہوئی۔ میرے دل نے گواہی دی کہ جیسے میں اسی دن ، اسی ساعت کی منتظر تھی اور اس دن کے لئے ہی جی رہی تھی۔ مجھے رات بھر نیند نہ آئی۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/05/barbadi-1.html


سارہ نے عجیب و غریب حرکتیں شروع کر دیں۔ کبھی وہ ہنستی، کبھی روتی، کبھی سیڑھیوں سے چھلانگیں لگانے لگتی۔ یوں گرتی تو شدید ...
23/09/2025

سارہ نے عجیب و غریب حرکتیں شروع کر دیں۔ کبھی وہ ہنستی، کبھی روتی، کبھی سیڑھیوں سے چھلانگیں لگانے لگتی۔ یوں گرتی تو شدید چوٹیں لگ جاتیں۔ رفتہ رفتہ اس کے حواس کھوتے گئے۔ اب اس کے چہرے پر وحشت برسنے لگی تھی۔ جب سارہ کو اپنی ستر پوشی کا بھی ہوش نہ رہا، تو میاں جی نے تنگ آکر اسے کمرے میں بند کر دیا۔
👇👇
گاؤں میں چچا کے گھر کے ساتھ ایک صاحب رہتے تھے۔ سبھی انہیں میاں جی کہا کرتے تھے۔ وہ نہایت نیک اور عبادت گزار انسان تھے۔ کسی کی مصیبت دیکھ کر تڑپ اٹھتے اور جو کچھ ممکن ہوتا، فوراً مدد کے لیے آگے بڑھتے۔ ان کی دو بیٹیاں تھیں، سارہ اور ماریہ۔ سارہ کی پیدائش کے وقت ان کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ میاں جی نے دونوں بیٹیوں کو ماں اور باپ بن کر پالا۔ کئی لوگوں نے انہیں دوبارہ شادی کا مشورہ دیا، مگر انہوں نے قبول نہ کیا۔ جب بیٹیاں جوان ہو گئیں تو انہوں نے دونوں کے رشتے طے کر دیے۔ سارہ کی شادی اس کے پھوپھی زاد بھائی سمیر سے ہوئی، جبکہ ماریہ ایک کھاتے پیتے گھرانے میں بیاہی گئی۔

ماریہ اپنے گھر میں خوش تھی، لیکن سارہ کی زندگی دکھوں کا سمندر بن گئی۔ سمیر دراصل سارہ سے شادی کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ وہ نایاب نامی ایک لڑکی سے محبت کرتا تھا، جو ایک ماڈل گرل تھی اور آزاد خیالات رکھتی تھی۔ مگر والدین کے دباؤ پر مجبور ہو کر سمیر کو سارہ سے شادی کرنی پڑی۔ شادی کے بعد بھی وہ نایاب سے تعلق قائم رکھے رہا۔ سارہ ہر لحاظ سے اچھی بیوی تھی، مگر جب مرد کسی اور کے عشق میں گرفتار ہو، تو اپنی بیوی خواہ کتنی ہی اچھی ہو، بری لگنے لگتی ہے۔ یہی حال سمیر کا بھی تھا۔ وہ سارہ کو نہ پسند کرتا تھا، نہ عزت دیتا۔ گھر کا سکون برباد ہو گیا۔

ایک سال بعد سارہ کے ہاں ایک خوبصورت بیٹی پیدا ہوئی، جس کا نام کنول رکھا گیا۔ وہ واقعی کنول کے پھول جیسی حسین تھی۔ سارہ کی جان اس بچی میں بستی تھی۔ اس نے اپنی ساری محبت، اپنی ساری توجہ، اپنی ساری زندگی کنول کے لیے وقف کر دی۔ یہاں تک کہ وہ اکثر کہا کرتی، میں سارہ نہیں، کنول ہوں۔ سب لوگ اس پر ہنستے، مگر وہ دل سے یہ بات کہتی۔ سارہ دن رات یہ دعا کرتی رہتی

اے اللہ، میرے شوہر کے دل میں میرے لیے رحم ڈال دے۔ وہ مجھ سے اور میری بیٹی سے محبت کرے۔ اگر وہ غلط راہ پر ہے تو ہدایت عطا فرما۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سمیر کا رویہ مزید بگڑتا گیا۔ وہ چڑچڑا اور سنگدل ہو گیا۔پھر ایک دن تو حد ہی ہو گئی۔ سارہ جوتے پالش کرنا بھول گئی، اور سمیر نے اسی بات کو بہانہ بنا کر اسے طلاق دے دی۔ نایاب کی پہلی شرط یہی تھی کہ اگر وہ شادی کرنا چاہتا ہے تو پہلے بیوی کو طلاق دے۔ سمیر نے بھی اس دیوار کو گرا دیا تاکہ نایاب سے شادی کر سکے۔ جب طلاق کے کاغذات سارہ کے ہاتھ میں آئے تو اس کے ہوش اڑ گئے۔ وہ در و دیوار سے لپٹ کر روتی، دروازہ تھام کر باہر نکلنے سے انکار کرتی، مگر سمیر نے اس پر ترس نہ کھایا۔ اس نے کنول کو چھین کر، سارہ کو گھر سے نکال دیا۔ سارہ روتی پیٹتی اپنے باپ کے گھر پہنچی۔

میاں جی نے جب بیٹی کو اس حال میں دیکھا، تو ان کا دل بیٹھ گیا، مگر صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ نہ داماد سے لڑنے گئے، نہ بہن بہنوئی سے کوئی شکوہ کیا، نہ کسی کے سامنے شکایت کی۔ سارہ کو طلاق سے زیادہ کنول سے بچھڑ جانے کا دکھ تھا۔ وہ ہر وقت بیٹی کو یاد کرتی۔ بخار میں تپتی، مگر کنول کا نام لیتی رہتی۔ وہ بیٹی کے غم میں تڑپتی، سلگتی رہتی۔ کبھی سرد پانی سے نہا کر صحن میں بھیگے کپڑوں کے ساتھ بھاگتی، اور چیخ چیخ کر کہتی میری کنول کہاں ہے، مجھے میری بیٹی چاہیےاب تو حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ اسے پاگل پن کے دورے پڑنے لگے۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/09/mianji-ki-beti.html


سیٹھ عدنان نے دعوت میں اپنے منیجر کی بیوی کو پہلی بار دیکھا تو فریضہ ہو گیا۔ پھر وہ منیجر کے گھر جانے لگے اور ایک دن خوش...
23/09/2025

سیٹھ عدنان نے دعوت میں اپنے منیجر کی بیوی کو پہلی بار دیکھا تو فریضہ ہو گیا۔ پھر وہ منیجر کے گھر جانے لگے اور ایک دن خوشخبری سنائی کہ منیجر کی ترقی ہو گئی ہے اور اب امریکہ میں دوگنی تنخواہ پہ جانا ہے۔ سیٹھ عدنان نے یقین دہانی کرائی کی جیسے ہی سیٹل ہو جاؤ گے بیوی بچوں کو بھی بھجوا دوں گا۔ لیکن بعد میں وہ منیجر کی بیوی کو مجبور کرنے لگے۔
👇👇
میرے ابو جس کمپنی میں ملازمت کرتے تھے، اس کے مالک کا نام سیٹھ عدنان تھا۔ سیٹھ عدنان کچھ عرصے قبل اتنے امیر آدمی نہ تھے۔ پھر یکایک کاروبار میں ترقی ہونے لگی اور دولت ان کے گھر کے دروازے توڑ کر اندر آنے لگی۔ ان کا کاروبار پھیلتا ہی چلا گیا۔ اپنے ملک کے علاوہ بیرون ملک سے بھی کاروباری روابط قائم ہو گئے۔

ایک بار انہیں کاروبار میں غیر معمولی منافع ہوا تو سیٹھ عدنان نے ایک بڑی دعوت کا اہتمام کیا۔ میرے ابو جان نے پہلی بار امی سے کہا کہ تم بھی دعوت میں چلنا، دوسرے لوگوں کی بیگمات بھی آئیں گی۔ امی جان ایسی تقریبات سے گھبراتی تھیں، لیکن ابو کے اصرار پر چلی گئیں۔ دعوت میں ابو نے سیٹھ صاحب سے امی کا تعارف کروایا۔ امی ایف اے پاس اور بہت خوبصورت خاتون تھیں، مگر زیادہ فیشن نہیں کیا کرتی تھیں۔ سیٹھ صاحب کو ان کی سادگی بہت پسند آئی۔ دعوت کے چند دن بعد وہ ہمارے گھر تشریف لائے۔ امی جان اور میرے لیے کچھ تحفے بھی لائے جنہیں ہم نے خوشی سے قبول کیا۔ ابو جان نے ان کی اس عنایت کو اپنی عزت افزائی خیال کیا اور بہت خوش ہوئے کہ سیٹھ صاحب نے ان کے گھر آ کر ان کی شان بڑھائی۔

اس کے بعد بھی سیٹھ صاحب ہفتہ عشرے میں ایک بار ہمارے گھر آنے لگے۔ وہ امی جان کو “بھا بھی” کہتے اور میرے لیے ٹافیاں اور کھلونے ضرور لاتے۔ ایک روز سیٹھ صاحب ہمارے گھر آئے اور کہنے لگے: “منان میاں، ہم آپ کے لیے خوش خبری لائے ہیں۔” پھر جو خوش خبری انہوں نے ابو جان کو سنائی، تو اسے سن کر ابو خوش بھی ہوئے اور فکر مند بھی۔ خوش اس لیے کہ کمپنی نے ان کا عہدہ اور تنخواہ بڑھا دی تھی، فکر مند اس لیے کہ اس پوسٹ پر انہیں امریکہ جانا تھا۔ سیٹھ صاحب، جنہیں میں انکل کہتی تھی، ابو جان کو تسلی دی اور کہا: “تمہارے امریکہ سیٹل ہو جانے کے بعد میں تمہاری بیوی اور بیٹی کو بھی تمہارے پاس بھجوانے کا انتظام کر دوں گا۔ اس موقع کو ہاتھ سے مت جانے دو۔” ابو نے ان کا مشورہ مان لیا اور امریکہ جانے کی تیاری شروع کر دی۔ ابو کے امریکہ جانے کے بعد گھر میں ایک طرف اداسی چھا گئی تھی تو دوسری جانب خوشحالی بھی آ گئی تھی کیونکہ وہ ہر ماہ ہمیں کافی رقم بھیجوانے لگے تھے۔

ابو جان کی غیر موجودگی میں انکل ہمارے گھر وقتاً فوقتاً آتے، خیریت دریافت کرتے۔ اکثر بہت سی اشیائے ضرورت بھی دے جاتے۔ امی جان ان کے ساتھ تھوڑی دیر ڈرائنگ روم میں جا کر بیٹھ جاتیں، چائے وغیرہ دیتیں، مگر ان کے چہرے سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ جیسے وہ بادل نخواستہ مہمان داری کا یہ فریضہ نبھانے پر مجبور ہوں۔ سیٹھ صاحب کے گھر آنے سے انہیں بالکل خوشی نہیں ہوتی تھی۔ میں ان دنوں کافی چھوٹی تھی، نہیں جانتی تھی کہ سیٹھ صاحب امی جان سے کس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ کبھی کبھی مجھ کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان کی باتوں سے امی کو غصہ آ جاتا ہے مگر وہ ضبط کر لیتی تھیں۔

دو سال بعد ابو امریکہ سے پاکستان واپس آئے۔ وہ بھی چھٹی پر۔ انہوں نے سیٹھ صاحب سے کہا: “میں گھر سے دور اداس رہتا ہوں، آپ مجھ کو واپس وطن بلوائیں۔” سیٹھ صاحب نہیں چاہتے تھے کہ اتنا قابل آدمی وہ پوسٹ چھوڑ کر امریکہ سے واپس آئے۔ لیکن بہت اصرار کرنے پر آخر کار سیٹھ صاحب کو ابو جان کی بات ماننی پڑی۔ انہوں نے ابو کو وطن تو بلا لیا لیکن کراچی میں جگہ نہ دی بلکہ پشاور اپنی کمپنی میں بھجوا دیا کہ “کچھ عرصہ وہاں رہو، پھر کراچی بلا لوں گا۔ امریکہ سے پشاور پھر بھی بہتر تھا۔ ابو ملازمت نہ چھوڑ سکتے تھے، لہٰذا پشاور جا کر اپنی ڈیوٹی سنبھال لی۔ انہیں وہاں گئے تین ماہ ہوئے تھے کہ ہمیں گھر پر اطلاع ملی۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/05/chalbaz.html


یہ سلسلہ چھ ماہ چلاتا کہ آخر ایک دن ابو نے اسے خط دیتے دیکھ لیا۔ وہ تو بھاگ نکلا، لیکن ابو نے مجھے پکڑ لیا اور میرے ہاتھ...
23/09/2025

یہ سلسلہ چھ ماہ چلاتا کہ آخر ایک دن ابو نے اسے خط دیتے دیکھ لیا۔ وہ تو بھاگ نکلا، لیکن ابو نے مجھے پکڑ لیا اور میرے ہاتھ خط چھین لیا۔ خط پڑھتے ہی ان کا چہرہ غصے سےلال ہو گیا اور آنکھوں میں خون اتر آیا۔ گھر آتے ہی وہ عذرا باجی کے کمرے میں گئے اور اسے خوب مارا۔ وہ چیخ رہی تھی کہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ لیکن ابو کے سر پر خون سوار تھا۔
😭😭
میرا نام ممتاز ہے اور میں خوبیوں میں بھی ممتاز ہوں۔ یہ میں نہیں ، لوگ کہتے ہیں، پھر بھی بد نصیب ہوں کہ ایک ہاتھ سے معذور ہوں اور زندگی کی گاڑی تو دو ہاتھوں سے چلتی ہے، لیکن مجھے عمر بھر ایک ہاتھ سے کھینچتی ہے۔ میں پیدائشی معذور نہ تھی۔ میرے ہاتھ پاؤں سلامت تھے، مگر قسمت نے مکمل انسان سے معذور اور ادھورا بنا دیا۔ شاید آپ کو اندازہ ہو کہ ایک معذور انسان کے کیا احساسات اور نفسیاتی مسائل ہوتے ہیں۔ اس کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کر رہ جاتی ہے۔ لوگوں کی نظریں جب معذور آدمی کو جذب ترجم سے دیکھتی ہیں، تو کیا بتاؤں ! دل پر کیا گزرتی ہے۔ شکر کرتی ہوں کہ مجھے اچھا جیون ساتھی ملا، ورنہ خدا جانے، میرا کیا حشر ہوتا؟ میں کیسے معذور کی گئی، آپ کو بتاتی ہوں۔

یہ ان دنوں کی بات ہے ، جب میں ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی اور ہم ایک چھوٹے سے شہر میں رہا کرتے تھے۔ ہمارے ساتھ میری چچازاد بہن باجی عذرا بھی رہتی تھیں کیونکہ ان کے امی ابو ایک ایکسڈنٹ میں فوت ہو گئے تھے، تب سے ابو باجی کو اپنے گھر لے آئے تھے۔ جب چپ چی فوت ہوئے ، عذرا با جی تیرہ چودہ برس کی تھیں اور آٹھویں جماعت میں پڑھا کرتی تھیں۔ وہ کافی خوبصورت تھیں کیونکہ ہمارا سارا ہی خاندان خوبصورت ہے۔ میں اور عذرا باجی اکٹھے اسکول جاتی تھیں۔ جب باجی نویں جماعت اور میں چھپٹی میں آئی تو ایک ایسا واقعہ ہوا، جس نے باجی کی زندگی میں دُکھ بھر دیئے۔ وہ تو پہلے ہی سکھی نہ تھیں، اسکول سے آکر گھر کا سارا کام کرتی تھیں جبکہ امی کم ہی کام کو ہاتھ لگاتی تھیں۔ میں تو بچی تھی، میرا دھیان کھیل میں لگارہتا تھا۔ میں ان دنوں نا سمجھ تھی۔

شام کو روزانہ سہیلیوں کے ساتھ گلی میں کھیلنے نکل جاتی۔ امی ابو منع بھی کرتے، کہتے ۔ اب تم بڑی ہو گئی ہو، باہر مت جایا کرو، مگر میں نہ مانتی ۔ ہماری گلی کی لڑکیاں شام کو باہر کھیلتیں، سڑک پر لکیریں بنا کر ہم پالا کھیلتے ، جو گروپ جیت جاتا وہ پالا مار لیتا۔ کبھی کبھی گلی کے لڑکے بھی ہمارا کھیل دیکھنے کوڑک جاتے تھے۔ ایسے ہی ایک دن علیم نے مجھے خط دیا اور کہا کہ یہ اپنی باجی عذرا کو دے دینا۔ اس نے ہوم ورک منگوایا تھا۔ یاد رہے کہ علیم کی ایک کزن بھی ہمارے ساتھ پڑھتی تھی، جو باجی کی کلاس فیلو تھی۔

میں یہی سمجھی کہ باجی نے کچھ شائستہ سے منگوایا ہو گا۔ علیم اور شائستہ ہمارے محلے میں رہتے تھے۔ دراصل وہ اپنے چچا کے گھر پڑھنے کے لئے آیا ہوا تھا۔ بہر حال خط میں نے باجی عذرا کو دیا، جسے پڑھ کر ان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اس وقت وہ کچن میں چائے بنارہی تھیں۔ خط پڑھ کر انہوں نے چولہے میں ڈال دیا اور میرے سامنے کا غذ کا وہ پرزہ جل کر راکھ ہو گیا۔ خدا جانے علیم نے اس میں کیا لکھا تھا۔ باجی نے کہا۔ دیکھ نھی ! اس بات کا ذکر کسی سے نہ کرنا، ورنہ تایا تائی مجھ سے برا سلوک کریں گے اور اسکول سے بھی نکال لیں گے۔ میں ان سے بہت پیار کرتی تھی کیونکہ وہ بھی میرا بہت خیال رکھتی تھیں، لہذا مجھے بھی ان کی خیریت مطلوب تھی، سو میں نے اس بات کا ذکر واقعی کسی سے نہ کیا۔

جب میں اور باجی عذرا اسکول جارہی ہو تیں، تو علیم کبھی کبھی ہمارا پیچھا کرتا، لیکن باجی مڑ کر نہ دیکھتیں اور نہ وہ اس سے رستے میں بات کرتیں، البتہ مجھے تاکید کرتیں کہ کسی بات کا ذکر گھر میں کسی سے نہ کروں ، ورنہ وہ اسکول سے نکال لی جائیں گی۔ ان کو پڑھنے کا بہت شوق تھتا اور وہ کسی صورت تعلیم کو چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں۔ ادھر ان کو یہ خوف تھا کہ ان کی پڑھائی میں رکاوٹ نہ آجائے، ادھر علیم تھا کہ باز نہیں آتا تھا۔ جب بھی مجھے گلی میں اکیلے دیکھتا، کاغذ کا پرزہ مجھ کو تھمادیتا۔ عذرا باجی نے کبھی اس کے خط کا جواب نہ دیا، مگر علیم نے بھی ہمت نہ ہاری۔ وہ ایسے ہی مجھے خط دیتا رہا۔ یہ سلسلہ چھ ماہ چلاتا کہ آخر ایک دن ابو نے اسے خط دیتے دیکھ لیا۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/05/ek-hath-ki-qeemat.html


جب سات دن بعد بھی نہ لوٹیں تو بھائی خود بیوی کو لینے عبداللہ کے گھر گئے۔ وہاں بیوی نے آنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میر...
22/09/2025

جب سات دن بعد بھی نہ لوٹیں تو بھائی خود بیوی کو لینے عبداللہ کے گھر گئے۔ وہاں بیوی نے آنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میرے والد کی بیماری کی وجہ میری جدائی ہے، اس لیے ابھی کچھ دن مجھے یہیں رہنے دیں۔ اس بار والد صاحب خود انہیں لینے گئے۔ لیکن بھابھی گھر پر موجود نہ تھیں۔ بتایا گیا کہ بازار گئی ہیں، کچھ ضرورت کی چیزیں لینی تھیں۔ جب وہ واپس آئیں تو بناؤ سنگھار میں تھیں، جیسے کسی تقریب سے آ رہی ہوں۔ ان کے ساتھ ان کے چچا زاد بھائی بھی تھے۔
👇👇
ان دنوں امی ابو، بھائی آفتاب کے لیے ایک اچھی لڑکی کی تلاش میں تھے۔ بھائی کو معقول ملازمت مل چکی تھی، اور اب ان کے لیے دلہن لانے کا ارمان اپنے عروج پر تھا۔ والدہ نے کئی گھر دیکھے، لیکن اپنے مطلب کی لڑکی نہ مل سکی۔ پتہ چلا کہ بہو تلاش کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔امی کے کوئی اونچے آدرش نہ تھے۔ وہ چاہتی تھیں کہ بہو خواہ غریب گھر کی ہو، لیکن شریف اور نباہ کرنے والی ہو۔ تاہم بھائی آفتاب کا کہنا تھا کہ میری بیوی خوبصورت ہونی چاہیے۔والدین نے لڑکی کی تلاش میں ایک سال گنوا دیا۔ بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ پسند کی لڑکی ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، جس میں وہ تمام خوبیاں ہوں جن کی ہم تمنا رکھتے ہیں۔

ایک روز والد صاحب کسی کام سے خانیوال اپنے دوست نصیر الدین کے گھر گئے۔ باتوں باتوں میں اس نے ذکر کیا کہ اس کی ایک کزن ہے، جن کے دو بیٹیاں ہیں۔ خاوند سے علیحدگی ہو چکی ہے، اور اب ان بچیوں کی شادی کا مسئلہ درپیش ہے۔ بچیاں نیک، شریف اور خوبصورت ہیں، لیکن خاتون بہت غریب ہیں۔ بڑی بیٹی ایف اے کر چکی ہے، جبکہ چھوٹی ابھی میٹرک میں زیر تعلیم ہے۔ نصیر الدین کی کزن کا نام کوثر بی بی تھا۔والد صاحب نے کہا کہ مجھے لڑکی دکھاؤ، میں اپنے بیٹے کے لیے ایک اچھے گھرانے کی لڑکی کی تلاش میں ہوں۔ نصیر الدین انہیں کوثر بی بی کے گھر لے گئے۔ والد کو پہلی ہی نظر میں ان کی بڑی بیٹی، فرح ناز، پسند آ گئی۔ انہوں نے اپنے دوست سے کہا کہ اپنی کزن سے بات کرو۔نصیر الدین نے بات کی تو کوثر بی بی مان گئیں، اور یہ رشتہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا۔

والدہ اور بھائی کو بھی فرح ناز اور اس کا گھرانہ پسند آیا۔ والدہ نے کہا کہ لڑکی بہت غریب گھر سے ہے۔ اگر وہ ہمارے ساتھ اچھا نباہ کرے گی تو اس کے بھائی کو کاروبار کرا دیں گے تاکہ ان کے گھر سے غربت دور ہو۔فرح ناز ہماری بھابھی بن کر آ گئیں۔ جتنی خوبصورت تھیں، اتنی ہی خوب سیرت بھی تھیں۔ بھابھی کی والدہ اور بھائی بھی اس رشتے پر خوش تھے۔ زندگی کسی سہانے خواب کی مانند گزر رہی تھی۔بھائی نے اپنے بڑے برادر نسبتی کو ایک دوست کے توسط سے بیرون ملک بھجوا دیا، جہاں اسے اچھی ملازمت مل گئی، اور وہ خوب کمانے لگا۔ وہ ہر ماہ اپنی ماں کو رقم بھیجتا، اور وہ سلیقہ مند خاتون اسے سنبھال کر خرچ کرتیں۔ کچھ پیسہ پس انداز ہوا تو ایک مکان بھی بنوا لیا۔

ہمارے بھائی کی شادی کو چوتھا سال تھا کہ ایک دن کسی نے دروازے پر دستک دی۔ ابو نے دروازہ کھولا۔ ایک باریش شخص سامنے کھڑا تھا۔ اس نے کہا کہ میں آپ کی بہو کا باپ، عبداللہ ہوں۔ اپنی بیٹی سے ملنا چاہتا ہوں۔ براہ کرم اسے میرا پیغام دیں۔ اگر وہ مجھ سے ملنا چاہے تو میری زندگی کی ایک بڑی خواہش پوری ہو جائے گی۔ میں کافی عرصے سے اپنی بچیوں کی جدائی میں تڑپ رہا ہوں۔ زندگی کا بھروسہ نہیں، یہ میری آخری خواہش سمجھ لیں۔ والد صاحب اندر آئے اور بہو سے کہا کہ بیٹی، تمہارے والد آئے ہیں، تم سے ملنے۔ کیا تم ان سے ملنا چاہو گی؟ بھابھی نے کچھ سوچ کر اثبات میں سر ہلا دیا تو والد صاحب، عبداللہ کو گھر میں لے آئے اور عزت سے مہمان خانے میں بٹھایا۔ چائے وغیرہ کا کہا اور خود ان کے پاس جا بیٹھے۔ بہو سے کہا کہ تم بچوں کو لے کر ڈرائنگ روم میں آ جاؤ، تاکہ وہ اپنے نواسے نواسی سے بھی مل لیں۔

ذرا دیر میں بھابھی ہاتھ منہ دھو کر، کپڑے بدل کر، اپنے والد سے ملنے آئیں۔ وہ انہیں دیکھ کر آبدیدہ ہو گئیں۔ دس سال بعد باپ بیٹی کی ملاقات ہوئی تھی۔ والد اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور وفور جذبات سے رونے لگے۔ اس پر بھابھی کا دل پسیجا اور وہ اپنے والد سے لپٹ گئیں۔ بڑا دل گداز منظر تھا۔ سبھی آبدیدہ ہو گئے۔ ماں ہو یا باپ، اولاد کی محبت سبھی کو ہوتی ہے۔ اولاد ایک ایسی شے ہے کہ جس کا درد جدائی سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ مگر میاں بیوی کی علیحدگی میں ہمیشہ نقصان بچوں کا ہی ہوتا ہے۔اس کے بعد عبداللہ کبھی کبھار بھائی اور ان کے بچوں سے ملنے آنے لگے۔ میرے والدین انہیں بہو سے ملنے سے نہیں روکتے تھے کیونکہ بھابھی خود اپنے والد سے ملنا چاہتی تھیں۔ وہ ان سے محبت کرتی تھیں۔

اس ضمن میں انہوں نے اپنی ماں کی ناراضی کو بھی نظر انداز کر دیا تھا، تو ہم لوگ بھلا انہیں کیسے ملنے سے روک سکتے تھے؟ایک دن عبداللہ اپنے بھائی کو بھی ساتھ لے آئے۔ یہ وہی بھائی تھے جو اپنے بیٹے کے لیے شدت سے فرح ناز کے رشتے کے طالب تھے۔ بہرحال، اب تو وہ شادی شدہ تھیں اور دو بچوں کی ماں بن چکی تھیں۔ ہم چونکہ ان کے والد کا احترام کرتے تھے، تو ان کے چچا کا بھی احترام کیا اور مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔عبداللہ بہت خوش ہوئے۔ والد صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ان کے بھائی کو بھی عزت دی۔ اس واقعے کو ایک مہینہ گزر گیا کہ ایک دن عبداللہ آئے اور اپنی بیٹی کو لے جانے کی فرمائش کی۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/09/bewafa-biwi.html


میرا باپ سوتیلی امی کے اکسانے پر انور کو کمرے سے باہر لے آئے اور روتی ہوئی بیوی کو خوش کرنے کے لیے اُس قدر مارا کہ میرا ...
22/09/2025

میرا باپ سوتیلی امی کے اکسانے پر انور کو کمرے سے باہر لے آئے اور روتی ہوئی بیوی کو خوش کرنے کے لیے اُس قدر مارا کہ میرا بھائی بے ہوش ہو گیا۔ والد صاحب پر جیسے جنون سوار تھا۔ میری ایک نہ سنی اور دھکا دے کر بولے بگڑے ہوئے لڑکے کے لیے میرے گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ میں نے انور کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور کہا، اٹھو میرے پیارے بھائی، اٹھو۔ انور کو ہوش آ گیا تو باپ اُسے دھکے دینے لگا۔
👇👇
یہ اُس وقت کی بات ہے جب میں چوتھی جماعت میں پڑھتی تھی۔ ہم دو بہن بھائی تھے اور آپس میں بڑی محبت تھی۔ میرا نام فرح اور بھائی کا نام انور تھا۔ ہمارا بچپن پیاری ماں کے زیرِ سایہ بہت سکون اور آرام سے گزرا۔ خوشیوں بھرے دن تھے۔ ممتا کے گلاب ہمارے اطراف کھلے رہتے تھے۔ اچانک امی بیمار ہو گئیں اور دو ماہ بعد اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ وہ ہم دونوں بچوں سے بہت پیار کرتی تھیں۔ والد صاحب بھی ہم سے بے حد محبت کرتے تھے۔ تقریباً دو سال بعد انہوں نے دوسری شادی کر لی۔

ہم نادان تھے۔ اس دن بہت خوش ہوئے کہ نئی امی آ گئی ہیں۔ سجی سنوری دلہن بچوں کو ہمیشہ دلکش لگتی ہے۔ ہمارے دلوں کو بھی وہ نئی ماں بہت اچھی لگی اور ہم دونوں تتلیوں کی طرح اُن کے گرد منڈلانے لگے۔ والد صاحب نے انہیں سمجھا دیا تھا کہ بچے چھوٹے اور معصوم ہیں، انہیں ماں جیسا پیار دینا ہوگا۔ لہٰذا نئی ماں ہمیں پیار کرنے لگیں۔ وقت گزرتا گیا اور ہمارا ایک بھائی اور آ گیا۔ یہ قدرتی بات تھی کہ ماں کی زیادہ توجہ اپنے لختِ جگر کی طرف ہو گئی۔ رفتہ رفتہ ان کا رویہ ہم دونوں کے لیے بدلنے لگا۔ وہ ہمارے لیے اجنبی بن گئیں۔

ہم دونوں بہن بھائی بہت پریشان رہنے لگے۔ وقت گزرتا رہا۔ امی کے دو بیٹے اور آ گئے۔ ان کی تین سگی اولادیں ہو گئیں۔ گھر ان کی چہکاروں سے بھر گیا۔ اب ان کو ہماری ضرورت نہ رہی، لیکن ہمیں تو والدین اور گھر کی ضرورت تھی، بھلا کہاں جاتے؟ ماں کے تمام ستم سہہ کر بھی ان کے ساتھ رہنے پر مجبور تھے۔ میں بڑی ہو گئی اور سمجھ دار بھی۔ گھر کا سارا کام ماں نے میرے سپرد کر دیا۔ سارا دن کام کرتی، اور جو تھوڑا وقت بچتا، وہ کہتیں کہ میرے بچوں کے ساتھ کھیلو۔ وہ لڑکے بہت شریر تھے۔ کھیل کھیل میں کبھی میرا سر پھاڑ دیتے، کبھی گیند مار دیتے، اور کبھی ہلے سے ضرب لگاتے۔ میں درد سے بلبلا اٹھتی۔ مجھے پڑھائی کی فرصت نہ ملتی تھی۔ ماں ایک پل بھی فارغ نہ بیٹھنے دیتی تھیں۔

ماں نے میرے ساتھ ایسا سلوک اختیار کر لیا تھا کہ جو بھی گھر آتا، مجھے نوکرانی سمجھتا۔ تینوں سوتیلے بھائی ہر وقت حکم چلاتے۔ وہ مجھے سچ مچ خادمہ ہی سمجھتے تھے۔ بات بات پر لاتیں، ٹھڈے مارتے۔ یہ سب منظر دیکھ کر میرا بھائی انور اندر ہی اندر کڑھتا رہتا تھا۔ اُس وقت وہ نویں جماعت کا طالب علم تھا جبکہ مجھے اسکول سے اُٹھا لیا گیا تھا۔ انور کو بہت اذیت ہوتی جب امی مجھے ذرا ذرا سی بات پر مارتیں اور میں سسکتے ہوئے چپ چاپ مار کھاتی رہتی۔ میں ہر وقت سہمی سہمی رہتی تھی۔ ایک دن تو گھر میں قیامت ہی برپا ہو گئی۔

اُس دن جب انور اسکول سے گھر آیا تو میں بیٹھی رو رہی تھی اور تینوں چھوٹے بھائی مل کر مجھے مار رہے تھے۔ انور سے یہ منظر دیکھا نہ گیا۔ پہلے تو اُس نے انہیں منع کیا، لیکن وہ بولے کہ تمہیں کیا، یہ ہماری نوکرانی ہے، ہم اسے ماریں گے۔ امی نے بھی اپنے بیٹوں ہی کی طرف داری کی۔ تبھی انور کو غصہ آ گیا۔ سامنے ایک ڈنڈا پڑا ہوا تھا، جس سے سوتیلے بھائی مجھے مارا کرتے تھے۔ انور نے وہ ڈنڈا اُٹھایا اور امی کو خوب مارا۔ جب چھوٹے بھائی درمیان میں آئے تو انہیں بھی مارا۔ امی شور مچاتی ہوئی محلے والوں کے پاس چلی گئیں۔

شام کو ابو دفتر سے واپس آئے تو امی نے روتے روتے برا حال کر لیا اور کہا کہ میں نہ کہتی تھی، اس بدتمیز لڑکے کو گھر میں نہ رکھو؟ آج اس نے یہ حرکت کی ہے، کل کچھ اور کر بیٹھے گا۔ ابو امی کی باتوں پر ایسے یقین کر لیتے تھے جیسے اُن پر کسی نے جادو کر دیا ہو۔ وہ امی کے اکسانے پر انور کو کمرے سے باہر لے آئے ۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/05/soteli-maa.html


Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Sublimegate Urdu Stories posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share