Sublimegate Urdu Stories

Sublimegate Urdu Stories Urdu Stories with Urdu font, quotes, Islamic Stories in Urdu, Moral Stories in Urdu

Welcome to Shajee Voice Urdu Stories - Quotes, Quotes Realm, motivational quotes, life quotes, Moral stories, Urdu moral stories, life changing stories, best quotes, love quotes, Urdu Islamic Stories, islamic Stories in Urdu, Moral Stories in Urdu.

بنگال کے گھنے جنگلوں اور دلدلی زمینوں کے درمیان سے گزرتی ایک ٹرین، "بمبئی ایکسپریس"، اپنی منزل کلکتہ کی طرف رواں دواں تھ...
08/07/2025

بنگال کے گھنے جنگلوں اور دلدلی زمینوں کے درمیان سے گزرتی ایک ٹرین، "بمبئی ایکسپریس"، اپنی منزل کلکتہ کی طرف رواں دواں تھی۔ یہ برطانوی راج کے ابتدائی ریلوے نظام کا حصہ تھی، جو دیہاتوں اور شہروں کو آپس میں جوڑتی تھی۔ لیکن اس رات کا سفر ایک خوفناک خواب بننے والا تھا۔ آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے، اور چاند کی مدھم روشنی جنگل کے گھنے درختوں کے درمیان سے چھن کر زمین پر پڑ رہی تھی، گویا کوئی راز افشا کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔ مقامی لوگ اس جنگل کو ملعون سمجھتے تھے۔ کہانیاں مشہور تھیں کہ رات کے وقت یہاں عجیب و غریب مخلوقات گھومتی ہیں۔ کچھ انہیں "بھوتنی" کہتے، کچھ "راکشس"، اور کچھ "نرہ پشاچ"۔ ایک ایسی مخلوق جو دن میں انسان کا روپ دھارتی تھی، لیکن رات کو خون کی پیاسی ہو جاتی تھی۔

ٹرین کے اندر بیٹھے مسافر ان کہانیوں سے بے خبر تھے، لیکن یہ بے خبری زیادہ دیر نہ رہنے والی تھی۔ ٹرین کا گارڈ، رام دیال، ایک تیس سالہ مضبوط جوان تھا، جو اپنی ذمہ داریوں کو جان سے زیادہ عزیز رکھتا تھا۔ وہ ایک غریب کسان کا بیٹا تھا، لیکن ریلوے کی ملازمت نے اسے عزت اور روزگار عطا کیا تھا۔ اس کی وردی پر مٹی کے دھبے لگے تھے، کیونکہ وہ ٹرین کے پچھلے ڈبے کی جانچ کرتے ہوئے جنگل کی کیچڑ والی زمین پر پھسل گیا تھا۔ اس کی جیب میں ایک پرانی لالٹین تھی، جو اس دور کی واحد روشنی تھی۔ رام دیال کا دل بوجھل تھا۔ اس کی ماں گاؤں میں بیمار تھی، اور وہ اس سفر کو جلد ختم کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ یہ رات اس کی زندگی کی سب سے خوفناک رات بننے والی تھی۔

ٹرین کے اندر مختلف پس منظر کے مسافر بیٹھے تھے، ہر ایک اپنی کہانی لیے ہوئے۔ سریش کمار، ایک کلکتہ کا تاجر، اپنی دکان کے لیے مال لے کر جا رہا تھا۔ وہ باتونی اور چالاک تھا، لیکن اس کی باتیں اکثر دوسروں کو پریشان کرتی تھیں۔ اس کے پاس ایک بڑا صندوق تھا، جسے وہ ہر وقت اپنے قریب رکھتا، گویا اس میں کوئی راز چھپا ہو۔ لاجونتی، ایک جوان بیوہ، اپنے میکے سے کلکتہ اپنی بہن کے گھر جا رہی تھی۔ وہ خاموش تھی، لیکن اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا خوف جھلکتا تھا، جیسے وہ کوئی بھید چھپا رہی ہو۔ مولوی عبدالرحیم، ایک بزرگ عالم دین، اپنی دینی کتابوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ وہ اکثر دعائیں پڑھتے اور مسافروں کو جنگل کی "بھوتنی" کہانیوں سے ڈراتے رہتے تھے۔ پنڈت رگھوناتھ، ایک مقامی پنڈت، گاؤں میں ایک رسم ادا کرنے کے بعد واپس جا رہا تھا۔ اس کے پاس کچھ پرانے سنسکرت مخطوطات تھے، جن کے بارے میں وہ دعویٰ کرتا تھا کہ وہ "قدیم رازوں" سے بھرے ہیں۔ بیکٹو، ایک شرارتی لڑکا، اپنی دادی کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ وہ ٹرین کے ڈبوں میں ادھر اُدھر بھاگتا رہتا، جس سے رام دیال کو خاصی پریشانی ہوتی تھی۔

ٹرین کا ڈرائیور، بشن سنگھ، ایک تجربہ کار سکھ تھا، جو ریلوے سے پہلے فوج میں خدمات انجام دے چکا تھا۔ اس کا اسسٹنٹ، منوج، ایک جوان لڑکا تھا جو ہنسی مذاق میں مصروف رہتا تھا۔ بشن سنگھ اس رات کے سفر سے ناخوش تھا۔ اسے مقامی افواہوں کا علم تھا کہ اس جنگل میں رات کے وقت عجیب واقعات رونما ہوتے ہیں۔ وہ اپنی پگڑی کو درست کرتے ہوئے منوج سے کہہ رہا تھا، "یہ جنگل اچھا نہیں، منوج۔ رات کو یہاں سے گزرنا خطرناک ہے۔" منوج نے ہنستے ہوئے جواب دیا، "بشن جی، آپ بھی ان دیہاتیوں کی کہانیوں پر یقین کرتے ہیں؟ یہ بس کوئی بھالو یا چیتا ہوگا۔"

رات گہری ہوتی جا رہی تھی، اور اچانک ٹرین کی رفتار سست پڑ گئی۔ مسافر بے چین ہو رہے تھے۔ سریش کمار بلند آواز میں شکایت کر رہا تھا، "یہ بمبئی ایکسپریس کبھی وقت پر نہیں پہنچتی!" لاجونتی اپنی سیٹ پر خاموشی سے دعا مانگ رہی تھی، اس کی انگلیاں اس کے گلے میں پڑے تعویذ پر پھر رہی تھیں۔ مولوی عبدالرحیم نے اپنی تسبیح نکالی اور بلند آواز میں آیات پڑھنی شروع کیں، جس سے ڈبے کا ماحول مزید بھاری ہو گیا۔ بیکٹو اپنی دادی سے کہہ رہا تھا، "دادی، یہ مولوی اتنا کیوں ڈرا رہا ہے؟" لیکن اس کی دادی نے اسے چپ کرا دیا۔

رام دیال ڈرائیور کے ڈبے کی طرف بڑھا تاکہ سست رفتاری کی وجہ معلوم کرے۔ بشن سنگھ نے بتایا کہ ٹریک پر کوئی رکاوٹ ہے۔ شاید کوئی بڑا پتھر یا درخت کی شاخ۔ رام دیال نے اپنی لالٹین اٹھائی اور منوج کے ساتھ ٹریک کی جانچ کے لیے اترا۔ جنگل کی خاموشی غیر معمولی تھی۔ نہ پرندوں کی آواز، نہ جھینگر کی سرسراہٹ۔ صرف ہوا کی ایک عجیب سی سرگوشی تھی، جو درختوں کے پتوں سے ٹکراتی ہوئی کانوں میں گونج رہی تھی۔ رام دیال کے ہاتھ میں لالٹین ہلکی سی لرز رہی تھی۔ (مکمل کہانی کا لنک اوپن کرلیں شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/07/ek-khofnak-raat.html


عدالت میں میرے سامنے میری اکلوتی بیٹی کھڑی تھی۔ جائیداد کے لالچ میں جب اس نے بیان دیا کہ اس کے والد نے مرنے سے پہلے ماں ...
08/07/2025

عدالت میں میرے سامنے میری اکلوتی بیٹی کھڑی تھی۔ جائیداد کے لالچ میں جب اس نے بیان دیا کہ اس کے والد نے مرنے سے پہلے ماں کو طلاق دے دی تھی، تو میں حیران رہ گئی۔ طلاق کی وجہ پوچھنے پر اس کے الفاظ نے مجھے سکتے میں ڈال دیا: "میری ماں بدچلن تھی۔" جب میرے اوپر بدکرداری کا الزام لگا تو میں بھی ماں سے عورت بن کر رہ گئی اور بھول گئی کہ وہ میری بیٹی ہے۔
👇👇
رابیعہ دروازہ کھول کر اندر آ گئی، میں نے اسے ایک فاضل چابی دے رکھی ہے۔ اس لیے وہ جب چاہے میرے گھر میں داخل ہو سکتی ہے۔ میرے لیے چائے کا تھرماس لا کر اس نے میز پر رکھ دیا۔ میری خاموشی کو بغور میرے چہرے کی طرف دیکھ کرسمجھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے وہ میرے مقابل کرسی پر خاموشی سے بیٹھ گئی۔

آج میں نے اسے مسکرا کر سلام نہیں کیا تھا۔ شاید اس نے سلام کیا ہو اور میں نے جواب نہیں دیا تھا۔ پتا ہی نہیں چلا تھا، مجھے اس کی آواز نہیں سنائی دی تھی۔ میں تو فرزانہ کی کھلکھلا سن رہی تھی، اپنے پگھوڑے میں لیٹی مسکراتے ہوئے وہ مجھے اور سکندر کو دیکھتے ہوئے خوب ہنس رہی ہے۔ صرف چوبیس سال پہلے کا منظر تھا۔ آنکھوں میں روز حاضر کی طرح روشن اورعیاں ۔ اس کی پیدائش پر ہم نے کئی دن تک جشن منایا، پورے خاندان کے ہر فرد کے گھر پر مٹھائی کے ٹوکروں کے ساتھ قیمتی جوڑے بھجوائے گئے ۔ فیکٹری کے ملازمین کی تنخوا دگنی کر دی گئیں اور کئی جائدادیں فرزانہ کے نام منتقل ہو گئیں۔ یہ خوشی تو دنیاوی دولت لٹا کر ظاہر کی گئی مگر اپنے گھر پر اس کی موجودگی کا ایک ایک لمحہ ہمیں نئی مسرتوں سے آشنا کرتا رہا۔ جس دن وہ پہلی بار ٹیک لگا کر بیٹھنے کے قابل ہوئی، جب اس کا پہلا دانت نمایاں ہوا اور اس نے پہلا قدم اٹھایا۔

یہ تمام دن ہمارے نوکر ہم سے جھولیاں بھر بھر کے صدقات و خیرات سمیٹتے رہے۔ سکندر کا اور میرا تو دل ہی نہیں بھر رہا تھا، دل چاہتا تھا اپنا سب کچھ اس کی مسکراہٹ پر قربان کر دیں۔۔ اس کی زندگی کے کسی لمحے ہم نے کسی بھی قسم کی کوئی کمی یا پریشانی اس کے نزدیک نہیں آنے دی۔ شادی بھی بہت دھوم دھام سے کی- سوئی سے لے کر صندوق تک سب کچھ دیا، پورا بگلہ قیمتی فرنیچر سے آراستہ کر کے دولہا دلہن کو تحفتاً دیا جبکہ ان دونوں نے امریکہ میں جا کر رہنا تھا۔ ساحر، ہمارے داماد کی سکونت نیو یارک میں تھی اور نوکری بھی۔ یہ محبت کی شادی، ساحر کے مالی اعتبار سے کم تر ہونے کے باوجود ہم نے صرف فرزانہ کی محبت میں کروائی تھی۔

اپنے کالج فیلوز کے ساتھ چھٹیوں میں امریکہ ٹرپ کے دوران فرزانہ کی ساحر سے ملاقات ہوئی جو بعد ازاں محبت میں بدل گئی۔ سکندر اور میں. تھوڑی پس و پیش کے بعد فرزانہ کے اس فیصلے پر راضی ہو گئے اور پھر ہم نے وہی کیا جو ہمیشہ سے کرتے آئے تھے، کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ پر شاید نہیں کچھ کی رہ گئی تھی۔ تب ہی سکندر کی وفات کے ایک ہفتے بعد فرزانہ مجھ سے جائیداد کی ملکیت حاصل کرنے کے لیے کاغذات پر دستخط کروانے آگئی۔ شادی کے بعد چھ سال تک اس کا جب بھی پاکستان آنا ہوا وہ ایک ایک کر کے اپنے نام کی گئی ساری پراپرٹی کو بیچ کر رقم ساتھ لے جاتی رہی۔ عیش و عشرت میں رہنے کی عادت شادی کے بعد چھوٹ نہیں رہی تھی اور ساحر کی تنخواہ میں وہ ساری خواہشات پوری کرنا ممکن نہیں تھا۔

اسی لیے ہمارے لاکھ کہنے کے باوجود وہ روپیہ دونوں ہاتھوں سے لتاتی رہتی رہی تھی ۔ اپنے آخری دنوں میں سکندر بہت بیمار رہنے لگے، پھر انہیں کینسر تشخیص ہوا اور علاج چلنے لگا جو کہ ظاہر ہے بہت مہنگا تھا۔ بلڈ کینسر سے متاثرہ جسم اور چہرے پر توانائی لوٹ آئی تھی جب وہ فرزانہ سے فون پر بات کرتے۔

مجھے آج سوچنے پر یاد آ رہا ہے کہ فرزانہ نے ہمیشہ رقم کے مطالبے کے لیے فون کیا۔ کبھی صرف باپ کی طبیعت کے لیے یا میری خبر گیری کے لیے نہیں۔ پتا نہیں اولاد کی محبت آنکھوں کو اندھا اور کانوں کو بہرا کیوں کر دیتی ہے کہ ان کی حرص وہوس دیکھ نہیں پاتے ، ان کی آواز میں خود غرضی سنائی نہیں دیتی۔ مجھے تو اس وقت بھی یقین نہیں آیا تھا جب وہ میرے سامنے کھڑے ہو کر اپنا مطالبہ دہرا رہی تھی۔ سائن کریں جلدی امی کیا گھور رہی ہیں ؟ اس کا اصرار مجھے پہلی بار بد تمیزی محسوس ہوا لیکن میں نے ضبط کرتے ہوئے نہایت نرمی سے جواب دیا۔

تم یہاں پاکستان واپس آرہی ہو ؟ ہم ہاں ۔۔ شاید وہاں ساحر کی جاب کا کچھ پتا نہیں کب نکال دیں وہ لوگ۔ اس لیے واپس آنا پڑے گا ہمیں ” تو آجاؤ، گھر بھی موجود ہے اور ساحر فیکٹری سنبھال سکتا ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں۔” اس نے اپنی عجیب نظروں سے مجھے گھورا، جیسے کر رہی ہو آپ کے اعتراض کی پرواہ کسے ہے ؟ مگر یہ نہیں کیا اس نے جو کہا ، وہ جس کی باتوں سے زیادہ تکلیف دہ تھا۔ آپ بھول رہی ہیں، چاچا اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ فیکٹری پر نظر لگائے بیٹھے ہیں۔ کل کو آپ ڈ ید کی طرح اچانک مرئیں تو میں تو خالی ہاتھ رہ جاؤں گئی میں کئی سیکنڈزتک کچھ بول نہیں پائی۔

کیا کہتی ؟ جو کچھ فرزانہ کہ رہی تھی ، اس کا جواب میرے پاس تھا ہی نہیں ۔ ہاں سوال بہت سے تھے جن میں سرفہرست سوال پوچھنے کی ہمت نہیں ” کیا اسے مجھ سے زیادہ دولت سے پیار ہے؟” ہے نا گھسا پٹنا، جذباتی اور بے وقوفانہ سوال، بھلا اس قدر صاف مطالبوں کے جواب میں ایسی بائیں کی جاتی ہیں؟ ثابت کر دیا نا میں نے کہ میں ایک سمجھ دار بیٹی کی کم عقل ماں ہوں ۔ میں خاموش ہوگئی پر میں نے دستخط بھی نہیں کیے تھی -نہ فیکٹری اور نہ ہی اس گھر کے کاغذات فرزانہ کے حوالے کیے۔ میری خاموشی دن بدن اس کی بد تمیزی میں اضافہ کرنے لگی۔ پھر اس نے میرے خلاف کورٹ میں کیس دائر کر دیا۔

آپ حیران نہ ہوں، یا تھوڑا سا ہو جائیں ، پر میرے دکھ کا اندازہ آپ کو پھر بھی نہیں ہوسکتا۔ میرے مقابل میری اپنی بہنیں آکھڑی ہوئی تھی جسے مجھ سے جیتنا تھا مقدمہ بھی اور دولت بھی۔ میں خاموشی میں ہی سب کچھ ہار جاتی اگر فرزانہ کی دوست رابعہ میرے حق میں کھڑی نہ ہوتی۔ اس نے وکالت پاس کی تھی، اسی نے میری طرف سے وہ تمام دستاویزات عدالت میں جمع کر دئیں جن سے ثابت ہو رہا تھا کہ فرزانہ کو اس کا جائز حق بھی دیا جاچکا ہے اور اس سے کہیں زیادہ مالی تحائف بھی مل چکے ہیں۔ رابعہ کے دل میں اللہ نے ہی احساس ڈالا کہ وہ اپنی دوست کے بجائے میرا ساتھ دینے لگی۔ اس نے پہلے دن سے ہی فرزانہ کو سمجھانے اور روکنے کی پوری کوشش کی اور پھر اس کی طرف سے کیس لڑنے سے انکار کر دیا۔

مگر فرزانہ اپنی ضد کی تھی اس نے دوسرے وکیل سے رابطہ کر لیا تھا اور اب میری پیشی تھی۔ میں عدالت جا نا نہیں چاہتی تھی ۔ لوگوں کی عجیب نظروں کا سامنا کرنے کی ہمت بھی نہیں تھی مجھ میں اور نہ ہی اتنا حوصلہ کہ فرزانہ کے چہرے پر اپنے لیے نفرت کے جذبات دیکھ سکوں ہو میں نے انکار کر دیا۔ رابعہ نے کہا اس طرح کیسی طوالت اختیار کر جائے گا۔” میں الجھ پڑی کہ ” جب ہر بات صاف ظاہر ہو چکی ہے کہ ہم نے اس کا حق دے دیا ہے تو اب کسی بات کی پیچیدگی ہے؟

وہ ہچکچائی پھر گویا ہوئی ۔ فرزانہ نے ۔۔ وہ پھر رکی تو میں نے بات مکمل کرنی چاہی۔ اس نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ؟”۔ نفی میں سر ہلاتے ہوئے رابعہ اپنے لب کچلنے لگی – میں مزید الجھی – “تو پھر ؟ ایک گہری سانس لے کر رابعہ نے جیسے اپنے اندر ہمت جمع کی۔ وہ اس نے ایک اور دعوا کیا ہے۔” وہ کیا ؟ مجھے حیرت ہوئی۔ اس کا کہنا ہے کہ سکندر انکل آپ کو طلاق دے چکے تھے اس لیے جائیداد پر آپ کا کوئی حق نہیں بنا۔” میں لڑکھڑائی اور کرسی کا سہارا لے لیا۔ (مکمل کہانی کا لنک اوپن کرلیں شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2024/12/path.html


ابھی میں اس کے ہاتھوں پر پانی ڈال ہی رہی تھی کہ سلیمان اچانک گیٹ سے اندر داخل ہوئے۔ میں پتھر کی مورت بن گئی۔ سلیمان کی آ...
07/07/2025

ابھی میں اس کے ہاتھوں پر پانی ڈال ہی رہی تھی کہ سلیمان اچانک گیٹ سے اندر داخل ہوئے۔ میں پتھر کی مورت بن گئی۔ سلیمان کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ گٹھری کو لات مار کر باہر پھینکا، اور عبد الرحمن بغیر کچھ کہے وہاں سے چلا گیا۔سلیمان کے چہرے پر غصہ تھا، اور آنکھوں میں سوالات۔ کون لگتا ہے تمہارا یہ کپڑے والا؟
👇👇
ان دنوں میں ایک اخبار کے دفتر میں کام کرتی تھی جب مجھ کو نغمانہ ملی۔ وہ نہایت خوبصورت مگر بے حد خستہ حال تھی۔ میں تو اس کو پہچان ہی نہ پائی، جب اس نے اپنا تعارف کرایا تو میں چونک پڑی کہ یہ کیا حال ہو گیا ہے تمہارا؟ جب تمہاری سلیمان سے شادی ہوئی تھی تو تم تو بڑی خوش تھیں۔ کہنے لگی کہ ہاں، بہت خوش تھی کیونکہ ہماری محبت کی شادی تھی۔

وہ مجھے بہت چاہتے تھے اور ہر حال میں اپنی دلہن بنانا چاہتے تھے۔ رشتہ داری بھی تھی لیکن والد صاحب اس وجہ سے سلیمان کے رشتے پر نہ مان رہے تھے کہ وہ امیر نہ تھے، ان کی تنخواہ کم تھی۔ ابو سمجھتے تھے کہ سلیمان اتنی قلیل آمدنی میں ان کی بیٹی کو کیونکر خوش رکھ سکے گا، یہ اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور خواہشوں کے پورا ہونے کو ترستی رہ جائے گی۔ سلیمان کا ساتھ قسمت میں لکھا تھا، ان کے والدین نے بالآخر میرے ابو کو راضی کر لیا اور ہماری شادی ہو گئی۔ تم تو جانتی ہو کہ میں ان سے شادی کے بعد کتنی خوش تھی۔

غربت میں بھی سکون تھا۔ ہاں، کبھی کبھار یہ بات ضرور کھٹکتی تھی کہ سلیمان کے پاس نہ اپنا مکان ہے، نہ گاڑی اور نہ ہی دیگر آسائشیں، تو زندگی تمام عمر اسی طرح حسرت بھری ہی گزرے گی۔ پہلے پہل ایسے تفکرات آتے تھے، بعد میں اپنی قسمت پر شاکر ہو گئی کیونکہ انہیں مجھ سے بہت محبت تھی۔ اگر محبت مل جائے تو زندگی کی تکلیفیں کم تکلیف دہ محسوس ہوتی ہیں۔ میں نے تبھی خود کو سمجھا لیا کہ خواہشات کو انسان جس قدر بڑھاتا ہے، وہ اتنی ہی بڑھتی جاتی ہیں۔ انسان کو اس دنیا میں دو وقت کی روٹی مل جائے، محبت اور سکون بھی ہو تو یہی بہت کچھ ہے۔ شوہر کی زیادہ دولت بھی بیوی کی زندگی میں پریشانیاں ہی لاتی ہے۔

میں نے پوچھا اچھا، تو اب کیا ہوا ہے کہ تم مجھے یہاں کورٹ میں نظر آ رہی ہو؟ کہنے لگی کہ اپنے بیٹے کے لیے سرپرستی کا کیس ڈالا ہوا ہے۔ دراصل مجھے سلیمان نے طلاق دے دی ہے اور بیٹا اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ میں حیرت سے بولی یہ کیا کہہ رہی ہو، کیا قصور تھا تمہارا جو اس نے اتنی چاہت کے باوجود طلاق دے دی اور بیٹا بھی تم سے لے لیا؟ نغمانہ کہنے لگی کہ یہاں کورٹ میں کیا بتاؤں، کہیں دیکھیں گے تو بات کروں گی۔ میں نے کہا تو چلو میرے ساتھ، شاید میں تمہاری کچھ مدد کر سکوں۔ یوں میں اپنی پرانی ہم جماعت کو ساتھ لے آئی اور پھر اس نے اپنی روداد سنائی جو اس کی زبانی رقم کر رہی ہوں۔

شروع میں میں اپنے ساس سسر کے ساتھ رہتی تھی۔ جب سلیمان کا تبادلہ دوسرے شہر ہو گیا تو انہوں نے کرائے کا ایک چھوٹا سا مکان لے لیا اور مجھے اپنے ساتھ لے آئے۔ ان دنوں میرا بیٹا سال بھر کا تھا۔ سلیمان کام پر چلے جاتے اور میں محسن کی کلکاریوں میں گم ہو جاتی، اس لیے تنہائی کا احساس نہ ہوتا۔ نئے شہر آ کر یوں تو میں خوش تھی، مگر اب سلیمان کا ہاتھ مزید تنگ ہو گیا تھا۔ سسرال میں مکان کا کرایہ، بجلی کا بل بھی نہیں دینا پڑتا تھا اور کھانے پینے کا خرچہ سسر صاحب برداشت کر لیتے تھے، لیکن یہاں سارے اخراجات ہمیں خود ہی پورے کرنے پڑتے۔ سسر صاحب اگر چاہتے تو دو چار ماہ بعد ملنے آ کر کچھ مالی مدد کر دیتے، مگر ان کا بھی پنشن پر گزارہ تھا۔

ہمارے پڑوس میں کھاتے پیتے خوشحال لوگ رہتے تھے۔ جب میں عورتوں کو قیمتی لباس پہنے دیکھتی تو دل میں خواہش جاگتی کہ کاش میں بھی ایسا پہن سکوں، مگر صرف سوچ کر رہ جاتی کیونکہ جتنی چادر ہو، اتنے ہی پاؤں پھیلانے پڑتے ہیں۔ دو سال اس گھر میں گزر گئے، چار عیدیں آئیں مگر میں ایک بار بھی عید پر نیا جوڑا نہ بنوا سکی، جبکہ میری پڑوسن ہر ماہ نئے جوڑے میں نظر آتی۔ دل سے ایک آہ نکلتی، پھر صبر کی چادر اوڑھ کر خواہشوں کو اس کے سپرد کر دیتی۔ میری بدقسمتی کہ اس بار عید سے پندرہ روز قبل محلے میں کپڑا بیچنے والا آیا۔ حسبِ معمول محلے کی عورتیں اس کے گرد جمع ہو گئیں اور کپڑے خریدنے لگیں۔ میں نے آواز سنی تو بیٹے کو گود میں اٹھا کر پڑوس میں چلی گئی۔

کپڑے والا رابعہ کے گیٹ کے سامنے بیٹھا تھا، اس نے اپنی گٹھری گیٹ کے اندر رکھ کر کھول دی تھی۔ عورتیں بڑے شوق سے ملکی و غیر ملکی کپڑا دیکھ رہی تھیں۔ میں نے بھی دو جوڑے ہاتھ میں لے کر دیکھے، قیمت پوچھی، الٹ پلٹ کر دیکھتی رہی، پھر واپس رکھ دیے۔ جب عورتیں کپڑے خرید چکیں تو کسی نے کہا: نغمانہ، تم نے کچھ نہیں لیا؟ کچھ تو لو! میں نے حسرت سے کہا: ایک جوڑا لینا تھا، مگر پیسے نہیں بن رہے، کپڑے مہنگے ہیں۔

میری یہ بات شاید کپڑے والے کے دل کو لگ گئی۔ سب عورتیں رابعہ کے گھر سے نکل کر اپنے گھروں کو چلی گئیں، آخر میں میں بھی گھر آ گئی۔ میں نے دروازہ بند ہی کیا تھا کہ دستک ہوئی۔ میں نے جھانک کر دیکھا تو سامنے وہی کپڑا بیچنے والا تھا، ہاتھ میں وہی دو جوڑے تھامے جو میں نے پسند کیے تھے۔ اس نے کہا: یہ لے لو، رقم ادھار رکھ لو، میں اکثر یہاں آتا ہوں، اگلی بار دے دینا، اگر نہ آ سکا اور میرا بھائی آیا تو اس کو میرا نام بتا دینا۔ وہ یہ کہہ کر کپڑے تھما کر چلا گیا۔ میں آواز دینے کا ارادہ ہی کرتی رہی۔ میں ششدر رہ گئی کہ یہ کیسا بیوپاری ہے جو جان پہچان کے بغیر مجھ پر اعتبار کر کے کپڑے دے گیا۔ پھر سوچا شاید یہ اس کا کاروباری طریقہ ہے۔ کپڑے بے حد خوبصورت تھے، مگر ان کی قیمت میں ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتی تھی۔ ان دنوں سلیمان کی تنخواہ دو ہزار روپے تھی، جس میں سے آدھا کرایہ اور بلوں میں چلا جاتا، باقی بچوں کے اخراجات اور کھانے پینے پر۔

کئی دن میں نے وہ جوڑے چھپا کر رکھے، پھر سوچا کہ سلیمان کو بتا ہی دوں۔ مگر پھر ڈر گئی کہ ناراض نہ ہو جائیں۔ اسی کشمکش میں رابعہ آ گئی، جو خوشحال زندگی گزار رہی تھی۔ اس نے جب میری پریشانی دیکھی تو پوچھا، اور ساری بات سن کر بولی: ارے بھئی جب آئے گا تب دیکھا جائے گا، وہ برا آدمی نہیں، اکثر گھروں میں ادھار پر کپڑا دے جاتا ہے۔ فی الحال جوڑے سلواؤ، کیا تمہارا جی نہیں چاہتا کہ عید پر نئے کپڑے پہنو؟ میں نے کہا: جی تو بہت چاہتا ہے، مگر میرے پاس سلائی کے پیسے بھی نہیں۔ کہنے لگی: اس کی فکر مت کرو، کپڑے اور ناپ مجھے دے دو، میرے شوہر سے سلواؤں گی اور سلیمان بھائی سے کہہ دینا کہ یہ رابعہ نے عید کا تحفہ دیا ہے، انہیں معلوم ہے کہ میرے شوہر ٹیلر ہیں۔ یوں میری فکر کا فوری حل نکل آیا۔ جوڑے سلے سلائے ملے تو میں نے وہی کہا جو رابعہ نے سکھایا تھا۔

سلیمان نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ اب تم اپنی پڑوسن کا احسان کیسے اتارو گی؟ میں نے کہا: احسان کی کیا بات ہے، اس نے اپنی خوشی سے دیے ہیں، میں نے تو مانگے نہیں تھے۔ رابعہ کے پاس کس چیز کی کمی ہے؟ وہ بہت خوش اخلاق ہے، کیا ایک خوشحال سہیلی اپنی غریب سہیلی کو دو جوڑے بھی نہیں دے سکتی؟ سلیمان نے کہا: اچھا بھئی، تم عورتوں کی باتیں تم جانو، مجھے کھانا لا دو، آج اوور ٹائم کیا ہے، تھک گیا ہوں، محسن کے کپڑے بھی لینے ہیں، عید کے دن ہی کتنے رہ گئے ہیں۔ عید بخیریت گزر گئی، میں نئے کپڑے پہن کر سسرال گئی، والدہ تو وفات پا چکی تھیں، والد سے عید ملنے گئی، وہ بھی مجھے خوبصورت لباس میں دیکھ کر خوش ہو گئے۔ میں نے دل سے رابعہ کو دعا دی کہ جس کے حوصلہ دلانے سے یہ خوشی نصیب ہوئی۔

تین ماہ گزر گئے، تب ایک روز اچانک عبدالرحمن آ گیا۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا، میں نے گیٹ کھولا کہ اس سے معذرت کر کے پہلے قرض کے لیے مہلت لے لوں، مگر اس نے ایک بنڈل تھما دیا اور کہنے لگا، یہ رکھیے، میں پچھلی گلی سے ہو کر آتا ہوں، وہاں سے بھی پیسے لینے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ تیزی سے آگے نکل جاتا، میں نے بنڈل کے اوپر کا کاغذ ذرا سا پھاڑا اور کہا، ٹھہرو عبد الرحمن! پہلے میری بات سن لو۔ وہ رک گیا۔ بنڈل میں بہت خوبصورت اور قیمتی کپڑا تھا۔ میں نے پوچھا، یہ کس لیے؟ کہنے لگا، آپ کے لیے! دیکھیے گی تو پسند آ جائے گا۔ میں نے جھنجھلا کر کہا، یہ مجھے نہیں چاہیے، واپس لے جاؤ۔ میں نے ابھی تمہارا پہلا قرض بھی ادا نہیں کیا اور تم مزید کپڑے لے آئے ہو؟ کہنے لگا، آپ دیکھیے تو سہی، آپ کی پڑوسن نے بھی لیے ہیں۔ میں نے پھر کہا، ارے بھئی! پہلے پیسے تو دو! مگر وہ کہنے لگا، میں کب کہتا ہوں کہ پیسے دے دیں؟ جب ہوں گے تب دے دیجیے گا اور وہ چلتا بنا۔ اس بار بھی وہ اتنی عجلت میں تھا کہ مجھے اسے روکنے کا موقع نہ ملا، میں بس اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہ گئی۔ (مکمل کہانی کا لنک اوپن کرلیں شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/07/biwi-ki-saza.html

گاؤں کا چوہدری اپنی حویلی سے باہر اپنے ایک نوکر کیساتھ فصلوں کو دیکھنے نکلا تو راستے میں اک کسان کے گھر سے ایک خوبصورت ل...
07/07/2025

گاؤں کا چوہدری اپنی حویلی سے باہر اپنے ایک نوکر کیساتھ فصلوں کو دیکھنے نکلا تو راستے میں اک کسان کے گھر سے ایک خوبصورت لڑکی نکلی جو پانی بھرنے جا رہی تھی، اس کی جوانی اپنے جوبن پر تھی، چوہدری اس پر فدا ہو گیا۔ چوہدری کے اندر کا شیطان جاگ اٹھا اور اگلے دن اس کے گھر پہنچ گیا، لیکن لڑکی غسل خانے میں نہا رہی تھی، اچانک لڑکی چوہدری کو اپنے سامنے دیکھ کر گھبرا گئی اور اپنا جسم ڈ ھانپنے لگی ۔۔۔
👇👇
گاؤں کوٹھی والا کے چوہدری کی زمینیں میلوں تک پھیلی ہوئی تھیں اور سینکڑوں مزارع اور نوکر چاکر کام کیا کرتے تھے، چوہدری کی بیوی کو اس دنیا سے رخصت ہوئے چار سال بیت گئے تھے، ایک بیٹا تھا جو تعلیم حاصل کرنے شہر گیا ہوا تھا او ر ہفتے میں ایک ادھ چکر لگا لیتا تھا، چوہدری کی ایک بیٹی بھی تھی جس کی شادی ہو چکی تھی اور اپنے گھر ہنسی خوشی زندگی گزار رہی تھی۔چوہدری کی زندگی میں کوئی عورت نہ آ سکی اور تنہا زندگی گزارنے لگا، بس کبھی کبھار بیٹے سےملنے شہر جایا کرتا تھا اور زیادہ وقت حویلی میں ہی گزار دیتا۔

ایک دن چوہدری اپنے ایک نوکر کیساتھ فصلوں کو دیکھنے نکلا تو راستے میں کسانوں کے چھوٹے چھوٹے کچے گھر بنے ہوئے تھے۔اچانک چوہدری کی نظر ایک گھر کے دورازے پر پڑی جہاں سے ایک خوبصورت لڑکی نکل رہی تھی اس کے سر پر پانی والا گھڑا رکھا تھا، شاید پانی بھرنے جا رہی تھی، چوہدری کے نظر اس پر ٹک گئی، وہ اک بھر پور جوان لڑکی تھی جس میں جوانی کا خمار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ چوہدری کا جی چاہ رہا تھا کہ اسے دیکھتا رہے، لڑکی کافی قریب آ گئی تو چوہدری حیرت بھری نظروں سے دیکھنے لگا، کیونکہ اس کا لباس پرانا تھا لیکن اس کا دودھیا بدن کپڑوں سے جھلک رہا تھا، لڑکی نے چوہدری کو سلام کیا اور پاس سے گزر گئی۔

چوہدری نے فصلوں میں جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا اور ملازم کیساتھ واپس حویلی آ گیا، اس دوران تھوڑی دیر کے لیے بھی اس کا خیال لڑکی سے غافل نہ ہوا، آخر اس نے اپنے ملازم سے پوچھ ہی لیا کہ وہ لڑکی کون تھی؟ ملازم نے بتایا کہ جناب وہ لڑکی آپ کے مزارع جمال کی بیوی ہے اور کوئی بیس دن قبل اس کی شادی ہوئی ہے۔چوہدری نے ملازم کو واپس بھیج دیا اور اس لڑکی کے بارے میں سوچنے لگا۔بار بار اس حسین لڑکی کا سراپا اس کے سامنے آ رہا تھا، آخر چوہدری کا صبر جواب دے گیا اور وہ اس لڑکی کو حاصل کرنے کا منصوبہ سوچنے لگا۔

شام کوچوہدری نے جمال کو حویلی بلایا اور ساتھ والے گاؤں میں اپنے چھوٹے بھائی کے پاس آم اور دیسی گھی پہنچانا تھا، ساتھ میں چوہدری نے کچھ پیسے بھی بھجوانے تھے۔ چوہدری نے جمال سے کہاکہ تم ایک ایمان دار اور قابل بھروسہ ملازم ہو اس لیے میرا اک کام کرو، اور یہ چیزیں اور روپے ہمارے دوسر ے گاؤں دے کر آؤ اور واپسی پر میرے چھوٹے بھائی سے شہد لیتے آنا۔ یہ سب چوہدری کا اک منصوبہ تھا، اصل میں وہ جمال کو گھر سے دور بھیجنا چاہتا تھا تاکہ خود اس کے گھر جا کر اس کی بیوی کو حاصل کر سکے۔

جمال وہ چیزیں اور روپے لیکر واپس گھر آ گیا اور اپنے بیوی کو بتانے لگا کہ کل صبح اسے دوسرے گاؤں جانا ہے، اور یہ چیزیں اور روپے سنبھال کر رکھ دے۔اگلی صبح جمال نے ناشتہ کیا اور ضروری زادِ راہ ساتھ لے کر سفر پر روانہ ہوگیا۔ دوسری طرف چوہدری بہت بے صبری کیساتھ انتظار کر رہا تھا کہ جلدی سے وہ اس لڑکی کے پاس پہنچ جائے اور اسے حاصل کر لے، چودہری نے اپنا اچھا لباس زیب ِ تن کیا، اچھی خوشبو لگائی اور اپنا لال رومال ہاتھ میں تھام لیا، جسے وہ ہر وقت اپنے ساتھ رکھا کرتا تھا۔

چوہدری اکیلا ہی حویلی سے نکلا، ملازم نے ساتھ جانا چاہا لیکن اس نے منع کر دیا کہ میں کچھ دیر چہل قدمی کے بعد واپس آ جاؤں گا۔چوہدری جمال کے گھر پہنچا اور دروازے پر دستک دی، لیکن کوئی دروازے پر نہ آیا، چوہدری جانتا تھا کہ جمال تو گھر سے جا چکا ہو گا، اور اس کی نوجوان بیوی گھر پر ہی ہو گئی، اس نے دروازے پر ہلکا سے دباؤ ڈ ا لا تو دروازہ کھل گیا۔گھر میں کوئی بھی نہ تھا۔اچانک چوہدری کو غسل خانے میں پانی گرنے کی آواز آئی تو وہ سمجھ گیا کہ لڑکی نہا رہی ہے، وہ آگے بڑھا پھر اچانک کچھ سوچ کر رک گیا کہ کہیں وہ لڑکی ناراض ہی نا ہو جائے، چوہدری اس کا انتظار کرنےلگا۔

لڑکی نہا کر باہر نکلی تو اس کے بال کھلے ہوئے تھے اور باریک لباس سے نسوانی حسن کی اک ہی جھلک نے چوہردی کو پاگل کر دیا۔ لڑکی نے اچانک اپنے سامنے چوہدری کو دیکھا تو گھبرا گئی اور فوراً دوسرے کمرے میں چلی گئی، لباس درست کیا اور چادر لپیٹ کر واپس آئی، چوہدری کو سلام کیا اور کہا: چوہدری صاحب آج آپ ہمارے غریب خانے پر کیسے تشریف لائے، ہمارا گھر اور آپ کو بیٹھانے کے لیے کوئی شایان شان چیز بھی نہیں ہے۔

چوہدری مسکرایا اور اک پرانی سی چار پائی پر بیٹھ گیا، لڑکی چوہدری کے لیے لسیّ لے آئی، چوہدری نے لسی کا گلاس نوش گیا اور بولا: تمہیں تو معلوم ہو گا کہ جمال ہمارا مزارع ہے اور میں اس کا مالک ہوں، اس گاؤں کا چوہدری ہوں۔ لڑکی بولی : جی ہاں چوہدری صاحب مجھے سب معلوم ہے، لیکن ابھی تک آپ نے اپنی آمد کی وجہ نہیں بتائی۔ چوہدری کی حوس بھری نگاہیں اس لڑکی کو کھٹک رہی تھیں۔ (مکمل کہانی کا لنک اوپن کرلیں شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2024/11/sh*tani-chaal.html


سپر ہٹ کہانی: بد قسمت بہوماں بیوی کی اس جنگ میں منظور کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور ایک دن اس نے لاتوں اور گھونسوں س...
07/07/2025

سپر ہٹ کہانی: بد قسمت بہو
ماں بیوی کی اس جنگ میں منظور کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور ایک دن اس نے لاتوں اور گھونسوں سے روزی کی اچھی طرح مرمت کر دی۔ روزی کے لئے یہ تجربہ بالکل نیا تھا۔ منظور برابھلا تو کہتا تھا، مگر اس طرح مارتا نہیں تھا۔ پہلے تو روزی نے جی بھر کر ساس کو گالیاں دیں اور پھر میاں کو گھر چھوڑنے کی دھمکی دی۔ جب اس کی دھمکی کو منظور نے کوئی اہمیت نہ دی تو جوش میں روزی نے چاروں بچوں کو ساتھ لیا اور بس میں بیٹھ کر لاہور پہنچ گئی۔ (مکمل کہانی کا لنک اوپن کر لیں)

https://sublimegate.blogspot.com/2024/10/baho-ka-anjam.html
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔

بیس سال بیت گئے میرے بھائی ارباز خان اور شریں کی خوشگوار ازدواجی زندگی قیامت خیز بربادی میں بدل گئی۔ خرم خان کی اس بات ن...
06/07/2025

بیس سال بیت گئے میرے بھائی ارباز خان اور شریں کی خوشگوار ازدواجی زندگی قیامت خیز بربادی میں بدل گئی۔ خرم خان کی اس بات نے میرے بھائی کی دنیا میں آگ لگا دی کہ عورت اپنی پہلی محبت نہیں بھولتی۔ کسی زمانے میں وہ بھی میری بھابھی کو چاہتا تھا۔ میرے بھائی نے انتقام لینے کے لیے اپنی ہی بیوی کو آگ میں پھینک دیا۔
👇👇
اربازخان میرا جیالا بھائی تھا، کڑیل جوان اور بہادر تھا۔ میں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کبھی وہ ایسی بزدلانہ حرکت کر گزرے گا۔ اربازخان کو اپنی بیوی شیریں سے بہت محبت تھی، ایسی فریفتگی کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ سچ تو یہ ہے کہ شیریں کے دنیا سے جانے کے بعد میرا شیر دل بھائی بھی جیتے جی ہی مر گیا۔ شیریں کے بعد اس کی زندگی ویران ہو گئی، وہ جیسے اپنے حواس کھو بیٹھا ہو۔ ہر وقت اس کے لبوں پر ایک ہی فقرہ رہتا تھا، زندگی سزا ہو گئی، آدمی کی زندگی سزا ہو گئی۔ جب بھی میں اپنے بھائی کے لبوں سے یہ فقرہ سنتی تو حیرت میں ڈوب جاتی کہ آخر اس بات کا کیا مطلب ہے کہ زندگی سزا ہو گئی۔

اس فقرے کے پیچھے کوئی اندوہناک کہانی معلوم ہوتی تھی، اور واقعی ایک دن مجھ پر یہ راز کھل گیا کہ شیریں کو دشمنوں نے نہیں مارا تھا بلکہ خود اس پر فریفتہ رہنے والے اس کے محبوب شوہر نے اپنے ہاتھوں موت کے حوالے کیا تھا۔ تبھی اس کے لیے زندگی سزا ہو گئی تھی۔ بات یہ تھی کہ شیریں ساتھ تھی تو ایک دنیا ساتھ تھی، وہ نہ رہی تو کچھ بھی نہ رہا۔ دل میں امنگ نہیں رہی، نہ پھولوں میں رنگ، خواب نہیں رہے، نہ خیال۔ اربازخان کے لیے اس بن سکھ چین حرام اور جینا دشوار ہو گیا۔ ہر سانس ایک فرد جرم، ہر سوچ ایک سولی، ہر تعلق ایک واہمہ، ہر رشتہ ایک فریب۔ یقین بچھڑ گئے، جذبے سو گئے، آرزوؤں کو موت آگئی۔

اربازخان پھانسی سے تو بچ گیا مگر زندگی خود اس کے لیے سزا ہو گئی۔ یہ کیسے ہوا؟ یہ میں آپ کو بتاتی ہوں۔ مرنے سے قبل اربازبھائی نے مجھے بتایا تھا کہ اگر میں جانتا کہ شیریں بن زندہ ربنا محال ہو گا تو خود بھی اس آگ کی لپٹوں میں جل کر بھسم ہو جاتا، جس نے اسے ایک بار ہی آگ میں جلا دیا تھا، مگر مجھے ہزار بار جلا کر بھی سرد نہ کیا جا سکا۔آج میرے دل و دماغ میں، جسم و جان میں، رگ رگ میں، نس نس میں یہ آگ دوزخ بن کر جل رہی ہے۔

صرف اس لیے کہ مجھے شیریں سے محبت تھی اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے پھر میں نے ایک دوسری آگ سلگائی۔ اس میں اپنی محبت ، گھر بار ، خوشیاں سبھی کچھ جھونک دیا، اپنا آشیانہ جلایا، گھر پھونک تماشہ دیکھا۔شیریں میری زندگی تھی، وہ سوتے جاگتے ہر دم میری نظروں میں سمائی رہتی تھی۔ میں گھر سے باہر جاتا تو اس کا مہکتا ہوا تنفس میرے ساتھ ساتھ چلتا۔ گھر آتا تو اس کا وجود میرے وجود کا حصہ بن جاتا۔ میں اس کے بغیر نامکمل اور وہ میرے بغیر ادھوری تھی۔ میں اس کا دیوانہ تھا کہ بانکپن اس پر پھولوں کی طرح برستا تھا۔ خوبصورتی اس پر ختم تھی، دلکشی کے سب زاویئے اس پر تمام تھے۔ وہ زمین کا چاند تھی اور آسمان کی حور تھی۔

سب کہا کرتے تھے کہ اربازخان بلند بخت ہے اور شیریں خانم صاحب نصیب … کہ میں اس کو ملا تھا اور وہ میرے حصے میں آئی تھی۔ اتنا کہہ کر بھائی کی سانس اکھڑ نے لگی وہ چپ ہو گئے اور میں مبہوت بیٹھی رہ گئی۔ حالانکہ شادی سے پہلے وہ خرم خان سے محبت کرتی تھی۔ لیکن میں جانتی تھی کہ بھائی نے اپنی تمام تر کوششیں صرف کر کے اس کا رشتہ حاصل کر لیا تھا۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی میری بھائی بن گئی۔ تب اس کو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی تمام تر محبت خان کی جھولی میں ڈالنی پڑی۔ اس نے اقرار کر لیا کہ دراصل میرا بھائی ہی اس کی محبت کے لائق تھا خرم ہر گز نہ تھا۔وہ حیا کی تصویر اور وفا کی پتلی تھی۔ (مکمل کہانی کے لیے اردو بلاگ کا لنک اوپن کر لیں)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/06/hasad-sohar.html

۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔

سلمیٰ کی شادی اس سے بیس سال بڑے زمیندار سے کر دی گئی۔ لیکن معاملہ الٹ گیا اور خاندان میں جائیداد کا تنازع چل نکلا ۔ ایک ...
06/07/2025

سلمیٰ کی شادی اس سے بیس سال بڑے زمیندار سے کر دی گئی۔ لیکن معاملہ الٹ گیا اور خاندان میں جائیداد کا تنازع چل نکلا ۔ ایک رات سلمیٰ کو دیورانی نے جگایا اور کہا کہ اب تو یہاں کس لیے رو رہی ہے؟ بچی میرے سپرد کر اور اس گھر سے چلی جا۔ وہ آج رات تیرے قتل کا ارادہ باندھ چکے ہیں۔ بچی تو یوں بھی تیرے بن رہ جائے گی۔ وعدہ کرتی ہوں کہ ماں بن کر اس کی دیکھ بھال کروں گی۔ اس نے سلمیٰ کو کھیتوں میں چھپانے کا انتظام کر دیا۔ سردی میں رات بھر زندگی بچانے کے لیے وہ کھیتوں میں چھپی رہی۔ دور سے آتی کتوں کی خوفناک آوازیں اور خوف بھرا اندھیرا تھا، اور وہ دیورانی کے ڈرانے پر زندگی بچانے کو سردی میں ٹھٹھر رہی تھی کہ اس سے کچھ فاصلے پر آتی قدموں کی چاپ سنی۔ لگتا تھا موت بھوکے گدھ کی طرح دبے قدموں اس کو کھوجتی پھر رہی ہے۔ یہ موت کی آہٹ نہیں تھی، بلکہ اس کے بھائی اور دیور تھے، جو اسے کھیتوں میں ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ (مکمل کہانی اردو بلاگ پر ہے۔ پلیز اوپن لنک)

https://sublimegate.blogspot.com/2024/11/dosri-biwi-ka-intiqam.html

۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔

دو سال سے ویران پڑے گھر میں میاں بیوی آکر آباد ہوئے ۔ انکی کوئی اولاد نہ تھی۔ ہم سے ان کے اچھے مراسم ہوئے تو میری بیٹی ن...
06/07/2025

دو سال سے ویران پڑے گھر میں میاں بیوی آکر آباد ہوئے ۔ انکی کوئی اولاد نہ تھی۔ ہم سے ان کے اچھے مراسم ہوئے تو میری بیٹی نے ان کے گھر آنا جانا شروع کر دیا۔ ہمسائی بھی میری بیٹی کو بہت پیار کرتی۔ اس کا حد سے زیادہ لگاؤ اس قدر خطرناک ہو گیا کہ ہمسائی کا میری بیٹی کے بنا اک پل بھی گزارا نہ ہوتا ۔ اک دن جب کافی دیر تک میری بیٹی گھر نہ آئی تو دل پریشان سا ہو گیا ۔ معلوم کیا تو پتہ چلا کہ ہمسائی تو گھر چھوڑ کر چلی گئی ہے۔ میرے پیروں تلے زمین ہی نکل گئی (مکمل کہانی کا لنک پہلے کمنٹ میں)
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔

دنیا کی بہترین فوٹو پر بہترین بات #فوٹوگرافی
05/07/2025

دنیا کی بہترین فوٹو پر بہترین بات
#فوٹوگرافی

میرا جنگل کے ایک کونے میں ایک چھوٹی سی غار میں پناہ لیے ہوئے تھی۔ اس کا جسم زخموں سے چور تھا، اور اس کا دل گوپال کی موت ...
05/07/2025

میرا جنگل کے ایک کونے میں ایک چھوٹی سی غار میں پناہ لیے ہوئے تھی۔ اس کا جسم زخموں سے چور تھا، اور اس کا دل گوپال کی موت کے صدمے سے ٹوٹ چکا تھا۔ وہ اپنے پیٹ کو تھامے بیٹھی تھی، جہاں اس کا ہونے والا بچہ اب بھی اس کی واحد امید تھا۔ اس رات، جب وہ جنگل کی وہی ہولناک آواز سنی۔
👇👇
رتن سنگھ ایک ظالم زمیندار تھا، جس کی ہوسِ دولت اور اقتدار نے اسے اندھا کر دیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ہر وہ چیز جو اس کے عیش و آرام میں رکاوٹ بنتی، ایک دشمن نظر آتی تھی۔ محل کے قریب، ایک چھوٹی سی بستی میں غریب چرواہے اپنی بکریوں اور چند جھونپڑیوں کے سہارے زندگی گزارتے تھے۔ یہ بستی رتن سنگھ کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی۔ "یہ گندے چرواہے میرے محل کے حسن کو داغدار کر رہے ہیں!" اس نے ایک دن اپنے دربار میں غرور سے کہا، اس کی آواز میں نفرت کی آگ بھڑک رہی تھی۔ اس کے درباری، جو اس کے ظلم کے عادی ہو چکے تھے، خاموشی سے سر جھکائے سنتے رہے۔

ایک صبح، جب سورج ابھی افق پر مکمل طور پر نمودار بھی نہ ہوا تھا، رتن سنگھ کے سپاہیوں نے بستی پر حملہ کر دیا۔ مشعلیں لے کر انہوں نے جھونپڑیوں کو آگ لگائی، بکریوں کو ذبح کیا، اور جو کوئی بھاگنے کی کوشش کرتا، اسے تلواروں سے کاٹ دیا۔ دھوئیں کے گہرے بادل آسمان کو ڈھانپ رہے تھے، اور چیخوں کی آوازیں ہوا کو چیر رہی تھیں۔ بستی کے لوگ، جو کل تک اپنی سادہ زندگی میں خوش تھے، اب موت کے سائے تلے دب رہے تھے۔ عورتیں اپنے بچوں کو سینے سے لگائے بھاگ رہی تھیں، بوڑھے اپنی لاٹھیوں کے سہارے بھاگنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے، اور جوان اپنی عزت اور جان بچانے کی جنگ لڑ رہے تھے۔

اس افراتفری میں، ایک چرواہا، گوپال، اپنی بیوی میرا کے ساتھ بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ گوپال ایک سادہ دل آدمی تھا، جس کی پوری دنیا اس کی بکریوں، اس کے چھوٹے سے جھونپڑی اور میرا کی محبت تک محدود تھی۔ میرا، جو سات ماہ کی حاملہ تھی، اپنے پیٹ کو تھامے مشکل سے قدم اٹھا رہی تھی۔ گوپال نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا اور کہا، "ہمت رکھ، میرا۔ ہم اس جنگل میں پناہ لے لیں گے۔ یہ سپاہی ہمیں وہاں نہیں ڈھونڈ سکیں گے۔"

جنگل کی طرف بھاگتے ہوئے، انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بستی شعلوں میں گھری ہوئی تھی۔ دھواں آسمان کو چھو رہا تھا، اور چیخوں کی آوازیں اب بھی کانوں میں گونج رہی تھیں۔ میرا کی آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ غصہ بھی تھا۔ "یہ ظالم رتن سنگھ!" وہ بڑبڑائی، " بھگوان اسے نہیں چھوڑے گا۔"

لیکن رتن سنگھ کے سپاہیوں نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ ان کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز جنگل میں گونج رہی تھی۔ گوپال اور میرا گھنے درختوں کے درمیان چھپتے ہوئے بھاگ رہے تھے، لیکن رات کا اندھیرا اور جنگل کی گھنی تاریکی بھی انہیں مکمل طور پر نہ بچا سکی۔ ایک جگہ، جہاں چاند کی روشنی زمین پر بمشکل پڑ رہی تھی، سپاہیوں نے انہیں گھیر لیا۔

گوپال نے میرا کو اپنے پیچھے کیا اور ایک لاٹھی اٹھا لی، جو اسے زمین پر پڑی ملی تھی۔ "میرا، تم بھاگ جاؤ!" اس نے چیخ کر کہا۔ لیکن میرا اپنی جگہ سے ہلی نہیں۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ کھڑی رہی، اس کی آنکھوں میں خوف کے ساتھ عزم بھی تھا۔
ایک سپاہی نے اپنی تلوار نکالی اور گوپال پر وار کیا۔ گوپال نے لاٹھی سے اسے روکنے کی کوشش کی، لیکن وہ ایک تربیت یافتہ سپاہی کے سامنے کچھ نہ تھا۔ تلوار نے اس کے سینے کو چیر دیا، اور وہ خون آلود زمین پر گر پڑا۔ میرا کی چیخ جنگل کی خاموشی کو توڑ گئی۔ وہ گوپال کے پاس گھٹنوں کے بل گر پڑی، اس کے خون آلود چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر روتی رہی۔

سپاہیوں نے میرا کو بھی مارنے کی طرف قدم بڑھایا، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتے، میرا نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور ایک ایسی بددعا دی کہ جنگل کی ہوا ٹھنڈی ہو گئی۔ اس کی آواز میں غم، غصہ، اور ایک عجیب سی طاقت تھی:
"اے بھگوان! میرا شوہر درندہ بن کر تیری نسل کو چاٹ جائے گا، رتن سنگھ! تو اور تیری اولاد کبھی سکون نہ پائیں گے! یہ جنگل تیری تباہی کا گواہ بنے گا!"
اس کی بددعا کے الفاظ درختوں کے درمیان گونجتے رہے، جیسے کوئی نامعلوم طاقت انہیں سن رہی ہو۔ سپاہی، جو میرا کو مارنے والے تھے، اچانک رک گئے۔ ان کے چہروں پر خوف کی لکیر نمایاں ہو گئی۔ ایک سپاہی نے دوسرے سے کہا، "یہ عورت کوئی جادوگرنی ہے۔ اسے چھوڑ دو، ورنہ ہم سب تباہ ہو جائیں گے۔" وہ میرا کو وہیں چھوڑ کر اپنے گھوڑوں پر سوار ہوئے اور بھاگ گئے۔

اس رات، جب چاند خون جیسا سرخ تھا، جنگل سے ایک عجیب آواز بلند ہوئی۔ یہ آواز بھیڑیے کی سی تھی، لیکن اس میں انسانی چیخ کی ایک ہولناک آمیزش تھی۔ یہ ایسی آواز تھی کہ سننے والوں کے دل دہل جائیں۔ رتن سنگھ کے محل میں، جہاں عیش و آرام کی محفلیں سجی تھیں، یہ آواز دیواروں سے ٹکرائی۔ رتن سنگھ، جو اپنے سنہری تخت پر بیٹھا شراب پی رہا تھا، ایک دم ساکت ہو گیا۔ اس نے اپنے درباریوں سے پوچھا، "یہ کیا آواز تھی؟" لیکن کسی کے پاس جواب نہ تھا۔

رتن سنگھ کا محل دن کے وقت سونے اور چاندی سے جگمگاتا تھا، لیکن رات کو یہ ایک عجیب سی تاریکی میں ڈوب جاتا تھا۔ مشعلوں کی روشنی کمزور پڑتی جاتی، جیسے کوئی ان سے روشنی چھین رہا ہو۔ رتن سنگھ کے خوابوں میں اب عجیب و غریب مناظر آنے لگے تھے۔ وہ خواب دیکھتا کہ ایک بھیڑیا اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے، لیکن اس کی آنکھیں انسانی تھیں۔ گوپال کی آنکھیں۔ وہ راتوں کو نیند سے چونک کر اٹھتا، اس کا جسم پسینے سے شرابور ہوتا۔

اس نے اپنے درباریوں سے کہا، "یہ سب بکواس ہے! کوئی بھیڑیا یا بددعا مجھے نہیں ڈرا سکتی!" لیکن اس کی آواز میں وہ دھمک نہیں تھی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ اس نے اپنے سب سے وفادار سپاہی، سردار رام، کو جنگل میں بھیجنے کا حکم دیا کہ وہ اس آواز کی حقیقت معلوم کرے۔

سردار رام ایک تنومند اور بہادر سپاہی تھا، جس نے کئی جنگوں میں رتن سنگھ کی فتح کے جھنڈے گاڑے تھے۔ وہ اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ جنگل کی طرف روانہ ہوا۔ ان کے ہاتھوں میں تلواریں اور مشعلیں تھیں، اور ان کے چہروں پر ایک عجیب سی بے چینی تھی۔ جنگل میں داخل ہوتے ہی انہیں ایک عجیب سی خاموشی نے گھیر لیا۔ پرندوں کی آوازیں غائب ہو چکی تھیں، اور ہوا میں ایک عجیب سی بدبو تھی — جیسے خون اور موت کی بو۔

سردار رام نے اپنے ساتھیوں کو چوکنا رہنے کا اشارہ کیا۔ "یہ کوئی عام جانور نہیں ہو سکتا،" اس نے کہا۔ "ہم سب کو مل کر اسے ڈھونڈنا ہوگا۔" لیکن اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھتے، وہی ہولناک آواز دوبارہ گونجی۔ اس بار یہ زیادہ قریب تھی۔ مشعلوں کی روشنی میں، انہوں نے ایک سائے کو تیزی سے حرکت کرتے دیکھا۔ یہ کوئی عام جانور نہیں تھا۔ اس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ وہ اسے دیکھ بھی نہ سکے۔
اچانک، ایک سپاہی کی چیخ جنگل میں گونجی۔ جب مشعل کی روشنی اس پر پڑی، تو وہ زمین پر پڑا تھا، اس کا گلہ چیرا ہوا تھا۔ خون اس کے جسم سے ندی کی طرح بہہ رہا تھا۔ سردار رام نے اپنی تلوار نکالی اور چیخا، "کون ہے وہ؟ سامنے آؤ!" لیکن جواب میں صرف وہی خوفناک آواز آئی، جو اب اور قریب تھی۔

سپاہیوں کے دلوں میں خوف نے گھر کر لیا۔ ایک سپاہی نے بڑبڑاتے ہوئے کہا، "یہ کوئی جانور نہیں، یہ کوئی بھوت ہے!" سردار رام نے انہیں حوصلہ دینے کی کوشش کی، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا، ایک اور سپاہی پر حملہ ہوا۔ اس بار سائے نے اسے زمین پر گرایا اور اس کا جسم چیر دیا۔ باقی سپاہی بھاگنے لگے، لیکن سردار رام اپنی جگہ پر کھڑا رہا۔ اس نے اپنی تلوار بلند کی اور چیخا، "جو بھی ہے، میں تجھے مار دوں گا!"

لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتا، سائے نے اس پر حملہ کیا۔ سردار رام نے اپنی تلوار سے وار کیا، لیکن اس کا وار ہوا میں خالی گیا۔ سائے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ وہ اسے دیکھ بھی نہ سکا۔ اچانک، اسے اپنے بازو پر ایک گہرا زخم محسوس ہوا۔ وہ زمین پر گر پڑا، لیکن اس سے پہلے کہ سائے اسے ختم کرتا، ایک عجیب سی روشنی جنگل میں پھیلی۔ یہ روشنی اتنی تیز تھی کہ سائے نے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔ سردار رام نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا اور بھاگ کر محل کی طرف لوٹ گیا۔ (مکمل کہانی کا لنک اوپن کر لیں شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/07/daranda-1.html
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔


Writer 👇
Sheraz Ahmed Khan

Address

Chishtian Mandi

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Sublimegate Urdu Stories posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share