
08/07/2025
بنگال کے گھنے جنگلوں اور دلدلی زمینوں کے درمیان سے گزرتی ایک ٹرین، "بمبئی ایکسپریس"، اپنی منزل کلکتہ کی طرف رواں دواں تھی۔ یہ برطانوی راج کے ابتدائی ریلوے نظام کا حصہ تھی، جو دیہاتوں اور شہروں کو آپس میں جوڑتی تھی۔ لیکن اس رات کا سفر ایک خوفناک خواب بننے والا تھا۔ آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے، اور چاند کی مدھم روشنی جنگل کے گھنے درختوں کے درمیان سے چھن کر زمین پر پڑ رہی تھی، گویا کوئی راز افشا کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔ مقامی لوگ اس جنگل کو ملعون سمجھتے تھے۔ کہانیاں مشہور تھیں کہ رات کے وقت یہاں عجیب و غریب مخلوقات گھومتی ہیں۔ کچھ انہیں "بھوتنی" کہتے، کچھ "راکشس"، اور کچھ "نرہ پشاچ"۔ ایک ایسی مخلوق جو دن میں انسان کا روپ دھارتی تھی، لیکن رات کو خون کی پیاسی ہو جاتی تھی۔
ٹرین کے اندر بیٹھے مسافر ان کہانیوں سے بے خبر تھے، لیکن یہ بے خبری زیادہ دیر نہ رہنے والی تھی۔ ٹرین کا گارڈ، رام دیال، ایک تیس سالہ مضبوط جوان تھا، جو اپنی ذمہ داریوں کو جان سے زیادہ عزیز رکھتا تھا۔ وہ ایک غریب کسان کا بیٹا تھا، لیکن ریلوے کی ملازمت نے اسے عزت اور روزگار عطا کیا تھا۔ اس کی وردی پر مٹی کے دھبے لگے تھے، کیونکہ وہ ٹرین کے پچھلے ڈبے کی جانچ کرتے ہوئے جنگل کی کیچڑ والی زمین پر پھسل گیا تھا۔ اس کی جیب میں ایک پرانی لالٹین تھی، جو اس دور کی واحد روشنی تھی۔ رام دیال کا دل بوجھل تھا۔ اس کی ماں گاؤں میں بیمار تھی، اور وہ اس سفر کو جلد ختم کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ یہ رات اس کی زندگی کی سب سے خوفناک رات بننے والی تھی۔
ٹرین کے اندر مختلف پس منظر کے مسافر بیٹھے تھے، ہر ایک اپنی کہانی لیے ہوئے۔ سریش کمار، ایک کلکتہ کا تاجر، اپنی دکان کے لیے مال لے کر جا رہا تھا۔ وہ باتونی اور چالاک تھا، لیکن اس کی باتیں اکثر دوسروں کو پریشان کرتی تھیں۔ اس کے پاس ایک بڑا صندوق تھا، جسے وہ ہر وقت اپنے قریب رکھتا، گویا اس میں کوئی راز چھپا ہو۔ لاجونتی، ایک جوان بیوہ، اپنے میکے سے کلکتہ اپنی بہن کے گھر جا رہی تھی۔ وہ خاموش تھی، لیکن اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا خوف جھلکتا تھا، جیسے وہ کوئی بھید چھپا رہی ہو۔ مولوی عبدالرحیم، ایک بزرگ عالم دین، اپنی دینی کتابوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ وہ اکثر دعائیں پڑھتے اور مسافروں کو جنگل کی "بھوتنی" کہانیوں سے ڈراتے رہتے تھے۔ پنڈت رگھوناتھ، ایک مقامی پنڈت، گاؤں میں ایک رسم ادا کرنے کے بعد واپس جا رہا تھا۔ اس کے پاس کچھ پرانے سنسکرت مخطوطات تھے، جن کے بارے میں وہ دعویٰ کرتا تھا کہ وہ "قدیم رازوں" سے بھرے ہیں۔ بیکٹو، ایک شرارتی لڑکا، اپنی دادی کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ وہ ٹرین کے ڈبوں میں ادھر اُدھر بھاگتا رہتا، جس سے رام دیال کو خاصی پریشانی ہوتی تھی۔
ٹرین کا ڈرائیور، بشن سنگھ، ایک تجربہ کار سکھ تھا، جو ریلوے سے پہلے فوج میں خدمات انجام دے چکا تھا۔ اس کا اسسٹنٹ، منوج، ایک جوان لڑکا تھا جو ہنسی مذاق میں مصروف رہتا تھا۔ بشن سنگھ اس رات کے سفر سے ناخوش تھا۔ اسے مقامی افواہوں کا علم تھا کہ اس جنگل میں رات کے وقت عجیب واقعات رونما ہوتے ہیں۔ وہ اپنی پگڑی کو درست کرتے ہوئے منوج سے کہہ رہا تھا، "یہ جنگل اچھا نہیں، منوج۔ رات کو یہاں سے گزرنا خطرناک ہے۔" منوج نے ہنستے ہوئے جواب دیا، "بشن جی، آپ بھی ان دیہاتیوں کی کہانیوں پر یقین کرتے ہیں؟ یہ بس کوئی بھالو یا چیتا ہوگا۔"
رات گہری ہوتی جا رہی تھی، اور اچانک ٹرین کی رفتار سست پڑ گئی۔ مسافر بے چین ہو رہے تھے۔ سریش کمار بلند آواز میں شکایت کر رہا تھا، "یہ بمبئی ایکسپریس کبھی وقت پر نہیں پہنچتی!" لاجونتی اپنی سیٹ پر خاموشی سے دعا مانگ رہی تھی، اس کی انگلیاں اس کے گلے میں پڑے تعویذ پر پھر رہی تھیں۔ مولوی عبدالرحیم نے اپنی تسبیح نکالی اور بلند آواز میں آیات پڑھنی شروع کیں، جس سے ڈبے کا ماحول مزید بھاری ہو گیا۔ بیکٹو اپنی دادی سے کہہ رہا تھا، "دادی، یہ مولوی اتنا کیوں ڈرا رہا ہے؟" لیکن اس کی دادی نے اسے چپ کرا دیا۔
رام دیال ڈرائیور کے ڈبے کی طرف بڑھا تاکہ سست رفتاری کی وجہ معلوم کرے۔ بشن سنگھ نے بتایا کہ ٹریک پر کوئی رکاوٹ ہے۔ شاید کوئی بڑا پتھر یا درخت کی شاخ۔ رام دیال نے اپنی لالٹین اٹھائی اور منوج کے ساتھ ٹریک کی جانچ کے لیے اترا۔ جنگل کی خاموشی غیر معمولی تھی۔ نہ پرندوں کی آواز، نہ جھینگر کی سرسراہٹ۔ صرف ہوا کی ایک عجیب سی سرگوشی تھی، جو درختوں کے پتوں سے ٹکراتی ہوئی کانوں میں گونج رہی تھی۔ رام دیال کے ہاتھ میں لالٹین ہلکی سی لرز رہی تھی۔ (مکمل کہانی کا لنک اوپن کرلیں شکریہ)
https://sublimegate.blogspot.com/2025/07/ek-khofnak-raat.html