14/12/2025
سیاست یا سوداگری، اقتدار کے لیے ضمیر کا سودا
اقبال عیسیٰ خان
14 دسمبر 2025
سیاست اگر خدمت کا نام ہے تو اس کی روح ضمیر ہے، اور جب یہی ضمیر اقتدار کے بدلے فروخت ہو جائے تو جمہوریت ایک خالی خ*ل بن کر رہ جاتی ہے۔ آج ہمارے انتخابی عمل کا سب سے افسوسناک پہلو یہی ہے کہ بعض سیاست دان اقتدار کی خاطر اپنا ضمیر بیچنے میں تامل نہیں کرتے، اور اس سودے کی قیمت صرف وہ خود نہیں بلکہ پوری قوم ادا کرتی ہے۔
انتخابات کا موسم آتے ہی نظریات بدلنے لگتے ہیں۔ کل تک جو اصول ناقابلِ سودے تھے، آج وہ سیاسی مجبوری کہلا جاتے ہیں۔ کل تک جن باتوں پر تقریریں ہوتی تھیں، آج انہی باتوں پر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ اقتدار کی سیڑھی چڑھنے کے لیے موقف بدلے جاتے ہیں، وفاداریاں تبدیل ہوتی ہیں، اور عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ سب کچھ قومی مفاد میں ہو رہا ہے، حالانکہ حقیقت میں مفاد صرف اقتدار کا ہوتا ہے۔
ضمیر فروشی کی سب سے خطرناک صورت یہ ہے کہ عوامی مسائل کو پسِ پشت ڈال دیا جائے۔ تعلیم، صحت، انصاف اور روزگار جیسے بنیادی سوالات نعروں کی گونج میں دب جاتے ہیں۔ ووٹ عوام سے لیا جاتا ہے، مگر فیصلے طاقتور حلقوں کی خوشنودی کے لیے کیے جاتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سیاست خدمت نہیں رہتی بلکہ اقتدار کا کھیل بن جاتی ہے۔
یہ بھی ایک سچ ہے کہ اقتدار کے لیے ضمیر بیچنے والا سیاست دان وقتی طور پر کامیاب ہو سکتا ہے، مگر وہ عوام کا اعتماد ہمیشہ کے لیے کھو دیتا ہے۔ قومیں نعروں سے نہیں، کردار سے بنتی ہیں۔ تاریخ انہیں یاد رکھتی ہے جو ہار کر بھی اصولوں پر قائم رہیں، نہ کہ انہیں جو جیت کر بھی سچ سے دور ہو جائیں۔
اس تناظر میں سوال صرف سیاست دانوں سے نہیں، عوام سے بھی ہے۔ کیا ہم ہر الیکشن میں انہی چہروں کو موقع نہیں دیتے جو ہر بار نیا وعدہ اور نیا روپ لے کر سامنے آتے ہیں؟ کیا ہم اقتدار کے سوداگر اور اصولوں کے پاسبان میں فرق کرنا چاہتے ہیں، یا پھر ہم خود بھی اس سودے کا حصہ بن چکے ہیں؟
وقت آ گیا ہے کہ سیاست کو اقتدار کی نہیں، خدمت کی زبان میں پرکھا جائے۔ سیاست دانوں کو سمجھنا ہوگا کہ ضمیر وقتی طاقت کے بدلے بیچا جا سکتا ہے، مگر تاریخ میں واپس خریدا نہیں جا سکتا۔ اور عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ووٹ طاقت کے سامنے جھکنے والوں کو نہیں، سچ کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کو دیا جائے۔
کیونکہ اصل قیادت وہ نہیں جو ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرے، بلکہ وہ ہے جو اقتدار چھوڑ کر بھی اپنا ضمیر زندہ رکھے۔
Best Regards,
Iqbal Essa Khan
[email protected]