15/10/2025
نوجوان قیادت اور روشن مستقبل, گلگت بلتستان اور چترال کے تناظر میں
تحریر: اقبال عیسیٰ خان
15 اکتوبر 2025
عالمی سطح پر قیادت کے معیارات میں ایک خاموش مگر مؤثر تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ اب وہ زمانہ پیچھے رہ گیا ہے جب عمر، تجربہ اور روایتی ڈھانچے کو قیادت کے لیے واحد معیار سمجھا جاتا تھا۔ دنیا تیزی سے ایسے ماڈلز کی طرف مائل ہو رہی ہے جہاں نوجوان، اپنی تخلیقی سوچ، ٹیکنالوجی سے ہم آہنگی، اور مسئلہ حل کرنے کی جدید صلاحیتوں کے ساتھ نہ صرف قیادت سنبھال رہے ہیں بلکہ غیر معمولی نتائج بھی دے رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی Youth2030 رپورٹ کے مطابق دنیا کی 60 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے، اور مستقبل کی پالیسیوں، معیشت، اور سماجی ترقی کے لیے نوجوان قیادت ناگزیر قرار دی جا رہی ہے۔
حالیہ برسوں میں فن لینڈ، نیوزی لینڈ، آسٹریا، اور چلی جیسے ممالک میں نوجوان وزرائے اعظم اور صدور نے نہ صرف قیادت سنبھالی بلکہ معاشی، سماجی، اور ماحولیاتی بحرانوں کے دوران فوری، نتیجہ خیز اور انسان دوست فیصلے بھی کیے۔ فن لینڈ کی سابق وزیراعظم سانا مارین، جو 34 برس کی عمر میں اقتدار میں آئیں، نے یورپ میں کووِڈ-19 سے نمٹنے کے لیے سب سے مؤثر اقدامات کیے۔ جیسنڈا آرڈرن نے نیوزی لینڈ میں قیادت کے معیار کو نئی سطح تک پہنچایا، جسے عالمی سطح پر امن، مساوات اور ہمدردی کی مثال کے طور پر سراہا گیا۔
پاکستان میں 64 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو خطے میں سب سے بڑی نوجوان آبادی ہے (UNDP Pakistan, 2021) یہ آبادی ملک کا سب سے بڑا اثاثہ ہو سکتی ہے، مگر بدقسمتی سے فیصلہ سازی کے تمام فورمز سیاسی جماعتوں، پارلیمان، بیوروکریسی، اور لوکل گورننس — میں نوجوانوں کی نمائندگی نہایت محدود ہے۔ 2018 کے عام انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلیوں میں منتخب ہونے والے نمائندوں میں 35 سال سے کم عمر افراد کی شرح محض 3 فیصد تھی (Election Commission of Pakistan, 2019) اس خلا کے باعث ریاستی ادارے نوجوانوں کے حقیقی مسائل، ترجیحات، اور وژن کو مکمل طور پر اپنانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
گلگت بلتستان اور چترال جیسے علاقے اس حوالے سے منفرد حیثیت رکھتے ہیں کہ یہاں شرح خواندگی ملک کے کئی علاقوں سے زیادہ ہے۔ ہنزہ میں شرح خواندگی 77 فیصد جبکہ چترال میں 65 فیصد ریکارڈ کی گئی (Pakistan Bureau of Statistics, 2017)۔ ان علاقوں کے نوجوان نہ صرف تعلیم یافتہ اور باصلاحیت ہیں بلکہ رضاکارانہ، سماجی، اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں قابلِ ذکر خدمات بھی انجام دے رہے ہیں۔ باوجود اس کے، مقامی حکومتوں، ترقیاتی اداروں اور پالیسی سازی کے پلیٹ فارمز میں نوجوانوں کو شامل کرنے کا عمل نہایت سست ہے یا بالکل موجود نہیں۔ AKRSP کی 2022 کی ایک تحقیق کے مطابق گلگت بلتستان اور چترال کے 93 فیصد نوجوانوں کا ماننا ہے کہ اگر انہیں قیادت کا موقع دیا جائے تو وہ مقامی سطح پر ماحولیاتی تحفظ، روزگار، تعلیم، اور خواتین کی شمولیت جیسے کلیدی مسائل پر مؤثر اور تخلیقی انداز میں کام کر سکتے ہیں۔
نوجوان قیادت کی اہمیت صرف نمائندگی تک محدود نہیں بلکہ یہ قیادت کی نوعیت، طرزِ حکمرانی، اور مسائل کو دیکھنے کے زاویے کو یکسر تبدیل کرتی ہے۔ دنیا بھر میں نوجوان قائدین کی تحقیقاتی صلاحیت، تنقیدی سوچ، اختراعی طرزِ عمل، اور ٹیکنالوجی سے جُڑی ہوئی حکمتِ عملی انہیں روایتی قیادت سے مختلف بناتی ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے کے 2020 کے مطالعے میں بتایا گیا کہ نوجوان قائدین میں بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت 27 فیصد زیادہ مؤثر ہوتی ہے، جبکہ وہ ٹیم ورک اور ڈیجیٹل ٹولز کے استعمال میں 35 فیصد زیادہ کارگر ثابت ہوتے ہیں۔
ان وجوہات کی بنیاد پر گلگت بلتستان اور چترال جیسے خطوں میں نوجوان قیادت کی تیاری اور شمولیت وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ان علاقوں کو درپیش چیلنجز جیسے کہ ماحولیاتی تبدیلی، سیاحت کا غیر منظم فروغ، تعلیم کا دوہرہ معیار، اور بے روزگاری ایسے مسائل ہیں جن کا حل صرف وہی قیادت نکال سکتی ہے جو مقامی ماحول کو جانتی ہو، جدید ٹولز سے واقف ہو، اور جس کے پاس لچکدار اور تخلیقی نقطہ نظر ہو۔
مستقبل کی کامیاب حکمرانی اسی وقت ممکن ہے جب ہم نوجوانوں کو محض تقریری پلیٹ فارمز پر سراہنے کے بجائے، حقیقی اختیارات، وسائل، اور اعتماد فراہم کریں۔ مقامی حکومتوں میں یوتھ کوٹہ، پالیسی مشاورتی کمیٹیاں، یوتھ لیڈرشپ اکیڈمیاں، اور فیصلہ سازی کے عمل میں نوجوانوں کی بامعنی شمولیت ناگزیر ہو چکی ہے۔ اگر ہم نے آج ان کی صلاحیتوں پر یقین نہ کیا، تو کل کا پاکستان ایک بار پھر ماضی کی فرسودہ سوچ کے رحم و کرم پر ہو گا۔
نوجوان قیادت کسی نعمت سے کم نہیں، بشرطیکہ اس کو پہچانا جائے، تراشا جائے اور ذمہ داری دی جائے۔ گلگت بلتستان اور چترال جیسے علاقے، جو صدیوں سے محرومیوں کے شکار رہے ہیں، اب ایک نئے باب کے آغاز کے منتظر ہیں جہاں قیادت عمر نہیں، وژن، فہم، اور جدت کی بنیاد پر منتخب ہو۔ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اس تبدیلی کو قبول کریں، نوجوانوں پر اعتماد کریں اور انہیں پاکستان کے مستقبل کی سمت متعین کرنے دیں۔
تحریر: اقبال عیسیٰ خان
(سماجی کارکن، گلگت بلتستان و چترال میں نوجوانوں کے حقوق کے سرگرم حامی)