06/09/2025
پھر خود کشی
قاری فدا محمد
اطلاعات کے مطابق چترال کی ایک اور بیٹی نے اپنے ہاتھوں اللہ کی عطا کردہ امانت ضائع کر دی ہے ۔ خود کشی ایک ایسا عمل ہے جس کی وحشت، حرمت ، شناعت اور قباحت سے ہر ہر فرد واقف ہے۔اس خوفناک گڑھے میں کوئی ہنستا ہوا نہیں گرتا، نہ کوئی مذاق سمجھ کر اسے گلے لگاتاہے۔ ظاہر ہے انسان مایوسی ، بے اعتمادی، عدم تحفظ اور احساس محرومی کے آخری حدوں کو پہنچ کر ہی اس انتہائی اقدام پر مجبور ہوتا ہے، یا پھر ضد، انا پرستی اور عدم برداشت کی خوانسان کو اس حالت سے دوچار کرادیتی ہے۔
اس موضوع پر تحقیق کرنے والے جو جو عوامل بتاتے ہیں ، وہ سب ضمنی اور ثانوی اسباب ہوتے ہیں، اصل بات یہ ہے کہ ہم لوگ تربیت اولاد کے نفسیاتی پہلووں اور اصولوں سے واقف نہیں ہیں، ساری پچیدگیاں اور جملہ مسائل اسی کوتاہی سے جنم لیتے ہیں۔ ہم یا تو بچوں کی ہر جائز و ناجائز خواہش اور اشارۂ آبرو کی تکمیل کے ذریعے انھیں ضدی اور انا پرست بنا کر ان سے صبر و حلم کی صفت چھین لیتے ہیں یا پھر ان کی جائز خواہشات کا گلا گھونٹ کر انھیں مسلسل محرومی ، مایوسی اور عدم اعتمادکے احساس میں مبتلا کرکے زندگی سے بے زار بنا دیتے ہیں۔ یہ دونوں انتہائی رویے انسان کی شخصیت کوشدید متاثر ،متزلزل اور غیر متوازن بنادیتی ہیں۔ یہی نالائق بے اعتدالی ہے جو بچوں کے کردار میں انتہاپسندانہ خصائل کو فروغ دینے کا سبب بنتی ہے۔اسلام دین فطرت ہے، جو جملہ امور میں اعتدال کا درس دیتا ہے، یہاں تک کہ عبادات کے معاملے میں بھی حد اعتدال سے تجاوز کو پسندیدہ قرار نہیں دیا گیا ہے۔
یہ امر مسلّم ہے کہ بچوں کی ہر خواہش کی تکمیل اور ہر ضد کی تعمیل کی روش انھیں بگاڑ کے راستے پر گامزن دیتی ہے۔ انسان کے حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے، زندگی کے کسی موڑ پر بچوں کو "نا" کہنا ہی پڑتا ہے ، بچن میں اس لفظ کی اذیت سے ناآشنا اولاد عالم شبا ب جب پہلی مرتبہ اس کا سامنے کرتی ہے ، تو ان کے تن بدن پر لرزہ طاری ہوتا ہے، پیروں تلے سے زمین کھسک جاتی ہے، خوابوں کی عمارت ملیامیٹ ہو جاتی ہے، اور زندگی سے متعلق ان کا اوج ِ خیال خاک نشیں ہو کر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی اچانک پہنچنے والی اذیت کو سہنے، حادثات کا سامنے کرنے اور تکالیف کو برداشت کرنے کا ان میں یارا ہی نہیں ہوتا۔ایسے بچے ناموافق حالات کا سامنا کرتے ہی ڈپریشن کا شکار ہو کر خود کشی کی طرف بڑھنے لگتے ہیں ۔ اور یہ ڈپریشن کوئی عام ڈپریشن نہیں ، عقل ماؤف ، ذہن منجمد اور زندگی مفلوج کردینے والا ڈپریشن ہوتا ہے، جس کے بارے میں معروف امریکی نفسیاتی ناول نگار ولیم سٹائرن لکھتے ہیں: "شدید ڈپریشن سے ہونے والی تکلیف کا وہ لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے جن کا اس سے واسطہ نہیں پڑا ہوتا۔ اس کے درد کو کسی طرح برداشت نہیں کیا جاسکتا۔"ظاہر ہے اس حالت سے وہی شخص دوچار ہوسکتا ہے جس کو زندگی کے گرم و سرد بارے کچھ معلوم نہ ہو، اور اچانک اس کا واسطہ کسی درد سے پڑ جائے۔
دوسری طرف مایوسی کے شکار بچے ہوتے ہیں، جو والدین (بالخصوص سوتیلی ماؤں) کی بے جا سختیوں یا والدین کے آپس کی شکر رنجیوں کی وجہ سے زندگی سے بے زار بن گئے ہوتے ہیں۔ ان کی آرزوئیں ، تمنائیں اور معصوم خواہشات ہمیشہ ادھوری رہ جانے کی وجہ سےبادِ محرومی کے تھپیڑوں سے زِ چ ہو کر نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ ماں باپ سے مایوس بچے کسی بھی انسان پر اعتماد نہیں کرتے، کسی سے ہمدردی کی توقع نہیں رکھتے، کسی کے سامنے اپنا دکھ بیان نہیں کرتے اور کسی فرد کو لائق احترام نہیں سمجھتے۔ ان میں آگے بڑھنے کا جذبہ ہوتا ہے، نہ زندگی میں کچھ بننے اور کچھ کر دکھانے کا ولولہ۔ یہ زندہ لاش ہوتے ہیں اور اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا ان کے لیے کچھ مشکل نہیں ہوتا۔
جہاں تک خود کشی کے (ضمنی ) اسباب و عوامل کا تعلق ہے، غور کیا جائے تو ان تمام عوامل و محرکات کے سوتے تربیت میں رہ جانے والی کسر سے برآمد ہوتے نظر آتے ہیں ۔ مثلا "ڈپریشن " کو لیجئے، یہی وہ چیز ہے، جس کا خود کشی کے معاملے میں سب سے بڑا کردار رہتا ہے۔ اس عارضے میں مبتلا ہونے کے اسباب اگر چہ بے شمار ہیں، مگر ناگوار حالات سے مقابلہ کرنے کی طاقت و عادت کا نہ ہونا اس کی سب بڑی وجہ ہے۔ اس کی درج ذیل دیگر خارجی و داخلی وجوہات قابل غور ہیں ۔ • جینیاتی عوامل،اگر خاندان میں کوئی اس میں مبتلا رہا ہو، تو اولاد میں اس کی منتقلی کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ • • ماحولیاتی عوامل،بچپن کا صدمہ، گھریلو تشدد، معاشی تنگی، والدین کی ناچاقی، محرومی کا احساس اور مسلسل دباؤکی وجہ سے انسان اس عارضے میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ •
معاشرتی عوامل، تنہائی کا احساس ، تعلقات اور رشتوں کی ناکامی اور معاشرتی عدم تحفظ کے احساس سے یہ عارضہ لاحق ہوسکتا ہے۔
نفسیاتی عوامل،خود اعتمادی کا فقدان،امتحان میں ناکامی، منفی سوچنے کا رجحان یا پھر غیر حقیقی اورناممکن العمل توقعات، جو کہ اکثر پورے نہیں ہوتے، اس بیماری کی طرف انسان کو لے جانے کا سبب بنتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق خود کشی کا سبب بننے والے دیگر عوامل درج ذیل ہیں۔
"شیزوفرینیا" (ایک شدید نفسیاتی بیماری، جو انسان کی سوچنے، سمجھنے،محسوس کرنے اور حقیقت کو پرکھنے کی قوت و صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔)"منشیات کی لت"، "جذبہ انتقام اور غصہ" ، "معاشی پریشانیاں"، "سکینڈل کا افشاں ہونا یا افشاں ہونے کا خوف"۔ ان میں سے کونسی چیز ہے جو براہ راست تربیت سے تعلق نہ رکھتی ہو؟ لہٰذا اس ضمن میں بچوں کو سمجھانے اور تعلیم دینے کے مقابلے میں والدین کو سمجھانا زیادہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اگر مستقبل میں ان ناخوشگوار واقعات کا انسداد مطلوب ہے ، تولازم ہے کہ اولاد کی تربیت کے معاملے میں والدین کی رہنمائی کا کام کیا جائے۔
کہا جاتا ہے کہ خود کشی کا رجحان نوعمر بچوں اور بچیوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق 5 سے 14 سال کی عمر کے بچوں میں خود کشیوں کا تناسب .09 ہے جبکہ 15 سے 24 سال تک کے مرد و خواتین میں یہ تناسب 13 فیصد ہے۔
بعض خود کشی کرنے والے کچھ پیغامات چھوڑ جاتے ہیں، جن کے ذریعے خود کشی کے اسباب کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔ 1983 میں لاس اینجلس میں ایک آرٹ گیلری میں خود کشی کرنے والوں کے پیغامات کی نمائش کی گئی تھی۔ جس میں خود کشی کرنے والے 12 سالہ لڑکے نے والد کے نام یہ پیغام چھوڑا تھا:
پیارے ڈیدی! اداس مت ہونا۔۔۔ میں نے جھوٹ بولا تھا ۔ میں نے انگریزی میں "ایف" گریڈ لیا ہے کیونکہ یہ دسویں گریڈ کی کلاس تھی۔ میں یہاں جنت میں بھی سکول پڑھوں گا۔ اگر مجھےیہاں فٹبال کھیلنے کی جازت مل جائے تو کتنا اچھا ہو۔ میں یہاں دادا اور دادی کو تلاش کروں گا۔ "( بحوالہ کتاب ، ،“Why Suicide?”اردو ترجمہ "لوگ خود کشی کیوں کرتے ہیں")
اس کتاب میں خود کشی کی کوشش کرنے والے ایک اور بچے کی کہانی یوں بیاں کی گئی ہے:
"میرا خواب تھا کہ میں جمناسٹک کے اولمپک مقابلوں میں حصہ لوں ، مگر میرا خواب بکھر گیا تو میں نے اپنے والدین کی دواؤں کی الماری کی طرف گیا اور مختلف گولیاں وغیرہ نکال لیں۔ اس کے بعد میں نے ایک بلیڈ لیا اور اسے اپنی کلائی پر پھیر لیا۔ خون بہنے لگا لیکن زخم اتنا گہرا نہیں تھا کہ میری نسیں کٹ جاتیں۔ اس طرح دواؤں میں سے بھی کوئی ایسی چیز نہ مل سکی جن سے مجھے کوئی نقصان پہنچ پاتا۔ اس کے بعد مجھے اور غصہ آنے لگا کیونکہ مجھے کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔" اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں واقعات ناکامی کو برداشت کرنے کی صلاحیت کے فقدان کی وجہ سے وقوع پذیر ہوئے ہیں ، ظاہر ہے ان بچوں کے والدین سے اس وصف کی آبیاری میں کمی رہ گئی تھی۔ جس کا خمیازہ ان کے بچوں کو اقدام خود کشی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
خود کشی تو حرام ہے!
تحریر: قاری فدا محمد
جو لوگ معاشرت کے متعلق اسلامی اصولوں اور مغربی تفکرات کے امتزاج میں جینا چاہتے ہیں، وہ نہ صرف خود بدترین فریب میں مبتلا ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی تضاد روی کا شکار کر دیتے ہیں۔ اسلام اپنے مقصد کے اعتبار سے معاشرت کا ایسا نظام ترتیب دیتا ہے جس میں مرد اور عورت کے دوائر عمل بڑی حد تک الگ کر دئیے گئے ہیں۔ اس نظام کے اندر اختلاط مرد وزن سے حتی االامکان گریز پا رہنے کی تاکید ملتی ہے اور ان تمام عوامل کے انسداد کی کوشش کی گئی ہے جو اس نظم و ضبط کو توڑنے کا باعث بنتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں مغربی تہذیب کا مقصد اور اس کا لازمی تقاضا ہے کہ دونوں صنفوں کو ایک ساتھ میدان میں اتارا جائے، اور ان کے درمیاں وہ تمام حجابات مٹا دیے جائیں جو آزادانہ اختلاط کی راہ میں مانع ہوں، اور انھیں ایک دوسرے کے حسن و لطف سے ہر آن استفادہ کے مواقع میسر کر دیے جائیں ۔ اسلام انسانی جذبات و خواہشات کا گلہ گھونٹ کر اسے سنیاسی اور جوگی بنانا نہیں چاہتا بلکہ ان فطری خواہشات کو اخلاقی ڈسپلن میں لا کر اس طرح منضبط کرتا ہے کہ وہ پراگندہ عملی میں ضائع ہونے کے بجائے پاکیزہ معاشرت کی تعمیر میں صرف ہوں۔ جو شخص ان دو متضاد مقاصد اور خیالات کو یکجا کرکے جینا چاہتا ہے، وہ ظاہر ہے کسی حال میں مطمئن نہیں رہ سکتا اور اس کے معاملات یقینی تضادات کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ ہمارا معاشرہ ایسے تضادات پر مبنی معاشرہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جدید اذہان اسلام کے حصار میں رہتے ہوئے مغربی تمد ن کی لطافتوں سے حظ اٹھانے کا متلاشی ہے، جس کےنتیجے میں بے شمار قبائح اور المناک واقعات آئے روز وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ جنھیں ہم بلیک ملنگ کا شاخسانہ، بے وفائی کا حُزنیہ، رقابت کا المیہ اور قباحت کا نتیجہ وغیرہ نام سے یاد کرتے گزرے جاتے ہیں۔
اس موضوع پر کسی خاص تناظر سے ہٹ کر عموم کے انداز میں کھل کر یہ بات کر لینے میں مضائقہ نہیں کہ بلیک ملنگ وغیرہ کے انجام سے دوچار ہونے والی بیشتر آشنائیاں "دو طرفہ " ہی ہوتی ہیں۔ ہوتا یہ کہ مخلوط مجالس اور ماحول سے مخالف اصناف میں جذباتی قربتیں پیدا ہوتی ہیں ، پھر یہ قربتیں معاشقےکے مدارج طے کرتی آگے بڑھتی ہیں، باہم جینے اور مرنے کے وعدے اور دعوے ہوتے ہیں، پاسِ عہد اور خلوص و وفا کا ایک دوسرے کو ایسا یقین دلایا جاتا ہے کہ جدائی میں جینا ہر ایک کو محال لگنے لگتاہے۔ فی زمانہ ذرائع مواصلات کی فراوانی کی وجہ سے نہ صرف باہم 'خاص گفتگوئیں 'ہوتی ہیں بلک ذاتی نوعیت کے معاملات ، معلومات اور تصاویر وغیرہ بھی بے دھڑک ایک دوسرے کو فراہم کردی جاتی ہیں، یہی چیز آگے جا کر مصیبت بن جاتی ہے۔
اس جذباتی اور خیالی ماحول کے اندر وہ اپنے مستقبل کے شیش محل کی تعمیر میں مصروف ہوتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کے خاندان کا فیصلہ قہر بن کر ٹوٹتا اور اس شیش محل کے در ودیوار پر لرزہ طاری کر دیتا ہے ،یوں وہ عہد وفا جس کی استواری کی قسمیں کھائی جاچکی تھیں، تارعنکبوت کی طرح ہوا کی دوش میں بے محل گردش کرنے لگتا ہے۔ایسے میں بیشتر بچیاں ماں باپ اور اہل خاندان (خاص کر بھائی اور بھابھی کی بدمعاشی) کے ہاتھوںمجبور اپنی چاہت کی قربانی پر بادل ناخواستہ آمادہ ہو جاتی ہیں۔ ان کو یہ نیک گمان (بلکہ یقین ) لاحق ہوتا ہے کہ "دوست" بھی اس کی مجبوری کو سمجھ جائے گا، اور عذر قبول کرکے سہولت سے راستہ الگ کرلے گا، مگر افسوس کہ اکثر اوقات معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔
ہوس پرست اور خود غرض دوست کسی حال میں چھوڑنے پر راضی اور کسی صورت پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ہوتا ۔ اور جب معاملہ اس کے ہاتھ سے نکلتا ہوا محسوس ہوتا ہے تو انہی سامان کو ،جو اعتماد کی بنیاد پر اس کو بھیج دیے گئے تھے، ڈرانے اور دھمکانے کے لیے استعمال کرنے لگتا ہے۔ ایک طرف لڑکی ہے، جو نہ پائے رفتن ، نہ جائے ماندن کے مصدق بے بسی اور لاچارگی کی تصویر بن کر رہ جاتی ہے۔ دوسری طرف ہوس پرست دوست مطلب براری کے حربے ایک ایک کرکے استعمال کرنے لگتا ہے۔ظاہر ہے شرم و حیا اور خاندان کی توقیر کو ملیامیٹ کرنا ہر خاتون کے لیے ممکن نہیں ہوتا اور نہ ہی اس متوقع بے عزتی کو ، جو اس کے رفیق کے ہاتھوں اس کو ملنے والی ہے، انگیز کرنے کا ہر کسی میں یارا ہوتا ہے، اور نہ گھر کا ماحول اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ وہ اپنا دکھ کسی سے بیان کر سکے۔ ایسے میں لاچار وہ اپنی زندگی کا چراغ گل کرنے پر اتر آتی ہے، اور اس صورت حال میں خلاصی کا یہی واحد راستہ اس کو دکھائی اور سجھائی دیتا ہے کہ وہ موت کو گلے لگائے۔کوئی مانے یا نہ ، ہمارے ہاں، بچیوں کی اکثر خود کشیوں کے پیچھے اسی چیز کی کارفرمائی ہوتی ہے۔
بچیوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ پہلے اس غلطی سے باز رہنے کی کوشش کریں ، جس کا یہ انجام ہونا ہے۔ اور اگر انسان ہونے کے ناتے یہ غلطی ہو چکی ہے، اور صورتحال ایسی پیدا ہوگئی ہے تو سیدھا سیدھا ماں باپ کو یا بہنوں کو یا پھر کسی مخلص رشتہ دار خاتون کے ذریعے اپنے خاندان کو فورا مطلع کریں۔ اگر باپ بہت ہی سخت ہوا تو کیا ہوگا؟ زیادہ سے زیادہ ڈانٹ پڑے گی، ایک آدھ تھپڑ رسید ہو گی ، کچھ عرصہ منہ بسورے بیٹھے گااور بس! بتائیں یہ زیادہ تکلیف دہ ہے یا وہ اقدام جس میں اترجانا ، کسی حال میں پسندیدہ نہیں، کسی صورت قابل قبول نہیں اور کسی قانون میں جائز نہیں۔
بچیوں کو یہ بھی سمجھا دینی چاہیے کہ ماں باپ کے سامنے اپنا مسئلہ بیان کرنے سے ، ان کی غیرت و توقیر میں کمی آنے کا جو خوف تمھیں لاحق رہتا ہے، یہ اُس بے عزتی کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے، جس میں وہ تمھاری خود کشی کی وجہ سے مبتلا ہوتے ہیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایسے میں لوگ کیا کیا باتیں بناتے ، قصے گھڑتے اور ہرزہ سرائی کا سامان کرتے رہتے ہیں۔ آپ جو ایک بلیک میلر سے اپنی اور اپنے ماں باپ کی عزت بچانے کے لیے اپنی جان مار دیتی ہیں، یقین کریں اس پر لوگ آپ کو معاف نہیں کرتے، آپ کے خلاف وہ وہ باتیں بنائی جاتی ہیں کہ جن کی خبر آپ کے فرشتوں کو بھی نہیں ہوتی ، آپ کے والدین، آپ کے بھائی، آپ کی بہنیں( جو دوسروں کے گھروں میں ہوتی ہیں)، آپ کی سہیلیاں اور آپ کے اہل و عیال سر اٹھا کر چلنا تو چھوڑیے، کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔ آپ کی جدائی کی اذیت اپنی جگہ ، مگر لوگوں کی گھڑی ہوئی باتیں عرصہ تک ان کی نیند حرام اور زندگی اجیرن کردیتی ہیں۔ بلیک میلنگ کے معاملے کو عام طور پر بچیاں اُس نئے رشتے کے سامنے رسوا ہونے کے خوف سے بھی دبا دیتی ہیں، جو ان کے ماں باپ ان کی مرضی کے برعکس جوڑنے لگتے ہیں، اور بچی اب ناگوار اس خاندان میں داخل ہونے جارہی ہوتی ہے، وہ نہیں چاہتی کہ اس گھر میں پہنچتے پہنچتے اس کی کہانی کا چرچا ہو اور اس کے معاشقے کے گیت جائیں ۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے، جو بچی کی رہی سہی قوت مضمحل کردیتا ہےاور وہ اپنے تئیں قعرِ مذلت میں گرنے کے بجائے موت کے گڑھے کے حوالے کردیتی ہے۔
عرض ، خود کشی کو کسی صورت اور حال میں جائز اور معقول قرار نہیں دیا جاسکتا،یہ ہر حال میں مردود ہے، ہر صورت میں ناجائز ہے، ہر پہلو سے نامعقول ہے اور ہر نہج سے ملعون ہے۔۔۔۔ہزار راستے ہوں گے جو اس کے اقدام کے بغیر مسئلے کے حل کے لیے دستیاب ہوں گے۔۔۔۔۔ یہ ایک بزدلانہ حرکت ہے، حالات سے فرار کا ایک گمنام راستہ ہے، خود اعتمادی کی ضد ہے، جوانمردی کے خلاف ہے، رشتوں سے بدگمانی کی نشانی ہے، زندگی سے نفرت کی علامت ہے، ماں باپ پر عدم اعتماد کی دلیل ہے، شکست خوردگی ، بے صبری اور بے مروتی کی پہچان ہے۔
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات