Shekhan News Network

Shekhan News Network In this page you see the News all over the world. Members of this page are very hard worker.News Team Update you all Important News.

چترال بازار کا دیرینہ مسئلہ حلتاجر برادری کے مطالبے پر اور سینیٹر طلحہ محمود کی بھرپور کاوشوں سے چترال میں بجلی کے نظام ...
08/09/2025

چترال بازار کا دیرینہ مسئلہ حل

تاجر برادری کے مطالبے پر اور سینیٹر طلحہ محمود کی بھرپور کاوشوں سے چترال میں بجلی کے نظام کی بہتری کے لیے ایک بڑا قدم اٹھا لیا گیا ہے۔

سینیٹر طلحہ محمود صاحب جب اپنے حالیہ دورے پر چترال آئے تھے تو چترال بازار کے تاجر یونین نے اُن سے درخواست کی تھی کہ بازار میں نصب ٹرانسفارمرز کے مسائل کو فوری طور پر حل کیا جائے۔

سینیٹر طلحہ محمود صاحب نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا اور اپنی مسلسل کوششوں سے بالآخر PESCO سے LT ری ہیبیلیٹیشن پروگرام 2025-26 کی منظوری دلوائی۔اس پروگرام کے تحت چترال میں ٹرانسفارمرز اور بجلی کے نظام میں نمایاں بہتری لائی جائے گی،جس سے عوام اور تاجروں کے دیرینہ مسائل حل ہوں گے۔

نو  تعینات اسسٹنٹ کمشنر ہیڈکوارٹرز لوئر چترال، ریاض احمد نے اپنے عہدے کا باقاعدہ  چارج سنبھال لیا۔
08/09/2025

نو تعینات اسسٹنٹ کمشنر ہیڈکوارٹرز لوئر چترال، ریاض احمد نے اپنے عہدے کا باقاعدہ چارج سنبھال لیا۔

چینی کی قیمتیں ایک بار پھر 200 روپے تک پہنچ رہی ہیں، جس کا مطلب ہے ایک اور بڑا اسکینڈل۔ صرف چند ماہ پہلے جب چینی کی قیمت...
08/09/2025

چینی کی قیمتیں ایک بار پھر 200 روپے تک پہنچ رہی ہیں، جس کا مطلب ہے ایک اور بڑا اسکینڈل۔ صرف چند ماہ پہلے جب چینی کی قیمت اسی سطح پر پہنچی تھی، آڈیٹر جنرل نے رپورٹ کیا تھا کہ شوگر مل مالکان نے 300 ارب روپے کمائے۔ اس وقت بھی غریب عوام کو لوٹا گیا تھا، اور اب ایک بار پھر وہی ہو رہا ہے۔ محمد زبیر

لوئر چترال آیون و بُروز میں ٹیلی نار 4G انٹرنیٹ کی ناقص سہولت عوام شدید مشکلات کا شکارآیون اور بُروز، جو آبادی کے لحاظ س...
08/09/2025

لوئر چترال آیون و بُروز میں ٹیلی نار 4G انٹرنیٹ کی ناقص سہولت عوام شدید مشکلات کا شکار

آیون اور بُروز، جو آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا اور اہم علاقہ ہے، وہاں اگرچہ موبائل کمپنیوں کی جانب سے 4G jazz, Telenor انٹرنیٹ سروس فراہم کی گئی ہے، تاہم ان کی رفتار نہایت سست اور سروس انتہائی ناقص ہے، جو عوام خصوصاً طلبہ و طالبات کے لیے شدید مشکلات کا باعث بن رہی ہے۔

آج کے جدید دور میں جہاں تعلیم کا بڑا انحصار آن لائن ذرائع پر ہے، وہاں انٹرنیٹ کی عدم دستیابی یا ناقص سروس طلبہ و طالبات کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔

اگرچہ ان علاقوں میں 4G سروس بظاہر موجود ہے، مگر اس کی کارکردگی اتنی ناقص ہے کہ عوام کے لیے اس سے فائدہ اٹھانا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ کبھی سنگنل غائب، کبھی رفتار نہ ہونے کے برابر، اور کبھی مکمل ڈراپ اور یہ معمول بن چکا ہے۔یہ تمام مسائل طلبہ وطالبات کے مستقبل کو براہِ راست متاثر کرتے ہیں۔ تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہے، اور اس حق کی فراہمی میں انٹرنیٹ کی سہولت اب لازمی جز بن چکی ہے۔

ہم متعلقہ موبائل نیٹ ورکس (خصوصاً Jazz، Telenor) اور PTA (پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی) سے مطالبہ کرتے ہیں ان علاقوں میں فوری طور پر 4G ٹاورز کی اپگریڈیشن کی جائے نیٹ ورک سروس کا معیار بہتر بنایا جائے عوامی شکایات کو سنجیدگی سے سنا جائے۔
شکریہ ۔۔۔۔۔

چترال یومِ دفاعِ پاکستان کے سلسلے میں چترال میں ایک شاندار پولو میچ کا انعقاد کیا گیا، جس کا مقصد شہداء کو خراجِ عقیدت پ...
06/09/2025

چترال
یومِ دفاعِ پاکستان کے سلسلے میں چترال میں ایک شاندار پولو میچ کا انعقاد کیا گیا، جس کا مقصد شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرنا تھا۔ میچ میں ضلعی انتظامیہ کے افسران، پاک فوج کے افسران اور پولو کے شائقین نے کثیر تعداد میں شرکت کر کے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی۔

میچ چترال کی دو روایتی حریف ٹیموں، چترال لیویز اور چترال سکاؤٹس کے درمیان کھیلا گیا۔ کانٹے دار مقابلے کے بعد، چترال لیویز پولو ٹیم نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میچ میں کامیابی حاصل کی۔

تقریب کے اختتام پر افسران نے کھلاڑیوں میں انعامات اور ٹرافیز تقسیم کیں اور انہیں مستقبل میں مزید محنت کرنے کی ترغیب دی

پھر خود کشی قاری فدا محمداطلاعات کے مطابق چترال کی ایک اور بیٹی نے اپنے ہاتھوں اللہ کی عطا کردہ امانت  ضائع کر دی ہے ۔ خ...
06/09/2025

پھر خود کشی

قاری فدا محمد

اطلاعات کے مطابق چترال کی ایک اور بیٹی نے اپنے ہاتھوں اللہ کی عطا کردہ امانت ضائع کر دی ہے ۔ خود کشی ایک ایسا عمل ہے جس کی وحشت، حرمت ، شناعت اور قباحت سے ہر ہر فرد واقف ہے۔اس خوفناک گڑھے میں کوئی ہنستا ہوا نہیں گرتا، نہ کوئی مذاق سمجھ کر اسے گلے لگاتاہے۔ ظاہر ہے انسان مایوسی ، بے اعتمادی، عدم تحفظ اور احساس محرومی کے آخری حدوں کو پہنچ کر ہی اس انتہائی اقدام پر مجبور ہوتا ہے، یا پھر ضد، انا پرستی اور عدم برداشت کی خوانسان کو اس حالت سے دوچار کرادیتی ہے۔
اس موضوع پر تحقیق کرنے والے جو جو عوامل بتاتے ہیں ، وہ سب ضمنی اور ثانوی اسباب ہوتے ہیں، اصل بات یہ ہے کہ ہم لوگ تربیت اولاد کے نفسیاتی پہلووں اور اصولوں سے واقف نہیں ہیں، ساری پچیدگیاں اور جملہ مسائل اسی کوتاہی سے جنم لیتے ہیں۔ ہم یا تو بچوں کی ہر جائز و ناجائز خواہش اور اشارۂ آبرو کی تکمیل کے ذریعے انھیں ضدی اور انا پرست بنا کر ان سے صبر و حلم کی صفت چھین لیتے ہیں یا پھر ان کی جائز خواہشات کا گلا گھونٹ کر انھیں مسلسل محرومی ، مایوسی اور عدم اعتمادکے احساس میں مبتلا کرکے زندگی سے بے زار بنا دیتے ہیں۔ یہ دونوں انتہائی رویے انسان کی شخصیت کوشدید متاثر ،متزلزل اور غیر متوازن بنادیتی ہیں۔ یہی نالائق بے اعتدالی ہے جو بچوں کے کردار میں انتہاپسندانہ خصائل کو فروغ دینے کا سبب بنتی ہے۔اسلام دین فطرت ہے، جو جملہ امور میں اعتدال کا درس دیتا ہے، یہاں تک کہ عبادات کے معاملے میں بھی حد اعتدال سے تجاوز کو پسندیدہ قرار نہیں دیا گیا ہے۔
یہ امر مسلّم ہے کہ بچوں کی ہر خواہش کی تکمیل اور ہر ضد کی تعمیل کی روش انھیں بگاڑ کے راستے پر گامزن دیتی ہے۔ انسان کے حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے، زندگی کے کسی موڑ پر بچوں کو "نا" کہنا ہی پڑتا ہے ، بچن میں اس لفظ کی اذیت سے ناآشنا اولاد عالم شبا ب جب پہلی مرتبہ اس کا سامنے کرتی ہے ، تو ان کے تن بدن پر لرزہ طاری ہوتا ہے، پیروں تلے سے زمین کھسک جاتی ہے، خوابوں کی عمارت ملیامیٹ ہو جاتی ہے، اور زندگی سے متعلق ان کا اوج ِ خیال خاک نشیں ہو کر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی اچانک پہنچنے والی اذیت کو سہنے، حادثات کا سامنے کرنے اور تکالیف کو برداشت کرنے کا ان میں یارا ہی نہیں ہوتا۔ایسے بچے ناموافق حالات کا سامنا کرتے ہی ڈپریشن کا شکار ہو کر خود کشی کی طرف بڑھنے لگتے ہیں ۔ اور یہ ڈپریشن کوئی عام ڈپریشن نہیں ، عقل ماؤف ، ذہن منجمد اور زندگی مفلوج کردینے والا ڈپریشن ہوتا ہے، جس کے بارے میں معروف امریکی نفسیاتی ناول نگار ولیم سٹائرن لکھتے ہیں: "شدید ڈپریشن سے ہونے والی تکلیف کا وہ لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے جن کا اس سے واسطہ نہیں پڑا ہوتا۔ اس کے درد کو کسی طرح برداشت نہیں کیا جاسکتا۔"ظاہر ہے اس حالت سے وہی شخص دوچار ہوسکتا ہے جس کو زندگی کے گرم و سرد بارے کچھ معلوم نہ ہو، اور اچانک اس کا واسطہ کسی درد سے پڑ جائے۔
دوسری طرف مایوسی کے شکار بچے ہوتے ہیں، جو والدین (بالخصوص سوتیلی ماؤں) کی بے جا سختیوں یا والدین کے آپس کی شکر رنجیوں کی وجہ سے زندگی سے بے زار بن گئے ہوتے ہیں۔ ان کی آرزوئیں ، تمنائیں اور معصوم خواہشات ہمیشہ ادھوری رہ جانے کی وجہ سےبادِ محرومی کے تھپیڑوں سے زِ چ ہو کر نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ ماں باپ سے مایوس بچے کسی بھی انسان پر اعتماد نہیں کرتے، کسی سے ہمدردی کی توقع نہیں رکھتے، کسی کے سامنے اپنا دکھ بیان نہیں کرتے اور کسی فرد کو لائق احترام نہیں سمجھتے۔ ان میں آگے بڑھنے کا جذبہ ہوتا ہے، نہ زندگی میں کچھ بننے اور کچھ کر دکھانے کا ولولہ۔ یہ زندہ لاش ہوتے ہیں اور اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا ان کے لیے کچھ مشکل نہیں ہوتا۔
جہاں تک خود کشی کے (ضمنی ) اسباب و عوامل کا تعلق ہے، غور کیا جائے تو ان تمام عوامل و محرکات کے سوتے تربیت میں رہ جانے والی کسر سے برآمد ہوتے نظر آتے ہیں ۔ مثلا "ڈپریشن " کو لیجئے، یہی وہ چیز ہے، جس کا خود کشی کے معاملے میں سب سے بڑا کردار رہتا ہے۔ اس عارضے میں مبتلا ہونے کے اسباب اگر چہ بے شمار ہیں، مگر ناگوار حالات سے مقابلہ کرنے کی طاقت و عادت کا نہ ہونا اس کی سب بڑی وجہ ہے۔ اس کی درج ذیل دیگر خارجی و داخلی وجوہات قابل غور ہیں ۔ • جینیاتی عوامل،اگر خاندان میں کوئی اس میں مبتلا رہا ہو، تو اولاد میں اس کی منتقلی کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ • • ماحولیاتی عوامل،بچپن کا صدمہ، گھریلو تشدد، معاشی تنگی، والدین کی ناچاقی، محرومی کا احساس اور مسلسل دباؤکی وجہ سے انسان اس عارضے میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ •
معاشرتی عوامل، تنہائی کا احساس ، تعلقات اور رشتوں کی ناکامی اور معاشرتی عدم تحفظ کے احساس سے یہ عارضہ لاحق ہوسکتا ہے۔
نفسیاتی عوامل،خود اعتمادی کا فقدان،امتحان میں ناکامی، منفی سوچنے کا رجحان یا پھر غیر حقیقی اورناممکن العمل توقعات، جو کہ اکثر پورے نہیں ہوتے، اس بیماری کی طرف انسان کو لے جانے کا سبب بنتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق خود کشی کا سبب بننے والے دیگر عوامل درج ذیل ہیں۔
"شیزوفرینیا" (ایک شدید نفسیاتی بیماری، جو انسان کی سوچنے، سمجھنے،محسوس کرنے اور حقیقت کو پرکھنے کی قوت و صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔)"منشیات کی لت"، "جذبہ انتقام اور غصہ" ، "معاشی پریشانیاں"، "سکینڈل کا افشاں ہونا یا افشاں ہونے کا خوف"۔ ان میں سے کونسی چیز ہے جو براہ راست تربیت سے تعلق نہ رکھتی ہو؟ لہٰذا اس ضمن میں بچوں کو سمجھانے اور تعلیم دینے کے مقابلے میں والدین کو سمجھانا زیادہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اگر مستقبل میں ان ناخوشگوار واقعات کا انسداد مطلوب ہے ، تولازم ہے کہ اولاد کی تربیت کے معاملے میں والدین کی رہنمائی کا کام کیا جائے۔
کہا جاتا ہے کہ خود کشی کا رجحان نوعمر بچوں اور بچیوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق 5 سے 14 سال کی عمر کے بچوں میں خود کشیوں کا تناسب .09 ہے جبکہ 15 سے 24 سال تک کے مرد و خواتین میں یہ تناسب 13 فیصد ہے۔
بعض خود کشی کرنے والے کچھ پیغامات چھوڑ جاتے ہیں، جن کے ذریعے خود کشی کے اسباب کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔ 1983 میں لاس اینجلس میں ایک آرٹ گیلری میں خود کشی کرنے والوں کے پیغامات کی نمائش کی گئی تھی۔ جس میں خود کشی کرنے والے 12 سالہ لڑکے نے والد کے نام یہ پیغام چھوڑا تھا:
پیارے ڈیدی! اداس مت ہونا۔۔۔ میں نے جھوٹ بولا تھا ۔ میں نے انگریزی میں "ایف" گریڈ لیا ہے کیونکہ یہ دسویں گریڈ کی کلاس تھی۔ میں یہاں جنت میں بھی سکول پڑھوں گا۔ اگر مجھےیہاں فٹبال کھیلنے کی جازت مل جائے تو کتنا اچھا ہو۔ میں یہاں دادا اور دادی کو تلاش کروں گا۔ "( بحوالہ کتاب ، ،“Why Suicide?”اردو ترجمہ "لوگ خود کشی کیوں کرتے ہیں")
اس کتاب میں خود کشی کی کوشش کرنے والے ایک اور بچے کی کہانی یوں بیاں کی گئی ہے:
"میرا خواب تھا کہ میں جمناسٹک کے اولمپک مقابلوں میں حصہ لوں ، مگر میرا خواب بکھر گیا تو میں نے اپنے والدین کی دواؤں کی الماری کی طرف گیا اور مختلف گولیاں وغیرہ نکال لیں۔ اس کے بعد میں نے ایک بلیڈ لیا اور اسے اپنی کلائی پر پھیر لیا۔ خون بہنے لگا لیکن زخم اتنا گہرا نہیں تھا کہ میری نسیں کٹ جاتیں۔ اس طرح دواؤں میں سے بھی کوئی ایسی چیز نہ مل سکی جن سے مجھے کوئی نقصان پہنچ پاتا۔ اس کے بعد مجھے اور غصہ آنے لگا کیونکہ مجھے کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔" اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں واقعات ناکامی کو برداشت کرنے کی صلاحیت کے فقدان کی وجہ سے وقوع پذیر ہوئے ہیں ، ظاہر ہے ان بچوں کے والدین سے اس وصف کی آبیاری میں کمی رہ گئی تھی۔ جس کا خمیازہ ان کے بچوں کو اقدام خود کشی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔

خود کشی تو حرام ہے!
تحریر: قاری فدا محمد

جو لوگ معاشرت کے متعلق اسلامی اصولوں اور مغربی تفکرات کے امتزاج میں جینا چاہتے ہیں، وہ نہ صرف خود بدترین فریب میں مبتلا ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی تضاد روی کا شکار کر دیتے ہیں۔ اسلام اپنے مقصد کے اعتبار سے معاشرت کا ایسا نظام ترتیب دیتا ہے جس میں مرد اور عورت کے دوائر عمل بڑی حد تک الگ کر دئیے گئے ہیں۔ اس نظام کے اندر اختلاط مرد وزن سے حتی االامکان گریز پا رہنے کی تاکید ملتی ہے اور ان تمام عوامل کے انسداد کی کوشش کی گئی ہے جو اس نظم و ضبط کو توڑنے کا باعث بنتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں مغربی تہذیب کا مقصد اور اس کا لازمی تقاضا ہے کہ دونوں صنفوں کو ایک ساتھ میدان میں اتارا جائے، اور ان کے درمیاں وہ تمام حجابات مٹا دیے جائیں جو آزادانہ اختلاط کی راہ میں مانع ہوں، اور انھیں ایک دوسرے کے حسن و لطف سے ہر آن استفادہ کے مواقع میسر کر دیے جائیں ۔ اسلام انسانی جذبات و خواہشات کا گلہ گھونٹ کر اسے سنیاسی اور جوگی بنانا نہیں چاہتا بلکہ ان فطری خواہشات کو اخلاقی ڈسپلن میں لا کر اس طرح منضبط کرتا ہے کہ وہ پراگندہ عملی میں ضائع ہونے کے بجائے پاکیزہ معاشرت کی تعمیر میں صرف ہوں۔ جو شخص ان دو متضاد مقاصد اور خیالات کو یکجا کرکے جینا چاہتا ہے، وہ ظاہر ہے کسی حال میں مطمئن نہیں رہ سکتا اور اس کے معاملات یقینی تضادات کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ ہمارا معاشرہ ایسے تضادات پر مبنی معاشرہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جدید اذہان اسلام کے حصار میں رہتے ہوئے مغربی تمد ن کی لطافتوں سے حظ اٹھانے کا متلاشی ہے، جس کےنتیجے میں بے شمار قبائح اور المناک واقعات آئے روز وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ جنھیں ہم بلیک ملنگ کا شاخسانہ، بے وفائی کا حُزنیہ، رقابت کا المیہ اور قباحت کا نتیجہ وغیرہ نام سے یاد کرتے گزرے جاتے ہیں۔

اس موضوع پر کسی خاص تناظر سے ہٹ کر عموم کے انداز میں کھل کر یہ بات کر لینے میں مضائقہ نہیں کہ بلیک ملنگ وغیرہ کے انجام سے دوچار ہونے والی بیشتر آشنائیاں "دو طرفہ " ہی ہوتی ہیں۔ ہوتا یہ کہ مخلوط مجالس اور ماحول سے مخالف اصناف میں جذباتی قربتیں پیدا ہوتی ہیں ، پھر یہ قربتیں معاشقےکے مدارج طے کرتی آگے بڑھتی ہیں، باہم جینے اور مرنے کے وعدے اور دعوے ہوتے ہیں، پاسِ عہد اور خلوص و وفا کا ایک دوسرے کو ایسا یقین دلایا جاتا ہے کہ جدائی میں جینا ہر ایک کو محال لگنے لگتاہے۔ فی زمانہ ذرائع مواصلات کی فراوانی کی وجہ سے نہ صرف باہم 'خاص گفتگوئیں 'ہوتی ہیں بلک ذاتی نوعیت کے معاملات ، معلومات اور تصاویر وغیرہ بھی بے دھڑک ایک دوسرے کو فراہم کردی جاتی ہیں، یہی چیز آگے جا کر مصیبت بن جاتی ہے۔

اس جذباتی اور خیالی ماحول کے اندر وہ اپنے مستقبل کے شیش محل کی تعمیر میں مصروف ہوتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کے خاندان کا فیصلہ قہر بن کر ٹوٹتا اور اس شیش محل کے در ودیوار پر لرزہ طاری کر دیتا ہے ،یوں وہ عہد وفا جس کی استواری کی قسمیں کھائی جاچکی تھیں، تارعنکبوت کی طرح ہوا کی دوش میں بے محل گردش کرنے لگتا ہے۔ایسے میں بیشتر بچیاں ماں باپ اور اہل خاندان (خاص کر بھائی اور بھابھی کی بدمعاشی) کے ہاتھوںمجبور اپنی چاہت کی قربانی پر بادل ناخواستہ آمادہ ہو جاتی ہیں۔ ان کو یہ نیک گمان (بلکہ یقین ) لاحق ہوتا ہے کہ "دوست" بھی اس کی مجبوری کو سمجھ جائے گا، اور عذر قبول کرکے سہولت سے راستہ الگ کرلے گا، مگر افسوس کہ اکثر اوقات معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔

ہوس پرست اور خود غرض دوست کسی حال میں چھوڑنے پر راضی اور کسی صورت پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ہوتا ۔ اور جب معاملہ اس کے ہاتھ سے نکلتا ہوا محسوس ہوتا ہے تو انہی سامان کو ،جو اعتماد کی بنیاد پر اس کو بھیج دیے گئے تھے، ڈرانے اور دھمکانے کے لیے استعمال کرنے لگتا ہے۔ ایک طرف لڑکی ہے، جو نہ پائے رفتن ، نہ جائے ماندن کے مصدق بے بسی اور لاچارگی کی تصویر بن کر رہ جاتی ہے۔ دوسری طرف ہوس پرست دوست مطلب براری کے حربے ایک ایک کرکے استعمال کرنے لگتا ہے۔ظاہر ہے شرم و حیا اور خاندان کی توقیر کو ملیامیٹ کرنا ہر خاتون کے لیے ممکن نہیں ہوتا اور نہ ہی اس متوقع بے عزتی کو ، جو اس کے رفیق کے ہاتھوں اس کو ملنے والی ہے، انگیز کرنے کا ہر کسی میں یارا ہوتا ہے، اور نہ گھر کا ماحول اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ وہ اپنا دکھ کسی سے بیان کر سکے۔ ایسے میں لاچار وہ اپنی زندگی کا چراغ گل کرنے پر اتر آتی ہے، اور اس صورت حال میں خلاصی کا یہی واحد راستہ اس کو دکھائی اور سجھائی دیتا ہے کہ وہ موت کو گلے لگائے۔کوئی مانے یا نہ ، ہمارے ہاں، بچیوں کی اکثر خود کشیوں کے پیچھے اسی چیز کی کارفرمائی ہوتی ہے۔

بچیوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ پہلے اس غلطی سے باز رہنے کی کوشش کریں ، جس کا یہ انجام ہونا ہے۔ اور اگر انسان ہونے کے ناتے یہ غلطی ہو چکی ہے، اور صورتحال ایسی پیدا ہوگئی ہے تو سیدھا سیدھا ماں باپ کو یا بہنوں کو یا پھر کسی مخلص رشتہ دار خاتون کے ذریعے اپنے خاندان کو فورا مطلع کریں۔ اگر باپ بہت ہی سخت ہوا تو کیا ہوگا؟ زیادہ سے زیادہ ڈانٹ پڑے گی، ایک آدھ تھپڑ رسید ہو گی ، کچھ عرصہ منہ بسورے بیٹھے گااور بس! بتائیں یہ زیادہ تکلیف دہ ہے یا وہ اقدام جس میں اترجانا ، کسی حال میں پسندیدہ نہیں، کسی صورت قابل قبول نہیں اور کسی قانون میں جائز نہیں۔

بچیوں کو یہ بھی سمجھا دینی چاہیے کہ ماں باپ کے سامنے اپنا مسئلہ بیان کرنے سے ، ان کی غیرت و توقیر میں کمی آنے کا جو خوف تمھیں لاحق رہتا ہے، یہ اُس بے عزتی کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے، جس میں وہ تمھاری خود کشی کی وجہ سے مبتلا ہوتے ہیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایسے میں لوگ کیا کیا باتیں بناتے ، قصے گھڑتے اور ہرزہ سرائی کا سامان کرتے رہتے ہیں۔ آپ جو ایک بلیک میلر سے اپنی اور اپنے ماں باپ کی عزت بچانے کے لیے اپنی جان مار دیتی ہیں، یقین کریں اس پر لوگ آپ کو معاف نہیں کرتے، آپ کے خلاف وہ وہ باتیں بنائی جاتی ہیں کہ جن کی خبر آپ کے فرشتوں کو بھی نہیں ہوتی ، آپ کے والدین، آپ کے بھائی، آپ کی بہنیں( جو دوسروں کے گھروں میں ہوتی ہیں)، آپ کی سہیلیاں اور آپ کے اہل و عیال سر اٹھا کر چلنا تو چھوڑیے، کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔ آپ کی جدائی کی اذیت اپنی جگہ ، مگر لوگوں کی گھڑی ہوئی باتیں عرصہ تک ان کی نیند حرام اور زندگی اجیرن کردیتی ہیں۔ بلیک میلنگ کے معاملے کو عام طور پر بچیاں اُس نئے رشتے کے سامنے رسوا ہونے کے خوف سے بھی دبا دیتی ہیں، جو ان کے ماں باپ ان کی مرضی کے برعکس جوڑنے لگتے ہیں، اور بچی اب ناگوار اس خاندان میں داخل ہونے جارہی ہوتی ہے، وہ نہیں چاہتی کہ اس گھر میں پہنچتے پہنچتے اس کی کہانی کا چرچا ہو اور اس کے معاشقے کے گیت جائیں ۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے، جو بچی کی رہی سہی قوت مضمحل کردیتا ہےاور وہ اپنے تئیں قعرِ مذلت میں گرنے کے بجائے موت کے گڑھے کے حوالے کردیتی ہے۔

عرض ، خود کشی کو کسی صورت اور حال میں جائز اور معقول قرار نہیں دیا جاسکتا،یہ ہر حال میں مردود ہے، ہر صورت میں ناجائز ہے، ہر پہلو سے نامعقول ہے اور ہر نہج سے ملعون ہے۔۔۔۔ہزار راستے ہوں گے جو اس کے اقدام کے بغیر مسئلے کے حل کے لیے دستیاب ہوں گے۔۔۔۔۔ یہ ایک بزدلانہ حرکت ہے، حالات سے فرار کا ایک گمنام راستہ ہے، خود اعتمادی کی ضد ہے، جوانمردی کے خلاف ہے، رشتوں سے بدگمانی کی نشانی ہے، زندگی سے نفرت کی علامت ہے، ماں باپ پر عدم اعتماد کی دلیل ہے، شکست خوردگی ، بے صبری اور بے مروتی کی پہچان ہے۔
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

ڈپٹی اسپیکر ثریّا بی بی کے ساتھ بد اخلاقی پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان ہر گز برداشت نہیں کرینگے۔ ثریا بی بی خیبر پختون...
06/09/2025

ڈپٹی اسپیکر ثریّا بی بی کے ساتھ بد اخلاقی پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان ہر گز برداشت نہیں کرینگے۔
ثریا بی بی خیبر پختونخوا اسمبلی کی واحد منتخب خاتون ایم پی اے ہیں انہوں نے اپر چترال جیسے دُور افتادا ضلع سے بڑے مارجن پر اپنے مد مقابل کو شکست سے دوچار کیا۔ اور اللہ کے فضل سے آج ڈپٹی اسپیکر کے منصب پر بیٹھی ہے۔ یہ انکی نیک نیتی کا سلہ ہے۔
ثریا بی بی انتہائی انصاف پسند اور ورکر پسند خاتون ہے۔ اور ہمیشہ فیصلہ حق پر کرتی ہے۔ اورہمیشہ چترال کے ترقی کے لیے سوچتی ہے۔اور اپر چترال پہلے کے مقابلے ثریّا بی بی کے اقتدار میں زیادہ ترقی کر رہا ہے۔ بد قسمتی سے خیراتی نشست پر آنے والے بھی آج ڈپٹی اسپیکر کے سامنے بولنے لگے جن کی حیثیت چترال میں چند ووٹوں کی بھی نہیں ہے۔ ہمیں آج بھی وہ جملہ یاد ہے جو رکشوں کے پیچھے لکھتے تھے (بابا ٹہ ایزی لوڈ وكہ)۔ شاید آج بھی اس لیے زبان درازی ہوئی۔
انسان کو چادر دیکھ کر پاؤں پیلانا چاہیے۔ چترال کے عوام اور ورکر ہمیشہ ثریّا بی بی کے ساتھ تھے اور رہینگے۔ خدیجہ بی بی کو چاہیے کہ وہ ڈپٹی اسپیکر سے معافی مانگے اور اپنے الفاظ واپس لے لے۔

واجد خان وائس پریذیڈنٹ انصاف یوتھ ونگ ڈسٹرکٹ لوئر چترال۔

صدائے دل۔گورنمنٹ ڈگری کالج بونی کے محترم پرنسپل صاحب ایک نہایت قابل، پیشہ ور، مخلص اور ادارے کے ساتھ دلی ہمدردی رکھنے وا...
06/09/2025

صدائے دل۔
گورنمنٹ ڈگری کالج بونی کے محترم پرنسپل صاحب ایک نہایت قابل، پیشہ ور، مخلص اور ادارے کے ساتھ دلی ہمدردی رکھنے والے انسان ہیں۔ وہ پورے اپر چترال میں کسی بھی تعلیمی ادارے میں گریڈ 20 کے واحد افسر بھی ہیں، جنہوں نے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں، انتظامی بصیرت اور تعلیمی خدمات کے ذریعے ادارے کی مجموعی حالت میں نمایاں بہتری پیدا کی۔
یقیناً، تبادلہ و تقرری ایک معمول کا انتظامی عمل ہے اور سرکاری ملازمین ادارے کے احکامات کے تابع ہوتے ہیں۔ تاہم، اس عمل کو اچانک اور بغیر اطلاع کے انجام دینا، خصوصاً ایک تجربہ کار اور اعلیٰ عہدے پر فائز افسر کے ساتھ، نہ صرف ادارے کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ طلباء اور مقامی کمیونٹی کے تعلیمی مفاد کے بھی منافی ہے۔
محترم پرنسپل صاحب کی قیادت میں کالج میں متعدد نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں۔ اُن کی کوششوں سے:
کالج کی تعلیمی فضا میں بہتری آئی.
پانی، ہاسٹل، لائبریری، انٹرنیٹ اور دیگر بنیادی مسائل کو حل کیا گیا.
گراؤنڈ کی توسیع اور شجرکاری مہم شروع کی گئی.
سب سے بڑھ کر، بونی جیسے پسماندہ علاقے میں BS پروگرامز (انگلش، زوالوجی، کمپیوٹر سائنس) کا آغاز کیا گیا، جو کہ ایک تاریخ ساز قدم ہے۔
یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ پرنسپل صاحب نے اپنی ذاتی کاوشوں اور روابط کے ذریعے مختلف غیر سرکاری تنظیموں (NGOs) سے تعاون حاصل کیا، اور ان کے اشتراک سے کالج کی تعمیر و ترقی، سہولیات کی بہتری اور تعلیمی ماحول کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ سب کچھ انہوں نے بغیر کسی ذاتی مفاد کے، خالصتاً ادارے اور طلباء کے فائدے کے لیے انجام دیا۔
محترم پرنسپل صاحب نے نہ صرف اسٹاف کے درمیان ہم آہنگی، دوستانہ ماحول اور تعاون کو فروغ دیا بلکہ غیر تدریسی عملے کو بھی بھرپور ذمے داری سے کام کرنے کی ترغیب دی۔
اسی طرح، جناب رحمت حاصل صاحب بھی ایک انتہائی محنتی، دیانت دار اور باصلاحیت استاد ہیں، جو کالج میں BS پروگرام کے کوآرڈینیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ وہ فزکس جیسے اہم مضمون کے واحد استاد ہیں اور ان کا اندازِ تدریس طلباء میں بے حد مقبول ہے۔ جس روز اُن کا تبادلہ ہوا، اسی صبح وہ بدستور پوری لگن سے اپنی کلاس میں طلباء کو پڑھا رہے تھے — جو اُن کے جذبے اور ذمہ داری کا ثبوت ہے۔
ہماری گزارش ہے کہ پرنسپل صاحب اور رحمت حاصل صاحب کے اچانک تبادلے کے فیصلے پر نظرِثانی کی جائے۔
یہ فیصلہ ادارے، طلباء، والدین اور پورے اپر چترال کے تعلیمی مستقبل پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
یہ کسی کے خلاف شکایت نہیں،
بلکہ ایک اجتماعی صدا ہے —
ادارے کے استحکام، طلباء کے مستقبل اور علاقے کی علمی ترقی کے لیے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں انصاف، فہم و فراست اور بہتر فیصلوں کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین

تحریر: احتشام چترال

بیٹی کی انصاف کے لئے اپیل سحرش کریم میرے والد، گورنمنٹ ڈگری کالج بونی کے پرنسپل، نے اپنی زندگی کے 33 سال سے زائد اس قوم ...
06/09/2025

بیٹی کی انصاف کے لئے اپیل
سحرش کریم
میرے والد، گورنمنٹ ڈگری کالج بونی کے پرنسپل، نے اپنی زندگی کے 33 سال سے زائد اس قوم اور اس کے نوجوانوں کی خدمت کے لئے وقف کر دیے ہیں۔ وہ چترال کی تاریخ کے سب سے محنتی اور مخلص اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی وفاداری اور لگن ہمیشہ طلباء اور تعلیم کے مقصد کے ساتھ رہی ہے۔

مگر افسوس کہ حال ہی میں انہیں ایک غیر منصفانہ اور سیاسی اثر و رسوخ کے نتیجے میں تبادلے کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے اپنے انتظامی اختیار کے تحت ایک کلاس فور ملازم کو فارغ کیا جو بار بار ڈیوٹی سے غیر حاضر رہتا تھا۔ اس پیشہ ورانہ فیصلے کو سیاسی تعلقات کے ذریعے میرے والد کے تبادلے میں بدل دیا گیا۔

یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ایسے تبادلوں پر پہلے سے پابندی عائد تھی اور صرف ان اداروں میں یہ پابندی اٹھائی جا سکتی تھی جہاں 100 سے زیادہ ملازمین ہوں۔ لیکن اس اصول کو توڑتے ہوئے یہ پابندی صرف دو افراد کے لئے ختم کی گئی: میرے والد اور ایک لیکچرر کے لئے جنہیں ان کے ساتھ ہی ٹرانسفر کیا جا رہا ہے۔ یہ اقدام شفافیت اور قانونی عمل پر کئی سوالات اٹھاتا ہے۔

گزشتہ دو دنوں سے طلباء سڑکوں پر پُرامن احتجاج کر رہے ہیں تاکہ اپنے پرنسپل کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو روکا جا سکے، مگر ان کی آواز کو مسلسل دبایا جا رہا ہے اور انہیں دھمکایا جا رہا ہے کہ اگر وہ احتجاج جاری رکھیں گے تو انہیں نتائج بھگتنا ہوں گے۔

ایک بیٹی ہونے کے ناطے میں سوال کرتی ہوں: کیا یہ دہائیوں کی ایمانداری، وفاداری اور خدمت کا صلہ ہے؟ کیا ہمارا نظام اسی طرح چلتا ہے کہ جو کام نہ کرے اور سیاسی تعلقات رکھے وہ بچ جائے اور جو پوری زندگی ایمانداری سے قوم کی خدمت کرے وہ سزا پائے؟
یہ ایک سنگین لمحہ فکریہ ہے۔ میری تمام متعلقہ حکام سے گزارش ہے کہ اس بے وقت اور غیر منصفانہ تبادلے کو فی الفور روکا جائے اور انصاف کو یقینی بنایا جائے۔

اس کے علاؤہ وزیر اعلیٰ، صوبہ خیبر پونختواہ، ایجوکیشن منسٹر اور چیف سکریٹری اور دیگر زمہ داروں سے بھی استدعا ہے کہ اس بیٹی کی آواز کو اپنی بیٹی کی آواز سمجھکر انصاف سے کام لیکر میرے والد کو حوصلہ شکنی سے بچائیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسپاوز پالیسی کے تحت بھی میرے والد صاحب کی پوسٹنگ اپر چترال میں ہی ہونی چاہئے کیونکہ میری والدہ بھی ایک گورنمنٹ ایلیمنٹری اینڈ سکینڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں BPS - SCT-16 میں ایک ٹیچر ہیں میرے والد کے ڈسٹرکٹ دیر میں آنے کی وجہ سے وہ اپر چترال میں اکیلی رہ جائینگی۔
اسی کے ساتھ میری اپیل ہے کہ محترمہ ثریا صاحبہ (پی ٹی آئی) اور سینیٹر فلک ناز کائے صاحبہ) سے بھی کہ اس معاملے کو اپنی توجہ میں لائیں۔ اور اس پر ہمدردانہ غور فرمائیں۔ محترمہ ثریا بی بی کائے، آپ نے کہا ہے کہ اس معاملے سے پی ٹی آئی حکومت کا کوئی تعلق نہیں، لیکن ایک عوامی رہنما ہونے کے ناطے ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ اپنے حلقے کی تعمیر و ترقی کو نقصان پہنچانے نہ دیں۔ براہِ کرم اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھیں اور انصاف دلوانے میں اپنے پارٹی منشور تحریک انصاف کے مطابق اپنا کردار ادا کریں۔

علاؤہ ازین یہ صرف کسی ایک کالج کے پرنسپل کا مسئلہ نہیں ہے، یہ ہمارے تعلیمی اداروں کی ساکھ، اساتذہ کے حوصلے اور طلباء کے مستقبل کا سوال ہے۔
آخر میں، میں خاص طور پر سینیٹر طلحہ محمود صاحب سے بھی درخواست کرتی ہوں کہ وہ چترال کے مخلص، تعلیم دوست اور پُرامن عوام کو ناتلافی نقصان سے بچانے کے لئے پیش آمدہ صورتحال کی مکمل تحقیق کرکے وہ اس معاملے کو حل کرنے کی ہمدردانہ سفارش فرمائیں۔ کیونکہ آپ کی ہمدردی اور آواز ہمارے لئے امید کا باعث ہے۔

✒ ایک بیٹی کی اپنے والد کے ساتھ انصاف کے لئے آواز

بڑی خبر گلگت بلتستان داریل سے تعلق  رکھنے والا  محمد نصیر  سب سے زیادہ اولاد  کا ریکارڈ اپنے نام کر دیا بیالیس بچوں کا ب...
05/09/2025

بڑی خبر
گلگت بلتستان داریل سے تعلق رکھنے والا محمد نصیر سب سے زیادہ اولاد کا ریکارڈ اپنے نام کر دیا بیالیس بچوں کا باپ ہیں تین بیویاں ، بیالیس بچے ، چھتیس حیات ، چھے وفات گلگت بلتستان کا کثیر الاولاد شخص قرار

لاہور میں دو ماہ قبل  مکھ منتری  کی طرف سے شروع کیا گیا بائیک لین منصوبہ ختم کردیا گیا اس منصوبے میں صرف پینٹ کی مد میں ...
05/09/2025

لاہور میں دو ماہ قبل مکھ منتری کی طرف سے شروع کیا گیا بائیک لین منصوبہ ختم کردیا گیا
اس منصوبے میں صرف پینٹ کی مد میں مبینہ طور پر 80 کروڑ کی کرپشن کی گئی ہے🤣🖐

چترال نرسز فورم کی ایم پی اے خدیجہ بی بی اور اسپیکر صوبائی اسمبلی سے ملاقاتیں فریدہ فراز چئیر پرسن چترال نرسز فورم پاکست...
05/09/2025

چترال نرسز فورم کی ایم پی اے خدیجہ بی بی اور اسپیکر صوبائی اسمبلی سے ملاقاتیں

فریدہ فراز چئیر پرسن چترال نرسز فورم پاکستان کی سربراہی میں صدر جعفریاد حسین اور نائب چیئرپرسن کلثوم کی ایم پی اے میڈم خدیجہ بی بی سے
ملاقات اور پورے پاکستان بالخصوص کے پی کے نرسز کی طرف سے تعیناتی پر مبارکباد پیش کیا گیا۔

ملاقات کے بعد میڈم خدیجہ کو چترال نرسز فورم کی طرف سے پھولوں کا گلدستہ پیش کیا گیا اور نرسز کو درپیش مسائل تحریری طور جمع کروایا گیا

میڈم خدیجہ ایم پی اے اے این پی نرسز کی مسائل سننے کے بعد، اسپیکر سے وقت لی اور نرسز فورم کی ملاقات اسپیکر صوبائی اسمبلی جناب سلیم بابر سلیم سواتی سے کروائی

جعفریاد حسین پریذیڈنٹ چترال نرسز فورم پاکستان نے اسپیکر صوبائی اسمبلی جناب سلیم بابر سواتی اور ایم پی اے میڈم خدیجہ بی بی کو چترال نرسز فورم اور ان کی آٹھ سالہ خدمات کے بارے میں بریفننگ دی اور نرسز کو درپیش مسائل اور چیلنجز آپ کے سامنے رکھا۔

1. اپر و لوئر چترال میں خیبر میڈیکل یونیورسٹی سے نرسنگ کالجز کی منظوری کے باوجود کلاسز شروع کروانے میں تاخیر کا ذکر کیا گیا اور اس معاملے پر آسانیاں پیدا کرنے کی گزارش کی گئی
2.علحیدہ نرسنگ ڈائریکٹوریٹ کی اہمیت پر بریفننگ دیکر پارلیمنٹ سیشن میں آواز اٹھانے کی گزارش کی گئی
3. ایم ٹی آئی رول اور ایم ٹی آئی نرسز کے بارے میں بریفننگ دیکر پارلیمنٹ میں ان کو مستقل کرنے کی قانون سازی پر زور دیتے ہوئے گزارش کی گئی
4. کے پی گورنمنٹ کا اپنا ادارہ ایس ایس آر یو کی رپورٹ کے مطابق، نو ہزار ہزار کی کمی کو دیکھتے ہوئے پبلیک سروس کمیشن کے تھرو نرسز کی انڈکشن پر کردار ادا کرنے کی کوشش کی گئی۔

اسپیکر صوبائی اسمبلی جناب سلیم بابر سواتی نے مکمل تعاون کا یقین دلایا اور ایم پی اے میڈم خدیجہ بی بی نے اسمبلی سیشن میں آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ ہر فورم پر نرسز کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کی۔

چترال نرسز فورم ضلعی صدر اے این پی اپر چترال جناب شیر وزیر لال کا بھی شکریہ ادا کرتی ہے جنہوں نے اس میٹنگ کو یقینی بنانے کے لئے اہم کردار ادا کی

حسینہ اسحاق فوکل پرسن چترال نرسز فورم پاکستان

Address

Chitral

Telephone

03440566778

Website

https://www.youtube.com/@IbadRehmanvlogs

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Shekhan News Network posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Shekhan News Network:

Share