
18/09/2025
جسمانی آگاہی اور محفوظ رویوں کی تعلیم: اب کے بعد ناگزیر
میمونہ عباس
کتنی عجیب بات ہے نا کہ جس ناسور کلچر کے بارے میں بات کرتے ہوئے، اپنے بچوں کو محتاط رہنے کی ہدایت دیتے ہوئے کبھی جن والدین کی زبان لڑکھڑاتی تھی اور متبادل الفاظ پر مشتمل نصیحتیں کرنے میں عافیت جانتی تھی، وہی آج کاشان راجہ کی المناک موت کے بعد اپنے بچوں کو کھلے ڈلے الفاظ میں بتا رہے ہیں کہ اب انہیں خطرہ اپنے ہی دوستوں سے ہے۔۔۔کیونکہ گلگتی ثقافت اب ہم جنس پرستی کی دلدل میں کچھ یوں دھنس چکی ہے کہ اپنے نو عمر اور نوجوان بیٹوں کو ہڑپنے لگی ہے۔
یہ وہی ثقافت ہے جس کے ٹھیکیداروں نے پہلے تو عورت کو مشقِ ستم بنایا، حالآنکہ جسے خطرہ بھی ہمیشہ عورت کے وجود سے رہا، مگر اپنے بیٹے بھی نہ چھوڑے۔ یہ وہی ثقافت ہے جو نگلتی اپنے کمسن بیٹوں کو ہے اور اس جنسی درندگی پر اترانے کے لئے ان کے پاس بال کھٹار (Boy killer) جیسے مکروہ بیانیے ہیں، جو اب وحشیانہ طرزِ زندگی میں ڈھل کر جنسی و نفسیاتی غلاظت کی تفسیر بن چکے ہیں۔
ایسی ثقافت جو مردوں کو سرِ عام، سرِ بازار، بیچ چوک چوراہوں پر مجمع لگا کر "کس نے کتنے لڑکے پھانسے" پر مبنی اپنی حیوانیت و بربریت کی داستانوں کی تفصیل سنانے پر ساتھیوں سے انہیں فخریہ "بی-کے" کہلوائے، بہتر یہی ہے کہ ایسی ثقافت اور ذہنیت کا نام و نشان مٹ جائے۔ یہ وہی ثقافت ہے جو صرف مرد کی ہوس پر ٹکی ہے اور مردانگی کے اظہاریے کے طور پر اپنے بیٹوں کو ہوس کا نشانہ بنا کر، انہیں نوچ کر، ان کی سانسیں بند کر کے انہیں دریا کی لہروں کے حوالے کرنے میں شرمندگی محسوس نہ کرے۔۔۔
بہتر یہی ہے کہ ایسی ثقافت کا نام و نشان نہ ہی رہے۔ اور بیٹے بھی کون؟
وہ! جن کے صرف نام بدلتے ہیں؛ کبھی یہ معصوم حسنین ہے تو کبھی اشکومن کا دیدار حسین، کبھی یاسین کا ہونہار طالب علم مسلم خان تو کبھی کوئی اور۔۔۔ یہ سلسلہ ہے کہ رکتا ہی نہیں!!! مجھے یہ پوچھنا ہے کہ آپ کے اندر کا حیوان آخر ہمارے کتنے بیٹوں کی جان لے کر دم لے گا؟؟؟
ایک زمانہ تھا کہ مائیں بیٹیاں جَنتے دل تھام لیتی تھیں کہ جانے میری بیٹی کا مقدر کیسا ہو۔۔۔ مگر زمانے کی کروٹ دیکھیے، اب گلگت بلتستان کی مائیں بیٹوں کو جنم دیتے ہوئے گھبرایا کریں گی کہ جانے میرا بیٹا جوانی کی بہاریں دیکھ بھی سکے گا یا کسی وحشی "بی-کے" کے ہاتھوں اس کا حسن، جوانی اور زندگی پامال ہی ہوگی۔۔۔! کیا ہی کڑا وقت آن پڑا ہے ہم ماؤں پر کہ اب بیٹے گھروں سے نکلا کریں گے تو ہم ان کی بخیر و عافیت واپسی تک دل تھام کر بیٹھا کریں گی۔ کیونکہ ہمیں معلوم نہیں کہ دوست کے روپ میں کون سا دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے۔ اب سے مائیں صرف بیٹیوں کے لئے نہیں بلکہ بیٹوں کے لئے بھی رویا کریں گی۔ اور اگر مردانگی یہ ہے کہ وہ ہمارے معصوم بیٹوں کی عزتوں سے کھیل کر ہی پروان چڑھنی ہے تو تف ہے اس نام نہاد ثقافت اور آپ کی مردانگی پر!!!
کل سے اس واقعے اور خصوصاً "بی-کے کلچر" کی اتنی تشریحات گردش میں ہیں کہ ذہن و دل عجیب درد و کرب کی کیفیت میں ڈوبے ہیں۔ خصوصاً وہ ایک تحریر کیسی دل دہلا دینے والی ہے جس میں ایک طالب علم نے اپنا وہ تجربہ بیان کیا ہے جب اس نے لڑکوں کو آپس میں بات کرتے، اپنے پسندیدہ لڑکے کو کوکا کولا پر دم کرانے اور اپنے قابو میں پھر بھی نہ آنے پر برہمی کا اظہار کرتے سنا، اور انہی لڑکوں کی زبانی یہ فرمائش کہ وہ انہیں ہاسٹل لے جا کر چکنے لڑکوں سے ملوائے۔۔۔ ذرا سوچیے گا کیا یہ باتیں کسی صحت مند معاشرے کی ترتیب میں موزوں لگتی ہیں؟ یعنی یہ نوجوان لڑکے نہ صرف ایک مذموم لت کا شکار ہیں بلکہ اپنے مطلوبہ اہداف پورے کرنے کے لئے تعویذ گنڈوں تک بھی جا پہنچے ہیں۔ یعنی کہ "یک نہ شد دو شد"! اور تعویذ ظاہر ہے کوئی بہت ہی پہنچا ہوا عامل تیار کر کے دے گا۔۔۔ تو اخلاقیات کا جنازہ کب، کہاں اور کیسے نکلا؟ یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔
ہماری غریب عوام کی ایک بڑی تعداد مشکل ترین زندگی کو مزید کٹھن بنا کر اپنے ہونہار بچوں کو پڑھائی کے واسطے دور اس شہر گلگت بھیج کر خوش ہوتی ہے کہ اب ان کا بیٹا پڑھ لکھ کر ان کا سہارا بنے گا۔ اور یہاں جناب نہ تو ہاسٹل محفوظ ہیں، نہ سکول اور نہ کوئی شاہراہ یا کوئی سماجی اکٹھ کی جگہ!
اس واقعے سے پہلے بھی کئی بار اور تواتر سے رونما ہوتے واقعات دیکھ کر جب بھی ہم نے بات اٹھائی کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے گھروں، سکولوں، مدرسوں، ہاسٹلوں میں اور ان تمام جگہوں پر جہاں ہماری نوجوان نسل اکٹھی ہوتی ہے، وہاں ہم محفوظ رویوں کی تربیت اور جسمانی آگاہی و حفاظت پر بات کریں، تو اس بات کو یوں ٹالا گیا گویا یہ مسئلے صرف مغرب کے ہیں اور ہم مغرب کی تقلید میں اور "جنسی تعلیم" کی آڑ میں شاید کوئی تباہ کن مشورہ دے بیٹھے ہیں۔
مگر یہ پے در پے رونما ہونے والے واقعات خود گواہ ہیں کہ اب حکومت کو آنکھیں کھولنے اور اس تعلیم کو، بھلے آپ اسے "زندگی کی مہارت" کہیں یا جو بھی کوئی نام دیں۔۔۔ خدارا اسے ہمارے سکولوں میں نصاب کا حصہ بنائیں اور ان پڑھ والدین سے یہ امید مت رکھیں کہ وہ اپنے بچوں کو اس قدر نازک اور حساس رویوں کے بارے میں اس طرح کی آگاہی فراہم کر سکیں، جس قسم کی آج ہمارے بچوں کو ضرورت ہے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ گاؤں کے سادہ دل اور سادہ لوح لوگوں کو اس مشہور کلچر کا شاید سرے سے پتہ بھی نہ ہو۔
اگر یہ نہ ہوا اور ہمارے بچوں کو اب بھی اس آگاہی سے محروم رکھا گیا تو یہ سلسلہ شاید ہی کبھی رکے! اور انصاف کی کیا ہی کروں بات۔۔۔ اگر ماضی میں کسی ایک بھی مجرم کو ایسے ہی کسی چوراہے پر لٹکا کر نشانِ عبرت بنا دیا جاتا یا ان کی زبانیں ہی نوچ لی جاتیں جو اپنی محافل میں بال کھٹار جیسے نیچ القابات کو فخریہ پیش کرتے ہیں۔ اے کاش! مگر ایسا کبھی نہیں ہوا نا؟ تو بس پھر گنتے رہیے لاشیں۔۔۔
لیکن اب وقت ہے کہ جوش کے بجائے ہوش سے کام لیں۔ یہ تمام احتجاجی مظاہرے ثابت کرتے ہیں کہ یہ ایک خاندان کا نہیں بلکہ پورے گلگت بلتستان کا مشترکہ دکھ ہے۔ اور اگر اپنی نوجوان نسل کو بچانا ہے تو انہی پلیٹ فارمز کے ذریعے آپ حکومتِ وقت سے مطالبہ کریں کہ اب سے جسمانی آگاہی اور محفوظ رویوں کی تربیت کو "لائف اسکلز ایجوکیشن" کے تحت نصاب کا حصہ بنائے۔ اساتذہ کے لیے خصوصی تربیتی پروگرام منعقد ہوں تاکہ وہ بچوں کو مناسب، حساس اور قابلِ فہم زبان میں اس مسئلے پر آگاہی دے سکیں۔ حکومت و دیگر متعلقہ اداروں، نیز این جی اوز کو چاہیے کہ والدین کے لیے آگاہی نشستیں اور ورکشاپس منعقد کی جائیں تاکہ وہ بھی اپنے بچوں کو گھروں میں اعتماد اور تحفظ دے سکیں۔
نیز یہ نہایت ضروری ہے کہ بچوں کے جنسی استحصال اور تشدد کی روک تھام کے لیے جو قوانین پہلے ہی منظور ہو چکے ہیں، انہیں محض کاغذی کارروائی تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ ان پر مؤثر اور عملی طور پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ اس کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدلیہ، تعلیمی اداروں اور والدین سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ان قوانین کے ثمرات حقیقت میں معاشرے کے ہر بچے تک پہنچ سکیں۔ کم از کم سکولوں کو اس بات کا پابند ہی بنا دیا جائے کہ وہ Child Protection and Response Act 2017 کو نہ صرف اپنی پالیسیوں کا حصہ بنائیں بلکہ سکول کالجز میں بچے بچے کو اس کی آگاہی فراہم کریں۔بچوں کو یہ تو پتہ ہو کہ انہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ اور کیا پتہ ایسا کرتے ہم مزید مجرم پیدا کرنے سے روکیں۔
اسکولوں اور ہاسٹلز میں بچوں کے لیے ایک محفوظ اور خفیہ شکایتی نظام قائم کیا جائے تاکہ وہ اپنی بات بغیر خوف کے رکھ سکیں۔۔۔
کیونکہ اب بھی اگر ہم نے اس بے گناہ کا خون رائیگاں جانے دیا تو ہمارے بیٹے ہمیں معاف بھی نہ کرسکیں۔ اور اس کے لئے ہمیں جسمانی آگاہی اور محفوظ رویوں کی تعلیم اور تربیت کو لازمی قرار دینا ہوگا۔