Anwaz Media Network - AMN

Anwaz Media Network - AMN A multilingual news and entertainment channel for the audience of Northern Pakistan including Chitral and Gilgit Baltistan

جسمانی آگاہی اور محفوظ رویوں کی تعلیم: اب کے بعد ناگزیرمیمونہ عباسکتنی عجیب بات ہے نا کہ جس ناسور کلچر کے بارے میں بات ک...
18/09/2025

جسمانی آگاہی اور محفوظ رویوں کی تعلیم: اب کے بعد ناگزیر

میمونہ عباس

کتنی عجیب بات ہے نا کہ جس ناسور کلچر کے بارے میں بات کرتے ہوئے، اپنے بچوں کو محتاط رہنے کی ہدایت دیتے ہوئے کبھی جن والدین کی زبان لڑکھڑاتی تھی اور متبادل الفاظ پر مشتمل نصیحتیں کرنے میں عافیت جانتی تھی، وہی آج کاشان راجہ کی المناک موت کے بعد اپنے بچوں کو کھلے ڈلے الفاظ میں بتا رہے ہیں کہ اب انہیں خطرہ اپنے ہی دوستوں سے ہے۔۔۔کیونکہ گلگتی ثقافت اب ہم جنس پرستی کی دلدل میں کچھ یوں دھنس چکی ہے کہ اپنے نو عمر اور نوجوان بیٹوں کو ہڑپنے لگی ہے۔

یہ وہی ثقافت ہے جس کے ٹھیکیداروں نے پہلے تو عورت کو مشقِ ستم بنایا، حالآنکہ جسے خطرہ بھی ہمیشہ عورت کے وجود سے رہا، مگر اپنے بیٹے بھی نہ چھوڑے۔ یہ وہی ثقافت ہے جو نگلتی اپنے کمسن بیٹوں کو ہے اور اس جنسی درندگی پر اترانے کے لئے ان کے پاس بال کھٹار (Boy killer) جیسے مکروہ بیانیے ہیں، جو اب وحشیانہ طرزِ زندگی میں ڈھل کر جنسی و نفسیاتی غلاظت کی تفسیر بن چکے ہیں۔

ایسی ثقافت جو مردوں کو سرِ عام، سرِ بازار، بیچ چوک چوراہوں پر مجمع لگا کر "کس نے کتنے لڑکے پھانسے" پر مبنی اپنی حیوانیت و بربریت کی داستانوں کی تفصیل سنانے پر ساتھیوں سے انہیں فخریہ "بی-کے" کہلوائے، بہتر یہی ہے کہ ایسی ثقافت اور ذہنیت کا نام و نشان مٹ جائے۔ یہ وہی ثقافت ہے جو صرف مرد کی ہوس پر ٹکی ہے اور مردانگی کے اظہاریے کے طور پر اپنے بیٹوں کو ہوس کا نشانہ بنا کر، انہیں نوچ کر، ان کی سانسیں بند کر کے انہیں دریا کی لہروں کے حوالے کرنے میں شرمندگی محسوس نہ کرے۔۔۔

بہتر یہی ہے کہ ایسی ثقافت کا نام و نشان نہ ہی رہے۔ اور بیٹے بھی کون؟


وہ! جن کے صرف نام بدلتے ہیں؛ کبھی یہ معصوم حسنین ہے تو کبھی اشکومن کا دیدار حسین، کبھی یاسین کا ہونہار طالب علم مسلم خان تو کبھی کوئی اور۔۔۔ یہ سلسلہ ہے کہ رکتا ہی نہیں!!! مجھے یہ پوچھنا ہے کہ آپ کے اندر کا حیوان آخر ہمارے کتنے بیٹوں کی جان لے کر دم لے گا؟؟؟

ایک زمانہ تھا کہ مائیں بیٹیاں جَنتے دل تھام لیتی تھیں کہ جانے میری بیٹی کا مقدر کیسا ہو۔۔۔ مگر زمانے کی کروٹ دیکھیے، اب گلگت بلتستان کی مائیں بیٹوں کو جنم دیتے ہوئے گھبرایا کریں گی کہ جانے میرا بیٹا جوانی کی بہاریں دیکھ بھی سکے گا یا کسی وحشی "بی-کے" کے ہاتھوں اس کا حسن، جوانی اور زندگی پامال ہی ہوگی۔۔۔! کیا ہی کڑا وقت آن پڑا ہے ہم ماؤں پر کہ اب بیٹے گھروں سے نکلا کریں گے تو ہم ان کی بخیر و عافیت واپسی تک دل تھام کر بیٹھا کریں گی۔ کیونکہ ہمیں معلوم نہیں کہ دوست کے روپ میں کون سا دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے۔ اب سے مائیں صرف بیٹیوں کے لئے نہیں بلکہ بیٹوں کے لئے بھی رویا کریں گی۔ اور اگر مردانگی یہ ہے کہ وہ ہمارے معصوم بیٹوں کی عزتوں سے کھیل کر ہی پروان چڑھنی ہے تو تف ہے اس نام نہاد ثقافت اور آپ کی مردانگی پر!!!

کل سے اس واقعے اور خصوصاً "بی-کے کلچر" کی اتنی تشریحات گردش میں ہیں کہ ذہن و دل عجیب درد و کرب کی کیفیت میں ڈوبے ہیں۔ خصوصاً وہ ایک تحریر کیسی دل دہلا دینے والی ہے جس میں ایک طالب علم نے اپنا وہ تجربہ بیان کیا ہے جب اس نے لڑکوں کو آپس میں بات کرتے، اپنے پسندیدہ لڑکے کو کوکا کولا پر دم کرانے اور اپنے قابو میں پھر بھی نہ آنے پر برہمی کا اظہار کرتے سنا، اور انہی لڑکوں کی زبانی یہ فرمائش کہ وہ انہیں ہاسٹل لے جا کر چکنے لڑکوں سے ملوائے۔۔۔ ذرا سوچیے گا کیا یہ باتیں کسی صحت مند معاشرے کی ترتیب میں موزوں لگتی ہیں؟ یعنی یہ نوجوان لڑکے نہ صرف ایک مذموم لت کا شکار ہیں بلکہ اپنے مطلوبہ اہداف پورے کرنے کے لئے تعویذ گنڈوں تک بھی جا پہنچے ہیں۔ یعنی کہ "یک نہ شد دو شد"! اور تعویذ ظاہر ہے کوئی بہت ہی پہنچا ہوا عامل تیار کر کے دے گا۔۔۔ تو اخلاقیات کا جنازہ کب، کہاں اور کیسے نکلا؟ یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔

ہماری غریب عوام کی ایک بڑی تعداد مشکل ترین زندگی کو مزید کٹھن بنا کر اپنے ہونہار بچوں کو پڑھائی کے واسطے دور اس شہر گلگت بھیج کر خوش ہوتی ہے کہ اب ان کا بیٹا پڑھ لکھ کر ان کا سہارا بنے گا۔ اور یہاں جناب نہ تو ہاسٹل محفوظ ہیں، نہ سکول اور نہ کوئی شاہراہ یا کوئی سماجی اکٹھ کی جگہ!
اس واقعے سے پہلے بھی کئی بار اور تواتر سے رونما ہوتے واقعات دیکھ کر جب بھی ہم نے بات اٹھائی کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے گھروں، سکولوں، مدرسوں، ہاسٹلوں میں اور ان تمام جگہوں پر جہاں ہماری نوجوان نسل اکٹھی ہوتی ہے، وہاں ہم محفوظ رویوں کی تربیت اور جسمانی آگاہی و حفاظت پر بات کریں، تو اس بات کو یوں ٹالا گیا گویا یہ مسئلے صرف مغرب کے ہیں اور ہم مغرب کی تقلید میں اور "جنسی تعلیم" کی آڑ میں شاید کوئی تباہ کن مشورہ دے بیٹھے ہیں۔

مگر یہ پے در پے رونما ہونے والے واقعات خود گواہ ہیں کہ اب حکومت کو آنکھیں کھولنے اور اس تعلیم کو، بھلے آپ اسے "زندگی کی مہارت" کہیں یا جو بھی کوئی نام دیں۔۔۔ خدارا اسے ہمارے سکولوں میں نصاب کا حصہ بنائیں اور ان پڑھ والدین سے یہ امید مت رکھیں کہ وہ اپنے بچوں کو اس قدر نازک اور حساس رویوں کے بارے میں اس طرح کی آگاہی فراہم کر سکیں، جس قسم کی آج ہمارے بچوں کو ضرورت ہے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ گاؤں کے سادہ دل اور سادہ لوح لوگوں کو اس مشہور کلچر کا شاید سرے سے پتہ بھی نہ ہو۔

اگر یہ نہ ہوا اور ہمارے بچوں کو اب بھی اس آگاہی سے محروم رکھا گیا تو یہ سلسلہ شاید ہی کبھی رکے! اور انصاف کی کیا ہی کروں بات۔۔۔ اگر ماضی میں کسی ایک بھی مجرم کو ایسے ہی کسی چوراہے پر لٹکا کر نشانِ عبرت بنا دیا جاتا یا ان کی زبانیں ہی نوچ لی جاتیں جو اپنی محافل میں بال کھٹار جیسے نیچ القابات کو فخریہ پیش کرتے ہیں۔ اے کاش! مگر ایسا کبھی نہیں ہوا نا؟ تو بس پھر گنتے رہیے لاشیں۔۔۔

لیکن اب وقت ہے کہ جوش کے بجائے ہوش سے کام لیں۔ یہ تمام احتجاجی مظاہرے ثابت کرتے ہیں کہ یہ ایک خاندان کا نہیں بلکہ پورے گلگت بلتستان کا مشترکہ دکھ ہے۔ اور اگر اپنی نوجوان نسل کو بچانا ہے تو انہی پلیٹ فارمز کے ذریعے آپ حکومتِ وقت سے مطالبہ کریں کہ اب سے جسمانی آگاہی اور محفوظ رویوں کی تربیت کو "لائف اسکلز ایجوکیشن" کے تحت نصاب کا حصہ بنائے۔ اساتذہ کے لیے خصوصی تربیتی پروگرام منعقد ہوں تاکہ وہ بچوں کو مناسب، حساس اور قابلِ فہم زبان میں اس مسئلے پر آگاہی دے سکیں۔ حکومت و دیگر متعلقہ اداروں، نیز این جی اوز کو چاہیے کہ والدین کے لیے آگاہی نشستیں اور ورکشاپس منعقد کی جائیں تاکہ وہ بھی اپنے بچوں کو گھروں میں اعتماد اور تحفظ دے سکیں۔

نیز یہ نہایت ضروری ہے کہ بچوں کے جنسی استحصال اور تشدد کی روک تھام کے لیے جو قوانین پہلے ہی منظور ہو چکے ہیں، انہیں محض کاغذی کارروائی تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ ان پر مؤثر اور عملی طور پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ اس کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدلیہ، تعلیمی اداروں اور والدین سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ان قوانین کے ثمرات حقیقت میں معاشرے کے ہر بچے تک پہنچ سکیں۔ کم از کم سکولوں کو اس بات کا پابند ہی بنا دیا جائے کہ وہ Child Protection and Response Act 2017 کو نہ صرف اپنی پالیسیوں کا حصہ بنائیں بلکہ سکول کالجز میں بچے بچے کو اس کی آگاہی فراہم کریں۔بچوں کو یہ تو پتہ ہو کہ انہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ اور کیا پتہ ایسا کرتے ہم مزید مجرم پیدا کرنے سے روکیں۔

اسکولوں اور ہاسٹلز میں بچوں کے لیے ایک محفوظ اور خفیہ شکایتی نظام قائم کیا جائے تاکہ وہ اپنی بات بغیر خوف کے رکھ سکیں۔۔۔

کیونکہ اب بھی اگر ہم نے اس بے گناہ کا خون رائیگاں جانے دیا تو ہمارے بیٹے ہمیں معاف بھی نہ کرسکیں۔ اور اس کے لئے ہمیں جسمانی آگاہی اور محفوظ رویوں کی تعلیم اور تربیت کو لازمی قرار دینا ہوگا۔

بونی بوزند روڈ کے ناخوشگوار واقعے کے بعد ڈپٹی اسپیکر خیبرپختونخواہ کی موجودگی میں عمائدینِ تورکہو تریچ کا ایک اہم میٹنگ ...
17/09/2025

بونی بوزند روڈ کے ناخوشگوار واقعے کے بعد ڈپٹی اسپیکر خیبرپختونخواہ کی موجودگی میں عمائدینِ تورکہو تریچ کا ایک اہم میٹنگ ڈی سی آفس اپر چترال میں منعقد ہوا۔

اجلاس میں پی ٹی آئی اپر چترال کے صدر شہزادہ سکندر الملک، جنرل سیکریٹری علاؤالدین عرفی، تحصیل چیئرمین میر جمشید، وی سی چیئرمیں استارو ورکوپ حفیظ سمیت دیگر وی سی چیئرمینز، عمائدینِ تورکہو تریچ، اے ڈی سی اپر چترال اور ایس پی انویسٹی گیشن نے شرکت کی۔

ایف آئی آر اور 7ATA سمیت مقدمات پر تفصیلی مشاورت ہوئی۔ اتفاق کیا گیا کہ پولیس آئندہ 7 دن تک کسی بھی فرد کو چھاپے مار کر گرفتار نہیں کرے گی۔

اس دوران ایک مفاہمتی کمیٹی تشکیل دی گئی جو ایف ائی ار میں مطلوب ملزماں انکے خاندانوں اور فریقین سے ملاقات کر کے قانونی راستے سے مقدمات ختم کرانے کی کوشش کرے گی۔یہ میٹنگ علاقے میں پائیدار امن اور عوامی اعتماد کی بحالی کی جانب ایک مثبت قدم ہے۔

خواجہ خلیل انفارمیشن سیکریٹری پاکستان تحریک انصاف اپر چترال

مستوچ بورغول روڈ اور ڈپٹی اسپیکر کا مثبت اقدامتحریر: کریم اللہتحریکِ مستوچ بورغول روڈ کے زیرِ اہتمام سولہ ستمبر کو بریپ ...
17/09/2025

مستوچ بورغول روڈ اور ڈپٹی اسپیکر کا مثبت اقدام

تحریر: کریم اللہ

تحریکِ مستوچ بورغول روڈ کے زیرِ اہتمام سولہ ستمبر کو بریپ سے جس لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا تھا، وہ گزشتہ روز ڈپٹی اسپیکر ثریا بی بی سے ہونے والے مذاکرات کے بعد موخر کر دیا گیا ہے۔

اس فیصلے کے بعد سماجی حلقوں میں ملا جلا ردِعمل دیکھنے کو ملا ہے۔ تحریک سے وابستہ نوجوانوں نے اس فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے، جبکہ بعض حلقوں نے اسے ایک مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔

لانگ مارچ کے آغاز سے قبل ڈپٹی اسپیکر کا یارخون جا کر تحریک کی قیادت سے ملاقات کرنا اور مستوچ-یارخون روڈ کی فیزیبلٹی رپورٹ کے لیے ایک ماہ کی مہلت طلب کرنا یقیناً ایک دانشمندانہ قدم تھا۔ اگر لانگ مارچ شروع ہو جاتا تو ممکن ہے کہ مذاکرات کے دروازے محدود ہو جاتے اور پھر واپسی کا راستہ بھی مشکل ہو جاتا۔

اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر نے ہوشمندی اور تدبر کا مظاہرہ کیا، جبکہ تحریک کے قائدین نے بھی ایک مثبت اور ذمہ دارانہ فیصلہ کیا۔ اب گیند مکمل طور پر ڈپٹی اسپیکر محترمہ اور صدر پی ٹی آئی، شہزادہ سکندر الملک کے کورٹ میں ہے کہ وہ عوام سے کیے گئے اپنے وعدے کو کس طرح وفا کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی جنگیں بھی بالآخر مذاکرات کی میز پر ہی ختم ہوتی ہیں۔ اگر تحریکِ مستوچ بورغول روڈ بھی کسی انتشار یا ناخوشگوار صورتحال میں مبتلا ہونے سے قبل مذاکرات کی راہ پر آ چکی ہے تو بلاشبہ یہ ایک اہم سنگِ میل تصور کیا جا سکتا ہے۔

👈اپیل برائے تعاون زیرتعمیر مسجد جامع مسجد گولین پائیں،  چترال  لوئر ، کی تعمیر باقی ہے۔ یہ مسجد علاقے کے لوگوں نے اپنی م...
17/09/2025

👈اپیل برائے تعاون زیرتعمیر مسجد جامع مسجد گولین پائیں، چترال لوئر ، کی تعمیر باقی ہے۔ یہ مسجد علاقے کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت 80% تک تعمیر کی ہے، جس میں مخیر حضرات نے بھی حصہ ڈالا ہے. سردیوں سے قبل باقی ماندہ تعمیر کا کام مکمل کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ناظرہ اور حفظ پڑھنے والے بچوں اور نمازیوں کو سہولت ہو سکے. اس مسجد کی تعمیر کے لیے مالی تعاون کرنے والے تمام احباب سے درخواست ہے کہ اپنے عطیات کے ذریعے حصہ لیں، کیونکہ مسجد کی تعمیر میں تعاون صدقہ جاریہ ہے، جس کا اجر اللہ تعالیٰ قیامت تک عطا فرماتا رہے گا۔

📞 رابطہ برائے تعاون:

Easy Paisa :92 348 2155828
🏦 بینک اکاؤنٹ:
Meezan Bank :98770109667768 (Zaheeruddin)

📍تعمیرِ مساجد کی فضیلت:
• قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور یومِ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔
• نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
جو شخص صرف اللہ کی رضا کے لیے مسجد بناتا ہے، اللہ اس کے لیے جنت میں ویسا ہی گھر بناتا ہے۔
مسجد کی تعمیر اللہ کی رضا حاصل کرنے اور اجرِ عظیم پانے کا مبارک عمل ہے۔
• مالی تعاون، تعمیراتی سامان مہیا کرنا، اور عملی شرکت—سب کارِ خیر میں شامل ہیں۔
• مسجد کی تعمیر میں حصہ لینا ایسا صدقۂ جاریہ ہے جس کا ثواب قیامت تک جاری رہتا ہے۔

گلگت: گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شاہ نے “آغا خان پراپرٹیز (سکسیشن اینڈ ٹرانسفر) ایکٹ” کی منظوری دیتے ہوئے اس پر باضابطہ...
17/09/2025

گلگت: گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شاہ نے “آغا خان پراپرٹیز (سکسیشن اینڈ ٹرانسفر) ایکٹ” کی منظوری دیتے ہوئے اس پر باضابطہ دستخط کر دیے ہیں۔ اس قانون کے تحت شیعہ امامی اسماعیلی جماعت کے روحانی پیشوا، پرنس کریم آغا خان کے نام پر درج آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک (AKDN) کی تمام جائیداد اب شاہ رحیم آغا خان کے نام منتقل ہو گی۔

اس کے ساتھ ہی آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک اور اس سے وابستہ اداروں کی ملکیتی جائیدادوں کی وراثتی تقسیم اور منتقلی کے طریقہ کار کو باقاعدہ قانونی حیثیت مل گئی ہے۔

اسلام آباد: سینیٹر محمد طلحہ محمود کا اپر اور لوئر چترال کی سڑکوں پر دریا کی جانب حفاظتی رکاوٹ (گارڈ ریل) کی عدم موجودگی...
17/09/2025

اسلام آباد: سینیٹر محمد طلحہ محمود کا اپر اور لوئر چترال کی سڑکوں پر دریا کی جانب حفاظتی رکاوٹ (گارڈ ریل) کی عدم موجودگی پر وزارت مواصلات سے جواب طلب

قابلیت، تمام سوالوں کا جواب ہےاجنبی ملک کا سفر اختیار کرتے ہوئے زمینی حقائق کو دیکھنا بہت ضروری ہے ورنہ ہجرت جان کا روگ ...
17/09/2025

قابلیت، تمام سوالوں کا جواب ہے

اجنبی ملک کا سفر اختیار کرتے ہوئے زمینی حقائق کو دیکھنا بہت ضروری ہے ورنہ ہجرت جان کا روگ بھی بن سکتی ہے سردی کی شدت میں اضافے کے ساتھ مہمان پرندے سائبیریا کی ٹھنڈ سے جان بچانے کے لیے دور دراز کے ملکوں کی طرف ہجرت کرتے ہیں ان کو موسم کا اندازہ ہے کہ جس ملک کی طرف ہجرت کر کے وہ جا رہے ہیں اس ملک کی آب و ہوا سائیبیریا سے زیادہ سازگار ہے مگر وہ دوسرے ملک کے لوگوں کی فطرت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، طویل پروز کے بعد تھکے بازو سمیٹ کر جیسے ہی کسی جھیل میں پناہ لینے کے لیے اترتے ہیں سفاک شکاری کی گولی کا نشانہ بنتے ہیں دوسرے ملک کے بارے میں اپنے غلط اندازے کا خمیازہ بھگتے ہیں مارے جاتے ہیں

یہ بہت سامنے کی مثال ہے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اکثر دیسی لوگ جو اپنے ملک میں غربت اور تنگدستی کا شکار ہے انہیں یورپ کی خوشحالی نظر آتی ہے وہ زمینی حقائق کے بارے میں زیادہ جانکاری حاصل کرنے کی مشقت اٹھائے بغیر ہجرت کا فیصلہ کرتے ہیں دوسرے ملک کے کلچر، زبان، تہذیب و تمدن، رکھ رکھاؤ، معاشرتی اقدار کے احترام کی تعلیم کے بغیر پردس پہنچتے ہی زمینی حقائق سے ٹکراتے ہیں اور مارے جاتے ہیں

دنیا کے ہر ملک کے اپنے مفادات ہوتے ہیں کوئی ملک اگر آپ کو اپنے ملک آنے کی دعوت دیتا ہے تو وہ آپ پر احسان نہیں کرتا اس کو آپ کی کوئی صلاحیت اپنے ملک کے لیے کارامد نظر آتی ہے اس کے سامنے اپنے ملک کے مفادات ہیں وہ آپ کی صلاحیت کا اندازہ آپ کی پروفائل سے لگا کر اپنے ملک آنے کی دعوت دیتا ہے اور آپ اپنے کچھ مسائل کے ساتھ بڑی دنیا میں آتے ہیں اور یہاں کی چکا چوند میں کھو جاتے ہیں پوری لگن سے وہ کام نہیں پاتے جس کے لیے آپ کو مدعو کیا گیا تھا یہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد آپ کی ذات اون کے سویٹر کی طرح ان کے سامنے ادھڑ جاتی ہے آپ کی غفلت ان کے منصوبوں میں رکاوٹ بنتی ہے تو وہ آپ کو نظر انداز کر دیتے ہیں کیونکہ دنیا بہت بڑی ہے اور قابل لوگوں سے بھری ہے ان کو اپنے مقصد کے لیے نئے مزدور مل جاتے ہیں

نیچر کے اصول کو سامنے رکھیے اور ان کو ان کی بے اعتنائی برتنے پر معاف کر دیجیے، دوسروں کے دامن کی طرف ہاتھ اٹھانے سے پہلے اپنے گریباں میں جھانکیے کہ کہاں کمی رہ گئی کیا مزید بہتر ہو سکتا تھا کیوں آپ کو وہ مقام نہیں ملا جس کے لیے آپ کو اتنے دور سفر کر کے آنا پڑا تھا

فطرت سب کے ساتھ ایک جیسا برتاؤ کرتی ہے وہ مرغابیوں کی دشمن ہے نہ انسانوں کا دوست وہ اپنے اصولوں پہ چلتی ہے نیچر کا احترام کریں اپنے اندر صلاحیت پیدا کریں لوگوں کی ضرورت بن جائیں دنیا احمق لوگوں کے لیے ہمیشہ راستے بند کرتی ہے قابلیت ہی تمام سوالوں کا جواب ہے

یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا
مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو

ضیاء افروز

تورکھو دھرنے کے شرکاء کے خلاف قانونی کارروائی! چند قابلِ غور سوالاترپورٹ: کریم اللہبونی بوزند روڈ ایک مستقل دردِ سر بنی ...
16/09/2025

تورکھو دھرنے کے شرکاء کے خلاف قانونی کارروائی! چند قابلِ غور سوالات

رپورٹ: کریم اللہ

بونی بوزند روڈ ایک مستقل دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ آئے روز ٹھیکیدار کی من مانیاں، محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کی بے حسی، عوامی دھرنے، احتجاج، مذاکرات اور گرفتاریاں معمول بن گئے ہیں۔
9 ستمبر 2025ء کو ٹھیکیدار کی من مانی اور محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کی غفلت کے خلاف تورکھو تریچ روڈ فورم کے شرکاء نے رائین کے مقام پر دھرنا دیا۔ مذاکرات کے لیے اسسٹنٹ کمشنر تورکھو موڑکھو غزرا بی بی اور محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے ایس ڈی او کو بھیجا گیا جہاں بات چیت ہوئی۔

ذرائع کے مطابق مذاکرات بڑی حد تک کامیاب ہو گئے تھے تاہم دھرنے کے شرکاء کا مطالبہ تھا کہ ایس ڈی او رات ان کے ساتھ رہیں اور اگلی صبح روڈ پر کام شروع کروا کے روانہ ہوں۔ ایس ڈی او نے اس بات سے اتفاق کیا اور وہیں موجود رہے، جہاں انہیں کھانا اور دیگر ضروریات بھی فراہم کی گئیں۔

دھرنا شرکاء کے مطابق چونکہ اسی دن تورکھو میں انٹرنیٹ دستیاب نہیں تھا، اس لیے باہر یہ افواہ پھیل گئی کہ شرکاء نے ایس ڈی او کو یرغمال بنا رکھا ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔

شام تک ڈی ایس پی مستوچ کی قیادت میں پولیس بھاری نفری کے ساتھ رائین پہنچ گئی اور دھرنے کے شرکاء سے مذاکرات کیے گئے۔ فیصلہ ہوا کہ ایس ڈی او کو تھانہ تورکھو شاگرام میں ٹھہرایا جائے گا اور اگلی صبح روڈ پر کام شروع ہونے کے بعد سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے۔

دونوں فریقوں یعنی دھرنا شرکاء اور پولیس نے اس پر اتفاق کیا اور ایس ڈی او کو تھانہ تورکھو منتقل کیا گیا مگر دھرنا جاری رہا۔ کچھ دیر بعد پولیس نے ایس ڈی او کو گاڑیوں میں بٹھا کر بونی کی جانب روانہ کیا۔ جب گاڑیاں دوبارہ رائین پہنچیں تو دھرنے کے شرکاء نے پولیس کو وعدہ یاد دلایا کہ ایس ڈی او کو تورکھو تھانے میں رکھنا طے ہوا تھا، پھر رات کے اندھیرے میں انہیں بونی کیوں لے جایا جا رہا ہے؟

اسی بات پر تکرار شروع ہوئی اور دھرنا شرکاء کے مطابق ڈی ایس پی مستوچ نے پولیس کو حکم دیا کہ دھرنے والوں کو منتشر کیا جائے، جس کے بعد فائرنگ اور شیلنگ شروع ہو گئی۔

پولیس نے اگلے روز یعنی 10 ستمبر 2025ء کو دھرنے کے شرکاء کے خلاف ایف آئی آر درج کی جس میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئیں۔ تاہم ایف آئی آر میں وقوعہ 9 ستمبر کی سہ پہر 2 بجے کا درج کیا گیا، حالانکہ یہ واقعہ 9 اور 10 ستمبر کی درمیانی رات پیش آیا تھا۔

مذاکراتی ٹیم کی تشکیل

ذرائع کے مطابق 11 ستمبر کو ایک مذاکراتی ٹیم نے ڈپٹی کمشنر اپر چترال سے ان کے دفتر میں ملاقات کی اور 7 اے ٹی اے ختم کرنے کی درخواست دی۔ بعد ازاں یہ ٹیم تورکھو پہنچی جہاں لوگ ایف آئی آر کے خلاف دھرنا دئیے بیٹھے تھے۔
ذرائع کے مطابق ڈی سی اور ڈی پی او کے ساتھ مذاکرات میں اتفاق ہوا کہ اگلے دس دنوں تک پولیس کوئی گرفتاری نہیں کرے گی، جس کے بعد دھرنا ختم کیا گیا۔ تاہم اسی رات پولیس متحرک ہو گئی۔

سہیل کی گرفتاری

13 ستمبر 2025ء کو صبح سات بجے پولیس نے سہیل کے گھر پر چھاپہ مارا اور اسے گرفتار کر لیا۔ شام آٹھ بجے پولیس نے اہلِ خانہ کو اطلاع دی کہ سہیل بے ہوشی کی حالت میں اسپتال میں داخل ہے۔ اہلِ خانہ کے پہنچنے پر پولیس نے سہیل کو حوالے کرنے کی کوشش کی مگر اہلِ خانہ نے انکار کر دیا کہ چونکہ وہ پولیس کی حراست میں بے ہوش ہوا ہے اس لیے پولیس ہی اسے اسپتال لے جائے۔ بعد ازاں پولیس کے دو اہلکار سہیل کو ایمبولینس میں بٹھا کر بونی روانہ ہوئے۔
سہیل بونی میں بھی ہوش میں نہ آیا تو اسے پہلے چترال اور پھر پشاور ریفر کر دیا گیا جہاں وہ تین دنوں سے بے ہوش ہے۔

عوامی سوالات

سماجی حلقوں نے چند اہم سوالات اٹھائے ہیں:
1. ڈی سی اپر چترال کی موجودگی میں ڈی پی او کی جانب سے دس دن گرفتاری نہ کرنے کی یقین دہانی کے باوجود اسی رات پولیس کیوں متحرک ہوئی اور اگلی صبح سہیل کو کیوں گرفتار کر لیا گیا؟

2. سہیل کو گھر سے صحت مند حالت میں گرفتار کر کے 12 سے 13 گھنٹے تھانے میں رکھنے کے بعد بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال کیوں لایا گیا؟ اس دوران ایسا کیا ہوا کہ وہ تین دنوں سے بے ہوش ہے؟

3. وقوعہ 9 اور 10 ستمبر کی درمیانی رات پیش آیا، مگر ایف آئی آر میں اسے 9 ستمبر کی سہ پہر 2 بجے ظاہر کیا گیا۔ آخر کیوں؟

پولیس کا موقف

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر اپر چترال حمید اللہ (پی ایس پی) نے مؤقف اختیار کیا کہ دھرنا شرکاء نے اے سی غزرا بی بی اور ایس ڈی او سی اینڈ ڈبلیو کو یرغمال بنایا تھا۔ پولیس نے مذاکرات کے ذریعے اے سی کو رہا کرایا مگر ایس ڈی او کو یرغمال رکھا گیا۔ بعد ازاں رات کے وقت پولیس ایس ڈی او کو چھڑا کر بونی لے گئی لیکن اس دوران مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا جس سے کئی اہلکار زخمی ہوئے۔

ڈی پی او کے مطابق:
• انسپکٹر اکبر علی کو آٹھ ٹانکے لگے۔
• ایس ایچ او مستوچ کے سر پر تین ٹانکے لگے۔
• دیگر اہلکار بھی زخمی ہوئے، تاہم یہ دونوں زیادہ شدید زخمی ہیں۔

ڈی پی او کا مزید کہنا تھا کہ مظاہرین نے پولیس پر بہت ظلم کیا۔ اب تفتیش جاری ہے کہ پتھراؤ میں کون ملوث تھا۔ اگر یہ افراد بے گناہ ثابت ہوئے تو عدالت سے بری ہو جائیں گے۔

تاہم ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر اپر چترال نے ہمارے پوچھے گئے متعدد سوالات کے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دئیے۔۔۔

نرسنگ کونسل بھی آپ کا، وقت بھی آپ کی اور عقل بھی آپ کا، سوچیں عقل کا استعمال کریں اور فیصلہ کریںتحریر: ناصر علی شاہ ہمار...
16/09/2025

نرسنگ کونسل بھی آپ کا، وقت بھی آپ کی اور عقل بھی آپ کا، سوچیں عقل کا استعمال کریں اور فیصلہ کریں
تحریر: ناصر علی شاہ

ہمارا خیال تھا نرسنگ کونسل کا صدر نرسز میں سے ہونگے ادارہ بہترین کام کریگا نرسز کے مسائل حل ہونگے طالب علموں کے پریشانیاں کم ہونگے ( پریشانیوں میں مبتلا کرنے کا زمہ دار بھی پی این سی)
اس کے برعکس گزرتے دن کیساتھ کوئی نیا تنازعہ کھڑا کر دیا جاتا ہے
آخر کیوں؟

پاکستان نرسنگ اینڈ میڈیفری کونسل کے صدر و اراکین اور اور ممبران دونوں ہی ناکام نظر آرہے ہیں صدر کے پاس اختیارات ہوتے ہوئے بے اختیار ہے ابھی تک نرسز کو نیشنل و انٹرنیشنل لیول کے جاب ڈسکرپشن دینے میں ناکام ہیں وقت پر لائسنس ایشو کروانے کا اختیار بھی نہیں، حالانکہ صدر س سیکرٹری روزانہ کونسل آتے ہیں ایسے میں سوال چکرا دیتا ہے کیا سب کچھ نرسنگ کالجز کے لئے ہو رہا ہے؟

سیکرٹری نرس ہے پھر وہ کیا کر رہی ہے؟
ان لوگوں نے کیا کیا ہے؟
انٹرنشپ کے مسائل آپ حل نہیں کرسکتے،
کارڈ وقت پر دلانے میں آپ ناکام اور جاب ڈسکرپشن آپ نہیں دیتے۔ یہ معمولی کام آپ لوگوں سے ہوتا نہیں پھر وہاں کر کیا رہے ہیں؟

ممبران جو ووٹوں کی طاقت سے بیٹھے ہیں ہمارے نمائندے ہیں گرچہ کم وقت ہوا ہے مگر ان کی طرف سے بھی کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آئی، ڈیڑھ سال وقت کا ضیاع کئے، صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو پتہ چلا، ان چار ممبران کے خلاف مورچہ بنا کر مختلف اینگل سے قابو کرنے کی مکمل کوشش ہو رہی ہے، کیا کسی نے سوچا آخر کیوں؟

ممبران سے رابطے کے بعد پتہ چلا، اٹھ مہینے گزرے میٹنگ نہیں بلایا جا رہا، تھک ہار کر عدالت سے رجوع کئے، عدالت حکمنامہ ملا پھر میٹنگ ہوتی ہے مگر ہمارے ایجنڈا جو نرسز کے مفاد اور پروفیشن کی ترقی کے لئے ہے ریجکٹ کر دیتے ہیں، پھر سوال ذہن میں گردش کرتا ہے وہ کونسے ایجنڈے جن کو ریجکٹ کیا جاتا ہے شاید نرسز کے وسیع تر مفاد میں نہ ہو؟

آرٹیکل بتائے، قانون بتایا گیا تو ششدر رہ گیا پھر سوچنے پر مجبور ہوگیا آخر ہمارے اپنے کونسل کی ترقی میں روکاوٹ کیوں؟ رخنا ڈالنے والوں کے مفادات پروفیش پر ترجیح کیوں؟

ایجنڈا کیا ہے اور وقت کے مطابق تبدیلیاں کتنی اہم ہیں یہ ایک اچھا پروفیشنل ہی سمجھ سکتا ہے،
لیجئے ایجنڈا پڑھیں جن کو اشتہار کرنے کی بار بار گزارش کی جا رہی ہے

پاکستان نرسنگ اینڈ میڈیفری کونسل کے اندر مظبوط نظام جو پروفیشنل اور پروفیشن کے وسیع تر مفاد میں ہے

Director curriculum
1. ڈائریکٹر کریکیولم director affiliation
2. ڈائریکٹر افیلیشن
Director registeration
3. ڈائریکٹر رجسٹریشن
Director HR
4. ڈائریکٹر ایچ آر

5۔سیکریٹری secretory

ریجنل سطح پر پی این سی کے برانچیں اور ڈیجیٹیلائزیشن سسٹم تاکہ ہر نرس استفادہ حاصل کرسکیں

یہی وہ ڈیمانڈ ہے جو نرسز کے مفاد میں ہیں جو اس ڈیمانڈ کا مخالف ہے وہ پیشے کے اندر تبدیلی کا مخالف ہے ترقی کی راہ میں روکاوٹ ہے

اشتہار کریں اور پی ایچ ڈی نرسز کو ان عہدوں کے لئے شفاف طریقے سے منتخب کریں تاکہ سسٹم آگے چل سکیں

الفاظ ظاہر ہونے کے باوجود بھی عقل پر تالا لگا کر پرانے سسٹم کی حمایت کر رہے ہیں جو نرسز اور طالب علموں کو رلانے کا باعث بن رہا ہے تاریخ آپ لوگوں کو کبھی معاف نہیں کریگا

فیصلہ آپ کا
پرانے سسٹم کی حمایت یا نئے نظام کی طرف ایک قدم

کنوداس گلگت سے لاپتہ ھونے والے نوجوان راجہ کاشان ساکن یاسین کو قتل کردیا گیا ھے ۔پولیس کے ذمہ دار زرائع کے مطابق کاشان ک...
15/09/2025

کنوداس گلگت سے لاپتہ ھونے والے نوجوان راجہ کاشان ساکن یاسین کو قتل کردیا گیا ھے ۔

پولیس کے ذمہ دار زرائع کے مطابق کاشان کو جو دو افراد اپنے ساتھ لیکر گئے تھے ان کو گرفتار کیا گیا تھا جنہوں نے ابتدائی تفتیش میں نوجوان کو قتل کر کے دریا میں پھینکے کا اعتراف کرلیا ھے۔

پولیس کے مطابق ملزمان نے جائے وقوعہ کی نشان دہی کی جہاں سے مقتول کا ایک چپل بھی ملا ہے جسے ورثاء نے شناخت کرلیا ھے۔

پولیس کے مطابق ملزمان سے مقتول کا موبائل فون بھی برآمد کرلیا گیا اور مذید تفتیش جاری ہے ۔

مقتول کے ورثاء اور پولیس نے دریائے گلگت میں جسد خاکی کی تلاش شروع کردی ھے ۔

Courtesy to Abdul Rahman Bukhari

ریپ کی کوشش پر مذاحمت،  نوجوان قتل تحریر: اسرار الدین اسرار گلگت شہر میں پیش آنے والا یہ واقع انتہائی دردناک اور شرمناک ...
15/09/2025

ریپ کی کوشش پر مذاحمت، نوجوان قتل

تحریر: اسرار الدین اسرار

گلگت شہر میں پیش آنے والا یہ واقع انتہائی دردناک اور شرمناک ہے ، جہاں پر فرسٹ ائیر کا طالب علم کاشان کو کنوداس گلگت میں واقع ان کے گھر سے دور لے جاکر مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کے دوران مزاحمت کرنے پر بے دردی سے قتل کر دیا گیا اور ان کی ڈیڈ باڈی کو دریا برد کیا گیا۔

اس شرمناک واقع کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ملزمان کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادراوں کو چاہئے کہ واقع کی شفاف تحقیقات کے بعد تمام محرکات منظر عام پر لائے جائیں اور ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے واقعات کی ہر سطح پر شد و مد سے مذمت کی جائےاور مستقبل میں ایسے واقعات کے روک تھام کے لئے موثر اقدامات اٹھائے جائیں۔

سیف سٹی کمیرے اگر ایسے ہونہار بچوں کی زندگیاں بچانے کے کام نہیں آسکتے ہیں تو ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اس واقع کے بعد نہ صرف متاثرہ خاندان میں صف ماتم بچھی ہے بلکہ جن جن والدین کی جوان اولاد ہیں وہ سب خوفزدہ اور غمزدہ ہیں۔

کنوداس کے عوام اس واقع کے خلاف بلاتفریق رنگ و نسل اور فرقوں کے یک زبان ہو کر سڑکوں پر نکلے اور سراپا احتجاج ہیں جو کہ لائق تحسین ہے۔

امید ہے گلگت بلتستان کے تمام لوگ اس واقع کی بھر پور مذمت کرینگے اور مظلوم کی آواز بنیں گے۔

15/09/2025

ڈپٹی اسپیکر ثریا بی بی اور صدر پی ٹی آئی اپر چترال شہزادہ سکندر الملک نے مستوچ بورغول روڈ کی فزییبلٹی کے لئے ایک ماہ کا وقت مانگا ہے جسے تحریک کے قائدین نے منظور کر کے کل کا لانگ مارچ منسوخ کر دیا۔

چیرمین تحریک مستوچ بورغول روڈ شہزادہ سراج الملک

Address

Chitral

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Anwaz Media Network - AMN posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Anwaz Media Network - AMN:

Share

Anwaz News public news Northern Region

Anwaz News is an initiative of the young journalist of the Northern Region. Its aim is to bring to the public news on day to day happenings in and around the Northern Areas