The Times of Chitral دی ٹائمز آف چترال

The Times of Chitral دی ٹائمز آف چترال "The Times of Chitral" shares all the news about Chitral, Pakistan. We cover local events, cultural happenings, and community stories. Stay updated..

The Times of Chitral" is a dedicated news platform that serves as the pulse of Chitral, a picturesque region nestled in the mountainous landscapes of northern Pakistan. Established with a commitment to delivering timely and accurate news, this platform has become a trusted source for locals and global audiences seeking insights into the vibrant culture, events, and developments shaping Chitral. Ou

r team of passionate journalists and contributors are dedicated to covering a diverse range of topics, including local news, community events, cultural celebrations, and the socio-economic landscape of the region. "The Times of Chitral" strives to provide a comprehensive and balanced perspective, fostering a deeper understanding of the rich heritage and dynamic happenings within Chitral. With a focus on promoting transparency, inclusivity, and community engagement, our platform aims to connect people and bridge the information gap. Whether it's breaking news, feature stories, or updates on key issues, "The Times of Chitral" is committed to being a reliable source that keeps its readers well-informed about the heartbeat of this enchanting region. Welcome to a space where Chitral's stories unfold, connecting communities and sharing the essence of this unique and captivating corner of the world.

”سینیٹر صاحب اک ہی تو دل ہےکتنی بار جیتو گے“❤️ھم نے مانا الیکشن سےپہلے آپ نے اھلِ چترال کیساتھ وعدے کیے تھے  لیکن سر۔۔۔!...
25/03/2024

”سینیٹر صاحب اک ہی تو دل ہےکتنی بار جیتو گے“❤️

ھم نے مانا الیکشن سےپہلے آپ نے اھلِ چترال کیساتھ وعدے کیے تھے لیکن سر۔۔۔! ایسےوعدے تو ھمارے لیڈر تھوک کے حساب سے اھلِ چترال کے ساتھ کرتے آئیں ہیں ھم نے نہیں دیکھا ان کے وعدے کبھی وفا ہوئے ہو
الیکشن ہارنے کے باوجود عوام سے کیے گئے آپ کے وعدوں کی تکمیل دن بدن جاری ہے سر یہ ”سیاست“ تو نہ ہوئی نا یہ تو سیدھی سادھی انسانیت کی خدمت ہوئی
سینیٹر صاحب خدارا چترال میں ایسی سیاست کی داغ بیل مت ڈالیئے جہاں عوام کی سنی جاتی ہو جہاں وعدے وفا ہوتے ہو جہاں انسانیت کی بےلوث خدمت ہوتی ہو
چلو مان لیتے ہے سر الیکشن سے پہلے آپکے وعدے اور دعوے حصولِ ووٹ کیلئے تھے لیکن اب تو آپ الیکشن ھار چکے، چترال کے نمائندے نااھل ہی سہی لیکن عوام کے ووٹوں سے اگلےپانچ سالوں کیلئے منتخب ھو چکے،
اب تو دور دووور تک الیکشن کا اتہ پتہ بھی نہیں
پھر بھی آپ چترال میں بے لوث خدمتِ انسانیت کے درپے ہو، کہیں ایسا تو نہیں سر آپ ”مُرَوَّجَہ سیاست“ کے رمز سے ناواقف ہو یا انسانیت کی خدمت ہی آپ کے ہاں ”سیاست“ ہو۔
نو فروری سےلیکراب تک چترال کے پچیس ہزار مستحق خاندانوں میں راشن کی منصفانہ تقسیم مکمل ہو چکی بقیہ خاندانوں میں تقسیم کا عمل تا ھنوز جاری ہے
چترال کا دورافتادہ علاقہ وادی بروغل حالیہ برفباری کیوجہ سے شدید متاثر تھا روڈوں کی بندش اور خوراک کی قلت کی وجہ سےاھلِ بروغل نہایت ہی اذیت و مصیبت میں تھے آپ کی خصوصی ھدایات پر وادی بروغل کیلئے راشنوں سے بھرا گاڑیوں کا قافلہ روانہ ھوچکا
لوئرچترال کے مختلف مقامات پر فری افطاری دسترخوان سے روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں روزہ دار مستفید ھوچکے اور ہورہے ہیں
سوشل میڈیا میں چند لوگ کچھ بھی کہہ لیں لیکن سنیٹر صاحب اھلِ چترال کے دلوں کو فتح کرنے کا سہرا آپ ہی کے سر سج چکا ہے .
سلام محسنِ چترال

تحریر : (نعیم خان)
نوٹ: ادارے کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

چترال : محمد طلحہ محمود فاؤنڈیشن کی جانب سے راشن پیکج کی تقسیم کا عمل شروع۔ لوئر چترال کی مختلف یونین کونسلوں بلپھوک، سی...
25/02/2024

چترال : محمد طلحہ محمود فاؤنڈیشن کی جانب سے راشن پیکج کی تقسیم کا عمل شروع۔
لوئر چترال کی مختلف یونین کونسلوں بلپھوک، سین، شالی ،اورغوچ، خوکشاندہ ، مستجاپباندہ سمیت دیگر علاقوں میں بالترتیب تقسیم کا سلسلہ جاری ہے۔
اب شاید ان لوگوں کی زبانیں بند ہو جائیں جو طلحہ محمود فاؤنڈیشن کے خلاف مہ صرف زہریلا پروپگنڈہ پھیلا رہے تھے بلکہ ان پیکجز کی تقسیم کی راہ میں رکاوٹیں بھی کھڑی کر رہے تھے۔

جسٹس صاحب نے قادیانی ملزم سے متعلق فیصلہ دیتے ہوئے فیصلے کے بعد آخر میں قرآنی آیات کے حوالے سے جو وضاحتیں پیش  فرمائی ہی...
22/02/2024

جسٹس صاحب نے قادیانی ملزم سے متعلق فیصلہ دیتے ہوئے فیصلے کے بعد آخر میں قرآنی آیات کے حوالے سے جو وضاحتیں پیش فرمائی ہیں ، ان آیات کریمہ کا مسئلے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا ہے کہ جسٹس صاحب جیسے آدمی اصل مسئلے اتنے بے خبر ہونگے۔اسی لیے بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ سیاسی گند چھپانے کے لیے یہ ڈرامہ رچایا جارہا ہے۔اللہ تعالی ہی بہتر جانتے ہیں کہ کس نیت کی بنیاد پر یہ اس فیصلے کے آخر میں یہ غیر متعلقہ وضاحتیں دی گئی ہیں۔
عام طور پر بعض مسلمانوں کے ذہن میں بھی یہ بات ہوتی ہے کہ اسلام میں اقلیت کو بہت سارے حقوق حاصل ہیں ۔ لیکن قادیانیوں کے ساتھ مسلمانوں کا رویہ درست نہیں ۔ اس میں کوٸی شک نہیں کہ اسلام میں اقلیت کے حقوق پر بہت زور دیا گیا ہے ۔ پاکستان میں بھی مجموعی طور پر اقلیت کے حقوق کا سرکاری اور عوامی سطح پر بہت خیال رکھا جاتا ہے ۔ سکھ ۔ ہندو عیساٸی اور کلاش برادری کے حالات اور خود ان کے بیانات اس پر شاہد ہیں ۔ اکا دکا کہیں واقعہ پیش آجاۓ تو وہ ایک انفرادی واقعہ ہوتاہے ۔ اس کی نسبت ملک یا پوری قوم کی طرف کرنا انصاف نہیں ۔ جس طرح یورپ میں بھی بعض اوقات مسلمانوں کو اذیت پہنچاٸی جاتی ہے ۔ ظاہر بات ہے کہ اس طرح انفرادی واقعات ہر جگہ ہوتی ہیں ۔ لیکن مجموعی طور پر پاکستان میں اقلیت کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ ۔بحیثت اقلیت قادیانیوں کو حقوق دینے میں کسی کو اشکال نہیں ۔وہ بھی پاکستان کے شہری ہیں ۔ اصل مسٸلہ کیا ہے ہمیں ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چاہیے ۔
عام کافر اور قادیانی میں فرق ہے ۔ آسانی کے لیے ایک مثال سے سمجھاتے ہیں ۔ ایک آدمی بازار جاکر دکان کھول کر اس کا نام رکھتا ہے ۔الگ مونوگرام بناتا ہے ۔ اشیاء پر اپنی دکان کے نام کا لیبل لگا کر بیچتا ہے ۔ عقلا عرفا قانونا اس کو حق حاصل ہے ۔ دوسرا آدمی بازار جاکر نئی دکان کھول کر ایک پرانے دکاندار کی دکان کا نام اور مونو گرام استعمال کرتاہے ۔ قانونا واخلاقا سب اس کو غلط کہیں گے بلکہ چوری تصور ہوگا ۔ایک ہندو یا سکھ اپنا ایک مذہب رکھتا ہے ۔ اپنے ٹرمز ہیں ۔ عبادت خانے کا مستقل نام ہے ۔ یہی بات اگر قادیانی کریں تو کسی عقلمند کو اعتراض نہیں ہوگا ۔ لیکن ایک طرف وہ قرآن ۔رسول کا نام لے کر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں ۔ اسلامی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں ۔ مسجد کا نام استعمال کرتا ہیں ۔صحابی اور امھات المئومنین کے الفاظ استعمال کرکے سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کررہے ہیں اورساتھ ساتھ ختم نبوت پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں بعض نادان دوست کہتے ہیں کہ ہندو اور قادیانی میں کیا فرق ہے ۔۔۔ ہندو اپنا مستقل مذہب رکھتا ہے جبکہ قادیانی آپ کے مذہب پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں ۔ملک کے خلاف سازش کررہے ہیں۔ اپنے کرتوت چھپا کر ہر جگہ پاکستان کو بدنام کرکے پھیر رہے ہیں ۔ ان کے کرتوتوں پر تاریخ گواہ ہے۔صرف ان قادیانیوں کی وجہ پاکستان کا امیج عالمی سطح پر خراب ہے ۔ ان کی عالمی رساٸی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ سرگودھا کا عبدالشکور عدالت سے سزا یافتہ صدر ٹرمپ کے پاس پہنچ کر پاکستان کے خلاف زہر اگل کر کہتا ہے کہ میں امن پسند ہوں ۔۔
ان کا بڑا مسلمانوں کے بارے میں کیا رای رکھتا ہے ۔ ذرا چند نمونے ملاحظہ فرمائیں ۔ نقل کفر کفر نہ باشد ۔ ان کے روحانی پیشوا مرزا غلام احمد لکھتے ہیں

1۔ ہر شخص نے میری تصدیق کی مگر کنجریوں کی اولاد نے ہماری تصدیق نہیں کی . . (خزائن ج 5 ص 547
2۔ ہمارے دشمن بیابانوں کے خنزیر ہوگئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں (خزائن ج 12 ص53)
ج

21/02/2024

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے پر رد عمل__!!

خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن کی طرف سے پرونشل مینجمنٹ سروس (پی ایم ایس ) کے تحریری امتحانات اور انٹرویو میں  کامیاب امی...
21/02/2024

خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن کی طرف سے پرونشل مینجمنٹ سروس (پی ایم ایس ) کے تحریری امتحانات اور انٹرویو میں کامیاب امیدواروں کی فہرست میں چترال سے تعلق رکھنے والے مندرجہ چار امیدوار جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

1- شجاعت علی خان
2- اسد اللہ
3- فرزانہ حیات
4- صادق اللہ

تمام کامیاب امیدواروں اور ان کے اہلِ خانہ کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔

تازہ ترین!
20/02/2024

تازہ ترین!

چترال کے نو منتخب ایم پی اے جناب فاتح الملک علی ناصر اور پاکستان تحریک انصاف مالاکنڈ ڈویژن کے سینئر نائب صدر جناب رضیت ب...
20/02/2024

چترال کے نو منتخب ایم پی اے جناب فاتح الملک علی ناصر اور پاکستان تحریک انصاف مالاکنڈ ڈویژن کے سینئر نائب صدر جناب رضیت باللہ کی نامزد وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور سے ملاقات۔
ملاقات میں پارٹی معاملات کے علاوہ چترال کے مسائل کو بھی ڈسکس کیا گیا ۔

20/02/2024

پی ٹی آئی کو "سوشل میڈیا کی پارٹی" کا طعنہ دینے والی جماعتیں کیسے سوشل میڈیا پر اس سے شکست کھا گئیں۔

• احمد اعجاز، صحافی ۔

آٹھ فروری کو ہونے والے الیکشن کے نتائج اس لحاظ سے حیران کن ہیں کہ سیاسی جماعتوں پر آزاد اُمیدوار برتری لے گئے حالانکہ ان میں سے زیادہ تر انتخابی مہم بھی نہیں چلا پائے تھے۔
اگر پنجاب کی حد تک بات کریں تو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ کامیاب آزاد اُمیدواروں نے الیکشن میں نشست جیتنے کے پرانے طریقہ کار کو تبدیل کر کے رکھ دیا، روایتی طرز کا برادری سسٹم کام آ سکا اور نہ ہی دھڑا بندی مؤثر رہی۔
حلقہ کی سطح پر ووٹرز کی تقسیم بالحاظ عمر، زبان، نسل، مسلک، معاش اور دیہی و شہری امتیاز کے سانچے بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے۔
یوں الیکشن لڑنے کا پرانا طریقہ کار غیر مؤثر ہو کر رہ گیا۔ اچانک ایسا کیوں ہوا؟ اس سوال کا تسلی بخش جواب اس پہلو کے تجزیے میں پنہاں ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اُمیدواروں کے پلڑے میں ووٹ ڈالنے والے ووٹرز شاید الیکشن سے بہت پہلے اپنے ووٹ کا فیصلہ کر چکے تھے اور اس ضمن میں اُن کی ذہن سازی میں سوشل میڈیا کلیدی کردار ادا کر چکا تھا۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے ووٹرز کی ذہن سازی کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا تو دوسری جماعتوں نے ایسا کیوں نہ کیا؟ کیا دوسری جماعتوں کے لیڈر سوشل میڈیا کے مؤثر ہونے کے حوالے سے لاعلم رہے؟ شاید ایسا نہیں۔
لیکن ذرا توقف کریں! تھوڑا عرصہ پہلے کی بات ہے کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ پاکستان تحریکِ انصاف کو ’سوشل میڈیا کی جماعت‘ کا طعنہ دیتی تھیں۔
پھر بعد ازاں جب عمران خان نے ٹک ٹاک کا استعمال کیا تو دونوں جماعتوں کے بعض لیڈروں نے اُن کو ٹک ٹاک کا وزیرِ اعظم کہہ کر پھبتی بھی کَسی۔ پی ٹی آئی کو سوشل میڈیا جماعت کا طعنہ دینے والی جماعتوں کو اُس وقت ادراک نہ ہو سکا کہ اگلے الیکشن کا میدان ڈیجیٹل پلیٹ فارم قرار پائے گا۔
دوسری طرف دونوں جماعتیں اپنے تئیں سوشل میڈیا کو سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بھی بناتی رہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مئی 2022 میں مریم نواز نے مسلم لیگ ن کے ٹک ٹاکر سے جاتی اُمرا میں ملاقات کی اور سوشل میڈیا ٹیم کو ٹک ٹاک پر مزید فعال ہونے کی تاکید کی۔
اسی طرح بلاول بھٹو زرداری کے عوامی مارچ کے دوران ٹک ٹاک کا خوب استعمال کیا گیا تھا مگر اس ضمن میں دونوں جماعتوں کی سرگرم قیادت سے کچھ تاخیر ہو چکی تھی۔
ذرا یاد کیجیے اُن لمحات کو جب پی ٹی آئی برسرِ اقتدار تھی اور صدر ہاؤس، وزیرِ اعظم ہاؤس اور پنجاب گورنر ہاؤس میں سوشل میڈیا سے وابستہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی کئی میٹنگز ہوا کرتی تھیں۔
تاہم آگے بڑھنے سے پہلے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ووٹ ڈالنے کا جواز کس طرز کے ووٹرز کے پاس زیادہ تھا؟ اور یہ جواز ووٹرز کے ذہنوں میں کیسے اُبھارا گیا؟

کس جماعت کے ووٹرز کے پاس ووٹ دینے کا جواز زیادہ تھا؟

جب سنہ 2022 میں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر تمام سرکردہ جماعتوں نے مل کر حکومت بنائی تو عمران خان کے دیرینہ بیانیہ کہ ’یہ سب ملک کو لوٹ کر کھا گئے‘ کو میڈیا و سوشل میڈیا پر خوب پذیرائی ملی۔
پی ڈی ایم کی حکومت لوگوں کو ریلیف دینے میں بھی کامیاب نہ ہو سکی، اُلٹا مہنگائی نے ہر طبقہ کو متاثر کر کے رکھ دیا۔
نو مئی کے واقعہ نے پی ٹی آئی لیڈروں اور ورکرز کو جبر کے شکنجوں میں دے ڈالا۔ سنہ 2018 کے الیکشن سے پہلے کی فلم چل پڑی، فرق یہ تھا کہ اُس وقت ن لیگ، اب پی ٹی آئی زیرِعتاب تھی۔
مگر دونوں کے مابین اپنے اوپر ہونے والے جبر اور ناانصافیوں کی سوشل میڈیا پر تشہیر اور پروپیگنڈے کے استعمال کا فرق سامنے آ گیا۔ اس بار سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے پی ٹی آئی ووٹرز کو ووٹ ڈالنے کے کئی جواز مل گئے۔
اس کے مقابلہ میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے ووٹرز کے پاس ووٹ ڈالنے کے کیا جواز تھے؟ یا کوئی ایسی تحریک جو اُن کو گھروں سے نکلنے پر اُبھار دیتی؟ پی ٹی آئی کا ورکر غصے میں تھا، ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ورکر کے پاس کسی طرح کا غصہ یا ردِعمل نہیں تھا، جس کا وہ ووٹ کی پرچی سے اظہار کرتا۔
2018 میں ن لیگ کے ووٹرز کے پاس کئی جواز تھے۔ اُن کا لیڈر اپنی وزارتِ عظمیٰ کی مُدت پوری نہ کر سکا، وہ تاحیات نااہل ٹھہرایا گیا، بیماری کی حالت میں جیل کاٹ رہا تھا مگر ن لیگ اُس جواز میں اثر پیدا کرنے سے قاصر رہی، اس کی ایک بنیادی وجہ سوشل میڈیا تھی، جو تشہیر اور پراپیگنڈے کا تیز ترین ہتھیار بن چکا تھا۔

پی ٹی آئی ووٹرز گھر سے پولنگ سٹیشن اچانک نہیں نکلےالیکشن سے چند ماہ پہلے جو تجزیہ کار پنجاب میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کا کسی حد تک اندازہ لگا چکے تھے، اُن میں سے بعض کا خیال تھا کہ الیکشن جب قریب آئیں گے اور ووٹرز کو یہ ادراک ہو جائے گا کہ عمران خان مزید مقدمات میں پھنستے چلے جائیں گے اور پی ٹی آئی برسرِ اقتدار نہیں آ سکے گی، تو وہ مقامی دھڑوں اور بالخصوص ن لیگ کے اُمیدواروں کے قریب آنا شروع ہو جائیں گے۔
ایسا ہی خیال سیاست پر گہری نظر رکھنے والے مقامی تجزیہ کاروں کا بھی تھا۔ الطاف خان ڈی جی خان ڈویژن کی سیاسی حرکیات اور وہاں کے سیاسی خاندانوں پر گہری نظر رکھتے ہیں، اُن کا خیال تھا کہ تونسہ کے حلقہ 183 سے امجد فاروق کھوسہ کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔
حلقہ بندیوں کی وجہ سے امجد فاروق کھوسہ کو اُن کے مدِ مقابل خواجہ شیراز پر فوقیت بھی میسر آئی۔ لہٰذا اُنھوں نے اپنے بھائیوں کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ امجد فاروق کھوسہ کو سپورٹ مہیا کی جائے۔
الطاف خان کے مطابق وہ چار یونین کونسل میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں، وہاں سے اُن کو ووٹ بھی دلوائیں گے۔
حالانکہ الطاف خان کی فیملی کی سپورٹ ماضی میں خواجہ شیراز کے ساتھ رہی ہے۔ اس حلقہ میں امجد فاروق کھوسہ ن لیگ کی ٹکٹ پر تھے جبکہ خواجہ شیراز پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اُمیدوار کے طور پر تھے مگر جب نتیجہ آیا تو خواجہ شیراز نے 47 ہزار سے زائد ووٹوں سے اپنے مدِ مقابل امجد فاروق کھوسہ کو ہرا دیا۔
مقامی صحافی سہیل درانی کہتے ہیں کہ ’اس حلقہ میں امجد فاروق کھوسہ کا قبیلہ زیادہ تعداد میں ہے۔ گذشتہ الیکشن میں امجد فاروق کھوسہ نے ذوالفقار کھوسہ کو شکست دی تھی۔ شخصی سطح پر بھی اِن کا ووٹ بینک کافی زیادہ ہے۔ دوسری طرف خواجہ شیراز ماضی میں جب عثمان بزدار وزیرِ اعلیٰ تھے تو پی ٹی آئی سے ناراض تھے مگر جب اِنھوں نے دیکھا کہ ووٹرز پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں تو یہ پی ٹی آئی کی حمایت سے الیکشن میں اُترے۔
یہ آٹھ فروری کے الیکشن سے لگ بھگ ایک ماہ پہلے کی بات ہے۔ ضلع خانیوال سے تعلق رکھنے والی ایک دیہی صوبائی حلقہ کی خاتون اُمیدوار جو اپنی انتخابی مہم کو گذشتہ تین برس سے مسلسل چلا رہی تھی، کسی اچھے ٹک ٹاکر کی تلاش میں تھیں۔ اُن کو اپنی کمپین کے لیے ڈیجیٹل معاونت چاہیے تھی۔
جس وقت خاتون اُمیدوار کو انتخابی مہم کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے اثر کی اہمیت کا اندازہ ہوا، اُس وقت بہت دیر ہو چکی تھی۔ نو فروری کی صبح جب اُس صوبائی حلقہ کا نتیجہ آیا تو پی ٹی آئی کا حمایت یافتہ اُمیدوار جو بالکل نیا چہرہ تھا اور جس نے ایک دِن بھی مہم نہیں چلائی تھی، اُس خاتون اُمیدوار جس نے تین سال گھر گھر مہم چلائی، پر سبقت لے گیا۔
یہ سبقت سوشل میڈیا کی یلغار کا نتیجہ قرار دی جا سکتی ہے، اس کا کوئی دوسرا بڑا جواز بظاہر نظر نہیں آتا۔
یہاں ایک اور مثال کی طرف بڑھتے ہیں۔ انتخابی سروے اور سٹریٹیجی پر کام کرنے والے ادارے ڈیٹا ورس نے اگست 2022 میں ان چند حلقوں میں جہاں روایتی طور پر پاکستان مسلم لیگ ن کا زور رہا ہے، کے ووٹ بینک کا جائزہ لیا۔

یہ آٹھ فروری کے الیکشن سے لگ بھگ ایک ماہ پہلے کی بات ہے۔ ضلع خانیوال سے تعلق رکھنے والی ایک دیہی صوبائی حلقہ کی خاتون اُمیدوار جو اپنی انتخابی مہم کو گذشتہ تین برس سے مسلسل چلا رہی تھی، کسی اچھے ٹک ٹاکر کی تلاش میں تھیں۔ اُن کو اپنی کمپین کے لیے ڈیجیٹل معاونت چاہیے تھی۔
جس وقت خاتون اُمیدوار کو انتخابی مہم کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے اثر کی اہمیت کا اندازہ ہوا، اُس وقت بہت دیر ہو چکی تھی۔ نو فروری کی صبح جب اُس صوبائی حلقہ کا نتیجہ آیا تو پی ٹی آئی کا حمایت یافتہ اُمیدوار جو بالکل نیا چہرہ تھا اور جس نے ایک دِن بھی مہم نہیں چلائی تھی، اُس خاتون اُمیدوار جس نے تین سال گھر گھر مہم چلائی، پر سبقت لے گیا۔
یہ سبقت سوشل میڈیا کی یلغار کا نتیجہ قرار دی جا سکتی ہے، اس کا کوئی دوسرا بڑا جواز بظاہر نظر نہیں آتا۔
یہاں ایک اور مثال کی طرف بڑھتے ہیں۔ انتخابی سروے اور سٹریٹیجی پر کام کرنے والے ادارے ڈیٹا ورس نے اگست 2022 میں ان چند حلقوں میں جہاں روایتی طور پر پاکستان مسلم لیگ ن کا زور رہا ہے، کے ووٹ بینک کا جائزہ لیا۔

اس میں سوشل میڈیا کے اثرات کا جائزہ بھی لیا گیا، قومی اسمبلی کے یہ دیہی حلقے تھے۔ یہاں صرف ایک حلقہ کی بات کرتے ہیں۔
اوکاڑہ کا حلقہ جس کا 2018 کے الیکشن میں نمبر 143 تھا وہاں سے مسلم لیگ ن کے ایم این اے راؤ اجمل خان نے 54 ہزار کی برتری سے سیٹ اپنے نام کی تھی۔
اُس حلقہ میں جو نجی چینل زیادہ دیکھا جاتا تھا، وہ پی ٹی آئی کا شدید حامی تصور کیا جاتا تھا۔ اس چینل کے جملہ اینکر پی ٹی آئی تھے۔ اس چینل کا مواد سمارٹ فونز پر زیادہ دیکھا جاتا تھا اور دیکھنے والوں میں بزرگ افراد کی تعداد کثرت سے تھی۔ آٹھ فروری کو ہونے والے الیکشن میں راؤ اجمل خان کو پی ٹی آئی حمایت یافتہ اُمیدوار نے لگ بھگ 25 ہزار ووٹوں سے شکست دی۔
گویا 2018 میں 54 ہزار ووٹوں کی برتری رکھنے والا 2024 کے الیکشن میں 25 ہزار کے بھاری مارجن سے شکست کھا بیٹھا۔
اس حلقہ میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اُمیدوار کا پس منظر پی ٹی آئی کا نہیں لیکن وہ ایک ایسے اُمیدوار سے جیت گیا، جو الیکٹ ایبل تصور ہوتا ہے اور قومی اسمبلی کا حلقہ بھی ن لیگ کے ووٹ بینک کے لحاظ سے شہرت رکھتا ہے۔
اوکاڑہ کے مقامی صحافی سلمان قریشی کہتے ہیں کہ ’اس حلقہ میں راؤ اجمل کی شکست کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں مگر اصل میں یہاں الیکشن ن لیگ بمقابلہ پی ٹی آئی ہوا۔‘
اسی طرح مقامی صحافی محمد اشرف کہتے ہیں کہ ’راؤ اجمل نے بہت عمدہ طریقے سے اپنی مہم چلائی، حلقے میں ہر جگہ اُن کے پینا فلیکس لگے ہوئے دکھائی دیے اور فیس بک پیج پر بھی کمپین چلائی گئی۔‘
ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نے جس موثر طریقے سے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا استعمال کیا، اُس نے ووٹرز کو قابو کیے رکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ووٹرز کی ذہن سازی ایک عرصہ سے مسلسل ہو رہی تھی۔
ڈیٹاورس کے سروے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حلقہ کے دیہی علاقوں میں جو ووٹرز سوشل و الیکٹرانک میڈیا کے انفلوئنس میں آ رہا تھا، اسے الیکٹرانک و سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر زیادہ مواد پی ٹی آئی کے حوالے سے دیکھنے کو مل رہا تھا اور عمران خان کے خلاف متبادل آوازوں (جیسا کہ نواز شریف اور مریم نواز) کی کمی تھی۔ اگر یہ آوازیں تھیں بھی تو جذباتیت سے معمور ہرگز نہیں تھیں۔
ہیڈ آف الیکٹرانک میڈیا پی ٹی آئی رضوان احمد کہتے ہیں کہ ’ہم الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر 2010 اور 2011 سے متحرک ہیں، تاہم 2012 کے بعد ہماری پارٹی اِن پلیٹ فارم پر زیادہ متحرک ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان انتخابات میں سوشل میڈیا کا بڑا کردار رہا ہے۔

الیکشن 2024 میں انتخابی مہم میں سوشل میڈیا کا کردار کتنا مؤثر رہا اور پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں کے ہاں اس کے استعمال میں فرق کیا رہا؟
اس حوالے سے ایک اہم ڈیجیٹل پلیٹ فارم ’ٹی سی ایم‘ کے ڈائریکٹر نیوز واحد علی کہتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی ہمیشہ کی طرح سوشل میڈیا پر اپنی مہم میں جدت متعارف کروانے کے حوالے سے سبقت لے گئی، چاہے ورچوئل پاور شو ہو، ٹک ٹاک جلسہ ہو، روزانہ کی بنیادپر ٹوئٹر سپیس کا استعمال ہو یا عمران خان کی پرانی تقاریر کو دوبارہ براہ راست سوشل میڈیا پلیٹ فورمز پر چلانا ہو، یہاں تک کہ الیکشن کے بعد اے آئی کی مدد سے تیار کردہ عمران خان کی وکٹری سپیچ ہو۔‘
’پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم نے جدت کے ساتھ اپنے ووٹر تک اپنا پیغام پہنچایا۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ایک طرف پرانی سیاسی جماعتوں، خصوصاً مسلم لیگ ن نے روایتی انداز میں کیمپین کی اور اخباری اشتہارات کا سہارا لیا جو اب نوجوان پڑھتے بھی نہیں۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کی نسبت ذرا بہتر انداز سے سوشل میڈیا کا استعمال کیا۔
’خاص کر بلاول بھٹو کے پوڈ کاسٹ کی سوشل میڈیا پر کافی دھوم رہی، جماعت اسلاامی کے کچھ امیدواروں نے ذاتی حیثیت خاص کر اسلام باد سے میاں اسلم اور کراچی سے حافظ نعیم کی سوشل میڈیا ٹیم کافی ایکٹو نظر آئی مگر تربیت یافتہ سٹاف نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ مؤثر مہم نہ کر سکے۔ نمبر ون پر بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف کی ٹیم تھی

جس کا سب سے بڑا کارنامہ اپنے ووٹر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے پولنگ بوتھ تک نکال کر لانا تھا وہ بھی درست انتخابی نشان کی انفارمیشن کے ساتھ۔۔
بشکریہ بی بی اُردو نیوز

19/02/2024

ضروری اطلاع براۓ عوام الناس۔

بحکم ڈپٹی کمشنر / ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لوئر چترال۔

تمام ٹرانسپورٹرز / اڈہ مالکان اور ڈرائیور حضرات کو مطلع کیا جاتا ہے کہ لواری ایپروچ روڈ کی مکمل بحالی تک کوئی بھی گاڑی ضلع سے باہر سفر نہیں کر سکتی ۔ روڈ کے کلیئرنس کے بعد سب کو اگاہ کر دیا جاۓ گا۔ خلاف ورزی کی صورت میں سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جاۓ گی۔

مسافر حضرات سے بھی گزارش کی جاتی کہ رسائی سڑک اور موسم سے متعلق مکمل معلومات حاصل کر کے سفر کریں۔ غیر ضروری سفر کرنے سے گریز کریں۔

شعبہ تعلقات عامہ ضلعی انتظامیہ لوئر چترال۔

ٹانک میں این اے 43 کے تمام 348 پولنگ اسٹیشنز کا غیرحتمی غیرسرکاری نتیجہ سامنےآگیا جس کے مطابق مولانا فضل الرحمان کے بیٹے...
19/02/2024

ٹانک میں این اے 43 کے تمام 348 پولنگ اسٹیشنز کا غیرحتمی غیرسرکاری نتیجہ سامنےآگیا جس کے مطابق مولانا فضل الرحمان کے بیٹے اسعد محمود کو شکست ہوگئی۔

8 فروری کے الیکشن میں این اے 43 ٹانک کے کچھ پولنگ اسٹیشنز پر پولنگ نہ ہوسکی تھی جو آج مکمل کی گئی۔

غیرحتمی اور غیرسرکاری نتیجے کےمطابق پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ داور خان کنڈی 64483 ووٹ لے کا کامیاب ہوگئے۔ جے یوآئی کے مفتی اسعد محمود 63900 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔

غیر حتمی نتیجے کے مطابق داور خان کنڈی 583 ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوئے۔

واضح رہے کہ این اے 43 ٹانک کے پولنگ اسٹیشنز میں دوبارہ پولنگ کے دوران کوٹ اعظم مڈل اسکول میں قائم پولنگ اسٹیشن پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا۔

پولیس کی جوابی فائرنگ سے ایک حملہ آور ہلاک ہوا۔ واقعے میں متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔

اس حلقے سے پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار داور خان کنڈی اور جمعیت علمائے اسلام ف کے مفتی اسعد محمود کے درمیان کانٹے کا متوقع تھا۔ مولانا اسد محمود سربراہ جمیعت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمان کے بیٹے ہیں

لواری اپڈیٹ۔مورخہ 19 فروری۔ لواری ٹنل  اور مضافات میں 26  انچ  تک برف پڑ چکی ہے۔ اور  روڈ ہر قسم کے امدو رفت کے لیے بند ...
19/02/2024

لواری اپڈیٹ۔
مورخہ 19 فروری۔
لواری ٹنل اور مضافات میں 26 انچ تک برف پڑ چکی ہے۔ اور روڈ ہر قسم کے امدو رفت کے لیے بند ہے۔ چترال سائڈ میں روڈ کلیئر ہے۔ اور دیر سائڈ پر برف زیادہ ہونے کی وجہ سے رود بند ہے ۔ انتظامی افسران اور چترال لیویز کے جوان پھنسے ہوۓ مسافروں کو ریسکیو کرنے کولنڈی سائڈ پہ پہنچ چکے ہیں ۔ تمام مسافروں کو با حفاظت ریسکیو کر لیا گیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر لوئر چترال محمد عمران خان صاحب لواری ٹنل دیر سائڈ میں موجود ہیں۔ اور امدادی سرگرمیوں کی خود نگرانی کر رہے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر امدادی سرگرمیوں میں خود بھی مصروف ہیں۔ محکمہ این ایچ اے کی مشینری برف ہٹانے میں مصروف عمل ہے۔ تمام اداروں کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔ تا کہ امدادی سرگرمیاں مزید تیز کی جا سکیں۔
مسافر اور سیاح حضرات سے گزارش ہے کہ وہ روڈ کلیئر ہونے تک سفر کرنے سے گریز کریں۔
سفر کرنے سے گریز کریں۔ سنو چین کا استعمال یقینی بنائیں۔
کسی بھی ایمرجنسی صورتحال اور رہنمائی کیلۓ ڈپٹی کمشنر لوئر چترال کے واٹس ایپ نمبر 03330506962.
واٹس ایپ نمبر ۔ 03085832947. میڈیا ونگ ڈی سی افس ۔
ضلعی انتظامیہ کے 24/7 کنٹرول روم نمبر 0943412519 اور پولیس ہیلپ لائن نمبر 15 پہ رابطہ کریں۔

Address

Chitral

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when The Times of Chitral دی ٹائمز آف چترال posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share