30/08/2025
مجھے انصاف چاہیے
پشاور کبوتر چوک رینگ روڈ پر درد ناک سفاکیت اور لاپرواہی کا شکار ہونے والے چترالی کی فریاد
مورخہ 22 جولائی 2025 بوقت شام 9 بجے، میں عبدالصمد، اپنی اہلیہ اور اہل خانہ کے ہمراہ رِنگ روڈ پشاور، نزد اباسین یونیورسٹی، بی آر ٹی اسٹیشن وزیر کالونی کے قریب سڑک کراس کر رہا تھا۔ یہ کوئی موٹروے یا ہائی وے نہیں بلکہ ایک عام پبلک روڈ ہے جس پر شہریوں کی روزمرہ آمدورفت معمول کی بات ہے۔
ہم سڑک کے خالی ہونے کا انتظار کر رہے تھے کہ اچانک نیچے کی سمت (کبوتر چوک سے چارسدہ روڈ کی طرف) دو گاڑیاں آتی دکھائی دیں۔ پہلی گاڑی گزر گئی، مگر دوسری گاڑی انتہائی خطرناک رفتار، غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہماری سمت بڑھی۔ ممکنہ طور پر ڈرائیور نشے کی حالت میں تھا یا موبائل فون استعمال کر رہا تھا۔ اچانک اس گاڑی نے میری اہلیہ کو زور دار ٹکر ماری۔
میری اہلیہ اس وقت امید سے تھیں، اور ہم آنے والے ایک یا دو دنوں میں بچے کی پیدائش کے منتظر تھے۔ حادثے کے بعد گاڑی سے ایک بااثر شخص اترا، جس کی شکل آج بھی میرے ذہن میں نقش ہے۔ اس کے ساتھ دو باوردی مسلح پولیس اہلکار بھی موجود تھے۔ میں شدید طیش کی حالت میں اسے تھپڑ مارا اور مجھے مجھے اس کے پرسنالٹی اور پروٹوکول سے اندازہ ہوا تھا کہ شاید میری اپنی محکمے کا کوئی آفیسر ہے پھر بھی میں اس کے چہرے کو یاد کیا۔ میری اہلیہ سڑک پر شدید زخمی حالت میں پڑی تھیں، میں چیخ چیخ کر مدد کے لیے پکار رہا تھا، مگر دو منٹ تک کوئی آگے نہ بڑھا۔ یہ شخص موقع سے فرار ہو گیا۔
میری اہلیہ اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی زخم بہت شدید تھے، گاڑی انتہائی سپید سے آکر لگی تھی، وہ زمین پر لہو لہان پڑی تھی، میں مدد کیلئے چیخ رہا تھا کوئی مدد کرنے والا نہیں تھا پھر خدا کا شکر کہ ایک چنگچی رکشہ والے نے انسانیت کا مظاہرہ کیا اور ہمیں ایم ایم سی ہسپتال پہنچایا۔ چونکہ گھر سے نکلتے وقت میں موبائل گھر چھوڑا تھا، کسی سے رابطہ ممکن نہ ہو سکا۔ ڈاکٹروں نے ہر ممکن کوشش کی، لیکن میری اہلیہ شدید زخموں کی تاب نہ لا سکیں اور خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔
کچھ دیر بعد میرے محلے داروں کو اطلاع ملی اور وہ ہسپتال پہنچے۔ میرے پڑوسی رحمان نے میرا موبائل لا کر دیا، جس کے بعد میں نے اپنے محکمہ پولیس کے افسران کو آگاہ کیا۔ میرے ڈائریکٹر ندیم اقبال اور دیگر ساتھیوں کی مدد سے میری اہلیہ کو ایل آر ایچ ہسپتال منتقل کیا گیا تاکہ بچی کی جان بچائی جا سکے، مگر ڈاکٹروں کے مطابق بچہ بھی جاں بحق ہو چکا تھا۔
بعد ازاں، تھانہ پہاڑی پورہ کی پولیس ٹیم نے میری رپورٹ درج کی، اور پی پی سی دفعات 320 اور 179 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ یاد رہے پولیس رپورٹ لیتے وقت مجھ سے اس ڈرائیور کا حلیہ نہیں پوچھا تھا، اس وجہ سے میں مطمئن ہوا کہ اسے پکڑا گیا ہے، ہمیں ایل آر ایچ سے کے ایم سی ریفر کئے، جہاں پوسٹ مارٹم کے بعد رات 2 بجے ہم فارغ ہو کر اپنی شہید اہلیہ کو لے کر چترال روانہ ہوا۔
پھر جو ہوا وہ میرے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔
میں اپنی اہلیہ کی تدفین اور رسومات کی تکمیل کے بعد جب واپس پشاور پہنچا تو، گاڑی بم پروف، بلٹ پروف، سیاہ رنگ نمبر BD9112 کے مالک، سینیٹر ہدایت اللہ (عوامی نیشنل پارٹی) کی جانب سے ارباب سمین جان (ریٹائرڈ ایس پی)، سبز علی اور دیگر چند افراد نے تعزیت کی آڑ میں مجھ سے ملاقات کی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ سینیٹر صاحب چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل کیا جائے۔ جرگہ کے کئے درخواست کئے، میں نے انسانیت اور محفل میں بیٹھے اپنے بڑوں کا خیال رکھتے ہوئے ٹھیک ہے کہہ کر سر ہلایا اور آئیندہ جرگہ کیلئے لائحہ عمل طے ہوا میں اور میرا بھائی کپٹن ریٹائرڈ محمد یحییٰ خان جانب سے محمد توفیق ایڈووکیٹ اور پیر مختار ثانی کو جرگہ کے لیے نامزد کئے۔
لیکن کچھ ہی دن بعد ان افراد نے اطلاع دی کہ سینیٹر صاحب نے خود کو اس معاملے سے الگ کر لیا ہے، اور ان کے مطابق "یہ معاملہ ختم ہو چکا ہے"۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ نہ خود سینیٹر صاحب نے تعزیت کی، نہ کسی انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا، گویا دو انسانی جانیں ان کے ہاں کوئی اہمیت اور وقعت ہی نہیں رکھتیں۔
چند دن بعد جب میں کیپٹل سٹی پولیس پشاور کے فیس بک پیج پر اپنی ایف آئی آر سے متعلق تصاویر دیکھ رہا تھا، تو میں حیران رہ گیا۔ جو شخص گرفتار ہوا اور نامزد کیا گیا تھا، وہ وہ شخص نہیں تھا جو گاڑی چلا رہا تھا! میں نے اپنی آنکھوں سے اصل ملزم کو دیکھا، میں نے اسے تھپڑ مارا، مگر ایف آئی آر میں شامل ملزم کا نام وارث خان تھا، جس کی شکل بالکل مختلف تھی۔
میں نے پولیس اور اپنی کمیٹی کو واضح کیا کہ اصل مجرم کو بچانے کے لیے ایک بے گناہ کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ میں آج بھی شناخت پریڈ کے لیے تیار ہوں اور اصل ملزم کو پہچاننے کی پوری اہلیت رکھتا ہوں۔
انصاف کی بے حسی اس وقت انتہا کو پہنچی جب مجھے میرے کزن جاوید اقبال کے
ذریعے پتہ چلا کہ نامزد شخص (اگرچہ بعد میں واضح ہوا کہ وہ اصل ملزم نہیں تھا) اسے بھی راتوں رات ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے ۔ یعنی جس وقت میں اپنی اہلیہ کی ڈیتھ باڈی لیکر, LRH hospitalاور KMC میں پوسٹ مارٹم میں مصروف تو اس دوران سینٹر نے قانونی تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے اصل مجرم کی جگہ ایک شخص کو مجرم نامزد کرایا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصل ڈرائیور اس کے خاندان کا کوئی فرد تھا, اس طرح اگلے اسی دن یعنی 23 جولائی کو سنیٹر صاحب نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے اسے بھی ضمانت پہ رہا کرانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ یاد رہے اس وقت میری اہلیہ کی تدفین بھی نہیں ہوئی تھی۔
یہ سب کچھ بغیر تفتیش، بغیر عدالتی کارروائی، صرف ایک بااثر سینیٹر کے اثر و رسوخ پر کیا گیا۔ یہ قانون کی دھجیاں اڑانے اور انسانی زندگیوں کی توہین کے مترادف ہے۔
:میری اپیل:
میں تمام انصاف پسند شہریوں، سماجی کارکنوں، صحافیوں، وکلاء، سیاسی قائدین، عوامی نیشنل پارٹی کے اصول پسند رہنماؤں، اور ہر ذی شعور انسان سے اپیل کرتا ہوں کہ:
یہ صرف میری لڑائی نہیں ہے، یہ قانون، انصاف، اور انسانیت کے وقار کی لڑائی ہے۔
میں مطالبہ کرتا ہوں کہ:
- اصل قاتل کو گرفتار کیا جائے اور جدید سائنسی بنیادوں پر تفتیش کی جائے
- واقعے کے وقت کا GPS/Location ڈیٹا حاصل کیا جائے
- شناخت پریڈ کرائی جائے تاکہ اصل مجرم کو پہچانا جا سکے
- ایف آئی آر میں ترمیم کر کے اصل ملزم کو شامل تفتیش کیا جائے
- شفاف، غیر جانبدار اور غیر سیاسی انکوائری کمیشن قائم کیا جائے
- مجھے اور میرے خاندان کو قانونی، و سماجی انصاف فراہم کیا جائے
میں عوامی نیشنل پارٹی کے قائدین سے بھی پُرزور اپیل کرتا ہوں کہ وہ سینیٹر ہدایت اللہ کے غیر انسانی، غیر اخلاقی اور غیر قانونی کردار کا نوٹس لیں، اور باچا خان بابا کے فلسفے کے مطابق مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں۔
اگر اس پوسٹ کو آپ تک پہنچنے میں چند سیکنڈ لگے، تو یاد رکھیں کہ میرے لیے ہر سیکنڈ، میری زندگی، میری اہلیہ، میرے بچے، اور میرے خاندان کی بربادی کی یاد دلاتا ہے۔
عبدالصمد ضلع چترال حال مقیم: پشاور۔
WhatsApp: 03450711411
Capital City Police Peshawar Deputy Commissioner Peshawar