22/05/2025
کیا نئے صوبے لسانی تضاد پیدا کریں گے یا قومی اتحاد مضبوط کریں گے؟
پاکستان میں نئے صوبوں کے قیام پر جب بھی بات ہوتی ہے، تو ایک عام اعتراض یہ سامنے آتا ہے کہ یہ عمل لسانی تضادات کو ہوا دے گا۔ مگر یہ دلیل حقیقت سے زیادہ مفروضے پر مبنی ہے۔ اگر ہم دیانتداری سے موجودہ صوبائی ڈھانچے کا تجزیہ کریں، تو واضح ہو جاتا ہے کہ:
موجودہ صوبے پہلے ہی لسانی بنیادوں پر بنے ہیں:
پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، اور بلوچستان — یہ سب صوبے بنیادی طور پر لسانی شناخت کے گرد تشکیل دیے گئے۔ ہر صوبے کا نام اور سیاسی بیانیہ اس کی زبان سے جڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان صوبوں میں دیگر قومیتوں اور زبانوں کے لوگ اکثر احساسِ محرومی کا شکار ہوتے ہیں۔
نئے صوبے لسانی تضاد نہیں، لسانی تسلط کو کم کریں گے:
مثال کے طور پر، جب پنجاب کو انتظامی لحاظ سے تقسیم کیا جائے گا — جیسے جنوبی پنجاب، پوٹھوہار، یا بہاولپور کو الگ صوبہ بنایا جائے — تو یہ تاثر خودبخود ختم ہو جائے گا کہ "پنجاب صرف پنجابیوں کا ہے۔" بلکہ مختلف زبانوں اور ثقافتوں کو ان کا الگ تشخص ملے گا، جو انہیں وفاق کے ساتھ زیادہ مضبوطی سے جوڑ دے گا۔
اسی طرح بلوچستان میں بلوچوں کے ساتھ ہزارہ، پشتون، اور براہوی قومیں رہتی ہیں۔ اگر وہاں انتظامی تقسیم کی جائے، تو یہ واضح پیغام جائے گا کہ ریاست صرف اکثریت کے لیے نہیں، بلکہ ہر اقلیت کے ساتھ بھی مساوی انصاف کر رہی ہے۔
:
نئے صوبے صرف لسانی بیانیے کو توڑتے نہیں، بلکہ ایک مشترکہ قومی شناخت کو پروان چڑھاتے ہیں۔ جب ہر قومیت اور علاقہ خود کو "مالک" اور "بااختیار" محسوس کرتا ہے، تو وہ ریاست کے خلاف نہیں، ریاست کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔
لہٰذا، یہ کہنا کہ نئے صوبے لسانی تضاد پیدا کریں گے، محض ایک سیاسی بہانہ ہے۔ اصل میں، یہ اقدام سیاسی انصاف، انتظامی بہتری، اور قومی یکجہتی کی طرف ایک مضبوط قدم ہو گا۔