12/08/2025
قومی اسمبلی این اے 185 پر الیکشن حالات ممکنہ نتاٸج شخصیت, پارٹی , عوامی اور روایتی
سیاست, فارم 47 کا ماحول۔ ڈاکٹر سہیل سکھانی ۔۔۔
اگر ڈیرہ غازیخان کی سیاست کی بات کریں تو اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو انتخابات دوسرا سلیکشن۔ 1937 سے پہلے سردار امام بخش مزاری پھر بہرام مزاری الن خان دریشک سر جمال لغاری پنجاب لیجسلیٹو کونسل میں شامل کیے جاتے رہے۔ 1935 کے انڈیا ایکٹ کے بعد جب الیکشن کی سیاست کا أغاز ہوا تو روایتی سردار اس سیاست کا حصہ بنے یا پھر قانون سے وابستہ لوگ الیکشن کی سیاست میں صف اول میں نظر أٸے۔ 1937 میں خواجہ مرتضی۔ پھر ان کی جگہ اعظم خان ملغانی شیخ فیض ایڈوکیٹ بہادر خان دریشک اور سر جمال خا ن منتخب ہوٸے جبکہ 1945-46 میں ڈیرہ غازیخان شمالی میں بیرسٹر عطا بزدار نے امیر محمد قیصرانی کو ہرا کر مسلم لیگ کو یونینسٹ پر برتری دلالی۔ واضح رہے یونیسٹ اور مسلم لیگ کی واضح لہر کے ساتھ امیدواروں کا بلا چوں چراں مہر لگانے والا ووٹ بینک بھی تھا۔ قیام پاکستان کے بعد عام اتخابات 1970 میں ہوٸے اور چند سیٹوں کے علاوہ پی پی کا پلہ بھاری تھا۔ انتخابات بنیادی طور
پر2024 کی پہلی جھلک تھے۔ جنوبی حلقہ شیر باز مزاری جیت گٸے شمالی حلقہ پر پنجاب میں جماعت اسلامی کے ڈاکٹر نزیر واحد سیٹ جیت کر ایوان میں پہنچے۔ یہ مقابلہ دلچسپ ہے اور اس جیت کی وجہ بھی ہے۔اس حلقہ میں چودہ امیدوار تھے جن میں ڈکٹر نذیر شہید بتیس ہزار ۔خواجہ قطب تیس ہزار منظور لنڈ اٹھاٸیس حافظ عبدالستار تقریبا اکیس ہزار اور نوابزادہ محمد خان انیس ہزار ووٹ لے گٸے۔ خواجہ قطب اور حافظ عبدالستار دونوں ایک دوسرے کو مناتے رہ گٸے اور ان دونوں نے مجموعی طور پر پچاس ہزار ووٹ لٸے۔ جماعت اسلامی کی کامیابی اس کا کوٸی اکیلا کارنامہ نہیں تھا بلکہ سردار عطا محمد کھوسہ اور ربنواز کھتران صوباٸی ونگ تھے۔ جو دونوں صوباٸی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوٸے۔ 1976 میں بھٹو نے سب کو ا
یڈجسٹ کردیا اور 1977 بشیرالدین سالار بھی کسی وڈیرے کے ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے منتخب ہوٸے۔ پھر 2013 تک رواٸتی سیاست اور قباٸلی سردار فرنٹ پر رہے یا ان کے خاندان سے ہی اکثریت تھی۔ یا ان کے تجویز کندہ جیسے علیم شاہ فاروق لغاری کے نامینیٹڈ تھے۔ پھر حافظ عبدالکریم نے جگہ بناٸی اور زرتاج گل بھی متعارف ہوٸی ان دونوں کو پارٹی اور پارٹی لیڈر کا ووٹ ملا۔ اسی طرح 2018 میں زرتاج گل اور حنیف پتافی لیڈرشپ کی وجہ سے کامیاب ہوٸے۔ 2024 کے الیکشن میں صورت حال 1946 سے مشابہت رکھتی ہے۔ اس ضمنی الیکشن میں جو ماحول ہے اگر دیکھا جاٸے تو کوٸی امیدوار ذاتی حیثیت میں نہیں جیت سکتا جب تک اس کو مضبوط سیاسی جماعت کی حمایت نہ ہو۔ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی اپنا ووٹ بینک کھو چکیں ہیں اور زور لگا کر بھی بارہ سے بیس ہزار کے درمیان ووٹ بینک بنا لیں گی جو ان کے مضبوط امیدوار کیلٸے ناکافی ہے۔ ن لیگ کتنے لوگ الیکشن میں حصہ لیتے ہیں اور عوام کیسے ڈیل کرتے ہیں یہ اہم سوال ہے۔ باقی تحریک انصاف کا کوٸی بھی امیدوار ہوا توعوامی پزیراٸی حاصل ہوسکتی ہے بالخصوص سابقہ الیکشن کے امیدواروں میں سے یا کھوسہ فیملی سے اگر ہوا تو ایک سخت مقابلہ ہوگا۔ التبہ ماڈل 2024 دوبارہ بھی دیکھا جاسکتا ہے جس کا اثر ہے۔ اسی طرح میرے خیال میں کوٸی جہاندیدہ سیاستدان شاید اعصاب پر قابو رکھ ضمنی الیکشن سے دور بھی رہ سکتا ہے۔ نوٹ۔ میرا تجزیہ تاریخی تناظر میں ہے کسی کا متفق ہونا یا نہ ہونا اس کی صوابدید ہے۔ ۔