
23/09/2025
ایم پی اے کی خاموشی پروآ کی پسماندگی کا دردِ عوام
رپورٹ قیوم بلوچ
تحصیل پروآ ایک کثیر آبادی، مگر بنیادی سہولیات سے محروم علاقہ ہے اس تحصیل کی آبادی اور جغرافیائی اہمیت دونوں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ نمائندہ عملی اقدامات کرے، نہ کہ محض نعروں تک محدود رہے۔ (تحصیل پروآ آبادی و جغرافیہ)۔
حلقہ سے بار بار اسمبلی تک پہنچنے والے مولانا لطف الرحمان گزشتہ چند ادوار سے عوامی نمائندے رہے ہیں؛ ان کے پارلیمانی پروفائل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے صوبائی اسمبلی میں نمائندگی کی ہے اور عوامی سطح پر سرگرمیاں بھی کی گئی ہیں۔ عوامی توقع یہ تھی کہ متواتر جیت کے بعد ان کے اثر و رسوخ سے تحصیل کے بنیادی مسائل خصوصاً تعلیم، صحت، پانی اور بجلی میں ٹھوس فرق آئے گا۔
پورے تحصیل میں موجود گورنمنٹ ڈگری کالج پروآ کے معاملات تشویش کا باعث ہیں: کالج سرکاری داخلوں کی فہرستوں اور مقامی لوگوں کے مطابق فعال ہے مگر بارہا طلبا اور والدین نے کالج میں لیکچرارز کی کمی، مخصوص مضامین کی عدم دستیابی اور انتظامی خامیوں پر احتجاج کیا ہے۔
گورنمنٹ ڈگری کالج پروآ
مزید براں، ملک اور صوبے میں ہائر ایجوکیشن پالیسیوں میں تبدیلیاں آئی
HEC اور صوبائی HED کی پالیسیوں کے مطابق دو سالہ Associate Degree (AD) پروگراموں کا نظام متعارف کروایا گیا اور روایتی دو سالہ BA/BSc کے عنوانات میں تبدیلیاں آئیں جس کا اثر کالجز میں نصابی ڈھانچے اور سٹاف کی ضرورت پر ہوا۔ اس تبدّل نے جہاں بعض جگہوں پر نظام کو مربوط کیا وہیں کئی دور دراز کالجوں میں عدم مطابقت اور عبوری خلل بھی پیدا کیا۔
مقامی لوگوں کے مطابق واضح ہے کہ کالج کے طلبا و والدین بارہا سڑکوں پر نکلے اور انتظامیہ/نمائندوں سے فوری حل کا مطالبہ کیا۔ یہ احتجاج اس بات کا عکاس ہے کہ تعلیمی مسائل محض کاغذی کارروائی یا وعدوں سے حل نہیں ہو رہے عملی نفاذ اور
مستقل سٹاف تعیناتی کی ضرورت ہے
علاقے کے مکین مسلسل پینے کے صاف پانی کی قلت، بجلی کے لوڈشیڈنگ اور صحت کے بنیادی ڈھانچے کی کمی کا شکار ہیں۔ متاثرہ علاقوں کے دوروں کی خبریں بارہا اس طرف اشارہ کرتی رہی ہیں کہ ڈسٹرکٹ اور صوبائی سطح پر مختص فنڈز اور منصوبے یا تو بروقت نہیں پہنچے یا ان کا نفاذ سست رہا۔ ایسے بنیادی معاملات میں طویل خاموشی عوامی اعتماد کو کمزور کرتی ہے خصوصاً جب نمائندہ بارہا منتخب ہو چکا ہو۔
1. پہلا دور ابتدائی مدت میں اکثر نمائندوں کے پاس محدود وسائل ہوتے ہیں مگر مقامی اثر و رسوخ اور محکمانہ رابطے سے چھوٹے پراجیکٹس ممکن ہوتے ہیں راستہ مرمت، سروسز کی وقتی فراہمی وغیرہ۔ عوامی بیانات اس دور میں امید افزا رہے
2. دوسرا دور : اس مدت میں توقع ہوتی ہے کہ صوبائی رابطوں کے ذریعے بڑے منصوبے درکار ہوں گے اگر پراجیکٹس مکمل نہ ہوں یا رقم جاری نہ کی جائے تو عوامی مایوسی بڑھتی ہے۔ تحصیل پروآ کی مثال میں بھی کچھ منصوبے متعین نظر آئے مگر نفاذ کمزور رہا۔
3. موجودہ تیسرا/متواتر دور: جب کسی نمائندے کو بار بار منتخب کیا جائے تو عوام کا صبر ختم ہونے لگتا ہے؛ اسی لیے آج کی خاموشی زیادہ معنی خیز ہے ۔ توقع تھی کہ ایسی مدت میں قابلِ ملاحظہ ترقیاتی منصوبے، مستقل ٹیچر/ڈاکٹرز کی تعیناتی، اور بنیادی انفراسٹرکچر میں بہتری دیکھی جائے گی، مگر حقائق مختلف دکھائی دیتے ہیں۔
صوبائی سطح پر تعلیمی پالیسیوں (جیسے BA کے متبادل AD پروگرام) اور کالجز میں نصابی و انتظامی تبدیلیاں بھی اس دیرینہ مسئلے کو پیچیدہ کر دیتی ہیں: جہاں ایک طرف پالیسیوں کا مقصد معیار بہتر کرنا ہوتا ہے، وہاں دوسرے طرف متعلقہ کالجز میں عملدرآمد، اساتذہ کی فراہمی اور مالی معاونت کے مسائل فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔ اس خلا میں نمائندہ کے کردار کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔
عوامی نمائندہ جب خاموش رہتا ہے تو کئی سوال اٹھتے ہیں: کیا پیسوں اور منصوبوں کی ترجیحات درست رہی؟ کیا مطالبات اسمبلی کے فلور پر اٹھائے گئے؟ کیا متعلقہ محکموں کے ساتھ مستقل رابطہ رکھا گیا؟ خاموشی بعض اوقات ایک سیاسی حکمتِ عملی ہو سکتی ہے، مگر انتہائی پسماندہ اور کثیر آبادی حلقوں میں خاموشی کا مطلب براہِ راست عوامی نقصان ہے خصوصاً اس وقت جب تعلیمی ادارے، صحت مراکز اور بنیادی سہولیات کا نظام زبوں ہو۔
1. تحصیل سطح پہ ایک شفاف، تیسرے فریق کا سروے کرایا جائے تاکہ تعلیمی سٹاف، صحت کی سہولت، پانی و بجلی کی موجودہ صورتحال کا حقیقی ڈیٹا مل سکے۔
2. ایم پی اے کو چاہیے اسمبلی میں مسئلے کو بار بار اٹھائیں، بلاک فنڈنگ/ڈیولپمنٹ بجٹ کے نفاذ کی پیروی کریں اور متعلقہ حکام سے لائحہ عمل طے کرائیں۔
3. طلبا و مقامی نمائندوں کی فورمنگ: کالج طلبا، والدین اور مقامی کمیونٹی لیڈرز کا مستقل فورم قائم کیا جائے جو ماہانہ بنیاد پر ترقیاتی عمل کی نگرانی کرے۔
4. کسی بھی جاری یا مجوزہ پراجیکٹ کی پبلک ٹریکنگ اور آڈٹ ہو تاکہ شفافیت آئے اور بدانتظامی روکی جا سکے۔
پروآ کے باشندے صبر اور سیاسی معرفت کے پابند ہیں، مگر صبر کی ایک حد ہوتی ہے۔ انتخابی دعوے اور عوامی مسائل کے حل کے درمیان جو فاصلہ کھڑا ہے وہ صرف احتجاج اور مہم چلانے سے نہیں بھرے گا عملی اقدامات، پالیسی کی صحیح تعبیر اور نمائندے کی فعال مداخلت درکار ہے۔ مولانا لطف الرحمان جیسے متواتر نمائندے کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ خاموشی توڑیں، اسمبلی فلور اور مقامی سطح دونوں پر واضح اور مؤثر آواز اٹھائیں، اور تحصیل کے بچوں، مریضوں اور کسانوں کو وہ حقوق دلائیں جن کے لیے انہیں منتخب کیا گیا۔