
28/06/2025
عملی تبدیلی ممکن ہے ؟
تحریر قیوم بلوچ
محکمہ پولیس خیبرپختونخوا کو مثالی فورس بنانے کے خواہش مند مقتدر حلقے مسائل سے بے خبر وسائل اور مسائل کی اس جنگ میں ڈانواں ڈول عملہ جائے تو کدھر جائے
پولیس کے بارے میں یوں تو پورے پاکستان میں کہیں بھی کوئی رائے اچھی نہیں پائی جاتی اور انتظامی امور کا یہ محکمہ بدنام ترین گنا جاتا ہے۔
وڈیرہ شاہی سیاسی مداخلت و اثر و رسوخ اور رشوت ستانی جیسے عوامل اس ادارے کی شفافیت کو دیمک کی طرح چاٹتے رہے ہیں ۔حالات یوں ہیں کہ ایک عام شخص اپنی جائز شکایت لے کر تھانہ کے اندر جانے سے قطراتا ہے ۔تھانوں سے عام آدمی کی دوری اور بداعتمادی جرائم میں اضافے کا سبب بنتی جا رہی ہے۔ جہاں سزا و جزا کا کنسیپٹ(concept)ختم ہو جائے وہاں جرم تیزی سے پھلتا پھولتا ہے۔
اس ساری سچوایشن (situation) میں صرف ادارے کو مورد الزام ٹھہرانا انتہائی نا انصافی ہو گی ۔یہ سوچنا بھی ہو گا کہ ہم جس محکمہ سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری من و عن پوری کرے گا ۔
کیا ہم نے اسے وہ تمام وسائل عطا کر دئیے ہیں جو اس کی ضرورت تھے ؟محض اختیار کا ہونا بھی کافی نہیں ہوتا اس مختیاری کو بروئے کار لانے کے لیے بھی چند لوازمات ضروری ہوتے ہیں جیسا کہ ایک ہونہار طالب علم کو اگزام روم (exam room)میں بیٹھا کر سوالیہ پیپر تو دے دیا جائے لیکن اسکو حل کرنے کے لیے پن اور آنسر شیٹ نہ دی جائے اور توقع رکھی جائے کہ وہ فرسٹ پوزیشن بھی حاصل کرے گا تو یہ ایک ناممکن اور کبھی پوری نہ ہونے والی امید ہے ۔
ٹھیک اسی طرح پولیس کو سہولیات فراہم نہ کر کے ہم اگر یہ امید رکھیں کہ یہ محکمہ مثالی بنے گا تو یہ محض ایک وہم ہے ۔
جہاں پورے تھانہ کی دو تین گاڑیوں کے لیے پورے تیرہ سے چودہ لیٹر تیل پومیہ دیا جاتا ہو۔
جہاں پورے ڈھائی تین سو روپے جتنی خطیر رقم تھانے کو اسٹیشنری کے لئے منتھلی میسر ہو جہاں فورس کے پانچ فٹ سات انچ کے صحت مند نوجوان کو صرف ایک دن کی دو وقت روٹی ناشتہ اور چائے کے لئے پورے ایک سو تیس روپے میسر ہوں تو امید بھی ماڈرن پولیس جتنی ہی ہو گی ۔
یہ جو اخلاقی پولیس مثالی پولیس ماڈرن پولیس بنانے کے کھوکھلے نعرے ہیں یہ بے وزن اور بے وقت ہیں۔خاص کر ڈیرہ اسماعیل خان جیسے ہارڈ ایریا میں جہاں ایک تھانے کا حلقہ دور دراز علاقوں تک پھیلا ہوتا ہے وہاں تین گاڑیوں کے لیے 190 لیٹر ڈیزل منتھلی 2 گاڑیوں کیلئے صرف ایک مذاق ہے۔
ایک سو تیس روپے یومیہ میس اور تین سو روپے منتھلی کی اسٹیشنری بھی کسی ڈرامے سے کم نہیں ہے ۔
ان سارے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے مقتدرہ کو یہ سوچنا ہو گا کہ وہ پولیس کی ذمہ داریوں کا تعین تو کرتے رہتے ہیں لیکن اپنی ذمہ داریوں کو بھی پورا پورا ادا کریں اور اس انتظامی امور کی فورس کو ہر وہ سہولت فراہم کریں جو انکی اشد ضرورت ہے تاکہ کسی وڈیرے کسی سیاسی پنڈت یا آؤٹ سائیڈر کی ضرورت باقی نہ رہے۔
یہ ادارہ بھی اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کر سکے۔اگر سچ کہا جائے تو وہ یہ ہے کہ انکی محتاجی کو ختم کر دیں تمام سہولیات ان کو خود فراہم کر دیں تو اس میں کوئی دورائے نہیں یہ ادارہ مثالی بن جائے گا ۔
خیبرپختونخوا پولیس نے نہ صرف جانوں کے نذرانے پیش کئے بلکہ اپنی جانوں سمیت اپنے بھائیوں بچوں کی قربانیاں بھی دی ہیں کہیں کہیں تو آج بھی شہداء پیکج کی فراہمی میں بھی مسائل پیدا کئے گئے ہیں ۔
تو اس سارے مسائل کو حل کرنے میں مقتدر اداروں کو چاہئے کہ اس ادارے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کریں تاکہ اپاہج سسٹم کا خاتمہ ہو اور ایک خود دار ادارہ بن جائے ۔
RPO Dera Ismail Khan DPO DIKhan Arif Bilal AB Deputy Commissioner DIKhan Dera Live Urdu Qayyum Nawaz Baloch Ali Amin Khan Gandapur Khyber Pakhtunkhwa Public Service Commission