TribalTimes /ٹرائبل ٹائمز

TribalTimes /ٹرائبل ٹائمز قبائلی اضلاع کا واحد اور کثیرلاشاعت ہفت روزہ اخبار

📝 سابقہ فاٹا میں تعلیمی انقلاب اور سکیورٹی چیلنجز: ایک تعمیری جائزہ​سابقہ فاٹا، جو اب خیبر پختونخوا کے ضم شدہ قبائلی اضل...
06/11/2025

📝 سابقہ فاٹا میں تعلیمی انقلاب اور سکیورٹی چیلنجز: ایک تعمیری جائزہ
​سابقہ فاٹا، جو اب خیبر پختونخوا کے ضم شدہ قبائلی اضلاع ہیں، سات ایجنسیوں اور چھ فرنٹیئر ریجنز پر مشتمل تھا، اور جنوبی وزیرستان کی دو اضلاع میں تقسیم کے بعد اب انضمام کے بعد آٹھ اضلاع بن چکے ہیں۔ 2023 کی مردم شماری کے مطابق، یہاں کی کل آبادی 60 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، اس آبادی میں دس سال سے کم عمر کے بچوں کی تعداد ہے جو تناسب 25 فیصد کے حساب سے لگایا گیا ہے، جو تقریباً پندرہ لاکھ بنتےہے۔ اسی طرح، 18 سال تک کی عمر کے نوجوانوں کی تعداد، 55 فیصد کے حساب سے، 33 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ 60 لاکھ افراد 27,220 مربع کلومیٹر کے وسیع رقبے پر آباد ہیں۔​گزشتہ بیس سالوں کے دوران، قومی مفادات کے تحفظ کے لیے سابقہ فاٹا میں مختلف فوجی آپریشنز کیے گئے، جن کے نام اور دورانیہ یہ ہیں آپریشن صراطِ مستقیم: (خیبر ایجنسی) 2008 میں شروع ہوا۔
​آپریشن شیردل: (باجوڑ ایجنسی) 2008 میں فرنٹیئر کور کے تعاون سے شروع ہوا۔
​​آپریشن راہِ نجات: (جنوبی وزیرستان) 2009 میں شروع ہوا۔​آپریشن ضربِ عضب: (شمالی وزیرستان) 2014 میں شروع کیا گیا۔​آپریشن خیبر (I, II, III, IV): (خیبر ایجنسی) 2014 سے 2017 کے درمیان مختلف مراحل میں جاری رہا۔
​آپریشن ردالفساد: (2017 سے اب تک) ایک قومی سطح کا آپریشن جس میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
​ان آپریشنز کے دوران کئی فوجی جوان اور افسران سمیت قبائلی عام شہری شہید ہوئے، اور قبائلی عوام کو شدید مالی و جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے گھر، کاروبار، اور زمینیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں، جس سے ان کی زندگی شدید متاثر ہوئی۔لیکن بدلے میں کچھ نہیں ملا کیا یہاں پرصرف زندگی کی بنیادی عنصر تعلیم کے حوالے سے بات کرینگے جوکہ
​🎓 تعلیم کے میدان میں مایوس کن صورتحال اج بھی ہے​یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی آزادی کے بعد گزشتہ 78 سالوں میں سابقہ فاٹا کے بچوں کی تعلیم کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟ جب حقائق کا جائزہ لیا جاتا ہے، تو صورتحال مایوس کن نظر آتی ہے:​یونیورسٹی کا قیام:ان 78 سالوں میں سابقہ فاٹا کو ایک یونیورسٹی دی گئی تھی، جس کی منظوری مئی 2013 میں نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے دی تھی۔ تاہم، اس کی نئی عمارت کا باقاعدہ افتتاح جولائی 2023 میں کوہاٹ کے علاقے درہ آدم خیل کے اخری باونڈری میں ہوا، جو سابقہ فاٹا کے اضلاع (جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان، باجوڑ، مہمند، خیبر، کرم اور اورکزئی) سے سینکڑوں کلومیٹر دور ہے۔ یہ یونیورسٹی دور ہونے کی وجہ سے قبائلی علاقے کے طلباء کے لیے مکمل طور پرغیر مؤثر ہے۔​اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئےکیمپسز کا وعدہ کیا جاتا ہے، جس میں چار چار اضلاع شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، باجوڑ، اور خیبر شامل تھے جبکہ فاٹا انضمام کے دوران فاٹا یونیورسٹی کے چار کیمپسز کی باقاعدہ منظوری ان چاروں اضلاع میں دی گئی تھی، مگر آج تک ان پر کوئی کام شروع نہیں ہو سکا اور نہ ہی کوئی پیش رفت نظر آتی ہے۔
​لڑکیوں کے اسکول کے حوالے سے ایک معتبر رپورٹ کے مطابق، پورے فاٹا میں لڑکیوں کے لیے سو کے قریب ہائی اسکول بنائے گئے ہیں، جو برائے نام ہیں۔ ان میں سٹاف اور بنیادی سہولیات کی شدید کمی ہے۔ جبکہ ایک سروے کے مطابق، سابقہ فاٹا کو لڑکیوں کے لیے مزید 281 ہائی اسکولوں کی ضرورت تھی، مگر حکومت نے اس حوالے سے اج تک کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے ہیں۔
​شرح خواندگی کے اعداد و شمار (جو پہلے بھی بیان کیے گئے ہیں):​مردوں میں شرح خواندگی: تقریباً 29 سے 36 فیصد۔​خواتین میں شرح خواندگی: انتہائی کم، صرف 3 سے 10.50 فیصد کے درمیان۔
​لڑکیوں کا داخلہ لڑکوں کی 73 فیصد شرح کے مقابلے میں لڑکیوں کے اسکول میں داخلے کی مجموعی شرح صرف 27 فیصد پر رُکی ہوئی ہے ۔اگر اج کی تاریخ سال 2025 میں دیکھا جائے تو شرح بدترین مایوس کن ہوسکتی ہے
​بدقسمتی سے، موجودہ حالات میں تعلیمی صورتحال تقریباً صفر ہو چکی ہے، اور جو ادارے موجود ہیں وہ صرف رسمی ہیں۔اس حوالے سے جب پاکستان کے ​⚖️ دیگر صوبوں سے تقابلی جائزہ لیا گیا تو
​یہ صورتحال مزید تعصب کو جنم دیتی ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ دیگر صوبوں کو 78 سالوں میں تعلیم کے میدان میں کیا ملا:​صوبہ پنجاب: 41 اضلاع میں صرف لاہور میں 14 سرکاری یونیورسٹیاں اور پورے صوبے میں تقریباً 60 سرکاری اور 50 کے قریب پرائیویٹ یونیورسٹیاں ہیں۔​صوبہ سندھ: 30 اضلاع ہے جبکہ صوبے میں 30 سے زائد سرکاری یونیورسٹیاں ہیں، جن میں صرف کراچی شہر میں 10 سرکاری یونیورسٹیاں شامل ہیں۔​صوبہ خیبر پختونخوا (سابقہ فاٹا کے علاوہ) 25 اضلاع ہے جبکہ پورے صوبے میں 32 سرکاری یونیورسٹیاں ہیں، جن میں صرف پشاور شہر میں 8 سے 10 سرکاری یونیورسٹیاں ہیں۔​صوبہ بلوچستان: 35 اضلاع ہے جبکہ صوبے میں 12 سرکاری یونیورسٹیاں ہیں۔​یہ تقابلی جائزہ واضح کرتا ہے کہ سابقہ فاٹا کے قبائلی عوام کو تعلیم سے کس قدر محروم اور دور رکھا گیا ہے۔ جب تعلیم نہیں ہو گی، تو ترقی اور خوشحالی کا خواب دیکھنا محال ہے۔ حکمرانوں سے یہ اہم سوال ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟
​🏗️جنوبی وزیرستان ایجوکیشن سٹی کی بات کی جائے تو صورت حال مزید ​مایوس کن ہوجاتا ہے جب ایک قبائلی تنظیم، محسود ویلفیئر ایسوسی ایشن نے خود تعلیم کا بیڑا اٹھایا۔ انہوں نے جنوبی وزیرستان میں ایجوکیشن سٹی بنانے کے لیے دن رات کوششیں کیں۔ مقامی قبائلی قوم شمن خیل نے اس مقصد کے لیے سات ہزار کنال زمین مفت میں عطیہ کر دی، جس کا باقاعدہ افتتاح سابق کور کمانڈر پشاور مظہر شاہین نے 27 مارچ 2019 کو کیا تھا۔​افسوس کہ کئی سال گزرنے کے باوجود آج تک اففتاح کے بعد ایک اینٹ بھی نہیں رکھی جا سکی۔ صوبائی حکومت نے کچھ فنڈز ریلیز کیے، مگر ان کی فراہمی یقینی نہیں بنائی گئی۔ یہ دو رُخی رویہ کیا تعصب کی عکاسی نہیں کرتا؟
​💡 اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں کہ قبائلی بچے اور بچیاں قدرتی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ انہیں تعلیم کے مواقع ملیں، تو وہ پوری دنیا میں قابل سائنسدان، انجینئر اور ڈاکٹر بن کر پاکستان کو طاقتور بنا سکتے ہیں۔
​لہٰذا، آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کو چاہیے کہ وہ سابقہ فاٹا میں تعمیر ہونے والے ایجوکیشن سٹی کے حوالے سے خود نوٹس لیں اور اس پر فوری کام شروع کروائیں۔ یہ اقدام نہ صرف سابقہ فاٹا کی تقدیر بدل دے گا، بلکہ ہمسایہ صوبوں کے بچوں کے لیے بھی تعلیم کا ایک نیا باب کھولے گا۔ جنوبی وزیرستان کے مقامی مشر محمود خان نے کہا کہ سات ہزار کنال زمین مفت میں فراہم کی ہے، اور اگر مزید زمین درکار ہوئی تو اپنے گھر بھی عطیہ کرنے کو تیار ہیں، اگر اب بھی تعصب کیا گیا ایجوکیشن سٹی پر کام کی شروعات نہیں ہوتی تو قبائلیوں کی مقدر میں صرف مایوسی اور محرومی ہی رہے گی۔جب تعلیم نہیں ہوگی وہاں پسماندگی بدامنی کا راستہ صرف مشکل نہیں ناممکن ہے

جنوبی اضلاع اور سابقہ فاٹا میں امراض قلب کا بحران​جنوبی اضلاع اور سابقہ فاٹا (ضم شدہ اضلاع) میں حرکت قلب سے ہونے والی ام...
05/11/2025

جنوبی اضلاع اور سابقہ فاٹا میں امراض قلب کا بحران
​جنوبی اضلاع اور سابقہ فاٹا (ضم شدہ اضلاع) میں حرکت قلب سے ہونے والی اموات نے وبائی صورت اختیار کر لی ہے۔ ضلع ٹانک میں صرف ایک ہفتے کے اندر حرکت قلب نے دو نوجوان جانیں نگل لیں، جس سے پورا علاقہ سوگوار ہے۔
​افسوسناک امر یہ ہے کہ جنوبی اضلاع سمیت سابقہ فاٹا میں امراض قلب کے علاج کے لیے کوئی خصوصی ہسپتال موجود نہیں ہے، جو صوبائی حکومت کی صحت کے شعبے میں ناکامی کو واضح کرتا ہے۔
​​پورے ملک پاکستان میں امراض قلب (کارڈیو ویسکولر ڈیزیز - CVDs) ہر سال تمام اموات کا تقریباً 29 سے 30 فیصد بنتے ہیں۔ تاہم، اگر جنوبی اضلاع اور سابقہ فاٹا کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے تو یہ شرح 50 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔​ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں امراض قلب کے باعث سالانہ تقریباً 4 لاکھ افراد کی جانیں چلی جاتی ہیں۔ جبکہ ایک اور رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں ہر گھنٹے 50 سے زائد افراد دل کی بیماریوں سے وفات پا جاتے ہیں۔اگر جنوبی اضلاع اور سابقہ فاٹا کا ڈیٹا لیا جائے، تو یہ شرح تشویشناک حد تک بڑھ سکتی ہے، کیونکہ یہاں تو عام ہسپتالوں میں بھی معمولی بیماریوں کے علاج کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔​دیہی علاقوں میں ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس اور غیر صحت مند طرز زندگی جیسے خطرے کے عوامل کی شرح زیادہ پائی جاتی ہے، جو حرکت قلب کے کیسز میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔
​​خیبر پختونخوا میں قلب کے خصوصی علاج کے لیے پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (PIC) سب سے بڑا مرکزی ادارہ ہے۔ اس کے علاوہ، تین بڑے سرکاری میڈیکل ٹیچنگ ہسپتالوں (LRH, HMC, KTH) اور متعدد نجی ہسپتالوں میں بھی دل کے امراض کی مکمل دیکھ بھال اور علاج کی سہولیات موجود ہیں۔
​لیکن جنوبی اضلاع اور سابقہ فاٹا کے شہری مکمل طور پر حرکت قلب کے ہسپتالوں سے محروم ہیں۔ یہاں کے شہری حرکت قلب کے پہلے ہی شدید دورے میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔​سابقہ فاٹا کے باشندے دل کی تمام بڑی بیماریوں، خاص طور پر ہنگامی صورتحال، انجیوگرافی، انجیوپلاسٹی اور اوپن ہارٹ سرجری کے لیے پشاور کا رُخ کرتے ہیں۔ کئی گھنٹوں کے طویل سفر اور تباہ حال سڑکوں پر سفر کرنے کے بعد، مریض اکثر راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ وہاں اپنے ہی ضلعی حدود یا ریجن کے سطح پر سینکڑوں کلومیٹر کے فاصلے پر بھی حرکت قلب کا کوئی ہسپتال موجود نہ ہونا نہایت افسوسناک ہے
حیرانگی اس بات کا ہے کہ زندگی مفلوج ہوگئی کون کون سی محرومی پر روئے

📝 سابقہ فاٹا میں تعلیمی انقلاب اور سکیورٹی چیلنجز: ایک تعمیری جائزہ​سابقہ فاٹا، جو اب خیبر پختونخوا کے ضم شدہ قبائلی اضل...
04/11/2025

📝 سابقہ فاٹا میں تعلیمی انقلاب اور سکیورٹی چیلنجز: ایک تعمیری جائزہ
​سابقہ فاٹا، جو اب خیبر پختونخوا کے ضم شدہ قبائلی اضلاع ہیں، سات ایجنسیوں اور چھ فرنٹیئر ریجنز پر مشتمل تھا، اور جنوبی وزیرستان کی دو اضلاع میں تقسیم کے بعد اب انضمام کے بعد آٹھ اضلاع بن چکے ہیں۔ 2023 کی مردم شماری کے مطابق، یہاں کی کل آبادی 60 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، اس آبادی میں دس سال سے کم عمر کے بچوں کی تعداد ہے جو تناسب 25 فیصد کے حساب سے لگایا گیا ہے، جو تقریباً پندرہ لاکھ بنتےہے۔ اسی طرح، 18 سال تک کی عمر کے نوجوانوں کی تعداد، 55 فیصد کے حساب سے، 33 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ 60 لاکھ افراد 27,220 مربع کلومیٹر کے وسیع رقبے پر آباد ہیں۔​گزشتہ بیس سالوں کے دوران، قومی مفادات کے تحفظ کے لیے سابقہ فاٹا میں مختلف فوجی آپریشنز کیے گئے، جن کے نام اور دورانیہ یہ ہیں آپریشن صراطِ مستقیم: (خیبر ایجنسی) 2008 میں شروع ہوا۔
​آپریشن شیردل: (باجوڑ ایجنسی) 2008 میں فرنٹیئر کور کے تعاون سے شروع ہوا۔
​​آپریشن راہِ نجات: (جنوبی وزیرستان) 2009 میں شروع ہوا۔​آپریشن ضربِ عضب: (شمالی وزیرستان) 2014 میں شروع کیا گیا۔​آپریشن خیبر (I, II, III, IV): (خیبر ایجنسی) 2014 سے 2017 کے درمیان مختلف مراحل میں جاری رہا۔
​آپریشن ردالفساد: (2017 سے اب تک) ایک قومی سطح کا آپریشن جس میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
​ان آپریشنز کے دوران کئی فوجی جوان اور افسران سمیت قبائلی عام شہری شہید ہوئے، اور قبائلی عوام کو شدید مالی و جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے گھر، کاروبار، اور زمینیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں، جس سے ان کی زندگی شدید متاثر ہوئی۔لیکن بدلے میں کچھ نہیں ملا کیا یہاں پرصرف زندگی کی بنیادی عنصر تعلیم کے حوالے سے بات کرینگے جوکہ
​🎓 تعلیم کے میدان میں مایوس کن صورتحال اج بھی ہے​یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی آزادی کے بعد گزشتہ 78 سالوں میں سابقہ فاٹا کے بچوں کی تعلیم کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟ جب حقائق کا جائزہ لیا جاتا ہے، تو صورتحال مایوس کن نظر آتی ہے:​یونیورسٹی کا قیام:ان 78 سالوں میں سابقہ فاٹا کو ایک یونیورسٹی دی گئی تھی، جس کی منظوری مئی 2013 میں نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے دی تھی۔ تاہم، اس کی نئی عمارت کا باقاعدہ افتتاح جولائی 2023 میں کوہاٹ کے علاقے درہ آدم خیل کے اخری باونڈری میں ہوا، جو سابقہ فاٹا کے اضلاع (جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان، باجوڑ، مہمند، خیبر، کرم اور اورکزئی) سے سینکڑوں کلومیٹر دور ہے۔ یہ یونیورسٹی دور ہونے کی وجہ سے قبائلی علاقے کے طلباء کے لیے مکمل طور پرغیر مؤثر ہے۔​اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئےکیمپسز کا وعدہ کیا جاتا ہے، جس میں چار چار اضلاع شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، باجوڑ، اور خیبر شامل تھے جبکہ فاٹا انضمام کے دوران فاٹا یونیورسٹی کے چار کیمپسز کی باقاعدہ منظوری ان چاروں اضلاع میں دی گئی تھی، مگر آج تک ان پر کوئی کام شروع نہیں ہو سکا اور نہ ہی کوئی پیش رفت نظر آتی ہے۔
​لڑکیوں کے اسکول کے حوالے سے ایک معتبر رپورٹ کے مطابق، پورے فاٹا میں لڑکیوں کے لیے سو کے قریب ہائی اسکول بنائے گئے ہیں، جو برائے نام ہیں۔ ان میں سٹاف اور بنیادی سہولیات کی شدید کمی ہے۔ جبکہ ایک سروے کے مطابق، سابقہ فاٹا کو لڑکیوں کے لیے مزید 281 ہائی اسکولوں کی ضرورت تھی، مگر حکومت نے اس حوالے سے اج تک کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے ہیں۔
​شرح خواندگی کے اعداد و شمار (جو پہلے بھی بیان کیے گئے ہیں):​مردوں میں شرح خواندگی: تقریباً 29 سے 36 فیصد۔​خواتین میں شرح خواندگی: انتہائی کم، صرف 3 سے 10.50 فیصد کے درمیان۔
​لڑکیوں کا داخلہ لڑکوں کی 73 فیصد شرح کے مقابلے میں لڑکیوں کے اسکول میں داخلے کی مجموعی شرح صرف 27 فیصد پر رُکی ہوئی ہے ۔اگر اج کی تاریخ سال 2025 میں دیکھا جائے تو شرح بدترین مایوس کن ہوسکتی ہے
​بدقسمتی سے، موجودہ حالات میں تعلیمی صورتحال تقریباً صفر ہو چکی ہے، اور جو ادارے موجود ہیں وہ صرف رسمی ہیں۔اس حوالے سے جب پاکستان کے ​⚖️ دیگر صوبوں سے تقابلی جائزہ لیا گیا تو
​یہ صورتحال مزید تعصب کو جنم دیتی ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ دیگر صوبوں کو 78 سالوں میں تعلیم کے میدان میں کیا ملا:​صوبہ پنجاب: 41 اضلاع میں صرف لاہور میں 14 سرکاری یونیورسٹیاں اور پورے صوبے میں تقریباً 60 سرکاری اور 50 کے قریب پرائیویٹ یونیورسٹیاں ہیں۔​صوبہ سندھ: 30 اضلاع ہے جبکہ صوبے میں 30 سے زائد سرکاری یونیورسٹیاں ہیں، جن میں صرف کراچی شہر میں 10 سرکاری یونیورسٹیاں شامل ہیں۔​صوبہ خیبر پختونخوا (سابقہ فاٹا کے علاوہ) 25 اضلاع ہے جبکہ پورے صوبے میں 32 سرکاری یونیورسٹیاں ہیں، جن میں صرف پشاور شہر میں 8 سے 10 سرکاری یونیورسٹیاں ہیں۔​صوبہ بلوچستان: 35 اضلاع ہے جبکہ صوبے میں 12 سرکاری یونیورسٹیاں ہیں۔​یہ تقابلی جائزہ واضح کرتا ہے کہ سابقہ فاٹا کے قبائلی عوام کو تعلیم سے کس قدر محروم اور دور رکھا گیا ہے۔ جب تعلیم نہیں ہو گی، تو ترقی اور خوشحالی کا خواب دیکھنا محال ہے۔ حکمرانوں سے یہ اہم سوال ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟
​🏗️جنوبی وزیرستان ایجوکیشن سٹی کی بات کی جائے تو صورت حال مزید ​مایوس کن ہوجاتا ہے جب ایک قبائلی تنظیم، محسود ویلفیئر ایسوسی ایشن نے خود تعلیم کا بیڑا اٹھایا۔ انہوں نے جنوبی وزیرستان میں ایجوکیشن سٹی بنانے کے لیے دن رات کوششیں کیں۔ مقامی قبائلی قوم شمن خیل نے اس مقصد کے لیے سات ہزار کنال زمین مفت میں عطیہ کر دی، جس کا باقاعدہ افتتاح سابق کور کمانڈر پشاور مظہر شاہین نے 27 مارچ 2019 کو کیا تھا۔​افسوس کہ کئی سال گزرنے کے باوجود آج تک اففتاح کے بعد ایک اینٹ بھی نہیں رکھی جا سکی۔ صوبائی حکومت نے کچھ فنڈز ریلیز کیے، مگر ان کی فراہمی یقینی نہیں بنائی گئی۔ یہ دو رُخی رویہ کیا تعصب کی عکاسی نہیں کرتا؟
​💡 اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں کہ قبائلی بچے اور بچیاں قدرتی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ انہیں تعلیم کے مواقع ملیں، تو وہ پوری دنیا میں قابل سائنسدان، انجینئر اور ڈاکٹر بن کر پاکستان کو طاقتور بنا سکتے ہیں۔
​لہٰذا، آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کو چاہیے کہ وہ سابقہ فاٹا میں تعمیر ہونے والے ایجوکیشن سٹی کے حوالے سے خود نوٹس لیں اور اس پر فوری کام شروع کروائیں۔ یہ اقدام نہ صرف سابقہ فاٹا کی تقدیر بدل دے گا، بلکہ ہمسایہ صوبوں کے بچوں کے لیے بھی تعلیم کا ایک نیا باب کھولے گا۔ جنوبی وزیرستان کے مقامی مشر محمود خان نے کہا کہ سات ہزار کنال زمین مفت میں فراہم کی ہے، اور اگر مزید زمین درکار ہوئی تو اپنے گھر بھی عطیہ کرنے کو تیار ہیں، اگر اب بھی تعصب کیا گیا ایجوکیشن سٹی پر کام کی شروعات نہیں ہوتی تو قبائلیوں کی مقدر میں صرف مایوسی اور محرومی ہی رہے گی۔جب تعلیم نہیں ہوگی وہاں پسماندگی بدامنی کا راستہ صرف مشکل نہیں ناممکن ہے

03/11/2025
پاکستان تحریک انصاف کے سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی خاموشی: فیصل امین گنڈا پور کے اقتدار کا خاتمہ؟​خیبر پختونخوا ...
31/10/2025

پاکستان تحریک انصاف کے سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی خاموشی: فیصل امین گنڈا پور کے اقتدار کا خاتمہ؟
​خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع کی نہایت پسماندہ تحصیل کلاچی سے تعلق رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے اپنے ایک سال سات ماہ کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران بالخصوص خیبر پختونخوا اور بالعموم سابقہ قبائلی اضلاع (فاٹا) سمیت اپنے آبائی ریجن ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام کو شدید مایوس کیا۔
​عام طور پر یہ بات زدِ عام تھی کہ وزیراعلیٰ کا منصب علی امین گنڈا پور کے پاس تھا، لیکن حقیقی طاقت ان کے بھائی فیصل امین گنڈا پور کے ہاتھ میں تھی، جن پر الزام ہے کہ وہ صوبے میں چیف سیکریٹری سے لے کر اسسٹنٹ کمشنر تک کے انتظامی معاملات کی ڈوریں ہلا رہے تھے۔ بہر حال، ایک سال سات ماہ کے طویل عرصے میں سابقہ فاٹا سمیت اپنے آبائی علاقے تحصیل کلاچی کے لیے کوئی بنیادی ترقیاتی کام نہیں کیے گئے۔
​سیاست کے نبض شناس لوگوں کو پہلے ہی یہ اندازہ تھا کہ علی امین گنڈا پور ایک ناکام وزیراعلیٰ ثابت ہوں گے۔ تاہم، یہ امید ضرور تھی کہ وہ کم از کم اپنے آبائی علاقے اور ریجن کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے، لیکن ان کی یہ امیدیں بھی خاک میں مل گئیں۔ یہاں تک کہ ڈیرہ ریجن سے متصل جنوبی وزیرستان کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا، اور معمول کی آہستہ آہستہ ہونے والی ترقی کو بھی تالا لگ گیا۔
​جن لوگوں نے یہ مکمل یقین کر لیا تھا کہ علی امین گنڈا پور کے وزیراعلیٰ بننے سے عمران خان بھی جیل سے باہر آئیں گے اور صوبے میں ترقی و خوشحالی کا دور آئے گا، ان کی مایوسی کا عالم یہ ہے کہ حالیہ پشاور میں ہونے والے جلسے کے دوران علی امین گنڈا پور کو تقریر کے دوران جوتے بھی مارے گئے اور ان کے خلاف شدید نعرے بھی لگائے گئے۔
​اب علی امین قومی اور بین الاقوامی میڈیا پر مکمل طور پر خاموش ہیں، یہاں تک کہ نئے بننے والے وزیراعلیٰ (سہیل آفریدی ) کے حالیہ جلسوں میں شرکت کی زحمت بھی نہیں کی۔​علی امین گنڈا پور نے اپنے دورِ اقتدار میں جس غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور جس طرح وقت ضائع کیا، وہ مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ صوبے کی سرکاری نوکریوں میں بھی میرٹ کی خلاف ورزی کی گئی، یہاں تک کہ ایٹا (ETEA) ٹیسٹ میں بھی امیدواروں کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔ باقی گریڈ 4 سے لے کر گریڈ 15 تک کی سرکاری نوکریوں کو مبینہ طور پر فروخت کیے جانے کے الزامات سامنے آ رہے ہیں۔
​امن و امان کے حوالے سے تو علی امین گنڈا پور مکمل طور پر لاتعلق اور کنارہ کش رہے، کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کیا۔ ان کے دورِ اقتدار میں ہزاروں بے گناہ شہری اور سرکاری اہلکار شہید ہوئے۔
​علی امین گنڈا پور کو چاہیے تھا کہ وہ زراعت، تعلیم اور صحت کے شعبوں پر سنجیدہ توجہ دیتے اور مؤثر اقدامات کرتے، لیکن بدقسمتی سے تمام سرکاری ادارے مکمل طور پر زمین بوس ہو گئے۔ پسماندہ علاقوں کو کوئی بڑا (میگا) ترقیاتی منصوبہ نہیں دیا گیا۔
​تعلیم اور صحت کے لیے نئے ہسپتالوں کا قیام عمل میں لاتے اور پرانے ہسپتالوں کو سہولیات فراہم کرتے۔
​تمام سرکاری بھرتیاں میرٹ پر کرتے۔
​ترقیاتی فنڈز کی بغیر کسی کمیشن کے فراہمی کو یقینی بناتے۔
​امن و امان کے لیے خصوصی اقدامات اٹھاتے۔
​نئے ڈیموں کی تعمیر شروع کرواتے اور نہروں کا جال بچھاتے۔
​گڈ گورننس (اچھی حکمرانی) کو بہتر کرتے اور ایماندار افسران کو آگے لاتے۔
​لنک سڑکوں کی منظوری اور ان پر کام کا آغاز کرتے۔
​کھیل کے حوالے سے خصوصی دلچسپی لیتے، ہر ضلع کے لیے سپورٹس اسٹیڈیم اور ہر یونین کونسل کے لیے گراؤنڈز کی منظوری دیتے۔
​اعلیٰ تعلیم کے لیے ہر ضلع میں پولی ٹیکنیکل یونیورسٹی کی منظوری دیتے۔
​کاروباری حضرات کو فیکٹریوں اور کارخانوں کے قیام میں مدد دیتے۔
​بجلی کے حوالے سے گومل زام ڈیم کی ترسیل بہتر بناتے اور دیگر ڈیموں پر مشینری بڑھاتے تاکہ خیبر پختونخوا بجلی میں خودکفیل بن سکے۔
​قبائلی اضلاع میں چھوٹے پن بجلی گھر کی منظوری دیتے۔
​خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع میں آئی ٹی سنٹرز کا قیام عمل میں لاتے۔
​اعلیٰ تعلیم کے لیے طلباء کو بیرونی ممالک جیسے چین اور جاپان بھیجتے جہاں سے وہ تکنیکی مہارتیں (ٹیکنیکل کام) سیکھ سکتے۔
​لیکن افسوس، وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور اور ان کے بھائی فیصل امین کی ترجیحات صرف مال بنانے اور اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے تک محدود رہیں۔ اب تو نجی محفلوں میں یہ بات بھی عام ہے کہ فیصل امین گنڈا پور نے پچپن ارب روپے کسی باہر کے ملک میں ملز بنانے کے لیے اپنے خاندان والوں کو بھیجے ہیں۔
​اب نئے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو چاہیے کہ سب سے پہلا کام اپنے پچھلے دورِ اقتدار کی فرانزک انکوائری کروائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ احتساب مشکل ہوگا، لیکن ناممکن نہیں ہے۔علی امین گنڈا پور نے 1 مارچ 2024 کو خیبر پختونخوا کے 22 ویں وزیر اعلیٰ کے طور پر منتخب ہونے کے بعد 2 مارچ 2024 کو حلف اٹھایا۔
​انھوں نے 8 اکتوبر 2025 کو پارٹی بانی کے حکم پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔اس میں شک نہیں جنوبی اضلاع کی ترقی وخوشحالی کیلئے عمران خان کی طرف سے نہایت اہم موقع فراہم کیا لیکن افسوس اس ایک سال سات ماہ کو علی امین گنڈا پور نے ضائع کیا جبکہ یہ وقت پھر کبھی واپس نہیں ہوگا۔۔۔تحریر بوبری گل

پیپلز پارٹی کے رہنما ندیم عوام دوست کو جان کا خطرہ اعلیٰ حکام سے تحفظ کی اپیل"​ٹانک: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) ضلع ...
28/10/2025

پیپلز پارٹی کے رہنما ندیم عوام دوست کو جان کا خطرہ اعلیٰ حکام سے تحفظ کی اپیل"
​ٹانک: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) ضلع ٹانک کے سینئر رہنما اور معروف سماجی شخصیت، ندیم عوام دوست نے اپنی جان کو لاحق سنگین خطرات کے پیش نظر حکام بالا سے فوری تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
​ندیم عوام دوست نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں سنگین نوعیت کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور ان کی جان کو شدید خطرہ ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کے گھر کے ارد گرد مشتبہ مسلح افراد کی نقل و حرکت دیکھی گئی ہے اور کسی بھی وقت ان کی جان کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔
​ندیم عوام دوست نے وفاقی اور صوبائی سکیورٹی اداروں سمیت انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا، ریجنل پولیس آفیسر، اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ٹانک سے پرزور اپیل کی ہے کہ وہ اس سنگین صورتحال کا فوری نوٹس لیں، خطرات کا جائزہ لیں اور ان کی ذاتی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے فول پروف اقدامات کریں

مہنگائی ،پسماندگی کی زمہدار صرف اور صرف حکومت وقت ہی ہے ۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بالخصوص خیبر پختونخوا اور بالعموم پورا...
28/10/2025

مہنگائی ،پسماندگی کی زمہدار صرف اور صرف حکومت وقت ہی ہے ۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بالخصوص خیبر پختونخوا اور بالعموم پورا ملک شدید مہنگائی کی لپیٹ میں ہے۔ کبھی آٹا، کبھی تیل، کبھی چینی، تو کبھی دالیں اور سبزیاں مہنگی ہو جاتی ہیں۔ آخر اس مہنگائی کی وجہ کیا ہے؟ حالانکہ اللہ پاک کی خصوصی رحم وکرم سے پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور قدرتی وسائل سے مالا مال ممالک میں سے ہے۔ تو پھر عوام پریشان کیوں ہیں؟
​اس حوالے سے جب مختلف شہریوں سے بات ہوئی تو آراء مختلف تھیں، لیکن زیادہ تر شہریوں نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ جو بھی حکومت بنتی ہے، ان کی ترجیح عوام کو لوٹنا ہے اور وہ مختلف طریقوں سے عوام کو لوٹتے ہیں، جن کے سامنے عوام بے بس ہیں۔ جو لوگ آواز اٹھانے کی سکت رکھتے ہیں، مہنگائی ان کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ یعنی میڈیا اور باقی طاقتور عوامی حلقے، انہیں کیا فکر کہ تیل اور دیگر اشیائے ضروریات مہنگی ہو گئی ہیں، کیونکہ اصل مسئلہ تو ان غریبوں کا ہے جن کے بچے بھوکے سوتے ہیں۔
​شہریوں نے کہا کہ میڈیا چینلز کی ترجیح صرف ٹی آر پی (TRP) ہے، جنہوں نے صرف اور صرف سیاست اور حکومتی حلقوں پر بات کرنی ہوتی ہے۔ شہریوں نے یہ بھی کہا کہ آج تک کسی بھی چینل کے اینکر کو ان غریبوں کے درمیان نہیں دیکھا گیا جن کے گھر کا چھت نہیں اور بچے بھوکے سوتے ہیں۔
​شہریوں کا کہنا تھا کہ جو چیز بھی مہنگی ہوتی ہے، تیل سے لے کر آٹا، چینی، گھی، دال اور سبزیوں تک، ان سب کی علیحدہ علیحدہ مافیائیں ہیں جن سے باقاعدہ طور پر سیاست دان اور حکومتی طاقتور حلقے کروڑوں، اربوں روپے کا بھتہ لیتے ہیں۔ اگر حکومت ان مافیاؤں کا ساتھ نہ دے تو مجال ہے کہ مہنگائی ہو یا کوئی چیز مہنگی ہو جائے۔ صرف یہی نہیں، حکومت باقاعدہ طور پر ان مافیاؤں کے لیے وہی راستے ہموار کرتی ہے جس سے انہیں عوام کو لوٹنے میں آسانی ہوتی ہے۔
​محکمہ زراعت اپنی ذمہ داری سے مکمل طور پر غافل ہے، اسی طرح محکمہ آبپاشی (Irrigation) بھی اپنے فرائض سے مکمل طور پر سرگرداں ہے۔ اس کے علاوہ حلال فوڈ اور فوڈ اتھارٹی صرف اپنی تنخواہوں تک محدود ہیں۔ باقی تیل کا نظام تو بڑے بڑے مگرمچھوں کے ہاتھوں میں ہے، جب دل چاہتا ہے بڑھا دیتے ہیں، کوئی شفافیت نہیں ہے۔ یعنی وہی لوگ نظام کے بادشاہ ہیں جو پچھلے پچھتر سالوں سے قابض ہیں۔
​شہریوں کے مطابق اگر حکومت نہ چاہے تو مہنگائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ اس مہنگائی پر تو یہ لوگ ووٹ لیتے ہیں اور مافیائیں اپنا کاروبار کرتی ہیں۔ کیونکہ جب مہنگائی نہیں ہوگی، عوام خوش ہوگی، ترقی کے بارے میں سوچے گی اور سوال کرے گی کہ اگر چائنا، جاپان، امریکہ اور یورپ دن بدن ترقی کر رہے ہیں، تو ہم آج کے جدید دور میں دو وقت کی روٹی کے لیے کیوں در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
​عوام کو ایسے جال میں رکھا گیا ہے کہ کبھی بجلی مہنگی تو کبھی گیس، تیل اور اشیائے خورد و نوش مہنگے۔ حکمران بادشاہوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ جھوٹ بولنا اور جھوٹے بیانیے بنانا ہی ہمارے ملک میں سیاست کہلاتا ہے، اور یہی مخصوص ٹولہ پچھلے پچھتر سالوں سے پچیس کروڑ عوام کو بیوقوف بنا رہا ہے۔ اور یاد رکھیں، یہی ٹولہ اسی طرح حکومت کرتا رہے گا اور عوام بیوقوف بنتے رہیں گے۔

28 اکتوبر صبح 6 بجے سے 30 اکتوبر صبح 6 بجے (48 گھنٹے) تک *ضلع ٹانک کی سب ڈویژن جنڈولہ* میں کرفیو نافذ رہے گا۔ کرفیو کے د...
27/10/2025

28 اکتوبر صبح 6 بجے سے 30 اکتوبر صبح 6 بجے (48 گھنٹے) تک *ضلع ٹانک کی سب ڈویژن جنڈولہ* میں کرفیو نافذ رہے گا۔ کرفیو کے دوران ہر قسم کی نقل و حرکت پر مکمل پابندی ہوگی اور جنڈولہ بازار بند رہے گا۔ مزید برآں مندرجہ ذیل راستے پر داخلہ سختی سے منع ہے۔
🔹 متاثرہ راستہ
▪کوڑ قلعہ تا جنڈولہ ضلع ٹانک سے جنوبی وزیرستان (اپر)کی سرحد تک بشمول جنڈولہ بازار
▪ کوڑ قلعہ – گرداوی ضلع ٹانک سے جنوبی وزیرستان (اپر) کی سرحد تک
اہم ہدایت:
▪ صرف ایمرجنسی کی صورت میں پولیس یا سیکیورٹی فورسز کی اجازت کے ساتھ، شناختی کارڈ اور کاغذات جمع کروا کر سفر جاری رکھا جا سکتا ہے۔

راولپنڈی/اڈیالہ جیل میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا  کی عمران خان سے ملاقات نہ ہو سکی​وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کا دوسری مرتبہ ع...
25/10/2025

راولپنڈی/اڈیالہ جیل میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی عمران خان سے ملاقات نہ ہو سکی
​وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کا دوسری مرتبہ عمران خان سے ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل پہنچے، لیکن ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد واپس روانہ ہو گئے۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ "اگر عدالتیں بے بس ہیں تو ہم عوام کی عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کریں گے۔"
​تاہم، شہریوں نے اس معاملے پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ قانون اور آئین ہی ترقی اور خوشحالی کی کنجی ہیں۔ اگر ایک صوبے کا وزیراعلیٰ یہ کہہ رہا ہے کہ عدالتیں بے بس ہو گئی ہیں، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ عدالتوں کے حوالے سے ایک عام شہری کا کیا تصور ہوگا۔
​بدقسمتی سے، یہ بات اس ملک میں عام ہے کہ ہماری ملک کی عدالتیں صرف اور صرف غریب کے لیے ہیں، جہاں ہمیشہ "چیونٹی" ان کے جال میں پھنس جاتی ہے اور "ہاتھی" ہمیشہ نکل جاتا ہے۔ یعنی آج تک کسی بیوروکریٹ، جاگیردار، اور طاقتور کو سزا نہیں ملتی۔ وہ الگ کہانی ہے جب طاقتور آپس میں الجھ جاتے ہیں اور ایک طاقتور دوسرے کو ڈھیر کر دیتا ہے، لیکن ایک غریب شہری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ طاقتور کے مقابلے میں اس کو انصاف ملا ہو۔ ہزاروں حربے استعمال کیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ غریب کے پاس وکیل کی فیس ادا کرنے کے پیسے نہیں ہوتے۔ دوسری جانب، ایک چھوٹے سے مقدمے کو سالوں سال چلایا جاتا ہے، اور ان عدالتی حاضریوں کا حساب جب لگایا جائے تو وہ ایک غریب شہری کے لیے ممکن نہیں ہے۔
​جب شہریوں کا اس طرح عدالتوں سے اعتماد اٹھے گا تو کیا ہوگا؟ کیسے حالات ہوں گے؟
​اسی طرح، پچھلے پچھتر سالوں میں پولیس کا نظام ٹھیک نہیں ہوا، چاہے وہ جس صوبے کی بھی پولیس ہو۔ وہی روایتی انداز کارفرما ہے، یعنی پولیس صرف بیوروکریسی اور سیاسی طاقتور حلقوں کے رحم و کرم پر ہے۔ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کے دائرہ کار کا لاج رکھے (احترام کرے)۔ ہم نے عام طور پر یہی دیکھا ہے کہ جو سیاسی جماعت طاقت میں آتی ہے تو پولیس کا مخالفین کے خلاف بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے، جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔
​اس سے پہلے بھی عمران خان سے ملاقاتیں ہوئی ہیں تو اب کیوں نہیں ہو رہا؟
​انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف اور حکومتی پارٹی کو اس بحث سے نکلنا ہوگا، کیونکہ صوبہ خیبر پختونخوا بدترین مسائل سے دوچار ہے۔ شہری بدامنی، بے روزگاری، اور مہنگائی سے شدید بدحالی میں مبتلا ہیں۔ اس سیاسی زنجیر کو کھینچنا چاہیے (اس سیاسی کھینچا تانی کو ختم کرنا چاہیے)، اور عوامی مسائل پر بات ہونی چاہیے۔

جنوبی وزیرستان اپر حاجی زاکیم لنگر خیل عبدالرحیم لنگر خیل امین گل لنگر خیل کے والد محترم حاجی پالی خان لنگر خیل انتقال ف...
25/10/2025

جنوبی وزیرستان اپر
حاجی زاکیم لنگر خیل عبدالرحیم لنگر خیل امین گل لنگر خیل کے والد محترم حاجی پالی خان لنگر خیل انتقال فرما گئے
​نمازِ جنازہ کل بروز اتوار دن دو بجے (2:00) خوژابات، مدرسہ قطب کالونی، اسٹیشن روڈ ضلع ٹانک میں ادا کی جائے گی

اسسٹنٹ کمشنر لدھا سب ڈویژن شادمان صافی نے سراروغہ مارکیٹ کا دورہ  اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) ادائیگیوں کا بھی...
23/10/2025

اسسٹنٹ کمشنر لدھا سب ڈویژن شادمان صافی نے سراروغہ مارکیٹ کا دورہ اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) ادائیگیوں کا بھی جائزہ لیا ​سراروغہ مارکیٹ کا تفصیلی معائنہ کیا گیا، جس میں پیٹرول پمپس، دکانیں، اسٹورز، ہوٹلز اور گوشت کی دکانیں شامل تھیں۔ زائد قیمت لینے اور قیمتوں کی فہرست آویزاں نہ کرنے کے پاداش پر موقع پر کارروائی کی گئی۔
​بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) کی ادائیگی کے مراکز کا بھی خصوصی دورہ کیا گیا، جہاں یہ پایا گیا کہ مستحق خواتین کو 13,500 کے بجائے 13,000 روپے ادا کیے جا رہے تھے، جو غریب خواتین سے 500 روپے کی غیر قانونی کٹوتی کو ظاہر کرتا ہے۔ متعلقہ عملے کو فوری طور پر مکمل ادائیگی کو یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی، اور پولیس کو نگرانی کے لیے موجود رہنے کی ہدایت دی گئی، جبکہ ملوث افراد کے قومی شناختی کارڈز (CNICs) قانونی کارروائی کے لے لی گئے دوسری جانب سراروغہ بازار میں ایک (کمیونٹی انگیجمنٹ ) کھلی کچہری منعقد کی گئی، جہاں عوام کو انتظامیہ کی جانب سے مسلسل حمایت کا یقین دلایا گیا اور انہیں اس سے آگاہ کیا گیا۔ عام عوام کے مسائل کو اسسٹنٹ کمشنر شاد مان صافی نے سنجیدگی سے سنا ، باقاعدہ طور پر تحریری نوٹ کیا گیا، اور فوری حل کے لیے متعلقہ محکموں کو ضروری ہدایات جاری کی گئیں۔

Address

سرکلر روڈ نذد حق نواز پارک شالیمار پلازہ
Dera Ismail Khan

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when TribalTimes /ٹرائبل ٹائمز posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to TribalTimes /ٹرائبل ٹائمز:

Share

Category