06/11/2025
📝 سابقہ فاٹا میں تعلیمی انقلاب اور سکیورٹی چیلنجز: ایک تعمیری جائزہ
سابقہ فاٹا، جو اب خیبر پختونخوا کے ضم شدہ قبائلی اضلاع ہیں، سات ایجنسیوں اور چھ فرنٹیئر ریجنز پر مشتمل تھا، اور جنوبی وزیرستان کی دو اضلاع میں تقسیم کے بعد اب انضمام کے بعد آٹھ اضلاع بن چکے ہیں۔ 2023 کی مردم شماری کے مطابق، یہاں کی کل آبادی 60 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، اس آبادی میں دس سال سے کم عمر کے بچوں کی تعداد ہے جو تناسب 25 فیصد کے حساب سے لگایا گیا ہے، جو تقریباً پندرہ لاکھ بنتےہے۔ اسی طرح، 18 سال تک کی عمر کے نوجوانوں کی تعداد، 55 فیصد کے حساب سے، 33 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ 60 لاکھ افراد 27,220 مربع کلومیٹر کے وسیع رقبے پر آباد ہیں۔گزشتہ بیس سالوں کے دوران، قومی مفادات کے تحفظ کے لیے سابقہ فاٹا میں مختلف فوجی آپریشنز کیے گئے، جن کے نام اور دورانیہ یہ ہیں آپریشن صراطِ مستقیم: (خیبر ایجنسی) 2008 میں شروع ہوا۔
آپریشن شیردل: (باجوڑ ایجنسی) 2008 میں فرنٹیئر کور کے تعاون سے شروع ہوا۔
آپریشن راہِ نجات: (جنوبی وزیرستان) 2009 میں شروع ہوا۔آپریشن ضربِ عضب: (شمالی وزیرستان) 2014 میں شروع کیا گیا۔آپریشن خیبر (I, II, III, IV): (خیبر ایجنسی) 2014 سے 2017 کے درمیان مختلف مراحل میں جاری رہا۔
آپریشن ردالفساد: (2017 سے اب تک) ایک قومی سطح کا آپریشن جس میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
ان آپریشنز کے دوران کئی فوجی جوان اور افسران سمیت قبائلی عام شہری شہید ہوئے، اور قبائلی عوام کو شدید مالی و جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے گھر، کاروبار، اور زمینیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں، جس سے ان کی زندگی شدید متاثر ہوئی۔لیکن بدلے میں کچھ نہیں ملا کیا یہاں پرصرف زندگی کی بنیادی عنصر تعلیم کے حوالے سے بات کرینگے جوکہ
🎓 تعلیم کے میدان میں مایوس کن صورتحال اج بھی ہےیہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی آزادی کے بعد گزشتہ 78 سالوں میں سابقہ فاٹا کے بچوں کی تعلیم کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟ جب حقائق کا جائزہ لیا جاتا ہے، تو صورتحال مایوس کن نظر آتی ہے:یونیورسٹی کا قیام:ان 78 سالوں میں سابقہ فاٹا کو ایک یونیورسٹی دی گئی تھی، جس کی منظوری مئی 2013 میں نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے دی تھی۔ تاہم، اس کی نئی عمارت کا باقاعدہ افتتاح جولائی 2023 میں کوہاٹ کے علاقے درہ آدم خیل کے اخری باونڈری میں ہوا، جو سابقہ فاٹا کے اضلاع (جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان، باجوڑ، مہمند، خیبر، کرم اور اورکزئی) سے سینکڑوں کلومیٹر دور ہے۔ یہ یونیورسٹی دور ہونے کی وجہ سے قبائلی علاقے کے طلباء کے لیے مکمل طور پرغیر مؤثر ہے۔اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئےکیمپسز کا وعدہ کیا جاتا ہے، جس میں چار چار اضلاع شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، باجوڑ، اور خیبر شامل تھے جبکہ فاٹا انضمام کے دوران فاٹا یونیورسٹی کے چار کیمپسز کی باقاعدہ منظوری ان چاروں اضلاع میں دی گئی تھی، مگر آج تک ان پر کوئی کام شروع نہیں ہو سکا اور نہ ہی کوئی پیش رفت نظر آتی ہے۔
لڑکیوں کے اسکول کے حوالے سے ایک معتبر رپورٹ کے مطابق، پورے فاٹا میں لڑکیوں کے لیے سو کے قریب ہائی اسکول بنائے گئے ہیں، جو برائے نام ہیں۔ ان میں سٹاف اور بنیادی سہولیات کی شدید کمی ہے۔ جبکہ ایک سروے کے مطابق، سابقہ فاٹا کو لڑکیوں کے لیے مزید 281 ہائی اسکولوں کی ضرورت تھی، مگر حکومت نے اس حوالے سے اج تک کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے ہیں۔
شرح خواندگی کے اعداد و شمار (جو پہلے بھی بیان کیے گئے ہیں):مردوں میں شرح خواندگی: تقریباً 29 سے 36 فیصد۔خواتین میں شرح خواندگی: انتہائی کم، صرف 3 سے 10.50 فیصد کے درمیان۔
لڑکیوں کا داخلہ لڑکوں کی 73 فیصد شرح کے مقابلے میں لڑکیوں کے اسکول میں داخلے کی مجموعی شرح صرف 27 فیصد پر رُکی ہوئی ہے ۔اگر اج کی تاریخ سال 2025 میں دیکھا جائے تو شرح بدترین مایوس کن ہوسکتی ہے
بدقسمتی سے، موجودہ حالات میں تعلیمی صورتحال تقریباً صفر ہو چکی ہے، اور جو ادارے موجود ہیں وہ صرف رسمی ہیں۔اس حوالے سے جب پاکستان کے ⚖️ دیگر صوبوں سے تقابلی جائزہ لیا گیا تو
یہ صورتحال مزید تعصب کو جنم دیتی ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ دیگر صوبوں کو 78 سالوں میں تعلیم کے میدان میں کیا ملا:صوبہ پنجاب: 41 اضلاع میں صرف لاہور میں 14 سرکاری یونیورسٹیاں اور پورے صوبے میں تقریباً 60 سرکاری اور 50 کے قریب پرائیویٹ یونیورسٹیاں ہیں۔صوبہ سندھ: 30 اضلاع ہے جبکہ صوبے میں 30 سے زائد سرکاری یونیورسٹیاں ہیں، جن میں صرف کراچی شہر میں 10 سرکاری یونیورسٹیاں شامل ہیں۔صوبہ خیبر پختونخوا (سابقہ فاٹا کے علاوہ) 25 اضلاع ہے جبکہ پورے صوبے میں 32 سرکاری یونیورسٹیاں ہیں، جن میں صرف پشاور شہر میں 8 سے 10 سرکاری یونیورسٹیاں ہیں۔صوبہ بلوچستان: 35 اضلاع ہے جبکہ صوبے میں 12 سرکاری یونیورسٹیاں ہیں۔یہ تقابلی جائزہ واضح کرتا ہے کہ سابقہ فاٹا کے قبائلی عوام کو تعلیم سے کس قدر محروم اور دور رکھا گیا ہے۔ جب تعلیم نہیں ہو گی، تو ترقی اور خوشحالی کا خواب دیکھنا محال ہے۔ حکمرانوں سے یہ اہم سوال ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟
🏗️جنوبی وزیرستان ایجوکیشن سٹی کی بات کی جائے تو صورت حال مزید مایوس کن ہوجاتا ہے جب ایک قبائلی تنظیم، محسود ویلفیئر ایسوسی ایشن نے خود تعلیم کا بیڑا اٹھایا۔ انہوں نے جنوبی وزیرستان میں ایجوکیشن سٹی بنانے کے لیے دن رات کوششیں کیں۔ مقامی قبائلی قوم شمن خیل نے اس مقصد کے لیے سات ہزار کنال زمین مفت میں عطیہ کر دی، جس کا باقاعدہ افتتاح سابق کور کمانڈر پشاور مظہر شاہین نے 27 مارچ 2019 کو کیا تھا۔افسوس کہ کئی سال گزرنے کے باوجود آج تک اففتاح کے بعد ایک اینٹ بھی نہیں رکھی جا سکی۔ صوبائی حکومت نے کچھ فنڈز ریلیز کیے، مگر ان کی فراہمی یقینی نہیں بنائی گئی۔ یہ دو رُخی رویہ کیا تعصب کی عکاسی نہیں کرتا؟
💡 اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں کہ قبائلی بچے اور بچیاں قدرتی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ انہیں تعلیم کے مواقع ملیں، تو وہ پوری دنیا میں قابل سائنسدان، انجینئر اور ڈاکٹر بن کر پاکستان کو طاقتور بنا سکتے ہیں۔
لہٰذا، آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کو چاہیے کہ وہ سابقہ فاٹا میں تعمیر ہونے والے ایجوکیشن سٹی کے حوالے سے خود نوٹس لیں اور اس پر فوری کام شروع کروائیں۔ یہ اقدام نہ صرف سابقہ فاٹا کی تقدیر بدل دے گا، بلکہ ہمسایہ صوبوں کے بچوں کے لیے بھی تعلیم کا ایک نیا باب کھولے گا۔ جنوبی وزیرستان کے مقامی مشر محمود خان نے کہا کہ سات ہزار کنال زمین مفت میں فراہم کی ہے، اور اگر مزید زمین درکار ہوئی تو اپنے گھر بھی عطیہ کرنے کو تیار ہیں، اگر اب بھی تعصب کیا گیا ایجوکیشن سٹی پر کام کی شروعات نہیں ہوتی تو قبائلیوں کی مقدر میں صرف مایوسی اور محرومی ہی رہے گی۔جب تعلیم نہیں ہوگی وہاں پسماندگی بدامنی کا راستہ صرف مشکل نہیں ناممکن ہے