11/08/2024
رشد ندیم نہیں جیتا، اس کی غربت بھی ساتھ جیتی ہے، اس کا وہ جذبہ بھی جیتا ہے، جو اسی جنوری میں اسے در بدر لئے پھرتا تھا کہ کہیں سے چند لاکھ مل سکیں،جس سے وہ جیولین یعنی وہ لکڑی خرید سکے،جو دنیا کے کھلاڑیوں کے پاس وافر پڑی رہتی ہیں۔ وہ جب جیولین پھینکنے نکلتا تھا، تو گھر سے خوراک کے نام پر ماں کے ہاتھ کا پکا پراٹھا کھا کے نکلتا تھا اور باہر کھیل کے میدان کے نام پر زمین کا ایک سادہ قطعہ اس کا منتظر ہوتا تھا، اس کے جیتنے کے ساتھ ہی ماں کا پراٹھا اور سادہ زمیں کا قطعہ بھی جیت گیا۔ اس کے ساتھ لاہور سے دور جنوبی پنجاب کا وہ شہر میاں چنوں بھی جیت گیا، جس کی گلیاں سادہ، جہاں کے لوگ عام سے اور جہاں کا تذکرہ صرف خوشی کی برفی کے ذیل میں ہوا کرتا تھا، آج ارشد کی جیت نے میاں چنوں کو اک نئی اور عالمی پہچان جیت کر دے دی ہے۔
پاکستان کے قومی ہیرو ارشد ندیم کے ساتھ ہی وہ غریب باپ بھی جیت گیا، جو اپنے بچے کے کھیل پر حیران ہوا کرتا تھا کہ ایک لاٹھی کو زور سے دور پھینکنا بھی بھلا کوئی کھیل ہو سکتا ہے؟ کہ کھیل تو کرکٹ ہوا کرتا ہے، اس کھیل کو بھلا جانتا اور مانتا ہی کون ہے؟ آج لیکن اسی غیر معروف کھیل مگر ناقابل تسخیر جذبے کے ذریعے سے اس کا بیٹا کل جگ میں مشہور ہو گیا ہے، ہیرو ہی نہیں سپر ہیرو بن گیا ہے، ارشد کی جیت کے ساتھ اس کا شہر، اس کا ملک اور اس کا سادہ سا گھر بھی جیت گیا ہے۔
میں نے عربی کمنٹیٹر کو سنا، ارشد کے جیولین سنبھالنے ،ہاتھوں پر تولنے اور پھینکنے کیساتھ ساتھ جس کا رواں تبصرہ جاری تھا مگر جونہی ارشد نے کرشمہ کیا، وہ سب بھول کے اللہ اکبر کے نعرے لگانے لگا۔
میں نے انڈینز کو سنا جو کہتے تھے، ہمارا نیرج چوپڑا کم نہ پڑا تھا، ارشد ندیم مگر آج آوٹ آف سلیبس آگیا تھا۔ اس کا مقابلہ کون کر سکتا تھا کہ وہ تو حساب کتاب اور سارے نصاب سے باہر تھا، اس نے گولڈ ہی نہیں جیتا اپنے زور بازو اور غرور غربت سے جیولین تھرو کا سو سالہ ریکارڈ بھی تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔
یہ دن کسی اور کا کیسے ہو سکتا تھا کہ یہ دن،صرف ارشد ندیم کا دن تھا۔ کروڑوں کے اخراجات کرکے اہتمام سے میدان میں اترنے والوں کے مقابل ایک نوجوان کی غربت و عسرت کا دن۔ یہ دن ایک چھوٹے شہر کے نظر انداز کردہ نوجوان کے پیرس جیسے خوشبووں کے شہر میں سجدہ کر دکھانے کا دن تھا۔