26/02/2025
عالمی لبرل آرڈر کا زوال کیسے ہوا؟ یوکرائن کی جنگ بندی پر امریکہ کے یکطرفہ فیصلوں نے مغربی الائنس کو شدید دھچکا پہنچایا ہے جس کی وجہ سے یورپ میں عدم تحفظ بڑھتا جارہا ہے۔ دوسری جانب یورپ بھر میں لبرل مخالف انتہائی دائیں بازو، رجعتی اور نسلی بیانیہ مقبول ہوتا جا رہا۔ چند دن پہلے جرمن الیکشن میں ایک فاشسٹ پارٹی AFD (Alternative for Germany) حیرت انگیز طور پر 152 سیٹیں لے کر دوسرے نمبر پر آگئی ہے۔ یہ وہ ملک ہے جس میں ہٹلر ک شکست کے بعد یہ طے کیا تھا کہ نسل پرست پارٹیوں کو پارلیمنٹ میں آنے سے روکا جائے گا لیکن تمام سیاسی پارٹیوں اور میڈیا کی مخالفت کے باوجود یہ پارٹی کئی روایتی پارٹیوں کو پیچھے چھوڑ گئی۔ اس سے پہلے اٹلی میں Giorgio Meloni اسی طرح کے نسل پرست منشور پر الیکشن لڑ کر جیت گئیں جبکہ برطانیہ کے اندر Brexit کو بھی لبرل مخالف قوتوں کی حمایت حاصل تھی۔
اب لبرل جتنا مرضی چیخ و پکار کرلیں، لبرل آرڈر ختم ہوگیا ہے اور اب ایک بار پھر عالمی سطح پر متبادل کے حصول کے لئے نظریاتی بحث کا آغاز ہوچکا ہے۔ لیکن یہ لبرل آرڈر تھا کیا اور اتنی جلدی کیسے ختم ہوگیا؟ ہمارے لئے اہم ہے کہ کسی بھی نظریاتی تبدیلی کوسمجھنے کے لئے ان کی معروضی حالات اور سماجی اور سیاسی تضادات کو سمجھیں جو ان تبدیلیوں کی بنیاد ہیں۔ امریکی پولیٹیکل سائنٹسٹ John Mearsheimer کے بقول حقیقی معنوں میں لبرل آرڈر کی بنیاد 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد پڑی۔ یہ وہ وقت تھا جب فلسفی Francis Fukuyama نے کہا تھا کہ سوشلزم کی شکست کے بعد تاریخ میں نظریات کی بحث کا خاتمہ ہوگیا ہے اور کیونکہ Hegel کے مطابق تاریخ نظریاتی کشمکش کا نام ہے، لبرل جمہوریت کی واضح کامیابی کے بعد تاریخ کا بھی اختتام ہوگیا ہے جسے مشہور زمانہ End of History Thesis بھی کہا جاتا ہے۔ Mearsheimer کے مطابق 1991 میں بننے والے عالمی آرڈر کی تین خصوصیات تھیں۔ ایک تو اس کا مرکز ایک ملک (امریکہ) تھا یعنی یہ unipolar دنیا تھی جس میں عسکری طاقت ہر اجارہ داری ایک ملک کی قائم تھی۔ دوسرا پہلو غریب ممالک میں مغربی ممالک کی طرف سے جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر بڑھتی ہوئی مداخلت تھی۔
تیسرا پہلو "آزاد منڈیوں" free market کے اصولوں پر معیشیت کی ترتیب دینا تھا جسے جمہوریت کے لئے لازم و ملزوم قرار دیا گیا۔ ان اصولوں میں سر فہرست سرمائے کے ضروریات کا تحفظ تھا جس کے لئے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، WTO, اور اس قسم کے کئی ادارے بنائے گئے۔ 1980 میں تیسری دنیا اور عالمی مالیاتی اداروں کی ایک میٹنگ کا انعقاد واشنگٹن میں ہوا جس میں تیسری دنیا میں بڑھتے ہوئے معاشی بحران کا حل یہ نکالا گیا کہ ہر جگہ نجکاری اور free trade کو لاگو کیا جائے۔ اس فیصلے کو Washington Consensus کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس نے دنیا بھر میں free market کو پھیلانے میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔
لیکن ان تینوں پہلوؤں کے اندرونی تضادات نے ہی اس عالمی نظام کو کمزور کرنا شروع کردیا۔ مثال کے طور جمہوریت اور انسانی حقوق کا فروغ مغربی حکمران طبقات کے لئے بیرونی مداخلت کا ایک ذریعہ بن گیا جس کے نام پر اس نے یوگوسلاویہ سے لے کر عراق، افغانستان، لیبیا، یمن، شام اور دیگر کئی ممالک پر بمباری کی۔ اس کے ساتھ ہی کیوبا اور شمالی کوریا، جو امریکی تسلط کو ماننے سے انکار کرتے تھے، ان پر بھی "آمریت" کے الزم لگا کر پابندیاں لگائیں۔ پھر وینزویلا کی عوام کو الیکشن میں "غلط فیصلہ" یعنی امریکی مفادات کے برعکس Hugo Chavez اور Nicolas Maduro کو ووٹ ڈالنے پر پابندیوں کی شکل میں سزا دی گئی جبکہ یہی سزا فلسطین کے عوام کو حماس کو ووٹ دینے کے بعد نہ صرف پابندیوں بلکہ نسل کشی کی صورت میں دی گئی۔
دوسری جانب فری مارکیٹ کے فروغ نے تیسری دنیا اور مغربی ممالک میں بے انتہا انتشار پھیلایا۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 44 فیصد انسانیت غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہی ہے جبکہ ورلڈ بینک کے سابق نائب صدر Joseph Stiglitz نے آئی ایم۔ ایف اور ورلڈ بینک کی فری مارکیٹ کی پالیسیوں کو اس بربادی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ گلوبالائزیشن کی وجہ سے انڈسٹری مغربی ممالک سے نکل کر مشرق کی طرف چلی گئی جس کے نتیجے میں مغرب میں بیروزگاری بڑھی۔ لوگوں کا معیار زندگی برقرار رکھنے کے لئے کریڈٹ کارڈ اور قرضوں کا استعمال بڑھ گیا لیکن اس کے نتیجے میں 2008 میں امریکہ اور یورپ میں تباہ کن معاشی بحران آگیا۔
اس کے بجائے کہ معاشی بحران سے نکلنے کے لئے عوام کو ریلیف ملے، مغربی حکومتوں نے بڑے بڑے بینکوں کو اربوں کھربوں ڈالر دے کر ریلیف دیا جس سے عوام میں لبرل معاشی نظام پر مزید غصہ بڑھ گیا۔ بقول یونان کے سابق وزیر خزانہ Yanis Varoufakis سرمایہ داری نظام 2008 میں Technofeudalism میں تبدیل ہوگئی ہے۔ یعنی بڑے بینک اور بڑی ٹیکنالوجی کی کمپنیاں اب معیشیت پر اس طرح حاوی ہیں جیسے ایک زمانے میں جاگیردار ہوتے تھے جو محنت کئے بغیر دنیا بھر کے عوام سے پیسے بٹورتے تھے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ فری مارکیٹ نے معیشیت میں competition لانے کے بجائے پورے عالمی نظام کو چند ارب پتی بزنس میں کے حوالے کردیا ہے جن کے منافع کے حوس کے آگے جمہوریت اور انسانی حقوق بے معنی رہ جاتے ہیں۔ اوپر سے ستم ظریفی یہ ہے کہ عالمی مالیاتی اور تجارتی اداروں کے قوانین اور اصولوں کی وجہ سے ریاستوں کے پاس ان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ سے یہ تاثر بڑھ رہا یے کہ اس نظام کو چلانے والے منتخب نمائندے نہیں بلکہ Brussels اور واشنگٹن میں بیٹھے بیوروکریٹ ہیں جو بڑی بڑی کمپنیوں کی جیبوں میں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یورپ میں اب لبرل نظام سے جڑے ہوئے لوگوں کو حقارت سے globalist elites کہہ کر پکارا جاتا ہے اور وہ ادارے جو ایک زمانے میں لبرل نظام کی استحکام کی گارنٹی سمجھے جاتے تھے (یورپی یونین، نیٹو، USAID، وغیرہ) اب ان کے خلاف نفرت کی ایک لہر موجود ہے۔ Brexit سے لے کر جرمن الیکشن، اور اٹلی میں ملونی سے لے کر ٹرمپ تک اسی نفرت کا اظہار ہورہا ہے۔ اس کے ساتھ لبرل نظام کے لئے سب سے بڑی پچیدگی یہ ہے کہ unipolar آرڈر ختم ہوگیا ہے۔ اس نظام میں تبدیلیوں سے سب سے زیادہ فائدہ چین کی کیمونسٹ پارٹی نے اٹھایا جس نے نجی سرمائے کی اجازت دی لیکن ریاست کو سختی سے اپنے کنٹرول میں رکھا۔ نہ صرف یورپ کی deindustrialization کے دوران دنیا کا سب سے انڈسٹریل ملک بن کر سامنے آیا، بلکہ اسی دوران 85 کروڑ لوگوں کو غربت سے بھی نکالا۔ یوکرائن میں امریکی پلان کی ناکامی کے بعد یورپ پر اپنی سلامتی کے اخراجات برداشت کرنے کا پریشر بڑھ رہا ہے جس سے مغربی اتحاد مزید کمزور ہوگا اور ساتھ ہی ایک ایک گرتی ہوئی معیشیت پر مزید بوجھ پڑے گا۔
ان حالات کا تجزیہ ہمیں بتاتا ہے کہ تاریخ اندرونی تضادات کی کشمکش سے ہی آگے بڑھتی ہے۔ لبرل نظام کے اندرونی تضادات، جن کو ایک جملے میں جمہوری قدروں اور منافع کے درمیان تضادات بھی کہا جاسکتا ہے، اب عالمی سطح پر زوال پذیر ہے۔ مغرب میں ان global elites کے خلاف غصے کا اظہار عالمی اداروں کے ساتھ ساتھ تارکین وطن کے خلاف نسل پرستی کی صورت میں نکل رہا ہے جن کو سماج میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور "تہذیبی تبدیلی" کا ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس "انقلاب" کی قیادت ٹرمپ اور ایلون مسک جیسے لوگ کررہے ہیں جو اس نظام سے خوب فائدہ اٹھا چکے ہیں اور نظام پر تنقید کرنے کے بجائے صرف اس کی علامتوں، یعنی لبرل اداروں اور multiculuralism پر اپنی تنقید رکھتے رہے ہیں۔ اس کے برعکس وہ قوتیں بھی موجود ہیں (فرانس، بیلجیئم اور جرمنی میں مظبوط بھی ہورہی ہیں) جو ان مسائل کے حل کے لئے ان لبرل اداروں پر تنقید کے ساتھ ساتھ اس معاشی نظام (سرمایہ داری) پر بھی تنقید رکھتے ہیں جس کی حفاظت کے لئے یہ ادارے بنائے گئے۔
پاکستان کے اندر بھی سیاسی پارٹیوں کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ 1988 میں معیشیت کو آئی ایم ایف کے طابع کرنا تھا۔ یعنی 1960 کی دہائی سے جو قریبی رشتہ جمہوری جدوجہد، معاشی ترقی اور سماجی انصاف کے درمیان موجود تھا، اس رشتے کو توڑ دیا گیا۔ ہر حکموت کا وزیر خزانہ عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے ہی لگتا تھا اور وہی ادارے آج تک پالیسیاں بنارہے ہیں۔ اوپر سے USAID کے پیسوں سے جمہوریت کے تصور کو انفرادی حقوق تک محدود کردیا گیا جبکہ یہ نہیں بتایا گیا کہ اس ملک میں کیا جمہوریت ہونی ہے جہاں پر سیاسی فیصلے فوج اور معاشی فیصلے واشنگٹن میں بیٹھے بیوروکریٹ کررہے ہوں؟ آج تاریخ ایک بار پھر نظریاتی جنگ کا میدان بننے جارہی جس کا مطلب ہے کہ ہمیں شخصی یا ذاتی آزادی کے فلسفے سے یٹ کر ایک بار پھر اجتماعی آزادی کو زندہ کرنا ہے ۔ عالمی حالات اور تاریخ کی سمت ہمیں بتارہی ہے کہ جمہوریت کی لڑائی کو معاشی آزادی اور انصاف کے ساتھ ایک بار پھر جوڑا جائے کیونکہ آج کی دنیا میں معاشی آزادی کے بغیر سب آزادیاں بے معنی پڑ جاتی ہیں۔ اس کے لئے امریکہ اور عالمی اداروں کے "ماہرین" اور ان کے "مقدس" اصولوں، جن کی اب امریکہ خود بھی پاسداری کرنے سے انکاری ہے، کو کھل کر چیلینج کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔