HEARmax Pakistan

HEARmax Pakistan Mian M.Azam (born: 12April;1985)
CEO at HEARmax PAKISTAN
PASSED:MASS COMMUNICATION and
MEDIA Studies

عشق نوں حق دا راہ کیتا اےمیں کوئی یار گناہ کیتا اےہاں میں دھوکہ کھادا سیہاں میں فیر وساہ کیتا اے انھے واہ میں درد کمایاپ...
26/03/2025

عشق نوں حق دا راہ کیتا اے
میں کوئی یار گناہ کیتا اے

ہاں میں دھوکہ کھادا سی
ہاں میں فیر وساہ کیتا اے

انھے واہ میں درد کمایا
پیار جو انھے واہ کیتا اے

اوہدے پُھلاں ورگے ھاسے
مینوں کِھڑی کپاہ کیتا اے

دنیا دے سنگ نِبھدی نئ سی
دھکے نال نِبھا کیتا اے

وچھڑ گیاں دے چیتے میرا
اوکھا لینا ساہ کیتا اے

جگ دی کی پرواہ صغریٰ نوں
عشق نے بے پرواہ کیتا اے

سید مرتضیٰ گیلانی
لہندہ پنجاب
゚viralシ

ساڈا دل سی نازک کچ ورگا  اساں سنگ نو یار بنا بیٹھے  اساں تن من لیرولیر کیتا  گلے عشق دا چولا پا بیٹھے  پیریں عشق دے گھنگ...
16/03/2025

ساڈا دل سی نازک کچ ورگا
اساں سنگ نو یار بنا بیٹھے

اساں تن من لیرولیر کیتا
گلے عشق دا چولا پا بیٹھے

پیریں عشق دے گھنگرو بنھ لے نیں
اسیں روگ عمر دا لا بیٹھے

سانوں کرب دی سولی ٹنگ سجناں
اسیں پیار دا جرم کما بیٹھے

ساڈی عمرہزار سال ہوسیں
اسیں عشق دا زہر جو کھا بیٹھے

ساڈا جسم تے لاش ہویا
جند متراں تے جو لٹا بیٹھے-
_________________
جبین۔۔۔۔

کوٸی نٸیں چکدا بھار کسے داآپے چکنا پیندا اے رب جانے نی جندے تیراکنا پینڈا ریندا اےکاہدا تینوں مان اے جھلیابس توں اک مٹھ ...
12/03/2025

کوٸی نٸیں چکدا بھار کسے دا
آپے چکنا پیندا اے
رب جانے نی جندے تیرا
کنا پینڈا ریندا اے
کاہدا تینوں مان اے جھلیا
بس توں اک مٹھ مٹی دی
یاد رکھیں دیگر ویلے
چڑھدا سورج لہندا اے

ٹبہ  ،  ٹویا  ۔  اک  برابرگڈیا ،  بویا  ۔  اک  برابرراتیں اکھ  تے بدل  برسےرویا ، چویا ۔ اک  برابرقسمےسُن کے نیندر اڈ گئ...
09/03/2025

ٹبہ ، ٹویا ۔ اک برابر
گڈیا ، بویا ۔ اک برابر

راتیں اکھ تے بدل برسے
رویا ، چویا ۔ اک برابر

قسمےسُن کے نیندر اڈ گئی
سُتا ، مویا ۔ اک برابر

ماڑے گھر نوں بوھا کادھا؟
کھلا ، ڈھویا ۔۔ اک برابر

سورج ٹُردا نال برابر
دن کیوں لگن سال برابر

وِتھ تے سجنا وِتھ ہوندی اے
بھاونویں ہووے وال برابر

اکھ دا چانن مر جاوے تے
نیلا، پیلا، لال برابر

جُلی منجی بھین نوں دے کے
ونڈ لئے ویراں مال برابر

مرشد جے نہ راضی ہووے
مجرا ، ناچ، دھمال برابر

اُتوں اُتوں پردے پاون
وچوں سب دا حال برابر

✨🥀🍂

عالمی لبرل آرڈر کا زوال کیسے ہوا؟ یوکرائن کی جنگ بندی پر امریکہ کے یکطرفہ فیصلوں نے مغربی الائنس کو شدید دھچکا پہنچایا ہ...
26/02/2025

عالمی لبرل آرڈر کا زوال کیسے ہوا؟ یوکرائن کی جنگ بندی پر امریکہ کے یکطرفہ فیصلوں نے مغربی الائنس کو شدید دھچکا پہنچایا ہے جس کی وجہ سے یورپ میں عدم تحفظ بڑھتا جارہا ہے۔ دوسری جانب یورپ بھر میں لبرل مخالف انتہائی دائیں بازو، رجعتی اور نسلی بیانیہ مقبول ہوتا جا رہا۔ چند دن پہلے جرمن الیکشن میں ایک فاشسٹ پارٹی AFD (Alternative for Germany) حیرت انگیز طور پر 152 سیٹیں لے کر دوسرے نمبر پر آگئی ہے۔ یہ وہ ملک ہے جس میں ہٹلر ک شکست کے بعد یہ طے کیا تھا کہ نسل پرست پارٹیوں کو پارلیمنٹ میں آنے سے روکا جائے گا لیکن تمام سیاسی پارٹیوں اور میڈیا کی مخالفت کے باوجود یہ پارٹی کئی روایتی پارٹیوں کو پیچھے چھوڑ گئی۔ اس سے پہلے اٹلی میں Giorgio Meloni اسی طرح کے نسل پرست منشور پر الیکشن لڑ کر جیت گئیں جبکہ برطانیہ کے اندر Brexit کو بھی لبرل مخالف قوتوں کی حمایت حاصل تھی۔

اب لبرل جتنا مرضی چیخ و پکار کرلیں، لبرل آرڈر ختم ہوگیا ہے اور اب ایک بار پھر عالمی سطح پر متبادل کے حصول کے لئے نظریاتی بحث کا آغاز ہوچکا ہے۔ لیکن یہ لبرل آرڈر تھا کیا اور اتنی جلدی کیسے ختم ہوگیا؟ ہمارے لئے اہم ہے کہ کسی بھی نظریاتی تبدیلی کوسمجھنے کے لئے ان کی معروضی حالات اور سماجی اور سیاسی تضادات کو سمجھیں جو ان تبدیلیوں کی بنیاد ہیں۔ امریکی پولیٹیکل سائنٹسٹ John Mearsheimer کے بقول حقیقی معنوں میں لبرل آرڈر کی بنیاد 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد پڑی۔ یہ وہ وقت تھا جب فلسفی Francis Fukuyama نے کہا تھا کہ سوشلزم کی شکست کے بعد تاریخ میں نظریات کی بحث کا خاتمہ ہوگیا ہے اور کیونکہ Hegel کے مطابق تاریخ نظریاتی کشمکش کا نام ہے، لبرل جمہوریت کی واضح کامیابی کے بعد تاریخ کا بھی اختتام ہوگیا ہے جسے مشہور زمانہ End of History Thesis بھی کہا جاتا ہے۔ Mearsheimer کے مطابق 1991 میں بننے والے عالمی آرڈر کی تین خصوصیات تھیں۔ ایک تو اس کا مرکز ایک ملک (امریکہ) تھا یعنی یہ unipolar دنیا تھی جس میں عسکری طاقت ہر اجارہ داری ایک ملک کی قائم تھی۔ دوسرا پہلو غریب ممالک میں مغربی ممالک کی طرف سے جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر بڑھتی ہوئی مداخلت تھی۔

تیسرا پہلو "آزاد منڈیوں" free market کے اصولوں پر معیشیت کی ترتیب دینا تھا جسے جمہوریت کے لئے لازم و ملزوم قرار دیا گیا۔ ان اصولوں میں سر فہرست سرمائے کے ضروریات کا تحفظ تھا جس کے لئے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، WTO, اور اس قسم کے کئی ادارے بنائے گئے۔ 1980 میں تیسری دنیا اور عالمی مالیاتی اداروں کی ایک میٹنگ کا انعقاد واشنگٹن میں ہوا جس میں تیسری دنیا میں بڑھتے ہوئے معاشی بحران کا حل یہ نکالا گیا کہ ہر جگہ نجکاری اور free trade کو لاگو کیا جائے۔ اس فیصلے کو Washington Consensus کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس نے دنیا بھر میں free market کو پھیلانے میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔

لیکن ان تینوں پہلوؤں کے اندرونی تضادات نے ہی اس عالمی نظام کو کمزور کرنا شروع کردیا۔ مثال کے طور جمہوریت اور انسانی حقوق کا فروغ مغربی حکمران طبقات کے لئے بیرونی مداخلت کا ایک ذریعہ بن گیا جس کے نام پر اس نے یوگوسلاویہ سے لے کر عراق، افغانستان، لیبیا، یمن، شام اور دیگر کئی ممالک پر بمباری کی۔ اس کے ساتھ ہی کیوبا اور شمالی کوریا، جو امریکی تسلط کو ماننے سے انکار کرتے تھے، ان پر بھی "آمریت" کے الزم لگا کر پابندیاں لگائیں۔ پھر وینزویلا کی عوام کو الیکشن میں "غلط فیصلہ" یعنی امریکی مفادات کے برعکس Hugo Chavez اور Nicolas Maduro کو ووٹ ڈالنے پر پابندیوں کی شکل میں سزا دی گئی جبکہ یہی سزا فلسطین کے عوام کو حماس کو ووٹ دینے کے بعد نہ صرف پابندیوں بلکہ نسل کشی کی صورت میں دی گئی۔

دوسری جانب فری مارکیٹ کے فروغ نے تیسری دنیا اور مغربی ممالک میں بے انتہا انتشار پھیلایا۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 44 فیصد انسانیت غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہی ہے جبکہ ورلڈ بینک کے سابق نائب صدر Joseph Stiglitz نے آئی ایم۔ ایف اور ورلڈ بینک کی فری مارکیٹ کی پالیسیوں کو اس بربادی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ گلوبالائزیشن کی وجہ سے انڈسٹری مغربی ممالک سے نکل کر مشرق کی طرف چلی گئی جس کے نتیجے میں مغرب میں بیروزگاری بڑھی۔ لوگوں کا معیار زندگی برقرار رکھنے کے لئے کریڈٹ کارڈ اور قرضوں کا استعمال بڑھ گیا لیکن اس کے نتیجے میں 2008 میں امریکہ اور یورپ میں تباہ کن معاشی بحران آگیا۔

اس کے بجائے کہ معاشی بحران سے نکلنے کے لئے عوام کو ریلیف ملے، مغربی حکومتوں نے بڑے بڑے بینکوں کو اربوں کھربوں ڈالر دے کر ریلیف دیا جس سے عوام میں لبرل معاشی نظام پر مزید غصہ بڑھ گیا۔ بقول یونان کے سابق وزیر خزانہ Yanis Varoufakis سرمایہ داری نظام 2008 میں Technofeudalism میں تبدیل ہوگئی ہے۔ یعنی بڑے بینک اور بڑی ٹیکنالوجی کی کمپنیاں اب معیشیت پر اس طرح حاوی ہیں جیسے ایک زمانے میں جاگیردار ہوتے تھے جو محنت کئے بغیر دنیا بھر کے عوام سے پیسے بٹورتے تھے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ فری مارکیٹ نے معیشیت میں competition لانے کے بجائے پورے عالمی نظام کو چند ارب پتی بزنس میں کے حوالے کردیا ہے جن کے منافع کے حوس کے آگے جمہوریت اور انسانی حقوق بے معنی رہ جاتے ہیں۔ اوپر سے ستم ظریفی یہ ہے کہ عالمی مالیاتی اور تجارتی اداروں کے قوانین اور اصولوں کی وجہ سے ریاستوں کے پاس ان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ سے یہ تاثر بڑھ رہا یے کہ اس نظام کو چلانے والے منتخب نمائندے نہیں بلکہ Brussels اور واشنگٹن میں بیٹھے بیوروکریٹ ہیں جو بڑی بڑی کمپنیوں کی جیبوں میں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یورپ میں اب لبرل نظام سے جڑے ہوئے لوگوں کو حقارت سے globalist elites کہہ کر پکارا جاتا ہے اور وہ ادارے جو ایک زمانے میں لبرل نظام کی استحکام کی گارنٹی سمجھے جاتے تھے (یورپی یونین، نیٹو، USAID، وغیرہ) اب ان کے خلاف نفرت کی ایک لہر موجود ہے۔ Brexit سے لے کر جرمن الیکشن، اور اٹلی میں ملونی سے لے کر ٹرمپ تک اسی نفرت کا اظہار ہورہا ہے۔ اس کے ساتھ لبرل نظام کے لئے سب سے بڑی پچیدگی یہ ہے کہ unipolar آرڈر ختم ہوگیا ہے۔ اس نظام میں تبدیلیوں سے سب سے زیادہ فائدہ چین کی کیمونسٹ پارٹی نے اٹھایا جس نے نجی سرمائے کی اجازت دی لیکن ریاست کو سختی سے اپنے کنٹرول میں رکھا۔ نہ صرف یورپ کی deindustrialization کے دوران دنیا کا سب سے انڈسٹریل ملک بن کر سامنے آیا، بلکہ اسی دوران 85 کروڑ لوگوں کو غربت سے بھی نکالا۔ یوکرائن میں امریکی پلان کی ناکامی کے بعد یورپ پر اپنی سلامتی کے اخراجات برداشت کرنے کا پریشر بڑھ رہا ہے جس سے مغربی اتحاد مزید کمزور ہوگا اور ساتھ ہی ایک ایک گرتی ہوئی معیشیت پر مزید بوجھ پڑے گا۔

ان حالات کا تجزیہ ہمیں بتاتا ہے کہ تاریخ اندرونی تضادات کی کشمکش سے ہی آگے بڑھتی ہے۔ لبرل نظام کے اندرونی تضادات، جن کو ایک جملے میں جمہوری قدروں اور منافع کے درمیان تضادات بھی کہا جاسکتا ہے، اب عالمی سطح پر زوال پذیر ہے۔ مغرب میں ان global elites کے خلاف غصے کا اظہار عالمی اداروں کے ساتھ ساتھ تارکین وطن کے خلاف نسل پرستی کی صورت میں نکل رہا ہے جن کو سماج میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور "تہذیبی تبدیلی" کا ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس "انقلاب" کی قیادت ٹرمپ اور ایلون مسک جیسے لوگ کررہے ہیں جو اس نظام سے خوب فائدہ اٹھا چکے ہیں اور نظام پر تنقید کرنے کے بجائے صرف اس کی علامتوں، یعنی لبرل اداروں اور multiculuralism پر اپنی تنقید رکھتے رہے ہیں۔ اس کے برعکس وہ قوتیں بھی موجود ہیں (فرانس، بیلجیئم اور جرمنی میں مظبوط بھی ہورہی ہیں) جو ان مسائل کے حل کے لئے ان لبرل اداروں پر تنقید کے ساتھ ساتھ اس معاشی نظام (سرمایہ داری) پر بھی تنقید رکھتے ہیں جس کی حفاظت کے لئے یہ ادارے بنائے گئے۔

پاکستان کے اندر بھی سیاسی پارٹیوں کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ 1988 میں معیشیت کو آئی ایم ایف کے طابع کرنا تھا۔ یعنی 1960 کی دہائی سے جو قریبی رشتہ جمہوری جدوجہد، معاشی ترقی اور سماجی انصاف کے درمیان موجود تھا، اس رشتے کو توڑ دیا گیا۔ ہر حکموت کا وزیر خزانہ عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے ہی لگتا تھا اور وہی ادارے آج تک پالیسیاں بنارہے ہیں۔ اوپر سے USAID کے پیسوں سے جمہوریت کے تصور کو انفرادی حقوق تک محدود کردیا گیا جبکہ یہ نہیں بتایا گیا کہ اس ملک میں کیا جمہوریت ہونی ہے جہاں پر سیاسی فیصلے فوج اور معاشی فیصلے واشنگٹن میں بیٹھے بیوروکریٹ کررہے ہوں؟ آج تاریخ ایک بار پھر نظریاتی جنگ کا میدان بننے جارہی جس کا مطلب ہے کہ ہمیں شخصی یا ذاتی آزادی کے فلسفے سے یٹ کر ایک بار پھر اجتماعی آزادی کو زندہ کرنا ہے ۔ عالمی حالات اور تاریخ کی سمت ہمیں بتارہی ہے کہ جمہوریت کی لڑائی کو معاشی آزادی اور انصاف کے ساتھ ایک بار پھر جوڑا جائے کیونکہ آج کی دنیا میں معاشی آزادی کے بغیر سب آزادیاں بے معنی پڑ جاتی ہیں۔ اس کے لئے امریکہ اور عالمی اداروں کے "ماہرین" اور ان کے "مقدس" اصولوں، جن کی اب امریکہ خود بھی پاسداری کرنے سے انکاری ہے، کو کھل کر چیلینج کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

28/01/2025

نام تو طیبہ تھا لیکن عرب اسے یثرب کہتے تھے، عربی میں یثرب تکلیف اور بیماری کے مقام کو کہا جاتا ہے.
یہ بات تھی بھی درست، پورے عرب میں سب سے زیادہ بارشیں اسی علاقے میں ہوتی تھیں لہٰذا وادی میں زہریلے مادے پیدا ہو گئے تھے، جو بھی طیبہ میں قدم رکھتا بیمار ہو جاتا لیکن پھر وہاں میرے حضورﷺ تشریف لائے، محققین کہتے ہیں یہ اگست 622ء کا پہلا ہفتہ تھا لیکن کچھ کا خیال ہے یہ اکتوبر کا مہینہ تھا۔
آپﷺ قبا میں چودہ دن قیام کے بعد یثرب میں داخل ہوئے تو بنو نجار کی بچیوں نے دف بچا کر استقبال کیا، اس واقعے کے ایک ہزار تین سو اسی برس ایک ماہ اور 23 دن بعد ہم ٹھیک اس جگہ کھڑے تھے، سامنے ایک قدیم قلعے کے آثار تھے،
شیخ الحدیث ڈاکٹر شیر علی نے قلعے کی طرف اشارہ کر کے بتایا ’’وہ بچیاں وہاں کھڑی ہو کر دف بجا رہی تھیں‘‘ قریب ہی ایک مسجد تھی، بتایا گیا ’’حضورﷺ نے یہاں ہجرت کی پہلی نماز جمعہ ادا فرمائی تھی‘‘ قلعے اور مسجد کے درمیان ایک احاطہ تھا اور احاطہ میں ایک چبوترے کے آثار تھے، وہاں رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی رضی اللہ عنہ کی درخواست پر نمازادا کی تھی، پلکوں پر آنسو آبشار کی طرح گرنے لگے۔
حضورﷺ یہاں سے آگے بڑھے تو یثرب مدینہ بن گیا اور طیبہ منورہ اور پھر یہ شہر دنیا میں سکون، ایمان، شفاء اور قبولیت کا مرکز ہو گیا، یہ شہر کیا ہے؟ آپ اس کی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سلگتے کوئلوں پر چلتے چلتے ایسی وادی میں آ گئے جہاں گلاب کی نرم پتیاں بچھی ہیں اور ہوا عنبر اور مشک کے بطن سے جنم لے رہی ہے، دنیا بھر کے درخت دن کو آکسیجن اور رات کو کاربن ڈائی آکسائیڈ بناتے ہیں ماسوائے مدینہ کے اشجار کہ یہ بے ادبی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے عربی کا ایک شعر پڑھا، واہ کیا نازک احساس اور ہزاروں لاکھوں پھولوں کی گندھی فکر تھی، شاعر نے کہا
’’ اگر تمہیں مدینے میں سکون نہیں ملتا تو پھر کہاں ملے گا، اگر تمہاری دعائیں مدینے میں قبول نہیں ہوتیں تو پھر کہاں ہونگی!!‘‘
انصار کو بڑی شدت سے حضورﷺ کا انتظار تھا، وہ روز صبح گھروں سے نکلتے اور شہر سے باہر آ کر آپﷺ کا انتظار کرنے لگتے، سورج ڈوبتا تو ساتھ ہی آس بھی ڈوب جاتی لیکن صبح سورج کے ساتھ شوق دید پھر آنکھ کھول لیتا، اس دن بے انتہا گرمی تھی، لوگ شام سے پہلے ہی مایوس ہو گئے لیکن جونہی حضورﷺ کی اونٹنی نے قبا میں قدم رکھا، ایک یہودی نے آپ ﷺ کو دیکھا اور ’’ اے لوگو! تمہارا نجات دہندہ آ گیا‘‘ کا نعرہ لگا کر گلیوں میں دوڑنے لگا، امیدیں ایک بار پھر طلوع ہو گئیں۔
چودہ دن بعد آپ ﷺ مدینہ کے لیے روانہ ہوئے تو سیکڑوں جاں نثار دائیں بائیں چل رہے تھے۔ یہ انصار تھے وہ انصار جنہوں نے آپﷺ کے راستے میں آنکھیں بچھائیں۔
آپﷺ کے ساتھیوں کو اپنے گھروں، کھیتوں، باغوں اور دکانوں میں حصہ دیا اور بدلے میں حضورﷺ کو پایا۔
تاریخ کو حنین کی وہ شام کبھی نہیں بھولتی جب میرے حضورﷺنے نو مسلم مکینوں کومال غنیمت سے زیادہ حصہ دیا، چند انصار نے یہ تقسیم ناپسند کی‘ آپ ﷺ نے انھیں مخاطب کر کے فرمایا ’’کیا تم کو یہ پسند نہیں لوگ اونٹ اور بکریاں لے جائیں اور تم محمدﷺ کو لے کراپنے گھر آئو‘‘ انصار بے اختیار ہو کر چیخے ’’ہمیں صرف رسول اللہ ﷺ درکار ہیں‘‘
اور پھر وہاں گریہ کا سیلاب آ گیا، داڑھیوں سے آنسو ٹپکنے لگے، قریش اونٹ اور بکریاں لے گئے اور انصار کو حضورﷺ مل گئے۔ یہ اعزاز اب دنیا کی کوئی طاقت اہل مدینہ سے نہیں چھین سکتی۔
انصار مہمان نواز تھے، اللہ کے نبی ﷺ سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔
آج بھی مدینہ کے شہری کسی اجنبی کو دیکھتے ہیں تو اُسے محمد کہہ کر پکارتے ہیں اور ساتھی کو یا صدیق لہٰذا یہ دنیا کا واحد شہر ہے جس میں ہر مہمان، ہر اجنبی کا نام محمد اور ہر ساتھی صدیق ہے۔
انصار نے حضورﷺ کی تواضح کی اور ان کی نسلیں حضورﷺ کے مہمانوں کی خدمت کر رہی ہیں۔ رمضان میں پورا مدینہ اشیاء خورونوش لے کر مسجد نبویﷺ حاضر ہو جاتا ہے ‘دستر خوان بچھا دیے جاتے ہیں، میزبانوں کے بچے مسجد نبویﷺ کے دالانوں، ستونوں اور دروازوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں، حضورﷺ کا جو بھی مہمان نظر آتا ہے ۔
وہ اس کی ٹانگوں سے لپٹ کر افطار کی دعوت دیتے ہیں۔
مہمان دعوت قبول کر لے تو میزبان کے چہرے پر روشنی پھیل جاتی ہے، نامنظور کر دے تو میزبان کی پلکیں گیلی ہو جاتی ہیں، میں مسجد نبوی ﷺ میں داخل ہوا تو ایک سات آٹھ برس کا بچہ میری ٹانگ سے لپٹ گیا اور بڑی محبت سے کہنے لگا ’’چچا، چچا آپ میرے ساتھ بیٹھیں گے‘‘ میرے منجمد وجود میں ایک نیلگوں شعلہ لرز اٹھا، میں نے جھک کر اس کے ماتھے پر بوسا دیا اور سوچا ’’ یہ لوگ واقعی مستحق تھے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اللہ کے گھر سے اٹھ کر ان کے گھر آ ٹھہرتے اور پھر واپس نہ جاتے۔‘‘
وہاں روضہ اطہر کے قریب ایک دروازہ ہے۔
باب جبرائیل، آپ ﷺ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ مبارک میں قیام فرماتے تھے، افطار کا وقت ہوتا، دستر خوان بچھتا، گھر میں موجود چند کھجوریں اور دودھ کا ایک آدھ پیالہ اس دستر خوان پرچن دیا جاتا، حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان کے لیے کھڑے ہوتے تو آپ فرماتے ’’ عائشہ رضی اللہ عنہا باہر دیکھو باب جبرائیل کے پاس کوئی مسافر تو نہیں ‘‘ آپ رضی اللہ عنہا اٹھ کر دیکھتیں، واپس آ کرعرض کرتیں’’ یا رسول اللہ ﷺ وہاں ایک مسافر بیٹھا ہے۔‘‘ آپﷺ کھجوریں اور دودھ کا وہ پیالہ باہر بھجوا دیتے، میں جونہی باب جبرائیل کے قریب پہنچا، میرے پیروں کے ناخنوں سے رانوں کی ہڈیوں تک ہر چیز پتھر ہو گئی، میں وہی بیٹھ گیا، باب جبرائیل کے اندر ذرا سا ہٹ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں میرے حضورﷺ آرام فرما رہے ہیں۔ میں نے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچا، آج بھی رمضان ہے۔
ابھی چند لمحوں بعد اذان ہو گی، ہو سکتا ہے آج بھی میرے حضورﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے پوچھیں ’’ ذرا دیکھئے باہر کوئی مسافرتو نہیں‘‘ اور ام المومنین عرض کریں گی ’’ یا رسول اللہ ﷺ باہر ایک مسافر بیٹھا ہے، شکل سے مسکین نظر آتا ہے، نادم ہے، شرمسار ہے، تھکا ہارا ہے، سوال کرنے کا حوصلہ نہیں، بھکاری ہے لیکن مانگنے کی جرأت نہیں، لوگ یہاں کشکول لے کر آتے ہیں‘ یہ خود کشکول بن کر آ گیا، اس پر رحم فرمائیں یا رسول اللہ ﷺ، بیچارہ سوالی ہے، بے چارہ بھکاری ہے‘‘ اور پھر میرا پورا وجود آنکھیں بن گیا اور سارے اعضاء آنسو۔..

طالب دعا

امریکی سپریم کورٹ نے ویڈیو شیئرنگ ایپ 'ٹک ٹاک' کی درخواست مسترد کر دی ہے جس کے بعد اتوار سے 'ایپ' پر پابندی کا اطلاق ہو ...
17/01/2025

امریکی سپریم کورٹ نے ویڈیو شیئرنگ ایپ 'ٹک ٹاک' کی درخواست مسترد کر دی ہے جس کے بعد اتوار سے 'ایپ' پر پابندی کا اطلاق ہو جائے گا۔

امریکی سپریم کورٹ نے اپنے متفقہ فیصلے میں وفاقی حکومت کا وہ قانون برقرار رکھا ہے جس میں 'ٹک ٹاک' کی مالک چینی کمپنی بائٹ ڈانس کو یہ مہلت دی گئی تھی کہ وہ خود کو ٹک ٹاک سے الگ کرے ورنہ ایپ پر پابندی لگادی جائے گی۔

ٹک ٹاک نے سپریم کورٹ میں مذکورہ قانون کو کالعدم قرار دینے کی درخواست دائر کی تھی۔ 'ٹک ٹاک' نے اسے اظہارِ رائے کی آزادی سے متصادم قرار دیا تھا۔

امریکہ کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ سپریم کورٹ سے درخواست کی تھی کہ وہ ٹک ٹاک پر ممکنہ پابندی کو اس وقت تک روک دے جب تک اُن کی آنے والی حکومت اس معاملے کا "سیاسی حل" تلاش نہ کر لے۔

امریکی محکمۂ انصاف کا مؤقف ہے کہ ٹک ٹاک ایپلی کیشن پر چین کا مسلسل کنٹرول قومی سلامتی کے لیے ایک مسلسل خطرہ ہے۔ ٹک ٹاک کا کہنا ہے کہ محکمۂ انصاف نے ایپ کے چین کے ساتھ تعلقات کو غلط بیان کیا ہے۔

‏1۔ روزانہ ایک دیسی ڈلی لہسن ضرور کھائیں. 2۔ ناشتے میں ابلے ہوئے انڈے کا استعمال لازمی کریں۔3۔ ناشتے کے وقت ایک سیب کا ا...
20/12/2024

‏1۔ روزانہ ایک دیسی ڈلی لہسن ضرور کھائیں.
2۔ ناشتے میں ابلے ہوئے انڈے کا استعمال لازمی کریں۔
3۔ ناشتے کے وقت ایک سیب کا استعمال کریں۔
4۔ گھی کی روٹی کی بجائے خشک روٹی استعمال کریں۔
5۔ دن میں 12 گلاس پانی ہر صورت پیئں۔
6۔ ایک دن چھوڑ کر تخم ملنگہ یا اسپغول چھلکا کا استعمال کریں۔

7۔ادرک۔ سونف۔ دار چینی۔ پودینہ۔ چھوٹی الائچی۔
تمام چیزیں تھوڑی مقدار میں لیں۔زیادہ نہ لیں۔انکا قہوہ بنا کے ایک ایک کپ پیئں۔ آدھا لیموں ملا لیں۔ایک دن چھوڑ کر ایک دن پیئں,

8- روزانہ پانچ یا سات کجھوریں کھائیں..
9- صبح کے وقت بھگو کے رکھے ھوئے بادام چھیل کر کھائیں 12 عدد
10- بوتل اور ڈبے والے juices ترک کر دیں۔ بہت نقصان دہ ہیں۔ان کی جگہ گھر میں Fresh juice بنا کر پیئں۔

11- روزانہ اپنے ہاتھ کی ہتھیلیوں اور پاؤں کے تلووں پر تیل لگا کر سوئیں۔ ناف میں تین قطرے تیل ڈالیں۔ کافی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے!

12- تلاوت قرآن پاک، پانچ وقت نماز پابندی سے پڑھیں اور جو تھوڑا سا وقت جب بھی ملے اللہ کا ذکر کریں۔۔۔تمام امت مسلمہ کے لئے دعائے خیر کریں!!! اللہ آپ کیلئے آسانیاں فرمائے آمین ۔

آپ نے یہ شعر اکثر سُنا یا پڑھا ہوگا ، خصوصاً اس کا مصرعۂ ثانی تو لازماً پڑھ رکھا ہوگا۔ ہوئے نام وَر بے  نشاں  کیسے کیسےز...
05/12/2024

آپ نے یہ شعر اکثر سُنا یا پڑھا ہوگا ، خصوصاً اس کا مصرعۂ ثانی تو لازماً پڑھ رکھا ہوگا۔

ہوئے نام وَر بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

امیرؔ مینائی کی یہ لازوال مکمل غزل ملاحظہ فرمائیں...

ہوئے نام وَر بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

تری بانکی چتون نے چُن چُن کے مارے
نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے

نہ گُل ہیں نہ غُنچے نو بُوٹے نہ پتے
ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے

یہاں درد سے ہاتھ سینے پہ رکھا
وہاں ان کو گزرے گُماں کیسے کیسے

ہزاروں برس کی ہے بُڑھیا یہ دنیا
مگر تاکتی ہے جواں کیسے کیسے

ترے جاں نثاروں کے تیور وہی ہیں
گلے پر ہیں خنجر رواں کیسے کیسے

جوانی کا صدقہ ذرا آنکھ اٹھاؤ
تڑپتے ہیں دیکھو جواں کیسے کیسے

خزاں لُوٹ ہی لے گئی باغ سارا
تڑپتے رہے باغباں کیسے کیسے

امیرؔ اب سخن کی بڑی قدر ہو گی
پھلے پھولیں گے نکتہ داں کیسے کیسے

#امیرؔ_مینائی

بڑا آئیڈیا بڑی سوچ!پاک بھارت کرکٹ پر جو تنازعہ چل رہا ہے اس کا بہترین حل میرے ذہن میں آیا ہے دونوں ملک باڈر پر ایسا سٹیڈ...
15/11/2024

بڑا آئیڈیا بڑی سوچ!
پاک بھارت کرکٹ پر جو تنازعہ چل رہا ہے اس کا بہترین حل میرے ذہن میں آیا ہے دونوں ملک باڈر پر ایسا سٹیڈیم بنا لیں جو آدھا بھارت اور آدھا پاکستان میں ہو دونوں طرف اپنے اپنے دروازے ہوں بھارت اپنی سرزمین سے داخل ہو پاکستان اپنی سرزمین سے آئے گا نہ بھارت کو اعتراض ہو گا پاکستان ٹیم بھیجنے کا نہ پاکستانیوں کو وہاں کا ویزہ لینا پڑے گا 😄😛

بھارت کا دوغلا پن برقرار۔۔!!کبھی کبھی قوموں کو عزت اپنی زمین پر کھڑے رہنے سے ملتی ہے، جھکنے سے نہیں آج اگر ہم نے ایک بار...
15/11/2024

بھارت کا دوغلا پن برقرار۔۔!!

کبھی کبھی قوموں کو عزت اپنی زمین پر کھڑے رہنے سے ملتی ہے، جھکنے سے نہیں آج اگر ہم نے ایک بار کھل کر انکار نہ کیا، تو کل شاید ہماری زمین پر بھی ہمیں حقارت کا سامنا ہو۔

بھارت نے چیمپیئنز ٹرافی 2025 میں پاکستان آنے سے انکار کیا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں، یہ پاکستان کی خودمختاری کا سوال ہے۔ آج اگر ہم یہ کہہ کر خاموش ہو جائیں کہ یہ تو بس ایک ٹورنامنٹ ہے، تو ہم آئندہ پھر سے اسی چیز میں پھنس جائیں گے۔ تو کیا یہاں ہم اپنی عزت کو فقط ایک کھیل کے لیے بھی بیچ سکتے ہیں؟

پاکستان نے ایشیا کپ کے موقع پر ہائبرڈ ماڈل قبول کیا، ایک ایسا ماڈل جس نے ہمیں اپنے ہی میدانوں سے دور کر دیا۔ ہم نے کہا کہ ٹھیک ہے، ہم آدھے میچز کہیں اور کھیل لیں گے، فائنل بھی ہم سے چھین لو۔ مگر بدلے میں کیا ملا؟ آج Indian Cricket Team نے ہمارے ساتھ وہی سلوک دہرایا ہے۔ یہ ہمارے ساتھ وہ تضحیک ہے جو ہمیں مسلسل جھیلنی پڑ رہی ہے، اور اس کا جواب ہمیں اپنے اصولوں کی بنیاد پر دینا چاہیے۔

کیا آج تک ہم نے نہیں دیکھا کہ ہمارے کھلاڑی آئی پی ایل کے بغیر بھی میدانوں میں چمک رہے ہیں، اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟ یہی حوصلہ کل ہمیں چیمپیئنز ٹرافی کے بغیر بھی بلند رکھے گا۔ ہماری کرکٹ اپنے وقار پر زندہ ہے، نہ کہ کسی کے ساتھ کھیلنے یا نہ کھیلنے پر۔ آج اگر ہم انکار کریں، تو دنیا کو یہ پیغام ملے گا کہ پاکستانی قوم اپنے وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتی۔ انڈیا چاہے کسی کو کھیلنے کے لیے بلالے، مگر انڈیا-پاکستان کا مقابلہ اپنی جگہ ایک تاریخ ہے۔ شاید بھارت کے اپنے چینل اور اسپانسرز بھی اس نقصان کو برداشت نہ کر سکیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان کے بغیر ان کے مقابلوں کی وہ رونق نہیں رہتی۔

کبھی کبھی ایک مضبوط فیصلہ قوموں کی تقدیر بدل دیتا ہے۔ ہمیں بھی آج اپنے اصولوں اور عزت کی حفاظت کے لیے کھڑے ہونا ہوگا۔ اگر چیمپیئنز ٹرافی پاکستان میں نہیں ہو سکتی، تو ہمیں دو ٹوک کہہ دینا چاہیے کہ نہ یہ ٹورنامنٹ کھیلیں گے اور نہ ہی 2026 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھارت جائیں گے۔ ایک بار سٹینڈ لے کر دیکھو، شاید دنیا ہمارے جذبے کو سراہنے پر مجبور ہو جائے گی۔

پاکستان کرکٹ کے شائقین، آئیے مل کر اس عزم کو تقویت دیں کہ Pakistan Cricket Team کبھی اپنی سرزمین اور وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

11/11/2024

OPINION: PM Modi must view sports independently of politics, as Pakistan did by visiting India despite Shiv Sena’s threat in 1999

Read more: https://www.geo.tv/latest/573846

Address

Dipalpur

Telephone

+923006130614

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when HEARmax Pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to HEARmax Pakistan:

Share