18/01/2025
تاریخ دیر
(1)ریاست دیر کا سرکاری(نوابی) نام 1969سے پہلے اور 1895کے بعد "دیر، سواد وجندول " تھا۔سوات، "سواد" اور "صوات" لکھا جاتاتھا. ۔۔۔۔سوات کا علاقہ ادینزئی بعد میں دیر میں شامل کیا گیا تھا۔
(2) اکثر مورخین کا خیال ہے کہ دیر سنسکرت زبان سے ماخوذ ہے، جو فارسی میں مستعمل ہوا اور حرف جار لگانے سے مرکب بنا۔ارود میں بطور متعلق فعل استعمال ہوتا ہے، جس کا معنی،(اردو میں) وقفہ، عرصہ اور مدت کے ہیں. لیکن دَیر(دال پر زبر) پڑھنے سے اس کا معنی بت خانہ ہے، لیکن ہندوں کی مندر یا بت خانے کے علاوہ تمام عبادت خانوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔دیر سنسکرت، ہندی، فارسی اور اوردو کے علاوہ عربی، سریانی، عبرانی اور براھوی زبانوں کا بھی لفظ ہے۔تاھم فارسی اردو میں یہ سنسکرت سے ایا ہے ۔اس کے معنی، عبادت خانہ، شراب خانہ، جیل خانہ، قصاب خانہ، ظلم کدہ، پہاڑی، اونچا جگہ، دور درازمقام، دریا بچہ ہوا علاقہ یا دریا کے کنارے کا علاقہ وغیرہ اس کے معنی ہیں البتہ براھوی میں، دیر کا معنی پانی ہے۔
لیکن کچھ علماء کا خیال ہے کہ دیر گاوری زبان کا لفظ ہے،جس کے معنی ڈھلوانی منڈیر ہے،عام طور پر اب بھی یہ لفظ منڈیر کے لۓ مستعمل ہے,مثلاً یو تو نی دیر دیونت، باڈگٸ ٹاپ کو بھی مقامی لوگ دیر ہی کہتے ہیں۔
(3)یہ نام کیوں پڑا؟اس حوالے سے کئ اقوال ہیں۔تفصیلی گفتگو ھم نے دو کتابوں اور ایک مقالے میں کیا ہے۔۔۔۔۔سردست عرض کروں کہ زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ" دیر گھ"نام کے ایک حکمران کے نام سے یہ نام پڑا، ویسے بھی "دیار"دیر کے حکمران کو کہا جاتا ہے ۔یا "دھیرہ "جو 327قبل اس ریاست کا اھم مقام تھا سے پڑا، یا یہ علاقہ جب دردستان (کشمیر تک پورہ علاقے کا نام) کا حصہ تھا تو اسے درد، دیرواتی، دھیر کہا جاتاتھا، ۔۔اور ماضی قریب سے تو اپر دیر میں مشہور قصبہ، "دیر" اب تک ہے۔"دیر" 1683تا 1978تک،ریاست دیر کا دارلخلافہ بھی رہاہے(1978 سے تیمرگرہ دارالخلافہ بنا،جس کا فیصلہ 1976کو ہوا تھالیکن عمل درامد 1978کو ہوا)۔۔اور اسی سے پوری ریاست (اب دیر بالا، دیر پائین) کا یہ نام پڑا ہے۔اس طرح قدیم زمانے میں، یہاں دری، دیری زبانیں بھی بولی جاتی تھی، شائد جگہ کے نام پر زبانیں ہو، یا زبانوں کے نام پر جگہ۔
(4)قدیم نام:دیرواتی، گوری، گورائے، کبریش، باشکار، درد، دھیرہ، مساگا۔
(5)موجودہ زبانیں پشتو، کوہستانی(کاوری، بشکاری)، گوجری
(6)قدیم زبانیں :دیری، داستو، فارسی، ترکی، کاشغری، بدیشتی، گبری، دری۔وغیرہ(تاریخ ملاکنڈ از زاھد شاہ)
(7)قدیم مذاھب: ویدک، ہندو،زرتشت، بدھ مت، وغیرہ
(8)قدیم اقوام ونسل:حجر نو کے دور سے یہاں لوگ اباد ہے۔منڈہ، سیاہ پام، کورو، کول، تورانی، دراوڑ، داسیو، ارین، ۔۔۔۔البتہ اس وقت کوہستانی اور گوجر اس خطے کے قدیم اقوام ہیں ۔(تاریخ ملاکنڈ از ڈاکٹر زاھد شاہ)
(9)قدیم تاریخ:اارین 1600،،900،BCیرانی دور، 550BC, بدھ مت، 430BC, یونانی 327BC, موریا 321تا 185BC, سک 47BC, کے درمیان77،پہلوی 5ء تا 75ء، کوشن 60ء 225ء، ساسانی، 365،ءتک، کابل شاھی 650ء، صفاری 861ءتا 900ء ھندوشاھیہ، 870ء تا 1021ء، محمود غزنوی 1021ء تا 1030ء(تاریخ ملاکنڈ از ڈاکٹر زاھد شاہ)
(10)اسلام، صفاری دور( 861 تا900، )میں ،139ھ بمطابق 721ء میں حضرت زیاد بن صالح کے ذریعے پہنچا(امام جوینی ،المسالک والممالک،اثر،روحانی تڑون ،ص 620)۔پھر محمود غزنوی کے دور 1021ء مزید پھیلا۔(البتہ محمو د غزنوی ملاکنڈ نہیں ایا ہے، جیسا کہ بعض لوگوں نے لکھا ہے۔البتہ چنگیز خان , ،21-620ء کوایا تھا،لیکن اس کا زکر ملاکنڈ کے مورخین نے نہیں کیا). (سراج الدین ناصری، طبقات ناصری، 175/2)
(11)گبرسواتی تاجک(جو قرانی ذولقرنین ،(سوہ کہف) کی اولاد ہے) 1190تا1519(مملکت گبر، ص، 28، 187،وبعد)
(12)تیموریہ خاندان(جو ترک ہےاور پاک وھند میں غلطی سے اسے مغلیہ کہا جاتا ہے، جو بلکل درست نہیں، مغل اور ان کے درمیان شدید اختلافات اور نفرت تھی(،تزک بابری) 3جنوری 1519تا 1670، باجوڑ پر ظہیرالدین بابر کے حملے کے بعد ،تیموریہ دور شروع ہوئی، ان دنوں دیر ،باجوڑ کا حصہ تھا، خواجہ کلاں پہلا حکمران بنا تھا۔(تزک بابری ص 147،148) اس کے بعد نومبر 1525 میں عبد اللہ خان بن احمد مرزا، پھر سخی عرب خان 1587یا 1557تک،اتم خان، عرب خان، سرور خان، عنایت اللہ خان حکمران رہے۔۔۔۔۔بعد میں اس خاندان کو صاحبزادگان کہا جانے لگا۔اس خاندان نے باجوڑ، دیر کی زمین، مقامی اور نووارد اقوام میں سید نور محمد المعروف چورک بابا کے زریعے ،1036ھ،بمطابق ،1628تقسیم کی. (باجوڑ، از عبد حلیم اثر، 1971،ص، 11وبعد) اس سے پہلے جنوری 1519کو بابر بادشاہ نے باجوڑ، دیر اور زیرین سوات کی زمین مختلف اقوام کو 6ہزار من غلہ کے عوض اجار پر دیا تھا(تزک بابری، ص 163)،سوات میں 1931تک اور دیر میں1913تک، زمینوں کے حوالے سے، "خسنڑے" اور "سیری" کا طریقہ رائج تھا۔خسنڑے وہ زمین اور تقسیم تھا جو خاندانوں کے درمیان 5،10،20سال کے لیے پاس ہوتاتھا جبکہ سیری وہ زمین تھی جو خاندانوں کے ساتھ مستقل ہوتی تھی۔۔۔۔جیسے حکمران خاندانوں کی جائداد،یا، قاضی، سادات وغیرہ خاندان یا لوگوں کی جائداد جبکہ عام طور مشہور ہے کہ سیری، وقف یا ھبہ کی زمین ہےیا،مفت زمین جوکچھ لوگوں یا خاندن کو دی جاتی تھی۔ لیکن یہ درست نہیں، اس وقت کی سرکاری ریکارڈ کے علاوہ بنیادی مصادر کتب اور مخطوطوں میں تفصیل موجود ہے۔(Mc Mahon, Report on Saw and, Bajor... P42'47, میری زندگی، غفار خان، ص88،پاکستان کی قومتیں از فسکی، ص 143،)
(13)یوسف زئ دور اول،(اخوند خیل،اولاد اخون لیاس ،لاجبوک باباجی رح)1678تا 1890(جو اسماعیل خان سے شروع ہوا تھا، اور محمد شریف خان تک ہے۔ محمد شریف کے والد رحمت اللہ خان کو افغانستان کے امیر شیر علی خان نے 1877 میں نواب کا خطاب دیا تھا(از ڈاکٹر زاھد شاہ)
(14)ترکلانی دور(ذیلی شاخ مست خیل کے،عمرا خان جندولی)، 1890تا، 17اپریل 1895
(15)یوسف زئ دور دوم،(اخون خیل،)1895تا، 28جولائی 1969،تک ۔(تاریخ ملاکنڈ از ڈاکٹر زاھد شاہ)
(16)نوابی دور :محمد شریف خان کو نوابی کا خطاب، جولائی 1897میں ملا۔ان کی وفات 8دسمبر 1904،کے بعد، محمد اورنگ زیب المعروف چاڑا نواب، 1904تا، فروری 1925،شاجھان نواب5فروری 1925تا 8،اکتوبر،1960 کو۔۔۔ان کے گرفتاری کے بعد،محمد شاہ خسروخان11اکتوبر 1960تا 28جولائی 1969،نواب دیر رہے)۔(تاریخ ملاکنڈ از ڈاکٹر زاھدشاہ)
(17)13اگست 1996کو دو اضلاع میں تقسیم ہوا۔
(18)دیر بالا کا کل رقبہ، 3699مربع کلومیٹر، ابادی 946420(2017)،دیر پائین، کل رقبہ 1585،مربع کلومیٹر، ابادی 1435915(2017)(از ڈاکٹر زاھد شاہ)
(