The Destination

The Destination Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from The Destination, Media, Faisalabad.

The main purpose of the formation of this platform is to embellish the young generation with the adornment of the knowledge of Quran and Sunnah, as per the understanding of the Salaf us Saliheen.

06/09/2025

مدینہ میں ساڈھے چودہ سو سال پہلے آج کا منظر

مدینہ کی فضاؤں میں ایک عجیب سا سناٹا ہے۔ وہی مدینہ، جس کی گلیوں میں کل تک رسول اللہ ﷺ کی مسکراہٹ بکھری رہتی تھی، آج آہوں اور سسکیوں سے گونج رہا ہے۔ گھروں کے دروازے بند ہیں مگر اندر ہچکیاں بندھ رہی ہیں۔ بچے اپنی ماؤں سے لپٹ کر بلک رہے ہیں، مائیں دوپٹے منہ میں لئے ہوئے غم کے مارے دانت پسیج رہی ہیں، بزرگ زمین پر گر گر کر سسک رہے ہیں۔

مسجد نبوی میں ہجوم ہے۔ صحابہ کرام کے چہرے زرد ہیں، آنکھیں نم ہیں، دل کانپ رہے ہیں۔ سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں مگر کسی کی ہمت نہیں پڑ رہی کہ زبان سے لفظ نکال سکے۔

اچانک سیدنا عمرؓ آگے بڑھتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو ہیں مگر جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ تلوار کھینچ کر بلند آواز میں کہتے ہیں:
"جو یہ کہے گا کہ رسول اللہ ﷺ دنیا سے گئے ہیں، میں اس کی گردن مار دوں گا۔ تمہارے آقا واپس آئیں گے، جیسے موسیٰ علیہ السلام آئے تھے!"
مدینہ کی فضا میں ان کی آواز گونج رہی ہے، مگر یہ آواز ان کے ٹوٹے ہوئے دل کی بے بسی ہے۔

اسی لمحے سیدنا عثمانؓ ایک کونے میں بیٹھے ہیں۔ غم کی شدت سے ان کی زبان بند ہو گئی ہے، چہرہ اس قدر بدل چکا ہے کہ پہچاننا مشکل ہے۔

ادھر سیدنا علیؓ آقا ﷺ کے قریب بیٹھے ہیں۔ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں، ہاتھوں سے رسول اللہ ﷺ کے جسمِ مبارک کو چھو چھو کر دیکھ رہے ہیں۔ دل کہہ رہا ہے کہ یہ خواب ہے، ابھی آپ آنکھ کھول دیں گے۔

پھر ابو بکر صدیقؓ تشریف لاتے ہیں۔ وہ آہستگی سے حجرہ مبارک میں داخل ہوتے ہیں، چہرے سے کپڑا ہٹاتے ہیں، پیشانی کو بوسہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں:
"میرے ماں باپ آپ پر قربان، اللہ آپ پر کبھی دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔ آپ اپنے رب کے پاس جا چکے ہیں۔"
یہ الفاظ کہتے ہی وہ مسجد نبوی میں جاتے ہیں۔ ہجوم میں کھڑے ہو کر بلند آواز سے کہتے ہیں:

"لوگو! جو محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا، جان لے کہ محمد ﷺ دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ اور جو اللہ کی عبادت کرتا ہے، جان لے کہ اللہ زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا۔"

پھر وہ قرآن کی وہ آیت پڑھتے ہیں ، اور صحابہ اکرام کو توحید کا وہی سبق یاد کرواتے ہیں جو رسول اللّٰہﷺ دے کر گئے تھے کہ ہر طرح کی عبادت اور خشیت صرف اللّٰہ رب العالمین کا حق ہے ، اور اطاعت رسول اللّٰہﷺ کا حق ہے ، اور یہ کہ رسول اللّٰہﷺ زندہ رہیں یا نہ رہیں رب کی بندگی اور آپ کے مشن سے زرا برابر غفلت نہیں برتنی ، لہذا جو صحابہ غم کی شدت میں رسول اللّٰہﷺ کی وفات کا انکار کرنے لگے تھے ان کی دو ٹوک اصلاح فرمائی اور یہ آیات تلاوت فرمائیں جس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا:

"وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ" (آل عمران 144)
ترجمہ: "محمد ﷺ تو ایک رسول ہیں، ان سے پہلے بھی کئی رسول گزر چکے ہیں۔ کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاؤ گے؟"

یہ الفاظ سن کر سب پر حقیقت واضح ہو گئی۔ صحابہ کے جسم کانپنے لگے، کئی مارے غم کے زمین پر گر پڑے، اور مدینہ پھر ایک بار آہوں اور سسکیوں میں ڈوب گیا۔

سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں:
"جس دن رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے، ہم نے مدینہ میں اتنا اندھیرا کبھی نہیں دیکھا۔ یوں لگتا تھا جیسے سورج بھی ڈھل گیا ہو۔"

یہ تھا وہ بارہ ربیع الاول کا ہمارے پیارے نبی کریم جنابِ محمد رسول اللّٰہﷺ کی وفات کا اندوہناک دن۔۔۔۔ جسے صحابہ کرامؓ نے غم و اندوہ کے ساتھ گزارا۔ اور آج کے مسلمان اسی دن کو ناچ گانے ، میلوں اور جشن کے طور پر منا رہے ہیں ، حالانکہ بارہ ربیع الاول کی تاریخ وفات پہ ساری امت اور تمام مورخین متفق ہیں، جبکہ آپ کی تاریخ پیدائش کی درجنوں روایات ہیں حتیٰ کہ مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللّٰہ بھی بارہ ربیع الاول کو رسول اللّٰہﷺ کی تاریخ پیدائش نہیں مانتے، تو آج کے دن جب صحابہ پہ غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے جبکہ ہم بے شرمی کے ساتھ جشن منا رہے ، اور اس پہ مزید یہ کہ اس ناچ گانے والی گستاخی کو محبت رسول کا پیمانہ بنائے ہوئے، حالانکہ حقیقی محبت یہ ہے کہ ہم آج کے دن اپنے نبی جنابِ محمد رسول اللّٰہﷺ کی جدائی میں آنکھوں میں آنسو لے کر رسول اللہ ﷺ کے مشن کو زندہ رکھنے کا پختہ عہد کریں، اپنی نمازیں ، عبادتیں ، معاملات ، تعلقات ، لین دین ، خوشی غمی سمیت تمام تر عقائد و نظریات کو رسول اللّٰہﷺ کے تابع کریں ، جو کہ اپنے نبی سے حقیقی محبت کا مظہر ہے ، نہ کہ آج کے دن جنابِ محمد رسول اللّٰہﷺ کی زبردست مخالفت کرتے ہوئے بے پردہ بے حیا لڑکیوں اور بے شرم لفنگے لڑکوں کے غول در غول بازاروں میں نکلیں ، ایک دوسرے میں گھسیں ، ڈی جے بجائیں ، سڑکوں بازاروں میں ہلا گلا ناچ گانا ، دن رات کی فرض نمازیں چھوڑ کر کہ جن کے بغیر مسلمان کافر ہو جاتا ، بازار اور گلیاں سجانے میں مگن ، ہر طرف اسراف اور فضول خرچی سمیت دین کے نام پر لاتعداد بدعات کے اضافے سمیت اتنے بڑے بڑے گناہ کے کام جو عام دنوں میں بھی ہمارے نبی کریم جنابِ محمد رسول اللّٰہﷺ نے سختی سے منع فرمائے ،لیکن ہماری بدبختی دیکھیں کے وہ سب کچھ آپ کی ولادت کے نام پر کیا جارہا ، جبکہ یہ وفات کا دن ہے ۔
ذرا تصور تو کیجئے کہ اگر آج ہمارے درمیان رسول اللّٰہﷺ ہوتے تو کیا ہم میں سے کوئی اس ناچ گانے ، بھنگڑے ، لڑکیوں لڑکوں کا کھلا اختلاط ، بازاروں میں شدید رش ، پہاڑیوں ، ڈی جے ، بیک گراؤنڈ میوزک اور ہائی بیس والی نعتوں کے نام پر شرکیہ شاعری سمیت درجنوں گناہ کے کام کر سکتے تھے ، یہ سب سوچ کر ہی جان نکلی جاتی ہے ۔
ذرا تصور تو کیجئے ۔۔۔۔۔ وللہ میری تو مارے ادب کے جنابِ رسول اللّٰہﷺ کے سامنے آنکھیں ہی نہ اٹھنے پائیں ، اور آج ڈی جے پہ میرے نبی کریم جنابِ محمد رسول اللّٰہﷺ کو برسرِ بازار آوازیں ماری جائیں سوہنیا آ جا آ جا مکھڑا وکھا جا۔۔۔۔۔ اور ان بے عقل بے وقوفوں کو سمجھانے والا بھی کوئی نہیں ، اور جو سمجھائے اس پہ گستاخ کے فتوے لاحول ولا قوہ الا باللہ
ایک طرف آج کلمہ پڑھنے والوں کا اپنے رسول کو لے کر یہ کردار کہ وہ جشن منانے والے بن گئے جبکہ دوسری طرف جنابِ رسول اللّٰہﷺ کے تربیت یافتہ اصحاب جو اپنے نبی کا جشن منانے والے نہیں بلکہ مشن اپنانے تھے ، اور رسول اللّٰہﷺ کا مشن یہ تھا کہ ہر مرد و عورت ، بوڑھے اور جوان کو بندوں کی بندگی سے نکال کر بندوں کے رب کی بندگی پہ لگا دیا جائے کہ وہ اپنے دل میں رب العالمین کی توحید ، اس کی خشیت ، محبت ، عظمت ،جلال، کبریائی ، بڑائی پیدا کریں ، اور اپنی زندگی اور موت کو رب کی بندگی کے تابع کر دیں ، اور رب کی زمین پہ رب کے نظام کے نفاذ کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ لگا دیں۔ لہذا آج کا دن اس وعدے کا دن ہے کہ اے اللہ کے رسول آپ کے دنیا سے رخصت ہو جانے پہ دل غمگین ہے، کلیجہ پھٹ رہا ہے ، آنکھوں میں آنسو ہے، لیکن روح اس جذبے سے سر شار ہے کہ ہم آپ کے مشن کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح مکمل کریں گے اور اس دُنیا میں کفر و شرک و طاغوت کے نظام کو ختم کر کے لاالہ الااللہ محمد رسول اللّٰہﷺ کا نظام دوبارہ قائم کریں گے ، ہم رہیں یا نہ رہیں ، ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں لیکن ہمارا وعدہ ہے کہ اے اللہ کے رسول ہم آپ کے مقصد کو پورا کرنے کی کوشش میں دعوت و جہاد کے نبوی منہج پر جان دے دیں گے ۔ ان شاءاللہ
اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن اپنے پیارے نبی کریم جنابِ محمد رسول اللّٰہﷺ کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچا کر ان کی شفاعت اور آپ کے مبارک ہاتھوں سے حوض کوثر عطاء فرما کر ہماری کوششوں سے خوش ہو کر اپنے عرش کریم کا سایہ عطاء فرما دے ۔ آمین یارب العالمین

ڈاکٹر حافظ اسامہ اکرم

05/09/2025

جب میں اپنے دل کے اندر جھانکتا ہوں تو سب سے روشن چراغ، سب سے پاکیزہ روشنی، سب سے میٹھی خوشبو ایک ہی ہستی سے جُڑی ہوئی نظر آتی ہے—وہ ہیں میرے آقا و مولا جناب محمد رسول اللہ ﷺ۔ میں جانتا ہوں کہ آپ ﷺ کو دنیا کا تعارف کرانے کے لیے لفظ رسول کافی ہے، لیکن میرے دل کے لیے یہ نام صرف ایک نسبت نہیں بلکہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے کہ اس حقیقت نے مجھے میرے رب سے روشناس کروایا ، مجھے توحید کی دولت سے مالا مال فرمایا۔

جب کبھی میں سوچتا ہوں کہ میرے نبی ﷺ کون تھے—وہ جو طائف کی گلیوں میں پتھر کھا کر بھی اپنی امت کے لیے رحمت کی دعا کرتے تھے، وہ جو اُحد کے میدان میں خون سے تر چہرہ لیے اپنی امت کو یاد کرتے تھے، جو لوگوں کو رب کی دعوت دینے اور اور ان کے عقائد و اعمال و نظریات اور زندگیوں کی اصلاح کے لیے اتنے متفکر تھے کہ راتوں کو اللہ العظیم کے حضور اتنا لمبا قیام کرتے کہ پاؤں مبارک میں ورم آ جاتا اور صرف "یا اللہ میری امت" کی دعائیں مانگ رہے ہوتے۔
میں جب چشم تصور سے یہ سب دیکھتا ہوں تو میرا کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے ، میرا دل آپ کی محبت اور آج آپ کی امت کی حالت کے غم میں پھٹنے لگتا ہے۔ پھر میں سوچتا ہوں: یا رسول اللہ! ہم کون ہیں جن کے لیے آپ نے یہ سب برداشت کیا؟

یاد رکھیئے دنیا کی ہر محبت فانی ہے، مگر آپ ﷺ کی محبت وہ چراغ ہے جو قیامت تک بجھنے والا نہیں۔ یہ صرف عقیدت نہیں بلکہ ایک ایسا رشتہ ہے جو روح کی گہرائیوں سے جڑا ہے۔

جب میں سوچتا ہوں کہ میری اور آج کے ہر امتی کی زندگی کیسی ہے اور میرے نبی ﷺ نے اپنی زندگی کیسے گزاری، تو دل لرز جاتا ہے۔ ایک طرف یہ نظر آتا ہے کہ آپ ﷺ کو مکہ کی گلیوں میں پتھر مارے گئے، دوسرے لمحے نظر آتا ہے کہ طائف میں اوباشوں نے آپ پر آوازیں کسیں اور خون بہایا، لیکن آپ نے پھر بھی بددعا نہ کی بلکہ دعا کی:
"اے اللہ! ان کو ہدایت دے، کیونکہ یہ نہیں جانتے۔"

یہ سن کر میرا دل سوال کرتا ہے: یا رسول اللہ! ہم تو آپ کی امت ہیں، ہم نے آپ کی سنت کو بھلا دیا، ہم نے آپ کے آنسوؤں کی قدر نہ کی، پھر بھی آپ ہماری شفاعت کے منتظر ہیں؟

آپ ﷺ کی راتیں آنسوؤں میں گزرتی تھیں۔ کبھی طویل قیام، کبھی لمبے سجدے، یہاں تک کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! آپ اپنے قدموں کو کیوں تھکا لیتے ہیں حالانکہ اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیے ہیں؟"
آپ ﷺ نے فرمایا:
"کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟"

میرے دل کو یہ سوچ کاٹنے لگتی ہے کہ آپ ﷺ کے ہر آنسو میں ہم شامل تھے۔ ہر دعا میں ہم شامل تھے۔ آپ کی ہر تکلیف کے پیچھے اللّٰہ کی توحید ، اسلام کے غلبہ اور آپ ﷺ کی اپنی امت سے محبت چھپی تھی۔

کبھی مجھے اُحد کا منظر یاد آتا ہے: آپ ﷺ کا چہرہ خون سے تر ہے، دندان مبارک شہید ہیں، پیشانی زخمی ہے۔ لیکن زبان پر بددعا نہیں بلکہ امت کے لیے مغفرت ہے۔ اور پھر وہ دردناک لمحہ جب آپ ﷺ نے فرمایا:
"اے اللہ! میری امت کو بخش دے، یہ نہیں جانتے۔"

کیا یہ الفاظ سن کر آنکھیں خشک رہ سکتی ہیں؟ میرا تو جسم کانپنے لگتا ہے ۔

اور قیامت کا دن... اللّٰہ اللّٰہ ۔۔۔۔۔جب ہر نبی اپنی جان بچانے کی فکر میں ہوگا، سب کہیں گے "نفسی نفسی"، لیکن اُس دن میرے نبی ﷺ ہی ہوں گے جو کہیں گے:
"امتی، امتی!"
اُس دن آپ کی شفاعت ہی ہماری نجات کا سہارا ہوگی۔

لیکن جب میں خود کو اور آج کے امتیوں کو دیکھتا ہوں تو وللہ شدید دھچکا لگتا ہے اپنی بد اعمالیوں اور جناب رسول اللّٰہﷺ کے ساتھ بے وفائی کو دیکھ کر، میرا دل ٹوٹ جاتا ہے کہ ہم نے آپ کی محبت کا حق نہیں ادا کیا۔ آپ ﷺ نے اپنی زندگی ہمیں جہنم کی آگ میں گرنے سے بچانے کے لیے وقف کر دی، اور ہم اپنی زندگی دنیا کے پیچھے لگا بیٹھے۔
لیکن میرا یقین ہے کہ اگر اب بھی میرا دل آپ ﷺ کی محبت میں رو پڑا، اگر میری زبان آپ پر درود بھیجمے لگی، اگر میری زندگی آپ کی سنت کے رنگ میں ڈھل گئی، اور میں نے آپ کے مشن غلبہ اسلام کو اپنی زندگی کا سب سےبڑا مقصد بنا لیا تو قیامت کے دن ضرور بالضرور آپ ﷺ مجھے پہچان لیں گے۔

میرا دل یہ گواہی دیتا ہے کہ میرے پیارے رسول اللہ ﷺ! میں آپ سے جُدا ہو کر کچھ بھی نہیں کہ آپ کا یہ مجھ پر پہ سب سے بڑا احسان ہے کہ آپ نے مجھے میرے رب کی پہچان کروائی ، ورنہ میں تو اپنے خالق و مالک کو کبھی نہ جان پاتا ، نہ اس کی بندگی کر پاتا اور بدترین گمراہوں میں شامل ہو جاتا ، پس آپ کی نسبت ہی سے میرا ایمان ہے، آپ کی محبت ہی میری جان ہے، آپ کا مشن ہی نصب العین ہے اور آپ کی شفاعت ہی میری سب سے بڑی امید ہے۔
بس دعا ہے کہ ہم جنابِ محمد رسول اللّٰہﷺ اور آپ کے مبارک اصحاب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے رب کے حضور اس طرح پیش ہوں کہ ہمارا پیارا اللّٰہ بھی ہم سے راضی ہو اور جناب رسول اللّٰہﷺ بھی ہم سے راضی ہوں۔کیونکہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

اپنے نبی کے دامن سے چمٹا ہوا نادم اور ادنیٰ غلام ،حافظ اسامہ اکرم

05/09/2025

بعثتِ محمدی ﷺ اور اُمتی کی ذمہ داری

اللہ تعالیٰ نے جب اپنے محبوب نبی جناب محمدﷺ کو اس دنیا میں مبعوث فرمایا تو ان کی بعثت کا مقصد صرف چند اخلاقی اصلاحات یا کسی خاص خطے کی رہنمائی نہ تھا، بلکہ آپ ﷺ کو پوری انسانیت کے لیے ہادی اور رہبر بنا کر بھیجا گیا۔ اور آپ نے اپنا تعارف اس طرح پیش فرمایا
أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللَّهُ بِيَ الْكُفْرَ
(صحیح البخاری، حدیث: 3532)

ترجمہ : میں محمد ہوں، احمد ہوں، میں ماحی ہوں کہ اللہ میرے ذریعے کفر کو مٹا دے گا۔

اسی طرح قرآنِ مجید میں آپ کی بعثت کے متعلق اللہ العظیم کا فرمان ہے:

"هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ" (التوبہ: 33)
ترجمہ: وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے، خواہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا مقصد دینِ اسلام کو غالب کرنا تھا تاکہ انسانیت کو ظلم، شرک اور گمراہی کی تاریکیوں سے نکال کر توحید، عدل اور رحمت کے نظام میں داخل کیا جائے۔

رسول اللّٰہﷺ نے اپنے 23 سالہ مشن میں یہ مقصد اپنی زندگی میں عملاً پورا کر کے دکھایا۔ مکہ کی ظلم و ستم سے بھری فضا سے مدینہ کی اسلامی ریاست تک کا سفر دراصل اسلام کے غلبے کی جدوجہد تھی۔ آپ ﷺ نے صرف دعوت و تبلیغ ہی نہیں کی بلکہ اپنی دعوت کی پشت کو جہاد و قتال سے مضبوط فرمایا اور عملاً ایک مثالی معاشرہ قائم کیا، جہاں انسانوں کے بنائے ہوئے قانون اور دستور کے ساتھ لوگوں پہ حکومت نہیں کی جاتی تھی بلکہ قرآن و سنت کی بنیاد پر عدل، مساوات اور اخوت کے صالح نظام کے ذریعے خلافت اسلامیہ کو قائم کیا۔

اب سوال یہ ہے کہ جب ہم اپنے آپ کو نبی کریم ﷺ کے امتی کہتے ہیں تو اس نسبت کا تقاضا کیا ہے؟ کیا صرف زبانی محبت کے دعوے، اور آپ کی ولادت مبارکہ پہ نعرے ،جلسے جلوس اور بازاروں گھروں کو سجانا اس محبت کا اظہار ہے ؟ بالکل نہیں!
کیونکہ ایسا تو نہ کسی صحابی رسول نے کیا ہے نہ اسلام کی صدیوں تک صلحاء اور اسلاف نے ان کاموں کے ذریعے اللّٰہ العظیم اور جناب محمدﷺ کے ساتھ محبت کا اظہار کیا اور نہ ہی اللّٰہ العظیم نے امت کو اس طرح جشن عیدمیلاد النبی منانے کا حکم دیا ، بلکہ فرمایا کہ اللّٰہ اور اس کے رسول کے ساتھ محبت ایک ہی چیز ہے اور سچی محبت صرف اور صرف اطاعت اور اتباع میں پوشیدہ ہے کہ جیسے رسول اللّٰہﷺ نے توحید کے غلبے اور اعلائے کلمۃ اللہ کی محنت کرتے ہوئے مشکل ترین دعوت و جہاد والی زندگی گزاری ، اسی کی اطاعت کرتے ہوئے بالکل ویسے زندگی گزارنے کا حکم دیا گیا ، ارشاد ہے:

"قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ" (آل عمران: 31)
ترجمہ: آپ فرما دیجیے: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔

اس آیت نے ایک اصول طے کر دیا کہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے بغیر محبتِ رسول کا دعویٰ بے معنی ہے۔ لہٰذا ہمیں بطور اُمتی صرف درود و سلام پڑھنے یا جذباتی محبت کے نعروں پر اکتفا نہیں ہو سکتا بلکہ ہمیں بھی آپ ﷺ کے مشن کو اسی طرح اپنی زندگی کا مقصد بنانا ہوگا جیسے اس امت کے سب سے پہلے افراد حضرات صحابہ اکرام نے بنایا ۔

جناب رسول اللہ ﷺ کا مشن یہ تھا کہ جو زمہ داری اللّٰہ العظیم نے اپنے محبوب کی لگائی تھی کہ اسلام کو غالب کر کے اللہ کے دین کا نظام زمین پر قائم کیا جائے اسے مکمل کیا جائے ۔ جو آپ نے اپنی زندگی میں مکمل کر کے دکھایا اور اپ کے قیامت تک آپ کی امت کو اس فریضہ کا ذمہ دار بنایا ۔
آج جبکہ دنیا میں کفر و شرک ، ظلم و استحصال پہ مبنی طاغوتی نظام غالب ہیں۔ پس مسلمانوں کی حقیقی ذمہ داری ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے مشن کو آگے بڑھائیں، یعنی اسلام کی تعلیمات کو اپنی ذاتی زندگی، اپنے معاشرے اور عالمی سطح پر نافذ کرنے کے لیے اپنی جان ، اپنا مال ، اپنی صلاحیتیں اور اپنا سب کچھ لگا دیں۔

اگر ہم واقعی اپنے آقا ﷺ سے محبت کا اظہار چاہتے ہیں تو ہمیں ان کے مقصدِ بعثت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنانا ہوگا۔

آخر میں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت کا حقیقی تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی خواہشات کو قربان کر کے آپ ﷺ کے لائے ہوئے دین کے غلبے کے لیے کوشش کریں۔ یہی آپ ﷺ کی اطاعت ہے، یہی محبت ہے، اور یہی ہمارے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی کا ذریعہ ہے۔

ڈاکٹر حافظ اسامہ اکرم

05/09/2025

جناب ​رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ، ایک ایسی داستان ہے جو صرف فتوحات کی نہیں، بلکہ ناقابلِ برداشت دکھوں، غموں اور قربانیوں کی بھی داستان ہے۔ یہ وہ سفر ہے جو دعوت و جہاد کے رستے پہ چلنے والے ہر دور کے نبی اور قیامت تک آنے والے اس امت کے فرد کو درپیش ہے ، جہاں ہر قدم پر کانٹے بچھائے جاتے رہے، ہر موڑ پر خون بہایا گیا اور ہر سانس کے ساتھ ایک نیا غم دل میں اترتا گیا۔
​جب جناب محمدﷺ نے دعوتِ دین کا آغاز کیا، تو مکہ کے سردار آپ کے دشمن بن گئے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات کا مذاق اڑایا جاتا، اور لوگ آپ پر پتھر پھینکتے۔ کیا ہم اس تکلیف کا تصور کر سکتے ہیں جب کوئی شخص اپنے ہی لوگوں کی اذیتوں کا شکار ہو؟ راستے میں کانٹے بچھائے جاتے، اور آپ کے قریبی رشتہ دار آپ کو اذیت دینے میں سب سے آگے تھے۔ ان سب سے بڑھ کر وہ لمحہ جب آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سجدے کی حالت میں تھے اور ایک ظالم نے اونٹ کی گندی اوجھڑی آپ کی کمر پر رکھ دی، اور آپ کا سجدہ لمبا ہو گیا۔ آپ اٹھ نہیں سکے اور آپ کے جگر گوشے حضرت فاطمہؓ نے آ کر اسے ہٹایا۔
​طائف کا سفر ایک ایسا زخم ہے جو کبھی نہیں بھر سکتا۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم رحمت کی بارش بن کر گئے، مگر پتھروں کی بارش سے استقبال ہوا۔ طائف کے سنگدلوں نے آپ کے پیچھے اوباشوں کو لگا دیا، جنہوں نے آپ پر پتھروں کی ایسی بارش کی کہ آپ کا جسم لہولہان ہو گیا، اور آپ کے جوتوں سے خون بہہ کر زمین پر ٹپکنے لگا۔ آپ نے درد سے نڈھال ہو کر ایک باغ میں پناہ لی، مگر اس بے بسی کی حالت میں بھی زبان پر کوئی شکوہ نہیں تھا کہ دعوت توحید اور غلبہ اسلام کا رستہ ایسا ہی مشکل ترین ہے۔
​جب دعوت کو منظم کرنے کے لیے ہجرت کا وقت آیا جو کہ ہر نبی کو کرنا پڑی ، اور آج بھی ہر داری کو کرنا پڑتی ہے تاکہ وطن کی محبت دلوں میں بے نہ بن جائے ، اور مٹی کے بندے نہیں بلکہ اللّٰہ کے بندے بن کر رہیں ۔
تو جب آپ کا مکہ چھوڑنے کا وقت آیا تو آپ کا دل غم سے بھر گیا۔ اپنا محبوب وطن چھوڑ کر جانا کتنا مشکل ہوتا ہے، اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب آپ غارِ ثور میں تھے۔ دشمن آپ کے سر پر تھے۔ آپؐ کا غم صرف اپنی ذات کے لیے نہیں تھا، بلکہ اپنے ساتھی حضرت ابوبکرؓ کے لیے بھی تھا۔ پھر قرآن نے نقشہ کھینچا کہ آپ نے فرمایا: "غم نہ کرو، اللّٰہ ہمارے ساتھ ہے۔"

لیکن ہر دور میں کفر دعوت کو کب پنپنے کا موقع دیتا ہے لہٰذا ​مدینہ میں بھی سکون سے نہیں رہنے دیا گیا ، پھر ہر طرف تلواروں کی چھنکار سنائی دی۔ اللّٰہ کے دین کے لئے اپنے غیر اور غیر اپنے بنانے پڑے، غزوۂ بدر میں اپنے ہی رشتہ داروں سے جنگ کرنی پڑی۔ ان مناظر کا تصور کریں جہاں آپؐ کے سامنے آپ کے چچا اور رشتہ دار جنگ کے لیے کھڑے تھے۔ غزوۂ احد میں آپ کی قربانی کی انتہا ہو گئی۔ آپ کے دندانِ مبارک شہید ہو گئے، آپ کا چہرہ لہولہان ہو گیا، اور خون بہہ کر آنکھوں کو دھندلا رہا تھا۔ رخسار مبارک میں ڈھال دھنس کر پھس گئی ، خون اتنا بہتا تھا کہ رہتا نہیں تھا ، آپ اس حالت میں بھی فرماتے رہے: "یا اللّٰہ! میری قوم کو معاف کر دے، کیونکہ وہ نہیں جانتے۔"
​غزوۂ خندق میں مسلمانوں پر بھوک اور سردی کا سخت حملہ تھا۔ آپؐ نے اپنے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے تھے تاکہ بھوک کی شدت کم ہو سکے۔ صحابہ نے آپ کے پاس آ کر اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹا کر دکھایا کہ دو دو پتھر باندھے ہوئے ہیں، مگر آپؐ نے اپنا کپڑا ہٹایا تو ان کے پیٹ پر تین پتھر بندھے ہوئے تھے۔
غزوہ تبوک کی تو پھر بات ہی نہ کیجئے جب سینکڑوں میل کا جہادی سفر سخت گرمی میں پیدل کیا اور اس وقت کی سپر پاور روم کو شکست دی۔
اس سے بڑھ کر امت کے لئے اور کیا اسوہ حسنہ ہو سکتا ہے کہ دعوت و جہاد کے رستے میں ، خدا کی زمین پہ خدا کا نظام نافذ کرنے کے لیے کیسی قربانیاں دینی ہیں ۔
​ان تمام تکالیف کا مقصد صرف یہی تھا کہ انسانوں کو جہنم کی آگ سے بچا کر جنت کی راہ پر لایا جائے۔ آپ نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ، ہر سانس، اور ہر آنسو لوگوں کی نجات کے لیے وقف کر دیا۔
پس اب ہماری زندگی کا صرف ایک ہی مقصد ہونا چاہیے کہ اپنے نبی کے طریقہ ، سنت اور منہج پہ چلتے ہوئے دعوت و جہاد کے رستے پر قربانیوں کی ان مثالوں کو دوبارہ سے زندہ کر کے دنیا میں اسلام کو دوبارہ غالب کرنے کی کوششوں میں جان جان آفریں کے سپرد کر کے رب رحمان کے عرش کے سائے میں جناب رسول اللّٰہﷺ کے قدموں میں جا بیٹھیں ۔ ہم نہ اس سے کم پہ راضی ہیں نہ اس سے زیادہ کچھ مانگتے ہیں ۔ بس اپنا جینا اور مرنا رب کہ بندگی اور جناب رسول اللّٰہﷺ کی اطاعت ہی سارا کچھ ہے۔
پس دعا ہے کہ اپنے ہاتھوں امت کی بو کی ضامن نوجوان نسل کی ایک منظم ترین تحریک کھڑی کر جائیں جو اس ملک کو بھی لاالہ الااللہ محمد رسول اللّٰہﷺ کے تابع کر دے اور دنیا میں کفر کی طاقت توڑ کر خلافت و امارت کے احیاء کی بنیاد بنے ، پس جب تک زندہ رہیں ایمان و اسلام پہ زندہ رہیں اور موت آئے تو میدان مقبول شہادت کی موت ملے ۔
آمین یارب العالمین

ڈاکٹر حافظ اسامہ اکرم

Address

Faisalabad
38000

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when The Destination posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Category