06/09/2025
مدینہ میں ساڈھے چودہ سو سال پہلے آج کا منظر
مدینہ کی فضاؤں میں ایک عجیب سا سناٹا ہے۔ وہی مدینہ، جس کی گلیوں میں کل تک رسول اللہ ﷺ کی مسکراہٹ بکھری رہتی تھی، آج آہوں اور سسکیوں سے گونج رہا ہے۔ گھروں کے دروازے بند ہیں مگر اندر ہچکیاں بندھ رہی ہیں۔ بچے اپنی ماؤں سے لپٹ کر بلک رہے ہیں، مائیں دوپٹے منہ میں لئے ہوئے غم کے مارے دانت پسیج رہی ہیں، بزرگ زمین پر گر گر کر سسک رہے ہیں۔
مسجد نبوی میں ہجوم ہے۔ صحابہ کرام کے چہرے زرد ہیں، آنکھیں نم ہیں، دل کانپ رہے ہیں۔ سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں مگر کسی کی ہمت نہیں پڑ رہی کہ زبان سے لفظ نکال سکے۔
اچانک سیدنا عمرؓ آگے بڑھتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو ہیں مگر جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ تلوار کھینچ کر بلند آواز میں کہتے ہیں:
"جو یہ کہے گا کہ رسول اللہ ﷺ دنیا سے گئے ہیں، میں اس کی گردن مار دوں گا۔ تمہارے آقا واپس آئیں گے، جیسے موسیٰ علیہ السلام آئے تھے!"
مدینہ کی فضا میں ان کی آواز گونج رہی ہے، مگر یہ آواز ان کے ٹوٹے ہوئے دل کی بے بسی ہے۔
اسی لمحے سیدنا عثمانؓ ایک کونے میں بیٹھے ہیں۔ غم کی شدت سے ان کی زبان بند ہو گئی ہے، چہرہ اس قدر بدل چکا ہے کہ پہچاننا مشکل ہے۔
ادھر سیدنا علیؓ آقا ﷺ کے قریب بیٹھے ہیں۔ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں، ہاتھوں سے رسول اللہ ﷺ کے جسمِ مبارک کو چھو چھو کر دیکھ رہے ہیں۔ دل کہہ رہا ہے کہ یہ خواب ہے، ابھی آپ آنکھ کھول دیں گے۔
پھر ابو بکر صدیقؓ تشریف لاتے ہیں۔ وہ آہستگی سے حجرہ مبارک میں داخل ہوتے ہیں، چہرے سے کپڑا ہٹاتے ہیں، پیشانی کو بوسہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں:
"میرے ماں باپ آپ پر قربان، اللہ آپ پر کبھی دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔ آپ اپنے رب کے پاس جا چکے ہیں۔"
یہ الفاظ کہتے ہی وہ مسجد نبوی میں جاتے ہیں۔ ہجوم میں کھڑے ہو کر بلند آواز سے کہتے ہیں:
"لوگو! جو محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا، جان لے کہ محمد ﷺ دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ اور جو اللہ کی عبادت کرتا ہے، جان لے کہ اللہ زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا۔"
پھر وہ قرآن کی وہ آیت پڑھتے ہیں ، اور صحابہ اکرام کو توحید کا وہی سبق یاد کرواتے ہیں جو رسول اللّٰہﷺ دے کر گئے تھے کہ ہر طرح کی عبادت اور خشیت صرف اللّٰہ رب العالمین کا حق ہے ، اور اطاعت رسول اللّٰہﷺ کا حق ہے ، اور یہ کہ رسول اللّٰہﷺ زندہ رہیں یا نہ رہیں رب کی بندگی اور آپ کے مشن سے زرا برابر غفلت نہیں برتنی ، لہذا جو صحابہ غم کی شدت میں رسول اللّٰہﷺ کی وفات کا انکار کرنے لگے تھے ان کی دو ٹوک اصلاح فرمائی اور یہ آیات تلاوت فرمائیں جس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا:
"وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ" (آل عمران 144)
ترجمہ: "محمد ﷺ تو ایک رسول ہیں، ان سے پہلے بھی کئی رسول گزر چکے ہیں۔ کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاؤ گے؟"
یہ الفاظ سن کر سب پر حقیقت واضح ہو گئی۔ صحابہ کے جسم کانپنے لگے، کئی مارے غم کے زمین پر گر پڑے، اور مدینہ پھر ایک بار آہوں اور سسکیوں میں ڈوب گیا۔
سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں:
"جس دن رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے، ہم نے مدینہ میں اتنا اندھیرا کبھی نہیں دیکھا۔ یوں لگتا تھا جیسے سورج بھی ڈھل گیا ہو۔"
یہ تھا وہ بارہ ربیع الاول کا ہمارے پیارے نبی کریم جنابِ محمد رسول اللّٰہﷺ کی وفات کا اندوہناک دن۔۔۔۔ جسے صحابہ کرامؓ نے غم و اندوہ کے ساتھ گزارا۔ اور آج کے مسلمان اسی دن کو ناچ گانے ، میلوں اور جشن کے طور پر منا رہے ہیں ، حالانکہ بارہ ربیع الاول کی تاریخ وفات پہ ساری امت اور تمام مورخین متفق ہیں، جبکہ آپ کی تاریخ پیدائش کی درجنوں روایات ہیں حتیٰ کہ مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللّٰہ بھی بارہ ربیع الاول کو رسول اللّٰہﷺ کی تاریخ پیدائش نہیں مانتے، تو آج کے دن جب صحابہ پہ غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے جبکہ ہم بے شرمی کے ساتھ جشن منا رہے ، اور اس پہ مزید یہ کہ اس ناچ گانے والی گستاخی کو محبت رسول کا پیمانہ بنائے ہوئے، حالانکہ حقیقی محبت یہ ہے کہ ہم آج کے دن اپنے نبی جنابِ محمد رسول اللّٰہﷺ کی جدائی میں آنکھوں میں آنسو لے کر رسول اللہ ﷺ کے مشن کو زندہ رکھنے کا پختہ عہد کریں، اپنی نمازیں ، عبادتیں ، معاملات ، تعلقات ، لین دین ، خوشی غمی سمیت تمام تر عقائد و نظریات کو رسول اللّٰہﷺ کے تابع کریں ، جو کہ اپنے نبی سے حقیقی محبت کا مظہر ہے ، نہ کہ آج کے دن جنابِ محمد رسول اللّٰہﷺ کی زبردست مخالفت کرتے ہوئے بے پردہ بے حیا لڑکیوں اور بے شرم لفنگے لڑکوں کے غول در غول بازاروں میں نکلیں ، ایک دوسرے میں گھسیں ، ڈی جے بجائیں ، سڑکوں بازاروں میں ہلا گلا ناچ گانا ، دن رات کی فرض نمازیں چھوڑ کر کہ جن کے بغیر مسلمان کافر ہو جاتا ، بازار اور گلیاں سجانے میں مگن ، ہر طرف اسراف اور فضول خرچی سمیت دین کے نام پر لاتعداد بدعات کے اضافے سمیت اتنے بڑے بڑے گناہ کے کام جو عام دنوں میں بھی ہمارے نبی کریم جنابِ محمد رسول اللّٰہﷺ نے سختی سے منع فرمائے ،لیکن ہماری بدبختی دیکھیں کے وہ سب کچھ آپ کی ولادت کے نام پر کیا جارہا ، جبکہ یہ وفات کا دن ہے ۔
ذرا تصور تو کیجئے کہ اگر آج ہمارے درمیان رسول اللّٰہﷺ ہوتے تو کیا ہم میں سے کوئی اس ناچ گانے ، بھنگڑے ، لڑکیوں لڑکوں کا کھلا اختلاط ، بازاروں میں شدید رش ، پہاڑیوں ، ڈی جے ، بیک گراؤنڈ میوزک اور ہائی بیس والی نعتوں کے نام پر شرکیہ شاعری سمیت درجنوں گناہ کے کام کر سکتے تھے ، یہ سب سوچ کر ہی جان نکلی جاتی ہے ۔
ذرا تصور تو کیجئے ۔۔۔۔۔ وللہ میری تو مارے ادب کے جنابِ رسول اللّٰہﷺ کے سامنے آنکھیں ہی نہ اٹھنے پائیں ، اور آج ڈی جے پہ میرے نبی کریم جنابِ محمد رسول اللّٰہﷺ کو برسرِ بازار آوازیں ماری جائیں سوہنیا آ جا آ جا مکھڑا وکھا جا۔۔۔۔۔ اور ان بے عقل بے وقوفوں کو سمجھانے والا بھی کوئی نہیں ، اور جو سمجھائے اس پہ گستاخ کے فتوے لاحول ولا قوہ الا باللہ
ایک طرف آج کلمہ پڑھنے والوں کا اپنے رسول کو لے کر یہ کردار کہ وہ جشن منانے والے بن گئے جبکہ دوسری طرف جنابِ رسول اللّٰہﷺ کے تربیت یافتہ اصحاب جو اپنے نبی کا جشن منانے والے نہیں بلکہ مشن اپنانے تھے ، اور رسول اللّٰہﷺ کا مشن یہ تھا کہ ہر مرد و عورت ، بوڑھے اور جوان کو بندوں کی بندگی سے نکال کر بندوں کے رب کی بندگی پہ لگا دیا جائے کہ وہ اپنے دل میں رب العالمین کی توحید ، اس کی خشیت ، محبت ، عظمت ،جلال، کبریائی ، بڑائی پیدا کریں ، اور اپنی زندگی اور موت کو رب کی بندگی کے تابع کر دیں ، اور رب کی زمین پہ رب کے نظام کے نفاذ کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ لگا دیں۔ لہذا آج کا دن اس وعدے کا دن ہے کہ اے اللہ کے رسول آپ کے دنیا سے رخصت ہو جانے پہ دل غمگین ہے، کلیجہ پھٹ رہا ہے ، آنکھوں میں آنسو ہے، لیکن روح اس جذبے سے سر شار ہے کہ ہم آپ کے مشن کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح مکمل کریں گے اور اس دُنیا میں کفر و شرک و طاغوت کے نظام کو ختم کر کے لاالہ الااللہ محمد رسول اللّٰہﷺ کا نظام دوبارہ قائم کریں گے ، ہم رہیں یا نہ رہیں ، ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں لیکن ہمارا وعدہ ہے کہ اے اللہ کے رسول ہم آپ کے مقصد کو پورا کرنے کی کوشش میں دعوت و جہاد کے نبوی منہج پر جان دے دیں گے ۔ ان شاءاللہ
اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن اپنے پیارے نبی کریم جنابِ محمد رسول اللّٰہﷺ کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچا کر ان کی شفاعت اور آپ کے مبارک ہاتھوں سے حوض کوثر عطاء فرما کر ہماری کوششوں سے خوش ہو کر اپنے عرش کریم کا سایہ عطاء فرما دے ۔ آمین یارب العالمین
ڈاکٹر حافظ اسامہ اکرم