Minha Fatima Stories

Minha Fatima Stories "Welcome to Minha Fatima Stories! 🌟 Heart-touching tales, cute moments & inspiring stories that make you smile.

Follow for daily doses of love & positivity!"


---

12/09/2025

بےبسی اور بےحسی کی انتہا،!
میں ایک گھر کے قریب سے گزر رہا تھا کہ اچانک مجھے گھر کے اندر سے ایک دس سالہ بچے کے رونے کی آواز آئی۔ آواز میں اتنا درد تھا کہ مجھے مجبوراً گھر میں داخل ہو کر معلوم کرنا پڑا کہ یہ دس سالہ بچا کیوں رو رہا ہے۔ اندر داخل ہو کر میں نے دیکھا کہ ماں اپنے بیٹے کو آہستہ سے مارتی اور بچے کے ساتھ خود بھی رونے لگتی۔ میں نے آگے ہو کر پوچھا بہن کیوں بچے کو مار رہی ہو جبکہ خود بھی روتی ہو۔۔۔
اس نے جواب دیا کہ بھائی آپ کو تو معلوم ہے کہ اس کے والد اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں اور ہم بہت غریب بھی ہیں۔ میں لوگوں کے گھروں میں مزدوری کرتی ہوں اور اس کی پڑھائی کا مشکل سے خرچ اٹھاتی ہوں۔ یہ کم بخت سکول روزانہ دیر سے جاتا ہے اور روزانہ گھر دیر سے آتا ہے۔ جاتے ہوئے راستے میں کہیں کھیل کود میں لگ جاتا ہے اور پڑھائی کی طرف ذرا بھی توجہ نہی دیتا۔ جس کی وجہ سے روزانہ اپنی سکول کی وردی گندی کر لیتا ہے۔ میں نے بچے اور اس کی ماں کو تھوڑا سمجھایا اور چل دیا۔۔۔
ایک دن صبح صبح سبزی منڈی کچھ سبزی وغیرہ لینے گیا تو اچانک میری نظر اسی دس سالہ بچے پر پڑی جو روزانہ گھر سے مار کھاتا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بچہ منڈی میں پھر رہا ہے اور جو دوکہیں۔۔۔تاج اپنی دوکانوں کے لیے سبزی خرید کر اپنی بوریوں میں ڈالتے تو ان سے کوئی سبزی زمین پر گر جاتی اور وہ بچہ اسے فوراً اٹھا کر اپنی جھولی میں ڈال لیتا۔ میں یہ ماجرہ دیکھ کر پریشانی میں مبتلا ہو رہا تھا کہ چکر کیا ہے۔ میں اس بچے کو چوری چوری فالو کرنے لگا۔جب اس کی جھولی سبزی سے بھر گئی تو وہ سڑک کے کنارے بیٹھ کر اونچی اونچی آوازیں لگا کر اسے بیچنے لگا۔ منہ پر مٹی گندی وردی اور آنکھوں میں نمی کے ساتھ ایسا دونکاندار زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔۔۔
دیکھتے دیکھتے اچانک ایک آدمی اپنی دوکان سے اٹھا جس کی دوکان کے سامنے اس بچے نے ننھی سی دکان لگائی تھی۔ اس شخص نے آتے ہی ایک زور دار پاؤں مار کر اس ننھی سی دکان کو ایک ہی جھٹکے میں ساری سڑک پر پھیلا دیا اور بازو سے پکڑ کر اس بچے کو بھی اٹھا کر دھکا دے دیا۔ ننھا دکاندار آنکھوں میں آنسو لیے دوبارہ اپنی سبزی کو اکٹھا کرنے لگا اور تھوڑی دیر بعد اپنی سبزی کسی دوسری دکان کے سامنے ڈرتے ڈرتے لگا لی۔بھلا ہو اس شخص کا جس کی دکان کے سامنے اب اس نے اپنی ننھی دکان لگائی اس شخص نے اس بچے کو کچھ نہی کہا۔ تھوڑی سی سبزی تھی جلد ہی فروخت ہو گئی۔اور وہ بچہ اٹھا اور بازار میں ایک کپڑے والی دکان میں داخل ہوا اور دکان دار کو وہ پیسے دیکر دکان میں پڑا اپنا سکول بیگ اٹھایا اور بنا کچھ کہے سکول کی جانب چل دیا۔ میں بھی اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ جب وہ بچہ سکول گیا تو ایک گھنٹا دیر ہو چکی تھی۔ جس پر اس کے استاد نے ڈنڈے سے اسے خوب مارا۔ میں نے جلدی سے جا کر استاد کو منع کیا کہ یتیم بچہ ہے اسے مت مارو۔ استاد فرمانے لگے کہ سر یہ روزانہ ایک گھنٹا دیر سے آتا ہے میں روزانہ اسے سزا دیتا ہوں کہ ڈر سے سکول ٹائم پر آئے اور کئی بار میں اس کے گھر بھی پیغام دے چکا ہوں۔ بچہ مار کھانے کے بعد کلاس میں بیٹھ کر پڑھنے لگا۔ میں نے اس کے استاد کا موبائل نمبر لیا اور گھر کی طرف چل دیا۔ گھر جاکر معلوم ہوا کہ میں جو سبزی لینے گیا تھا وہ تو بھول ہی گیا ہوں۔
حسب معمول بچے نے سکول سے گھر آکر ماں سے ایک بار پھر مار کھائی ھو گی۔ ساری رات میرا سر چکراتا رہا۔ اگلے دن صبح کی نماز ادا کی اور فوراً بچے کے استاد کو کال کی کہ منڈی ٹائم ہر حالت میں منڈی پہنچے۔ جس پر مجھے مثبت جواب ملا۔ سورج نکلا اور بچے کا سکول جانے کا وقت ہوا اور بچہ گھر سے سیدھا منڈی اپنی ننھی دکان کا بندوبست کرنے نکلا۔ میں نے اس کے گھر جا کر اس کی والدہ کو کہا کہ بہن میرے ساتھ چلو میں تمہیں بتاتا ہوں آپ کا بیٹا سکول کیوں دیر سے جاتا ہے۔ وہ فوراً میرے ساتھ منہ میں یہ کہتے ہوئے چل پڑی کہ" آج اس لڑکے کی میرے ہاتھوں خیر نہیں۔چھوڑوں گی نہیں اسے آج۔"
منڈی میں لڑکے کا استاد بھی آچکا تھا۔ ہم تینوں نے منڈی کی تین مختلف جگہوں پر پوزیشنیں سنبھال لیں اور ننھی دکان والے کو چھپ کر دیکھنے لگے۔ حسب معمول آج بھی اسے کافی لوگوں سے جھڑکیں لینی پڑیں اور آخر کار وہ لڑکا اپنی سبزی فروخت کر کے کپڑے والی دکان کی طرف چل دیا۔۔۔
اچانک میری نظر اس کی ماں پر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کہ بہت ہی درد بھری سسکیاں لے کر زاروقطار رو رہی تھی اور میں نے فوراً اس کے استاد کی طرف دیکھا تو بہت شدت سے اس کے آنسو بہہ رہے تھے۔دونوں کے رونے میں مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے انہوں نے کسی مظلوم پر بہت ظلم کیا ہو اور آج ان کو اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہو۔
اس کی ماں روتے روتے گھر چلی گئی اور استاد بھی سسکیاں لیتے ہوئے سکول چلا گیا۔ حسب معمول بچے نے دکان دار کو پیسے دیے اور آج اس کو دکان دار نے ایک لیڈی سوٹ دیتے ہوئے کہا کہ بیٹا آج سوٹ کے سارے پیسے پورے ہوگئے ہیں۔ اپنا سوٹ لے لو۔ بچے نے اس سوٹ کو پکڑ کر سکول بیگ میں رکھا اور سکول چلا گیا۔ آج بھی ایک گھنٹا لیٹ تھا وہ سیدھا استاد کے پاس گیا اور بیگ ڈیسک پر رکھ کر مار کھانے کے لیے پوزیشن سنبھال لی اور ہاتھ آگئے بڑھا دیے کہ استاد ڈنڈے سے اس کو مار لے۔استاد کرسی سے اٹھا اور فوراً بچے کو گلے لگا کر اس قدر زور سے رویا کہ میں بھی دیکھ کر اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکا۔ میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور آگے بڑھ کر استاد کو چپ کرایا اور بچے سے پوچھا کہ یہ جو بیگ میں سوٹ ہے وہ کس کے لیے ہے۔ بچے نے جواب دیا کہ میری ماں امیر لوگوں کے گھروں میں مزدوری کرنے جاتی ہے اور اس کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس کے پاس جسم کو مکمل ڈھانپنے والا کوئ سوٹ نہی ہے اس لیے میں نے اپنی ماں کے لیے یہ سوٹ خریدا ہے۔ یہ سوٹ اب گھر لے جا کر ماں کو دو گے؟؟؟
میں نے بچے سے سوال پوچھا ۔۔۔
جواب نے میرے اور اس کے استاد کے پیروں کے نیچے سی زمین ہی نکال دی۔۔۔۔
بچے نے جواب دیا،" نہیں انکل جی چھٹی کے بعد میں اسے درزی کو سلائی کے لیے دے دوں گا اور روزانہ تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کر کے سلائی دوں گا جب سلائی کے پیسے پورے ہوجائیں گئے تب میں اسے اپنی ماں کو دوں گا۔۔۔"
استاد اور میں یہ سوچ کر روتے جا رہے تھے کہ ابھی اس معصوم کو اور منڈی جانا پڑے گا، اور لوگوں سے دھکے کھانے پڑیں گے اور ننھی دکان لگانی پڑے گی۔۔۔
آخر کب تک غریبوں کے بچے ننھی دکانیں لگاتے رہیں گے۔آخر کب تک۔۔!!
کب تک ہم اپنے جیسے ہی انسانوں کو ان کے جائز حقوق کے بھی غاصب بنے رہیں گے اور ان کے حقوق کی تباہی لاتے رہیں گے ۔۔۔!!
پتہ نہیں ہم کیسے مسلمان ہیں۔😴

اے خدا تیری خدائی میں نہ جانے
مجھے کتنے خداؤں سے واسطہ پڑا۔

02/09/2025

تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے کے دل میں ایک شخص رہتا تھا جس کا نام طالبشاہ شیخوف تھا۔یہ کئی دہائیاں پرانی بات ہے۔ پہاڑوں...
26/08/2025

تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے کے دل میں ایک شخص رہتا تھا جس کا نام طالبشاہ شیخوف تھا۔

یہ کئی دہائیاں پرانی بات ہے۔ پہاڑوں میں شکاریوں نے ایک مادہ ریچھ کو مار ڈالا۔ اس کا بچہ اتنا چھوٹا تھا کہ اکیلا زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ شیخوف نے ایک بکری کے بدلے اس ننھی ریچھنی کی جان بچائی، اُسے گھر لے آیا، اور اسے اپنے 13 بچوں کی طرح پالا۔ اس کا نام رکھا ماریا۔

ماریا نے فیڈر سے دودھ پیا، بچوں کے ساتھ سوئی، اور شیخوف کے پیچھے پیچھے چلتی رہی۔ جب پہاڑوں میں خوراک کم ہو گئی، تو شیخوف اُسے اپنے ساتھ دوشنبے لے آیا پھر اگلے 20 سال تک شہر کے لوگ ایک حیرت انگیز منظر دیکھتے رہے:
روایتی تاجک لباس میں ایک بوڑھا شخص — اور اس کے ساتھ، یا کبھی اُس کے نیچے، ایک مکمل جوان ریچھنی۔

ماریا کرتب دکھاتی، گلیوں میں گھومتی، بسوں پر سفر کرتی، اور کبھی شیخوف کو اپنی پیٹھ پر بٹھا کر لے جاتی۔ بچوں کے لیے وہ ایک جادوئی مخلوق تھی، بڑوں کے لیے ایک زندہ افسانہ۔ وقت کے ساتھ وہ دونوں شہر کی پہچان بن گئے — اور اتنے محبوب کہ شہر کے لوگوں نے ان کے لیے ایک مجسمہ بنانے کا مطالبہ کیا۔

مگر ہر کہانی کا ایک انجام ہوتا ہے۔

2013 میں، تقریباً 80 برس کی عمر میں، شیخوف کا انتقال ہو گیا۔ صرف دو ماہ بعد، ماریا بھی چل بسی — جیسے وہ اُس کے بغیر جینے کے قابل نہ ہو۔

یہ کہانی صرف ایک ریچھ اور انسان کی نہیں، بلکہ محبت، وفاداری، اور قربت کی ایک ایسی مثال ہے جو دلوں کو چھو جاتی ہے۔ 

25/08/2025

ایک بازار سے ایک مغرور شخص گزر رہا تھا کہ اس کی نظر ایک عورت پر پڑی جس نے سر پر گھی کا ڈول اٹھا رکھا تھا۔ اس شخص نے عورت کو آواز دی اور نخوت سے پوچھا: "اے مائی، کیا بیچ رہی ہو؟"

عورت نے جواب دیا: "جی، میں گھی بیچ رہی ہوں۔"

اس شخص نے کہا: "اچھا دکھاؤ تو، کیسا ہے؟"

جب عورت نے گھی کا وزنی ڈول سر سے اتارا تو کچھ گھی اس شخص کی قمیض پر گر گیا۔ یہ دیکھ کر وہ شخص بہت بگڑ گیا اور غصے سے دھاڑتے ہوئے بولا: "نظر نہیں آتا کیا؟ میری قیمتی قمیض خراب کر دی ہے تو نے! میں جب تک تجھ سے اس قمیض کے پیسے لے لوں، تجھے یہاں سے ہلنے بھی نہیں دوں گا۔"

عورت نے بیچارگی سے کہا: "میں مسکین عورت ہوں، اور میں نے آپ کی قمیض پر گھی جان بوجھ کر نہیں گرایا، مجھ پر رحم کرو اور مجھے جانے دو۔"

اس شخص نے اصرار کرتے ہوئے کہا: "جب تک تم سے قیمت وصول نہ کر لوں، میں تمہیں یہاں سے ہلنے نہیں دوں گا۔"

عورت نے پوچھا: "کتنی قیمت ہے آپ کی قمیض کی؟"

اس شخص نے جواب دیا: "ایک ہزار درہم۔"

عورت نے روتے ہوئے کہا: "میں فقیر عورت ہوں، میرے پاس ایک ہزار درہم کہاں سے آئیں گے؟"

مغرور شخص نے بے رحمی سے کہا: "مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔"

عورت نے التجا کرتے ہوئے کہا: "مجھ پر رحم کرو اور مجھے یوں رسوا نہ کرو۔"

ابھی وہ شخص عورت پر اپنی دھونس اور دھمکیاں چلا ہی رہا تھا کہ وہاں سے ایک نوجوان کا گزر ہوا۔ نوجوان نے عورت سے سارا ماجرا پوچھا تو عورت نے سارا قصہ کہہ سنایا۔

نوجوان نے اس شخص سے کہا: "جناب، میں آپ کو آپ کی قمیض کی قیمت دیتا ہوں۔" اس نے جیب سے ایک ہزار درہم نکال کر مغرور شخص کو دے دیے۔

یہ شخص ہزار درہم لے کر جانے لگا تو نوجوان نے کہا: "جاتے کہاں ہو؟"

اس شخص نے پوچھا: "تمہیں مجھ سے اور کیا چاہیے؟"

نوجوان نے کہا: "تم نے اپنی قمیض کے پیسے لے لیے ہیں، اب اپنی قمیض ہمیں دو اور جاؤ۔"

اس شخص نے حیرانی سے کہا: "قمیض کس لیے؟"

نوجوان نے جواب دیا: "ہم نے تمہیں قمیض کے پیسے دے دیے ہیں، اب اپنی قمیض ہمیں دے دو۔"

اس شخص نے گھبراتے ہوئے کہا: "تو کیا میں ننگا جاؤں؟"

نوجوان نے کہا: "ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔"

اس شخص نے کہا: "اور اگر میں قمیض نہ دوں تو؟"

نوجوان نے کہا: "پھر ہمیں اس کی قیمت دے دو۔"

اس شخص نے پوچھا: "کتنی قیمت؟"

نوجوان نے کہا: "دو ہزار درہم۔"

مغرور شخص نے کہا: "لیکن تم نے تو مجھے ایک ہزار درہم دیے تھے۔"

نوجوان نے جواب دیا: "اب تمہارا اس سے کوئی مطلب نہیں۔"

اس شخص نے کہا: "یہ بہت زیادہ قیمت ہے۔"

نوجوان نے کہا: "پھر ٹھیک ہے، ہماری قمیض اتار دو۔"

مغرور شخص نے روہانسا ہو کر کہا: "تم مجھے رسوا کرنا چاہتے ہو؟"

نوجوان نے کہا: "اور جب تم اس مسکین عورت کو رسوا کر رہے تھے تو؟"

اس شخص نے کہا: "یہ ظلم اور زیادتی ہے۔"

نوجوان نے حیرت سے کہا: "کمال ہے کہ تمہیں اب ظلم محسوس ہو رہا ہے!"

آخر کار، اس شخص نے مزید شرمندگی سے بچنے کے لیے جیب سے دو ہزار درہم نکال کر نوجوان کو دے دیے۔ نوجوان نے مجمعے میں اعلان کیا کہ یہ دو ہزار درہم اس عورت کے لیے میری طرف سے ہدیہ ہیں۔

ہمارے معاشرے میں اکثر لوگوں کا حال بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہمیں دوسروں کی تکلیف اور توہین سے کوئی مطلب نہیں ہوتا، لیکن جب بات خود پر آتی ہے تو ظلم محسوس ہوتا ہے۔ اگر ہم معاشرتی طور پر دوسروں کی تکلیف کو اپنا سمجھنا شروع کر دیں، تو ہم دنیا کی بہترین قوموں میں شمار ہو سکتے ہیں۔

23/08/2025

باپ تو اولاد کا سہارا ہوتا ہے.

گرمیوں کی آمد تھی۔ وہی پرانی چھٹیاں، وہی پرانا سفر۔
ہر سال کی طرح، والدین نے اپنے چھوٹے بیٹے کو ٹرین میں بٹھا کر نانی اماں کے پاس بھیجنے کا منصوبہ بنایا۔
لیکن اس بار کچھ مختلف ہوا۔
چھوٹے قد، بڑی آنکھوں اور خود اعتمادی سے بھرے لہجے میں بچے نے کہا:
"ابو… امی… اب میں بڑا ہو گیا ہوں۔ کیا اس سال میں اکیلا نانی کے پاس جا سکتا ہوں؟"

ماں کی آنکھ میں ایک جھجک سی لہرائی، اور باپ کے چہرے پر خاموشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔
لیکن پھر… باپ نے بیٹے کی آنکھوں میں جھانکا، اور ماں نے ایک دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلا دیا۔

اگلے دن وہ پلیٹ فارم پر پہنچے۔ والد نے اپنے مخصوص انداز میں ہدایات دینی شروع کیں:
"بیٹا… کسی اجنبی سے بات نہ کرنا، کھڑکی سے سر نہ نکالنا، پانی بوتل سے ہی پینا، اگر کچھ ہو جائے تو…"
لیکن بیٹا، جیسے اب کوئی پرانا سپاہی ہو، تھوڑا سا جھنجھلا کر بولا:
"ابو! یہ سب آپ پہلے ہی ہزار بار بتا چکے ہیں!"

ٹرین کی سیٹی بجی، گاڑی روانگی کے قریب تھی۔
اچانک باپ نے بیٹے کے قریب جھک کر سرگوشی کی…
"یہ لے لو… اگر تمہیں کبھی ڈر لگے… یا طبیعت خراب ہو جائے، تو یہ تمہارے لیے ہے۔"
اور کچھ آہستگی سے بیٹے کی جیب میں ایک کاغذ رکھ دیا

ٹرین چلی…
لڑکا پہلی بار والدین کے بغیر تھا۔
منظر تیزی سے بدل رہے تھے… باہر کھیت، پہاڑ، آسمان… اندر اجنبی چہرے، شور، آوازیں۔
وہ باہر دیکھتا، کبھی سیٹ سے اٹھتا، کبھی دروازے کی طرف جاتا۔
لیکن دل کے اندر ایک انجانی سی بے چینی گھیرتی چلی جارہی تھی۔

ٹی ٹی آیا، پوچھا:
"اکیلا ہو؟ کہاں جا رہے ہو؟"
پھر ایک عورت نے اس پر ہمدردانہ نگاہ ڈالی، جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو لیکن لفظوں میں نہ ڈھال سکی۔

پھر ایک لمحہ آیا… جب اس کا دل گھبرنے لگا اور خوف اس کے دل و دماغ پر حاوی ہونے لگا۔
اسے لگا جیسے ہوا رُک گئی ہو، سانسیں پھنس گئی ہوں، اور وہ سیٹ سے گر پڑا۔
آنکھوں میں آنسو تھے… تنہائی کا پہلا زخم تھا۔
تبھی اُسے وہ سرگوشی یاد آئی… وہ الفاظ جو ابو نے کہے تھے…
"اگر ڈر لگے، تو یہ تمہارے لیے ہے۔"

کانپتے ہاتھ سے اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا…
ایک چھوٹا سا کاغذ نکلا، اسے کھولا…
اس پر لکھا تھا:

"بیٹا، میں ٹرین کے آخری ڈبے میں ہوں۔"

بس…
اس ایک جملے نے، اس کی دنیا بدل دی۔
ڈرتی ہوئی روح، جیسے واپس اپنے جسم میں آ گئی۔
مسکراہٹ واپس لوٹ آئی۔ اعتماد پھر سے جاگا۔

یہی تو ہے زندگی…
ہم اپنے بچوں کو اُڑنے کے لیے پر دیتے ہیں،
انہیں خود مختاری کا سبق سکھاتے ہیں،
لیکن…
ہمیشہ، بہت چُپ چاپ، کسی "آخری ڈبے" میں بیٹھے رہتے ہیں —
تا کہ اگر کبھی وہ ڈر جائیں… تو جان لیں:
"ابو ابھی یہیں ہیں…"

20/08/2025

Hi everyone! 🌟 You can support me by sending Stars – they help me earn money to keep making content that you love.

Whenever you see the Stars icon, you can send me Stars.

.ڈاکٹر جی ...کوئی ایسی دوا دیں کہ اس مرتبہ بیٹا ہی ہو،دو بیٹیاں پہلے ھیں،اب تو بیٹا ہی ہونا چاھیئے۔ڈاکٹر: میڈیکل سائنس م...
20/08/2025

.ڈاکٹر جی ...
کوئی ایسی دوا دیں کہ اس مرتبہ بیٹا ہی ہو،
دو بیٹیاں پہلے ھیں،
اب تو بیٹا ہی ہونا چاھیئے۔

ڈاکٹر: میڈیکل سائنس میں ایسی کوئی دوائی نہیں ہے۔

ساس: پھر کسی اور ڈاکٹر کا بتا دیں؟

ڈاکٹر: آپ نے شاید بات غور سے نہیں سنی،
میں نے یہ نہیں کہا کہ مجھے دوائی کا نام نہیں آتا۔ میں نے یہ کہا کہ میڈیکل سائنس میں ایسی کوئی دوائی نہیں ہے۔

سسر: وہ فلاں لیڈی ڈاکٹر تو۔۔۔

ڈاکٹر: وہ جعلی ڈاکٹر ہوگا،
اس طرح کے دعوے جعلی پیر، فقیر، حکیم، وغیرہ کرتے ہیں، سب فراڈ ہے یہ۔۔

شوہر: مطلب ہماری نسل پھر نہیں چلے گی؟

ڈاکٹر : یہ نسل چلنا کیا ہوتا ہے؟ آپ کے جینز کا اگلی نسل میں ٹرانسفر ہونا ہی نسل چلنا ہے نا؟ تو یہ کام تو آپ کی بیٹیاں بھی کر دیں گی، بیٹا کیوں ضروری ہے؟
ویسے آپ بھی عام انسان ہیں۔ آپ کی نسل میں ایسی کیا بات ہے جو بیٹے کے ذریعے ہی لازمی چلنی چاھیئے؟

سسر: میں سمجھا نہیں؟

ڈاکٹر: ساھیوال کی گایوں کی ایک مخصوص نسل ہے جو دودھ زیادہ دیتی ہے۔ بالفرض اس نسل کی ایک گائے بچ جاتی ہے تو worried ہونا چاھیئے کہ اس سے آگے نسل نہ چلی،
تو زیادہ دودھ دینے والی گایوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ طوطوں کی ایک مخصوص قسم باتیں کرتی ہے۔ بالفرض اس نسل کی ایک طوطی بچ جاتی ہے تو فکر ہونی چاھیئے کہ اگر یہ بھی مر گئ کہ تو اس نسل کا خاتمہ ہو جائے گا۔
آپ لوگ عام انسان ہیں باقی چھ سات ارب کی طرح آخر آپ لوگوں میں ایسی کونسی خاص بات ہے؟

سسر: ڈاکٹرصاحب کوئی نام لینے والا بھی تو ہونا چاھیئے۔

ڈاکٹر : آپ کے پَر دادے کا کیا کیا نام ہے؟

سسر: وہ، میں، ہممممم، ہوں وہ۔۔۔۔

ڈاکٹر: مجھے پتہ ہے آپ کو نام نہیں آتا،
آپ کے پر دادا کو بھی یہ ٹینشن ہو گی کہ میرا نام کون لے گا؟ اور آج اُس کی اولاد کو اُس کا نام بھی پتہ نہیں۔

ویسے آپ کے مرنے کے بعد آپ کا نام کوئی لے یا نہ لے۔ آپ کو کیا فرق پڑے گا؟
آپ کا نام لینے سے قبر میں پڑی آپ کی ھڈیوں کو کونسا سرور آئے گا؟
علامہ اقبال کو گزرے کافی عرصہ ہوگیا،
آج بھی نصاب میں انکا ذکر پڑھایا جاتا ہے۔
گنگا رام کو مرے ہوئے کافی سال ہو گئے لیکن لوگ آج بھی گنگا رام ھسپتال کی وجہ سے گنگا رام کو نہیں بھولے۔
ایدھی صاحب مر گئے،
لیکن نام ابھی بھی زندہ ہے اور رہے گا۔
جنید جمشید و حاجی عبد الوھاب صاحب کو کون نہیں جانتا؟

کچھ ایسا کر جاو کہ لوگ تمہارا نام لیں بے شک تمہاری نسلیں تمہں بھول جائیں۔

غوروفکرکیجیے کائنات کی سب سے محبوب ترین ہستی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ پر اور اُن کی آلِ مبارک پر جن کو اللہ تبارک و تعالی نے بیٹے عطا فرما کر واپس لے لیے اور ایک بیٹی سے رہتی دنیا تک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل کو پوری دنیا ميں پھیلا دیا۔
بیٹے نعمت ہيں اور نعمتوں کا حساب لیا جائے گا۔
بیٹياں رحمت ہيں اور رحمتوں کا کوئی حساب نہيں ۔۔۔۔۔!!!
میری پوسٹ کسی کو بُری لگے تو معذرت چاہوں گا...
جزاك اللهُ‎

19/08/2025

Address

Faisalabad
38000

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Minha Fatima Stories posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Minha Fatima Stories:

Share