14/11/2025
کام یاب لوگوں کی منفرد عادت
(قاسم علی شاہ)
استاد نے کلاس میں بچوں سے ایک دل چسپ تجربہ کروایا۔ اس نے بچوں کے سامنے چار ٹوکرے رکھے۔ ایک ٹوکرا چھوٹی گیندوں سے بھرا تھا اور تین خالی تھے۔ استاد نے ایک بچے کو بلایا اور اسے کہا کہ بھرے ٹوکرے سے ایک ایک گیند نکال کر خالی ٹوکرے میں ڈالتے جاؤ مگر ایک وقت میں ایک گیند سے زیادہ نہیں اٹھانا۔ بچہ کام میں لگ گیا، کچھ دیر بعد استاد نے اسے روک کر پوچھا کہ تم نے کتنی گیندیں خالی ٹوکرے میں ڈالی ہیں؟ بچے نے گن کر بتایا، 25۔ اس کے بعد استاد نے دوسرے طالب علم کو بلایا اور اس سے کہا کہ تم نے دوسرے نمبرپر موجود خالی ٹوکرے میں گیندیں ڈالنی ہیں اور تمھارے پاس ایک منٹ ہے۔ وقت پورا ہونے پر دیکھا گیا تو طالب علم نے 35گیندیں منتقل کی تھیں۔اس کے بعد استاد نے تیسرے طالب علم کو بلایا اور اس سے کہا، تمھارے پاس بھی ایک منٹ ہے، تم نے 35 سے زیادہ گیندیں تیسرے نمبر پر موجود خالی ٹوکرے میں ڈالنی ہیں۔ جب تیسرے طالب علم کا وقت پورا ہوا اور دیکھا گیا تو اس نے 48 گیندیں منتقل کی تھیں۔ کلاس میں موجود تمام بچے حیران تھے۔ استاد مسکرایا اور بولا:”دیکھو بچو! تمھارے سامنے تین لڑکوں نے اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، پہلے بچے نے صرف 25 گیندیں ٹوکرے میں ڈالیں، اس کے سامنے ہدف نہیں تھا اور وہ وقت کا پابند بھی نہیں تھا۔ دوسرے طالب علم کے پاس ایک منٹ تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ میں وقت پورا ہونے سے پہلے زیادہ سے زیادہ گیندیں ٹوکرے میں ڈالوں، چنانچہ اس نے پہلے طالب علم سے دس گیندیں زیادہ منتقل کیں۔ جب کہ تیسرے طالب علم کی کارکردگی دونوں طلبہ سے زیادہ بہتر تھی کیوں کہ اس کے پاس ہدف بھی تھا اور وہ وقت کا پابند بھی تھا، چنانچہ اس نے ہدف کا اندازہ لگایا، اپنے وقت اور توانائی کو بہتر انداز میں استعمال کیا اور دونوں سے بازی لے گیا۔ اس سرگرمی کا مقصد آپ کو یہ سمجھانا ہے کہ آپ جو بھی کام منصوبہ بندی کے ساتھ کریں گے، اس میں وقت کم خرچ ہوگا اور ہدف بھی پورا ہوگا اور اگر آپ تیاری کے بغیر کام کریں گے تو آپ کی کارکردگی کمزور ہوگی اور وقت کے ساتھ ساتھ آپ کی توانائی بھی ضائع ہوگی۔“
بنجمن فرینکلن کہتا ہے کہ کسی کام کی تیاری میں ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ آپ ناکام ہونے کے لیے تیاری کررہے ہیں۔
فرض کریں کہ کسی شخص کو دس ہزار روپے، پانچ افراد (خدمت کے لیے) اور بارہ گھنٹے کا وقت دے کر کہا جائے کہ آج کا دن تم اپنی مرضی سے گزارو اور شام کو دن بھرکا حساب کریں گے تو وہ اسے کیسے گزارے گا؟
معاشرے کے عمومی مزاج کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایسا فرد صبح کسی ریسٹورنٹ جاکر ناشتہ کرے گا۔ اس کے بعد اگر وہ کاروبار کرتا ہے تو ان پیسوں اور افراد کو اپنے کام میں شامل کرکے منافع کمانے کی کوشش کرے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ان افراد کو گھریا اپنے ادارے کے کسی کام میں لگا دے، ان سے مفت میں کام کروا کر اخراجات بچ جانے پر خوش ہو۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ گھلنے ملنے والا شخص ہوا ور ان تمام افراد کو ڈرائنگ روم میں بٹھا کر دن بھر ان کے ساتھ گپ شپ کرتا رہے، کوئی فلم دیکھے اور تمام پیسے کھانے پینے پر اڑا دے۔
عقل مند ایسا نہیں کرے گا۔ اسے جب بھی ایسا موقع ملے تو وہ مزے اڑانے کے بجائے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ وہ کچھ وقت نکال کر منصوبہ بندی کرے گا کہ میں بارہ گھنٹوں، دس ہزار روپے اور افرادی قوت کو موثر اندا زمیں کیسے استعمال کرسکتا ہوں۔ دراصل یہی وہ سوچ ہے جو کسی فرد کو عام سے خاص بناتی ہے۔ آپ نے اگر کسی شخص کی قابلیت کو جانچنا ہے تو دیکھیں کہ وہ کام سے پہلے کیسی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ اس کی Planning کا معیار ثابت کرے گا کہ وہ کس قدر ذہین ہے۔
ڈیل کارنیگی کہتا ہے کہ ایک گھنٹہ منصوبہ بندی میں لگا دینا دس گھنٹے ضائع ہونے سے بچا دیتا ہے۔
جب آپ کسی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے پہلے منصوبہ بندی کرتے ہیں تو اس کی بدولت آپ کے اہداف اور مقاصد واضح ہوجاتے ہیں۔ آپ کی کوشش جلدرنگ لے آتی ہے اور آپ مختصر وقت میں مطلوبہ نتائج حاصل کرلیتے ہیں۔
منصوبہ بندی کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس کی بدولت آپ ہدف کے مختلف پہلوؤں پر غور کرسکتے ہیں۔ اس کام میں کون کون سی رکاوٹیں پیش آسکتی ہیں، میرے پاس کتنے Options ہیں اور اگر یہ کام نہ ہوسکا تو متبادل کیا ہے۔ کام کا تجزیہ کرنا ایسا عمل ہے جو آپ کی فیصلہ سازی کی مہارت کو نکھارتا ہے۔
منصوبہ بندی کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے آپ اپنے وقت، وسائل اور توانائی کا تفصیلی جائزہ لے سکتے ہیں۔ آپ کو ہر قدم پر جن چیزوں کی ضرورت پڑسکتی ہے، ان کا تعین کرسکتے ہیں اور کام شروع کرنے سے پہلے ان کی موجودگی کو یقینی بناکر اپنا ہدف بآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔
انسانوں کی اکثریت اپنے خطہ آرام (Comfort Zone) میں رہنا پسند کرتی ہے اور تبدیلی کو جلدی قبول نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی نیاکام پیش آرہا ہو تو اکثر لوگ بے چینی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ معلوم نہیں یہ کام اچھے طریقے سے مکمل ہوگا یا نہیں۔ایسے میں اگر وہ کچھ وقت نکال کر منصوبہ بندی کرلیں اور اپنے لیے لائحہ عمل بنالیں تو ان کا خوف دور ہوگا، وہ ذہنی تناؤ سے بچ سکیں گے اور پُراعتماد ہوکر اپناکام شروع کرسکیں گے۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ منصوبہ بندی ہماری تنقیدی اور تخلیقی صلاحیت کو پروان چڑھاتی ہے؟
جب کسی کام کے لیے Roadmap بنایا جاتا ہے تو اس میں پیش آنے والی ممکنہ مشکلات کو بھی زیر غور لایا جاتا ہے اور ان کا سدباب کیا جاتا ہے۔ یہ عمل ہماری تخلیقی صلاحیت کو بہتر بناتا ہے جس سے ہم بہتر انداز میں مسائل حل کرسکتے ہیں۔ منصوبہ بندی ہمیں اعتماد کی دولت سے بھی نوازتی ہے۔ ہمارا اپنی صلاحیتوں پر یقین بڑھ جاتا ہے اور ہم بغیر کسی خوف کے مشکل سے مشکل کام کو بھی سرانجام دے دیتے ہیں۔
وقت سے پہلے تیاری کو Proactive Approach (پہل قدمی) کہا جاتا ہے۔ ایسا شخص کم وقت میں زیادہ نتائج حاصل کرلیتا ہے اور اس کے پاس ایسے بہت سے مواقع ہوتے ہیں جن کی بدولت وہ ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں ترقی کرسکتا ہے۔
ہمارے ہاں Proactive Approach پر عمل نہیں کیا جاتا اور اکثر لوگ کہتے ہیں کہ جب کام سرپہ پڑے گا تو دیکھا جائے گا۔ اس رویے کے بہت سے نقصانات ہیں۔ ایسا شخص جلدی بوکھلا جاتا ہے۔وہ کام کو بغیر لائحہ عمل کے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اکثر ناکام ہوتا ہے۔ ایسا شخص ہر عمل پر ردعمل دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ تناؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسا فرد جلد باز ہوتا ہے۔وہ مستقل کام یابی کے بجائے عارضی حل چاہتا ہے اور کام سے جان چھڑاتا ہے۔ ایسا بندہ آپ کو اہم کاموں میں بھی مختلف طرح کے جگاڑ لگاتا نظر آئے گا۔
ایسے لوگوں میں برداشت کی کمی ہوتی ہے۔ یہ حالات پر قابو نہیں پاسکتے۔ معمولی واقعات پر بھی شدید ردعمل دیتے ہیں۔ یہ لوگ خود پر قابو پانے کے بجائے بیرونی عوامل پر زیادہ نظر رکھتے ہیں اور ہرواقعے پر ردعمل دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی توانائی ضائع ہوجاتی ہے۔ ان لوگوں کو اگر کوئی بات بری لگے تو وہ شدید ردعمل دیتے ہیں اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں لڑائی جنم لیتی ہے۔
منصوبہ بندی کرنے والے فرد کے پاس بہت سے مواقع ہوتے ہیں لیکن جو منصوبہ بندی کے بغیر کام کرتا ہے وہ اس کام میں موجود مواقع نہیں دیکھ سکتا، یوں وہ بہت سی مفید چیزوں سے محروم ہوجاتا ہے۔
عقل مند انسان React کے بجائے Respond کرتا ہے۔ اگر اس کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آجائے تو وہ جذبات میں آکر قدم نہیں اٹھاتا بلکہ تحمل سے کام لیتا ہے۔ وہ اس واقعہ کے مثبت پہلوؤں پر غورکرتا ہے اور اگر اس میں کوئی فرد ملوث ہو تو وہ اس کی ذہنی کیفیت اورمجبوری کوسمجھنے کی کوشش کرتاہے اور اسے بتاتاہے کہ تمھارایہ عمل درست نہیں تھا۔
یادرکھیں کہ عمل اور ردعمل کے درمیان ایسا باریک نقطہ ہے جس میں بے شمار Options (اختیارات) ہوتے ہیں اور سمجھ دار انسان انھی کو پیش نظر رکھتا ہے۔ یہ خصوصیت صرف انسان کو حاصل ہے اوریہی چیز اسے تمام مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے کیوں کہ باقی مخلوقات کے پاس Options نہیں ہیں، وہ اپنی جبلت کی پابند ہیں اور اسی کے مطابق ردعمل دیتی ہیں۔یہاں تک کہ جنگل کا بادشاہ (شیر) بھی ایک ہی ردعمل دیتا ہے۔ آپ اس کے سامنے ہنسیں یا روئیں، خطرہ بھانپ کر وہ آپ پر حملہ آور ہوگا۔
قدیم یونان میں ایک کہانی سنائی جاتی تھی کہ ایک شخص کے مرنے کا وقت قریب آیا تو اس کے سامنے تین آدمی آئے جو انتہائی غصے میں تھے اور مرنے والے شخص کو گھورتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ تو ہمارا مجرم ہے۔ اس نے پوچھا تم کون ہو اور میں نے کیا جرم کیا ہے؟ ان میں سے ایک بولا: ”میں وقت ہوں جسے تم نے بے دردی سے ضائع کیا۔“ دوسرا بولا:”میں توانائی ہوں جسے تم نے بے مقصد کاموں میں خرچ کیا۔“تیسر ابولا:”میں وہ وسائل ہوں جو تمھیں ملے لیکن افسوس کہ تم نے ان سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ اب ہم تم سے اپنا حساب مانگنے آئے ہیں۔“
انسان کی زندگی تین چیزوں سے مرکب ہے۔ وقت، توانائی اور وسائل۔ اگر کسی شخص کے پاس ان میں سے ایک چیز بھی نہ ہو تو اس کی زندگی ادھوری ہے۔ ان نعمتوں سے بھرپور انداز میں مستفید ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم Proactive Approach اپنالیں اور زندگی کو منظم کرلیں۔لائحہ عمل کے بغیر زندگی گزارنے کا بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ تین نعمتیں (وقت، توانائی اور وسائل) ضائع ہوجاتی ہیں اور ہمارے پاس افسوس کرنے کے سوا کچھ نہیں بچتا۔
میں نے زندگی کے موضوع پر بے شمار کتابیں پڑھی ہیں اور ایسے لوگوں سے بھی ملا ہوں جن کی عمر 80 سے زائد تھی۔ ان تمام تجربات کے بعد میں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مرنے والے شخص کا سب سے بڑا پچھتاوا یہ ہوتا ہے کہ میں نے اپنے وقت، توانائی اور وسائل کو درست انداز میں استعمال نہیں کیا۔ زندگی کا سورج جب ڈھلنے لگے تو اس وقت انسان تمنا کرتا ہے کہ کاش! مجھے دوبارہ وقت ملے، کاش! مجھے جوانی جیسی توانائی دوبارہ ملے لیکن ایسا نہیں ہوسکتا۔ نہ گزرا وقت واپس آسکتا ہے، نہ ہی توانائی اور وسائل دوبارہ مل سکتے ہیں۔ ان نعمتوں کی قدر کیجیے اور Proactive Approach اپنا کر خود کو پراعتماد اور کامیاب بنائیے کیوں کہ یہ ایسی شان دار عادت ہے جس پر دنیا کی کام یاب ترین شخصیات عمل پیرا تھیں۔