Hassan Pendu official

Hassan Pendu official آ پ تمام دوستوں کی محبت کا مشکور و ممنون کہ آ پ میرے پیج کا حصہ بنے اور سپورٹ کرتے ہیں
(2)

سیانے کہندے نیں 👇جیہڑا بندہ دوجیاں دا دل دکھاندا اے،اوہ خوشی لبھ کے وی سکون نئیں پاندہ اے۔
30/10/2025

سیانے کہندے نیں 👇

جیہڑا بندہ دوجیاں دا دل دکھاندا اے،

اوہ خوشی لبھ کے وی سکون نئیں پاندہ اے۔

29/10/2025

#سیانے _کہندے_نیئں
#تاندلیانوالہ

28/10/2025

#

"Unveiling History: The 4,500-Year-Old Tunic at the EgyptianUnveiling Museum"😱🥰🇯🇴😊   Egyptian Museum”Unveiling History: ...
27/10/2025

"Unveiling History: The 4,500-Year-Old Tunic at the EgyptianUnveiling Museum"😱🥰🇯🇴😊

Egyptian Museum”Unveiling History: The 4,500-Year-Old Tunic at the Egyptian 😱🔥❤️💯

Museum” Museum

Treasures

27/10/2025

27/10/2025

شام کا سنہرا نور کھیتوں پر پھیلا ہوا تھا۔ گاوں کے کچے راستے خشک مٹی کی خوشبو اُٹھاتے تھے اور ایک پرانا ندی کا شور دور سے آ رہا تھا۔ اسی منظر میں رمضان بخش اپنے کھیت کے کنارے بیٹھا تھا — کندھے پر ایک ٹوٹی ہوئی ٹوپ، ہاتھ میں مٹی والا پانی کا جگ، اور آنکھوں میں ایک اداسی جو برسوں کی مشکلیں سناتی تھی۔

رمضان بخش نے کبھی شہر کے بڑے ساز و سامان یا نئی مشینوں کے بارے میں پڑھا نہ سنا تھا۔ اس کی دنیا صبح کا سورج، شام کی لو، اور فصلوں کی امید پر قائم تھی۔ بیوی کا ہاتھ تھاما تو بیٹیوں نے خوشی میں ہنس کر اسے مٹی سے بھرے چہرے پر مٹی جھاڑ دیا، مگر دل کے اندر چھپی فکرمندی کچھ کہہ رہی تھی: بارشیں کم ہو رہی تھیں، بیج مہنگے ہو گئے تھے، اور ادھار کا بوجھ روز بڑھ رہا تھا۔

ایک سال پہلے جب فصل اچھی تھی تو لوگ کسانوں کی محنت کی تعریف کرتے تھے، مگر اس بار حالات الگ تھے۔ موسم بے موسم بدل رہا تھا — کھیتوں میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے بیج اگنے سے پہلے ہی سوکھ جاتے۔ رمضان بخش روزانہ سورج نکلنے سے پہلے کھیت پر جاتا، کھودتا، پانی کا بندوبست کرنے کی کوشش کرتا۔ راتوں کو وہ ادھار کے بارے میں سوچ کر جاگتا، خریدی ہوئی کھاد کے بل، بیلوں کی دوائیوں کے اخراجات، اور بچوں کی پڑھائی کا خرچہ اس کے دماغ پر بھاری پڑا تھا۔

ایک شام جب وہ کھیت میں بیٹھا تھا، گاؤں کے ایک بزرگ، سلیم دادا آئے۔ انہوں نے اپنی کھردری آواز میں کہا، “رمضان، زمین سے لڑے نہ کر۔ کبھی کبھی زمین بھی تھک جاتی ہے، بندہ نیا طریقے سوچے تو بھلا نہیں۔” رمضان بخش نے جھک کر دیکھا، اور بولا، “دادا، پارہ تو اسی میں ہے۔ نئے طریقے پیسے مانگتے ہیں، اور پیسے کہاں سے آئیں؟”

سلیم دادا نے چپ چاپ اسے دیکھا۔ “پہلے لوگ ایک ساتھ مل کر بیٹھتے تھے، بیج بانٹتے، تجربے شئیر کرتے۔ اب سب نے اپنی راہ پکڑی ہے۔” ان الفاظ میں ایک ماضی کی یاد تھی — جب محلے کے لوگ مل کر کھیت کی فصلوں کے بارے میں فیصلہ کرتے، ایک دوسرے کے لئے قرضے کا بندوبست کرتے، اور خوشی غم میں ساتھ کھڑے ہوتے۔

رمضان بخش نے اگلا دن گزرنے کے بجائے کچھ نیا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنی بیٹی زینب کے ساتھ مل کر کھیت کی سرحد پر چھوٹا سا سبزی کا باغ بنایا — وہی چند بیج جو بچ گئے تھے، پانی کی بچت کے طریقے، اور نکاسی کے چھوٹے راستے۔ ابتدا میں اسے لگتا تھا کہ یہ بس وقت ضائع کرنا ہے، مگر جب ہلکی سی سبزیاں نکلیں تو دل کو ایک نئی شروعات محسوس ہوئی۔ گھر میں بچی نے کہا، “اب ابو، ہم بازار میں بھیج دیں گے، پیسے آئیں گے!” اس سادہ امید نے رمضان بخش کے کندھوں کا بوجھ تھوڑا ہلکا کیا۔

گاؤں والوں نے بھی اس تبدیلی کو دیکھا۔ کچھ نے مسکرا کر کہا، “یہ چھوٹا قدم ہے مگر بڑا فرق لا سکتا ہے۔” ایک دن گاؤں کے چند کسانوں نے ملا کر چھوٹا سا اجتماع کیا۔ سب نے اپنے تجربات شئیر کئے — کس طرح محنت کم اور سمجھ بوجھ زیادہ لگا کر پانی بچایا جا سکتا ہے، کون سا بیج کم خرچ میں بہتر نمو دیتا ہے، اور کس طرح مشترکہ بزار قائم کیا جا سکتا ہے جہاں بیچنے والوں کو کم دکانوں کے چکر نہ لگانے پڑیں۔

وقت آہستہ آہستہ بدلنے لگا۔ رمضان بخش کے کھیت میں جو سبزیاں اگیں وہ بازار میں اچھا دام لے آئیں، اور ادھار کا بوجھ بھی کچھ کم ہوا۔ بیٹیاں سکول جاتی رہیں اور گھر میں اب امید کی روشنی تھی۔ مگر کہانی اتنی سیدھی بھی نہ تھی — خشک سالی پھر کبھی آتی، کوئی بیماری فصل پر چڑھ جاتی، یا قیمتیں نیچے آ جاتیں — مگر اب رمضان بخش کے اندر ایک فرق تھا: وہ تنہا نہیں تھا۔ گاؤں نے دوبارہ ایک دوسرے کا ساتھ دینا شروع کر دیا تھا۔

ایک دن شام کے وقت جب وہ دوبارہ کھیت میں بیٹھا، اس نے آسمان پر دیکھتے ہوئے سوچا: “کسان کی تکلیف ختم نہیں ہوتی — مگر وہ جو طاقت ہے محنت میں، ہمت میں، اور اکٹھ میں — وہ تکلیف کو سہنے کا حوصلہ دیتی ہے۔” اسی سوچ کے ساتھ اس نے عورت کی بانہوں میں ہاتھ رکھا، جو پاس کھڑی بیٹھی تھی، اور مسکرا کر کہا، “چلو، کل پھر کوشش کریں گے۔”

یہ کہانی صرف رمضان بخش کی نہیں، بلکہ ان ہزاروں چہروں کی ہے جو ہر دن زمین سے جڑی امیدوں کو زندہ رکھتے ہیں۔ ان کی تکلیف میں دکھ تو بہت ہیں، مگر محبت، ہمت، اور ایک دوسرے کا سہارا وہ روشنی ہے جو ہر مشکل شام کے بعد نکلتی ہوئی سویرے کی نوید دیتی ہے

26/10/2025

دوستوں پاکستان میں کوئی ایسا

کاروبار بتائیں 1لاکھ لگاکے
1500یا2000روزانہ مل سکیں

گاؤں کی شام کا خوبصورت منظر
25/10/2025

گاؤں کی شام کا خوبصورت منظر

 One Place, Billion Feelings ✨🤍🫶Day and night view of the Royal Clock Tower 🌙
20/10/2025


One Place, Billion Feelings ✨🤍

🫶

Day and night view of the Royal Clock Tower 🌙

گاؤں کی سب سے خوبصورت تصویر
16/10/2025

گاؤں کی سب سے خوبصورت تصویر

ہم حیدر کی یلغارہم فخرِ پاکستان میری افواج میرے سر کا تاج⚔️🇵🇰⚔️
16/10/2025

ہم حیدر کی یلغار
ہم فخرِ پاکستان
میری افواج میرے سر کا تاج
⚔️🇵🇰⚔️

Address

Garh
Faisalabad
38000

Telephone

+923007207629

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Hassan Pendu official posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Hassan Pendu official:

Share

Category