Taak News

Taak News (Taak News) The voice of the people is a unique and effective means of conveying the government houses.

بل بجلی یا پھانسی کا پھندا؟(غریب کی جیب میں حکومت کا ہاتھ)تحریر:واصف آکاش واصف پاکستان کا ہر غریب ہر مہینے اسی کشمکش میں...
29/05/2025

بل بجلی یا پھانسی کا پھندا؟
(غریب کی جیب میں حکومت کا ہاتھ)
تحریر:واصف آکاش واصف
پاکستان کا ہر غریب ہر مہینے اسی کشمکش میں مبتلا ہوتا ہے کہ بچوں کو کھانا دوں یا بجلی کا بل ادا کروں؟

حکومت نے بجلی کا ایسا ظالمانہ نظام قائم کر رکھا ہے
جس نے عام آدمی کا جینا محال کر دیا ہے۔
200 یونٹ تک تو کچھ رعایت ہے،
لیکن جونہی یہ حد عبور ہو ۔
ہر یونٹ غریب کے گوشت سے گویا خون نچوڑتا ہے۔

سمجھ سے بالاتر ہے کہ
یہ کس زہریلے دماغ کی اختراع ہے کہ 200 کے بعد صرف ایک یونٹ بھی بل نہیں، سزا بن جاتا ہے!
یہ “سلیب سسٹم” ایک فریب ہے:
1 سے 100 یونٹ: نسبتاً سستا
101 سے 200 یونٹ: تھوڑا مہنگا
201 یا اس سے زائد تو سیدھا غریب کی جیب پر ڈاکا ہے!

ذرا سوچیں،

اکثر میٹر ریڈر کی تاخیر، یا چند لمحوں کا اضافی استعمال ایک یونٹ بڑھا دیتا ہے
تو اس پالیسی کو منصفانہ کیسے کہا جا سکتا ہے؟

حکومت ہوش کے ناخن لے!
غریب کی حالت پر رحم کھائے۔
کم از کم 300 یونٹ تک فی یونٹ ریٹ 10 روپے ہونا چاہیے کیونکہ اگر ایک عام گھر میں صرف
ایک پنکھا، ایک فریج، پانی کی موٹر اور چند بلب چلیں
تو بھی مہینے کے آخر تک بل 200 یونٹ سے اوپر چلا جاتا ہے۔

امیر بچ گیا، مگر غریب پِس گیا

امیر کے پاس سولر، UPS، جنریٹر، اور دو دو میٹر ۔ہر سہولت موجود۔
اور غریب؟بس ایک میٹر، نہ سولر، نہ کوئی بچاؤ۔
مہینے بھر کی خون پسینے کی کمائی وہ بھی بلوں اور ٹیکسوں میں لٹ جاتی ہے!

عدلیہ اور حکومت کی مجرمانہ خاموشی
یہ خاموشی کیا خود ایک جرم نہیں؟
ہر مہینے عوام چیختی ہے، کوئی نہیں سنتا!
عدالتیں، جو انصاف کی آخری امید ہیں،وہ بھی غریب کیلئے اپنے دروازے بند کیے ہوئے ہیں۔

چند تلخ سوالات:
کیا 201 یونٹ استعمال کرنا جرم ہے؟
کیا غریب صرف ووٹ دینے کے لیے پیدا ہوا ہے؟
کیا ریاست صرف اشرافیہ کی جاگیر ہے؟
کیا انصاف صرف طاقتور کی دہلیز پر جاگتا ہے؟

آخری بات:
جس ملک میں روشنی کے بجائے بل جلیں،
انصاف کے بجائے خاموشی بولےاور عوام کا صبر روز آزمایا جائے
وہاں ترقی نہیں ، زوال سر اٹھاتا ہے۔

پاکستان کے نعرے لگانا کافی نہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم سب مل کر اسے بہتر بنائیں۔

کیا آپ تیار ہیں؟
اپنی رائے دیں تاکہ یہ آواز اتنی بلند ہوکہ ایوانِ اقتدار میں بھی جنبش ہوسکے۔



















"پسے ہوئے طبقات اور بے حس ریاست"تحریر :واصف آکاش واصفپاکستان میں اس وقت عوام کی زندگی انتہائی قابلِ رحم ہے۔ غریب آدمی ہر...
27/05/2025

"پسے ہوئے طبقات اور بے حس ریاست"
تحریر :واصف آکاش واصف
پاکستان میں اس وقت عوام کی زندگی انتہائی قابلِ رحم ہے۔ غریب آدمی ہر طرف سے پس رہا ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، استحصال اور ناانصافی جیسے کئی بوجھ اس کے کندھوں پر لاد دیے گئے ہیں، اور بدلے میں اسے دیا گیا ہے صرف خاموشی کا سبق۔

کارخانوں میں مزدوروں سے روزانہ 12 سے 16 گھنٹے تک کام لیا جاتا ہے، اور تنخواہ اتنی دی جاتی ہے کہ گھر کا چولہا مشکل سے جلتا ہے۔ مزدور کی عزتِ نفس کو قدموں تلے روندا جاتا ہے؛ زبان کھولنے پر نوکری جانے کا خوف، اور حق مانگنے پر باغی ہونے کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے۔
حکومت کی جانب سے آئے روز بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ بل اتنے زیادہ آتے ہیں کہ غریب آدمی تنخواہ ہاتھ میں لینے سے پہلے ہی مقروض ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف، حکومتی وزرا اور مشیروں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ ایسے کیا جا رہا ہے جیسے کہ ملک خوشحالی کی مثال بن چکا ہو۔

جو لوگ کرائے کے گھروں میں رہتے ہیں، ان کی زندگی ایک مستقل خوف میں گزر رہی ہے: مالک مکان کا رویہ، بلوں کا دباؤ، مہنگائی کا عذاب، اور بچوں کی ضروریات کا بوجھ۔ تعلیم، علاج اور زندگی کے بنیادی حقوق ایک خواب بن چکے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ لوگ بے چینی اور الجھن کا شکار ہیں۔ اگر کوئی ان حالات پر آواز اٹھاتا ہے تو اسے سیاسی لیبل دے کر خاموش کر دیا جاتا ہے۔ عوام ایسے گھٹن زدہ ماحول میں زندگی یوں گزار رہے ہیں گویا اُن سے جینے کا حق بھی چھین لیا گیا ہو۔

یہ معاشرہ اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں سچ بولنے والا دشمن سمجھا جاتا ہے، اور ظلم سہنے والے کو مظلوم نہیں، الٹا مجرم گردانا جاتا ہے۔ ریاست کا کام سہارا دینا ہوتا ہے، لیکن یہاں تو ریاست خود بوجھ بنتی جا رہی ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ ہم ان آوازوں کو محسوس کریں جو ابھی دبی ہوئی ہیں مگر پھٹنے کو ہیں، ان آنکھوں کو دیکھیں جو روز امید لے کر کھلتی ہیں، اور ان خوابوں کو سمجھیں جو غربت کی دیواروں سے ٹکرا کر چکنا چور ہو جاتے ہیں۔

یہ دنیا فانی ہے، کچھ بھی ہمیشہ قائم رہنے والا نہیں۔ اقتدار کا سورج بھی آخر ڈوب جاتا ہے۔ اگر کچھ قائم رہتا ہے تو وہ ہے "انسانیت"، جو انسان کو اندرونی سکون اور راحت عطا کرتی ہے۔
ریاست عوام کی طاقت سے قائم رہتی ہے۔کہتے ہیں ریاست ماں جیسی ہوتی ہے ، اگر واقعی ریاست ماں جیسی ہوتی ہے تو کیا ماں ایسی ہوتی ہے؟
















؟

'' سوالوں میں گھرا پاکستان"تحریر :واصف آکاش واصف"جب کوئی قوم خواب دیکھنا چھوڑ دے، تو نہ دن کی روشنی اسے راحت دیتی ہے، نہ...
25/05/2025

'' سوالوں میں گھرا پاکستان"
تحریر :واصف آکاش واصف
"جب کوئی قوم خواب دیکھنا چھوڑ دے، تو نہ دن کی روشنی اسے راحت دیتی ہے، نہ رات کی تاریکی اسے چین لینے دیتی ہے۔" پاکستان اس وقت ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں خواب مر چکے ہیں، حقیقتیں زخم بن چکی ہیں اور زخم ناسور بنتے جا رہے ہیں۔
یہ ملک جس مقصد کے تحت وجود میں آیا تھا ،وہ تھا ایسا خطہ جہاں انصاف، اخوت، اور آزادی ہو۔ وہ الفاظ اب صرف تقریروں، نصابی کتب اور عدالتی کاغذوں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہاں سچ بولنے والا غدار ،حق مانگنے والا باغی
اور ظلم سہنے والا ہی مجرم کہلاتا ہے۔
قومیں جغرافیے سے نہیں، کردار سے بنتی ہیں۔ مگر یہاں کردار کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ ہر کوئی سمجھوتہ کر کے زندہ رہنا سیکھ گیا ہے۔
جنہیں رہبر کہا گیا، وہ راہزن نکلے۔ جنہیں محافظ سمجھا، وہ لٹیروں کے ہم نوالہ ہو گئے۔
آج کا پاکستان صرف سوال بن چکا ہے:
کیا جمہوریت صرف بیانات کا نام ہے؟ کیا آزادی صرف ایک تاریخ کی یاد ہے؟
کیا انصاف صرف طاقتور کے در پر ملتا ہے؟ کیا یہ ملک صرف زندہ رہنے کے لیے ہے، یا جینے کے لیے بھی؟
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود، یہاں کی مٹی اب بھی زرخیز ہے۔ لوگ اب بھی خواب دیکھتے ہیں، بچے اب بھی سوال کرتے ہیں، ماں اب بھی دعا ئیں کرتی ہے، اور کچھ لوگ اب بھی سچ بولتے ہیں ۔یہ جانتے ہوئے کہ اس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔
یہی نشانیاں ہیں کہ پاکستان اب بھی سلامت ہے، مگر بیمار ہے جسکا
علاج طاقت سے نہیں، سچائی، علم، برداشت، اور خود احتسابی سے ممکن ہے۔
یہ زمین ان بیجوں کی منتظر ہے جو صرف نیت کی نمی اور عمل کی دھوپ سے اگتے ہیں۔
سوچنے والی بات یہ ہے جیسے ہر عروج کو زوال ہوتا ہے ،ویسے ہی ہر طاقتور ایک دن کمزور پڑ جاتا ہے ،طاقت خدا کی عطا کردہ وہ نعمت ہے جو نیک مقصد لئے استعمال ہو تو عبادت بن جاتی ہے جبکہ اس کا غلط یا ناجائز استعمال انسان کو گناہ کی اُس دلدل میں دھکیل دیتا ہے، جہاں انجام صرف تباہی، تنہائی اور پچھتاوا ہوتا ہے۔

"اکیلا سچ، ہزاروں جھوٹوں پر بھاری ہوتا ہے"تحریر :واصف آکاش واصفپاکستان کی فضا میں اگر آج کچھ گونج رہا ہے، تو وہ محض جھوٹ...
24/05/2025

"اکیلا سچ، ہزاروں جھوٹوں پر بھاری ہوتا ہے"
تحریر :واصف آکاش واصف
پاکستان کی فضا میں اگر آج کچھ گونج رہا ہے، تو وہ محض جھوٹ کی بازگشت ہے۔
میڈیا کی دنیا میں سچائی تقریباً ناپید ہو چکی ہے، کیونکہ صحافت اب اصولوں کا نہیں، بولی کا میدان بن چکی ہے۔
خبر اب ضمیر سے نہیں نکلتی، قیمت سے بنتی ہے۔ عدالتوں میں سچ کٹہرے میں صفائی دیتا ہے، جبکہ جھوٹ ریاستی سرپرستی میں پروان چڑھتا ہے۔
سوال یہ ہے:
کیا جھوٹ کے اس شور میں، سچ واقعی دفن ہو جاتا ہے؟
نہیں!
سچ کبھی مٹتا نہیں۔ وہ وقتی طور پر چھپ تو سکتا ہے، مگر فنا نہیں ہوتا۔
یہی تو اس کی اصل طاقت ہے۔
جھوٹ ہر چینل پر بکتا ہے، ہر جلسے میں گونجتا ہے، ہر طاقتور کی زبان پر سجا ہوتا ہے۔
مگر سچ...
سچ انمول ہوتا ہے،
نہ خریدا جا سکتا ہے، نہ بیچا جا سکتا ہے۔
اسی لیے سچ تنہا ہوتا ہے، مگر معتبر اور قائم رہنے والا ہوتا ہے۔

اگر تمہیں لگے کہ سچ کہیں کھو گیا ہے، تو سنو...
وہ خاموش ضرور ہے، مگر مٹا نہیں۔
جیسے رات جتنی بھی گہری ہو، طلوعِ صبح کو نہیں روک سکتی،
ویسے ہی جھوٹ جتنا بھی پھیل جائے،
سچ کی روشنی کو ماند نہیں کر سکتا۔
یاد رکھو:
جھوٹ وقتی فائدہ دیتا ہے، مگر سچ دائمی سکون اور وقار بخشتا ہے۔
جھوٹ آخرکار اپنی موت آپ مر جاتا ہے،
مگر سچ...
سچ ہمیشہ زندہ رہتا ہے ۔دلوں میں، ذہنوں میں اور تاریخ کے اوراق میں۔

تو اگر تم سچ کے مسافر ہو، تو گھبراؤ مت۔کیونکہ انجام ہمیشہ انہی کا روشن ہوتا ہے،
جو سچ پر ڈٹے رہتے ہیں،چاہے تنہا ہی کیوں نہ ہوں۔










"عمران خان" وہ آواز جو دبائی نہیں جا سکتی۔۔۔تحریر :واصف آکاش واصف پاکستان جیسے غربت کے مارے اور خستہ حال ملک میں، جب اُس...
22/05/2025

"عمران خان" وہ آواز جو دبائی نہیں جا سکتی۔۔۔
تحریر :واصف آکاش واصف
پاکستان جیسے غربت کے مارے اور خستہ حال ملک میں، جب اُس غریب کی بات ہوگی
جس کا بچہ سرکاری اسپتال کے فرش پر تڑپا ہو،
جس نے نوکری کے خواب چکناچور ہوتے دیکھے ہوں،
یا وہ بے بس باپ، جس کے بچے کے ہاتھ میں اسکول بیگ کے بجائے مزدوری کی چھاپ ہو
تو اُس کی امید وہی آواز ہو سکتی ہے
جو اس کے درد کو نہ صرف محسوس کرے، بلکہ اس کے حق میں للکارے۔
یہی وجہ ہے کہ عمران خان عوام کے دلوں میں گھر کر گیا۔
کیونکہ اس نے ان سے وعدے نہیں کیے . احساس دیا۔
اس نے احساس پروگرام شروع کیا،
جہاں پہلی بار ریاست نے غریب کی دستک پر دروازہ کھولا۔اس نے صحت کارڈ دیا،تاکہ جس ماں کے ہاتھ میں دوا کے پیسے نہ ہوں،وہ کم از کم عزت سے اپنے بچوں کا علاج کرا سکے۔
اس نے پناہ گاہیں بنائیں،تاکہ کوئی مزدور سرد راتوں میں فٹ پاتھ پر نہ سوئے۔

اس نے کہا:"ہم قرض نہیں، غیرت کی بات کریں گے۔"
اس نے "مدینے کی ریاست" کا تصور دیا .جہاں حکمران خود کو عوام کا خادم سمجھے۔
لیکن حالت یہ ہے کہ آج جب کوئی اپنے حق کے لیے بولتا ہے،
تو اسے خاموش کرا دیا جاتا ہے۔نہ عدالتیں انصاف دے پا رہی ہیں،
نہ میڈیا سچ دکھا پا رہا ہے۔سچ تو اب خوف کی دیواروں کے پیچھے قید ہے۔
لیکن سوال یہ ہے:
کہ صرف اس لیے کہ کسی نے غریب کا درد محسوس کیا؟
کسی نے مدینے کی ریاست کا خواب دکھایا؟یا قرض کی بجائے غیرت کی بات کی
تو وہ مجرم ہے؟کیا غریب کا ساتھ دینا گناہ ہے؟کیا عدل کی بات کرنا بغاوت ہے؟
اگر ہاں !تو پھر ہم سب مجرم ہیں۔قوم خان کو اس لیے چاہتی ہے،
کیونکہ وہ ان سے الگ نہیں، وہ ان ہی میں سے ہے۔
اس کے لہجے میں وہی تلخی ہے،جو ہر مزدور کے دل میں ہے۔
اس کی آنکھوں میں وہی آنسو ہیں،جو ہر ماں نے اپنے بیٹے کے لیے چھپائے۔
عدالتیں چاہیں تو قید کر لیں،میڈیا چاہے تو بدنام کر دے،
طاقت چاہے تو ظلم ڈھا دے ۔
مگر ایک بات یاد رکھنا:
جس دن عوام کی زبان سے "خان" کا نام چھینا گیا،
اسی دن ان کے لبوں سے امید کا ذائقہ بھی چھن جائے گا۔








رپورٹ: (تاک نیوز)فیصل آبادبستے لہو سے بھیگ گئے: بچوں پر دہشت گردی کی نئی خونی داستان!کبھی اسکول کی گھنٹی بجی،کبھی چیخوں ...
21/05/2025

رپورٹ: (تاک نیوز)فیصل آباد
بستے لہو سے بھیگ گئے: بچوں پر دہشت گردی کی نئی خونی داستان!
کبھی اسکول کی گھنٹی بجی،
کبھی چیخوں کی صدا آئی،
کہیں تختی پر خون بکھرا،
کہیں بستہ آخری بار بند ہوا۔۔۔

آج خضدار میں ایک خودکش حملے نے پوری قوم کو پھر سے ہلا کر رکھ دیا۔
ایک فوجی اسکول کی بس کو نشانہ بنایا گیا، جس میں تین معصوم بچے اور دو دیگر افراد شہید ہوئے، جبکہ متعدد زخمی ہیں۔

دہشت گرد تعلیم کے دشمن ہیں یا بچوں کے؟
کیا یہ وحشیانہ حملے کسی مخصوص ایجنڈے کا حصہ ہیں یا صرف معصومیت کا قتل؟
کیا ہم اس تلخ حقیقت کو کبھی تسلیم کریں گے کہ ہمارے بچے، جو کل کا مستقبل ہیں، آج بھی محفوظ نہیں؟

تعلیم ایک قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے، لیکن پاکستان میں کئی بار اسے توڑنے کی کوشش کی گئی۔
اسکولوں کو بارود سے اڑایا گیا، معصوم بچوں کو گولیوں سے بھونا گیا، اور درسگاہوں کو خون میں نہلا دیاگیا۔
خونی تاریخ کے کچھ اہم باب:
16 دسمبر 2014 ۔ آرمی پبلک اسکول، پشاور
حملہ آوروں نے 144 بچوں اور اساتذہ کو بے دردی سے شہید کیا۔
یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے المناک سانحہ تھا۔

20 جنوری 2016 ۔ باچا خان یونیورسٹی، چارسدہ21 افراد شہید، 20 سے زائد زخمی۔
اُس روز کلاس ختم نہ ہوئی ،ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔

27 اکتوبر 2020 ۔پشاور
ایک مدرسے سے متصل مسجد میں دھماکہ، 8 افراد جاں بحق، 90 سے زائد زخمی ہوئے۔
تعلیم کی جگہ لاشیں اور آہیں رہ گئیں۔

ریاست کی ناکامی:
کیا ہمارے سیکیورٹی ادارے بچوں کی حفاظت کے لیے مؤثر اقدامات کر رہے ہیں؟
کیا دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوئی جامع حکمت عملی موجود ہے؟
سب سے اہم سوال: معصوم بچوں نے کس کا کیا بگاڑا تھا؟

تعلیم دشمن عناصر بار بار ہمارے مستقبل کے معماروں کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔
اور ریاست خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
یہ حملے صرف بم دھماکے نہیں، بلکہ ہمارے کل کی تباہی کا منصوبہ ہیں۔
آخر کب تک ہم دھماکوں کی آواز سے خوفزدہ رہیں گے؟
آخر کب تک معصوم بچوں کا ناحق خون بہتا رہے گا؟
اور کب تک ہمارا کل اجڑتا رہے گا؟

"گدھے کی مظلومیت اور انسان کی قنوطیت"تحریر:واصف آکاش واصفکبھی آپ نے ایک گدھے کی آنکھوں میں جھانکا ہے؟وہ خاموش، تھکی ہوئی...
19/05/2025

"گدھے کی مظلومیت اور انسان کی قنوطیت"

تحریر:واصف آکاش واصف

کبھی آپ نے ایک گدھے کی آنکھوں میں جھانکا ہے؟
وہ خاموش، تھکی ہوئی، اور سوال کرتی ہوئی آنکھیں...
نہ وہ بول سکتا ہے، نہ شکایت کر سکتا ہے، نہ ہڑتال پر جا سکتا ہے۔
بس ساری زندگی بوجھ کھینچتا ہے.کڑی دھوپ میں، بھوکا پیاسا، گالیاں سنتا ہوا، ڈنڈے کھاتا ہوا
بس چلتا رہتا ہے اور ایک دن خاموشی سے مر جاتا ہے۔

یہ سچ ہے کہ وہ انسان نہیں، مگر کیا وہ جاندار بھی نہیں جسے تکلیف ہوتی ہے؟
یہ صرف ایک جانور کی کہانی نہیں
یہ انسان کے گدھا بن جانے کی داستان بھی ہے۔

ہم نے تہذیب کا لبادہ تو اوڑھ لیا، مگر اندر سے حیوانیت کو پال لیا۔

رکشے پر وزن زیادہ ہو تو چالان، گاڑی کی رفتار بڑھے تو جرمانہ،
لیکن گدھے پر
ایک بے زبان جانور پر
جتنا چاہو بوجھ ڈال دو؟ نہ کوئی چالان، نہ روکنے والا، نہ آواز اٹھانے والا۔

کیا کبھی کسی تھانے میں یہ ایف آئی آر کٹی ہے کہ
"فلاں شخص نے ایک بے زبان کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی؟"
نہیں!
کیونکہ قانون صرف انسانوں کے لیے ہےیا شاید صرف طاقتور انسانوں کے لیے۔

اب سنیے دوسری طرف کی کہانی:
لاہور میں حال ہی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر شہریوں کو جیل میں ڈالا جا رہا ہے۔
چلو مان لیا کہ قانون کی عمل داری ضروری ہے،
مگر سوال یہ ہے:

جب پولیس خود اپنے فرائض پورے نہ کرے، تو اسے کون پکڑے؟

کیا one-way پر واضح سائن بورڈز لگے ہوتے ہیں؟
کیا ہر سڑک پر رفتار کی حد واضح طور پر درج ہوتی ہے؟
کیا ریاست نے کبھی شہری کو قوانین سکھانے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی؟
نہیں!

نہ اسکولوں میں روڈ سیفٹی کا کوئی مضمون،
نہ میڈیا پر قوانین کی آگاہی،
نہ ٹریفک اہلکاروں کی مکمل تربیت۔

جب آگاہی ہی نہیں، تو سزا کیسے؟

بیرونِ ممالک مثلاً یورپ، کینیڈا، یا جاپان میں بچپن سے ہی شہریوں کو قوانین سکھائے جاتے ہیں۔
ہر چوک پر واضح نشانیاں، رفتار کی حد، سمت کے بورڈ،
اور قانون توڑنے پر صرف سزا نہیں بلکہ تربیتی کورسز بھی کروائے جاتے ہیں۔

وہاں پولیس حاکم نہیں، خادم ہوتی ہے۔
وہاں قانون کو خوف سے نہیں، شعور اور بھروسے سے مانا جاتا ہے۔

پاکستان میں پولیس اکثر خود قانون شکنی کرتی ہے
رشوت عام،جعلی چالان،
اور شہریوں سے بدسلوکی معمول بن چکا ہے۔

کئی اہلکار خود ون وے پر گاڑیاں دوڑاتے ہیں۔

تو سوال پھر وہی ہے:

خلاف ورزی کرنے والا گناہگار ہے یا خلاف ورزی کروانے والا؟

حل کیا ہے؟
صرف سزا نہیں شعور، آگاہی، اور اصلاح۔

جیسا کہ حکومت اپنے سیاسی اشتہارات ہر دیوار پر آویزاں کرتی ہے،
اسی طرح قوانین کے فلیکس اور بورڈز ہر علاقے میں لگائے جائیں۔
اسکولوں اور کالجوں میں روڈ سیفٹی کو باقاعدہ نصاب میں شامل کیا جائے۔
میڈیا پر روزانہ مختصر، مگر پُراثر آگاہی مہمات چلائی جائیں۔
ٹریفک پولیس کو تربیت دی جائے کہ وہ شہری سے حاکمانہ نہیں، انسانیت سے پیش آئے۔

خلاف ورزی کرنے والے کو پہلے تنبیہ، پھر رہنمائی، اور آخر میں سزا دی جائے۔

گدھے کا دکھ اور انسان کا گدھا پن۔

وہ گدھا جو روز سڑک پر وزن کے نیچے کراہتا ہے ،
قانون سے آزاد ہے کیونکہ وہ انسان نہیں۔
اور وہ انسان جو فخر سے قانون توڑتا ہے۔ جو
قانون سے بچ بھی جاتا ہے کیونکہ وہ بااثر ہے۔

یہ ہے ہمارے معاشرے کا انصاف۔

گدھے پہ بوجھ، انسان پہ قانون ۔
دونوں بےخبر، ایک خاموش، ایک مجبور۔

وقت آ گیا ہے کہ قانون کو ڈنڈے سے نہیں، شعور سے نافذ کیا جائے۔
پولیس کو عوام کی خدمت کا نمونہ بنایا جائے۔
اور شہری کو قانون کا سچا نگہبان۔

ورنہ گدھے اور انسان میں کوئی فرق باقی نہ رہے گا…

       خصوصی تحریر: واصف آکاش واصفپاکستان جیسا شاندار ملک، جہاں چار موسموں کی دلکش بہاریں ہر انسان کی فطری آرزو کو آسودگ...
18/05/2025


خصوصی تحریر: واصف آکاش واصف

پاکستان جیسا شاندار ملک، جہاں چار موسموں کی دلکش بہاریں ہر انسان کی فطری آرزو کو آسودگی عطا کرتی ہیں،بدقسمتی یہ ہے کہ جب سے وطن عزیزمعرض
وجود میں آیا ہے، ہم ہمیشہ ایک نازک موڑ پر کھڑے رہے ،لیکن جس موڑ پر آج ہم کھڑے ہیں، وہاں انتہائی مایوسی ہے، بے پناہ مہنگائی ہے، بے یقینی ہے اور سب سے بڑھ کر کرپشن کا راج ہے۔
عوام کو درپیش معاشی و سیاسی مسائل اب صرف پریشانی نہیں، بلکہ ذہنی الجھن، بے چینی اور قومی شعور کی بیداری کا باعث بن چکے ہیں۔
ایسے میں ہر زبان پر ایک ہی سوال ہے:
"عمران خان کہاں ہے؟"
یہ سوال کسی ایک فرد کی غیر موجودگی کا نہیں، بلکہ ان تمام امیدوں، خوابوں، اور خواہشات کا ہے جو قوم نے ایک نئی صبح کے انتظار میں عمران خان کے ساتھ باندھ رکھی تھیں۔

آج آٹا، چینی، پیٹرول اور بجلی نہ صرف مہنگی ہیں بلکہ عوام کی دسترس سے بھی باہر ہوتی جا رہی ہیں۔
پڑھے لکھے نوجوان روزگار کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں، اور حکومتی پالیسیاں اُن زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کر رہی ہیں جنہیں وقت بھر نہیں پا رہا۔

عمران خان سے سیاسی اختلافات ہوسکتے ہیں، مگر ایک سچ یہ بھی ہے کہ اس نے عوام کو شعور دیا، سوال اٹھانے کا حوصلہ دیا۔
اور شاید یہی اس کا سب سے بڑا "جرم" ٹھہرا۔

آج وہ جیل میں ہے یا نظربند ۔ مگر اس کی خاموشی، ایک گونج بن چکی ہے۔
اگر وہ واقعی ناکام رہنما تھا، تو اس کے بولنے سے اتنا خوف کیوں؟

پاکستان میں جب بھی کوئی نئی سوچ لے کر آتا ہے،
اس پر صرف الزام نہیں لگایا جاتا، بلکہ اسے منظر سے ہی غائب کر دیا جاتا ہے۔

عمران خان کی غیر موجودگی، دراصل اُس سوچ کی سزا ہے جو یہ کہتی ہے:
"حقیقی آزادی صرف ووٹ سے نہیں، شعور سے آتی ہے۔"

اختلافِ رائے اور سوال اٹھانا، جمہوریت کی بنیاد ہوتے ہیں لیکن جب قوم کو اپنے ہی سوالوں سے ڈرایا جانے لگے،
تو سمجھ لیجیے کہ نظام کمزور نہیں بلکہ خوفزدہ ہو چکا ہے۔

آخری بات
عمران خان واپس آئے یا نہ آئے،
اس کا بیانیہ زندہ ہے، اس کا سوال زندہ ہے ۔
اور عوام کے دل میں وہ امید اب بھی سانس لے رہی ہے۔

جب تک یہ امید زندہ ہے،نظام کو چین نصیب نہیں ہوگا۔

    تحریر:واصف آکاش واصفپاکستانی سوشل میڈیا پر ایک ہی نام گونج رہا ہے: کامران بشیر مسیح بھٹی۔ وائرل پوسٹس میں دعویٰ کیا ...
15/05/2025

تحریر:واصف آکاش واصف
پاکستانی سوشل میڈیا پر ایک ہی نام گونج رہا ہے: کامران بشیر مسیح بھٹی۔ وائرل پوسٹس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے بھارتی فضائیہ کے راجوڑی ایئربیس کو نشانہ بنایا اور دشمن کو خاک چٹا دی۔ اس دعوے کے ساتھ تصویریں، ویڈیوز، نعرے، ترانے اور جذباتی تحریریں ہر طرف پھیل گئیں۔ بعض نے انہیں نیا ایم ایم عالم قرار دے دیا۔ قوم خوشی سے سرشار ہے، مٹھائیاں بانٹی گئیں اور پھول برسائے گئے۔
مگر، حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے "کارنامے" پر پاکستان ایئر فورس نے کوئی تصدیق کی، نہ آئی ایس پی آر کی جانب سے کوئی بیان جاری کیا گیا اور نہ ہی کسی سرکاری ذریعے سے کوئی خبر آئی۔

تو سوال یہ ہے:

اگر واقعی راجوڑی پر حملہ ہوا تھا تو یہ جنگی کارروائی ہے۔ پھر اس پر قومی سطح پر خاموشی کیوں؟

اگر یہ جھوٹا بیانیہ ہے، تو کس نے یہ اتنی بڑی داستان گھڑی؟

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر میں کامران بشیر کی وردی پر "نیویگیٹر" کا بیج صاف نظر آ رہا ہے، جو اس بات کی تصدیق ہے کہ وہ فائٹر پائلٹ نہیں، بلکہ ٹرانسپورٹ نیویگیشن آفیسر ہیں۔

یہ سب معاملہ اس سنگین نکتہ کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہماری قوم و میڈیا کا فریب زدہ رویہ جھوٹ کو بھی اس طرح پھیلاتا ہے کہ وہ سچ لگنے لگتا ہے۔
جب کسی کی بہادری کا چرچا ہو، تو یہ پوری قوم کے لیے فخر کی بات ہے، مگر اگر وہ چرچا جھوٹ پر مبنی ہو، تو یہی فخر کل کو مذاق بن سکتا ہے۔ خاص طور پر اقلیتی برادری کے لیے، جو تاریخی طور پر پاکستان کی خدمت میں پیش پیش رہی ہے، یہ ایک نازک معاملہ ہے۔ سچائی کے بغیر اگر کوئی شخص ہیرو کے درجے پر فائز کر دیا جائے اور کل جب ایوارڈز یا اعزازات میں اس کا نام نہ ہوا تو وہی قوم جس نے اسے سر آنکھوں پر بٹھایا تھا، اس پر سوال اٹھائے گی۔

اب وقت ہے کہ
پاکستان ایئر فورس یا آئی ایس پی آر اس معاملے پر باقاعدہ وضاحت دے۔

اگر کامران بشیر نے کوئی کارنامہ انجام دیا ہے تو اس کی تفصیلات دی جائیں۔

اگر یہ محض سوشل میڈیا کی اختراع ہے تو قوم کو اصل حقیقت سے آگاہ کیا جائے تاکہ آئندہ کسی فرد یا برادری کو بے بنیاد امیدوں کا سہارا نہ دیا جائے۔

محبت سچ پر قائم ہوتی ہے اور سچ کو سامنے لانےکیلئے لازم ہے کہ سرکاری ریکارڈ سے اس واقعے کی تصدیق کی جائے اور لوگوں کے ذہنوں میں ابھرنے والے سوالات کا جواب دیا جائے۔

تحریر:واصف آکاش واصف (عمران خان ایک عظیم راہنما اور محب وطن ہے)   #فلمی ہیرو زسے تو ہر کوئی واقف ہے لیکن حقیقی اور اصل ہ...
13/03/2023

تحریر:واصف آکاش واصف
(عمران خان ایک عظیم راہنما اور محب وطن ہے) #
فلمی ہیرو زسے تو ہر کوئی واقف ہے لیکن حقیقی اور اصل ہیرو سے شناسائی عمران خان نے کروائی ہے جس نے پورے کرپٹ نظام سے ٹکر لے کر ثابت کیاہے کہ ہیرو حقیقت میں ایک با حوصلہ او ر پر وقار شخصیت کا حامل انسان ہوتا ہے جو ہر وہ کام کر سکتا ہے جو کسی عام انسان کیلئے کرپانا مشکل ہو۔ فلمساز تو فلموں میں محض ہیرو کی خوبیوں کی عکاسی کرتا ہے مگر عمران خان جیسے مرد مجاہد نے ان خوبیوں کو حقیقت کا روپ عطا کر دیا ہے جو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر حق اور سچ کے ساتھ کھڑا ہے اور تمام مخالف سیاسی جماعتوں کی ایسی دھلائی کررہا ہے جیسے فلمی ہیر واکیلا ہی ڈھروں غنڈوں پر غالب آجاتا ہے۔چونکہ عمران خان حق اور سچ کی جنگ لڑ رہا ہے اسلئے غیور قوم اسکے ساتھ ایک سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑی ہو چکی ہے اور اس پر مر مٹنے کو بھی تیار ہے۔ علی بلال (ظل شاہ) کی شہادت کے بعد خوف زدہ ہونے کی بجا ے لوگ جس طرح مزید طیش میں آچکے ہیں وہ ظلمت کے بتوں کو پاش پاش کرنے کیلئے بے قرار ہیں لیکن پھر بھی اپنے لیڈر کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے تحمل اوربرداشت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ عمران خان نے ہمیشہ اپنے کارکنوں کو پر امن رہنے کا درس دیا ہے جو کہ اس کے محب وطن اور عظیم راہنما ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عمران خان کو خدا نے جس عزت اور شہرت سے نواز دیا ہے دنیا کی تاریخ میں شاید ا س کی مثال بھی ڈھونڈنا مشکل ہے۔ہر ذی شعور انسان، اسکا تعلق پاکستان سے ہویا پھر دیگر ممالک سے وہ عمران خان پر دل و جان سے فدا ہے۔ عمران خان کے قول و فعل سے عیاں خلوص نیت اور اپنی قوم کی بہتری اور بقاء کی خاطر لازوال جدو جہد اس کرپٹ نظام کے خاتمے کی نوید سنا رہی ہے۔عوام کے محافظین کو بھی اب ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، وردی کی آڑ میں عام عوام پر بہیمانہ تشدد پولیس کی سب سے بڑی حماقت ہے کیونکہ وردی یا اس طاقت کا مقصد عوام کی حفاظت ہے نہ کہ فرعونی حکومت کی غلامی۔کتنا ظلم کرلو گے؟ ظلم آخر ظلم ہے، مٹ جا تا ہے اور یقین کرو وہ دن اب دور نہیں جب ظلم کی تاریک رات میں امن کا سورج طلوع ہوگا کیونکہ کہتے ہیں کہ ظلم جب حد سے بڑھ جائے توختم ہو جاتا ہے اور اس میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا کہ اب ظلم کی انتہا ہو چکی ہے جو یقینا اسکے خاتمے کا ذریعہ بنے گی۔ میری ان تمام دوستوں سے گزارش ہے جو موروثی سیاستدانوں کو چور کہتے ہوئے بھی فرسودہ نظام کے حامی ہیں اور کرپٹ حکمرانوں کی حمایت میں دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ وہ کھاتے ہیں تو کچھ نہ کچھ لگاتے بھی ہیں۔خدارا عقل کا دروازا کھولو غلط کو غلط کہکر بھی اگر آپ صحیح کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہو تو در حقیقت ملک کی بربادی کے سب سے بڑے ذمہ دار آپ ہو۔ براہ مہربانی اب بھی وقت ہے ہوش میں آجاؤ ورنہ ہمیشہ ا سی طرح دنیا میں بھکاری کے ناموں سے یاد کئے جاؤ گے۔ذرا سوچو عوام کے نام پر بھیک مانگ کر تو یہ کرپٹ حکمران خود ڈکار جاتے ہیں جبکہ سخت محنت ومشقت باوجود بھی بھوکوں مرنے والے عوام کو بلا وجہ اور خواہ مخواہ ان بھکاریوں نے بدنام کر رکھاہے جو انکا ہضم شدہ قرض اتارنے پر مجبور ہیں۔پاکستان کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر آج عوام دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہو چکے ہیں اور حکومت کی بے حسی اور مجرمانہ خاموشی پر دہائیاں دے رہے ہیں جنکی آہ و زاری کوئی حاکم یا کوئی منصف سننے کو تیار نہیں اور جہاں غریب کا پرسان حال کوئی نہ ہو وہاں حالات سے تنگ لوگ گناہ عظیم کے مرتکب ہونے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں جیسے چند روز قبل ایک دردناک واقعہ سننے میں آیا کہ ماں باپ نے بچوں سمیت زہر کھا کر خود کشی کر لی جو بجلی کا بل ادا نہ کر سکے تو بجلی کٹ گئی اور مکان کا کرایہ نہ دے پائے تو مالک مکان نے مکان سے نکل جانے کی دھمکی دیدی، یہی نہیں بے بسی کاعالم یہ تھا کہ بچوں کی خوراک کیلئے بھی پیسے نہیں تھے انکے پاس اورجب بچوں کو روٹی کا نوالہ بھی کھلانے کی سکت باقی نہ رہی توانہوں نے خود کو موت کا نوالہ بنانے میں ہی عاقبت سمجھی۔اس قسم کے افسوس ناک اور دل دہلا دینے والے واقعات سن کر یا دیکھ کر بھی اگر حکومتی ایوانوں میں جنبش تک نہ ہو تو ایسے ظالم حکمران تو کیا انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں جو اتنے بے شرم ہو چکے ہیں کہ ملک کو کنگال کرنے کے بعد بھی اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں ہو رہے۔ان کرپٹ حکمرانوں نے لوٹمار کا اتنا پیسہ بیرون ممالک جمع کر رکھا ہے جس سے انکی آنے والی کئی نسلیں عیش و عشرت کی زندگی بسر کر سکتی ہیں تویہ حکمران طبقہ کیونکر پاکستان کا سوچے گے؟جسکا پاکستان سے صرف لوٹمار یا حکمرانی تک کا رشتہ ہے اور جو ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت عوام پر مسلط ہے۔تاہم عوام کو اب اس گندے اور غلیظ نظام کے خلاف متحدہونا ہوگا اور کسی بھی صورت اس ظالمانہ طرز سیاست کوقبول کرنے سے گریز کرنا ہوگا اور پاکستان کی واحد امید عمران خان کا ہر صورت ساتھ دینا ہوگا جس نے اپنے دور اقتدار میں غریبوں کو جتنی بھی سہولیات فراہم کیں وہ قابل قدر اور لائق ستائش ہیں جن میں سر فہرست صحت کارڈ ہے جسکی اہمیت اس سہولت سے مستفید ہونے والے خاندان بہتر انداز سے سمجھ سکتے ہیں۔ بے شک عمران خان انتھک محنت اور طویل جدوجہد کے بعد اقتدار میں آیا تھااور اپنی سر توڑ کاوشوں کے باوجود بھی عوام کو 22سالہ عرصہ میں دکھائے ہوئے خوابوں کو تعبیر نہ کر سکاجسکی بڑی وجہ مربوط کرپٹ سسٹم تھا،ہاں یہ بھی سچ ہے کہ وہ اسی نظام کے خاتمے کیلئے آیا تھا مگر بدقسمتی سے حقیقت اسکی سوچ کے منافی نکلی کیونکہ کرپشن کا جال اس قدر مضبوط ہے کہ اسے کاٹنے کیلئے جو طاقت درکار تھی وہ اسے میسر نہ ہو سکی اس لئے وہ بے بس تھا اور اسی بے بسی کی عکاسی میرے ہی تحریر کردہ ایک کالم (22سالہ جدو جہد عوام کیلئے اب غریب کی سسکیاں بھی سنائی نہیں دیتیں)میں کی گئی ہے جو تاک نیوز پرآسانی سے مل جائے گا اور آپ پڑھ سکتے ہیں۔قلم بند کرنے سے قبل میں اپنی قوم کے ایسے افراد سے ایک چھوٹی سی د رخواست کرنا چاہوں گا جوعمران خان کے مخالف صحافیوں کو سننا پسند کرتے ہیں،میراپی ٹی آئی کارکن ظل شاہ کی شہادت کے بعد ان صحافیوں میں سے ایک کو سننے کا اتفاق ہوا لیکن افسوس کہ وہ بغض عمران میں ہی وقت کا برباد کرتا رہا مگرعوام پر یا اپنے ساتھی صحافیوں پر پولیس کی جانب سے ہونے والے تشدد پر ہمدردی کے دو الفاظ بھی ادا نہ سکا جو کہ صحافت ہی نہیں بلکہ انسانیت کی تذلیل ہے۔ آپکو صحیح اور غلط میں فرق معلوم ہونا چاہئے لہٰذا حکمرانوں یاصحافیوں میں کون سچائی ساتھ دینے والا ہے یا کون جھوٹ اور مبالغہ آرائی سے کام لے رہاہے میں تمیز کرنا اگر دشوار لگے تو ظا لم اور رحمدل میں تفریق تعصب کی عینک اتار کر کیجئے حقیقت آپکے سامنے ہوگی۔

تحریر:واصف آکاش واصف                                                                                 پاکستان تحریک انصاف...
25/02/2023

تحریر:واصف آکاش واصف
پاکستان تحریک انصاف کے بمشکل جمع کردہ قومی خزانے(جسے عوامی خدمت کے مختلف پروگراموں میں استعمال کیا جا رہا تھا) کو متحد سیاسی جماعتیں کھا کر ڈکار چکی ہیں اور باہم ملکر عوام کو مزید نوچ رہی ہیں جس حال کہ بے روزگاری اور بے قابو مہنگائی نے عوام کا جینا بھی محال کر رکھاہے۔اسوقت پوری قوم کی امید یں اعلیٰ عدلیہ سے وابستہ ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جب چاہیں ناہل حکومت کا تختہ الٹ سکتے ہیں ۔موجودہ حکومت کو رتی برابراحساس نہیں کہ جتنا بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈالا جا رہا ہے اسے وہ برداشت بھی کر پائیں گے یا نہیں۔ قابل احترام چیف جسٹس آف پاکستان سے ایک عام پاکستانی شہری کی حیثیت سے ا پیل ہے کہ عوام کی بے بسی اور لاچارگی کو دیکھتے ہوئے قانون و انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے اور جس طرح عمران خان کو حکومت سے برطرف کیا گیا تھا اسی طرح بذریعہ از خود نوٹس واپس بحال کیا جائے چونکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ملک اس حالت میں نہ ہے کہ انتخابات کروائے جا سکیں جو کہ حقیقت بھی ہےتاہم ملک کوجن مالی مشکلات کاسامنا ہے انکے پیش نظر الیکشن پہ خرچ کیا جانے والا پیسہ اب غریب عوام کی فلاح و بہبود کیلئے خرچ ہونا چاہئے۔وقت کا تقاضہ یہی ہےکہ جو عوام کو مہنگائی سے بچانے آئے تھے وہ تو بری طرح ناکام ہو چکے ہیں لہٰذا عمران خان جسے ہر ذی شعور پاکستانی کی حمایت بھی حاصل ہے اسے ملک چلانے کا موقع دیا جائے اورپاکستان کو اس نہج پر پہنچانے کی پاداش میں تمام سیاسی جماعتوں پر بھاری جرمانہ عائد کیا جائے اور جرمانے کی مد میں حاصل کی گئی رقم فوری طور پر قومی خزانے میں جمع کیے جانےکے صدور احکامات بھی صادر فرمائے جائیں تاکہ ملک کو مزید ڈوبنے سے بچایا جا سکے۔ آنجناب کا یہ بے باک اور عظیم اقدام نہ صرف تاحیات دعاؤں کا مستحق ہو گا بلکہ عدلیہ کے عزت و وقارمیں بے بہا اضافے کا سبب ہو گا۔

ملکی ترقی کا راز عوامی اتحاد میں مضمر ہے۔تحریر:واصف ۤکاش واصف                                                           ...
19/02/2023

ملکی ترقی کا راز عوامی اتحاد میں مضمر ہے۔
تحریر:واصف ۤکاش واصف
پاکستان کو معاشی طور پر تباہ و برباد کرنے میں جتنا ہاتھ بدیانت سیاستدانوں کا ہے اس سے کہیں بڑھکراہم کردار ہمارے بے حس اور تعلیم سے بے بہرہ ایک مخصوص طبقے کا ہے جو ہر دفعہ اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات یا چند روپوں کے عوض اپنا قیمتی ووٹ بیچ کر کرپٹ عناصر کے ہاتھوں ملک کو یرغمال بنا دیتا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں ایسے ظالمانہ طرز حکومت کی مثال نہیں ملتی جس میں حکمرانوں کی تمام تر کرپشن اور لوٹمار کا خمیازہ ایسے عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے جنکے گھروں میں پہلے ہی غربت ناچ رہی ہے اور جنکے ذرائع آمدن میں بھی تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔دم توڑتی معیشت اور بے روزگاری کے سبب لوگوں کی کثیر تعداد اس وقت غربت کی لکیر سے بھی نیچے آچکی ہے۔اس صورت حال میں بھاری بلوں کی ادائیگی یا ٹیکسز کا بوجھ برداشت کرنا غریب عوام کی دسترس سے باہر ہو چکا ہے۔ اس کرپٹ نظام سے لوگ انتہائی تنگ اور عاجز آ چکے ہیں۔ قانون اور انصاف کی عدم دستیابی سے جہاں ایک طرف لوگوں میں بے یقینی پیدا ہو چکی ہے وہیں دوسری جانب جرائم پیشہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہاہے،ہر طرف کرپشن اور غنڈا راج ہے۔ مجرمان کی پشت پناہی چونکہ حکومت میں بیٹھے مافیا کی جانب سے ہوتی ہے اسی لئے قانون بھی انکے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہتا ہے جبکہ غریب کے لئے قانون موت کا سوداگر بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے اشرافیہ نے آج تک غریب کے حق میں کوئی بھی قانون پاس نہیں ہونے دیا۔ قانون صرف طاقتور کی حفاظت اور کمزور کو دبانے کے لئے حرکت میں لایا جاتاہے۔ وقت آ گیا ہے کہ عوام صحیح و غلط میں تمیز کے بعد حق اور سچ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں، اگر یہ مافیا اپنے مفادات کی جنگ میں ایکا کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ ہمیں بدیانت حکمرانوں کو خیر باد کہنا ہو گا اور پاکستان کے روشن مستقبل کیلئے انفرادی و اجتماعی طور اپنا کردار نبھانا ہو گا۔آج ہمارے پاس عمران خان کی صورت میں ایک ایماندار اور مخلص لیڈر موجود ہے جو قوم کے لئے درد دل بھی رکھتا ہے۔ آپکو یاد ہو گا کہ جب عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو استحصالی قوتوں نے گروہ بندی کرتے ہوئے عمران کے خلاف طبل جنگ بجا دیا اور انہیں ناکام کرنے کیلئے زمین آسمان ایک کر دیے لیکن عمران خان جب تک وزیر اعظم پاکستان رہے مستقل مزاجی اور نیک نیتی سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ وہ ہر دل عزیز عمران خان ہی تھے جو کورونا جیسے خطرناک وبائی مرض کے دوران اپنے عوام کا دکھ،درد اور پریشانی محسوس کرتے ہوئے پولیس کو لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کی تلقین کرتے رہے جبکہ میڈیا اور مخالف سیاسی جماعتیں غریب عوام کے لئے کسی فرعون سے کم نہیں تھیں مگر شدید تنقید کے باوجو د خان صاحب عوام کے غمگسار بنے اور جو قوم کے لئے ہی نہیں بلکہ دنیا کی نظروں میں بھی چمکتا ستارہ ثابت ہوئے جنہوں نے بدترین حالات میں بھی معیشت کو کافی حد تک سنبھالے رکھا۔ بے شک وہ بے بس بھی تھے کیونکہ جب پوری دنیا کی معیشت کورونا کی وجہ سے متاثر ہوئی تو پاکستان میں بھی مہنگائی کی لہر سر اٹھانے لگی جسکے باعث انکے اپنے ووٹر یا سپوٹر بھی ان سے نالاں ہو گئے۔ سوالات کی بھرمار تھی کیونکہ لوگ 22سالہ جدو جہد کا نتیجہ سو فیصد چاہتے تھے۔ چنانچہ اگست 2001 میں تاک نیوز پر شائع ہونے والے ایک کالم بعنوان (بائیس سالہ جدو جہد غریب عوام کیلئے اب غریب کی سسکیاں بھی سنائی نہیں دیتیں) میں بندہ ناچیز نے عمران خان کی بے بسی کو لفظی جامہ پہنانے کوشش کی ہے جسکا اقرار عمران خان آج خود بھی کر رہے ہیں۔ پاکستان کو اس نہج پر پہنچانے والوں کا کھیل اب ختم ہونا چاہئے۔ وطن پاک کی آخری امید عمران خان ہیں کیونکہ عمران ہی واحد ایسے لیڈر یا راہنماہیں جن کے ایک اشارے پر عوام کا ایک روپیہ 23کروڑ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ اگر باہم اکٹھے ہوکر یہ رقم حکومتی ٹیکس کے علاوہ جمع کر لی جائے تو اسے زرعی پیداوار بڑھانے یا تعلیم و صحت جیسے منصوبوں پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔عوام کے لئے انفرادی طور پر 5یا10روپے کوئی حیثیت نہیں رکھتے مگر اجتماعی صورت میں یہی پیسے مشکل حالات میں پاکستانی عوام کی کفالت کا بہتر بندوبست کر سکتے ہیں،میرا تو یہی خیال ہے آپ کیا کہتے ہیں؟؟؟اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجئے گا! اسی امید کے ساتھ قلم بند کروں گا کہ پاکستانی اب غلامی کی زنجیروں کو توڑتے ہوئے ملکی ترقی میں ایک دوسرے کا ساتھ سیاسی اختلافات کو بھلا کر نبھائیں گے۔

Address

Faisalabad

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Taak News posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share