10/11/2025
"سیف سٹی یا سیف بزنس؟
ای-چالان کے نام پر عوام کا معاشی استحصال"
تحریر:واصف آکاش واصف
سرکاری بیانیہ یہ ہے کہ Safe City منصوبہ شہری آبادیوں میں جدید نِگرانی، ٹریفک منیجمنٹ اور فوری کمانڈ اینڈ کنٹرول کے ذریعے شہریوں کو تحفط فراہم کرے گا ۔ ایک مربوط نِظام(IC3) جس سے ریسپانس تیز اور تحقیقات موثر ہوں گی۔ یہ منشور خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے مگر زمینی حقائق اِس سے کہیں زیادہ سنگین اور کڑوے ہیں۔
کوئی نِظام جب عوامی شعور اور بُنیادی اِنفراسٹرَکچَر کے بغیر لاگو کیا جاتا ہے تو وہ محفوظ نہیں بلکہ مفقود ہوکر طاقت کا آلہ بن جاتا ہے۔ سڑکوں پر واضح سائن بورڈز اور شعوری مُہِم شروع کیے بغیر کیمروں کے ذریعے چالان روانہ کر دینا کہاں کا انصاف ہے؟ ریاست کے اسی غیر سنجیدہ و غیر منظم رویے سے عوام میں شدید غم وغصہ اور احساسِ محرومی پیدا ہو رہا ہے۔
عمومی شِکایت یہی ہے کہ اپیل کے طریقے پیچِیدہ ہیں، شَواہِد اکثر مُبہَم لگتے ہیں اور شہری جب عدالتی یا انتظامی عمل کی طرف دیکھتے ہیں تو انہیں دیوارِعدم شَفّافیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عوام سمجھتے ہیں کہ موجودہ نِظام اُن کو سہولت کے بجائے ایک نیا محصولی طریقہ مُتعارِف کروا رہا ہے جو شہریوں کی جیب یا پیٹ کاٹنے کے لئے کام کر رہا ہے۔
سیکیورِٹی کے نام پر جمع کیے جانے والے ڈیٹا کی حِفاظَت اور رازداری پر خدشات تو پہلے سے موجود تھے، ماہِرِین اور سِوِل سوسائٹی اِس حوالے سے بارہا مُتَنبِہ کر چکے ہیں کہ ڈیٹا پروٹیکشن کے ضَوابِط کمزور ہیں اور معلُومات کے غلط استعمال کے اِمکانات زیادہ ہیں۔ جب نِگرانی کے آلے شہریوں کی ذاتی زندگی میں گُھس جائیں تو نِظام شہروں کی آزادی اور نِجی زندگی کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے: کیا یہ نِظام واقعی حِفاظَت کے لیے ہے یا ٹیکس اور جُرمانے کے نام پر سرکاری آمدنی بڑھانے کا سہل طریقہ؟
حکومت کے دیگر اِقتِصادِی فیصلے عوام کو پہلے ہی کنگال کر چُکے ہیں، بِجلی، گیس اور روزمرہ اَخراجات نے لوگوں کو بے بس اور مقرُوض بنا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں سَخت جُرمانے عوام کے لیے ایک ناقابلِ برداشت بوجھ بن چکے ہیں۔ محسُوس یہ ہورہا ہے کہ 'سیف سٹی' منصوبہ آمدنی کا ایسا ذریعہ ہے جو لوگوں کی مَجبُوری اور اِس قانون سے ناواقفِیت کے باعث حکمومت کی جیبیں گرمائے گا۔ اِس رویے کے خِلاف معاشرتی ردعمل بھی فِطری ہے۔
عام شہری، بعض سیاسی حلقے اور شہری حقوق کی تنظیمیں بھی کہہ رہی ہیں کہ جب تک بُنیادی اِنفراسٹرَکچَر، روڈ مارکنگ، سائن ایج، آگاہی پروگرام اور شَفّاف اَپِیل مَیکَنِزم موجود نہ ہو، ای-چالان جیسی پالیسیاں معطل ہونی چاہئیں۔ یہی وجہ ہے کہ عَدالتوں میں بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور بعض حَلقوں کی جانِب سے معطلی کی درخواستیں بھی دائر کی گئی ہیں۔ راقِم الحُرُوف اِس منصوبے کے اوائل میں ہی اس کے منفی پہلووں کو اُجاگَر کر چکا ہے کیونکہ جب درست کام بھی غلط طریقے سے شروع کیا جائے تو وہ سوالات میں گھر جاتا ہے۔ جو مَنظَر نامَہ ہم دیکھ رہے ہیں وہ سادہ الفاظ میں یہ ہے: خیال اچھا، نَفَاذ ناقِص اور ناقِص نَفَاذ صرف تکنیکی خرابی نہیں، یہ معاشرتی نااِنصافی کو جَنَم دیتا ہے۔
حِفاظَت تبھی حقیقی کہلائے گی جب نِظام شہریوں کے حَُقُوق، شَفّافِیَت اور عدالتی رسائی کے تقاضوں کو پورا کرے گا۔ ذرا سوچو! جب عوام کے پاس دو وقت کی روٹی کے پیسے نہ ہوں اور حکومت 'سیف سٹی' کے نام پر بھاری جُرمانے عائد کر کےاُنہیں مزید پریشان کر رہی ہو تو ایسا منصوبہ قانون اور انصاف کے عین منافی ہے۔ یہ شہریوں کی حفاظت کا بند و بست نہیں بلکہ اُنکی ہڈیوں سے گودا تک نکال لینے کےمُتَرادِف ہےکیونکہ خون تو بیچارے عوام کا پہلے ہی نِچوڑا جا چکا ہے!
اگر حکومت واقعی عوام کے لیے سنجیدہ ہوتی تو پہلے عوام کے مسائل دیکھتی،اُنہیں حل کرتی اور پھر شہر کی حِفاظَت کا خواب دیکھتی۔ پہلے انسانوں کو زندہ تو رہنے دو، پھر سڑکوں کو محفوظ کرنا ورنہ قانون انصاف کا نہیں بلکہ ظلم کا آلہ بنتا نظر آئے گا۔ ریاستوں کی طاقت عوام کے اعتماد سے بڑھتی ہے، نہ کہ ان کے خوف سے۔ کیمروں سے نِگرانی مُمکِن ہے مگر انصاف نہیں۔ تَحفُظ تب ملے گا جب حکومت عوام کو مجرم نہیں، شہری سمجھ کر سلوک کرے گی اور یاد رکھنا! عوام کو آنکھ نہیں، نظرِ عِنایَت چاہئے۔ کیمرے نہیں، کردار چاہیے۔
اصلاحات اور مطالبات:
کم آمدنی والے شہریوں کے جرمانوں میں رعایت دی جائے۔
ہر چالان کے ساتھ واضح فوٹیج، وقت اور زاویہ فراہم کیا جائے۔
جرمانوں کی رقم صرف ٹریفک انفراسٹرکچر، ہنگامی طبی سہولیات اور عوامی آگاہی پر خرچ کی جائے۔
آسان اپیل: اپیل کا سادہ، آن لائن اور تیز نظام بنایا جائے تاکہ شہری آسانی سے انصاف حاصل کر سکیں۔
سول سوسائٹی اور شہری نمائندے اس منصوبے کی نگرانی میں شامل کیے جائیں۔
ہر شہری کے جرمانے اس کی آمدنی کے تناسب سے مقرر کیے جائیں تاکہ غریب طبقہ متاثر نہ ہو۔
ای چالان سسٹم کو پہلے پائلٹ زون میں آزما کر پھر عوامی سطح پر نافذ کیا جائے۔
میڈیا، تعلیمی اداروں اور عوامی مقامات پر مسلسل آگاہی مہم چلائی جائے۔
قارئینِ کرام! اپنی قیمتی رائے ضرور شامل کریں اور اگر آپ متفق ہیں تو اسے زیادہ سے زیادہ شیئر کریں تاکہ ہماری آواز حکومتی ایوانوں تک پہنچ سکے۔