
29/05/2025
بل بجلی یا پھانسی کا پھندا؟
(غریب کی جیب میں حکومت کا ہاتھ)
تحریر:واصف آکاش واصف
پاکستان کا ہر غریب ہر مہینے اسی کشمکش میں مبتلا ہوتا ہے کہ بچوں کو کھانا دوں یا بجلی کا بل ادا کروں؟
حکومت نے بجلی کا ایسا ظالمانہ نظام قائم کر رکھا ہے
جس نے عام آدمی کا جینا محال کر دیا ہے۔
200 یونٹ تک تو کچھ رعایت ہے،
لیکن جونہی یہ حد عبور ہو ۔
ہر یونٹ غریب کے گوشت سے گویا خون نچوڑتا ہے۔
سمجھ سے بالاتر ہے کہ
یہ کس زہریلے دماغ کی اختراع ہے کہ 200 کے بعد صرف ایک یونٹ بھی بل نہیں، سزا بن جاتا ہے!
یہ “سلیب سسٹم” ایک فریب ہے:
1 سے 100 یونٹ: نسبتاً سستا
101 سے 200 یونٹ: تھوڑا مہنگا
201 یا اس سے زائد تو سیدھا غریب کی جیب پر ڈاکا ہے!
ذرا سوچیں،
اکثر میٹر ریڈر کی تاخیر، یا چند لمحوں کا اضافی استعمال ایک یونٹ بڑھا دیتا ہے
تو اس پالیسی کو منصفانہ کیسے کہا جا سکتا ہے؟
حکومت ہوش کے ناخن لے!
غریب کی حالت پر رحم کھائے۔
کم از کم 300 یونٹ تک فی یونٹ ریٹ 10 روپے ہونا چاہیے کیونکہ اگر ایک عام گھر میں صرف
ایک پنکھا، ایک فریج، پانی کی موٹر اور چند بلب چلیں
تو بھی مہینے کے آخر تک بل 200 یونٹ سے اوپر چلا جاتا ہے۔
امیر بچ گیا، مگر غریب پِس گیا
امیر کے پاس سولر، UPS، جنریٹر، اور دو دو میٹر ۔ہر سہولت موجود۔
اور غریب؟بس ایک میٹر، نہ سولر، نہ کوئی بچاؤ۔
مہینے بھر کی خون پسینے کی کمائی وہ بھی بلوں اور ٹیکسوں میں لٹ جاتی ہے!
عدلیہ اور حکومت کی مجرمانہ خاموشی
یہ خاموشی کیا خود ایک جرم نہیں؟
ہر مہینے عوام چیختی ہے، کوئی نہیں سنتا!
عدالتیں، جو انصاف کی آخری امید ہیں،وہ بھی غریب کیلئے اپنے دروازے بند کیے ہوئے ہیں۔
چند تلخ سوالات:
کیا 201 یونٹ استعمال کرنا جرم ہے؟
کیا غریب صرف ووٹ دینے کے لیے پیدا ہوا ہے؟
کیا ریاست صرف اشرافیہ کی جاگیر ہے؟
کیا انصاف صرف طاقتور کی دہلیز پر جاگتا ہے؟
آخری بات:
جس ملک میں روشنی کے بجائے بل جلیں،
انصاف کے بجائے خاموشی بولےاور عوام کا صبر روز آزمایا جائے
وہاں ترقی نہیں ، زوال سر اٹھاتا ہے۔
پاکستان کے نعرے لگانا کافی نہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم سب مل کر اسے بہتر بنائیں۔
کیا آپ تیار ہیں؟
اپنی رائے دیں تاکہ یہ آواز اتنی بلند ہوکہ ایوانِ اقتدار میں بھی جنبش ہوسکے۔