Taak News

Taak News (Taak News) The voice of the people is a unique and effective means of conveying the government houses.

"سیف سٹی یا سیف بزنس؟                 ای-چالان کے نام پر عوام کا معاشی استحصال"تحریر:واصف آکاش واصفسرکاری بیانیہ یہ ہے ک...
10/11/2025

"سیف سٹی یا سیف بزنس؟
ای-چالان کے نام پر عوام کا معاشی استحصال"

تحریر:واصف آکاش واصف

سرکاری بیانیہ یہ ہے کہ Safe City منصوبہ شہری آبادیوں میں جدید نِگرانی، ٹریفک منیجمنٹ اور فوری کمانڈ اینڈ کنٹرول کے ذریعے شہریوں کو تحفط فراہم کرے گا ۔ ایک مربوط نِظام(IC3) جس سے ریسپانس تیز اور تحقیقات موثر ہوں گی۔ یہ منشور خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے مگر زمینی حقائق اِس سے کہیں زیادہ سنگین اور کڑوے ہیں۔

کوئی نِظام جب عوامی شعور اور بُنیادی اِنفراسٹرَکچَر کے بغیر لاگو کیا جاتا ہے تو وہ محفوظ نہیں بلکہ مفقود ہوکر طاقت کا آلہ بن جاتا ہے۔ سڑکوں پر واضح سائن بورڈز اور شعوری مُہِم شروع کیے بغیر کیمروں کے ذریعے چالان روانہ کر دینا کہاں کا انصاف ہے؟ ریاست کے اسی غیر سنجیدہ و غیر منظم رویے سے عوام میں شدید غم وغصہ اور احساسِ محرومی پیدا ہو رہا ہے۔

عمومی شِکایت یہی ہے کہ اپیل کے طریقے پیچِیدہ ہیں، شَواہِد اکثر مُبہَم لگتے ہیں اور شہری جب عدالتی یا انتظامی عمل کی طرف دیکھتے ہیں تو انہیں دیوارِعدم شَفّافیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عوام سمجھتے ہیں کہ موجودہ نِظام اُن کو سہولت کے بجائے ایک نیا محصولی طریقہ مُتعارِف کروا رہا ہے جو شہریوں کی جیب یا پیٹ کاٹنے کے لئے کام کر رہا ہے۔

سیکیورِٹی کے نام پر جمع کیے جانے والے ڈیٹا کی حِفاظَت اور رازداری پر خدشات تو پہلے سے موجود تھے، ماہِرِین اور سِوِل سوسائٹی اِس حوالے سے بارہا مُتَنبِہ کر چکے ہیں کہ ڈیٹا پروٹیکشن کے ضَوابِط کمزور ہیں اور معلُومات کے غلط استعمال کے اِمکانات زیادہ ہیں۔ جب نِگرانی کے آلے شہریوں کی ذاتی زندگی میں گُھس جائیں تو نِظام شہروں کی آزادی اور نِجی زندگی کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے: کیا یہ نِظام واقعی حِفاظَت کے لیے ہے یا ٹیکس اور جُرمانے کے نام پر سرکاری آمدنی بڑھانے کا سہل طریقہ؟

حکومت کے دیگر اِقتِصادِی فیصلے عوام کو پہلے ہی کنگال کر چُکے ہیں، بِجلی، گیس اور روزمرہ اَخراجات نے لوگوں کو بے بس اور مقرُوض بنا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں سَخت جُرمانے عوام کے لیے ایک ناقابلِ برداشت بوجھ بن چکے ہیں۔ محسُوس یہ ہورہا ہے کہ 'سیف سٹی' منصوبہ آمدنی کا ایسا ذریعہ ہے جو لوگوں کی مَجبُوری اور اِس قانون سے ناواقفِیت کے باعث حکمومت کی جیبیں گرمائے گا۔ اِس رویے کے خِلاف معاشرتی ردعمل بھی فِطری ہے۔

عام شہری، بعض سیاسی حلقے اور شہری حقوق کی تنظیمیں بھی کہہ رہی ہیں کہ جب تک بُنیادی اِنفراسٹرَکچَر، روڈ مارکنگ، سائن ایج، آگاہی پروگرام اور شَفّاف اَپِیل مَیکَنِزم موجود نہ ہو، ای-چالان جیسی پالیسیاں معطل ہونی چاہئیں۔ یہی وجہ ہے کہ عَدالتوں میں بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور بعض حَلقوں کی جانِب سے معطلی کی درخواستیں بھی دائر کی گئی ہیں۔ راقِم الحُرُوف اِس منصوبے کے اوائل میں ہی اس کے منفی پہلووں کو اُجاگَر کر چکا ہے کیونکہ جب درست کام بھی غلط طریقے سے شروع کیا جائے تو وہ سوالات میں گھر جاتا ہے۔ جو مَنظَر نامَہ ہم دیکھ رہے ہیں وہ سادہ الفاظ میں یہ ہے: خیال اچھا، نَفَاذ ناقِص اور ناقِص نَفَاذ صرف تکنیکی خرابی نہیں، یہ معاشرتی نااِنصافی کو جَنَم دیتا ہے۔

حِفاظَت تبھی حقیقی کہلائے گی جب نِظام شہریوں کے حَُقُوق، شَفّافِیَت اور عدالتی رسائی کے تقاضوں کو پورا کرے گا۔ ذرا سوچو! جب عوام کے پاس دو وقت کی روٹی کے پیسے نہ ہوں اور حکومت 'سیف سٹی' کے نام پر بھاری جُرمانے عائد کر کےاُنہیں مزید پریشان کر رہی ہو تو ایسا منصوبہ قانون اور انصاف کے عین منافی ہے۔ یہ شہریوں کی حفاظت کا بند و بست نہیں بلکہ اُنکی ہڈیوں سے گودا تک نکال لینے کےمُتَرادِف ہےکیونکہ خون تو بیچارے عوام کا پہلے ہی نِچوڑا جا چکا ہے!

اگر حکومت واقعی عوام کے لیے سنجیدہ ہوتی تو پہلے عوام کے مسائل دیکھتی،اُنہیں حل کرتی اور پھر شہر کی حِفاظَت کا خواب دیکھتی۔ پہلے انسانوں کو زندہ تو رہنے دو، پھر سڑکوں کو محفوظ کرنا ورنہ قانون انصاف کا نہیں بلکہ ظلم کا آلہ بنتا نظر آئے گا۔ ریاستوں کی طاقت عوام کے اعتماد سے بڑھتی ہے، نہ کہ ان کے خوف سے۔ کیمروں سے نِگرانی مُمکِن ہے مگر انصاف نہیں۔ تَحفُظ تب ملے گا جب حکومت عوام کو مجرم نہیں، شہری سمجھ کر سلوک کرے گی اور یاد رکھنا! عوام کو آنکھ نہیں، نظرِ عِنایَت چاہئے۔ کیمرے نہیں، کردار چاہیے۔

اصلاحات اور مطالبات:

کم آمدنی والے شہریوں کے جرمانوں میں رعایت دی جائے۔

ہر چالان کے ساتھ واضح فوٹیج، وقت اور زاویہ فراہم کیا جائے۔

جرمانوں کی رقم صرف ٹریفک انفراسٹرکچر، ہنگامی طبی سہولیات اور عوامی آگاہی پر خرچ کی جائے۔

آسان اپیل: اپیل کا سادہ، آن لائن اور تیز نظام بنایا جائے تاکہ شہری آسانی سے انصاف حاصل کر سکیں۔

سول سوسائٹی اور شہری نمائندے اس منصوبے کی نگرانی میں شامل کیے جائیں۔

ہر شہری کے جرمانے اس کی آمدنی کے تناسب سے مقرر کیے جائیں تاکہ غریب طبقہ متاثر نہ ہو۔

ای چالان سسٹم کو پہلے پائلٹ زون میں آزما کر پھر عوامی سطح پر نافذ کیا جائے۔

میڈیا، تعلیمی اداروں اور عوامی مقامات پر مسلسل آگاہی مہم چلائی جائے۔

قارئینِ کرام! اپنی قیمتی رائے ضرور شامل کریں اور اگر آپ متفق ہیں تو اسے زیادہ سے زیادہ شیئر کریں تاکہ ہماری آواز حکومتی ایوانوں تک پہنچ سکے۔









ریاست جب اندھی ہو جائے تو عوام کو آنکھیں کھولنا پڑتی ہیں۔ظلم کے اندھیروں میں روشنی بنو، خاموشی نہیں۔               تحریر...
06/10/2025

ریاست جب اندھی ہو جائے تو عوام کو آنکھیں کھولنا پڑتی ہیں۔
ظلم کے اندھیروں میں روشنی بنو، خاموشی نہیں۔


تحریر:واصف آکاش واصف
ریاست جب اندھی ہو جاتی ہے تو قانون انصاف نہیں کرتا، طاقتور کی غلامی کرنے لگتا ہے اور تخت و تاج بظاہر تو سلامت نظر آتے ہیں مگر ان کی بنیادیں دیمک زدہ ہو جاتی ہیں۔ یہی دیمک انہیں اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیتی ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے یہ خودساختہ حاکم چاہتے ہیں کہ رعایا ہمیشہ ان کی اندھی تقلید کرتی رہے، سوال نہ اٹھائے، حق نہ مانگے اور اپنے حصے کا انصاف نہ طلب کرے مگر المیہ یہ ہے کہ اب عوام کا شعور صرف کتابوں کا محتاج نہیں بلکہ مسلسل تجربات کی بھٹی میں تپ کر پختہ ہو چکا ہے۔ حکمران بھی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ عوام کو اب محض نعروں سے بہلانا آسان نہیں رہا، اسی لیے انہوں نے ایک نیا ہتھیار نکالا ہے، جو ہے لوگوں کو معاشی طور پر کمزور کر کے غلام بنانا۔

یہ کوئی الزام نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جو خود اپنے چہرے سے نقاب ہٹا چکی ہے۔
کہتے ہیں ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۔
اگر ایسا ہے تو سن لو! ماں وہ ہستی ہے جو بھوکی رہ کر بھی اپنی اولاد کو کھلاتی ہے، خود ساری رات جاگ کر بھی اپنے بچوں کو سکون کی نیند سلاتی ہے، اپنی خواہشات قربان کر کے اولاد کے مستقبل کو سنوارتی ہے۔
مگر یہ کیسی "ماں" ہے جو اپنے عیش و عشرت کے لیے تو بجٹ سے خزانے نکال لیتی ہے مگر اپنی رعایا کے خون پسینے کی کمائی پر ٹیکسوں اور بلوں کی صورت میں ڈاکے ڈالتی ہے؟ یہ کیسی ریاست ہے جس کے وزراء کی مراعات تو ہر سال بڑھتی ہیں مگر عام آدمی روٹی کے دو نوالے کو ترستا ہے؟

بلوں کا بوجھ عوام کی کمر پہلے ہی توڑ چکا تھا کہ اب حکومت نے "روڈ سیفٹی" کے نام پر عوام کو نوچنے کا ایک اور طریقہ ڈھونڈ نکالا۔ سوال یہ ہے کہ کیا انصاف یہی ہے کہ پہلے عوام کو بے روزگار کرو، پھر انہیں سڑکوں پر گھسیٹو اور ان پر ایسے قوانین لاگو کرو جو کبھی ان کو سکھائے ہی نہیں گئے؟

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں حکومتیں پہلے عوام کو سہولیات دیتی ہیں، تعلیم و آگاہی فراہم کرتی ہیں، انفراسٹرکچر درست کرتی ہیں، پھر قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرواتی ہیں۔
جرمنی، سویڈن اور جاپان جیسے ممالک میں ٹریفک قوانین صرف سزاؤں کے لیے نہیں بلکہ انسانی جان بچانے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ سڑکوں کی مرمت، اشاروں کا درست نظام، عوامی تربیت اور سخت احتساب سب ایک ہی نظام کا حصہ ہیں۔ وہاں حکومت پہلے اپنے حصے کی ذمہ داری نبھاتی ہے پھر عوام سے جواب طلبی کرتی ہے۔

مگر ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ یہاں سڑکوں پر گڑھے ہیں، مین شاہراہوں پر گٹروں کے ڈھکن ٹوٹے پڑے ہیں، بارش میں عوام خود کھلے گٹروں میں ٹہنیاں گاڑ کر حادثات سے بچاؤ کرتے ہیں مگر پھر بھی ان پر ہزاروں کے جرمانے عائد کیے جا رہے ہیں۔ اگر حکومت کے پاس عوامی سہولیات کے لیے فنڈز نہیں تو پھر عوام کے پاس ان بھاری جرمانوں کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ یہی وہ تضاد ہے کہ ظلم کو "نظام" کا نام دیا جاتا ہے۔

تاریخ گواہ ہے ظلم آخر مٹ کر رہتا ہے۔ جب روم کے ایوان عوامی فلاح سے منہ موڑ بیٹھے تو صدیوں پر محیط سلطنت ایک شورش میں ڈھیر ہو گئی اور جب فرانس کے بادشاہ رعایا کے آنسوؤں پر اپنی عیاشیوں کے محل تعمیر کرتے رہے تو انہی محلوں کے دروازے گیلوٹین کے سامنے جا کھلے۔ ظلم کا انجام ہمیشہ زوال ہی ہوتا ہے۔

حکومت ہوش کے ناخن لے اور پہلے اپنے حصے کا کام کرے۔ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، ان کو بچاؤ! آئے روز کوئی نہ کوئی واقعہ ایسا ہوتا ہے کہ لوگ ٹریفک پولیس کے جبر سے عاجز آ کر اپنا رکشہ جلا دیتے ہیں اور خود کو بھی آگ کی نذر کر کے اپنا ہی نقصان کر بیٹھتے ہیں۔ لوگوں کی حالت پہ رحم کھاؤ اور ڈرو اس دن سے جب عوام کا صبر بھی جواب دے دے گا۔ بیس تیس ہزار روپے کے جرمانے عوام کیسے ادا کریں گے جب پورا مہینہ ایڑیاں رگڑنے پرانہیں پاکستان میں اتنی تنخواہ ہی ملتی ہے؟

یہ قانون بھی تو اسی لیے بنایا گیا کہ مقدمہ بنا کر جیل میں ڈالو، لوگ پریشان ہو کر کسی سے مانگ تانگ کے بھی ضمانت کروائیں گے اور اس طرح حکومتی خزانے میں اضافہ ہوگا۔ ذرا سوچو، کب تک ایسا چلے گا؟ اب تو مڈل کلاس بھی رونے کو آ گئی ہے کہ گزر بسر ہی مشکل ہو گیا ہے، کاروبار ختم ہو گئے ہیں۔ کہتے ہیں کسی کو اتنا نہ ڈراؤ کہ وہ ڈرنا ہی چھوڑ دے۔
روڈ سیفٹی کے نام پہ خوف کا کاروبار بند ہونا چاہئے اور عوام کی فلاح و بہبود کے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

اگر حکومت سنجیدگی سے کام کرنا چاہتی ہے تو عوام دشمن نہیں بلکہ عوام دوست منصوبے تشکیل دے۔ اپنی شاہ خرچیاں کم کر کے عوام کو سہولیات فراہم کرے، اپنی مصنوعی تشہیری مہم پر پیسہ برباد کرنے کے بجائے عوامی آگہی کی تشہیر کرے جس میں لوگوں کو نظم و ضبط کا پابند بنانے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے۔ میڈیا کا بھی فرض ہے کہ اپنا کردار ادا کرے یہی میڈیا کی ذمہ داری بھی ہے۔ لوگ ایک دن سمجھ جائیں گے کہ خود کا تحفظ کتنا ضروری ہے اور قوانین پر عمل درآمد کیوں ناگزیر ہوتا ہے۔ اس وقت عوام حکومت کے ان اقدامات کو اپنے اوپر ہونے والا ظلم قرار دے رہے ہیں، جو کہ حقیقت بھی ہے۔ لوگوں کو آگاہی دو، اگر ہیلمٹ نہیں تو مفت ہیلمٹ فراہم کرو، پھر بھی خلاف ورزی جاری رہے تو وارننگ دو، اگر پھر نہ مانیں تو جرمانوں کے ساتھ سزا بھی واجب ہے۔

اب ذرا آئینہ عوام کے سامنے رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ سچ یہی ہے کہ ظلم صرف ایوانوں میں نہیں، ہماری گلی کوچوں اور گھروں میں بھی جنم لیتا ہے۔
ہم خود بھی ایک دوسرے کے حقوق پامال کرتے ہیں، رشوت دیتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، قطار توڑتے ہیں، دوسروں کا حصہ چھین لیتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکمران بدل جائیں مگر خود کو بدلنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ یاد رکھو! جو قوم خود انصاف کی عادی نہ ہو وہ انصاف مانگنے کا حق بھی کھو دیتی ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم صرف شکایت نہ کریں بلکہ شعور کے ساتھ کھڑے ہوں۔ اگر ہم عملی قدم نہیں اٹھا سکتے تو کم از کم سب مل کر ایک وقت مقرر کریں، دل سے دعا کریں، ہر روز ایک ہی وقت پر خدا سے فریاد کریں کہ وہ ہم پر رحم کرے اورہمیں ظلم کے اندھیروں سے نکالے۔
اٹھو، سچ کو پہچانو، اپنے حصے کی آواز بنو! ظلم کے سامنے خاموشی سب سے بڑا گناہ ہے اور اس سے بھی پہلے اپنے اندر کے ظالم کو ختم کرو، اپنے کردار کو درست کرو۔ اپنی حالت بدلنے کی کوشش کرو کیونکہ خدا بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جس کو خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔

لوگ بے بس، حکمران بے حسّ"پانی کی ہر لہر امید بہا لے گئی، ایوانوں کی دیواریں پھر بھی ساکت رہیں"تحریر: واصف آکاش واصفپاکست...
03/09/2025

لوگ بے بس، حکمران بے حسّ
"پانی کی ہر لہر امید بہا لے گئی، ایوانوں کی دیواریں پھر بھی ساکت رہیں"
تحریر: واصف آکاش واصف

پاکستان میں بارشوں کے سبب سیلاب کوئی نئی بات نہیں۔ یہاں تو دو گھنٹوں کی بارش بھی سیلابی منظر دکھا دیتی ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر سال وہی مناظر دہرائے جاتے ہیں۔ ٹوٹے ہوئے گھر، اجڑے کھیت اور خالی ہاتھ کھڑے لوگ، مگر اقتدار کے ایوانوں میں سکوت طاری رہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہماری ریاست صرف دکھاوے کی پریس کانفرنسز اور چند فوٹو سیشنز تک محدود ہے؟ اگر متاثرہ لوگوں کا درد صرف کیمروں کے سامنے جاگتا ہے تو یہ نظام عوام کے لیے نہیں بلکہ صرف اپنے وجود کو ثابت کرنے کے لیے چل رہا ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ متاثرین کو سب سے پہلے صاف پانی، خیمے، ادویات اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ امدادی سامان زیادہ تر کاغذوں میں بانٹا جاتا ہے، عوام تک تو صرف خاک کے ذرے پہنچتے ہیں۔ یہ وہ ننگی حقیقت ہے جو کسی بیان بازی سے نہیں چھپ سکتی۔

پالیسی سازوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آفت آنے کے بعد امداد بانٹنا اصل کام نہیں، بلکہ مستقبل کے لیے حکمت عملی بنانا اہم ہوتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں پانی کے بہاؤ کو قابو کرنے کے لیے ڈیمز، واٹر چینلز، ایمرجنسی سسٹمز اور فوری ریسکیو پلانز پہلے سے تیار ہوتے ہیں۔ ہم کیوں ہر سال صرف ایمرجنسی میٹنگز پر ہی اکتفا کرتے ہیں؟

وقت آگیا ہے کہ عوام اور حکمران باہمی تعاون سے ٹھوس اقدامات اٹھائیں تاکہ موسمی تبدیلی کے اثرات کم کیے جا سکیں۔ یہ اقدامات مشکل نہیں، صرف نیک نیتی درکار ہے۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ دکھاوے کی سیاست چھوڑ کر حقیقی معنوں میں عوام کے خادم بنیں۔ عوام کے ٹیکس سے تنخواہیں لینے والے اداروں کو فعال کریں، صفائی ستھرائی کے نظام کو بہتر بنائیں، نئی سڑکوں کو اس انداز سے تعمیر کریں کہ ان میں پانی جذب کرنے کی صلاحیت ہو۔ سڑک بناتے وقت پانی، گٹر اور سوئی گیس کی پائپ لائن پہلے بچھائی جائیں تاکہ دوبارہ توڑ پھوڑ نہ ہو۔

ڈیمز کی تعمیر کے لیے ایسا قانون بنایا جائے کہ حکومت کوئی بھی ہو، یہ کام رکے نہیں۔ درخت لگانے کی مہم اسی شدت سے چلائی جائے جیسے کورونا کے وقت آگاہی مہم چلائی گئی تھی۔ اگر اب بھی غفلت برتی گئی تو حالات مزید بگڑ جائیں گے۔ عوام کو بہت لوٹا جا چکا، اب وقت ہے کہ ان کے دل جیتے جائیں۔ شاید عوام کی نفرت کم ہوگئی تو خدا بھی معاف کر دے، ورنہ یہ عیش و عشرت اسی دنیا تک محدود ہے اور آخرت میں سخت جواب دینا ہوگا۔

سیلابی صورت حال سے نمٹنے کے لیے حکومت کو متاثرہ علاقوں میں فوری امدادی سامان اور علاج معالجے کے حفاظتی اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ مصیبت زدہ افراد کی داد رسی ہو سکے۔ یہ کوئی احسان نہیں بلکہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی رعایا کے جان و مال کی حفاظت کرے اور ان کے دکھ درد میں شریک ہو۔

عوام کو بھی چاہیے کہ وہ احتیاطی تدابیر اپنائیں۔ خطرناک سیلابی علاقوں میں گھر بنانے سے گریز کریں، پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے ذخائر اور حوض تعمیر کریں، گھروں کے فرش ایسے بنائیں جن سے پانی زمین میں اتر سکے اور گلیوں کو صاف رکھیں۔

نالوں اور دریاؤں کے قدرتی راستے بحال کرنے کے لیے بھی ہنگامی بنیادوں پر اقدامات وقت کی ضرورت ہے۔ اگر آج ہم خاموش رہے کہ سیلاب کا نشانہ براہ راست ہم نہیں بنے، تو کل یہ قہر سب پر نازل ہوگا اور اس وقت دنیا کی کوئی طاقت ہمیں بچا نہیں سکے گی۔

یہ ایک چھوٹا سا اشارہ ہے، اور کہتے ہیں کہ سمجھدار کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔

                                                                          تحریر:واصف آکاش واصفقدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ انس...
01/09/2025


تحریر:واصف آکاش واصف
قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ انسان کی تباہی و بربادی کی بڑی وجہ ہے۔ پاکستان میں ہر چند سال بعد دریا بپھر جاتے ہیں، بارشیں زور دکھاتی ہیں اور بستیاں پانی کی نذر ہو جاتی ہیں۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب قدرت کا قہر ہے یا انسان کی اپنی ناعاقبت اندیشی؟ حقیقت یہ ہے کہ قدرت صرف پانی دیتی ہے، تباہی ہم خود پیدا کرتے ہیں۔
۱۹۸۸ء کے سیلاب کو ہی لیجیے۔ پانی ضرور آیا مگر زمین کے پاس سانس لینے کی گنجائش تھی۔ کھلے کھیت، درخت اور مٹی پانی کو سمیٹ لیتے تھے۔ آج صورتِ حال مختلف ہے۔ دریاؤں کے کناروں پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا دی گئیں، برساتی نالوں پر قبضے کر لیے گئے، جنگلات ختم کر دیے گئے اور زمین کی قدرتی جذب کرنے کی صلاحیت چھین لی گئی۔ اب ہر قطرہ پانی راستہ ڈھونڈنے نکلتا ہے تو بستیوں کو بہا لے جاتا ہے۔
حالیہ سیلابی صورتِ حال عوام اور حکومت دونوں کے لیے کبھی نہ بھولنے والا سبق ہونا چاہیے۔ عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ قدرتی راستوں پر اراضی لے کر گھر بنانا دراصل اپنی قبر کھودنے کے مترادف ہے۔ گھر بنانا ہے تو سوچ سمجھ کر ایسی جگہوں کا انتخاب کیجیے جہاں پانی کا بہاؤ نہ ہو۔ جنگلات کو کاٹنے کے بجائے لگانا شروع کیجیے تاکہ زمین کے پاس پانی کو سنبھالنے کی قوت رہے۔ عوام کو ان برائے نام حکمرانوں پر کسی قسم کی توقع رکھے بغیر خود سے اقدامات اٹھانا ہوں گے تاکہ ناراض قدرت کو راضی کیا جا سکے۔
جیسا کہ شہروں میں ہر گھر، ہر صحن اور ہر گلی کنکریٹ اور ٹائلز سے ڈھک دی گئی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بارش کا پانی زمین میں جذب ہونے کے بجائے بہہ کر نالوں پر دباؤ ڈالتا ہے اور آخرکار تباہی کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔ اگر پورا صحن کچا رکھنا مشکل ہے تو کم از کم اینٹیں وقفوں (gaps) کے ساتھ لگائی جائیں تاکہ پانی اپنا راستہ بنا کر زمین میں اتر سکے۔ گھروں میں چھوٹے حوض یا بارش کے کنویں (soak pits) بنائے جائیں اور ہر مکان میں تھوڑی سی کچی زمین یا باغیچہ چھوڑ دیا جائے۔ یہ بظاہر چھوٹے اقدامات ہیں مگر اگر لاکھوں گھروں میں اپنائے جائیں تو زمین کے اندر پانی کے بڑے ذخائر بن سکتے ہیں۔ یوں ہر گھر ایک چھوٹے ڈیم کا کردار ادا کرے گا اور وہی بارش کا پانی جو آج تباہی ہے، کل زندگی اور زرخیزی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
حکومت کو بھی اپنی ذمہ داری کا ادراک ہونا بے حد ضروری ہے۔ ورنہ آج تو غریب کے گھر بہہ رہے ہیں مگر کل جب قدرت غضبناک طریقے سے ظاہر ہوگی تو دنیا کی کوئی طاقت ان حکمرانوں کو بھی نہیں بچا سکے گی جنہیں اپنی دولت اور مضبوط پناہ گاہوں پر ناز ہے۔ خدارا! اب بھی وقت ہے ہوش کے ناخن لیں، ہاؤسنگ مافیا کو لگام ڈالیں، نالوں اور دریاؤں کے راستے بحال کریں، اور سب سے بڑھ کر پانی ذخیرہ کرنے کے لیے فوری ڈیم اور چھوٹے ریزروائر بنائیں جو وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ہر سال بارش کے اربوں گیلن پانی کو ضائع ہونے دینا قومی جرم ہے۔ یہ وہ دولت ہے جو اگر سنبھالی جائے تو بجلی پیدا کر سکتی ہے، کھیت سیراب کر سکتی ہے اور زیرِ زمین پانی، جو کہ شہری علاقوں میں سو فٹ سے بھی نیچے جا چکا ہے، اسے بھی بھر سکتی ہے۔
سیلاب ہمارا کوئی دشمن نہیں، یہ ہماری کوتاہیوں کا آئینہ ہے۔ فیصلہ اب ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم پانی کو سنبھال کر اپنی آنے والی نسلوں کو زندگی دیں یا اپنی غلطیوں سے تباہی کا تحفہ چھوڑ جائیں۔

حقیقت پر مبنی ایک خوبصورت تحریر،اچھی لگے تو اسے  شئیر کریں !
26/08/2025

حقیقت پر مبنی ایک خوبصورت تحریر،اچھی لگے تو اسے شئیر کریں !

'' سوالوں میں گھرا پاکستان"
تحریر :واصف آکاش واصف
"جب کوئی قوم خواب دیکھنا چھوڑ دے، تو نہ دن کی روشنی اسے راحت دیتی ہے، نہ رات کی تاریکی اسے چین لینے دیتی ہے۔" پاکستان اس وقت ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں خواب مر چکے ہیں، حقیقتیں زخم بن چکی ہیں اور زخم ناسور بنتے جا رہے ہیں۔
یہ ملک جس مقصد کے تحت وجود میں آیا تھا ،وہ تھا ایسا خطہ جہاں انصاف، اخوت، اور آزادی ہو۔ وہ الفاظ اب صرف تقریروں، نصابی کتب اور عدالتی کاغذوں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہاں سچ بولنے والا غدار ،حق مانگنے والا باغی
اور ظلم سہنے والا ہی مجرم کہلاتا ہے۔
قومیں جغرافیے سے نہیں، کردار سے بنتی ہیں۔ مگر یہاں کردار کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ ہر کوئی سمجھوتہ کر کے زندہ رہنا سیکھ گیا ہے۔
جنہیں رہبر کہا گیا، وہ راہزن نکلے۔ جنہیں محافظ سمجھا، وہ لٹیروں کے ہم نوالہ ہو گئے۔
آج کا پاکستان صرف سوال بن چکا ہے:
کیا جمہوریت صرف بیانات کا نام ہے؟ کیا آزادی صرف ایک تاریخ کی یاد ہے؟
کیا انصاف صرف طاقتور کے در پر ملتا ہے؟ کیا یہ ملک صرف زندہ رہنے کے لیے ہے، یا جینے کے لیے بھی؟
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود، یہاں کی مٹی اب بھی زرخیز ہے۔ لوگ اب بھی خواب دیکھتے ہیں، بچے اب بھی سوال کرتے ہیں، ماں اب بھی دعا ئیں کرتی ہے، اور کچھ لوگ اب بھی سچ بولتے ہیں ۔یہ جانتے ہوئے کہ اس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔
یہی نشانیاں ہیں کہ پاکستان اب بھی سلامت ہے، مگر بیمار ہے جسکا
علاج طاقت سے نہیں، سچائی، علم، برداشت، اور خود احتسابی سے ممکن ہے۔
یہ زمین ان بیجوں کی منتظر ہے جو صرف نیت کی نمی اور عمل کی دھوپ سے اگتے ہیں۔
سوچنے والی بات یہ ہے جیسے ہر عروج کو زوال ہوتا ہے ،ویسے ہی ہر طاقتور ایک دن کمزور پڑ جاتا ہے ،طاقت خدا کی عطا کردہ وہ نعمت ہے جو نیک مقصد لئے استعمال ہو تو عبادت بن جاتی ہے جبکہ اس کا غلط یا ناجائز استعمال انسان کو گناہ کی اُس دلدل میں دھکیل دیتا ہے، جہاں انجام صرف تباہی، تنہائی اور پچھتاوا ہوتا ہے۔

بل بجلی یا پھانسی کا پھندا؟(غریب کی جیب میں حکومت کا ہاتھ)تحریر:واصف آکاش واصف پاکستان کا ہر غریب ہر مہینے اسی کشمکش میں...
29/05/2025

بل بجلی یا پھانسی کا پھندا؟
(غریب کی جیب میں حکومت کا ہاتھ)
تحریر:واصف آکاش واصف
پاکستان کا ہر غریب ہر مہینے اسی کشمکش میں مبتلا ہوتا ہے کہ بچوں کو کھانا دوں یا بجلی کا بل ادا کروں؟

حکومت نے بجلی کا ایسا ظالمانہ نظام قائم کر رکھا ہے
جس نے عام آدمی کا جینا محال کر دیا ہے۔
200 یونٹ تک تو کچھ رعایت ہے،
لیکن جونہی یہ حد عبور ہو ۔
ہر یونٹ غریب کے گوشت سے گویا خون نچوڑتا ہے۔

سمجھ سے بالاتر ہے کہ
یہ کس زہریلے دماغ کی اختراع ہے کہ 200 کے بعد صرف ایک یونٹ بھی بل نہیں، سزا بن جاتا ہے!
یہ “سلیب سسٹم” ایک فریب ہے:
1 سے 100 یونٹ: نسبتاً سستا
101 سے 200 یونٹ: تھوڑا مہنگا
201 یا اس سے زائد تو سیدھا غریب کی جیب پر ڈاکا ہے!

ذرا سوچیں،

اکثر میٹر ریڈر کی تاخیر، یا چند لمحوں کا اضافی استعمال ایک یونٹ بڑھا دیتا ہے
تو اس پالیسی کو منصفانہ کیسے کہا جا سکتا ہے؟

حکومت ہوش کے ناخن لے!
غریب کی حالت پر رحم کھائے۔
کم از کم 300 یونٹ تک فی یونٹ ریٹ 10 روپے ہونا چاہیے کیونکہ اگر ایک عام گھر میں صرف
ایک پنکھا، ایک فریج، پانی کی موٹر اور چند بلب چلیں
تو بھی مہینے کے آخر تک بل 200 یونٹ سے اوپر چلا جاتا ہے۔

امیر بچ گیا، مگر غریب پِس گیا

امیر کے پاس سولر، UPS، جنریٹر، اور دو دو میٹر ۔ہر سہولت موجود۔
اور غریب؟بس ایک میٹر، نہ سولر، نہ کوئی بچاؤ۔
مہینے بھر کی خون پسینے کی کمائی وہ بھی بلوں اور ٹیکسوں میں لٹ جاتی ہے!

عدلیہ اور حکومت کی مجرمانہ خاموشی
یہ خاموشی کیا خود ایک جرم نہیں؟
ہر مہینے عوام چیختی ہے، کوئی نہیں سنتا!
عدالتیں، جو انصاف کی آخری امید ہیں،وہ بھی غریب کیلئے اپنے دروازے بند کیے ہوئے ہیں۔

چند تلخ سوالات:
کیا 201 یونٹ استعمال کرنا جرم ہے؟
کیا غریب صرف ووٹ دینے کے لیے پیدا ہوا ہے؟
کیا ریاست صرف اشرافیہ کی جاگیر ہے؟
کیا انصاف صرف طاقتور کی دہلیز پر جاگتا ہے؟

آخری بات:
جس ملک میں روشنی کے بجائے بل جلیں،
انصاف کے بجائے خاموشی بولےاور عوام کا صبر روز آزمایا جائے
وہاں ترقی نہیں ، زوال سر اٹھاتا ہے۔

پاکستان کے نعرے لگانا کافی نہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم سب مل کر اسے بہتر بنائیں۔

کیا آپ تیار ہیں؟
اپنی رائے دیں تاکہ یہ آواز اتنی بلند ہوکہ ایوانِ اقتدار میں بھی جنبش ہوسکے۔



















"پسے ہوئے طبقات اور بے حس ریاست"تحریر :واصف آکاش واصفپاکستان میں اس وقت عوام کی زندگی انتہائی قابلِ رحم ہے۔ غریب آدمی ہر...
27/05/2025

"پسے ہوئے طبقات اور بے حس ریاست"
تحریر :واصف آکاش واصف
پاکستان میں اس وقت عوام کی زندگی انتہائی قابلِ رحم ہے۔ غریب آدمی ہر طرف سے پس رہا ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، استحصال اور ناانصافی جیسے کئی بوجھ اس کے کندھوں پر لاد دیے گئے ہیں، اور بدلے میں اسے دیا گیا ہے صرف خاموشی کا سبق۔

کارخانوں میں مزدوروں سے روزانہ 12 سے 16 گھنٹے تک کام لیا جاتا ہے، اور تنخواہ اتنی دی جاتی ہے کہ گھر کا چولہا مشکل سے جلتا ہے۔ مزدور کی عزتِ نفس کو قدموں تلے روندا جاتا ہے؛ زبان کھولنے پر نوکری جانے کا خوف، اور حق مانگنے پر باغی ہونے کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے۔
حکومت کی جانب سے آئے روز بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ بل اتنے زیادہ آتے ہیں کہ غریب آدمی تنخواہ ہاتھ میں لینے سے پہلے ہی مقروض ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف، حکومتی وزرا اور مشیروں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ ایسے کیا جا رہا ہے جیسے کہ ملک خوشحالی کی مثال بن چکا ہو۔

جو لوگ کرائے کے گھروں میں رہتے ہیں، ان کی زندگی ایک مستقل خوف میں گزر رہی ہے: مالک مکان کا رویہ، بلوں کا دباؤ، مہنگائی کا عذاب، اور بچوں کی ضروریات کا بوجھ۔ تعلیم، علاج اور زندگی کے بنیادی حقوق ایک خواب بن چکے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ لوگ بے چینی اور الجھن کا شکار ہیں۔ اگر کوئی ان حالات پر آواز اٹھاتا ہے تو اسے سیاسی لیبل دے کر خاموش کر دیا جاتا ہے۔ عوام ایسے گھٹن زدہ ماحول میں زندگی یوں گزار رہے ہیں گویا اُن سے جینے کا حق بھی چھین لیا گیا ہو۔

یہ معاشرہ اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں سچ بولنے والا دشمن سمجھا جاتا ہے، اور ظلم سہنے والے کو مظلوم نہیں، الٹا مجرم گردانا جاتا ہے۔ ریاست کا کام سہارا دینا ہوتا ہے، لیکن یہاں تو ریاست خود بوجھ بنتی جا رہی ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ ہم ان آوازوں کو محسوس کریں جو ابھی دبی ہوئی ہیں مگر پھٹنے کو ہیں، ان آنکھوں کو دیکھیں جو روز امید لے کر کھلتی ہیں، اور ان خوابوں کو سمجھیں جو غربت کی دیواروں سے ٹکرا کر چکنا چور ہو جاتے ہیں۔

یہ دنیا فانی ہے، کچھ بھی ہمیشہ قائم رہنے والا نہیں۔ اقتدار کا سورج بھی آخر ڈوب جاتا ہے۔ اگر کچھ قائم رہتا ہے تو وہ ہے "انسانیت"، جو انسان کو اندرونی سکون اور راحت عطا کرتی ہے۔
ریاست عوام کی طاقت سے قائم رہتی ہے۔کہتے ہیں ریاست ماں جیسی ہوتی ہے ، اگر واقعی ریاست ماں جیسی ہوتی ہے تو کیا ماں ایسی ہوتی ہے؟
















؟

'' سوالوں میں گھرا پاکستان"تحریر :واصف آکاش واصف"جب کوئی قوم خواب دیکھنا چھوڑ دے، تو نہ دن کی روشنی اسے راحت دیتی ہے، نہ...
25/05/2025

'' سوالوں میں گھرا پاکستان"
تحریر :واصف آکاش واصف
"جب کوئی قوم خواب دیکھنا چھوڑ دے، تو نہ دن کی روشنی اسے راحت دیتی ہے، نہ رات کی تاریکی اسے چین لینے دیتی ہے۔" پاکستان اس وقت ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں خواب مر چکے ہیں، حقیقتیں زخم بن چکی ہیں اور زخم ناسور بنتے جا رہے ہیں۔
یہ ملک جس مقصد کے تحت وجود میں آیا تھا ،وہ تھا ایسا خطہ جہاں انصاف، اخوت، اور آزادی ہو۔ وہ الفاظ اب صرف تقریروں، نصابی کتب اور عدالتی کاغذوں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہاں سچ بولنے والا غدار ،حق مانگنے والا باغی
اور ظلم سہنے والا ہی مجرم کہلاتا ہے۔
قومیں جغرافیے سے نہیں، کردار سے بنتی ہیں۔ مگر یہاں کردار کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ ہر کوئی سمجھوتہ کر کے زندہ رہنا سیکھ گیا ہے۔
جنہیں رہبر کہا گیا، وہ راہزن نکلے۔ جنہیں محافظ سمجھا، وہ لٹیروں کے ہم نوالہ ہو گئے۔
آج کا پاکستان صرف سوال بن چکا ہے:
کیا جمہوریت صرف بیانات کا نام ہے؟ کیا آزادی صرف ایک تاریخ کی یاد ہے؟
کیا انصاف صرف طاقتور کے در پر ملتا ہے؟ کیا یہ ملک صرف زندہ رہنے کے لیے ہے، یا جینے کے لیے بھی؟
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود، یہاں کی مٹی اب بھی زرخیز ہے۔ لوگ اب بھی خواب دیکھتے ہیں، بچے اب بھی سوال کرتے ہیں، ماں اب بھی دعا ئیں کرتی ہے، اور کچھ لوگ اب بھی سچ بولتے ہیں ۔یہ جانتے ہوئے کہ اس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔
یہی نشانیاں ہیں کہ پاکستان اب بھی سلامت ہے، مگر بیمار ہے جسکا
علاج طاقت سے نہیں، سچائی، علم، برداشت، اور خود احتسابی سے ممکن ہے۔
یہ زمین ان بیجوں کی منتظر ہے جو صرف نیت کی نمی اور عمل کی دھوپ سے اگتے ہیں۔
سوچنے والی بات یہ ہے جیسے ہر عروج کو زوال ہوتا ہے ،ویسے ہی ہر طاقتور ایک دن کمزور پڑ جاتا ہے ،طاقت خدا کی عطا کردہ وہ نعمت ہے جو نیک مقصد لئے استعمال ہو تو عبادت بن جاتی ہے جبکہ اس کا غلط یا ناجائز استعمال انسان کو گناہ کی اُس دلدل میں دھکیل دیتا ہے، جہاں انجام صرف تباہی، تنہائی اور پچھتاوا ہوتا ہے۔

"اکیلا سچ، ہزاروں جھوٹوں پر بھاری ہوتا ہے"تحریر :واصف آکاش واصفپاکستان کی فضا میں اگر آج کچھ گونج رہا ہے، تو وہ محض جھوٹ...
24/05/2025

"اکیلا سچ، ہزاروں جھوٹوں پر بھاری ہوتا ہے"
تحریر :واصف آکاش واصف
پاکستان کی فضا میں اگر آج کچھ گونج رہا ہے، تو وہ محض جھوٹ کی بازگشت ہے۔
میڈیا کی دنیا میں سچائی تقریباً ناپید ہو چکی ہے، کیونکہ صحافت اب اصولوں کا نہیں، بولی کا میدان بن چکی ہے۔
خبر اب ضمیر سے نہیں نکلتی، قیمت سے بنتی ہے۔ عدالتوں میں سچ کٹہرے میں صفائی دیتا ہے، جبکہ جھوٹ ریاستی سرپرستی میں پروان چڑھتا ہے۔
سوال یہ ہے:
کیا جھوٹ کے اس شور میں، سچ واقعی دفن ہو جاتا ہے؟
نہیں!
سچ کبھی مٹتا نہیں۔ وہ وقتی طور پر چھپ تو سکتا ہے، مگر فنا نہیں ہوتا۔
یہی تو اس کی اصل طاقت ہے۔
جھوٹ ہر چینل پر بکتا ہے، ہر جلسے میں گونجتا ہے، ہر طاقتور کی زبان پر سجا ہوتا ہے۔
مگر سچ...
سچ انمول ہوتا ہے،
نہ خریدا جا سکتا ہے، نہ بیچا جا سکتا ہے۔
اسی لیے سچ تنہا ہوتا ہے، مگر معتبر اور قائم رہنے والا ہوتا ہے۔

اگر تمہیں لگے کہ سچ کہیں کھو گیا ہے، تو سنو...
وہ خاموش ضرور ہے، مگر مٹا نہیں۔
جیسے رات جتنی بھی گہری ہو، طلوعِ صبح کو نہیں روک سکتی،
ویسے ہی جھوٹ جتنا بھی پھیل جائے،
سچ کی روشنی کو ماند نہیں کر سکتا۔
یاد رکھو:
جھوٹ وقتی فائدہ دیتا ہے، مگر سچ دائمی سکون اور وقار بخشتا ہے۔
جھوٹ آخرکار اپنی موت آپ مر جاتا ہے،
مگر سچ...
سچ ہمیشہ زندہ رہتا ہے ۔دلوں میں، ذہنوں میں اور تاریخ کے اوراق میں۔

تو اگر تم سچ کے مسافر ہو، تو گھبراؤ مت۔کیونکہ انجام ہمیشہ انہی کا روشن ہوتا ہے،
جو سچ پر ڈٹے رہتے ہیں،چاہے تنہا ہی کیوں نہ ہوں۔










"عمران خان" وہ آواز جو دبائی نہیں جا سکتی۔۔۔تحریر :واصف آکاش واصف پاکستان جیسے غربت کے مارے اور خستہ حال ملک میں، جب اُس...
22/05/2025

"عمران خان" وہ آواز جو دبائی نہیں جا سکتی۔۔۔
تحریر :واصف آکاش واصف
پاکستان جیسے غربت کے مارے اور خستہ حال ملک میں، جب اُس غریب کی بات ہوگی
جس کا بچہ سرکاری اسپتال کے فرش پر تڑپا ہو،
جس نے نوکری کے خواب چکناچور ہوتے دیکھے ہوں،
یا وہ بے بس باپ، جس کے بچے کے ہاتھ میں اسکول بیگ کے بجائے مزدوری کی چھاپ ہو
تو اُس کی امید وہی آواز ہو سکتی ہے
جو اس کے درد کو نہ صرف محسوس کرے، بلکہ اس کے حق میں للکارے۔
یہی وجہ ہے کہ عمران خان عوام کے دلوں میں گھر کر گیا۔
کیونکہ اس نے ان سے وعدے نہیں کیے . احساس دیا۔
اس نے احساس پروگرام شروع کیا،
جہاں پہلی بار ریاست نے غریب کی دستک پر دروازہ کھولا۔اس نے صحت کارڈ دیا،تاکہ جس ماں کے ہاتھ میں دوا کے پیسے نہ ہوں،وہ کم از کم عزت سے اپنے بچوں کا علاج کرا سکے۔
اس نے پناہ گاہیں بنائیں،تاکہ کوئی مزدور سرد راتوں میں فٹ پاتھ پر نہ سوئے۔

اس نے کہا:"ہم قرض نہیں، غیرت کی بات کریں گے۔"
اس نے "مدینے کی ریاست" کا تصور دیا .جہاں حکمران خود کو عوام کا خادم سمجھے۔
لیکن حالت یہ ہے کہ آج جب کوئی اپنے حق کے لیے بولتا ہے،
تو اسے خاموش کرا دیا جاتا ہے۔نہ عدالتیں انصاف دے پا رہی ہیں،
نہ میڈیا سچ دکھا پا رہا ہے۔سچ تو اب خوف کی دیواروں کے پیچھے قید ہے۔
لیکن سوال یہ ہے:
کہ صرف اس لیے کہ کسی نے غریب کا درد محسوس کیا؟
کسی نے مدینے کی ریاست کا خواب دکھایا؟یا قرض کی بجائے غیرت کی بات کی
تو وہ مجرم ہے؟کیا غریب کا ساتھ دینا گناہ ہے؟کیا عدل کی بات کرنا بغاوت ہے؟
اگر ہاں !تو پھر ہم سب مجرم ہیں۔قوم خان کو اس لیے چاہتی ہے،
کیونکہ وہ ان سے الگ نہیں، وہ ان ہی میں سے ہے۔
اس کے لہجے میں وہی تلخی ہے،جو ہر مزدور کے دل میں ہے۔
اس کی آنکھوں میں وہی آنسو ہیں،جو ہر ماں نے اپنے بیٹے کے لیے چھپائے۔
عدالتیں چاہیں تو قید کر لیں،میڈیا چاہے تو بدنام کر دے،
طاقت چاہے تو ظلم ڈھا دے ۔
مگر ایک بات یاد رکھنا:
جس دن عوام کی زبان سے "خان" کا نام چھینا گیا،
اسی دن ان کے لبوں سے امید کا ذائقہ بھی چھن جائے گا۔








رپورٹ: (تاک نیوز)فیصل آبادبستے لہو سے بھیگ گئے: بچوں پر دہشت گردی کی نئی خونی داستان!کبھی اسکول کی گھنٹی بجی،کبھی چیخوں ...
21/05/2025

رپورٹ: (تاک نیوز)فیصل آباد
بستے لہو سے بھیگ گئے: بچوں پر دہشت گردی کی نئی خونی داستان!
کبھی اسکول کی گھنٹی بجی،
کبھی چیخوں کی صدا آئی،
کہیں تختی پر خون بکھرا،
کہیں بستہ آخری بار بند ہوا۔۔۔

آج خضدار میں ایک خودکش حملے نے پوری قوم کو پھر سے ہلا کر رکھ دیا۔
ایک فوجی اسکول کی بس کو نشانہ بنایا گیا، جس میں تین معصوم بچے اور دو دیگر افراد شہید ہوئے، جبکہ متعدد زخمی ہیں۔

دہشت گرد تعلیم کے دشمن ہیں یا بچوں کے؟
کیا یہ وحشیانہ حملے کسی مخصوص ایجنڈے کا حصہ ہیں یا صرف معصومیت کا قتل؟
کیا ہم اس تلخ حقیقت کو کبھی تسلیم کریں گے کہ ہمارے بچے، جو کل کا مستقبل ہیں، آج بھی محفوظ نہیں؟

تعلیم ایک قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے، لیکن پاکستان میں کئی بار اسے توڑنے کی کوشش کی گئی۔
اسکولوں کو بارود سے اڑایا گیا، معصوم بچوں کو گولیوں سے بھونا گیا، اور درسگاہوں کو خون میں نہلا دیاگیا۔
خونی تاریخ کے کچھ اہم باب:
16 دسمبر 2014 ۔ آرمی پبلک اسکول، پشاور
حملہ آوروں نے 144 بچوں اور اساتذہ کو بے دردی سے شہید کیا۔
یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے المناک سانحہ تھا۔

20 جنوری 2016 ۔ باچا خان یونیورسٹی، چارسدہ21 افراد شہید، 20 سے زائد زخمی۔
اُس روز کلاس ختم نہ ہوئی ،ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔

27 اکتوبر 2020 ۔پشاور
ایک مدرسے سے متصل مسجد میں دھماکہ، 8 افراد جاں بحق، 90 سے زائد زخمی ہوئے۔
تعلیم کی جگہ لاشیں اور آہیں رہ گئیں۔

ریاست کی ناکامی:
کیا ہمارے سیکیورٹی ادارے بچوں کی حفاظت کے لیے مؤثر اقدامات کر رہے ہیں؟
کیا دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوئی جامع حکمت عملی موجود ہے؟
سب سے اہم سوال: معصوم بچوں نے کس کا کیا بگاڑا تھا؟

تعلیم دشمن عناصر بار بار ہمارے مستقبل کے معماروں کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔
اور ریاست خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
یہ حملے صرف بم دھماکے نہیں، بلکہ ہمارے کل کی تباہی کا منصوبہ ہیں۔
آخر کب تک ہم دھماکوں کی آواز سے خوفزدہ رہیں گے؟
آخر کب تک معصوم بچوں کا ناحق خون بہتا رہے گا؟
اور کب تک ہمارا کل اجڑتا رہے گا؟

"گدھے کی مظلومیت اور انسان کی قنوطیت"تحریر:واصف آکاش واصفکبھی آپ نے ایک گدھے کی آنکھوں میں جھانکا ہے؟وہ خاموش، تھکی ہوئی...
19/05/2025

"گدھے کی مظلومیت اور انسان کی قنوطیت"

تحریر:واصف آکاش واصف

کبھی آپ نے ایک گدھے کی آنکھوں میں جھانکا ہے؟
وہ خاموش، تھکی ہوئی، اور سوال کرتی ہوئی آنکھیں...
نہ وہ بول سکتا ہے، نہ شکایت کر سکتا ہے، نہ ہڑتال پر جا سکتا ہے۔
بس ساری زندگی بوجھ کھینچتا ہے.کڑی دھوپ میں، بھوکا پیاسا، گالیاں سنتا ہوا، ڈنڈے کھاتا ہوا
بس چلتا رہتا ہے اور ایک دن خاموشی سے مر جاتا ہے۔

یہ سچ ہے کہ وہ انسان نہیں، مگر کیا وہ جاندار بھی نہیں جسے تکلیف ہوتی ہے؟
یہ صرف ایک جانور کی کہانی نہیں
یہ انسان کے گدھا بن جانے کی داستان بھی ہے۔

ہم نے تہذیب کا لبادہ تو اوڑھ لیا، مگر اندر سے حیوانیت کو پال لیا۔

رکشے پر وزن زیادہ ہو تو چالان، گاڑی کی رفتار بڑھے تو جرمانہ،
لیکن گدھے پر
ایک بے زبان جانور پر
جتنا چاہو بوجھ ڈال دو؟ نہ کوئی چالان، نہ روکنے والا، نہ آواز اٹھانے والا۔

کیا کبھی کسی تھانے میں یہ ایف آئی آر کٹی ہے کہ
"فلاں شخص نے ایک بے زبان کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی؟"
نہیں!
کیونکہ قانون صرف انسانوں کے لیے ہےیا شاید صرف طاقتور انسانوں کے لیے۔

اب سنیے دوسری طرف کی کہانی:
لاہور میں حال ہی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر شہریوں کو جیل میں ڈالا جا رہا ہے۔
چلو مان لیا کہ قانون کی عمل داری ضروری ہے،
مگر سوال یہ ہے:

جب پولیس خود اپنے فرائض پورے نہ کرے، تو اسے کون پکڑے؟

کیا one-way پر واضح سائن بورڈز لگے ہوتے ہیں؟
کیا ہر سڑک پر رفتار کی حد واضح طور پر درج ہوتی ہے؟
کیا ریاست نے کبھی شہری کو قوانین سکھانے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی؟
نہیں!

نہ اسکولوں میں روڈ سیفٹی کا کوئی مضمون،
نہ میڈیا پر قوانین کی آگاہی،
نہ ٹریفک اہلکاروں کی مکمل تربیت۔

جب آگاہی ہی نہیں، تو سزا کیسے؟

بیرونِ ممالک مثلاً یورپ، کینیڈا، یا جاپان میں بچپن سے ہی شہریوں کو قوانین سکھائے جاتے ہیں۔
ہر چوک پر واضح نشانیاں، رفتار کی حد، سمت کے بورڈ،
اور قانون توڑنے پر صرف سزا نہیں بلکہ تربیتی کورسز بھی کروائے جاتے ہیں۔

وہاں پولیس حاکم نہیں، خادم ہوتی ہے۔
وہاں قانون کو خوف سے نہیں، شعور اور بھروسے سے مانا جاتا ہے۔

پاکستان میں پولیس اکثر خود قانون شکنی کرتی ہے
رشوت عام،جعلی چالان،
اور شہریوں سے بدسلوکی معمول بن چکا ہے۔

کئی اہلکار خود ون وے پر گاڑیاں دوڑاتے ہیں۔

تو سوال پھر وہی ہے:

خلاف ورزی کرنے والا گناہگار ہے یا خلاف ورزی کروانے والا؟

حل کیا ہے؟
صرف سزا نہیں شعور، آگاہی، اور اصلاح۔

جیسا کہ حکومت اپنے سیاسی اشتہارات ہر دیوار پر آویزاں کرتی ہے،
اسی طرح قوانین کے فلیکس اور بورڈز ہر علاقے میں لگائے جائیں۔
اسکولوں اور کالجوں میں روڈ سیفٹی کو باقاعدہ نصاب میں شامل کیا جائے۔
میڈیا پر روزانہ مختصر، مگر پُراثر آگاہی مہمات چلائی جائیں۔
ٹریفک پولیس کو تربیت دی جائے کہ وہ شہری سے حاکمانہ نہیں، انسانیت سے پیش آئے۔

خلاف ورزی کرنے والے کو پہلے تنبیہ، پھر رہنمائی، اور آخر میں سزا دی جائے۔

گدھے کا دکھ اور انسان کا گدھا پن۔

وہ گدھا جو روز سڑک پر وزن کے نیچے کراہتا ہے ،
قانون سے آزاد ہے کیونکہ وہ انسان نہیں۔
اور وہ انسان جو فخر سے قانون توڑتا ہے۔ جو
قانون سے بچ بھی جاتا ہے کیونکہ وہ بااثر ہے۔

یہ ہے ہمارے معاشرے کا انصاف۔

گدھے پہ بوجھ، انسان پہ قانون ۔
دونوں بےخبر، ایک خاموش، ایک مجبور۔

وقت آ گیا ہے کہ قانون کو ڈنڈے سے نہیں، شعور سے نافذ کیا جائے۔
پولیس کو عوام کی خدمت کا نمونہ بنایا جائے۔
اور شہری کو قانون کا سچا نگہبان۔

ورنہ گدھے اور انسان میں کوئی فرق باقی نہ رہے گا…

Address

Johar Colony
Faisalabad

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Taak News posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share