Fatehjangcity.com

Fatehjangcity.com Lets show love for the City!!! Join us to know how your own city looks like. Lets build this City to Lets tell the others How good we are. Lets share what we got.

Lets see who are the Sulphides of our city. Lets bring the talent of the city to front. Lets make our own recognition. Lets know what is happening in the city. Lets know how much URDU we know . Lets show love for the City . Join fatehjangcityCity.com Now!!!

فتح جنگ کے" نمبرداروں " کی کہانی......                    .😎 فتح جنگ شہر کی  چار "پتیاں"   @پتی اگرخان.                 ...
06/06/2025

فتح جنگ کے" نمبرداروں " کی کہانی......
.😎 فتح جنگ شہر کی چار "پتیاں"
@پتی اگرخان.
@ پتی مصری خان.
@ پتی شاھنواز اور.
پتی محبت خان...
@ اگر ہر پتی سے دو نمبردار لیے جائیں تو شہر کے 10 سے. زیادہ نمبردار بنتے ھیں. تاھم یہ موضوع ابھی تحقیق طلب ھے
@شہر کے واحد "ذیلدار" خان محمد خان عرف" بلو زیلدار" تھے - وہ بلدیہ فتح جنگ کے vice president بھی رھے
ایک محقق" نمبرداری" کی تاریخ پر لکھتے ھیں اصل لفظ" لمبدار" یا" لامبڑدار" " Lambardar " تھا
لامبردار، جسے دیہات میں نمبردار کے نام سے جانا جاتا ہے، برصغیر کی تاریخ کا ایک ایسی شخصیت ہے جس کا کردار صرف ایک انتظامی عہدیدار تک محدود نہیں تھا، بلکہ وہ معاشرتی، معاشی، ثقافتی اور حتیٰ کہ سیاسی ڈھانچے کا ایک اہم ستون تھا۔.

لامبردار کا لفظ سنتے ہی ذہن میں ایک ایسی تصویر ابھرتی ہے جو گاؤں کے ایک باوقار، عادل اور فیصلہ کن رہنما کی عکاسی کرتی ہے، جو اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے ایک چھوٹے بادشاہ کی مانند تھا۔ اس کا کردار محض زمینوں کی دیکھ بھال یا محصولات کی وصولی تک محدود نہیں تھا، بلکہ وہ اپنے گاؤں کی سماجی ہم آہنگی، معاشی خوشحالی، ثقافتی اقدار کے تحفظ اور انتظامی نظم و ضبط کا ضامن تھا۔ اس مضمون میں لامبردار کے تاریخی پس منظر، اس کے وسیع تر فرائض، مراعات، سماجی اثر و رسوخ اور زوال کے دور کا تفصیلی اور دلچسپ جائزہ پیش کیا جائے گا۔
# # # لامبردار کا لفظی اور تاریخی پس منظر
لامبردار کا لفظ فارسی کے دو الفاظ "لامب" (زمین) اور "دار" (مالک یا منتظم) سے مل کر بنا ہے، جس کا مطلب ہے "زمین کا منتظم" یا "زمین سے وابستہ ذمہ دار شخص"۔
یہ عہدہ مغلیہ دور میں باقاعدہ طور پر متعارف ہوا، جب مغل بادشاہوں نے اپنی وسیع سلطنت کے زرعی نظام کو منظم کرنے اور محصولات کی وصولی کو یقینی بنانے کے لیے مقامی رہنماؤں کو ذمہ داریاں سونپیں۔ مغلیہ دور میں زراعت ریاست کی معاشی ریڑھ کی ہڈی تھی، اور لامبردار اس نظام کا ایک اہم جزو تھا۔ وہ زمینوں کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے، کسانوں کی رہنمائی کرنے اور محصولات کو بروقت جمع کرنے کا ذمہ دار تھا۔ مغل بادشاہوں نے لامبرداروں کو زمینوں کا محدود مالک تسلیم کیا اور انہیں محصولات کی وصولی کے بدلے مراعات دیں، جس نے ان کے سماجی اور معاشی اثر و رسوخ کو تقویت بخشی۔

مغلیہ دور میں لامبردار نہ صرف ایک انتظامی عہدیدار تھا، بلکہ وہ اپنے علاقے میں ایک باوقار شخصیت کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔ اس کے گھر، جو اکثر قلعہ نما ہوتے تھے، گاؤں کے سماجی اور ثقافتی مرکز کا درجہ رکھتے تھے۔ وہاں لوگ اپنے مسائل لے کر آتے، تنازعات حل کرتے اور حتیٰ کہ شادی بیاہ جیسے سماجی تقریبات کے لیے جمع ہوتے تھے۔ لامبردار کی سخاوت اور انصاف پسندی کے قصے لوگوں کی زبانوں پر ہوتے تھے، اور وہ اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے ایک رہنما اور سرپرست کی حیثیت رکھتا تھا۔
# # # برطانوی راج اور لامبردار کی بدلتی حیثیت
برطانوی راج کے قیام کے ساتھ لامبردار کا کردار مزید منظم اور اہم ہو گیا۔ انگریزوں نے مغلیہ دور کے زرعی نظام کو اپنایا اور اسے زمینداری نظام کے تحت مزید مضبوط کیا۔ اس نظام میں لامبرداروں کو زمینوں کا مالک تسلیم کیا گیا اور انہیں محصولات کی وصولی کا باقاعدہ اختیار دیا گیا۔ 🌹🌹🌹🌹🌹انگریزوں کے لیے. @ لامبردار ایک ناگزیر شراکت دار تھے، کیونکہ وہ مقامی زبان، رسم و رواج اور معاشرتی ڈھانچے سے بخوبی واقف تھے۔ برطانوی حکام نے لامبرداروں کو اپنے انتظامی ڈھانچے کا ایک اہم حصہ بنایا، کیونکہ وہ مقامی سطح پر ان کے معاشی اور انتظامی اہداف کو پورا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔

برطانوی دور میں لامبرداروں کو کئی اضافی اختیارات حاصل ہوئے۔ وہ نہ صرف زمینوں کی پیمائش اور محصولات کی وصولی کے ذمہ دار تھے، بلکہ انہیں اپنے علاقے میں امن و امان قائم رکھنے اور چھوٹے موٹے تنازعات کو حل کرنے کے لیے عدالتی اختیارات بھی دیے گئے۔ کئی لامبرداروں نے اپنے علاقوں میں ایک چھوٹے بادشاہ کی طرح حکمرانی کی، اور ان کے فیصلے مقامی آبادی کے لیے حتمی سمجھے جاتے تھے۔ ان کی سماجی حیثیت اور سیاسی اثر و رسوخ اس قدر تھا کہ وہ اپنے علاقے کے سیاسی معاملات میں بھی اہم کردار ادا کرتے تھے، اور کئی بار انگریزوں کے ساتھ مذاکرات میں گاؤں کے نمائندے کے طور پر شریک ہوتے تھے۔

# # # لامبردار کے متنوع اور دلچسپ فرائض
لامبردار کا کردار انتہائی متنوع اور جامع تھا، جو اسے گاؤں کی زندگی کا ایک ناگزیر حصہ بناتا تھا۔ اس کے فرائض محض زمینوں کی دیکھ بھال یا محصولات کی وصولی تک محدود نہیں تھے، بلکہ وہ ایک سماجی رہنما، ثقافتی سرپرست، عدالتی حکام اور حتیٰ کہ مقامی خیراتی ادارے کی حیثیت رکھتا تھا۔
@سب سے اہم ذمہ داری زمینوں کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانا تھی۔ لامبردار کسانوں کو مشورے دیتا تھا کہ کون سی فصلیں کاشت کی جائیں، کس طرح زمین کی زرخیزی کو برقرار رکھا جائے اور کس طرح پانی کے وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے۔ وہ جدید زرعی تکنیکوں کے بارے میں کسانوں کو آگاہ کرتا تھا، جیسے کہ نئے بیجوں کا استعمال یا کھاد کے استعمال کی تکنیک۔ کئی لامبرداروں نے اپنے علاقوں میں نہری نظام کی ترقی کے لیے بھی کام کیا، جو زرعی پیداوار کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا تھا۔
@محصولات کی وصولی لامبردار کا ایک اور اہم فرض تھا۔ وہ نقد یا فصلی شکل میں محصولات وصول کرتا اور اسے حکومتی خزانے میں جمع کرتا تھا۔ اس عمل میں وہ کسانوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کو یقینی بناتا تھا، کیونکہ اس کی اپنی عزت اور اثر و رسوخ اس کی انصاف پسندی پر منحصر تھا۔ لامبردار نہ صرف محصولات کی وصولی کا ذمہ دار تھا، بلکہ وہ کسانوں کے مالی مسائل کو بھی حل کرنے کی کوشش کرتا تھا، جیسے کہ خشک سالی یا قدرتی آفات کے دوران محصولات کی ادائیگی میں نرمی کی درخواست کرنا۔
لامبردار انتظامی امور میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا تھا۔ وہ گاؤں کے تنازعات، جیسے کہ زمین کے جھگڑوں، خاندانی مسائل یا وراثتی معاملات، کو حل کرنے کے لیے ایک غیر رسمی عدالت کی طرح کام کرتا تھا۔ اس کے فیصلے مقامی روایات اور رسم و رواج کے مطابق ہوتے تھے، اور لوگ انہیں قبول کرتے تھے۔ اس کے علاوہ، وہ اپنے علاقے میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے بھی ذمہ دار تھا۔ اگر گاؤں میں کوئی چوری، ڈکیتی یا دیگر جرائم ہوتے،. @ تو لامبردار مقامی سطح پر ان کا تدارک کرتا اور بعض اوقات انگریز حکام کو مطلع کرتا تھا۔

لامبردار کا ایک دلچسپ اور کم معروف کردار ثقافتی سرگرمیوں کا سرپرست ہونا تھا۔ وہ گاؤں کے تہواروں، میلے ٹھیلوں اور مذہبی تقریبات کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا تھا۔ مثال کے طور پر، عید، دیوالی یا دیگر مقامی تہواروں کے موقع پر لامبردار اپنے گھر یا گاؤں کے چوپال میں تقریبات کا اہتمام کرتا، جہاں لوگ جمع ہوتے، موسیقی سنتے اور روایتی کھیلوں میں حصہ لیتے۔.
کئی لامبرداروں نے اپنے علاقوں میں مقامی شاعروں، موسیقاروں اور فنکاروں کی سرپرستی کی، جس سے دیہاتی ثقافت کو فروغ ملا۔

لامبردار خیراتی کاموں میں بھی پیش پیش ہوتا تھا۔ وہ اپنے علاقے کے غریب کسانوں کی مدد کرتا، انہیں بیج یا زرعی اوزار فراہم کرتا اور بعض اوقات ان کے بچوں کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرتا تھا۔ کئی لامبرداروں نے اپنے علاقوں میں اسکول، مساجد، مندر یا دھرم شالائیں بنوائیں، اور پانی کے کنوؤں یا نہروں کی تعمیر میں سرمایہ کاری کی۔ ان کے یہ اقدامات ان کی سخاوت اور سماجی ذمہ داری کے جذبے کی عکاسی کرتے تھے۔
@لامبردار حکومتی احکامات کو عوام تک پہنچانے اور عوام کی شکایات کو حکام تک پہنچانے کا ذریعہ بھی تھا۔ وہ گاؤں کے لوگوں کی نمائندگی کرتا اور ان کے مسائل، جیسے کہ ٹیکسوں میں نرمی یا قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں کے لیے امداد، کو حکومتی سطح پر اٹھاتا تھا۔ اس طرح وہ ایک مضبوط رابطہ کار کے طور پر کام کرتا تھا، جو گاؤں اور حکومت کے درمیان توازن قائم رکھتا تھا۔
# # # لامبردار کی مراعات اور سماجی اثر و رسوخ
لامبرداروں کو ان کی خدمات کے بدلے کئی مراعات حاصل تھیں، جو ان کی سماجی اور معاشی طاقت کو بڑھاتی تھیں۔ انہیں زمینوں کا مالک تسلیم کیا جاتا تھا، اور وہ محصولات کی وصولی کے بعد اس کا ایک حصہ اپنے پاس رکھتے تھے۔ کچھ لامبرداروں کے پاس ہزاروں ایکڑ زمین ہوتی تھی، جو انہیں اپنے علاقے کا ایک چھوٹا بادشاہ بناتی تھی۔ ان کے گھر، جو اکثر قلعہ نما ہوتے تھے، ان کی دولت اور اثر و رسوخ کی علامت تھے۔ یہ گھر نہ صرف ان کے خاندان اور ملازمین کی رہائش گاہ ہوتے تھے، بلکہ گاؤں کے سماجی اور ثقافتی مرکز کے طور پر بھی کام کرتے تھے۔
لامبردار کی سماجی حیثیت اس قدر بلند تھی کہ اس کی رائے کو گاؤں کے ہر معاملے میں اہمیت دی جاتی تھی۔ لوگ اس کے پاس اپنے مسائل لے کر آتے تھے، اور اس کے فیصلے کو حتمی سمجھا جاتا تھا. @۔ کئی لامبردار اپنی سخاوت کے لیے مشہور تھے، اور ان کے قصے آج بھی دیہاتوں میں سنائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کچھ لامبرداروں نے اپنے علاقوں میں غریبوں کے لیے مفت لنگر کا اہتمام کیا، جہاں ہر روز درجنوں لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔ اس طرح کے اقدامات نے انہیں لوگوں کے دلوں میں ایک عظیم رہنما کے طور پر زندہ رکھا۔

# # # زوال کا دور
برطانوی راج کے خاتمے اور پاکستان و ہندوستان کی آزادی کے بعد لامبرداروں کا روایتی کردار بتدریج کمزور پڑنے لگا۔ نئی حکومتوں نے زمینی اصلاحات متعارف کروائیں، جن کا مقصد زمینداری نظام کو ختم کرنا اور زمینوں کو کسانوں میں تقسیم کرنا تھا۔.
ان اصلاحات نے لامبرداروں کے اختیارات اور مراعات کو محدود کر دیا۔ زمینداری نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی لامبرداروں کا وہ اثر و رسوخ بھی ختم ہو گیا جو وہ صدیوں سے برقرار رکھے ہوئے تھے۔ اگرچہ کچھ دیہاتی علاقوں میں لامبردار کا عہدہ آج بھی موجود ہے، لیکن اس کا کردار اب زیادہ تر رسمی نوعیت کا ہے، جو زمینوں کے ریکارڈ کی دیکھ بھال اور مقامی انتظامی امور تک محدود ہے۔
🥀آج کے دور میں لامبردار کی تاریخی عظمت دیہاتی کہانیوں اور بزرگوں کی زبانی روایتوں میں محفوظ ہے۔ ان کے عدل و انصاف، سخاوت اور انتظامی صلاحیتوں کے قصے لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ کئی دیہاتوں میں آج بھی لامبرداروں کے بنوائے ہوئے کنوؤں، مساجد یا اسکول موجود ہیں، جو ان کی سماجی خدمات کی گواہی دیتے ہیں۔ لامبردار کا کردار برصغیر کی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے، جو اس خطے کے معاشرتی اور معاشی ڈھانچے کی عکاسی کرتا ہے۔
# # # نتیجہ
لامبردار برصغیر کی تاریخ کا ایک ایسی شخصیت ہے جس نے مغلیہ دور سے لے کر برطانوی راج تک اپنے علاقے کے معاشرتی، معاشی، ثقافتی اور انتظامی ڈھانچے کو سنبھالنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ نہ صرف زمینوں کا منتظم تھا، بلکہ ایک سماجی رہنما، ثقافتی سرپرست، عدالتی حکام اور خیراتی ادارے کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کے متنوع فرائض، جیسے کہ زرعی پیداوار کو بڑھانا، محصولات کی وصولی، تنازعات کا حل، ثقافتی سرگرمیوں کی سرپرستی اور خیراتی کام، اسے اپنے وقت کا ایک غیر معمولی رہنما بناتے تھے۔ اگرچہ جدید دور میں لامبردار کا روایتی کردار ختم ہو چکا ہے، لیکن اس کی تاریخی اہمیت اور خدمات برصغیر کے دیہاتی معاشرے کی داستان کا ایک اہم حصہ ہیں۔ لامبردار کی کہانی ایک ایسی داستان ہے جو ہمیں اس خطے کی سماجی اور معاشی تاریخ کے گہرے نقوش سے روشناس کراتی ہے، اور اس کا کردار ہمیشہ عزت و احترام کے ساتھ یاد رکھا جائے گا۔

کَیمبَل پُور کے "مسنگ پرسنز"(تحقیق و تحریر : ہادی صاحب) چودہ فروری 1942 کو سنگا پور میں تیز بارش ہو رہی تھی۔ ایک عارضی چ...
01/06/2025

کَیمبَل پُور کے "مسنگ پرسنز"
(تحقیق و تحریر : ہادی صاحب)
چودہ فروری 1942 کو سنگا پور میں تیز بارش ہو رہی تھی۔ ایک عارضی چھت کے نیچے سوکھی لکڑیوں کو آگ لگا کر سیک لیتے ہوئے برٹش انڈین آرمی کی 5 پٹھان / 14 پنجاب رجمنٹ کے پانچ جگری یار گوندل کا قاضی اورنگ زیب خان، ناڑہ کا محمد الہی ، پنڈی گھیب کا ابرار آحمد ، تلہ گنگ کا امر الہی اعوان اور جسیاں کا شفقت شاہ سلگتی آگ کے گرد پریشان بیٹھے تھے۔ جسیاں کا شفقت شاہ ان سب میں پڑھنے کا شوقین اور زہین تھا۔
یہ برٹش انڈین آرمی کی اکلوتی آل پٹھان رجمنٹ تھی۔ 1901 میں اس رجمنٹ کی تشکیل نو ہوئی اور اس میں پنجابی مسلمانوں اور ڈوگراز کو شامل کیا گیا۔ 1904 میں اس رجمٹ کا نام فورٹیتھ پٹھان رجمٹ رکھا گیا۔ 1921 میں برٹش انڈین آرمی میں بڑی تشکیل نو ہوئی اورپنجاب کی پانچ رجمنٹوں کو فورٹیتھ پٹھان رجمٹ کے ساتھ شامل کر کے اس نئی رجمنٹ کا نام 5 پٹھان / 14 پنجاب رجمنٹ رکھا گیا۔ اور دوسری جنگ عظیم کے دوران اس رجمنٹ کو برٹش اور آسٹریلوی فورسز کے ساتھ جاپانیوں سے لڑنے کے لئے ملایا اور سنگاپور کے محاز پر بھیجا گیا تھا۔
(1 : برٹش راج میں مارشل ریس کی تھیوری کے تحت 50 فیصد برٹش انڈین آرمی پنجابیوں پر مشتمل تھی اور اس میں سب سے زیادہ حصہ سالٹ رینج (چکوال وغیرہ) ، پوٹھوہار اور کَیمبَل پُور کے فوجیوں کا تھا۔ برٹش انڈین آرمی میں پنجاب سے فوجی بھرتی میں 50فیصد مسلمانوں کو لیا جاتا تھا۔
2
کَیمبَل پُور کے ان پانچ نوجوانوں کی پریشانی کی وجہ یہ تھی کی جاپانی فوج تاتاریوں کی طرح تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔ صرف 35ہزار جاپانی فوج کے سامنے ملایا (ملائشیا) میں 50 ہزار برٹش آرمی ، آسٹریلوی آرمی اور برٹش انڈین آرمی پر مشتمل اتحادی افواج ہتھیار ڈال چکی تھیں۔ اور اب جاپانی فوج نے سنگاپور کی پانی کی سپلائی بند کر رکھی تھی اور غیر مشروط سرینڈر کی ڈیمانڈ کر رہا تھا۔ جاپانی فوج نے 14 فروری 1942 کو الیگزنڈرا ہسپتال سنگاپور پر حملہ کر کے بربریت کی نئی مثال قائم کرتے ہوئے تمام زخمی اتحادی فوجیوں اور ہسپتال کے سٹاف کو بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔
پنڈی گھیب کا ابرار آحمد جسیاں کے شفقت شاہ سے بولا کہ یار شفقت ہم 80 ہزار سے زائد فوجی ادھر، مقابلے میں صرف 35 ہزار جاپانی فوج لیکن یہ جاپانی تو ہمیں گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں ، ہمارے کتنے ہی ساتھی مر چکے ، کتنے زخمی، مجھے اماں اور بچوں کی یاد آ رہی ، ہمارا کیا بنے گا۔
اور 15 فروری 1942 کو پنڈی گھیب کے ابرار آحمد کی اس بات کا جواب اتحادی افواج کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل آرتھر پرسیول نے برطانوی تاریخ کا سب سے بڑا سرینڈر کرتے ہوئے دیا جب 35 ہزار جاپانی فوجی کے سامنے 85 ہزار اتحادی افواج نے ہتھیار ڈال دئے۔ ملایا اور سنگا پورمیں کل ملا کر 10 ہزار سے اوپر اتحادی فوجی مارے گئے اور کل ملا کر 135،000 اتحادی افواج نے ہتھیار ڈالے جس میں سے 40 ہزار 5 پٹھان / 14 پنجاب رجمنٹ کے برٹش انڈین آرمی کے سولجزر اور آفیسرز تھے۔
ہتھیار ڈالنے والی برٹش اور آسٹریلوی افواج کے ساتھ جاپانیون نے تاتاریوں والا سلوک کیا۔ ان کے ساتھ جنیوا کنوینشن کے مطابق جنگی قیدیوں والا برتاؤ نہیں بلکہ جانوروں کی طرح رکھا گیا، ان سے نہایت مشکل لیبر کا کام لیا گیا۔ بہت سے مارے گئے ، بہت سے زخمی ہو کر سسکتے رہے، لیکن حیران کن طور پربرٹش انڈین آرمی کی 5 پٹھان / 14 پنجاب رجمنٹ سے ان کا سلوک بالکل مختلف اور اچھا تھا اور یہی بات جسیاں کے زہین شفقت شاہ کو بہت پریشان کر رہی تھی۔
وہ روز رجمنٹ کے مختلف ساتھیوں سے ملتا اوراس نے نوٹ کیا کہ پنجاب اور سرحد کے باقی علاقوں کی طرح کیمبلپور کے ہزاروں نوجوان بھی اپنے گھر جانے کی راہ تک رہے ہیں۔ کسی کو ماں کی یاد ستا رہی ، کسی کو بیوی بچوں کی۔ کیمپ میں سب سے زیادہ خطہ پوٹھوہار کے فوجی تھے۔ مسلمانوں کا تناسب سکھوں اور ہندوؤں سے بہت زیادہ تھا۔ علاقہ چھچھ اورسرحد کے پٹھان بھی تھے۔ سب فوجی بہت خوش تھے کہ جاپانیوں کا سلوک ان کے ساتھ بہت اچھا
لیکن کسے معلوم تھا کہ
"جاپانی ان کے ساتھ وہ ہی سلوک کر رہے تھے جو کہ قربانی کے جانور کے ساتھ آخری کچھ دنوں میں اس کی خاطر مدارت کر کے کیا جاتا ہے"
-----------------------
ادھر سبھاش چندر بوش جو انڈین نیشنل کانگریس کے صف اول کے رہنمائوں میں شمار ہوتے تھے انہوں نے دوسری عالمی جنگ میں برطانوی افواج کی درگت بنتے دیکھ کر گاندھی جی کی پالیسیوں سے انحراف کرتے ہوئے ہندوستان کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کا نعرہ بلند کیا۔ وہ ایک مسلمان کا بہروپ اپناتے ہوئے پشاور سے کابل جرمن سفارت خانے پہیچے جہاں سے انہیں ہٹلر سے ملاقات کے لئے جرمنی لے جایا گیا اور اورہٹلر ہی کی تجویز پر انھوں نے جرمنی کی سرزمین پر فری انڈیا سینٹر اور فری انڈیا آرمی قائم کرنے کا اعلان کردیا۔

-----------------------
جنوری 1944 میں سبھاش بابو نے اپنا ہیڈ کوارٹر سنگاپور سے رنگون منتقل کر دیا جہاں سے ہندوستان کی سرحد پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندیاں شروع کر دی گئیں۔ ان دو سالوں کی قید کے دوران برٹش انڈین آرمی کے تمام سولجرز کا زہن پلٹنے کی کوشش کی گئی اور نفسیاتی طور پر انہیں آمادہ کیا گیا کہ انہیں آزاد ہند فوج کی صورت میں جاپانیوں اور جرمنوں کےساتھ مل کر سبھاش کی قیادت میں اپنے ہی ملک ہندوستان پر حملہ کرنا ہے اور اپنے ہی بھائیوں سے میدان میں جنگ لڑنی ہے۔
گوندل کے قاضی اورنگ زیب خان نے جسیاں کے شفقت شاہ سے کہا ، یار شفقت تو ہم سب میں زہین، تیرا کیا خیال ہمارا کیا بنے گا، پتہ نہیں گاؤں / گھر میں کسی کو ہمارے بارے میں اطلاع بھی ہے کہ ہم زندہ بھی ہیں کہ نہیں۔ ناڑہ کا محمد الہی بولا، میری تو ابھی ابھی شادی ہوئی تھی پتہ نہیں میری بیوی کو معلوم ہے کہ نہیں کہ وہ ابھی تک سہاگن ہے۔ مجھے لگ رہا کہ ہم کبھی واپس اپنے گھر نہیں پہنچیں گے۔
-----------------------
چار فروری 1944 کو برما کی سرحد سے پہلی مرتبہ ہندوستان پر حملہ کیا گیا۔ تقریباً 43 دن کی جنگ کے بعد 18 مارچ 1944 کو ہندوستان کے صوبے آسام کے کئی مقامات پر آزاد ہند فوج کا قبضہ ہو گیا اور 19 مارچ 1944 کو ہندوستان کی سرزمین پر پہلی مرتبہ آزاد ہندوستان کا پرچم لہرایا گیا۔ سبھاش کی قیادت میں لڑنے والی آزاد ہند فوج کے بہت سے فوجی اس جنگ میں مارے گئے جن میں ناڑہ کا محمد الہی اور پنڈی گھیب کا ابرار آحمد بھی شامل تھے۔ تلہ گنگ کا امر الہی اعوان شدید ذخمی ہوا۔ کیمبلپور کے پانچ جگری یاروں میں سے بس گوندل کا قاضی اورنگ زیب خان اور اور جسیاں کا شفقت شاہ ہی رہ گئے۔
-----------------------
اس دوران دوسری عالمی جنگ کے دوران بحرالکاہل میں جاپانیوں کی پسپائی کا آغاز ہوا اور ان کی پسپائی نے انھیں آزاد ہند فوج کی امداد سے ہاتھ اٹھا لینے پر مجبور کر دیا۔ چار ماہ بعد آزاد ہند فوج کو بھی پسپا ہونا پڑا اور ان کے مفتوحہ علاقوں پر دوبارہ مقامی ہندوستانی فوج (برٹش انڈین آرمی) کا قبضہ ہو گیا ۔ 13 مئی 1945 کا دن تھا جب برما کے دارالحکومت رنگون پر انگریزوں کا قبضہ ہوا۔ یہی وہ شہر تھا جو آزاد ہند فوج کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ چنانچہ رنگون پر انگریزوں کا قبضہ ہوتے ہی آزاد ہند فوج کے افسروں اور سپاہیوں کو بھی ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہونا پڑا اور یوں انھیں جنگی قیدی بنا لیا گیا۔ بچے کھچے آزاد ہند فوج کے افسران اور سپاہیوں کو جنگی قیدی بنا کر ہندوستان لایا گیا جہاں پانچ نومبر 1945 کو ان پر مقدمے کا آغاز ہوا۔ ان جنگی قیدیوں میں جنرل شاہ نواز خان اور کیپٹن پی کے سہگل کے نام سرفہرست تھے۔ فوجی عدالت چھ افسران پر مشتمل تھی جن میں سے تین انگریز اور تین ہندوستانی تھے۔ 5 پٹھان / 14 پنجاب رجمنٹ کے ملزمان کی جانب سے پیروی کرنے کے لیے انڈین نیشنل کانگریس نے ایک ڈیفنس کمیٹی قائم کی جس میں ہندوستان کے صف اول کے نو مشہور قانون دان شامل تھے۔ ان قانون دانوں میں جواہر لعل نہرو، سر تیج بہادر سپرو، بھولا بھائی ڈیسائی، کیلاش ناتھ کاٹجو، بدری داس ،آصف علی، کنور سر دلیپ سنگھ،بخشی سر ٹیک چند اور پی کے این شامل تھے۔ یہ مقدمہ 31 دسمبر 1945 تک جاری رہا اور اس مقدمہ میں ان افسران اور سپاہیوں کو مختلف المیعاد سزائیں سنا دی گئیں۔ لیکن عوام کے پُرزور احتجاج پر حکومت کو اپنا یہ فیصلہ واپس لینا پڑا اور ہندوستانی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل کلاڈ آکن لیک نے یہ سزائیں معاف کرنے کا اعلان کر دیا۔
-----------------------
تب تک 5 پٹھان / 14 پنجاب رجمنٹ کے جوانوں کو گھروں سے گئے چار سال سے اوپر ہوچکے تھے۔ بہت سے افراد کے مرنے کی اطلاع ان کے گھروں تک پہنچ چکی تھی اور ان کے غائبانہ نماز جنازہ ادا ہو چکے تھے ۔ اور اسی دوران بہت سے زندہ بچ جانے والے "مسنگ پرسنز" کے بھی غائبانہ نماز جنازہ ادا ہو چکے تھے جس میں گوندل کا قاضی اورنگ زیب خان بھی شامل تھا۔ قاضی اورنگ زیب جب رہائی کے بعد 1946 میں اپنے علاقے واپس پہنچے تو پورے علاقے میں لوگ حیرت سے ششدر رہ گئے کیونکہ سال پہلے ان کا نماز جنازہ بھی ادا ہو چکا تھا۔ قاضی صاحب کھٹر قوم سے تعلق رکھتے تھے اور بعد میں 1971 کے الیکشنز میں انہوں نے خانزادہ تاج کے خلاف الیکشن بھی لڑا تھا۔ یہ دور کَیمبَل پُور / پوٹھوہار کے "مسنگ پرسنز" کی راہ تکتی ماؤں اور سولی پر لٹکی بیواؤں کے لئے کسی عذاب سے کم نہیں تھا اور قاضی صاحب کے واپس آنے کے بعد بہت سی بیوائیں سالہا سال بھری جوانی میں اپنے شوہروں کے واپس آنے کے معجزے کا انتظار کرتی رہیں۔
-----------------------
اٹک خورد ریلوے اسٹیشن اور تاریخی ریلوے پل کے پاس پہلی جنگ عظیم کے بعد فورٹیتھ پٹھان رجمٹ نے اپریل 1919 میں دریا کے کنارے پر ایک وار میموریل تعمیر کیا اور یہ برٹش انڈین ایمپائر میں قائم شدہ اولین وار میموریل میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ یہ وار میموریل ایک بہت بڑے پتھر پر 303 رائفل بلٹ کی شکل میں تعمیر ہے ۔ اسی وار میموریل پر سال 1947 میں برٹش سرکار کی جانب سے ایک اور تختی درج کی گئی جس پر آج بھی تحریر ہے
THIS TABLET WAS ADDED IN 1947 IN MEMORY OF ALL RANKS WHO GAVE THEIR LIVES OR WHO DIED IN CAPTIVITY IN THE SECOND WORLD WAR AND ALSO OF THE 5th BN(PATHANS) 14th PUNJAB REGIMENT, WHICH WAS SURRENDERED WITH THE GARRISON OF SINGAPORE
ON 15th FEBRUARY 1942 AND WAS NOT SUBSEQUENTLY RE-RAISED

Some   activities aka   in   Village,  , peak male activity to joyus moments in village life.
31/05/2025

Some activities aka in Village, , peak male activity to joyus moments in village life.

26/04/2025

Usual scenes and activites in these days.
Credits: Needo Vlogs

25/04/2025

کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ استاد دامن کا ایک چاہنے والا اُن کے لیے دیسی گھی میں پکے دو پراٹھے لے کر آیا۔ استاد دامن نے پراٹھے ایک طرف رکھے اور اُٹھ کر ایک بڑا سا پیالہ لیا جس میں چینی ڈالی۔ ایک پراٹھے کو توڑا اور پیالے میں ڈھیر ساری چوری بنا لی۔ پھر اُٹھے اور کمرے کے چاروں کونوں میں وہ چوری زمین پر ڈال دی اور واپس بیٹھ کر مہمان کو کہا کہ لو اب یہ ایک پراٹھا مل جل کر کھاتے ہیں۔

مہمان پریشانی سے زمین پر گری چوری پر نظریں مرکوز کیے تھا کہ اچانک بڑے بڑے سائز کے بہت سے چوہے کونوں کھدروں سے نکلے اور تیزی سے چوری کھانے لگے۔
مہمان نے حیران ہو کر پوچھا کہ استاد محترم یہ کیا۔ ہنس کر جواب دیا چوری ہے اور چوہے کھا رہے ہیں۔ اس میں حیرانی کی کیا بات ہے۔ میرے کمرے کے چاروں طرف دیکھو۔ میری ساری عمر کی کمائی۔ میرا خزانہ میری کتابیں تمہیں ہر طرف نظر آئیں گی۔ چوہے خوش ذائقہ چوری کے عادی ہیں۔ ان کو اب کتابوں کے کاغذوں کا بے مزہ ذائقہ اچھا نہیں لگتا۔ اس لیے چوہوں کو چوری کھلانے کا فائدہ یہ ہے کہ میری کتابیں محفوظ ہیں۔ میرا خزانہ محفوظ ہے۔
تم بھی اگر اپنے کسی بھی خزانے کو محفوظ رکھنا چاہتے ہو تو یاد رکھو اردگرد لوگوں کا خیال رکھو۔ انہیں چوری ڈالتے رہو۔ سدا سکھی رہو گے۔
پھر کچھ دیر خاموشی کے بعد استاد نے مہمان سے مخاطب ہو کر پھر کہا۔ زندگی بھر کے لیے ایک بات یاد رکھ۔ رب العزت زندگی میں جب بھی کبھی تمہیں کچھ دے۔ اُس میں سے کچھ حصہ اپنے اردگرد موجود لوگوں کو ضرور بانٹ دیا کرو۔ کیونکہ لوگوں کی ہر اُس چیز پر نظر ہوتی ہے جو تمہارے پاس آتی ہے۔ یہ لوگ کوئی اور نہیں تمہارے قریبی عزیز اور اچھے دوست ہیں۔ ان کا خیال رکھنا تمہارا اخلاقی اور مذہبی فریضہ بھی ہے۔

ہندوستان میں تیل کی اوّلین دریافت اٹک میں ہوئیقدیم دور میں زمین کے نیچے معدنیات تلاش کرنے کی ٹیکنالوجی نہیں تھی۔عموماً ت...
19/04/2025

ہندوستان میں تیل کی اوّلین دریافت اٹک میں ہوئی
قدیم دور میں زمین کے نیچے معدنیات تلاش کرنے کی ٹیکنالوجی نہیں تھی۔
عموماً تیل کے ابتدائی کنویں اس وقت دریافت ہوتے تھے جب مقامی لوگ پانی کے لیے کنویں کھودتے تھے تو ان میں پانی کی جگہ تیل نکل آتا تھا یا پھر بعض جگہوں پر تیل چشموں کی صورت بہتا تھا۔
تاہم یہ بات حیران کن ہے کہ خلیجی ممالک سے بہت پہلے 1866 میں ضلع اٹک میں کھوڑ کے مقام پر تیل کی دریافت ہو چکی تھی اور پھر برطانوی عہد میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب کھوڑ اور اس کے نواحی علاقوں میں تیل کے 400 سے زائد کنویں کام کر رہے تھے جن سے تیل کی سالانہ پیداوار چار لاکھ 80 ہزار بیرل تک پہنچ گئی تھی۔
سکاٹش تاجر فرینک مچل جنوبی افریقہ میں سونے کی کانوں میں سرمایہ کاری کرتے تھے کہ ایک روز ان کی تمام دولت ڈوب گئی اور وہ پائی پائی کے محتاج ہو گئے۔ ان کے بھائی کشمیر میں قالینوں کی تجارت کرتے تھے فرینک مچل نے سوچا کہ کیوں نہ ہندوستان جا کر قسمت آزمائی کی جائے۔
کشمیر کے ساتھ ساتھ اس نے پوٹھوہار میں زیتون کی کاشت کا بھی تجربہ کیا۔ اس مقصد کے لیے جب وہ پنڈی گھیب آیا تو مقامی افراد نے اسے تیل کی کنوؤں کے بارے میں بتایا۔
فرینک مچل نے تیل کی تصدیق کے لیے ایک ماہر جیالوجسٹ کی خدمات حاصل کیں جس کی جانب سے یقین دہانی حاصل کرنے کے بعد وہ واپس برطانیہ گیا اور اپنے دوستوں سے درخواست کی کہ اسے تیل کی کمپنی بنانے میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
25 ہزار پاؤنڈ کی ابتدائی رقم سے اس نے یکم دسمبر 1913 میں مانچسٹر میں اٹک آئل کمپنی کی بنیاد رکھی۔
1904 میں اٹک ضلع بنایا گیا تھا جس کا نام 1908 میں اٹک سے کیمبل پور کر دیا گیا مگر فرینک مچل نے اپنی کمپنی کا نام اٹک ہی رکھا۔
1918 میں کھوڑ کے قریب ڈھلیاں میں بھی تیل نکل آیا۔ یہ وہی فرینک مچلز ہیں جنہوں نے 1920 میں پنجاب میں مچلز فروٹ فارمز کمپنی کی بنیاد رکھی جس کے لیے پنجاب حکومت نے انہیں رینالہ خورد میں 720 ایکڑ زمین الاٹ کی تھی۔
فرینک مچل 1933 میں80 سال کی عمر میں بارہمولا میں انتقال کر گئے جن کی تدفین وہیں کی گئی۔
1944ء میں بلکسر کے نزدیک جویا مائر میں چھ ہزار 900 فٹ کی گہرائی پر تیل دریافت ہوا، جو معیار کے لحاظ سے پوٹھوہار میں پہلے دریافت شدہ تیل سے اس لحاظ سے مختلف تھا کہ یہ سیاہ اور انتہائی گاڑھا تھا جس میں آگ پکڑنے کا مادہ زیادہ تھا۔
زیادہ سردی میں یہ تیل جم جاتا تھاجس کی وجہ سے پمپنگ، نقل و حمل اور ریفائننگ کے نئے مسائل پیدا ہوگئے۔
اس کنویں سے تیل کی ابتدائی پیداواری شرح 10 ہزار بیرل یومیہ تھی اور یہ اتنی بڑی کامیابی تھی کہ جب اس کی دریافت کی اطلاع برطانوی ڈرلر نے فیلڈ ایجنٹ کو دی جو برمی زبان جانتا تھا تو اس نے یہ کہہ کر رد کر دی کہ کہیں اس کی بھنک دشمن ملکوں کو نہ ہو جائے اور کہا کہ ڈرلر گنتی کرنا بھول گیا ہے!
اسی کنویں کےگاڑھے تیل کی وجہ سے وہ تار کول بنائی گئی سے جس سے قیام پاکستان کے بعد ہزاروں میل سڑکیں تعمیر ہوئیں۔
1960 میں بلکسر سے ڈھلیاں اور پھر راولپنڈی ریفائنری تک ایک دوسری پائپ لائن بچھائی گئی جو بھاری تیل کی ترسیل کر سکتی تھی۔
بشکریہ: سجاد اظہر
انڈیپنڈنٹ اردو

Ziziphus mauritianaبیر یا بیری کا درخت جسے انگریزی میں   کہتے ہیں، ہمارا ایک مقامی اور انتہائی خوبصورت اور انتہائی مفید ...
16/04/2025

Ziziphus mauritianaبیر یا بیری کا درخت جسے انگریزی میں
کہتے ہیں، ہمارا ایک مقامی اور انتہائی خوبصورت اور انتہائی مفید درخت ہے۔
جہاں اس درخت کا پھل اپنے اندر بے شمار غذائی فوائد رکھتا ہے وہاں اس درخت کے پتے نہ صرف غذائی اعتبار سے جانوروں کے لیے بہت مفید ہوتے ہیں بلکہ ان کے کئی طبعی فوائد بھی ہیں۔
اس درخت کے پھل اور پتوں کے فوائد آپ انٹرنیٹ پر آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔
بیر پر ستمبر کے ماہ میں بور یعنی پھول آتے ہیں تو اس بور کے رس سے جو شہد تیار ہوتا ہے وہ اپنی کوالٹی میں یکتا ہوتا ہے۔

اس دفعہ سردیوں میں بارشیں بہت کم ہوئی ہیں۔ بلکہ محکمہ موسمیات کے مطابق چالیس سے پینتالیس فیصد کم بارشیں ہوئی ہیں۔ لیکن کم بارشوں کے باوجود جہاں گندم کی فصل کی پیداوار متاثر ہوئی ہے وہاں تارا میرا اور چنے کی پیداوار اچھی رہی ہے کیونکہ یہ فصلیں خشک سالی برداشت کرتی ہیں۔
اس دفعہ بیر کے درختوں پر پھل بھی حیران کن رہا۔
دیہات میں تو یہ کہا جاتا ہے کہ جس سال بیر زیادہ ہوں اس سال چنے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ بیر کے درخت کے ساتھ کئی گانے اور کہاوتیں منصوب ہیں۔
لمحہ فکریہ یہ ہے کہ بیر کے درخت ہمارے علاقے سے ختم ہورہے ہیں۔
لوگوں میں ایک غلط سوچ یہ عام ہے کہ کھیت کے دھڑے (کنارے) پر لگے درخت اس لیے جڑ سے اکھاڑ دیے جائیں کہ ان کی وجہ سے دھڑے کے ساتھ ساتھ فصل کم ہوتی ہے۔ لیکن لوگوں کو اس بات کا ادراک نہیں کہ ایک درخت کی وجہ سے اگر چار پانچ من دانے کم ہوتے ہیں تو اس درخت کی وجہ سے چار پانچ افراد پورا سال سانس لیتے ہیں۔ ہمیں بیر کے درخت کو اپنی بقا کے لیے بچانا ہوگا۔ ساؤ بیر یعنی پیوندی بیر کے ہودے تو نرسری سے مل جاتے ہیں لیکن جنگلی بیر کے پودے نہیں ملتے۔

محکمہ جنگلات کو چاہیے کہ وہ بیر کے درخت کے تحفظ کے لیے نہ صرف خود عملی اقدامات کرے بلکہ دیہات کی سطح پر لوگوں کو مقامی درختوں کی اہمیت، ان کے فوائد اور ان کے تحفظ کے متعلق آگاہی فراہم کرے۔

فتح جنگ میں گرمی کی شدت کے ساتھ ہی پانی کا بحران گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔پینے کے پانی کی مستقل سپلایٗ اک بہترین فللٹریشن پ...
13/04/2025

فتح جنگ میں گرمی کی شدت کے ساتھ ہی پانی کا بحران گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔
پینے کے پانی کی مستقل سپلایٗ اک بہترین فللٹریشن پلانٹ کے بغیر ممکن نہیں رہی۔

اب پانی کی ایمرجنسی کے نفاذ کی اشد ضرورت ہے تاکہ زیر زمین پانی کا بے دریغ استعمال روکا جاےٗ۔
شہری انتظامیہ اگر سیمی گورنمنٹ پلاننگ کے تحت اک پانی کی بوتل سپلایٗ لانچ کرسکے تو اس سے پینے کے پانی کی کچھ حد تک کمی پوری کی جاسکتی۔
ورنہ جتنے پرائویٹ بزنس اب آرہے، پانی کیٗ گھرانوں کی پہنچ سے دور ہوجاےٗ گا۔ اور صرف صاحب استطاعت ہی اس کو افورڈ کرسکے گا۔

21/03/2025

23rd preprations in full swing with flypast reharsals in

اوقات سحر و افطار فتح جنگ و گردونواح کے لیے،علاوہ ازیں اپنے مقامی اوقات کی پابندی کریں، شکریہ
23/02/2025

اوقات سحر و افطار فتح جنگ و گردونواح کے لیے،
علاوہ ازیں اپنے مقامی اوقات کی پابندی کریں، شکریہ

Introducing our Ramadan Calendar!🌙

✨ May the blessings of Ramadan fill your heart with peace and joy. May this holy month bring you closer to your faith and loved ones. Ameen! 🙏

28/12/2024

villageside national game for christmas/dec urrf brray din ki chutyaan game.
Few childs commonly seen to play it now too, but versions are limited now.

21/12/2024

خشک سردی کا سیزن عروج پر ہے فتح جنگ میں

Address

Adnan Electric Store, Attock Road
Fatehjang
44350

Opening Hours

Tuesday 09:00 - 17:00
Wednesday 09:00 - 17:00
Thursday 09:00 - 17:00
Friday 09:00 - 17:00
Saturday 09:00 - 17:00
Sunday 09:00 - 17:00

Telephone

+923465341753

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Fatehjangcity.com posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Fatehjangcity.com:

Share