19/08/2025
تحریر ۔۔ ذوالفقار علی گورائیہ
علاقائی صحافی اور ہمارا معاشرہ
علاقائی صحافی معاشرے کا وہ اہم ستون ہے جس کا بنیادی کام عوام کی آواز کو اعلیٰ حکام تک پہنچانا ہوتا ہے۔ صحافی اپنے پاس سے کچھ نہیں لکھتا بلکہ وہی مسائل، واقعات اور حقائق رپورٹ کرتا ہے جو عوام میں موجود ہوتے ہیں۔ اگر علاقائی صحافی علاقے میں بڑھتی ہوئی چوریوں اور ڈکیتیوں کے واقعات کو اجاگر کرتا ہے تو اس کا مقصد صرف اور صرف عوام کو درپیش مسائل کو اعلیٰ حکام تک پہنچانا ہوتا ہے۔
تاہم اکثر ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ مخصوص طبقات، جو براہِ راست یا بالواسطہ طور پر ان جرائم میں ملوث ہوتے ہیں یا ان کے حامی ہوتے ہیں، صحافیوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ رویہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان چوروں یا جرائم پیشہ عناصر کے پکڑے جانے پر وہ مخصوص طبقہ خود بے نقاب ہونے کے خدشے سے ڈرتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات ایسے عناصر پولیس کے ساتھ مل کر ان وارداتوں کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں اور علاقائی صحافیوں کو ٹارگٹ بناتے ہیں۔
اگر آپ لوگ پولیس کے اتنے ہی خیر خواہ ہیں تو پولیس کے حق میں صرف سوشل میڈیا پر پوسٹ لکھ دینا کافی نہیں ہوتا، اصل مدد تب ہوتی ہے جب آپ لوگ چوروں، ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ افراد کی نشاندہی کریں اور بروقت اطلاع پولیس کو دیں۔ اس طرح پولیس کو ٹھوس معلومات ملتی ہیں اور وہ مؤثر کارروائی کر سکتی ہے۔ لیکن شاید ایسا کرنا آپ کا مقصد نہ ہو بلکہ آپ کو مقصود کچھ اور ہے۔
اگر کوئی عوامی نمائندہ یا عام شہری عوامی فلاح کے لیے کوئی بیان ریکارڈ کرواتا ہے اور صحافی اسے اخبارات میں شائع نہ کریں تو اس پر اعتراض کرنا بجا ہے۔ اسی طرح اگر علاقائی صحافی عوام کے بنیادی مسائل جیسے تعلیم، صحت، پانی، سیوریج یا امن و امان کے معاملات کو نظرانداز کریں تب بھی ان پر تنقید بنتی ہے۔ لیکن اگر صحافی اپنی ذمہ داری پوری ایمانداری سے ادا کر رہے ہیں، عوام کی آواز بلند کر رہے ہیں علاقے میں ہونے والی چوریوں اور ڈکیتیوں کے بارے لکھ رہے ہیں، تو پھر ان پر اعتراض کرنے یا انہیں نشانہ بنانے کی وجہ کیا ہے؟
باشعور طبقے کو چاہیے کہ وہ اس سوال پر غور کرے کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جو صحافیوں کو حقائق سامنے لانے پر نشانہ بناتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ صحافی عوام کی آواز ہیں، انہیں خاموش کر دینا دراصل عوامی مسائل کو دبانے کے مترادف ہے۔