#گلگت
سکارکوئی میں سیلاب داس محلہ لوگوں نے گھر خالی کر دئے کئی گھر سیلاب کے زد میں
23/07/2025
چلاس: وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان تھک میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ریسکیو آپریشن اور بحالی کے کاموں کے معائنے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کررہے ہیں
23/07/2025
گورنرگلگت بلتستان نے نئے مالی سال کے بجٹ پر دستخط
کرکے وزیر اعلی آفس بھیج دیا۔إنشاءاللّہ نوٹیفکیشز ایک دو روز میں متوقع۔
سیکرٹری اطلاعات اگیگا جی بی
23/07/2025
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے کہا ہے کہ تھک کے مقام پر تمام لاپتہ افراد کو نکالنے تک ریسکیو آپریشن جاری رہے گا۔ سیلاب سے متاثرہ علاقے تھک، نیاٹ، کھنراور تھور کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دیتے ہوئے تھک کے مقام پر سیلاب کی زدمیں آکر جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء کو حکومتی پالیسی کے تحت معاوضے (Death Compention) دینے کا اعلان کیا۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جن گھروں کو سیلاب کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے ان کا مکمل سروے کرنے کے بعد حکومتی پالیسی کے تحت معاوضوں کی ادائیگی کو یقینی بنائی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ نے متاثرین سیلاب کو ٹینٹ اور امدادی اشیاء کی فراہمی کو بھی یقینی بنانے کے احکامات دیئے۔ وزیر اعلیٰ نے ڈی جی جی بی ڈی ایم اے، ڈپٹی کمشنر چلاس سمیت تمام متعلقہ آفیسران کو ہدایت کی ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پینے کا صاف پانی، آبپاشی کے چینلز اور بجلی کی بحالی کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کریں۔ وزیر اعلیٰ نے ڈپٹی کمشنر چلاس کو ہدایت کی کہ آئندہ دو دنوں میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بنیادی سہولیات کی فوری فراہمی کیلئے ایمرجنسی نافذ کرنے کیلئے ضروری کارروائی مکمل کریں۔ ان خیالات کا اظہار وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے تھک، نیاٹ اور تھور کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کے بعد چلاس میں اعلیٰ سطحی اجلاس کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں صوبائی سیکریٹری برقیات،کمشنر، ڈپٹی کمشنر چلاس، ڈی جی جی بی ڈی ایم اے، ڈی آئی جی اور دیگر متعلقہ آفیسران نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ہونے والے نقصانات، ریسکیو اور بحالی کے کاموں کے حوالے سے بریفنگ دی۔ وزیر اعلیٰ نے تھک چلاس میں سیلاب سے متاثرہ علاقے کے دورے کے موقع پر ڈی جی جی بی ڈی ایم اے، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر سمیت متعلقہ آفیسران کو ہدایت کی کہ ریسکیو کے عمل کو تیز کیاجائے، اضافی مشینری ریسکیو کے عمل کو تیز کرنے کیلئے فراہم کی جائے۔ وزیر اعلیٰ نے ریسکیو آپریشن کے دوران پاک آرمی، جی بی سکاؤٹس، پولیس اور تھک کے عوام کے کردار کو سراہتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ متاثرین کو ٹینٹ اور امدادی اشیاء فوری طور پر فراہم کئے جائیں گے اور لاپتہ افراد کونکالنے اور متاثرین کی بحالی کیلئے صوبائی حکومت تمام وسائل بروئے کار لارہی ہے۔ حکومت آزمائش کی اس گھڑی میں متاثرین کے ساتھ کھڑی ہے۔ وزیر اعلیٰ حاجی گلبر خان نے تھور چلاس میں بھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔اس موقع پر کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو ہدایت کی کہ تھور شاہراہ کی بحالی کیلئے بھاری مشینری استعمال کی جائے تاکہ عوام کو آمد و رفت کے حوالے سے سہولت فراہم کی جاسکے۔ وزیر اعلیٰ نے تھور میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بھی پینے کے پانی، بجلی، آبپاشی کے چینلز اور رابطہ سڑکوں کی بحالی کیلئے ایمرجنسی بنیادوں پر اقدامات کرنے کے احکامات دیئے۔اس موقع پر وزیر اعلیٰ کے ہمراہ مشیر جنگلات حاجی شاہ بیگ اور صوبائی وزیر زراعت انجینئر انور بھی موجود تھے۔
23/07/2025
کے ٹو بیس کیمپ جانے کے لیے حوطو کے اس پل سے گزرنا پڑتا ہے تقریباً 8 گاؤں بھی اس پل سے گزرنے کے بعد آتے ہیں پل کا ایک حصہ دریا برد ھونے کے بعد کے ٹو بیس کیمپ میں موجود سینکڑوں ملکی و غیر ملکی کوہ پیماؤں سمیت ھزاروں افراد پھنس کر رہ گئے ہیں دوسری طرف جنھوں نے بیس کیمپ جانا تھا اور وہ اب نھیں جا سکتے ہیں
23/07/2025
قدرتی آفات کو صرف فطری عوامل قرار دینا ایک سنگین غلط فہمی ہے جو ہمیں حقیقی ذمہ داریوں سے بھٹکا دیتی ہے۔ گلگت بلتستان جیسے نازک ماحولیاتی خطے میں جب گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہوں، دریا اپنا بہاؤ بدل رہے ہوں، زمین کھسک رہی ہو، بارشیں معمول سے ہٹ کر آ رہی ہوں، اور درجہ حرارت غیرمعمولی بلندی کو چھو رہا ہو، تو یہ سب کچھ محض قدرت کا کھیل نہیں بلکہ ہماری انسانی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ جنگلات کی بےدریغ کٹائی، بلاتحقیق تعمیراتی منصوبے، غیر سائنسی طرز زندگی، اور گلوبل وارمنگ جیسے عوامل ہماری اپنی پالیسیوں، لالچ اور غفلت کا پیدا کردہ نتیجہ ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ان سنگین مسائل کو حل کرنے کے لیے ملکی و غیر ملکی این جی اوز اور مختلف حکومتی اداروں نے درجنوں پروجیکٹس لانچ کیے، ان پر "کلائمیٹ گلوب"، "گلیشیئر ایڈاپٹیشن"، "ریزیلینس پراجیکٹ"، "ڈی آر آر پروگرامز" جیسے فینسی نام رکھے گئے، خوبصورت لوگوز چھاپے گئے، فائیو اسٹار ہوٹلز میں کانفرنسز ہوئیں، بڑے شہروں میں موسمیاتی تبدیلی پر سیمینارز منعقد کیے گئے، اور ان سب پر اربوں روپے خرچ کر دیے گئے۔ مگر زمینی سطح پر اس پورے نظام کی حقیقت محض دکھاوا اور کاغذی کارروائی کے سوا کچھ نہیں نکلی۔
جب ہم مختلف اداروں کی رپورٹس دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ 2001 سے لے کر 2023 تک صرف گلگت بلتستان میں کم از کم 370 سے زائد گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈز (GLOFs) ریکارڈ ہوئے، جن میں درجنوں جانیں ضائع ہوئیں، کھڑی فصلیں بہہ گئیں، پل ٹوٹے، سڑکیں بند ہوئیں اور سینکڑوں خاندان بے گھر ہوئے۔ ان ہی سالوں میں تقریباً 15 ارب روپے سے زائد فنڈز صرف کلائمیٹ چینج اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ پر خرچ کیے گئے۔ سوال یہ ہے کہ وہ اربوں روپے کہاں گئے؟ کون سا حفاظتی نظام بنایا گیا؟ کس گاؤں میں ابتدائی وارننگ سسٹم نصب ہوا؟ کس علاقے میں محفوظ شیلٹرز بنائے گئے؟ کس علاقے کے عوام کو ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کی تربیت دی گئی؟
یہ تلخ حقیقت ہے کہ ان پروجیکٹس کا آؤٹ پٹ صفر ہے۔ جس خطے کو تحقیق، سائنس، مقامی علم اور کمیونٹی انگیجمنٹ کی بنیاد پر بچایا جانا چاہیے تھا، وہاں گراں قیمت رپورٹس اور جعلی کامیابیوں کا شور مچایا گیا۔ نتیجہ یہ کہ آج بھی وادی بگروٹ، ہاسس، دریل، تنگیر، استور، شگر، خپلو، یاسین، اور ہنزہ کے لوگ کسی نئی آفت کے انتظار میں خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔
یہ کالم محض ایک تنقید نہیں، بلکہ ایک الزام نامہ ہے ان تمام بےحس اداروں کے خلاف، جنہوں نے گلوبل وارمنگ کے نام پر بین الاقوامی فنڈز کی بندر بانٹ کی، لیکن علاقے کی اصل صورتحال کو نہ سمجھا اور نہ بدلا۔ اس کالم کے ذریعے اربابِ اختیار سے کڑے سوالات کیے جا رہے ہیں: وہ این جی اوز جنہوں نے خود کو ماحولیاتی نجات دہندہ بنا کر پیش کیا، وہ ریسرچرز جنہوں نے ہوائی اندازوں پر اپنی رپورٹیں لکھیں، اور وہ گورنمنٹ افسران جنہوں نے فائلوں میں دستخط کے ذریعے وسائل کی تقسیم کی—کیا آپ سب واقعی بےقصور ہیں؟
اگر واقعی ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کو اس تباہی سے بچانا ہے تو محض نعروں، سمیناروں اور پروجیکٹ رپورٹس سے باہر نکلنا ہوگا۔ گلگت بلتستان جیسے حساس علاقوں میں مقامی دانش، سائنسی تحقیق، سخت احتساب اور حقیقی فیلڈ ورک کو بنیاد بنانا ہوگا۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان نام نہاد ماحولیاتی مجاہدوں کی ایک بار کھل کر جواب دہی کی جائے۔ ان کی کلاس لی جائے۔ انہیں عوام کے سامنے لا کر پوچھا جائے کہ انہوں نے اربوں روپے لے کر اس خطے کو کیا دیا؟ اگر ان کے پاس کوئی معقول جواب نہیں تو کم از کم انہیں اس بےحسی پر شرمندگی تو محسوس ہو۔
گلگت بلتستان کو اب کسی اور ‘پراجیکٹ’ کی نہیں، عملی، خالص، دیانتدار اور سائنسی بنیاد پر ماحولیاتی انصاف کی ضرورت ہے۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم سوال پوچھنا سیکھیں — بلند آواز میں، بغیر کسی مصلحت کے۔
از قلم محمد ہابیل قزلباش
Gilgit Media Network
World Bank
BBC URDU
United Nations
Saadat Ali
23/07/2025
خدیجہ عالم دبئی میں ہونے گلوبل انکاؤنٹر کے عالمی مقابلوں میں 5000 میٹر ریس میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی فخر ضلع غذر خدیجہ نے بھاری مارجن کے ساتھ سونے کا تمغہ اپنے نام۔کر دیا ضلع غذر گاہکوچ پائئن کی قابل فخر بیٹی کی شاندار کامیابی پر مبارکباد
22/07/2025
خالد خورشید کی حکومت کی نسبت سے حاجی گلبرخان کی حکومت میں بہت اچھے کام ہوئے ڈاکٹر زمان خواتین کو ان کے حقوق دینے چاہیے
22/07/2025
ایسا خوفناک سیلاب یہاں کے باشندوں نے اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا
22/07/2025
دیامر کے لوگوں نے دکھا دیا کہ مشکل وقت میں انسانیت ہی سب سے بڑی پہچان ہے۔
سیلاب کی تباہی میں لوگوں کو پناہ دی، کھانا کھلایا اور مدد کے ہر دروازے کھول دیے۔
ہر ہاتھ کی انگلی برابر نہیں ہوتی، لیکن دیامر کے لوگوں نے دل سب سے بڑا دکھایا۔
سلام ہے ان کے جذبے کو، جو پورے گلگت بلتستان کا فخر بنے!
22/07/2025
دنیور نالے میں سیلاب . 12 چھلمس سائیڈ کے گھر متاثر۔
22/07/2025
استور بولن نالے میں سیلابی ریلے کی زد میں آکر ایک خاتون جانبحق ہونے کی اطلاع ہے مقامی لوگوں نے اپنے گھروں کو خالی کرلیا ہے سیلابی ریلے واقفے واقفے سے جاری ہے
ایک عینی شاہد کے مطابق بولن کائنر کے مقام میں ایک خاتون سیلابی ریلے کی زد میں آئی ہے جس کے بعد اس کی لاش کو بھی دریا استور میں دیکھا گیا ہے
Be the first to know and let us send you an email when VON posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.