25/11/2025
نگران وزیرِاعلیٰ کا تعلق ضلع استور کے دور افتادہ اور اہمیت کے حامل علاقے ناصر آباد سے ہے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی اسکول نمبر 1، گلگت سے حاصل کی، جہاں ان کی علمی و اخلاقی صلاحیتیں ابتدا ہی سے نمایاں رہیں۔ میٹرک کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے وہ کراچی تشریف لے گئے اور ایس۔ایم لاء کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری ممتاز کارکردگی کے ساتھ مکمل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے بعد انہوں نے نائب تحصیلدار کے عہدے پر کامیاب ہوکر سرکاری ملازمت اختیار کرنے کی پیشکش کو قانونی میدان میں خدمات سرانجام دینے کے عزم کے باعث مسترد کیا اور وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔
1986 میں انہوں نے مقابلے کا امتحان پاس کر کے سول جج کے منصب پر تعیناتی حاصل کی۔ عدلیہ میں ان کا سفر مسلسل محنت، پیشہ ورانہ دیانت، قانون کے اصولوں سے غیر متزلزل وابستگی اور عوامی خدمت کے جذبے کا آئینہ دار رہا۔ مختلف عدالتوں میں ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے انہوں نے پیچیدہ نوعیت کے مقدمات کو نہایت غیر جانب داری، قانونی بصیرت اور اعلیٰ عدالتی روایت کے مطابق نمٹایا، جس کے نتیجے میں ان کا شمار خطے کے باوقار اور منجھے ہوئے قانون دانوں میں ہونے لگا۔
ان کی غیر معمولی کارکردگی کے اعتراف میں 2014 میں انہیں چیف کورٹ کے جج کے عہدے پر فائز کیا گیا، جہاں انہوں نے عدالتی اصلاحات، بروقت انصاف کی فراہمی اور عدالتی نظام کی بہتری کے لیے قابلِ قدر فیصلے اور اقدامات کیے۔ 2016 میں باعزت ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے عملی گوشہ نشینی اختیار کی، تاہم علمی سرگرمیوں، قانونی رہنمائی اور سماجی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کے طرزِ زندگی میں سادگی، اصول پسندی، دیانت اور خدمتِ خلق ہمیشہ نمایاں رہی ہے۔
قانونی شعبے میں ان کی دہائیوں پر محیط شاندار خدمات، انتظامی صلاحیت، عدالتی نظام کی گہری سمجھ اور غیر جانب دار شخصیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے انہیں نگران وزیرِاعلیٰ کے منصب کے لیے منتخب کیا گیا۔ یہ فیصلہ نہ صرف ان کی پیشہ ورانہ مہارت کا اعتراف ہے بلکہ صوبے میں شفافیت، استحکام اور مؤثر انتظام کے قیام کے لیے ایک اہم قدم بھی تصور کیا جا رہا ہے۔
جسٹس یار محمد اپنی نجی زندگی میں نہایت شریف النفس، حلیم الطبع، باوقار اور پرہیزگار شخصیت کے حامل ہیں۔ ان کی عملی زندگی دیانت، سادگی اور فرض شناسی کا ایسا نمونہ ہے جسے ہر سطح پر احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔