15/12/2025
گلگت بلتستان کے مستقبل کیلئےایک سنگین خطرہ
تحریر: اقبال عیسیٰ خان
گلگت بلتستان محض ایک جغرافیائی اکائی نہیں بلکہ بے پناہ قدرتی وسائل، اسٹریٹجک اہمیت اور باصلاحیت انسانی سرمائے کا مرکز ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے خطے اگر درست قیادت سے محروم ہو جائیں تو ان کی اہمیت نعمت کے بجائے بوجھ بن جاتی ہے۔
آج گلگت بلتستان اسی نازک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں اہم اور فیصلہ ساز عہدوں پر بدعنوان قیادت اس کے مستقبل کو سنگین خطرات سے دوچار
کر رہی ہے۔
ایک تجزیہ نگار کی نظر سے دیکھا جائے تو بدعنوان قیادت کا سب سے پہلا نقصان پالیسی سازی میں ظاہر ہوتا ہے۔ پالیسیاں عوامی ضرورت اور طویل المدتی وژن کے بجائے ذاتی فائدے،
سیاسی وفاداریوں اور وقتی مفاہمتوں کی بنیاد پر ترتیب دی جاتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ترقیاتی منصوبے محض اعداد و شمار بن کر رہ جاتے ہیں۔ بجٹ تو خرچ ہو جاتا ہے مگر اثرات زمین پر دکھائی نہیں دیتے، اور یوں عوامی اعتماد مسلسل کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔
عالمی تجربات اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں۔ ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے کئی ممالک نے اس وقت ترقی کی راہ اپنائی جب انہوں نے بدعنوان قیادت کے خلاف سخت فیصلے کیے،
اداروں کو خودمختار بنایا اور احتساب کو یقینی بنایا۔ اس کے برعکس، وہ ریاستیں جہاں بدعنوانی کو نظر انداز کیا گیا، وہاں سیاسی عدم استحکام، معاشی جمود اور سماجی انتشار نے جنم لیا۔
گلگت بلتستان کے لیے یہ عالمی اسباق محض مطالعہ کا موضوع نہیں بلکہ عمل کی فوری دعوت ہیں۔
بدعنوان قیادت اداروں کو افراد کے تابع کر دیتی ہے۔ میرٹ کمزور پڑتا ہے، سفارش مضبوط ہو جاتی ہے، اور نظام رفتہ رفتہ اپنی افادیت کھو دیتا ہے۔ اس صورتحال کا سب سے بڑا نقصان نوجوانوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ جب تعلیم، محنت اور صلاحیت کے باوجود دروازے بند نظر آئیں تو مایوسی جنم لیتی ہے،
اور یہی مایوسی ہجرت، بے روزگاری اور سماجی بے چینی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اس طرح اپنی بہترین افرادی قوت کو ضائع کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ایک اور تشویشناک پہلو عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان اعتماد کا بحران ہے۔ جب انصاف طاقتور کے لیے مخصوص اور قانون کمزور کے لیے سخت ہو جائے تو ریاست کی اخلاقی بنیادیں متزلزل ہو جاتی ہیں۔
گلگت بلتستان جیسے حساس اور سرحدی خطے میں یہ عدم اعتماد نہ صرف داخلی استحکام بلکہ قومی مفادات کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔
تاہم تصویر کا دوسرا رخ بھی موجود ہے۔ دنیا کی کامیاب قومیں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ تبدیلی کا آغاز ہمیشہ شعور سے ہوتا ہے۔
جب عوام سوال پوچھنے لگیں، شفافیت کا مطالبہ کریں اور قیادت کو جواب دہ بنائیں تو نظام خود کو درست کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ گلگت بلتستان کو آج ایسی قیادت درکار ہے جو
اختیار کو اعزاز نہیں بلکہ ذمہ داری سمجھے، جو ذاتی مفاد کے بجائے اجتماعی مستقبل کو ترجیح دے، اور جو اداروں کو کمزور نہیں بلکہ مضبوط بنائے۔
یہ کالم کسی فرد یا جماعت کے خلاف نہیں بلکہ ایک طرزِ فکر کے خلاف ہے۔
بدعنوانی کوئی تقدیر نہیں بلکہ ایک رویہ ہےاور رویے بدلنے کے لیے اجتماعی ارادہ درکار ہوتا ہے۔ اگر آج ہم نے درست سمت کا انتخاب کر لیا تو گلگت بلتستان نہ صرف اپنے چیلنجز پر قابو پا سکتا ہے بلکہ ایک روشن، باوقار اور مستحکم مستقبل کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔
تاریخ یہی بتاتی ہے کہ قومیں نعروں سے نہیں، کردار، احتساب اور بااصول قیادت سے بنتی ہیں۔
گلگت بلتستان کے مستقبل کا سوال بھی یہی ہے کہ کیا ہم بدعنوانی کو معمول سمجھ کر قبول کریں گے، یا ایک بہتر کل کے لیے آج کھڑے ہوں گے۔ فیصلہ آج کرنا ہوگا، کیونکہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔