Wershigoom Times

Wershigoom Times السلام و علیکم قارئین!یہ ایک میڈیا نیوز کمپنی ہے۔۔

مصعب بن عمیرؓ: شہزادگی سے شہادت تک کا سفرقلم جب تاریخ کے اوراق پر رکے تو کچھ نام ایسے ملتے ہیں جو اپنی قربانی، صبر اور ا...
05/09/2025

مصعب بن عمیرؓ: شہزادگی سے شہادت تک کا سفر

قلم جب تاریخ کے اوراق پر رکے تو کچھ نام ایسے ملتے ہیں جو اپنی قربانی، صبر اور اخلاص کے باعث ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتے ہیں۔ انہی ناموں میں سے ایک نام ہے مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا۔ ایک ایسا نوجوان جو دولت و شہرت کا شہزادہ تھا، لیکن ایمان کی دولت نے اسے سب سے بڑا مقام عطا کردیا۔

مکہ کا شہزادہ

مصعبؓ مکہ کے ایک دولت مند گھرانے میں پیدا ہوئے۔ نرم بستر، خوشبوئیں، اعلیٰ لباس، اور شان و شوکت ان کی زندگی کا حصہ تھی۔ روایتوں میں آتا ہے کہ اگر کوئی مکہ کی گلیوں میں خوشبو محسوس کرتا تو پہچان لیتا کہ یہ مصعبؓ گزرے ہیں۔

لیکن یہ شہزادہ جب نبی آخر الزمان ﷺ کی مجلس میں بیٹھا، قرآن سنا، اور ایمان کی روشنی دل میں اتری تو کفر کے سارے بت ٹوٹ گئے۔

ماں کا غصہ اور خاندان کا ظلم

جب ماں کو خبر ملی کہ مصعبؓ نے اسلام قبول کرلیا ہے تو وہ سخت غصے میں آگئی۔ خاندان والوں نے قید کیا، کپڑے اور زیورات چھین لیے۔ ان کے پاس صرف ایک پرانی چادر رہ گئی۔ لیکن یہ سب کچھ بھی ان کے ایمان کو متزلزل نہ کرسکا۔

ایک دن وہ ماں کی سختی سے تنگ آکر ہجرت کی تیاری کرنے لگے۔ ماں نے کہا:
"اگر تُو محمد کے دین پر قائم رہا تو تجھے اپنا بیٹا نہیں مانوں گی۔"
مصعبؓ نے نہایت سکون سے جواب دیا:
"ماں! میں نے محمد ﷺ کے دین کو قبول کیا ہے، اب کسی چیز کے لیے واپس نہیں مڑوں گا۔"

یوں قریش کا شہزادہ ایمان کا مجاہد بن گیا۔

اسلام کا پہلا سفیر

نبی کریم ﷺ نے جب مدینہ والوں سے اسلام کی بیعت لی تو وہاں دین کی تعلیم کے لیے کسی شخصیت کی ضرورت تھی۔ آپ ﷺ نے مصعب بن عمیرؓ کو منتخب کیا۔

وہ مدینہ گئے اور قرآن کی تلاوت اور حسنِ کردار کے ذریعے پورے شہر کو بدل دیا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں اسلام کا پہلا سفیر کہا جاتا ہے۔ یثرب کی بستی انہی کی محنتوں سے "مدینہ منورہ" بنی۔

احد کا دن

غزوۂ احد کے دن مصعبؓ کو پرچمِ اسلام تھمانے کا اعزاز ملا۔ دشمن نے ان پر شدید حملہ کیا۔ ایک ہاتھ کٹا تو دوسرے ہاتھ سے پرچم تھام لیا، دوسرا ہاتھ بھی کٹ گیا تو پرچم کو سینے سے لگا لیا۔ بالآخر جامِ شہادت نوش کیا۔

جب ان کا جنازہ آیا تو صحابہؓ رو پڑے۔ کیونکہ کفن کے لیے صرف ایک چادر تھی۔ اگر سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہوجاتے، اگر پاؤں ڈھانپتے تو سر کھل جاتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"مصعب کو اس چادر سے ڈھانپ دو اور پاؤں پر گھاس ڈال دو۔"

عظیم سبق

مصعب بن عمیرؓ کی زندگی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ایمان کا راستہ قربانی مانگتا ہے۔ آج ہم دولت، عزت، اور دنیاوی آسائشوں کو سب کچھ سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اصل کامیابی ایمان کی دولت ہے۔

مصعبؓ کے پاس نہ گھر بچا، نہ کپڑے، نہ مال و دولت۔ لیکن آج چودہ سو سال بعد بھی ان کا نام سن کر دلوں میں عقیدت کے چراغ جلتے ہیں۔

---

🔹 ایک طرف وہ مکہ کا سب سے خوش پوش نوجوان تھے،
🔹 اور دوسری طرف وہ مدینہ کے قبرستان میں ایک پرانی چادر کے ساتھ دفن ہوئے۔

یہی ہے ایمان کی اصل قیمت اور قربانی کی اصل شان۔

31/08/2025

Follow 👉 Front Page Pakistan
A Sikh student, from Lahore, Onkar Singh, has delivered a phenomenal performance in the 9th class examinations, scoring 554 out of 555 marks and setting a powerful example of hard work and dedication.

Excelling beyond expectations, Onkar—who appeared through a private school—chose Islamic Studies, and Holy Qura'n, translation despite being offered alternative subjects typically provided to minority students. He then backed that choice with outstanding results, securing 98/100 in Islamic Studies, and 49/50 in Holy Quran, translation.

Teachers and peers have lauded his achievement, as a milestone for interfaith learning and academic merit. Education observers say Onkar’s success showcases, how curiosity, discipline, and respect for diverse subjects can open doors and challenge stereotypes.

Disclaimer: This content is shared solely for educational, informational, and journalistic purposes. Image is AI-generated and used for creative purposes only.

31/08/2025

ابن خلدون تاریخ کے بڑے دماغوں میں سے ایک دماغ تھا اس نے ایک عجیب بات کہی!
اگر مجھے ظالم حکمرانوں اور غلاموں میں سے کسی ایک کو مٹانے کا اختیار ملے
تو میں غلاموں کو مٹا دوں گا کیونکہ یہ غلام ہی ہیں جنہوں نے ظالم حکمران پیدا کیے ہیں
سوچ کی غلامی ملک و قوم کو تباہ کر دیتی.

خوش خبری!یاسین سنٹر میں نیشنل بینک کے عقب میں ڈاکٹر عارف علی نے اپنے  کلینک کا افتتاح کیا۔اس اقدام سے یاسین ,نازبر بوجای...
21/08/2025

خوش خبری!
یاسین سنٹر میں نیشنل بینک کے عقب میں ڈاکٹر عارف علی نے اپنے کلینک کا افتتاح کیا۔اس اقدام سے یاسین ,نازبر بوجایوٹ,منیچ,نوح,طاؤس اور گردنواح کے لوگوں کو فائدہ پہنچےگا اور یہاں پہ ایک کوالیفائڈ ڈاکٹر کی کمی پوری ہوگئی۔کلینک میں متعدد قسم کے بیماریوں کا تسلی سے تشخیص اور علاج کیا جائے گا۔ نیز کلینک میں لیبارٹری کی بھی سہولت موجود ہوگی اور متعدد قسم کے ٹیسٹ کئے جائیں گے۔ اس اقدام سے لوگوں کو گلگت اور گاہکوچ کے سہولیات اپنے علاقے میں میسر ہونگی۔
Clinic name :ASH Medicine Surgical and Cosmetics
Address:Yasin centre behind National Bank
Doctor: Dr-Arif Ali
MBBS,RMP,GENERAL PHYSICIAN
Experienced from DOW Karachi.
Clinic Timiming : Daily 2pm to 6pm
Friday:12pm to 6pm
Sunday: 8am to 6pm

19/08/2025

ڈاکٹر قدیر خان کے 2 احسانات
ایٹم بم اور معافی نامی ۔
کہانی جو سننے کے لائق ہے

شروع کرتے ہیں 1985 سے جب عالمی سطح پر سرگوشیاں ہونے لگیں کہ پاکستان ایٹم بنا چکا ہے ۔ کولڈ ٹسٹ کی خبریں لیک ہو چکی تھیں ۔ لیکن دنیا کے پاس ثبوت کوئی نہیں تھا ۔
ہوا یوں کہ
مئی 2003 میں ایران کے ایک باغی گروہ نے ایرانی یورینیم انرچمنٹ پلانٹ کی خبر امریکہ کو پہنچا دی ۔ ایران پر شدید دباؤ آیا۔ ایران کو بتانا پڑا کہ ہمارا پروگرام پُرامن مقاصد کے لئے ہے ، بم بنانے کیلئے نہیں ۔
ایران پر جانچ کروانے کی شرط عائد ہوئی ۔

جب جولائی 2003 میں عالمی انسپکشن ٹیم ایران پہنچی تو پلانٹ میں نصب 100 سینٹری فیوجز دیکھ کر ہی سمجھ گئی کہ یہ وہی ڈیزائن ہے جو ہالینڈ کی کمپنی سے غائب ہوئے تھے جب ڈاکٹر قدیر وہاں کام کرتے تھے۔

ایران نے کہا کہ تمام سینٹری فیوج اسنے خود تیار کئے ہیں ۔ تب ٹیم نے ان سائٹس کا معائنہ کروانے کا مطالبہ کر دیا جہاں ایران نے یہ تیار کئے تھے ۔
تب ایران کو تسلیم کرنا پڑا کہ اس نے یہ پلانٹ و آلات باہر کے زرائع سے حاصل کئے ہیں ، بہرحال پاکستان کا نام نہیں لیا گیا ۔۔۔
لیکن انسپکشن ٹیم کا پورا شک پاکستان پر تھا ۔

پھر ہوا یوں کہ ٹھیک دو ماہ بعد اکتوبر 2003 میں برطانوی انٹیلیجنس MI6 کو اطلاع ملی کہ ملیشیا سے 4 کنٹینر براستہ دوبئی لیبیا جا رہے ہیں جن میں یورینیم انرچمنٹ پلانٹ کے حساس آلات ہیں ۔ اطلاع اتنی گہری تھی کہ کنٹینرز کے نمبر تک بتائے گئے ۔
امریکی، برطانوی اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی متحرک ہوئیں اور نہر سویز پار کرنے کے بعد مال بردار جہاز کا رخ جرمنی کی بندرگاہ کیطرف موڑ دیا گیا ۔
تلاشی ہوئی ۔ اطلاع درست نکلی ۔ چاروں کنٹینرز میں پاکستانی ساختہ پلانٹ برآمد کر لیا گیا ۔

لیبیا اور پاکستان دونوں پھنس گئے ۔ لیبیا کی بھی تلاشی لی گئی ۔ وہاں سے ویسے ہی بلوپرنٹ ملے جو ڈاکٹر قدیر ہالینڈ سے ساتھ لائے تھے

یہاں یہ بات بتانی ضروری ہے کہ ایک یورینیم انرچمنٹ یونٹ کا سائز آتنا بڑا ہوتا ہے کہ بمشکل دو یا تین کنٹینرز میں سما پاتا ہے جبکہ پورے پلانٹ کے لئے سینکڑوں یونٹ درکار ہوتے ہیں
اندازہ لگا لیجیے کہ ایران کے پاس جو 100 یونٹ تھے اور ابھی 900 مزید جانے تھے ان کے لئے کتنے کنٹینر پاکستان سے نکلے ہونگے اور کتنے سال لگے ہونگے ؟
مزے کی بات یہ کہ ایران ، لیبیا ، کوریا اور نجانے کس کس ملک کو اتنی بڑے پیمانے کی شپمنٹ 24 گھنٹے ایجنسیوں کی نگرانی میں رہنے والا ڈاکٹر قدیر خان اور اس کے چند ساتھی کر رہے تھے لیکن ریاست کو سالہاسال خبر نہ ہوئی ۔

دوسرا یہ کہ ایک ایک سودا اربوں ڈالر کا تھا لیکن یہ ڈالر کب ، کیسے اور کن ذرائع یا اکاؤنٹس سے ڈاکٹر قدیر خان تک پہنچے کا ایک ادنیٰ ثبوت نہ مل سکا ۔ نہ پاکستان کو نہ امریکہ یا برطانیہ کو ۔

آگے چلئے

پھر جنرل مشرف اور ڈاکٹر صاحب کے درمیان ایک ون ٹو ون ملاقات ہوتی ہے جس میں ہوئی باتوں کا کوئی ایک بھی گواہ نہیں ۔ لیکن بعد ازاں اس ملاقات کی جنرل مشرف اور ڈاکٹر قدیر خان کے زبانی سامنے آئی کہانی میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔

بہرکیف ملاقات کے بعد
ڈاکٹر صاحب کو سرکاری تحویل میں لے کر جنرل مشرف ریاستی سطح پر ایٹمی پھیلاؤ کے جرم میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہوئے مدعا ایٹمی سائنسدان پر ڈال دیتا ہے ۔
ڈاکٹر قدیر ملک کی خاطر ٹی وی پر قوم سے معافی مانگتے ہیں جبکہ جنرل مشرف ڈاکٹر صاحب کی معافی قبول کرتے ہوئے انہیں امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیتا ہے ۔

مشرف کے کہنے پر میجر جنرل خالد قدوائی ایک پریزنٹیشن تیار کر کے امریکہ کو دیکھاتا ہے کہ کس طرح ہم نے ڈاکٹر قدیر کا نیٹ ورک ختم کر دیا ہے ۔ یہ باتیں میدیا کو بھی بتائی جاتی ہیں ۔
امریکہ سے کہا جاتا ہے کہ دنیا کے ہر ملک نے ایٹمی صلاحیت کسی نہ کسی دوسرے ملک سے خفیہ حاصل کی ہے ۔ امریکہ اور فرانس نے بھی تو یہ صلاحیت جرمنی سے چوری حاصل کی تو پھر اکیلا پاکستان سزا کیوں بھگتے ؟
امریکہ اپنے پیارے مشرف کی بات مان لیتا ہے اور قصہ ختم شدہ

لیکن اس کہانی نے جن سوالات کو جنم دیا آخر میں وہ سوال دوہرا دیتا ہوں

1- کیا ڈاکٹر قدیر اکیلا اتنا بڑا اور خطرناک نٹ ورک چلا سکتا تھا ؟

2- وہ اربوں ڈالر کہاں ہیں جو ایران ، لیبیا وغیرہ وغیرہ سے حاصل ہوئے ؟؟

3- ڈاکٹر قدیر کے خلاف معلومات صرف اور صرف دو چار جنرلز تک کیوں محدود ہیں ۔ اتنے بڑے نٹ ورک کا کیا اور کوئی گواہ نہیں ؟؟

4- ڈاکٹر قدیر خان کو نالائق و لالچی ظاہر کرنے کے لئے جنرل مشرف کو پرویز ہود بھائی اور موجودگی ڈی جی ISPR کے والد سائنسدان سلطان محمود بشیر کے علاؤہ کوئی نہ ملا ؟

ہماری تو تاریخ ہی معافیوں کی فرمائش گری سے بھری پڑی ہے

فاطمہ جناح سے معافی کا مطالبہ
مجیب الرحمٰن سے معافی کا مطالبہ
بنگالیوں سے معافی کا مطالبہ
بھٹو سے معافی کا مطالبہ
بگٹی سے معافی کا مطالبہ
ائیر چیف اصغر خان سے مطالبہ
بینظیر سے مطالبہ
مہاجروں سے مطالبہ
نواز شریف سے مطالبہ
ڈاکٹر عبد القدیر خان سے مطالبہ
تحریک انصاف سے مطالبہ
پریس کانفرنسوں کا مطالبہ
ماہ رنگ بلوچ سے مطالبہ
اور اب
عمران خان سے معافی کا مطالبہ

اللّٰہ تعالیٰ ایسی معافیاں طلب کرنے والوں سے پاکستان کو پناہ عطا فرمائے ۔

🔬 ڈاکٹر سمیرا موسیٰ: وہ جو ایٹم کو امن کا ذریعہ بنانا چاہتی تھیں، مگر خاموش کر دی گئیں!تحریر: ندیم ملک🌸 ایک خواب... جو س...
01/08/2025

🔬 ڈاکٹر سمیرا موسیٰ: وہ جو ایٹم کو امن کا ذریعہ بنانا چاہتی تھیں، مگر خاموش کر دی گئیں!

تحریر: ندیم ملک

🌸 ایک خواب... جو سائنس کی سرحدیں پار کر گیا!

3 مارچ 1917 کو مصر کے "زیفتا" نامی گاؤں میں ایک لڑکی نے آنکھ کھولی جس نے مستقبل کی سائنس کو لرزا کر رکھ دینا تھا۔ یہ تھیں ڈاکٹر سمیرا موسیٰ — عرب دنیا کی پہلی خاتون ایٹمی سائنسدان، جنہوں نے نہ صرف سائنس کی دنیا میں نام کمایا بلکہ خواتین کے لیے ایک نئی راہ ہموار کی۔

📘 علم کی دنیا میں پہلا قدم: "ریاضی کی کتاب میں غلطی پکڑنے والی بچی"
سمیرا موسیٰ کی ذہانت بچپن سے ہی ظاہر ہو چکی تھی۔ صرف سیکنڈری اسکول کے پہلے سال میں ہی انہوں نے ریاضی (الجبرہ) کی سرکاری کتاب میں موجود غلطیاں درست کیں، اور پھر اپنے والد کے خرچ پر وہ کتاب شائع کروا کر مفت تقسیم کی۔ (ماخذ: Egypt Independent, 2018)

🎓 مصر کی پہلی خاتون ایٹمی ماہر: سائنس کے دروازے پر پہلا دستک

سمیرا نے قاہرہ یونیورسٹی سے فزکس میں تعلیم حاصل کی اور فیکلٹی آف سائنس میں پہلی خاتون ٹیچنگ اسسٹنٹ بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب لڑکیوں کا اعلیٰ سائنسی تعلیم حاصل کرنا تقریباً ناممکن سمجھا جاتا تھا۔

🇬🇧 برطانیہ اور امریکہ کا علمی سفر: جہاں ایٹم کا راز کھلا

انہوں نے گیسز کی تھرمل کمیونیکیشن میں ماسٹرز کیا اور پھر برطانیہ کا رخ کیا، جہاں ایٹمی تابکاری (Atomic Radioactivity) اور ایکس رے کے اثرات پر کام کرتے ہوئے پی ایچ ڈی مکمل کی۔ حیرت انگیز بات یہ کہ اپنا تحقیقی مقالہ صرف 1 سال 5 ماہ میں مکمل کر لیا! (ماخذ: The Arab Weekly, 2019)

☢️ "ایٹم سب کے لیے، جنگ کے بغیر": انقلابی خیال، جو جان کا دشمن بن گیا!

اپنی تحقیق میں سمیرا موسیٰ ایک ایسی مساوات پر پہنچی تھیں جس کے ذریعے تانبے جیسی سستی دھات کو بھی فِشن ری ایکشن کے ذریعے توانائی میں بدلا جا سکتا تھا۔ ان کا خواب تھا:

"ایٹمی توانائی کو دوا اور ترقی کے لیے استعمال کیا جائے، نہ کہ تباہی کے لیے!"

وہ کہتی تھیں:
"ہم سب کے لیے ایٹم، نہ کہ جنگ کے لیے!"
(ماخذ: Middle East Monitor, 2020)

🕵️‍♀️ ایک سازش، ایک کار حادثہ، ایک خاموش موت

5 اگست 1952 کو امریکہ میں انہیں ایک لیبارٹری دورے کی دعوت دی گئی، جہاں وہ ایک "حادثے" میں جاں بحق ہو گئیں۔ لیکن تحقیق سے پتا چلا کہ یہ معمولی حادثہ نہیں تھا۔
یہ دراصل موساد (Mossad) کی ایک کارروائی تھی، جس نے ان کی زندگی کے ساتھ ساتھ، عرب دنیا کی سائنسی خودمختاری کا بھی گلا گھونٹ دیا۔
(ماخذ: Al Jazeera Documentary: "Who Killed Samira Moussa?")

---

🕯️ ورثہ جو زندہ ہے...

ڈاکٹر سمیرا موسیٰ آج بھی زندہ ہیں — ہر اس بچی کی آنکھ میں جو سائنس دان بننے کا خواب دیکھتی ہے، ہر اس نوجوان کے دل میں جو علم سے دنیا بدلنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔

📌 حوالہ جات:

1. Egypt Independent – “Samira Moussa: Egypt’s first female nuclear scientist”, March 3, 2018

2. The Arab Weekly – “Samira Moussa, Egypt’s nuclear pioneer”, August 10, 2019

3. Middle East Monitor – “The story of Egypt’s forgotten nuclear physicist”, February 20, 2020

4. Al Jazeera Documentary – Who Killed Samira Moussa?, 2022

‏وائی فائی اور چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے ہر مہینے $6,128 کمانا ممکن ہے اور یہ کام اتنا آسان ہے کہ میری دادی اماں بھی اسے آر...
01/08/2025

‏وائی فائی اور چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے ہر مہینے $6,128 کمانا ممکن ہے اور یہ کام اتنا آسان ہے کہ میری دادی اماں بھی اسے آرام سے کر سکتی ہیں۔ اس کے لیے صرف چار آسان اقدامات پر عمل کرنا ہوتا ہے، جنہیں کوئی بھی گھر بیٹھے، صرف انٹرنیٹ اور تھوڑے سے وقت کے ساتھ مکمل کر سکتا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی آپ کی رہنمائی کرتا ہے، کام آسان بناتا ہے، اور وقت کی بچت کرتا ہے۔ اگر آپ تھوڑا سیکھنے اور محنت کرنے کو تیار ہیں تو یہ موقع آپ کے لیے بھی ہے۔ آج ہی شروعات کریں اور اپنی آن لائن
آمدنی بڑھائیں۔
‏سب سے پہلے چیٹ جی پی ٹی پر جائیں۔ وہاں جا کر یہ پیغام لکھیں یا پیسٹ کریں:
"List the top 10 best-selling kitchen accessories on Amazon that cost more than $100."
چیٹ جی پی ٹی آپ کو فوراً ایسی پروڈکٹس کی فہرست دے گا جو ایمیزون پر سب سے زیادہ فروخت ہو رہی ہیں اور جن کی قیمت $100 سے زیادہ ہے۔ اس مثال میں، ہم ’نینجا بلینڈر‘ کا انتخاب کریں گے۔ یہ ایک مشہور اور قابلِ اعتماد کچن پروڈکٹ ہے جو خریداروں میں کافی مقبول ہے۔ آپ ان میں سے کوئی بھی پروڈکٹ منتخب کر سکتے ہیں اور اگلے مراحل پر عمل کر کے آن لائن کمائی شروع کر سکتے ہیں۔

‏اب چیٹ جی پی ٹی سے کہیں کہ وہ ایک ٹاپ 3 لسٹ بنائے۔ پھر یہ پیغام چیٹ جی پی ٹی میں پیسٹ کریں:
"Now I want you to write a 1000-word TOP3 script with 2 competitors of Ninja Blender mentioning the pros and cons of each product."
چیٹ جی پی ٹی فوراً ایک تفصیلی مضمون تیار کرے گا جس میں نینجا بلینڈر اور اس کے دو مقابل پروڈکٹس کے فائدے اور نقصانات بیان کیے جائیں گے۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس ٹیکسٹ سے پیسے کیسے کمائیں؟
تو بس اگلے مرحلے پر جائیں، جہاں ہم آپ کو بتائیں گے کہ اس مواد کو استعمال کر کے آمدنی کیسے حاصل کی جائے۔

‏اب Fliki AI ٹول کا استعمال کریں اور چیٹ جی پی ٹی سے حاصل کیا گیا ٹیکسٹ وہاں پیسٹ کریں۔ Fliki خود بخود ایک پروفیشنل ویڈیو تیار کرے گا جس میں ایک ورچوئل پریزینٹر (آواتار) آپ کے لکھے گئے مواد کو دلکش انداز میں پیش کرے گا۔ یہ ویڈیو پروڈکٹ کا موازنہ پیش کرے گی اور دیکھنے والوں کو متاثر کرے گی۔ صرف 10 منٹ میں آپ ایک معیاری ویڈیو بنا سکتے ہیں جو دیکھنے میں بالکل پروفیشنل لگے گی۔
یہی ویڈیو آپ کی کمائی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ نیچے دی گئی مثال دیکھیں کہ آخر نتیجہ کیسا ہوگا۔
‏اب اس ویڈیو کو یوٹیوب پر اپلوڈ کریں۔ پریشان نہ ہوں اگر آپ کے پاس ایک بھی سبسکرائبر نہیں آپ پھر بھی یہ کر سکتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ویڈیو کی تفصیل (Description) میں اپنا افیلیئیٹ لنک ضرور شامل کریں، تاکہ جب کوئی ویڈیو دیکھ کر پروڈکٹ خریدے، آپ کو کمیشن ملے۔
یہ ایک سادہ مگر مؤثر طریقہ ہے آن لائن آمدنی کمانے کا۔ اگلے مرحلے میں، میں آپ کو بتاؤں گا کہ آپ اس ایک ویڈیو سے کتنی کمائی کر سکتے ہیں اور اسے مزید کیسے بڑھایا جا سکتا ہے۔

‏نتیجہ یہ ہوگا کہ جو بھی شخص اس پروڈکٹ کو خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے، وہ آپ کی ویڈیو تک ضرور پہنچے گا۔ جیسے ہی وہ ویڈیو دیکھے گا اور آپ کے دیے گئے افیلیئیٹ لنک پر کلک کر کے خریداری کرے گا، آپ کو ہر سیل پر تقریباً $23.12 تک کمیشن ملے گا۔
یعنی ایک بار ویڈیو اپلوڈ کر دینے کے بعد، بغیر کسی اضافی محنت کے، آپ بار بار کمائی کر سکتے ہیں۔ یہی سمارٹ ورک ہے ایک ویڈیو، مستقل آمدنی۔ تو دیر نہ کریں، آج ہی یہ طریقہ آزمائیں اور اپنی آن لائن آمدنی کی شروعات کریں۔

 🌍یقیناً! لداخ ایک انتہائی خوبصورت، قدیم، اور جغرافیائی و ثقافتی لحاظ سے منفرد خطہ ہے۔ ذیل میں اس کی تاریخ اور جغرافیہ پ...
30/07/2025

🌍
یقیناً! لداخ ایک انتہائی خوبصورت، قدیم، اور جغرافیائی و ثقافتی لحاظ سے منفرد خطہ ہے۔ ذیل میں اس کی تاریخ اور جغرافیہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے:

📜 لداخ کی تاریخ

▪️ قدیم دور:

لداخ کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ یہ علاقہ شروع میں تبتی تمدن کا حصہ تھا۔

لداخ کے لوگوں کا تعلق نسلی طور پر تبتی، منگول اور ہند آریائی اقوام سے جُڑا ہوا ہے۔

دریائے سندھ کی وادی میں موجود قدیم بستیوں کے آثار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں پتھر کے زمانے سے لوگ آباد رہے۔

▪️ بدھ مت کا دور:

7ویں صدی میں تبتی بادشاہ سونگ‌تسین گامپو نے یہاں بدھ مت کو فروغ دیا۔

بدھ مت کے مہاتماوں اور زائرین کے ذریعے لداخ میں عظیم گومپائیں (بدھ خانقاہیں) تعمیر ہوئیں، جیسے:

ہیماس گومپا

تک تھک گومپا

لامیورُو گومپا

▪️ قرونِ وسطیٰ:

10ویں صدی میں لوچن اُوڈے کے زیرِ سایہ لداخ ایک خود مختار بادشاہت بنی، جسے "Ngari Kingdom" کہا جاتا ہے۔

16ویں اور 17ویں صدی میں نامگیال خاندان نے حکومت کی اور لداخ کو مستحکم کیا۔

1684 میں لداخ اور تبّت کے درمیان جنگ ہوئی، جس کے بعد تنگسکین معاہدہ ہوا، جس نے لداخ کی سیاسی حدود متعین کیں۔

▪️ ڈوگرہ دور:

1834 میں ڈوگرہ فوج نے جنرل زوراور سنگھ کی قیادت میں لداخ پر قبضہ کیا، اور اسے جموں و کشمیر کی ریاست میں شامل کر دیا گیا۔

اس وقت سے لے کر 1947 تک لداخ مہاراجہ کشمیر کی حکومت کے ماتحت رہا۔

▪️ آزادی کے بعد:

1947 میں تقسیمِ ہند کے بعد لداخ بھارت کے زیرِ انتظام رہا۔

1962 میں ہند-چین جنگ میں چین نے مشرقی لداخ کے علاقے اکسائی چن پر قبضہ کر لیا۔

2019 میں بھارت نے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے جموں و کشمیر اور لداخ کو الگ الگ مرکزی زیرانتظام علاقوں (Union Territories) میں تقسیم کر دیا۔

🌍 لداخ کا جغرافیہ

▪️ محلِ وقوع:

لداخ شمالی بھارت کا ایک پہاڑی علاقہ ہے جو:

شمال میں چین (سنکیانگ اور تبت)

مشرق میں اکسائی چن

جنوب میں ہماچل پردیش

مغرب میں کشمیر اور گلگت بلتستان سے متصل ہے۔

▪️ اہم دریا:

دریائے سندھ (Indus River) لداخ کا سب سے بڑا اور اہم دریا ہے، جو تبت سے نکلتا ہے اور پاکستان کی طرف بہتا ہے۔

▪️ پہاڑی سلسلے:

لداخ دنیا کے سب سے بلند علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں:

کرکرم رینج (Karakoram Range)

زانسکار رینج

ہمالیہ کی ذیلی شاخیں شامل ہیں۔

▪️ مشہور درّے (پاسز):

کارگل پاس

زوجی لا

خردنگ لا – جو دنیا کے بلند ترین موٹربل راستوں میں شمار ہوتا ہے۔

▪️ اہم علاقے:

لیہ (Leh) – لداخ کا صدر مقام

کارگل (Kargil) – دوسرا اہم شہر

نوبرا وادی، پنگونگ جھیل، اور زانسکار وادی سیاحتی اور جغرافیائی لحاظ سے بہت مشہور ہیں۔

▪️ آب و ہوا:

لداخ ایک خشک اور سرد صحرائی خطہ ہے۔ یہاں کی سردیاں انتہائی شدید ہوتی ہیں، جہاں درجہ حرارت -30°C تک گر جاتا ہے۔

بارش بہت کم ہوتی ہے، اس لیے یہاں کاشتکاری صرف دریا کے کناروں یا مصنوعی آبپاشی پر منحصر ہے۔

🌟 ثقافتی جھلکیاں:

لداخ کی اکثریت بدھ مت پر عمل کرتی ہے، تاہم شیعہ مسلمان (خصوصاً کارگل میں) بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔

یہاں کی زبانیں تبتی، لداخی، بلتی اور اردو ہیں۔

مشہور تہوار: ہیماس فیسٹیول، لسار، دوشے، اور یُرپ۔

ایک بادشاہ نے اپنے بہنوئی کی سفارش پر ایک شخص کو محکمہ موسمیات کا وزیر لگا دیا۔ ایک روز بادشاہ شکار پر جانے لگا تو روانگ...
29/07/2025

ایک بادشاہ نے اپنے بہنوئی کی سفارش پر ایک شخص کو محکمہ موسمیات کا وزیر لگا دیا۔ ایک روز بادشاہ شکار پر جانے لگا تو روانگی سے قبل اپنے وزیرِ موسمیات سے موسم کا حال پوچھا۔

وزیر نے کہا :-- موسم بہت اچھا ہے اور اگلے کئی روز تک اسی طرح رہے گا۔ بارش وغیرہ کا قطعاً کوئی امکان نہیں۔

بادشاہ مطمئن ہوکر اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ شکار پر روانہ ہو گیا۔ راستے میں بادشاہ کو ایک کمہار ملا۔
اس نے کہا حضور ~ آپ کا اقبال بلند ہو‘ آپ اس موسم میں کہاں جا رہے ہیں؟
بادشاہ نے کہا:-- شکار پر۔
کمہار کہنے لگا‘:-- حضور! موسم کچھ ہی دیر بعد خراب ہوجانے اور بارش کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔

بادشاہ نے کہا‘ :-- ابے او برتن بنا کر گدھے پر لادنے والے ‘ تو کیا جانے موسم کا حال ؟ میرے وزیر نے بتایا ہے کہ موسم نہایت خوشگوار ہے اور شکار کے لیئے بہت موزوں ہے اور تم کہہ رہے ہو کہ بارش ہونے والی ہے؟

پھر بادشاہ نے ایک سپاہی کو حکم دیا کہ اس بے پرکی چھوڑنے والے کمہار کو دو جوتے مارے جائیں۔
بادشاہ کے حکم پر فوری عمل ہوا اور کمہار کو دو جوتے نقد مار کر بادشاہ شکار کے لیئے جنگل میں داخل ہو گیا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ گھٹا ٹوپ بادل چھا گئے ۔ آدھے گھنٹہ بعد گرج چمک شروع ہوئی اورپھر بارش۔ بارش بھی ایسی کہ خدا کی پناہ۔ ہر طرف کیچڑ اور دلدل بن گئی۔
بادشاہ اور اسکے ساتھیوں کو بہت پریشانی ہوئی - شکار کا پروگرام خراب ہو گیا۔ جنگل میں پانی سے جل تھل ہو گئی۔ ایسے میں خاک شکار ہوتا۔
بادشاہ نے واپسی کا سفر شروع کیا اور برے حال میں واپس محل پہنچا۔ واپس آکر اس نے دو کام کیئے ۔

پہلا یہ کہ وزیرِ موسمیات کو فوری برطرف کردیا اور دوسرا یہ کہ کمہار کو دربار میں طلب کیا، اسے انعامات سے نوازا اور وزیرِ موسمیات بننے کی پیشکش کی۔

کمہار ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا‘:--
حضور کہاں میں جاہل اور ان پڑھ شخص اور کہاں سلطنت کی وزارت۔ مجھے تو صرف برتن بنا کر بھٹی میں پکانے اور گدھے پر لاد کر بازار میں فروخت کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں آتا۔ مجھے موسم کا رتی برابر پتہ نہیں۔
ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ جب میرا گدھا اپنے کان ڈھیلے کر کے نیچے لٹکائے تو اس کا مطلب ہے کہ بارش ضرور ہو گی۔ یہ میرا تجربہ ہے اور آج تک میرے گدھے کی یہ پیش گوئی غلط ثابت نہیں ہوئی۔

یہ سن کر بادشاہ نے اپنا تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے کمہار کے گدھے کو اپنا وزیرِ موسمیات مقرر کر دیا۔

مؤرخ کا کہنا ہے کہ گدھوں کو وزیر بنانے کی ابتدا اس واقعے کے بعد سے ہوئی اور یہ روایت کسی نہ کسی شکل میں آج بھی پائی جاتی ہے۔۔

✓بہادر شاہ ظفر کے سارے شہزادوں کے سر قلم کر کے اس کے سامنے کیوں پیش کیے گئے✓قبر کیلئے زمین کی جگہ کیوں نہ ملی ✓آج بھی اس...
29/07/2025

✓بہادر شاہ ظفر کے سارے شہزادوں کے سر قلم کر کے اس کے سامنے کیوں پیش کیے گئے
✓قبر کیلئے زمین کی جگہ کیوں نہ ملی
✓آج بھی اسکی نسل کے بچے کھچے لوگ بھیک مانگتے پھرتے ہیں

کیوں؟
پڑھیں اور اپنی نسل کو بھی بتائیں
تباہی 1 دن میں نہیں آ جاتی
صبح تاخیر سے بیدار ہو نے والے افراد درج ذیل تحریر کو غور سے پڑھیں:
زمانہ 1850ء کے لگ بھگ کا ہے مقام دلی ہے
وقت صبح کے ساڑھے تین بجے کا ہے سول لائن میں بگل بج اٹھا ہے
پچاس سالہ کپتان رابرٹ اور اٹھارہ سالہ لیفٹیننٹ ہینری دونوں ڈرل کیلئے جاگ گئے ہیں
دو گھنٹے بعد طلوع آفتاب کے وقت انگریز سویلین بھی بیدار ہو کر ورزش کر رہے ہیں

انگریز عورتیں گھوڑ سواری کو نکل گئی ہیں سات بجے انگریز مجسٹریٹ دفتروں میں اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے ہیں

ایسٹ انڈیا کمپنی کے سفیر سر تھامس مٹکاف دوپہر تک کام کا اکثر حصہ ختم کر چکا ہے

کوتوالی اور شاہی دربار کے خطوں کا جواب دیا جا چکا ہے

بہادر شاہ ظفر کے تازہ ترین حالات کا تجزیہ آگرہ اور کلکتہ بھیج دیا گیا ہے

دن کے ایک بجے سر مٹکاف بگھی پر سوار ہو کر وقفہ کرنے کیلئے گھر کی طرف چل پڑا ہے
یہ ہے وہ وقت جب لال قلعہ کے شاہی محل میں ''صبح'' کی چہل پہل شروع ہو رہی ہے۔

ظل الہی کے محل میں صبح صادق کے وقت مشاعرہ ختم ہوا تھا جس کے بعد ظلِ الٰہی اور عمائدین خواب گاہوں کو گئے تھے۔
اس حقیقت کا دستاویزی ثبوت موجود ہے کہ لال قلعہ میں ناشتے کا وقت اور دہلی کے برطانوی حصے میں دوپہر کے لنچ کا وقت ایک ہی تھا۔

دو ہزار سے زائد شہزادوں کا بٹیر بازی، مرغ بازی، کبوتر بازی اور مینڈھوں کی لڑائی کا وقت بھی وہی تھا۔

اب ایک سو سال یا ڈیڑھ سو سال پیچھے چلتے ہیں۔
برطانیہ سے نوجوان انگریز کلکتہ، ہگلی اور مدراس کی بندرگاہوں پر اترتے ہیں، برسات کا موسم ہے مچھر ہیں اور پانی ہے ملیریا سے اوسط دو انگریز روزانہ مرتے ہیں لیکن ایک شخص بھی اس ''مرگ آباد'' سے واپس نہیں جاتا۔
لارڈ کلائیو پہرول گھوڑے کی پیٹھ پر سوار رہتا ہے

اب 2020 میں آتے ہیں۔
پچانوے فیصد سے زیادہ امریکی رات کا کھانا سات بجے تک کھا لیتے ہیں
آٹھ بجے تک بستر میں ہوتے ہیں اور صبح پانچ بجے سے پہلے بیدار ہو جاتے ہیں
بڑے سے بڑا ڈاکٹر چھ بجے صبح ہسپتال میں موجود ہوتا ہے۔
پورے یورپ، امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور سنگاپور میں کوئی دفتر، کارخانہ، ادارہ، ہسپتال ایسا نہیں جہاں اگر ڈیوٹی کا وقت نو بجے ہے تو لوگ ساڑھے نو بجے آئیں!

آج چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن چکی ہے پوری قوم صبح چھ سے سات بجے ناشتہ اور دوپہر ساڑھے گیارہ بجے لنچ اور شام سات بجے تک ڈنر کر چکی ہوتی ہے

ﷲ کی نعمت کسی کیلئے نہیں بدلتی اسکا کوئی رشتہ دار نہیں نہ اس نے کسی کو جنا، نہ کسی نے اس کو جنا جو محنت کریگا تو وہ کامیاب ہوگا۔
عیسائی ورکر تھامسن میٹکاف سات بجے دفتر پہنچ جائیگا تو دن کے ایک بجے تولیہ بردار کنیزوں سے چہرہ صاف کروانے والا، بہادر شاہ ظفر مسلمان بادشاہ ہی کیوں نہ ہو' ناکام رہے گا۔

بدر میں فرشتے نصرت کیلئے اتارے گئے تھے لیکن اس سے پہلے مسلمان پانی کے چشموں پر قبضہ کر چکے تھے جو آسان کام نہیں تھا اور خدا کے محبوب ﷺ رات بھر یا تو پالیسی بناتے رہے یا سجدے میں پڑے رہے تھے!

حیرت ہے ان حاطب اللیل دانش وروں پر جو یہ کہہ کر قوم کو مزید افیون کھلا رہے ہیں کہ پاکستان ستائیسویں رمضان کو بنا تھا کوئی اسکا بال بیکا نہیں کر سکتا کیا سلطنتِ خدا داد پاکستان ﷲ کی تھی اور کیا سلطنت خداداد میسور ﷲ کی نہیں تھی۔ (ٹیپو سلطان کی سلطنت)
جس ملک کے ووٹر ذہنی غلام ہوں، پیر غنڈے ہوں مولوی منافق ہوں، ڈاکٹر بے ایمان ہوں، سیاستدان، اور پولیس ڈاکو ہوں، کچہری بیٹھک ہو ججز بےاعتبار ہوں، لکھاری خوشامدی ہوں، اداکار بھانڈ ہوں، ٹی وی چینل پر مسخرے ہوں، تاجر بےایمان اور سود خور ہوں، دکاندار چور ہوں، اور جہاں تین سال کی بچی سے پچاس سال تک کی عورتوں ریپ عام ہو اور مجرموں کو سیاسی دباؤ میں آکر چھوڑ دیا جائے۔
اسلام آباد مرکزی حکومت کے دفاتر ہیں یا صوبوں کے دفاتر یا نیم سرکاری ادارے، ہر جگہ لال قلعہ کی طرز زندگی کا دور دورہ ہے، کتنے وزیر کتنے سیکرٹری کتنے انجینئر کتنے ڈاکٹر کتنے پولیس افسر کتنے ڈی سی کتنے کلرک آٹھ بجے ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں؟

کیا اس قوم کو تباہ وبرباد ہونے سے دنیا کی کوئی قوم بچا سکتی ہے جس میں کسی کو تو اس لئے مسند پر نہیں بٹھایا جاسکتا کہ وہ دوپہر سے پہلے اٹھتا ہی نہیں، اور کوئی اس پر فخر کرتا ہے کہ وہ دوپہر کو اٹھتا ہے لیکن سہ پہر تک ریموٹ کنٹرول کھلونوں سے دل بہلاتا ہے، جبکہ کچھ کو اس بات پر فخر ہے کہ وہ دوپہر کے تین بجے اٹھتے ہیں،

کیا اس معاشرے کی اخلاقی پستی کی کوئی حد باقی ہے.

جو بھی کام آپ دوپہر کو زوال کے وقت شروع کریں گے وہ زوال ہی کی طرف جائے گا۔
کبھی بھی اس میں برکت اور ترقی نہیں ہوگی۔

اور یہ مت سوچا کریں کہ میں صبح صبح اٹھ کر کام پر جاؤں گا تو اس وقت لوگ سو رہے ہونگے میرے پاس گاہک کدھر سے آئے گا۔
گاہک اور رزق ﷲ رب العزت کے زمہ ہے۔
رازق رب العالمین ہے، اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔

دروز ایک  مذہبی کمیونٹی ہےجو نسلاً عرب ہیں اور عربی زبان بولتے ہیں۔  ان کی تعداد  10 لاکھ سے 25 لاکھ تک بتائی جاتی ہے۔ ا...
20/07/2025

دروز ایک مذہبی کمیونٹی ہےجو نسلاً عرب ہیں اور عربی زبان بولتے ہیں۔ ان کی تعداد 10 لاکھ سے 25 لاکھ تک بتائی جاتی ہے۔ ان کی اکثریت مشرق وسطیٰ کے چند ممالک میں آباد ہے۔ ان کی سب سے بڑی آبادی شام میں پائی جاتی ہے، جہاں ان کی تعداد تقریباً 7 لاکھ کے قریب ہے۔ اس کے بعد لبنان میں تقریباً 2 لاکھ 50 ہزار دروز موجود ہیں، جو وہاں کی ایک معروف اقلیتی برادری کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

اسرائیل میں دروز کی آبادی تقریباً 1 لاکھ 25 ہزار 300 کے قریب ہے، جہاں وہ اسرائیلی عرب شہریوں میں شامل ہیں اور بعض دروز افراد اسرائیلی فوج میں بھی خدمات انجام دیتے ہیں۔ اردن میں دروز کی تعداد تقریباً 20 ہزار کے قریب ہے۔

مشرق وسطیٰ سے باہر دروز کی ایک قابلِ ذکر تعداد دیگر ممالک میں بھی آباد ہے۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد امریکہ میں دیکھی جاتی ہے، جہاں ان کی تعداد 20 ہزار کے قریب ہے۔ کینیڈا میں 10 ہزار، وینزویلا میں 5 ہزار، آسٹریلیا میں 3 ہزار، کولمبیا میں بھی 3 ہزار، اور برطانیہ میں تقریباً 1 ہزار دروز آباد ہیں۔

مشرق وسطیٰ سے باہر دروز افراد کی کل آبادی تقریباً 1 لاکھ کے قریب ہے، جو اپنے عقائد، ثقافت اور شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے بیرونی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں۔

مختلف علاقوں میں رہنے کے سبب یہ مختلف زبانوں سے واقف ہوتے ہیں اور اس میں بول چال کرتے ہیں جیسے عربی، انگریزی، عبرانی، فرانسیسی (لبنان میں اور شام) ہسپانوی زبان (کولمبیا میں اور وینیزویلا) میں۔

یہ زیادہ تر شام کے متفرق حصوں میں رہتے ہیں۔ بالخصوص جبال، لبنان غربی، جبال شرقی اور حواران میں۔ ان میں سے زیادہ تر زراعت پیشہ اور زمیندار لوگ ہیں۔ دروزی مختلف اقوام مثلاً کرد، مارڈی عرب اور ک چند غیر متمدن قبیلوں پر مشتمل ہیں۔ جنوبی لبنان میں گیارھویں صدی عیسوی میں مختلف اسلامی اور نسلی گروہ داخل ہوئے۔ مثلاً شیعہ، اسروری، ایرانی اور عربی وغیرہ۔ ان سب کے مل جل جانے سے دروزی جماعت وجود میں آئی۔
کہنے کو ان کا مذہب توحید پرستی پر مبنی ہے لیکن ان کے عقائد میں اسلام کے ساتھ یہودیت اور مسیحیت کے تصورات بھی شامل ہیں۔ دروز مذہب پر یونانی فلسفے اور ہندو مت کے اثرات بھی ہیں۔ گیارہویں صدی عیسوی کے بعد سے دروز اپنے مذہب کا پرچار نہیں کرتے۔

دراصل دروز بنیادی طور پر گیارہویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کے باطنی فرقے یا اسماعیلی کمیونٹی سے الگ ہوئے تھے۔ فاطمی خلافت کے دور میں عام اسماعیلیوں کے برخلاف انہوں نے فاطمی خلیفہ الحاکم بامرللہ کو مہدی اور خدا کا مظہر قرار دیا۔ یہ خود کو مؤحدین بھی کہلاتے ہیں جن کی جنم بھومی مصر قاہرہ ہے۔ مناسب ہوگا کہ یہاں آپ کو فاطمی خلیفہ الحاکم بامرللہ کا نہایت مختصر تعارف دیدیا جائے تاکہ دروزیوں کے مذہبی نظریات کو آپ کے لیے سمجھنا آسان ہوجائے۔ ابو علی المنصور الحاکم بامراللہ اسماعیلیوں کا سولہواں (16 واں) امام تھا جس نے 412 ہجری میں وفات پائی۔ الحاکم کی امامت پر اسماعیلیوں کے دونوں بڑے فرقے یعنی آغاخانی اور بوہرہ متفق ہیں۔ مصر میں آج بھی الحاکم کی بنائی کئی عمارتیں اپنی پوری آب و تاب سے کھڑی ہیں جہاں اسماعیلیوں بالخصوص بوہرہ جماعت کے لوگوں کی اکثریت ہر سال زیارت کرنے کی غرض سے جاتی ہے۔ ان عمارتوں میں کتب خانہ دارالحکمت قاہرہ بہت مشہور تھا جس کا افتتاح ۱۰ جمادی الاولیٰ ۳۶۵ ہجری کو ہوا تھا۔ اس میں اس قدر عظیم الشان ذخیرۂ کتب جمع کیا گیا تھا جو اس سے پہلے کسی بادشاہ نے جمع نہیں کیا تھا۔ اس کے چالیس حصے تھے، ہر حصہ اٹھارہ ہزار کتابوں پر مشتمل تھا جن میں قدیم علوم پر ہر قسم کی کتابیں تھیں۔ ہر آدمی وہاں جاسکتا تھا، کوئی وہاں جاکر محض مطالعہ کرتا، کوئی نقل کرتا اور کوئی صرف تعلیم حاصل کرتا۔ اس لائبریری کی جانب سے قلم، دوات، ہر طرح کی روشنائی اور کاغذ آنے والوں کو مفت مہیا کیے جاتے تھے۔

الحاکم بامر اللہ کی بابت مورخین نے نبوت و الوہیت کے دعووں کا ذکر کیا ہے۔ خود بوہروں کی کتابوں میں مرقوم ہے کہ الحاکم بامر اللہ مثل سیدنا موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر جاتے تھے جہاں اللہ ان سے کلام کرتا تھا۔ امام مَقریزی نے الحاکم بامراللہ کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ یہ نہایت متعصب، کم ظرف اوربد با طن شخص تھا۔ اس نے کسی سے سنا کہ جرجیر سیدہ عائشہ اور عباسی خلیفہ متوکل عباسی کو مرغوب تھا، اس نے حکم دیا کہ آج سے جرجیر کوئی آدمی استعمال نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اس کو ایک سبزی کی بابت پتہ چلا کہ یہ سیدنا معاویہؓ کی پسندیدہ سبزی ہے تو اس نے اس کا کھانا بھی ممنوع قرار دے دیا۔ غیر فَلس دار مچھلی پکڑنے اور کھانے والے کے لیے قتل کا حکم صادر کیا۔ آج تک شیعہ غیر فلس دار مچھلی استعمال نہیں کرتے۔ یہ الحاکم کی ہی بدعت ہے۔ اسی طرح اس نے اپنے دور میں تراویح پر پابندی عائد کروائی اور صبح کی اذان میں سے الصلوٰۃ خیر من النوم کے الفاظ حذف کرواکر حی علیٰ خیر العمل کی بدعت جاری کی۔ رمضان کے روزے رکھنے کے لیے رویت ہلال کے حکم کو منسوخ کرکے حساب سے تیس روزے رکھنے کا حکم بھی اسی نے جاری کیا تھا جس پر آج تک بوہرے عامل ہیں۔

الحاکم کی زندگی میں ہی ایک شخص جس کانام عبداللہ محمد بن اسماعیل درزی تھا اٹھا اور اس نے الحاکم کے دعوائے الوہیت کی تائید و تبلیغ شروع کردی۔ دروزی کی وجۂ تسمیہ اسی عبداللہ محمد بن اسماعیل درزی کی طرف ہے۔ اس کا نام عبداللہ درزی اور درزی بن محمد بھی نقل کیا گیا ہے۔ ایک قول کے مطابق اس کا تعلق فارس کے ایک شہر طیروز سے ہے۔ زبیدی نے ’’تاج‘‘ میں کہا ہے کہ درزی کے لفظ کو ’’دال‘‘ کے زبر سے پڑھنا درست ہے اور یہ نسبت ’’درزہ‘‘ کی اولاد کی طرف ہے۔ جس کا مطلب ہے کپڑا بننے والے، کپڑا سینے والے اور دوسرے ادنیٰ طبقہ کے لوگ۔

محمد بن اسماعیل درزی پہلے اسماعیلی باطنی فرقہ سے تعلق رکھتا تھا پھر وہ الحاکم کے دعویٰ الوہیت کی تائید کرنے لگا۔ اس نے لوگوں کو حاکم کی عبادت کی طرف بلانا شروع کر دیا۔ اس نے یہ دعویٰ کیا کہ اللہ حضرت علی میں حلول کر گیا ہے اور ا س نے علی کی ناسوت کا لباس پہن لیا ہے اور علی کی روح ان کی نسل میں یکے بعد دیگرے منتقل ہوتے ہوتے الحاکم تک پہنچ گئی ہے۔ (اس طرح حاکم میں علی رضی اللہ عنہما کی روح کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی الوہیت بھی حلول کر گئی ہے)۔ حاکم نے مصر میں تمام اختیارات درزی کو دے دیئے تاکہ لوگ اس کے دعویٰ کو تسلیم کرکے اس کی اطاعت کریں۔ جب اس کی حقیقت کھلی تو مصر میں مسلمان ا س کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کے بہت سے ساتھیوں کو قتل کردیا۔ جب اسے قتل کرنا چاہا تو وہ بھاگ کر حاکم کے پاس جا چھپا۔ اس نے اسے مال ودولت دے کر شام بھیج دیا تاکہ وہاں اپنا مذہب پھیلائے۔ وہ شام پہنچ کر دمشق کے مغرب میں تیم اللہ بن تعلبہ کی وادی میں ٹھہرا اور انہیں حاکم کی الوہیت پر ایمان لانے کو کہا، وہاں اس نے لوگوں کو خوب مال دیا اور درزی مذہب کے عقائد پھیلانے شروع کردئے چنانچہ لوگوں نے اس کا مذہب قبول کر لیا۔

الحاکم کی خدائی ہی کو تبلیغ کے لے ایک اور فارسی شخص بھی اٹھا، اس کا نام حمزہ بن علی احمد حاکمی درزی یا زوزنی تھا۔ وہ باطنیہ کے بڑے لیڈروں میں سے تھا۔ اس نے الحاکم کی پارٹی کی خفیہ دعوت کے افراد سے رابطہ قائم کیا۔ ہوتے ہوتے وہ اس تنظیم کے مرکزی افراد میں شمار ہونے لگا۔ پہلے وہ چوری چھپے حاکم کی الوہیت کا عقیدہ پھیلاتا رہا، بعد میں اعلانیہ اس عقیدہ کی دعوت دینے لگا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ وہ حاکم بامرللہ کا رسول ہے۔ حاکم نے اس دعویٰ میں ا س کی تائید کی۔ بعدازاں حمزہ شام کی طرف فرار ہوگیا، اس کے ساتھ اس کے بعض ہم خیال افراد بھی چلے گئے۔ ان میں سے اکثر اس علاقے میں جابسے جو بعد میں شام کے اندر ’’جبل الدروز‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔

حمزہ کے قتل اور الحاکم کی گمشدگی کے بعد دروز کی کمان ایک اور شخص" بہاء الدین المقتنیٰ" کے ہاتھ آگئی جس نے تقریباً 22 سال بعد یعنی 1043ء میں یہ اعلان کردیا کہ

"اب سے مزید کوئی بھی شخص دروز ی مذہب میں داخل نہیں ہو سکتا"

یہی وجہ ہے کہ گیارہویں صدی عیسوی کے بعد سے دروز اپنے مذہب کا پرچار نہیں کرتے۔

دروز اپنے آپ کو "موحدین" کہتے ہیں اور ایک خدا یعنی اللہ پر یقین رکھنے کے دعویدار ہیں ۔ تاہم یہ "وحدت الوجود" کے ماننے والے ہیں اور الحاکم کی الوہیت و حلولیت کے قائل ہیں یعنی اس بات کے قائل ہیں کہ الحاکم میں اللہ کا حلول کرگیا تھا، پس وہ اللہ کا اوتار تھا اور ہمارا مہدی بھی جو فی الحال غیوبت میں ہے اور قیامت سے قبل ظاہر ہوگا۔

دروز کی مقدس کتاب " رَسَائِل ٱلْحِكْمَة" ہے جس کا مصنف حمزہ بن علی بن احمد تھا اور یہ کتاب 111 رسائل پر مشتمل ہے۔

دروز کی عبادت گاہ کو "خلوہ" کہا جاتا ہے۔۔۔ مرکزی خلوہ "البیاضہ، شام" میں واقع ہے۔

بہاء الدین المقتنیٰ کے بعد سے کوئی شخص دروز مذہب میں داخل نہیں ہوسکتا نہ ہی کوئی دروز ، غیر دروز میں شادی کر سکتا ہے۔

دروز عقیدہ کے مطابق دروز کمیونٹی میں دو درجہ کے لوگ شامل ہیں ایک سینیئر دروز جنہیں "عُقال" کہا جاتا ہے اور دوسرے جونئیر دروز جنہیں "جُہال" کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔ مقدس کتاب رسائل الحکمہ تک صرف عقال کی ہی رسائی ممکن ہے۔

دروز "باطنیت" کو مانتے ہیں یعنی ہر چیز ہر لفظ اور ہر عبارت کے دو معنی ہوتے ہیں ایک ظاہر جو ہر کوئی سمجھ سکتا ہے اور ایک باطنی جسے صرف "عقال" ہی سمجھ سکتے ہیں۔

دروز، تناسخ یعنی آواگون پر یقین رکھتے ہیں۔۔۔ ان کے مطابق جب کوئی دروز مرتا ہے تو اس کا دوسرا جنم ہوتا ہے اور اگلے جنم میں بھی وہ دروز ہی ہوتا ہے اسطرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔

اِثناء عشری طریقہ کار پر دروز تقیہ یعنی مصلحتاً جھوٹ کو دین مانتے ہیں۔
دروز میں نبوت کا عقیدہ انتہائی پیچیدہ ہے۔ بنیادی طور پر دروز نبیﷺ کو تو نبی تسلیم کرتے ہیں لیکن ساتھ میں سیدنا علی کو بھی نبی ہی مانتے ہیں۔۔۔ اسی طرح دروزی عقیدہ میں فیثاغورث، ارسطو، سقراط،سیدنا عیسی, یوحنا ، سینٹ مارک ، سینٹ لیوک، سینٹ میتھیو، حمزہ بن علی، بہاء الدین المقتنیٰ ۔۔۔۔ یہ سب ہی پیغمبر تھے۔

دورز کے ہاں بدھ کا دن مقدس ہے۔

دروز سور ، شراب اور سگریٹ کو حرام گردانتے ہیں۔

دروز اپنے بزرگوں اور اس کے علاؤہ انبیاء کے مدفنوں کو "مقام" کہتے ہیں اور ان کی زیارت کو حج مثل مانتے ہیں۔ سب سے مقدس مقام اسرائیل میں پیغمبر سیدنا شعیب کا مزار مانا جاتا ہے جس کا حج 25 تا 28 اپریل کو کیا جاتا ہے۔۔۔ دیگر دروزی مقدس مقامات لبنان ، سوریا اور اسرائیل میں واقع ہیں۔

دروزی عقائد میں عورت کو امتیازی حیثیت حاصل ہے کوئی بھی دروزی عورت تعلیم حاصل کرسکتی ہے، جائیداد خرید یارکھ سکتی ہے کاروبار کرسکتی ہے۔ ہر دروز لڑکی کو 21 سال کی عمر تک شادی کرنا لازم ہے۔ شادی سے قبل کسی قسم کے جنسی تعلقات کی سخت ترین ممانعت ہے۔
دروز نہ رمضان کے روزے رکھتے ہیں اور نہ ہی نماز پڑھتے ہیں۔

دروزیوں کے اکثر داعی ایرانی تھے۔ اس لیے ان کے عقیدے بھی اسی رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں۔ مثلاً حلول کے متعلق ان کا عقیدہ یہ کہ خدا کروڑوں سال کے بعد الحاکم بامرللہ کی شکل میں ظاہر ہوا۔ لیکن پھر رعیت سے ناراض ہو کر غائب ہو گیا اور قیامت کے روز پھر ظاہر ہوگا اور تمام دنیا پر حکومت کرے گا۔ اس کے حکم سےآسمان سے ایک آگ اترے گی اور کعبے کو جلادے گی۔ پھر مردے زمین سے اٹھیں گے۔

دروزیوں میں مذہبی معاملات کو پوشیدہ رکھنے پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ عام شیعی فرقوں کا طریقہ ہے۔ اجنبیوں کو دروزی کبھی کبھی اپنی مجلسوں میں شریک ہونے کی اجازت دیدیتے ہیں۔ لیکن جب تک وہ حاضر رہتے ہیں اس وقت تک عام مسائل پر گفتگو کرتے ہیں اور اپنے خاص مذہب کی کوئی بات نہیں کرتے ہیں۔ اس طرز عمل سے لوگوں نے ان کے متعلق بری بری رائیں قائم کر رکھیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ اپنے خلوت خانوں میں شرمناک اعمال کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ بھی مشہور ہے کہ یہ لوگ گائے کے سر کی پوجا کرتے ہیں۔ ماضی قریب کی سیاسی لڑائیوں میں دروزیوں کے چند خلوت خانے لوٹے گئے۔ جن میں بہت سے رسالے نکلے۔ یہ رسالے یورپ اور ایشیا کے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں۔ ان کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دروزی اعمال شریعت کے قائل نہیں ہیں۔ الحاکم بامرللہ کو خدا ماننے کے بعد تمام اعمالِ شریعت بیکار اور فضول ہیں۔ ان کے اصول کے مطابق دنیا میں لوگوں کی تین قسمیں ہٰیں۔

۱۔ ظاہر شریعت کے پابند جو مسلمان ہیں۔

۲۔ باطن کے پابند جو مومنین ہیں۔

۳۔ ظاہر اور باطن کو دونوں کو نہ ماننے والے موحدین ہیں اور ان کا درجہ سب سے بڑھا ہوا ہے۔

ان لوگوں کی مسجدیں نہیں ہوتی ہیں۔ کیوں کہ یہ نماز نہیں پڑھتے ہیں۔ مسجد کی بجائے ایک مکان میں ہر جمعرات کی رات کو مجلس منعقد کی جاتی ہے۔ اسے یہ ’ خلوت خانہ ‘ کہتے ہیں۔ اس مجلس میں چند مخصوص دعائیں پڑھی جاتی ہیں۔ اس کے بعد مذہب اور سیاست پر بحث کی جاتی ہے۔ سیاسیات سے انھیں خاص دلچسپی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ خلیفہ الحاکم بامرللہ پھر ظاہر ہوکر دنیا پر حکوت کرے گا۔ یہی وجہ ہے مذہبی لحاظ سے ان کو ہمیشہ مسلح رہنا چاہیے۔ ہر گاؤں میں ایسی ایک مجلس منعقد کی جاتی ہے۔ ان تمام مجلسوں کی رپورٹیں صدر مجلس کو بھیجی جاتی ہے ۔ گویا ان کے تمام مذہبی اور سیاسی معاملات ایک کونسل کے ذریعہ طے پاتے ہیں۔ جس میں صرف عُقال ہی شریک ہوسکتے ہیں۔ کونسل سے فارغ ہوکر ان کے خطیب خانقاہوں میں جاتے ہیں۔ جہاں یہ بڑی وقعت سے دیکھے جاتے ہیں۔ اس مجلس میں یہ عام طور پر حمزہ زوزنی کی تصنیف کی ہوئی مقدس کتابیں پڑھتے ہیں۔

ان خلوت گاہوں میں کچھ لوگوں کا تعلق اجواد ( خطیب ) سے ہوتا ہے، جو ایسے معمولات پر عمل پیرا ہوتے ہیں ِ جو صوفیوں یا راہبوں سے مختص ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان خلوت گاہوں کی زندگی میں جسموں کو زیادہ سے زیادہ گھلایا جاتا ہے اور مراقبہ پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ کوہ حرمون کے ایک جانب حاصبیہ کے نذدیک ایک نہایت قدیم خلوت گاہ ہے۔ یہاں ہر روز بیس آدمی تعلیم، مراقبہ اور نماز کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ چار یا پانچ ممتاز ترین اجواد معلمی اور امامت کا فریضہ انجام دیتے ہٰیں۔ عام طریقہ یہی ہے کہ خلوت گاہ میں رہنے والے لوگ اسی زمین کی پیداوار پر زندگی گزارتے ہیں۔، جو خلوت گاہ کے ساتھ وقف ہوتی ہے۔ وہ ہاتھ سے محنت و مشقت بھی کرتے ہیں اور مقدس کتابوں کی نقلیں تیارکرتے ہیں۔ سفر کے لیے جاتے ہیں تو پیدل چلتے ہیں یا حقیر سواری سے کام لیتے ہیں۔ سرکاری ملازمت سے بطور خاص احتراز کیا جاتا ہے۔ جو لوگ مذہبی اعتقاد میں پکے ہوتے ہیں، وہ کسی سرکاری ملازم کے گھر جاکر کھانا تک نہیں کھاتے ہیں ۔

دروزیوں کی مذہبی علامت ایک پانچ رنگی ستارہ ہے۔ جس میں ہرا رنگ عقل کو، لال رنگ نفس کو، پیلا رنگ ان کے کلمہ کو، نیلا رنگ موت اور سفید رنگ آخرت کو پورٹرے کرتا ہے۔

صلیبی جنگوں کے دوران دروزی فوج نے صلیبی افواج کے خلاف پہلے ایوبی سلطنت اور پھر مملوک سلطنت کا ساتھ دیا تھا۔۱۶ ویں اور ۱۷ویں صدی میں دروزیوں نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف ان گنت مسلح بغاوتیں شروع کیں جنہیں عثمانیوں نے کچل ڈالا۔

۱۸۶۰ میں شام میں دروز اور عیسائی گروپوں کے درمیان طویل جھڑپوں میں ۱۲۰۰۰افراد مارے گئے ۔

۱۹۱۰ء میں لبنان و سوریا میں دروز جنگجووں نے ترک حکومت کے خلاف شدید نوعیت کی بغاوت چھیڑ دی جسے ترک افواج نے کچلتے ہوئے 2 ہزار باغیوں کو مار ڈالا اور ہزاروں کو زخمی و گرفتار کرلیا۔

عرب-اسرائیل جنگوں میں دروز واحد عرب گروہ تھا جو اسرائیلی فوج کے ساتھ مل کر عربوں اور فلسطین کے خلاف لڑے۔

دروز کمیونٹی اسرائیل میں بھی بستی ہے۔ تاہم وہ تمام ممالک میں جن میں دروز بستے ہیں اپنے مذہبی نظریات کی وجہ سے وہ ا ن کی حکومتوں کے ساتھ وفاداری کا اظہار کرتے ہیں۔

اسرائیل کی لبنان سے متصل سرحد پر واقع گاؤں حرفیش عربی دروزوں کا گاؤں ہے۔

ح/ما/س نے اگرچہ جنوبی اسرائیل پر معمولی حملے کیے تھے تاہم اس کے بعد شمال میں واقع حرفیش بھی چاق چوبند ہوگیا اور اس نے اسرائیلی فوج کے لیے کمک پہنچانا شروع کردی۔

ایک مقامی فیکٹری کو فعال کردیا گیا ہے جہاں فوجی وردیوں کی تیاری شروع ہوچکی ہے۔ گاڑیوں پر بھی اسرائیلی پرچم کے رنگوں کے اسٹیکر لگے ہیں جن پر عربی عبارتیں لکھی ہیں۔

حرفیش گاؤں کی آبادی سات ہزار ہے جن میں سے 80 فی صد اسرائیلی فوج، پولیس، انٹیلی جینس یا دیگر اداروں کا حصہ ہیں اور قومی دفاع کے لیے کام کررہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ حرفیش کو ’تشال‘ گاؤں بھی کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہی اسرائیلی فوج ہے۔

دروز اسرائیل کی آبادی کا دو فی صد ہیں تاہم انہیں اسرائیل کی پارلیمنٹ اور ریاستی اداروں میں خاطر خواہ نمائندگی حاصل ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کے ڈھائی فی صد نمائندے دروز ہیں۔ اسی طرح دروز آبادی کا تقریباً 45 فی صد اسرائیلی فوج میں ہے۔ 2021 میں ’جوئش پیپل پالیسی انسٹی ٹیوٹ‘ کے ایک سروے کے مطابق 61 فی صد دروز خود کو ’حقیقی اسرائیلی‘ سمجھتے ہیں۔

تاہم دوسری جانب دروزوں کی زمین سے وابستگی کا معاملہ یہ ہے کہ اسرائیل نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں شام سے متصل گولان پہاڑیوں کے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا وہاں بسنے والے دروز اسرائیلی شہریت کو مسترد کرتے ہیں۔

تاہم اسرائیل اور ح/ما/س کی جنگ سے قبل ہی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اسرائیل کی شہریت کے باوجود عرب آبادی کے ساتھ امتیازی سلوک پر سوال اٹھاتی رہی ہیں۔ اقلیتی حقوق کی تنظیمو ں کے مطابق اسرائیلی فورسز کے لیے خدمات پیش کرنے کے باجود دروز کمیونٹی کو اسرائیل میں ریاستی سطح پر غیر مساوی سلوک کی شکایات ہیں۔

حرفیش میں رضا کاروں کو منظم کرنے والے موفد مراعی کے بھائی نبیہ مراعی اسرائیلی فوج کے سینئر افسر تھے اور 1990 کی دہائی میں اسرائیل کے لیے لڑتے ہوئے ان کی جان چلی گئی تھی۔

حرفیش کے علاقے میں ایک چھوٹا سا میوزیم بھی" نبیہ مراعی" کے نام سے موسوم ہے۔ خود موفد بھی نہ صرف اسرائیلی فوج میں رہ چکے ہیں بلکہ انہوں نے صرف 18 برس کی عمر میں اس وقت کے اسرائیلی وزیرِ اعظم کے نام خط میں اپنی پسند کے ایک یونٹ میں خدمات انجام دینے کی براہِ راست خواہش ظاہر کی تھی۔

موفد کا کہنا ہے کہ اسرائیلی دروز فوج کی ایلیٹ یونٹس میں خدمات انجام دینے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔

Address

Gilgit

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Wershigoom Times posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Wershigoom Times:

Share