
19/11/2024
آخر جامعہ قراقرم ہی نشانے پہ کیوں !
تحریر : ڈاکٹر جعفر امان
ہیڈ ڈیپارٹمنٹ آف سوشیالوجی اینڈ اینتھروپالوجی۔
روز اول سے علاقے کی واحد علمی درس گاہ ہمیشہ سے تنقید کے نشانے پہ رہی ہے ۔اگر تنقید براہ اصلاح ھو تو قابل تعریف ہے لیکن بدقسمتی سے اس مادر علمی پہ بے جا تنقید سے اس ادارے سے جڑے ہر شخص کی دل آزاری ہوتی رہی ہے ۔اب تک اس ادارے سے جڑے لوگوں نے ان جہلا کو جواب دینا بھی مناسب نہیں سمجھا ۔اس سارے معاملے میں ماضی میں اگر کوئی طبقہ خاموش تماشائی بنا رہا ہےتو وہ یونیورسٹی کے اساتذہ تھے جو اپنے اوپر لگنے والے بے بنیاد الزامات پر خاموش تماشائی رہے ۔اور لوگ یہ ثابت کرنے پر لگے رہے کہ وہاں پر موجود اساتذہ درندے اور وحشی بنے بیٹھے ہیں۔ جو ہر آنے والے کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہے ہیں ۔اس یونیورسٹی کے خلاف منفی پروپگنڈہ اتنا شدید ہو چکا ہے کہ خود کو معلمین کی صف میں کھڑا دیکھنا شرم محسوس ہونے لگا ہے ۔ایسے میں اکیڈمیک اسٹاف ایسو سی ایشن کا واضح اور دیلیرانہ موقف قابل تعریف ہے
۔اخر ایسا کھیل کیوں کھیلا جارہا ہے اور لوگ اس کھیل کا کیوں حصہ بن رہے ہیں ۔اس حوالے سے علاقے کے ہر ذی شعور فرد کو سوچنا ہوگا ۔
آج کل اس کھیل کو جاری رکھنے کا کام جناب موصوف ایمان شاہ کے سپرد کیا گیا ھے ۔یہ قابل تشویش ہے کہ ایک ذمہ دار شخص ایسے اول فول بک کر نہ جانے کس ایجنڈے کی تکمیل میں لگے ہیں۔ ایک قابل فہم بات یہ ہو سکتی ہے کہ اس درسگاہ کو اتنا بدنام کریں کہ متوسط طبقہ غیرت کے نام پر اپنی بیٹییوں کو اعلی تعلیم کے حصول سے روک دیں اور مو صوف جیسے روشن خیال اور صاحب ثروت لوگ اپنی اولاد کو ملک کے دیگر یونیورسٹییوں سے اعلی تعلیم دلوادیں اور اس پسماندہ علاقے میں اپنے مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کر سکیں۔اگر اس علمی درس گاہ کے خلاف اس طرح کا منفی پروپیگنڈہ جاری رہا تو وہ وقت دور نہیں کہ یہاں کے عزت دار لوگ اپنی بیٹیوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے بجاے گھر میں رکھنے کو عافیت سمجھنے لگیں گے۔لہذا اب بھی وقت ہے کہ اس مادر علمی کے خلاف پروپیگنڈے کو ناکام بنانےکے لئے معاشرہ کا درد رکھنے اورعلم کے متلاشی افراد کردار ادا کریں۔ باقی اس یونیورسٹی نے کس کو کیا دیا ھے موصوف کے نالج کے لیے یہ کہانی پھر سہی۔