منتظران کوئز مقابلہ

منتظران کوئز مقابلہ Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from منتظران کوئز مقابلہ, Digital creator, 21, Gilgit.

Azadar e Hussain (A.S)
Follower of the righteous path
Companion of the Imam of sacrifice
Lover of the Prophet's family
I stand with the oppressed, against the oppressors.My heart beats for justice, my soul yearns for humanity.Live Like Ali Die LikeHussain

02/06/2025

*نوجوان نسل کو رہبر معظم انقلاب آیت اللہ خامنہ ای کی نصیحت*
📌زندگی میں انقلاب لانے والا پیغام — صرف 6 منٹ کا وقت درکار ہے!

📌چھ منٹ کا سفر، جو آپ کی سوچ اور زندگی دونوں بدل دے!
SABIL-E-SACH

17/05/2025

"منتظران مہدی کوئز پروگرام" کے سلسلے کا تیرہواں درس
قبلہ حجة الاسلام ڈاکٹر مصطفٰی فخری صاحب

17/05/2025
03/05/2025

🌷منتظران مھدی کوئز🌷

*حصہ نمبر 3 حصه دوم.

شخص کا اجتماع سے رابطہ

اسلام فرد اور معاشرہ دونوں کی اصالت کا قائل ہے یعنی اسلامی نقطہ نظر کے مطابق ایسا نہیں کہ اسلام صرف شخصی استقلال کا قائل ہوا اور معاشرہ کو اس کے مقابل اہمیت حاصل نہ ہو اور نہ ہی اس کے برعکس ہے ان دونوں میں اعتدال کا درمیانہ راستہ کا اپنائے ہوئے اس طرح سے کہتا ہے کہ : تمام انسانی افراد اس فطری سرمایے اور طبیعت سے اپنے اکتسابی سرمایہ کے ساتھ معاشرے کی اجتماعی زندگی میں قدم رکھتے ہیں اور پھر روحانی طور پر ایک دوسرے سے مل کر ایک جدید ہویت تشکیل دیتے ہیں جسے اصطلاحا " روح جمعی“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ وہ تنہا اور منفرد ترکیب ہے جسکی شبیہ و مثل تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتی۔ اس ترکیب میں کو چونکہ افراد ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں لہذا ایک دوسرے میں تغیر و تبدل کا باعث بنتے ہیں جس کے نتیجہ میں جدید ہویت ایجاد ہوتی ہے جو طبیعی و عینی ترکیب ہے لیکن چونکہ کل مرکب ایک واقعی و حقیقی واحد کی حقیقت نہیں رکھتا اس لیے بقیہ طبیعی مرکبات سے فرق رکھتا ہے۔ چونکہ طبیعی مرکبات میں حقیقی ترکیب ہوا کرتی ہے یعنی ان کے اجزاء ایک دوسرے میں واقعی تاثیر ایجاد کر کے جدید ہویت کی تشکیل کا باعث بنتے ہیں۔ یہ لگا نہ ہویت اجزاء کی کثرت کے باوجود کل کی وحدت میں تبدیل ہو جاتی ہے جبکہ جامعہ و فرد کی ترکیب میں ترکیب واقعی نہیں ہے بلکہ واقعی تأثیر و تاثر و فعل و انفعالات کا باعث بنتے ہیں جس کے نتیجے میں اس مرکب کے اجزاء جو اجتماع کے اجزاء ہیں ایک جدید ہویت اختیار کر لیتے ہیں لیکن کسی بھی صورت میں کثرت وحدت میں تبدیل نہیں ہوتی اور انسان کامل کا ایک واقعی حقیقی واحد کے عنوان سے جس میں تمام کثرتیں حل ہو گئیں ہوں نہیں ہوتا بلکہ انسان اکمل انہی افراد کا مجموعہ ہے جو اعتباری در انتزاعی وجود رکھتے ہیں۔ (۸) لہذا فرد بما هوفرد کی سعادت کا لازمہ معاشرے کی سعادت میں مخفی نہیں چونکہ دونوں اصیل ہیں اور انسان کو کی حقیقی سعادت اس وقت محقق ہوتی ہے جب معاشرے میں سعادت محقق ہو۔

۴۔ دنیا و آخرت میں رابطہ

آخرت ، دنیا کا باطن ہے اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ عالم آخرت بطور کامل مستقل نہیں جو اس دنیا کا وقت ختم ہونے کا کے بعد شروع ہو بلکہ آیات و روایات میں غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آخرت اسی دنیا کے باطن میں پوشیدہ ہے۔ پس آخرت میں سزا و جزا اعتباری نہیں اور نہ ہی اُن کا دنیاوی اعمال سے علی و معلولی ارتباط ہے بلکہ اخروی پاداش کا مطلب دنیا میں کا

انجام دئے جانے والے انہی اعمال کے باطن کا ظہور ہے ۔ (۹) پس کہا جا سکتا ہے کہ آخروی سعادت دنیاوی سعادت کی تجلی گاہ ہے قرآن مجید کی تعبیر کے مطابق ایسا انسان جو یاد خدا سے غافل ہو وہ اس دنیا کی تمام تر نعمات و سہولیات سے مستفید ہی کیوں نہ کررہا ہو لیکن اس کے باوجود خوشحال زندگی کا مالک نہیں ہوگا" من أغرض عن زیرِ کافَ إِنَّ لَه معيشة ضنا (۱۰) اور اس شخص کے مد مقابل اولیاء النبی جس قدر بھی رنج والم اور سختیوں میں مبتلا ہوں وہی حقیقی بہجت و سرور و روحی اطمینان میں ہوتے ہیں " آلا إن أولياء الله لا خوف عليهم ولا هم بخوتون (1) لہذا روز قیامت عدالت واقعی کے محقق ہونے کے لیے لازمی و ضروری ہے کہ انسان اس دنیا میں فردی و اجتماعی لحاظ سے کمال یافتہ ہو۔

03/05/2025

🌷منتظران مھدی کوئز🌷

*حصہ نمبر* 0️⃣3️⃣

فلسفہ مہدویت اور انتظار کی ضرورت

اسلامی فلسفہ میں ایک قانون تلازم حدو برہان کے نام سے جانا جاتا ہے اس قانون کی رو سے ہر برہان و دلیل جو کسی کا مسئلہ پر قائم کیا جائے اس کی بہتر شناخت کا باعث بنے گا و بر عکس (۱) ہماری یہ بحث بھی اسی روش پر استوار رہے گی یعنی اگر مہدویت کو کر بہتر اور اچھے انداز سے پہچاننا ہے تو ایک طریقہ یہ ہے کہ ان دلائل کی تحقیق کی جائے جو مہدویت کی ضرورت کا تقاضا کرتیں کو ہیں۔ ہمارے عقیدے کے مطابق عالمی موعود حضرت مہدی (عج) سے متعلق اہم ترین دلیل انبیاء کی بعثت کا فلسفہ ہے جو خلقت کا کر فلسفہ بھی ہے۔ (۲) خلقت کا مقصد عبودیت اور عبودیت کی حقیقت حق متعال کا تقرب حاصل کرنا ہے اور بعثت انبیاء کا فلسفہ قرآن کو مجید کی متعدد آیات کی روشنی میں توحید اور اجتماعی عدالت کا قیام بیان ہوا ہے ۔ شہید مطہری کی دقیق تشریح کے مطابق عدالت بھی در حقیقت خود توحید کے لیے ہے۔ (۳) اور عالمی موعود کے قیام کی اہم ترین ضرورت بھی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینا ہے لیکن کا جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا کہ مکمل اور حقیقی عدالت آخرت میں تحقق پذیر ہوگی تو پھر کیا ضرورت ہے کہ اس دنیا میں بھی عدالت محقق کو ہو؟ اس سوال کا جواب ہمارے انسان ، عدالت اور آخرت سے متعلق نظریات پر منحصر ہے جنہیں ہم چند نکات میں تشریح کرتے ہیں :

ا۔ نظام خلقت میں انسان کا مقام

قرآن مجید کی رو سے انسان اس دنیا میں اس لیے نہیں آیا کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قیام پذیر ہو جائے بلکہ اس کے آنے کا مقصد و بدف حضرت حق متعال کی طرف صعودی حرکت کرنا ہے اور اس سفر میں اس نے اپنی حقیقی منزل و مقصد گاہ یعنی خلافت الہیہ تک پہنچنا ہے یعنی انسان اپنے اندر الہی اوصاف پیدا کر کے اس ذات کا مظہر بن جائے ۔ انسان اس طرح نہیں جیسا کہ اس کے بارے میں ملائکہ انہی نے گمان کیا تھا کہ یہ زمین پر فساد و خونریزی کرے گا بلکہ انسان کا دوسرا پہلو جو اس کی خلقت کا واقعی ہدف ہے اور در حقیقت یہی عالی اقدار انسان کی حقیقت ہیں۔ (۴)

۲- قانون فطرت

گزشتہ مطالب کے پیش نظر انسان ایسا موجود نہیں ہے جس پر فقط بیرونی عوامل اثر انداز ہوں بلکہ انسان اپنی حقیقت کے مطابق کمال کی جانب رخ کیے ہوئے ہے اور یہی کمال کی طرف متوجہ رہنا ہی اس کی خلقت کا اصلی ہدف ہے اور اس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ یہی اس کا بنیادی سرمایہ ہے (۵) اور اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ ہر قسم کا باطل اس کے مقابل کوئی حیثیت حقیقت نہیں رکھتا جبکہ فلسفہ میں بطلان محض تو اصلاً وجود ہی نہیں رکھتا۔ در حقیقت یہ باطل بھی حق میں افراط و تفریط کے نتیجے میں نمودار ہوتے ہیں اور حق کے مقابلے میں کسی بھی قسم کی مستقل حقیقت نہیں رکھتے ۔ (۲) بہ الفاظ دیگر ہم اس طرح سے کہتے ہیں کہ انسان ایک خالی ظرف کی طرح کا نہیں جے بیرونی عوامل و خارجی اشیاء سے پر کیا جائے بلکہ تفکرات و عقائد کا بی اس میں مخفی ہے جس کی تربیت و پرورش کی ضرورت ہے کہ ایک مادی کیمیکل کی طرح اسے بنایا نہیں جاتا۔

03/05/2025

*🌷کوئز منتظران مھدی🌷*

*حصہ نمبر* 0️⃣2️⃣

علت کی کھوج لگانے سے متعلق کسی بھی سوال کا جواب دو طرح سے ہو سکتا ہے :

(1)۔ ایک مرتبہ شیمی کی علت کے بارے میں سوال ہوتا ہے اور اگر اس قسم کا سوال مسئلہ مہدویت میں ہو تو جواب میں کو فلسفہ مہدویت سے متعلق بحث کی جائے گی یعنی ہمارا سوال یہ ہوگا کہ کیوں منتظر ر ہیں ؟ تو یہ سوال کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ حضرت کے

مہدی (عج) کے قیام کی کیا ضرورت ہے جو ہم اُن کے قیام کے منتظر رہیں؟“

(۲) ۔ دوسرا جواب معلولات کے نتائج سے متعلق ہے یعنی منتظر رہنا ضروری ہے کیونکہ منتظر رہنے کے بہت اچھے

نتائج و آثار ہیں ۔

ہماری بحث ان دونوں جوابوں میں ہے۔ اس بحث کے دو رخ ہیں : (1) : اس کا رابطہ فلسفہ مہدویت سے ہے ایک کا

طرف تو فلسفہ مہدویت سے رابطہ ہے کیونکہ انتظار کی کیفیت کو جاننے سے پہلے خود انتظار کا مفہوم واضح اور مشخص ہونا ضروری ہے کس

طرح کسی سے مہمان کے منتظر رہنے کا تقاضا کیا جائے ۔ یہاں سب سے پہلے حضرت مہدی (عج) کے قیام کی ضرورت و فلسفہ کو بیان کرنا کو ضروری ہے اور یہ جاننا ضروری ہے کہ اس انتظار نے بشری معاشرے کی تاریخ میں کیا کردار ادا کیا ہے ۔ ہم سے کس قسم کے انتظار کے لیے کہا گیا ہے۔ (۲) اور دوسری جانب ہم اس انتظار اور اس کے نتائج کے بارے میں اس وقت گفتگو کر سکتے ہیں جب خود انتظار کی کا حقیقت ہمارے سامنے واضح اور مشخص ہو تھی تو کہا جا سکتا ہے کہ اس قسم کے انتظار کے یہ نتائج مرتب ہوں گے ۔ لہذا ہماری بحث تین کے حصوں میں ہوگی: پہلا حصہ فلسفہ مہدویت اور انتظار کی ضرورت کے بارے میں ہے دوسرے حصے میں ہم انتظار کے طریقے اور ہماری کو ذمہ داریوں سے متعلق بحث کریں گے جبکہ تیسرے حصہ میں ہم انتظار کے ثمرات و نتائج سے متعلق بحث کریں گے۔

جاری ہے۔۔۔۔

02/05/2025

"منتظران مہدی کوئز پروگرام" کے سلسلے کا دوسرا درس
قبلہ حجة الاسلام شیخ رضا رضوانی صاحب

02/05/2025

*🌷کوئز منتظران مھدی🌷*

*حصہ نمبر* 1️⃣0️⃣

*`مقدمه`*

حضرت مہدی موعود (عج) کے ظہور اور انتظار سے متعلق ابحاث مختلف قسم کے چیلنجیز سے روبرو ہیں، جن میں سے بعض

مندرجہ ذیل ذکر کیے جاتے ہیں :

ا۔ حضرت مہدی (عج) کے قیام کا سب سے اہم فلسفہ وسیع پیمانے پر عدالت کا قیام جبکہ قیامت کی ضرورت و اہمیت بھی اسی امریعنی عدالت کے قیام کی وجہ سے ہے۔ دوسری جانب یہ دنیا فقط آخرت تک پہنچنے کا راستہ ہے اور دائی مقصد آخرت ہی کا ہے تو پھر دنیا میں اس قسم کی عدالت کی کیا ضرورت ہے، ہم کیوں اس دنیا میں اس قسم کی عدالت کے منتظر ر ہیں؟

۲۔ قرآن مجید اور حضرات معصومین علیہم السلام سے منقول روایات میں بعض اعمال کو بہت اہم شمار کیا گیا۔ ہے جیسے: نماز کو دین کا ستون جانا گیا ہے، امر بالمعروف و نہی عن المنکر باقی احکام کا قوام بھی انہی پر ہے تو پھر ان سب میں حضرت مہدی (عج) کے ظہور کے کا انتظار کرنا ہی کیوں افضل الاعمال جانا گیا ہے؟ اس انتظار کو یہ مقام واہمیت کیوں حاصل ہے؟ اور اگر ہم غور کریں تو ہمارے باقی تمام کو اعمال میں مثبت پہلو یعنی اعمال کو انجام دینا ہے جبکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انتظار میں تو کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا اور فقط منتظر رہنے کا کو انتظار کہا جاتا ہے۔ کچھ بھی نہ کرنے کو کس طرح سے مہم ترین عمل جانا گیا ہے؟

گلوبلائزیشن ( عالمی حکومت) کا شمار آج کل دنیا کی اہم ترین مباحث میں ہوتا ہے اور ہمارے عقیدہ کے مطابق کا حضرت مہدی (عج) کی حکومت بھی ایک قسم کی گلوبلائز یشن ہی ہے یعنی حضرت کے قیام کا فلسفہ پوری دنیا میں اسلامی حکومت کا قیام ہے ۔ تو اس صورت میں ہمار ا وظیفہ آج کی دنیا میں بیان کی جانے ہونے والی گلوبلائزیشن جیسی مباحث سے متعلق کیا ہے؟

حضرت امام زمانہ (عج) سے متعلق اس قسم کے سوالات کے علاوہ خود انتظار کا مفہوم بھی اپنے اندر بہت سے چیلنجیز کا شکار ہے جن میں شاید اہم ترین یہ ہو کہ احادیث کی روشنی میں ظہور اس وقت ہو گا جب دنیا ظلم وجور سے بھر ہو جائے تو کیا اس صورتحال میں ہماری کسی بھی قسم کی اصلاحی وتربیتی کوششیں عملی طور پر ظہور کی تأخیر کا باعث نہیں بنے گی ؟ اگر ہمار ا وظیفہ ظہور کا انتظار کرتا ہے تو پھر کیا ہمیں اصلاحی کوششیں نہیں کوئی چاہیں ؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہم اپنی اُن اجتماعی ذمہ داریوں (جیسے امر بالمعروف و نہی عن المنکر) سے ہاتھ اٹھا لیں جبکہ ان چیزوں کا ہمیں خود اسلام نے دستور دیا ہے اور اگر ہماری ذمہ داری اپنے وظایف پر عمل کرنا ہے تو کیا یہ انتظار سے مناسبت نہیں رکھتا؟ دوسرے لفظوں میں اس طرح سوال کو ذکر کیا جائے کہ بشر کے تکامل کا سفر مبلغین کی اصلاح و تربیت سے ہی پایہ تکمیل تک پہنچنا ہے تو انسان اسی طرح اس سفر میں تکامل تک پہنچ جائے گا پھر حضرت مہدی (عج) کے ظہور کی کا کوئی ضرورت باقی رہتی ہے؟

اس قسم کے سوالات اسلام میں مہدویت کے مسئلہ پر عمیق بحث و مباحث طلب کرتے ہیں کلی طور پر ہم اس طرح سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم سے کہا گیا ہے حضرت مہدی کے ظہور اور ان کے قیام کے منتظر ہیں اب اس سلسلہ میں جو بھی سوالات ہیں ہم نے ان کے علمی اور تحقیقی جوابات پیش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے ۔ ہمارا سوال کیوں منتظر رہنے اور کس طرح منتظر رہنے کے ل بارے میں ہیں؟

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس تحقیق میں ہماری یہ بھی کوشش رہی ہے کہ اس قسم کے سوالات کا جواب شہید مطہری کی نظر میں تلاش کریں۔

جارہے ہے۔۔۔۔۔

26/04/2025

*`🌷منتظران مہدی کوئز🌷`*

*💫انعامات*
🥇پہلا انعام: *8000* روپے
🥈دوسرا انعام: *6000* روپے
🥉تیسرا انعام: *4000* روپے
نوٹ: اس کے علاوہ دس خوش نصیب افراد کو انعامات دیا جائے گا۔

*💫کوئز کے اہداف*
1۔جوانوں کو دینی اور اجتماعی شعور دلانا۔
2۔امام مہدی علیہ السلام کی معرفت سے دلوں کو منور کرنا۔
3۔اپنی دینی اور اجتماعی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنا۔
4۔ظہور امام زمان کیلئے اپنے معاشرے کو آمادہ کرنا۔
🕰️تاریخ امتحان:*25 مئی 2025*
📢اعلان نتائج: *28 مئی 2025*

📲 *کوئز میں شرکت کیلئے سوشل میڈیا پہ ہمیں جوائن کریں۔*
*Youtube link👇👇*
https://youtube.com/-e-sach?si=2DUzhELXMRXxQiqX

*page👇👇*
https://www.facebook.com/LongLiveBaltistan?mibextid=ZbWKwL

*whatsapp group*
Contact on these numbers
+989010888020
+98 902 516 0232
+92 348 9789886

Address

21
Gilgit

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when منتظران کوئز مقابلہ posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share