Gilgit Baltistan Travel Guide

Gilgit Baltistan Travel Guide Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Gilgit Baltistan Travel Guide, Gilgit.

Welcome to Gilgit Baltistan Travel Guide – Your ultimate gateway to the breathtaking beauty, rich culture, and thrilling adventures of Northern Pakistan.
📍 Hidden Gems
🏔️ Trekking & Adventure
🏕️ Tour Planning
📸 Travel Inspiration
Local Culture & Food

غذر ویلی (Ghizer Valley) پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کا ایک خوبصورت اور دلکش وادی ہے، جو اپنی فطری خوبصورتی، نیل...
29/05/2025

غذر ویلی (Ghizer Valley) پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کا ایک خوبصورت اور دلکش وادی ہے، جو اپنی فطری خوبصورتی، نیلگوں جھیلوں، بہتے دریاؤں، سرسبز و شاداب میدانوں اور ثقافتی ورثے کی وجہ سے مشہور ہے۔



🌄 غذر ویلی کی مشہور جگہیں
1. فندر ویلی اور جھیل
فندر ویلی کو “چھوٹا کشمیر” بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کی فطری خوبصورتی، نیلا پانی، اور پرامن ماحول سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ فندر جھیل ٹراؤٹ مچھلیوں کے شکار کے لیے مشہور ہے۔
2. خلتی جھیل
گپیس کے قریب واقع یہ جھیل صاف و شفاف پانی اور ٹراؤٹ مچھلیوں کی کثرت کی وجہ سے جانی جاتی ہے۔
3. یاسین ویلی
تاریخی اور ثقافتی لحاظ سے اہم وادی، جہاں 14ویں صدی کا قدیم “یاسین قلعہ” موجود ہے۔
4. اشکومن ویلی
یہ وادی کرمبر جھیل تک رسائی فراہم کرتی ہے، جو دنیا کی بلند ترین جھیلوں میں سے ایک ہے (تقریباً 4,272 میٹر بلند)۔
5. شندور پاس
“دنیا کی چھت” کہلانے والا شندور پاس ہر سال ہونے والے شندور پولو فیسٹیول کی وجہ سے مشہور ہے۔
6. غکُچ قلعہ
غذر کے صدر مقام غکچ میں واقع ایک تاریخی قلعہ جو وادی کے خوبصورت نظارے پیش کرتا ہے۔



🏞️ فطری عجائبات
• کرمبر جھیل
اشکومن ویلی میں واقع ایک بلند پہاڑی جھیل، جسے دنیا کی خوبصورت ترین جھیلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
• بہا جھیل (خوکش لنگر)
شندور کے علاقے میں واقع ایک خوبصورت جھیل، جہاں قدرتی ماحول اور ٹھنڈا پانی سیاحوں کو مسحور کر دیتا ہے۔



🛣️ غذر تک رسائی

غذر ویلی گلگت شہر سے تقریباً 4 سے 6 گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہے۔
اسلام آباد سے گلگت تک ہوائی سفر بھی ممکن ہے، اس کے بعد سڑک کے ذریعے غذر پہنچا جا سکتا ہے۔
بہترین وقت: مئی سے اکتوبر



🏨 رہائش

غذر میں مختلف قسم کے ہوٹلز، گیسٹ ہاؤسز، اور ہوم اسٹیز دستیاب ہیں، خاص طور پر فندر، گپیس، یاسین، اور اشکومن میں

1.
2.
3.
4.
5.
6.
7.
8.
9. (TV drama)
10. (PSL 2025 anthem)
FBReels





















• #



• #یومِ_ڈاکٹرعبدالقدیرخان


















































سیاحت یا موت کا تعاقب ۔۔؟رات کے دو بج چکے ہیں ۔۔۔نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہے ۔۔شمالی علاقہ جات کی سیر پر نکلے سیاحوں کے ...
25/05/2025

سیاحت یا موت کا تعاقب ۔۔؟
رات کے دو بج چکے ہیں ۔۔۔نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہے ۔۔شمالی علاقہ جات کی سیر پر نکلے سیاحوں کے ساتھ جب بھی کوئ حادثہ ہوتا ہے ۔۔ملک بھر کے سیاحتی حلقوں میں ایک تشویش اور بے چینی کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔۔سانحہ سکردو گنجی پڑی ایک ایسا ہی دل دہلا دینے والا حادثہ تھا ۔۔جس میں گجرات کے چار سیاح دوست حادثہ کا شکار ہونے کے بعد ۔۔۔نہ جانے کتنی دیر بعد موت کا شکار ہوئے ۔۔۔اور پھر سات دن تک ان کے اجسام کھلے آسمان تلے پڑے رہے ۔۔تلاش جاری رہی اور بالآخر ساتویں دن یہ صبر آزما انتظار ختم ہوا ۔۔۔
یہ لوگ کون تھے ؟
کہاں سے آئے تھے کہاں جارہے تھے ؟
گاڑی کون سی تھی ۔۔اخری رابطہ کب ہوا ؟
انتظامیہ کا کردار کیا تھا ؟
اس سب پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ۔۔۔
آج کے اس مضمون میں میری کوشش صرف یہ ہوگی کہ ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں ۔ذندگی کا محافظ رب کریم ہے لیکن حفاظتی اسباب اختیار کرنا ہماری ذمہ داری ہے ۔کون سی احتیاطی تدابیر اختیار کرکے حادثات سے بچنے کی کوشش کیجا سکتی ہے ۔۔
سب سے پہلے تو ڈرائیونگ ۔۔۔یاد رکھیں شاہراہ ریشم کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہتے ہیں ۔۔جبکہ جگلوٹ سکردو روڈ اس سے بھی بڑا عجوبہ ہے ۔۔ایسے بے پناہ راستے اب شمالی علاقہ جات میں جا بجا بن چکے ہیں ۔۔۔گلگت سے چترال سڑک بن رہی ہے ۔۔شمشال کا ٹریک بذات خود ایک عجوبہ ہے ۔۔استور سڑک کا ابتدائی بیس پچیس کلو میٹر کا حصہ شدید خطرناک ہے ۔۔۔یہاں سڑکیں پہاڑوں کے ساتھ گھومتی ہوئ جاتی ہیں ۔۔سڑک خالی ہے ۔۔۔سڑک کی حالت بھی اچھی ہے ۔۔۔
گاڑی بھگانے کا جی چاہتا ہے ۔۔۔کبھی کوئ ہمسفر گاڑی بھگانے کی فرمائش کردیتا ہے ۔۔تب ساٹھ ستر کی سپیڈ پر چلتی گاڑی کے سامنے یک دم سڑک ختم ہوجاتی ہے ۔۔۔اگر ڈرائیور نے سڑک پر رہنا ہے تو اسے اسی رفتار پر موڑ کاٹنا ہوگا ۔۔۔اور اگر نہ کاٹ سکا تو پھر سینکڑوں فٹ گہری کھائی یا پھر ٹھاٹھیں مارتا دریا ۔۔۔بہت ش*ذ و نادر ہی مواقع آتے ہیں کہ یہاں حادثہ کی صورت میں کوئ بچ گیا ہو ۔۔۔
مقامی افراد اور ڈرائیور بھی حادثہ کا شکار ہوتے ہیں لیکن بہت کم ۔۔۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے سینکڑوں بار ان راہوں پر سفر کیا ہوتا ہے ۔۔ایک ایک کھڈا اور ایک ایک موڑ ان کی یاداشت میں محفوظ ہوتا ہے ۔۔انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کس رفتار پر کس موڑ سے قابو رکھتے ہوے گاڑی موڑی جاسکتی ہے ۔۔۔مقامی افراد جب بھی حادثہ کا شکار ہونگے اس کی پچانوے فیصد وجہ اوور لوڈنگ یا حدرفتار سے زیادتی ہوگی ۔۔۔جبکہ باہر سے جانیوالے جو ان راستوں سے انجان ہوتے ہیں ان کے حادثات کی بڑی وجہ ان راہوں سے ناآشنائی ،پہاڑی راہوں پر ڈرائیونگ کی ناتجربہ کاری اور بے احتیاطی ہوا کرتی ہے ۔۔۔
بیس پچیس سال پہلے تک ان علاقوں میں صرف ناٹکو کمپنی کی بسیں چلا کرتی تھیں ۔۔۔لوگ انہی پر سفر کرکے ان علاقوں تک رسائی کیا کرتے تھے ۔۔۔سڑکوں کی حالت بہت اچھی نہیں تھی لیکن حادثات بہت کم ہوتے تھے ۔۔میں خود کئی بار ناٹکو پر سفر کرکے گلگت گیا ہوں ۔۔ڈرائیور حضرات یوں گاڑی چلاتے ہیں جیسے وڈیو گیم ہو ۔۔۔لیکن چونکہ راہیں انہیں ازبر ہوتی ہیں تو حادثات کم ہوتے ہیں ۔۔۔بہتر تو یہی ہے کہ مختلف کمپنیوں کی بسوں میں شمالی علاقہ جات جایا جائے ۔۔اب تمام بڑے شہروں سے گلگت ،استور ،سکردو وغیرہ کے لیے بس ،کوسٹر اور ویگنیں چلتی ہیں ۔۔مطلوبہ مقام پر پہنچ کر مقامی ڈرائیور اور گاڑی کرایہ پر حاصل کریں اور جہاں جی چاہے وہاں جائیں ۔۔۔مقامی ڈرائیور آپ کا محافظ بھی ہوگا اور گائیڈ بھی ۔۔۔اور آپ کو بالکل کہیں بھی یہ پریشانی نہیں ہوگی کہ گاڑی خراب ہوگئ تو کیا ہوگا ۔۔۔یہ نئی گاڑیاں ۔۔۔بیسویں صدی کی دلہن کی طرح اکڑ جائیں تو جلدی مانتی بھی نہیں ہیں ۔۔۔کیونکہ ان کی پوری مشین ایک کمپیوٹر سے منسلک ہوتی ہے اور ان کا مستری بھی شمالی علاقہ میں ہر جگہ نہیں ملتا ۔۔۔اور ایسی صورت میں یا گاڑی لاد کر لے جائیں یا پھر خراب حالت میں چلانے کی کوشش کریں جوکہ سیدھا سیدھا موت سے پنگا لینے والی بات ہے ۔۔۔
اگر جیپ کرایہ پر لینا جیب پر بھاری ہو تو قریباً ہر جگہ سواریوں والی جیپیں چلتی ہیں جو آپ کو معاشی استحکام بھی دیتی ہیں اور مقامی افراد اور ان کی اقدار کو سمجھنے کا موقع بھی ۔۔۔
فیری میڈوز کا ٹریک چیخیں نکلوانے والا ٹریک مشہور ہے ۔۔لیکن حادثات کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے ۔۔۔وجہ صرف یہ ہے کہ وہاں مقامی افراد کے علاؤہ کسی کو گاڑی لیجانے کی اجازت نہیں ۔۔۔بھلے آپ کے پاس V8 انجن کی حامل جدید گاڑی ہی کیوں نہ ہو ۔۔۔گذشتہ دنوں جدید ترین فرانسیسی رافیل جہاز کے خاک نشین ہونے کی وجہ بھی طیارے کی خامی نہیں بلکہ اس کو اڑانے والے پائلٹوں کی نااہلی اور مدمقابل کی قابلیت تھی ۔۔۔یہی اصول یہاں بھی لاگو ہوتا ہے ۔۔جدید گاڑی نہیں بلکہ قابل ڈرائیور ۔۔۔۔اس بات کو تمام حضرات پلے باندھ لیں ۔۔۔کبھی بھی آپ حضرات ایسے ڈرائیور کے ساتھ سفر نہ کریں جو پہلی دوسری یا تیسری بار ان علاقوں کی جانب جارہا ہو۔۔۔جس کے ہمراہ جارہے ہیں اس سے ضرور پوچھیں ۔۔۔
بھائ پہلے کتنی بار گئے ہو ؟
ٹریول کمپنیوں کی اکثریت بھی ناتجربہ کار ڈرائیور بھرتی کرکے کام چلاتی ہے تاکہ کم زیادہ سے زیادہ رقم بٹوری جاسکے ۔۔۔
تو پہلا اصول یہ سمجھ لیں کہ ڈرائیور چاہے آپ خود ہیں یا کوئ اور انتہائ کہنہ مشق ہونا چاہیے ۔۔۔اور اگر کوئ تیس سال سے گاڑی چلا رہا ہے لیکن ان راہوں سے ناآشنا ہے تو اناڑی ہے ۔۔۔
پھر بھی اگر خود گاڑی چلا کر لیجانا ضروری ہے تو جہاں اتنا خرچ ہوتا ہے وہاں جانے سے پہلے گاڑی کے بریک پیڈز ،کلچ پلیٹ ودیگر ضروری پرزہ جات کی جانچ ضرور کروا لیجائے ۔۔پہاڑ میں رات کا سفر آسان سمجھا جاتا تھا کیونکہ اندھے موڑ سے گاڑی نہیں نظر آتی لیکن ہیڈ لائٹ کی روشنی سے پتہ چل جاتا ہے کہ پہاڑ کی دوسری سمت سے گاڑی آرہی ہے ۔۔۔لیکن آجکل کے بچونگڑوں کو رات سے بہت پہلے عصر کے بعد سفر تمام کرنے کی سخت تلقین کرتا ہوں ۔۔
دوسری چیز جو آجکل کے دور میں بہت ضروری ہے گوکہ بیس پچیس سال قبل یہ بھی غیر ضروری تھی ۔۔۔وہ یہ کہ جہاں آپ جارہے ہیں وہاں کی ضروری معلومات لیتے وقت یہ ضرور معلوم کریں کہ وہاں کون سے نیٹ ورک کے سگنل آتے ہیں ۔۔اس کی سم ساتھ ضرور رکھیں ۔۔اور اگر ایسی جگہ جارہے ہیں جہاں صرف ایس کام چلتا ہے تو وہاں ایس کام یا یو فون کی سم استعمال کریں ۔۔۔
سٹیٹس کو جسے معاشرتی بڑائی کا بخار بھی کہہ سکتے ہیں ۔۔۔اس کے مارے ہم لوگ جیسے تیسے کرکے تین کیمروں والا آئ فون لے لیتے ہیں ۔۔جس پر سم بھلے نہ چلتی ہو ۔۔۔لیکن ہاتھ میں آئ فون ہوگا ۔۔۔یادرکھیں جس بندوق میں گولی نہ ہو وہ شکاری اور چوکیدار کے کسی کام کی نہیں ۔۔۔اسی طرح آئ فون اور دیگر ایسے مہنگے فون جن میں سم نہیں چلتی ان کے ساتھ فونز کے دادا ابو نوکیا کو ضرور رکھیں ۔۔۔سگنل کھینچنے کے معاملہ میں آج بھی چچا نوکیا پہلے نمبر پر ہیں ۔۔۔
گاڑی چلاتے تصاویر بنانا ،گانے لگانا اور پھر من پسند گانے بدلنا ،سٹیک ،سنیپ ،لائیو وڈیو ،ٹک ٹاک ،واٹس ایپ اسٹیٹس ،فیس بک سٹوری ۔۔۔۔۔یہ سب دور حاضر کے وہ خوفناک جن ہیں جو پلک جھپکتے میں ہمیں کسی گہری آندھی کھائ یا کسی ٹھاٹھیں مارتے مچلتے دریا میں دھکیل سکتے ہیں ۔۔۔ان جنات سے ضرور دوستی رکھیں لیکن گاڑی چلانے کے دوران نہیں ۔۔۔
انتظامیہ سے ہر ممکن تعاون کریں ۔۔جہاں آپ کو اندراج کے لیے روکا جائے وہاں رکیں اور مکمل معلومات فراہم کریں ۔۔۔یاد رکھیں یہ سب ہماری سہولت اور تحفظ کے لیے کیا جاتا ہے ۔۔۔گوکہ پاکستان میں ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے سو مختلف طریقے موجود ہیں لیکن پھر بھی سرے سے لائسنس ہی موجود نہ ہو تو ایسے ڈرائیور سے یوں بھاگیں جیسے غلیل یا چھرے والی بندوق کو دیکھ کر کوا بھاگتا ہے ۔۔۔نہ صرف بھاگتا ہے بلکہ شور مچا کر باقیوں کو بھی جمع کرلیتا ہے کہ وہ دیکھو ہماری جان کا دشمن آرہا ہے ۔۔۔ایسے ہی بغیر لائسنس اور اناڑی آپ کی جان کے دشمن ہی ہیں ۔۔۔
بارش یا خراب موسم میں فورا کوشش کریں کسی محفوظ جگہ پر رک جائیں ۔۔کوئ بھی ایسی جگہ جو قدرے کشادہ ہو ۔۔یہاڑ کے دامن میں گاڑی کھڑی کرنے سے گریز کریں ۔۔۔
آجکل بہت سی جگہوں پر نیٹ کی سہولت موجود ہوتی ہے ۔۔۔اپنی لائیو لوکیشن اپنے کسی قابل بھروسہ آدمی کے ساتھ ضرور شئیر کریں ۔۔۔یہ بھی بہت مفید ثابت ہوتا ہے ۔۔۔
حادثات کی ایک بڑی وجہ طویل سفر ،تھکاوٹ اور نیند کا مکمل نہ ہونا بھی ہے ۔۔اٹھ ،دس گھنٹے سے زیادہ سفر نہ کریں ۔۔۔دوران سفر جہاں قیام کریں رات بہت جلد بستر میں جائیں تاکہ آپ کو طویل استراحت کا موقع ملے اور جسم اور دماغ کو آسودگی حاصل ہو ۔۔
ایک اور چیز جس کا میں نے بارہا تجربہ اور مشاہدہ کیا ہے وہ یہ کہ چرس کو نشہ سمجھا ہی نہیں جاتا اور ڈرائیور اور دیگر سیاح حضرات بھی ہواؤں میں اڑتے ہوے ان مقامات کی سیاحت کرنا چاہتے ہیں ۔۔جو حضرات سیگریٹ پیتے ہیں ان کا پچیس فیصد کبھی نہ کبھار شغل میں چرس سے ضرور استفادہ کرتے ہیں ۔۔جہاں کہیں ڈرائیور کو اس کا استعمال کرتے دیکھیں فورا گاڑی رکوا کر گاڑی سے اتر جائیں ۔۔۔مسافروں میں اس کا استعمال دیکھیں تو انہیں صرف اتنا کہیں کہ منزل پر پہنچنے سے پہلے کیوں آسمان کی بلندیوں میں خود بھی جانا چاہتے ہو اور ہمیں بھی لیجانا چاہتے ہو ۔۔۔دوران سفر ہر قسم کے نشہ سے اجتناب کریں ۔۔گوکہ یہ اجتناب ہمہ وقت ضروری ہے
ذندگی بہت قیمتی ہے اس کی حفاظت ہم سب پر فرض ہے ۔۔۔۔اپنے رب کے لیے ، اپنے عزیز واقرباء کے لیے ۔۔۔پیچھے رہ جانیوالی تاحیات روتی ماں کے لیے ، ایک رات میں کمر جھک کر بوڑھا ہو جانیوالے باپ کے لیے ، سسکتی بہن اور پیٹھ ننگی ہوجاتے بھائ کے لیے ۔۔۔اس قیمتی ذندگی کی حفاظت کریں ۔۔۔۔
ان پہاڑوں پر دل کے قافلے چلا کرتے تھے اور میلوں پیدل چلا کرتے تھے ۔۔۔گاڑیوں کے قافلوں نے جہاں ان کا حسن گہنا دیا ہے وہاں ہمہ وقت سر پر لٹکتی ایک تلوار بھی موجود ہے ۔۔۔نہ جانے کب فون کی گھنٹہ بجے اور کب کیا اطلاع آئے ۔۔۔یا فون ملنا ہی بند ہو جائے ۔۔۔۔
جتنی ذمہ دار انتظامیہ ہے اس سے دوگنا ذمہ داری ان حادثات کی ہم پر عائد ہوتی ہے ۔۔۔ہم سب ذمہ دار ہیں ۔۔میں بھی آپ بھی ہم سب ۔۔۔ہم لاپرواہ ہیں ۔۔۔میرا ذاتی تجربہ ہے گاڑی میں اضافی ٹائر نہیں، گاڑی اٹھانے کے لیے جیک نہیں ٹائر کھولنے کے لیے اوزار نہیں ۔۔۔اور میلوں دور پہاڑوں میں گھوم آتے ہیں ۔۔۔
میری گاڑی کے بریک فیل تھے جی تو میں خنجراب سے ہو آیا ۔۔۔۔
یہ ہم اپنی نجی محفلوں میں فخریہ بتاتے ہیں ۔۔۔
الو کے پٹھے اگر تو بریک فیل تھے اور خیریت سے واپس آگیا ہے تو رب کا شکر ادا کر اور آئندہ ایسی بیوقوفی پر توبہ ۔۔۔
نہ کہ اس کو فخریہ بیان کرکے دوسروں کو موت کے منہ میں دھکیل ۔۔۔۔
بہت کچھ ہے کہنے کو ۔۔۔۔لیکن شاید میں کہہ نہ پاؤں اور شاید سچائ ہم سن بھی نہ پائیں ۔۔۔
اپنی غلطی کو انتظامیہ اور اداروں کے کھاتے ڈال کر بری الزمہ نہیں ہوا جاسکتا ۔۔۔اداروں میں خامیاں ضرور ہیں ۔۔لیکن ہمیں بھی اپنا احتساب ضرور کرنا ہوگا ۔۔۔
فیض احمد فیض کے چند اشعار سانحہ سکردو کے مرحومین کی نظر ۔۔۔
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے











































وادیٔ سکردو — قدرت کا حسین شاہکاروادیٔ سکردو، گلگت بلتستان کے دل میں واقع ایک جنت نظیر وادی ہے جو اپنی دلکش فطرت، برف پو...
25/05/2025

وادیٔ سکردو — قدرت کا حسین شاہکار

وادیٔ سکردو، گلگت بلتستان کے دل میں واقع ایک جنت نظیر وادی ہے جو اپنی دلکش فطرت، برف پوش پہاڑوں، نیلگوں جھیلوں اور صاف شفاف فضاؤں کے باعث دیکھنے والوں کو سحر زدہ کر دیتی ہے۔ یہاں کی مشہور جھیلیں جیسے کہ شنگریلا، ستپارہ اور کچورا جھیل، قدرت کی صناعی کی عکاسی کرتی ہیں۔
بلند و بالا پہاڑ، بہتے جھرنے اور پھولوں سے لدے میدان سیاحوں کے لیے ایک خوابناک منظر پیش کرتے ہیں۔ سکردو نہ صرف فطرت کے دلدادہ لوگوں کے لیے جاذبِ نظر ہے بلکہ کوہ پیماؤں کے لیے بھی یہ دنیا بھر میں ایک اہم مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔

یہ وادی انسان کو سکون، حیرت اور خوشی کا حسین امتزاج عطا کرتی ہے۔ یہاں آ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وقت تھم گیا ہو اور انسان صرف فطرت کی خاموشی میں گم ہو جائے۔















































ویلی (وادئ ہنزہ)ہنزہ پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان میں واقع ایک خوبصورت وادی ہے جو اپنی قدرتی خوبصورتی، پرامن ماحو...
19/05/2025

ویلی (وادئ ہنزہ)

ہنزہ پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان میں واقع ایک خوبصورت وادی ہے جو اپنی قدرتی خوبصورتی، پرامن ماحول، مہمان نواز لوگوں اور تاریخی مقامات کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔



📍 مقام
• ہنزہ وادی قراقرم پہاڑی سلسلے میں واقع ہے۔
• یہ قراقرم ہائی وے (KKH) پر واقع ہے جو پاکستان کو چین سے جوڑتی ہے۔



🌄 اہم سیاحتی مقامات
1. کریم آباد – وادی کا مرکزی قصبہ:
• بلتت قلعہ – 700 سال پرانا تاریخی قلعہ۔
• التت قلعہ – بلتت سے بھی پرانا اور خوبصورتی سے بحال شدہ۔
2. پسو کونز (Pasu Cones) – نوکیلے پہاڑی سلسلے جو اپنی منفرد شکل کے باعث مشہور ہیں۔
3. عطاآباد جھیل – 2010 میں ایک لینڈ سلائیڈ کی وجہ سے بنی؛ اب ایک مشہور سیاحتی مقام۔
4. حسینی پل – دنیا کے خطرناک ترین پلوں میں شمار ہوتا ہے۔
5. خنجراب پاس – پاکستان اور چین کی سرحد پر، دنیا کی بلند ترین پکی سڑک۔
6. رکاپوشی ویو پوائنٹ – 7,788 میٹر بلند برف پوش چوٹی جو سڑک سے صاف دکھائی دیتی ہے۔



👨‍👩‍👧‍👦 لوگ اور ثقافت
• یہاں کے لوگ زیادہ تر بروشو (Burusho) اور واخی (Wakhi) نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
• زبانیں: بروشسکی، واخی، شنا وغیرہ۔
• یہاں کے لوگ تعلیم یافتہ، صحت مند اور لمبی عمر کے لیے مشہور ہیں۔

🍎 مقامی پکوان اور پھل
• خوبانیاں، سیب، چیری، اخروٹ اور دیگر خشک میوہ جات بہت مشہور ہیں۔
• روایتی کھانے:
• چپ شورُو (گوشت بھرا ہوا نان)
• دِرام فِتی
• ہریسہ (گوشت اور گندم کا پکوان)



🌤️ بہترین وقت برائے سیاحت
• بہار (اپریل تا مئی) – پھولوں کا موسم، دلکش مناظر۔
• گرمیوں (جون تا اگست) – ہائیکنگ اور گھومنے کے لیے بہترین وقت۔
• خزاں (ستمبر تا اکتوبر) – وادی میں سنہری اور سرخ رنگ بکھر جاتے ہیں۔



# •


• سردیوں میں بھی وادی خوبصورت ہوتی ہے، مگر برفباری کے باعث راستے مشکل ہو سکتے ہیں

23/09/2024

Bhasha Dam Project, Gilgit-BaltistanThe Diamer Bhasha Dam, with a huge reservoir, will be located on the Indus River, in the Diamer district of Pakistan’s Gilgit-Baltistan province, approximately 315km upstream of the Tarbela Dam and 40km downstream of the Chilas town.The two powerhouses of the project are proposed to be developed in Kohistan, in the neighbouring Khyber Pakhtunkhwa (KP) province.The project area will encompass approximately 110km², extending 100km from the dam site up to the Raikot Bridge on the Karakoram Highway.A total of 32,139 acres of land including 31,977 acres in Gilgit-Baltistan and 162 acres in Khyber Pakhtunkhwa was acquired as of January 2019, which comprises approximately 86% of the total land required for the project.

26/05/2024

ہزارہ موٹروے پولیس کنٹرول روم کے مطابق تمام مسافر محفوظ ہیں ۔
اس گاڑی میں سوار آگر کسی مسافر کی خیریت دریافت کرنا چاہتے ہیں تو ان نمبرات پر رابطہ کریں ۔
ہزارہ موٹروے پولیس کنڑول روم
O992402310
ڈرائیور کا نمبر
03554402887
بس میں موجودہ سواری اعجاز کا نمبر
03179022936


03/10/2023

اسماعیلی سوک پاکستان اور ڈبلیو ڈبلیو ایف میںمفاہمت کی یادداشت پر دستخط

30/09/2023

پاکستان کے شمال گلگت بلتستان میں ھنرمند خواتین کے لیے ٹریننگ سینٹر قائم ۔



Special Communications Organization - SCO
Salam Pakistan morning show 10 Am to 12 PM only on Discover Pakistan Tv

20/09/2023
09/05/2023

Islamabad to gilgit flight🛩
PIA landing on Gilgit Airport

19/02/2023

صدیوں سالوں سے بہتے ھوۓ دریائے سندھ کا پانی کوہستان داسو کہ مقام سے ٹنیل کر زریعۓ پانی کا رخ موڈ دیا گیا

10/01/2023

Pakistan is safe


Address

Gilgit
600011

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Gilgit Baltistan Travel Guide posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share