
16/07/2025
گلگت بلتستان: تاریخی الحاق، آئینی خلا اور وفاقی ٹیکس کی حقیقت
تحریر: بشارت سالک
گلگت بلتستان ایک ایسا خطہ ہے جو تاریخی طور پر ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا، مگر تقسیم ہند کے فوراً بعد یہاں کے عوام نے اپنی سیاسی بصیرت، عسکری حکمتِ عملی اور جذبہ حریت کی بنیاد پر ڈوگرہ راج کے خلاف بغاوت کر کے آزادی حاصل کی۔ یکم نومبر 1947 کو گلگت اسکاؤٹس کے نوجوانوں نے مقامی قیادت کی رہنمائی میں مہاراجہ ہری سنگھ کے گورنر بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر لیا، اور یوں ریاست جموں و کشمیر سے اس خطے کی آزادی کا باقاعدہ اعلان ہوا۔ بعد ازاں، گلگت بلتستان نے رضاکارانہ طور پر پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا، جو کہ کسی بین الاقوامی دباؤ یا قبضے کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ مقامی عوام کا ایک خودمختار اور شعوری فیصلہ تھا۔
یہ بات اہم ہے کہ گلگت بلتستان کا الحاق ریاست جموں و کشمیر کے اُس حصے سے بالکل الگ تھا جو آج بھی بھارتی تسلط میں ہے۔ یہاں کے عوام نے خود فیصلہ کیا کہ ان کا سیاسی، مذہبی اور ثقافتی رشتہ پاکستان سے جڑا ہے۔ تاہم، پاکستان نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں آج تک گلگت بلتستان کو آئینی صوبے کا درجہ نہیں دیا۔
1948 اور 1949 میں اقوامِ متحدہ نے جو قراردادیں منظور کیں، ان میں ریاست جموں و کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ قرار دیا گیا اور اس کے مستقبل کے تعین کے لیے رائے شماری کی بات کی گئی۔ چونکہ گلگت بلتستان اس وقت تک ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تصور کیا جاتا تھا، اس لیے اسے بھی ان قراردادوں کے دائرے میں شامل کیا گیا۔ پاکستان نے بھی اس مؤقف کو قبول کرتے ہوئے آئینِ پاکستان میں آرٹیکل 257 شامل کیا، جس میں کہا گیا کہ جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کریں گے تو ان کے تعلقات ان کی خواہشات کے مطابق طے کیے جائیں گے۔
آج گلگت بلتستان کے عوام 70 سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود مکمل آئینی شناخت سے محروم ہیں۔ نہ وہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مؤثر نمائندگی رکھتے ہیں، نہ ان پر آئینِ پاکستان کا مکمل اطلاق ہوتا ہے، اور نہ ہی پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کا دائرہ کار ان تک مکمل طور پر پہنچتا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے وفاقی اداروں کی طرف سے اس خطے سے کسی بھی قسم کی ٹیکس یا محصول وصول کرنا نہ صرف آئینی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ اخلاقی طور پر بھی ناقابلِ قبول ہے۔
حال ہی میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی (NHA) نے گلگت بلتستان کے مختلف داخلی و خارجی راستوں پر ٹول پلازے نصب کرنے شروع کیے ہیں۔ ان میں تازہ ترین اضافہ ضلع نگر میں ہوا جہاں ایک ٹول پلازہ قائم کر کے گاڑیوں سے فیس وصول کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔ تاہم، نگر یوتھ اور مقامی عوام نے بروقت آواز اٹھا کر اس اقدام کے خلاف مؤثر احتجاج کیا، جس کے نتیجے میں فی الحال یہ ٹول پلازہ ہٹا دیا گیا ہے۔ مگر یہ اقدام اس وسیع تر رجحان کا حصہ لگتا ہے جس کے تحت وفاقی ادارے بغیر آئینی حیثیت دیے اس خطے سے مالی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ سوال اب شدت سے اٹھنے لگا ہے کہ جب گلگت بلتستان کو مکمل شہری حقوق، نمائندگی اور آئینی تحفظ حاصل نہیں، تو اس پر ٹیکس عائد کرنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ کیا یہ ایک غیر تحریری استحصال کی شکل نہیں؟ ریاست کسی خطے سے محصول اسی وقت لے سکتی ہے جب اس خطے کو وہ تمام بنیادی آئینی و قانونی حقوق حاصل ہوں جو باقی اکائیوں کو حاصل ہیں۔ بصورت دیگر یہ عمل اصولِ انصاف اور مساوات کے منافی ہوگا۔
گلگت بلتستان کے عوام نے نہ صرف اپنے خطے کو آزاد کر کے پاکستان سے الحاق کیا بلکہ دہائیوں تک اس سرزمین کی سرحدوں کی حفاظت بھی کی۔ سی پیک جیسے اہم منصوبوں کی گزرگاہ بھی یہی خطہ ہے، اور قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود اس علاقے کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ اب جب وفاقی ادارے وہاں سے ٹیکس وصول کرنے لگے ہیں تو یہ صرف مالی ناانصافی نہیں بلکہ ایک بڑے سیاسی و قومی سوال کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
ریاست کو چاہیے کہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت واضح کرے۔ یا تو اسے مکمل آئینی صوبے کا درجہ دیا جائے، یا پھر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں اسے ایک متنازعہ خطے کے طور پر وہ تحفظ دیا جائے جو اس کا حق ہے۔ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، گلگت بلتستان میں کسی قسم کی ٹیکس یا محصول وصولی نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ عوامی ردعمل کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔