Al Ansar news

Al Ansar news media

ماسکو کے چینی سفارت خانے نے ان ممالک کی فہرست شائع کی ہے، جن پر جنگِ عظیم دوم کے بعد امریکا نے بمباری کی:جاپان: 6 اور 9 ...
18/06/2025

ماسکو کے چینی سفارت خانے نے ان ممالک کی فہرست شائع کی ہے، جن پر جنگِ عظیم دوم کے بعد امریکا نے بمباری کی:
جاپان: 6 اور 9 اگست 1945
کوریا اور چین: 1950–1953 (جنگِ کوریا)
گواتی مالا: 1954، 1960، 1967–1969
انڈونیشیا: 1958
کیوبا: 1959–1961
کانگو: 1964
لاؤس: 1964–1973
ویتنام: 1961–1973
کمبوڈیا: 1969–1970
گریناڈا: 1983
لبنان: 1983، 1984 (لبنان اور شام میں اہداف پر حملے)
لیبیا: 1986، 2011، 2015
ایل سلواڈور: 1980
نکاراگوا: 1980
ایران: 1987
پاناما: 1989
عراق: 1991 (خلیجی جنگ)، 1991–2003 (امریکی و برطانوی حملے)، 2003–2015
کویت: 1991
صومالیہ: 1993، 2007–2008، 2011
بوسنیا: 1994، 1995
سوڈان: 1998
افغانستان: 1998، 2001–2015
یوگوسلاویہ: 1999
یمن: 2002، 2009، 2011
پاکستان: 2007–2015
شام: 2014–2015
یہ فہرست 20 سے زائد ممالک پر مشتمل ہے۔ چین نے زور دیا ہے کہ "ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ دنیا کے لیے اصل خطرہ کون ہے۔"
پھر سوال اُٹھتا ہے:
کیا کبھی مغربی معاشرے نے امریکا پر برہمی ظاہر کی؟
کیا کبھی اس کے خلاف زوردار آوازیں بلند ہوئیں؟
کیا کسی ایک بار بھی امریکا پر پابندیاں عائد ہوئیں؟
یہ پورا دنیاوی نظام، جسے ہم "بین الاقوامی برادری" کہتے ہیں، خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے، جبکہ امریکا دنیا بھر کے ممالک پر ڈاکوؤں کی طرح حملہ آور ہو کر ان کے خوابوں کو بھی خوفناک کابوس میں بدل دیتا ہے۔
نہ کوئی مذمت، نہ کوئی سرزنش، نہ کسی قسم کی ناراضگی۔
ایک بزدل، بے شرم، اور منافق عالمی ضمیر۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس فہرست کو ہر ممکن پلیٹ فارم پر بار بار نشر کیا جائے۔ ایسی ویڈیوز بنائی جائیں جو ان تمام مغربی منافقوں کو بے نقاب کریں اور امریکا کے ہاتھوں دنیا بھر میں ہونے والے جرائم کی ہر حقیقت یاد دلاتی رہیں۔
چینی سفارتخانے کی جانب سے یہ فہرست سفارتِ چین برائے روس (ماسکو) نے ایک سیاسی اور اخلاقی پیغام کے طور پر اُس وقت جاری کی، جب عالمی میڈیا اور مغربی ممالک ایران کی جانب سے اسرائیل پر کیے گئے حملے کی شدید مذمت کر رہے تھے، لیکن خود امریکا کے ماضی کو مکمل نظرانداز کیا جا رہا تھا۔
یہ فہرست اس دوہرے معیار (double standards) کو بے نقاب کرنے کے لیے شائع کی گئی، جو امریکا اور مغرب انسانی حقوق، بین الاقوامی قانون اور عالمی سلامتی کے معاملات میں اپناتے ہیں۔
جب ایران نے اسرائیل پر جوابی حملہ کیا تو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ایران کو "عالمی خطرہ" قرار دینا شروع کر دیا۔ چینی سفارتخانے نے اس تنقیدی مہم کے جواب میں یہ فہرست جاری کی تاکہ یاد دلایا جا سکے کہ حقیقی خطرہ وہ ملک ہے جس نے جنگِ عظیم دوم کے بعد 30 سے زائد ممالک پر بمباری کی ہے۔
چین کا موقف ہے کہ امریکا کسی بھی اخلاقی مقام سے بات کرنے کے اہل نہیں، کیونکہ خود اس کا ماضی اور حال انسانی حقوق کی پامالیوں اور عالمی جارحیت سے بھرا پڑا ہے۔
چین نے اس فہرست کو جاری کر کے ایک وسیع تر پیغام دیا:
"دنیا کو یاد رکھنا چاہیے کہ کون اصل خطرہ ہے۔ مغربی میڈیا اور حکومتیں منافقت سے کام لیتے ہیں، اور جب امریکا قتل عام کرتا ہے تو وہ خاموش رہتے ہیں۔"
یہ اقدام صرف سفارتی یا معلوماتی نہیں، بلکہ سیاسی جواب اور اخلاقی چارج شیٹ بھی ہے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے جاری یک طرفہ بیانیے کے خلاف۔۔

29/05/2025
*یہ بھی محسنِ پاکستان ہیں کیسے؟ *ایک انکار جس نے سب پاکستانیوں کی لاج رکھ لی* #یوم-تکبیر  #پاکستان یوم تکبیر کا تذکرہ جس...
29/05/2025

*یہ بھی محسنِ پاکستان ہیں کیسے؟
*ایک انکار جس نے سب پاکستانیوں کی لاج رکھ لی*
#یوم-تکبیر #پاکستان
یوم تکبیر کا تذکرہ جس طرح محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بغیرممکن نہیں اس ہی طرح محسن پاکستان کا تذکرہ سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی کے بغیر نامکمل ہے۔

میر ظفر اللہ خان جمالی مسلم لیگ ق کی جانب سے وزیراعظم منتخب ہوئے تو ان کو ایوان میں صرف ایک ووٹ کی برتری حاصل تھی۔ جس کا تذکرہ انہوں نے اپنی پہلی تقریر بطور قائد ایوان کیا۔ میر ظفر اللہ خان جمالی کو اس وقت کمزور ترین وزیراعظم کہا جاتا تھا کیونکہ سارا اختیار چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف کے ہاتھ میں تھا۔
2004 کے آغاز میں پاکستان کا گھیراؤ کرنا شروع کردیا گیا اور پاکستان پر ایٹمی ٹیکنالوجی دوسرے ممالک کو دینے کے الزامات لگائے گئے، اس موقع پر جنرل پرویز مشرف نے شدید دباؤ میں ڈاکٹر عبدالقدیر کو امریکہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا لیکن اس کے لیے کابینہ کی منظوری درکار تھی۔ وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی کو طلب کرکے پرویز مشرف نے کابینہ کی منظوری لینے کا حکم جاری کیا۔ ڈاکٹر عبد القدیر کو لینے امریکی طیارہ آچکا بس رسمی کاروائی باقی تھی۔
اس موقع پر میر ظفر اللہ خان جمالی نے وہ کام انجام دیا کہ جس کا تصور شاید کوئی طاقتور ترین وزیر اعظم بھی نہیں کرسکتا تھا۔ انہوں نے پرویز مشرف کو صاف جواب دے دیا کہ میں محسن پاکستان کو امریکہ کے حوالے کرکے اپنا نام غداروں میں نہیں لکھوانا چاھتا۔
ایک بلوچ سردار کے انکار نے پاکستان کی لاج رکھ لی، بعد ازاں 4 فروری 2004 کو محسن پاکستان سے اعترافی بیان ٹی وی پر دلوایا گیا جب ڈاکٹر عبدالقدیر اپنا بیان ریکارڈ کروانے پاکستان ٹیلیویژن سینٹر اسلام آباد تشریف لائے تو ان کے ہمراہ اس وقت کے سیکرٹری اطلاعات بھی موجود تھے۔ معروف براڈ کاسٹر ماہ پارہ صفدر نے اس کی منظر کشی کرتے ہوئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ اس وقت ایسا لگتا تھا کہ پوری عمارت اور اس میں موجود لوگ سوگ میں ہیں اور ڈاکٹر صاحب سے شرمندہ ہیں۔
اس انکار کی قیمت ظفر اللہ خان جمالی نے وزارت عظمیٰ سے استعفی کی صورت میں دی ان کو وزارت عظمیٰ سے نکال دیا گیا لیکن اس مرد درویش کا انکار تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جس کو پاکستانی قوم کو یاد رکھنا چاہیے۔
پاکستان کا ایٹمی پروگرام بے شک ایک معجزہ ہے اس کا آغاز کرنے والا لاڑکانہ سندھ کا ذوالفقار علی بھٹو، اس کو لیکر چلنے والا خیبر پختونخوا کا غلام اسحاق خان ، اس کو پایہ تکمیل تک پہچانے والا بھوپال کا مہاجر ڈاکٹر عبد القدیر اس ایٹمی دھماکہ کی منظوری دینے والا لاہور پنجاب کا وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور محسن پاکستان کے احسان کا احترام کرنے والا بلوچ میر ظفر اللہ خان جمالی یہ سب قابل تحسین ہیں۔
یہی اس کی اصل ہے کہ پاکستان کے تکمیل میں سب کا کردار ہے۔
میر ظفر اللہ خان جمالی کا انکار ہی شاید روز قیامت ان کی بخشش کے لیے کافی ہو۔
ایک ایسا محسن جو وقت کی گرداب میں کہیں گم ہوگیا اس کا تذکرہ کرنا اور تاریخ کے اس گمشدہ باب کو اگلی نسل تک پہچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
پاکستان قصہ خضر کی دیوار کے نیچے مدفن خزانے کی طرح ہے کوئی نہ کوئی کہیں سے آکر اس گرتی دیوار کو سیدھا کردیتا ہے۔ اس ملک کا بننا اس کا ایٹمی طاقت بن جانا اور اس کا ان حالات میں قائم رہ جانا ایک معجزہ تھا اور ہے۔

نوٹ: یوم تکبیر گزر گیا لیکن اس کا تذکرہ میر ظفر اللہ خان جمالی کے بغیر نامکمل محسوس ہوا تو یہ سطور تحریر کردیں
28 مئی 2025

24 مئی 1998ء: جب پی آئی آے کے مسافر طیارے کو بھارت لے جانے کی کوشش ناکام بنا دی گئی24 مئی 1998ء کو گوادر ایئر پورٹ سے پی...
28/05/2025

24 مئی 1998ء: جب پی آئی آے کے مسافر طیارے کو بھارت لے جانے کی کوشش ناکام بنا دی گئی

24 مئی 1998ء کو گوادر ایئر پورٹ سے پی آئی اے کا ایک فوکر جہاز کراچی کے لیے روانہ ہوا۔ جہاز کے فضاء میں بلند ہونے کے تھوڑی دیر بعد تین مسافروں نے اسلحہ نکال کر جہاز کا رخ نئی دہلی کی طرف موڑنے کا حکم دے دیا۔ جہاز کے کپتان عذیر خان نے ہائی جیکروں کو بتایا کہ اس کے پاس ایندھن بہت کم ہے وہ نئی دہلی تک نہیں جا سکتا۔ ہائی جیکروں کے پاس ایک نقشہ تھا اور وہ نقشے کی مدد سے کوئی ایسا بھارتی ایئر پورٹ تلاش کر رہے تھے جہاں یہ فوکر جہاز لینڈ کر سکتا تھا۔ جہاز میں 33 مسافر اور عملے کے پانچ افراد موجود تھے۔ عذیر خان نے ہائی جیکروں کو بتایا کہ وہ جہاز کو بھارتی گجرات کے بھوج ایئرپورٹ پر اتار سکتا ہے۔ ہائی جیکروں نے صلاح مشورے کے بعد اسے بھوج کی طرف جانے کی اجازت دے دی۔ ایک ہائی جیکر کاک پٹ میں کپتان کےساتھ موجود تھا اور دو ہائی جیکروں نے مسافروں پر اسلحہ تان رکھا تھا۔ کپتان نے کچھ دیر کے لیے جہاز کو فضاء میں گھمایا اور وہ شام کے سائے گہرے ہونے کا انتظار کرتا رہا۔ پھر اس نے ہائی جیکروں کو نقشے کی مدد سے بتایا کہ وہ پاکستان کی حدود سے نکل کر بھارت میں داخل ہو گیا ہے پھر کپتان نے انگریزی میں بھوج ایئر پورٹ کا نام لے کر بتایا کہ اس کا جہاز اغوا ہو چکا ہے اس لیے وہ بھوج میں لینڈ کرنا چاہتا ہے۔ کنٹرول ٹاور نے فوری طور پر کپتان کو کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ کپتان نے یہ پیغام بھوج ایئر پورٹ کو نہیں بلکہ پاکستان کے شہر حیدر آباد کے ایئر پورٹ کو دیا تھا۔

حیدر آباد ایئر پورٹ کے عملے نے عقل مندی کا مظاہرہ کیا اور کپتان کو لینڈ کرنے کی اجازت دیے دی۔ کپتان نے حیدرآباد ایئر پورٹ کے رن وے پر لینڈ کیا اور جہاز کو عمارت کے قریب لے جانے کی بجائے کافی فاصلے پر کھڑا کر دیا تاکہ پتہ نہ چلے کہ جہاز کون سے ایئر پورٹ پر آیا ہے۔ رات ہو چکی تھی اور ایئر پورٹ کے عملے نے مرکزی عمارت کی روشنیاں بجھا دیں تاکہ ایئر پورٹ پر کوئی تحریر پڑھ کر ہائی جیکر اندازہ نہ لگا سکیں کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ ایئر پورٹ کے عملے نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی۔ ایس ایس پی حیدر آباد اختر گورچانی اور ایک نوجوان اے ایس پی ڈاکٹر عثمان انور ایئرپورٹ پر پہنچ گئے۔ ان دونوں نے فوری طور پر حیدر آباد کی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ شہر کی مساجد سے لاؤڈ سپیکر پر کوئی اذان نہ دی جائے۔ کچھ دیر کے بعد ہائی جیکروں نے جہاز کے انجینئر کے ذریعے پیغام بھیجا کہ وہ بابا جان کے آدمی ہیں اور انڈیا کے زی ٹی وی کو انٹرویو دینے کے لیے تیار ہیں۔ اختر گورچانی اور ڈاکٹر عثمان انور نے فیصلہ کیا کہ کراچی سے کمانڈوز کے آنے کا انتظار نہ کیا جائے بلکہ خود ہی کوئی حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ چنانچہ اختر گورچانی نے سویلین ڈریس پہن لیا اور وہ بھوج ایئر پورٹ کے مینجر منوج کمار جب کہ ڈاکٹر عثمان انور اسسٹنٹ مینجر رام چندر بن گئے۔

گرمی بہت زیادہ تھی ہائی جیکروں نے پانی مانگا تو یہ دونوں پولیس افسر پانی کی بوتلیں لے کر خود جہاز کے پاس چلے گئے۔ ہائی جیکروں نے پانی لے لیا اور زی ٹی وی کے متعلق پوچھنے لگے۔ اختر گورچانی اور ڈاکٹر عثمان انور کو سمجھ آ چکی تھی کہ تینوں ہائی جیکر بلوچ علیحدگی پسند ہیں اور انہوں نے بھارتی خفیہ ادارے 'را' کی ملی بھگت سے جہاز اغوا کیا ہے۔ دراصل اس واقعہ سے چند دن قبل بھارت نے پوکھران میں ایٹمی دھماکہ کیا تھا اور اب پاکستان بھی جوابی ایٹمی دھماکے کرنے کی تیاری میں مصروف تھا۔ بھارت نے پاکستان کو بلیک میل کرنے کے لیے تین بلوچ نوجوانوں کو استعمال کیا اور پی آئی اے کا ہوائی جہاز اغواء کرا دیا۔ ڈاکٹر عثمان انور نے ہائی جیکروں کو رام چندر بن کر بتایا کہ زی ٹی وی کے پاس بھوج میں کوئی کیمرہ مین نہیں ہے اس لیے زی ٹی وی کی ٹیم نئی دہلی سے آ رہی ہے۔ اس دوران ڈاکٹر عثمان انور کو پتہ چل گیا کہ ہائی جیکروں کے پاس کوئی ہینڈ گرنیڈ نہیں ہے صرف دو پسٹل ہیں۔ پھر رینجرز کا ایک میجر عامر ہاشمی کھانا لے کر جہاز کے پاس آ گیا اور کچھ دیر کے بعد منوج کمار، رام چندر اور عامر ہاشمی نے تینوں ہائی جیکروں پر حملہ کر کے انہیں دبوچ لیا۔ اس دھینگا مشتی میں ہائی جیکروں نے ایک فائر کیا جو ان کے اپنے ساتھی کو لگ گیا۔ ڈاکٹر عثمان انور زخمی ہو گئے لیکن اس دوران مزید کمک آ گئی اور تینوں ہائی جیکر گرفتار ہو گئے۔

یہ آپریشن مکمل ہوا تو ایک ایئر ہوسٹس نے شور مچا دیا کہ اسے پاکستان واپس بھیجا جائے جب اسے بتایا گیا کہ گھبراؤ نہیں تم پاکستان میں ہی ہو تو وہ خوشی سے رونے لگی۔ ان ہائی جیکروں کا سرغنہ شہسوار بلوچ تھا۔ اس کے دو ساتھی صابر بلوچ اور شبیر رند بی ایس او سے تعلق رکھتے تھے۔ ان تینوں نے گوادر ایئر پورٹ پر اے ایس ایف کے ایک اہل کار کی ملی بھگت سے اسلحہ جہاز میں سمگل کیا اورتینوں جعلی ناموں سے جہاز میں سفر کر رہے تھے۔ 28مئی 1998ء کو پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا جب کہ ان تینوں کو 28 مئی 2015ء کو پھانسی دے دی گئی۔ اختر گورچانی بعد میں انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ بنے اور ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آ گئے۔ ڈاکٹر عثمان انور آج کل آئی جی پنجاب ہیں

ائیر مارشل سہیل امان  کا تبصرہ پاکستان آزما لیا گیا :-اور جو نتائج نکلے ہیں وہ ہمارے لیئے تو قابل فخر ہیں لیکن دنیا کے ل...
26/05/2025

ائیر مارشل سہیل امان کا تبصرہ
پاکستان آزما لیا گیا :-
اور جو نتائج نکلے ہیں وہ ہمارے لیئے تو قابل فخر ہیں لیکن دنیا کے لیئے انتہائی خوفناک ہیں ۔
ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم پہلے اپنی کچھ قائدانہ کمزوریوں کی وجہ سے ایک خودساختہ احساس کمتری میں مبتلا تھے ۔ لیکن پاک افواج نے صرف تین گھنٹے میں ہماری سوچ, دنیا کی سوچ اور خطے کی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا ۔
ایک سوچ تھی کہ
"پاکستان دس دن جنگ لڑنے کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔"
وہ اس سوچ میں بدل گئی کہ
"پاکستان دس دن میں بھارت جیسے دس ممالک کو دس مرتبہ تباہ کر سکتا ہے ۔"
اگر میں آپ کو کل ملا کر بتاؤں تو پاکستان نے محض تین گھنٹے 45 منٹ کی جنگ میں بھارت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا اور جب صرف اتنی کسر باقی رہ گئی کہ صرف ایک پھونک مارنی تھی اور پورا بھارت اس گڑھے میں غرق ہو جاتا تو دنیا کے وہ چوہدری جو پیپسی اور لیز چپس کے پیکٹ لے کر صرف تماشا دیکھنے بیٹھے تھے وہ سب کچھ پھینک کر اس تماشے میں کودنے پر مجبور ہو گئے ۔
کچھ کہہ رہے ہیں کہ مودی نے ٹرمپ کو فون کیا ۔
مودی نے ؟ ؟ ؟
کیا مودی کا فون کام کر رہا تھا ؟ ؟
کیا مودی کا دماغ کام کر رہا تھا ؟ ؟
کیا مودی کے حواس کام کر رہے تھے ؟ ؟
مودی کو تو جب ہوش آیا ہو گا تو کچھ اس قسم کے کلمات منہ سے نکل رہے ہوں گے ۔ ۔
میں کِتھے آں؟
توُں کون اِیں؟
اے کی اے؟
میں پاگل آں ؟
توں پاگل ایں ۔
ہیں ... اوۓ۔۔
اے کون اے؟
وہ تو پوچھ رہا ہو گا کہ کیا بھارت تباہ ہو گیا اور ہم سب سورگ میں ہیں ؟
پھر اسے بتایا گیا ہو گا کہ نہیں آپ سب کو بچا لیا گیا ہے ۔ ٹرمپ صاحب موقع پر پہنچ گئے تھے ۔
ٹرمپ نے بھگوان بن کر ان کی مدد کی ہے ۔ اب یہ اسی کو پوجیں گے ۔
ورنہ ان کو تو سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ کہاں کہاں سے میزائل آرہے ہیں اور کہاں کہاں گر رہے ہیں ۔ کیا کیا تباہ ہو گیا اور بچا کیا ہے ۔
اور
اور وہ جو ہمارا روسی ساختہ دنیا کا نمبر ون دفاعی نظام تھا وہ کہاں چلا گیا ؟
وہ کیا کر رہا ہے ؟
مودی کے اس جنگی جنون کی پوری عمارت تین ستونوں پر کھڑی تھی ۔
1 ۔ رافیل طیارے ناقابل شکست ہیں ۔
2 ۔ بھارت کے دفاعی نظام کے ہوتے ہوئے یہاں پرندہ پر نہیں مار سکتا ۔
3 ۔ پاکستان بھارت کے آگے دس دن نہیں ٹک سکتا ۔
ان تینوں ستونوں کو زمین بوس ہونے میں 3 گھنٹے اور 45 منٹ لگے ۔
پہلا ستون رافیل تو اسی دن گر گیا جس دن بھارت نے حملہ کیا ۔
دوسرے ستون روسی ساختہ دفاعی نظام کو گرانے کے لیئے پاکستان نے اپنے صرف دو پرندے بھیجے تھے اور ان دو پرندوں نے اس جدید ترین دفاعی نظام کو بھی تباہ کر دیا ۔
کیسے کیا ؟
کسی کو سمجھ ہی نہیں آئی ؟
ایمانداری سے کہوں تو خود میں بھی ابھی تک سمجھ نہیں پایا کہ پاکستان نے یہ کیا کیسے ۔ وہ روسی ساختہ دفاعی نظام بلامبالغہ پچاس طیاروں اور اتنے ہی میزائلز کو ایک ہی وقت میں ہینڈل کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا ۔
کچھ کہتے ہیں وہ کمپرومائزڈ ہو چکا تھا ۔ ۔
ہیک ہو چکا تھا ۔ ۔
لیکن میں سلام پیش کرتا ہوں ان شاہینوں کو جنہیں بتا کر بھیجا گیا تھا کہ اس مشن سے واپسی ناممکن ہے لیکن آپ نے ٹارگٹ ہٹ کرنے سے پہلے ہٹ نہیں ہونا ۔
انہوں نے ٹارگٹ بھی ہٹ کیا اور الحمدللہ واپس بھی آگئے ۔
بھارت کا سب سے بڑا بت ٹوٹنے کے بعد پورا بھارت پاکستانی میزائیلوں کے رحم و کرم پر تھا ۔
کوئی روکنے والا نہیں تھا ۔
پاکستان دس دن جنگ نہیں لڑ سکتا ؟ ؟
یہ جملہ پاکستان کے لیئے ایسا ہی ہے جیسے کوئی مائک ٹائسن کو کہے کہ تم تیسرا راؤنڈ نہیں لڑ سکتے ۔ تھک جاؤ گے ۔
مائک ٹائسن کے آگے تیسرا راؤنڈ کبھی کسی باکسر نے دیکھا بھی ہے ۔ مائک ٹائسن کی فائٹ میں صرف پہلے راؤنڈ کے تین گھنٹے ریفری بجاتا تھا ۔ اس کے بعد کے سارے گھنٹے مائک ٹائسن خود بجاتا تھا ۔
مخالف کی آنکھ پھر ہسپتال میں کھلتی تھی اور وہ نرس سے پوچھتا تھا کہ کیا دوسرا راؤنڈ نہیں ہو گا ؟
نرس اسے دلاسا دیتی تھی کہ ہو گا بابا ۔ ضرور ہو گا ۔ لیکن فی الحال تمہاری ایک ٹانگ ٹوٹ گئی ہے ۔ بازو کی ہڈی چار جگہ سے فریکچر ہے ۔ سر پر گہری چوٹ آئی ہے جس کی وجہ سے تمہارا دماغ ابھی اگلے کئی سال تک کے لیئے ماؤف ہو چکا ۔ چار پسلیوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے ۔ اب تم مائیک ٹائسن تو کیا کسی کے بھی سامنے سیدھے کھڑے نہیں ہو سکتے ۔
کچھ علاج کروا لو ۔ ٹھیک ہو جاؤ ۔ پھر لڑ لینا ۔
بھارت کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے ۔
مکمل ناک آؤٹ ۔
ان تین گھنٹوں کی گولہ باری میں مودی کے اختیار سے سب کچھ نکل چکا تھا ۔
رافیل کی پہلے ہی مٹی پلید ہو چکی تھی لہٰذا انتہائی ضرورت کے باوجود پاکستانی جے ایف تھنڈر کے مقابلے میں بھارت کے کسی طیارے نے اڑان نہیں بھری ۔ ہمارے طیارے بھارت کی فضاؤں میں اکیلے دندناتے پھر رہے تھے ۔
پاکستان کے ڈرونز نے مت ماری ہوئی تھی ۔
روسی ساختہ دفاعی نظام تباہ ہو چکا تھا ۔
ملٹری ڈیفینس کے سیٹیلائٹ پر سائبر اٹیک ہوا تھا اور وہ ہیک ہو چکا تھا ۔
بھارت کے ستر فیصد علاقوں کی بجلی پاکستان نے کنٹرول کر کے معطل کر دی تھی ۔
اس قدر برا حال تھا کہ بھارت کے معمولی کسان سے لے کر بھارت کے وزیر اعظم تک ۔ کسی کو صورتحال کے بارے میں کچھ نہیں پتہ نہیں تھا ۔
بھارت کی وزارت دفاع نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس کر کے کہا کہ اگر پاکستان رک جائے تو ہم بھی مزید تناؤ نہیں چاہتے ۔
یہ بھارت کا اعتراف شکست تھا کہ ہماری بس ہو چکی ہے ۔
وہ بھارت جسے پوری دنیا سمجھا رہی تھی کہ اس جنگی جنون سے باز آجاؤ لیکن وہ باز نہیں آرہا تھا ۔
پھر پاکستان نے اسے تین گھنٹے سمجھایا اور وہ سمجھ گیا ۔
نہ صرف وہ سمجھ گیا بلکہ اس کے پیچھے بیٹھے سب دشمن سمجھ گئے ۔
وہ منصوبہ جس کو کئی ہفتوں تک طول دے کر دشمن پاکستان کو زچ کرنا چاہتا تھا اسے پاکستان نے محض چند گھنٹے میں لپیٹ کر دنیا کے منہ پر مار دیا ۔
تماشا پاکستان کا دیکھنا تھا ۔ تماشا بھارت کا لگ گیا ۔
پاک فوج زندہ باد
پاکستان پائندہ باد

26/05/2025
پتھروں کے بیچ چیختی خاموشی 😭 وہ چار دوست جو گجرات کی گلیوں سے ہنستے کھیلتے نکلے تھے۔ پندرہ مئی کو عطا آباد جھیل کی تصویر...
26/05/2025

پتھروں کے بیچ چیختی خاموشی 😭

وہ چار دوست جو گجرات کی گلیوں سے ہنستے کھیلتے نکلے تھے۔ پندرہ مئی کو عطا آباد جھیل کی تصویریں اپنے گھر والوں کے ساتھ شیئر کرنے کے بعد خاموش ہو گئے۔

گلگت بلتستان کی سنگلاخ چٹانوں کے درمیان استک نالہ اور گنجی کے بیچ ایک اجڑی ہوئی گاڑی، بکھرے وجود اور ایک لاش جو پتھر سے ٹیک لگا کر شاید آخری سانسیں لے رہا تھا۔

ناجانے یہ بد نصیب چاروں دوستوں میں سے کون تھا؟ سلمان؟ واصف؟ عمر یا عثمان؟

شاید وہ بچ گیا تھا۔ شاید وہ کچھ لمحے زندہ رہا تھا لیکن زندگی نے رحم نہیں کھائی۔ نہ زمین نے پناہ دی اور نہ ہی آسمان نے آواز سنی۔

اکیلی لاش، ٹوٹا بازو اور ٹوٹے دل لیے وہ دیکھتا رہا ہو گا۔ شاید دوستوں کو، شاید موت کو یا شاید خدا کو۔

اس نے کتنی بے بسی محسوس کی ہو گی۔ ان لمحوں میں ماں کی آخری دعا، باپ کی آخری نصیحت، بہن کی آخری ہنسی اور بھائی کی دوستی سب ایک فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے چلی ہوں گی۔

وہ نیم مردہ شخص شاید آخری لمحوں میں آسمان کی طرف دیکھا ہو گا اس امید سے کہ شاید کوئی آ جائے لیکن کوئی نہیں آیا اور اس کی آخری سانسیں پہاڑوں کی خاموشی میں دب گئیں۔ وہ مرتے دم تک دوستوں کی بے جان جسموں کو دیکھتا رہا ہو گا یا شاید تینوں دوستوں کو مرتا دیکھ کر خود لمحہ لمحہ مرتا ہوا سب سے آخر تک زندہ رہا ہو گا۔

کہاں ہیں وہ حفاظتی دیواریں؟ کہاں ہیں وہ سڑک کی باڑ؟ کہاں ہیں وہ الفاظ جو سیاست دان ہر جلسے میں دہراتے ہیں؟ کہاں ہے وہ ریاست جس کے وزیر سیاحتی ترقی کے نام پر بیرون ملک تصویریں بنواتے پھرتے ہیں۔ کہاں ہیں وہ حکومتی اراکین جو حفاظتی اقدامات کے فنڈز سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔

یہ بچے تو زندہ واپس نہیں جا سکے لیکن حکومت ان معاملات کو سنجیدہ لے اور عملی اقدامات کرے تاکہ کسی اور ماں، کسی اور باپ، کسی اور بھائی اور کسی اور بہن کو یہ دکھ دیکھنا نہ پڑے۔
Copied

پاکستان میں ٹیلنٹ واقعی کمال کا ہے!!😃جب ڈکیتی کے دوران "پکڑا گیا نوجوان" جیب سے نکلا تو نکلا صرف ڈاکو نہیں، بلکہ:📌 وکیل ...
26/05/2025

پاکستان میں ٹیلنٹ واقعی کمال کا ہے!!😃

جب ڈکیتی کے دوران "پکڑا گیا نوجوان" جیب سے نکلا تو نکلا صرف ڈاکو نہیں، بلکہ:

📌 وکیل – پنجاب بار کا باقاعدہ لائسنس 2028 تک!
📌 ڈاکٹر – وہ بھی اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر!
📌 صحافی – اور ہر سال باقاعدگی سے پریس کارڈ ری نیو کروانے والا!

اب اتنا "قابل" بندہ اگر ڈاکے نہ ڈالے تو اور کیا کرے؟
یہ ہے وہ فلمی اسکرپٹ جو صرف پاکستان میں حقیقت بن سکتا ہے۔

افسوس صرف اس بات کا ہے کہ اتنے ٹیلنٹ کی ہمارے اداروں نے قدر نہ کی

Address

Gujranwala

Telephone

+923456565355

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Al Ansar news posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Al Ansar news:

Share