09/07/2024
”غلط انجکشن“
پچھلے ہفتے جب میں اپنے ہسپتال کے وارڈ میں صبح راٶنڈ کر رہا تھا تو مجھے پیچھے سےایک آواز آئی ”ڈاکٹر صاحب میرے بچے کو دیکھیں، نرس نے اسے انجکشن لگا دیا ہے“
یہ آواز ہمارے لیے ایمرجینسی کا پیغام ہوتی ہے۔
میں فورأاس بچے کے پاس پہنچا تو اس کی سانسیں رک رہی تھی،ہونٹ سیاہ ہورہے تھے اور ہاتھ پاؤں پیلے پڑ گئے تھے۔
فاٸل دیکھی توپتا چلا کہ اس مریض کو ابھی او پی ڈی سے ڈاٸریا کے مسلے سےداخل کیا گیا تھا۔
بچےکی ماں اور دادی کا فوری ردعمل یہ تھا کہ جناب ہمارا بچہ تو بالکل ٹھیک تھا، نرس نے ہمارے بچے کو غلط انجکشن لگا دیا ہے۔
انھوں نے چیخنا رونا اور پورے خاندان کو فون ملانا شروع کردیا ... مختلف کمروں سے مریض بھی وہاں جمع ہونا شروع ہو گئے اور ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔
الحمدللہ صورتحال فوری طور پر نمٹائی گئی، بچے کو تھوڑی دیر مصنوعی سانس دی گٸ کی گئی اور بچے کی حالت کے مطابق انجیکچشن لگاۓ گئے .. بچہ ٹھیک ہو گیا تو سب نے سکون کی سانس لی .
یہ وہ کہانی ہے جو زیادہ تر وقت غلط انجیکشن کی صورت میں ہوتی ہےجس کی ہم خبریں سنتے ہیں۔
اب عوام کے لیے تھوڑی سی تفصیل کہ یہ انجیکشن آخر کار غلط کیوں ہو جاتا ہے ؟؟
انسانی جسم کے اندر جب بھی باہر کی کوٸ چیز داخل ہوتی ہے تو جسم اسکو رد کر سکتا ہے۔اس ردعمل کوالرجی کہتے ہیں۔ یہ چیز کچھ بھی ہو سکتی ہے جیسے خوراک (انڈا,مچھلی)، دھواں گرد، ادویات جیسے شربت گولی یا انجیکشن۔
الرجی کسی بھی دواٸ کے انجیکشن سے ہو سکتی ہے اور زیادہ تر وقت اس کا پہلے سے اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ کچھ دوائیوں سے الرجی کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جیسے پینسلن اینٹی بائیوٹک یا سانپ کی ویکسین وغیرہ اس لیے انکو لگانے سے پہلے تھوڑی مقدار میں ٹیسٹ خوراک لگاٸ جاتی ہے اور پھر اسے شروع کرتے ہیں، لیکن زیادہ تر دوائیوں میں چونکہ الرجی کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے تو بغیر ٹیسٹ کے لگاٸ جاتی ہیں۔ بہرحال الرجی کا خطرہ پھر بھی رہتا ہے ۔
انجیکشن سے ہونے اولی الرجی کی نوعیت ہلکی خارش,بخار سے لے کر شدید رد عمل تک سکتی ہے جس میں سے دل کا رکنا، سانس کا بند ہونا اور موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
عوام کے سمجھنے کے لیے اہم بات یہ ہے کہ عام طور پر ایمرجنسی یا وارڈ میں آنے والے زیادہ تر مریضوں کو وہی روٹین دوا دی جاتی ہے۔اب سب کو تو اس سے مسلہ نہیں ہورہا ہوتا ۔جسکو الرجی ہو گی اسکو مسلہ ہوگا ۔وہاں کام کرنے والے عملے کی کسی آنے والے مریض سے کوئی ذاتی دشمنی تونہیں ہوتی کہ وہ اسے غلط ٹیکہ لگا دے گا ۔ اگر وہی دوا دوسروں کے لیے ٹھیک کام کر رہی ہو اور الرجی ہو جائے تو یہ جسم کا ردعمل ہے جس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے اور اس میں ڈاکٹر یا نرس کی کوئی غلطی نہیں ہے۔
اب اگر خدانخواستہ یہ صورتحال آپ کے بچے کے ساتھ پیش آتی ہے تو کبھی بھی ہسپتال میں ہنگامہ آرائی شروع نہ کریں۔ اگر آپ براہ راست طبی عملے کو مورد الزام ٹھہرانا اور ہنگامہ شروع کر دیتے ہیں تو اس کا آپکے بچے کی جان پر اسکا اثر پڑے گا ۔ پہلے چند منٹ جو آپ کے بچے کی زندگی بچانے والے ہیں ضائع ہو جائیں گے۔ آپ اس ہنگامے سے کچھ نہیں حاصل کر پائیں گے بلکہ آپ کے بچے کا نقصان ہوگا۔
ہمیشہ اس صورت حال میں فوری طور پر اپنے ڈاکٹر کو بلاٸیں، انہیں اپنے بچے کی ابتدائی طبی امداد کرنے دیں۔
اگر آپ کو پھر بھی لگتا ہے کہ طبی عملے کی طرف سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو آپ مناسب چینل کے ذریعے درخواست دائر کر سکتے ہیں اور اس کا پیروی کر سکتے ہیں، لیکن اس زندگی بچانے والے ٹاٸم کے دوران وارڈ میں ہنگامہ آرائی کرنے سے مریض کی زندگی بچانے والے منٹ ہی ضائع ہوں گے جسکے دوران اس کی جان بچائی جا سکتی ہے۔
Dr.Umer Maqbool
M.B.B.S, RMP (Pak)