Naseem-Ul- Quran Islamic Center Lalamusa Pakistan

Naseem-Ul- Quran Islamic Center Lalamusa Pakistan Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Naseem-Ul- Quran Islamic Center Lalamusa Pakistan, Lala Musa.

🌑 ابو لہب اور ام جمیل کا واقعہ (تفصیل + حوالہ)📖 قرآن مجید کا اعلان (سورہ المسد):> تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ۝١مَ...
11/06/2025

🌑 ابو لہب اور ام جمیل کا واقعہ (تفصیل + حوالہ)

📖 قرآن مجید کا اعلان (سورہ المسد):

> تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ۝١
مَا أَغْنَىٰ عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ۝٢
سَيَصْلَىٰ نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ۝٣
وَٱمْرَأَتُهُۥ حَمَّالَةَ ٱلْحَطَبِ۝٤
فِى جِيدِهَا حَبْلٌۭ مِّن مَّسَدٍۢ۝٥

ترجمہ:
"ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ برباد ہو گیا۔
اس کا مال اور اس کی کمائی اس کے کچھ کام نہ آئے۔
وہ جلد ہی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا۔
اور اس کی بیوی بھی — جو ایندھن ڈھونے والی تھی۔
اس کی گردن میں کھجور کے ریشے کی رسی ہوگی۔"

(سورۃ المسد، آیات 1-5)

👤 ابو لہب کون تھا؟

اصل نام: عبد العزی بن عبدالمطلب

رسول اللہ ﷺ کا سگا چچا تھا

مگر اس نے اسلام اور نبی ﷺ سے شدید دشمنی کی

وہ ہر جگہ حضور ﷺ کی مخالفت کرتا، لوگوں کو آپ ﷺ سے دور کرتا، طعنے دیتا، اور ہنسی اُڑاتا۔

🧨 ایک واقعہ:

جب نبی کریم ﷺ نے کوہِ صفا پر قریش کو جمع کر کے پہلی بار دعوتِ توحید دی —
تو سب خاموش تھے، دلوں پر اثر ہو رہا تھا،
تب ابو لہب چلا اُٹھا:

> "تبًّا لک یا محمد! ألهذا جمعتنا؟"
“تیرا ناس ہو اے محمد! کیا اسی لیے تُو نے ہمیں بلایا؟”

(صحیح بخاری، حدیث 4770)

اسی لمحے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورہ المسد نازل ہوئی — ابو لہب کی ہمیشہ کے لیے بربادی لکھ دی گئی۔

🧕 ام جمیل کا کردار:

نام: أروى بنت حرب

ابوسفیان کی بہن (یعنی معاویہ رضی اللہ عنہ کی پھوپھی)

قرآن نے اسے کہا: "حمالۃ الحطب" —
یعنی “لکڑیاں ڈھونے والی”
🪵 تشریح

1. ظاہری معنی: وہ جھاڑیاں جمع کر کے نبی ﷺ کے راستے میں پھینکتی تاکہ تکلیف دیں۔

2. باطنی معنی: وہ فتنہ، چغلی، سازش اور نفرت کی آگ بھڑکاتی، اور اسی آگ کا ایندھن خود بن گئی۔

اس کا حال بھی ابو لہب جیسا ہی ہوا —
قیامت میں اس کی گردن میں کھجور کے ریشوں کی رسی ہوگی، جس سے وہ جہنم میں گھسیٹی جائے گی۔

🌟 عبرت:

ابو لہب اور ام جمیل، دونوں رسول اللہ ﷺ کے قریبی رشتہ دار تھے،
مگر نسب نہیں — ایمان بچاتا ہے۔

قرآن نے یہ واقعہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کیا، تاکہ ہم جانیں:

> دشمنی اگر اللہ کے نبی ﷺ سے ہو —
تو رشتہ، مال، شہرت — کچھ کام نہیں آتا۔

حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ عظمت اور شان والے ہیں اللہ اُن سے راضی ہے اور ...
22/05/2025

حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ عظمت اور شان والے ہیں اللہ اُن سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کے بے شمار فضائل ارشاد فرمائے ہیں اور ان سے محبت اور عقیدت کی تاکید فرمائی ہے اس لیے امت مسلمہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے متعلق بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے ورنہ ایمان کے رخصت ہونے کا اندیشہ ہے۔ صحابہ کرام سے محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور محبت کا تقاضا ہے کہ اُن کی تعلیمات کو عام کیا جائے۔ حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ بھی صحابی رسول ہیں آپ کا تعلق قبیلہ بنو خزرج کے خاندان نجار سے تھا جن سے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ننھالی رشتہ بنتا ہے۔ آپ کے قبول اسلام کا واقعہ بھی عجیب ہے اس زمانے میں مدینہ کے مختلف قبائل میں باہم آویزش تھی۔ آپ اپنے ساتھی ذکوان کے ساتھ مکہ میں اپنے ایک سردار دوست عتبہ بن ربیعہ کے ہاں امداد کے طالب ہوکر گئے وہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کا ذکر سنا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کو اسلام کا پیغام سمجھایا اور قرآن کریم کی تلاوت سنائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مؤثر دعوت سے اسلام ان کے دل میں گھر کر گیا۔ وہ اسلام قبول کرکے واپس مدینہ لوٹے اور خاموشی سے اسلام کا پیغام پہنچانا شروع کیا اسی کے نتیجہ میں 6 افراد پر مشتمل ایک وفد نےحج کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی۔ حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ بیعت عقبہ ثانیہ میں بھی شامل تھے اور بنونجّار کے سردارکے طور پر ان کو خدمت کی سعادت ملی۔ گو اس زمانہ میں ان کی عمر کم تھی لیکن سردارانہ فہم و فراست اللہ تعالیٰ نے بہت عطا کی تھی۔ آپ سچے عاشق رسول تھے مخیّر لوگوں میں ان کا شمار تھا۔ اپنے قبیلے کے رئیس اور سردار بھی تھے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ آئے تو نئی جگہ آباد کاری کی کئی ضروریات سامنے تھیں۔ حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے اسی موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حسب ضرورت وہ تحفہ پیش کیا جس کا احادیث میں ذکر آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےگھر میں بہت عمدہ خوبصورت قسم کا پلنگ تھا جس کے پائے ہاتھی دانت کے بنے ہوئے تھے اور جو حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے بطور تحفہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری پر جب مسلمانوں کےلئے مسجد کے قیام کی ضرورت پیدا ہوئی تو وہ احاطہ جو سہل اور سہیل کا تھا وہاں مسجد نبوی تعمیر کرنے کی تجویز ہوئی حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے یہ مخلصانہ پیشکش کی کہ ان دونوں بچوں کو میں راضی کرلوں گا یہ زمین مسجد کےلئے قبول کر لی جائے اور اس کے عوض انہوں نے بنی بیاضہ والا اپنا باغ پیش کردیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ غزوہ بدر سے پہلے ہی بیمار ہو کر وفات پاگئے ان کو ایسی بیماری لاحق ہوگئی جس سے چہرہ اور جسم سرخ ہوجاتا تھا ۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق اس بیماری کا علاج داغنے سے کیا جاتا تھا اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینے ہجرت کے بعد حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ وفات پانے والے پہلے فرد تھے۔ ہجرت کے بعد مدینہ میں مسلمانوں کے لئے نیا ماحول تھا اور یہود کی دشمنی الگ تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فکر لاحق تھی کہ اس وفا شعار صحابی کی بیماری یا موت دشمن کی خوشی کا موجب نہ ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے ان کے گھر تشریف لے گئے ان کی بیماری کا حال دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی تقدیرالہٰی کا مسئلہ کھول کر بیان کردیا اور فرمایا کہ اسعد اس بیماری سے جانبر نہیں ہو سکیں گے اور یہود طعنہ زنی کریں گے کہ دیکھو یہ کیسا نبی ہے جو اپنے وفا شعار ساتھی کو بھی نا بچا سکا۔ سچ تو یہ ہے کہ نہ تو میں اپنے بارے میں بھی کوئی قدرت اور اختیار رکھتا ہوں نہ کسی دوسرے کیلئے مجھے کوئی طاقت حاصل ہے۔ تقدیر معلوم ہو جانے پر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علاج اور تدبیر نہیں چھوڑی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ سے بالآخر داغنے کا علاج کیا گیا مگر تقدیر الہٰی غالب آئی اور حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ اسی بیماری سے فوت ہوگئے۔ اس موقع پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال محبت اور تعلق کا اظہار فرمایا ان کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کے غسل دینے میں شریک ہوئے۔ انہیں تین چادروں کا کفن پہنایا اورخود نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ وہ پہلے خوش قسمت صحابی تھے جو جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جنازہ کے ساتھ آگے آگے چلتے ہوئے جنت البقیع تک گئے اور یوں ایک اعزاز کے ساتھ اپنے وفا شعار ساتھی کی تدفین فرمائی۔

20/05/2025
باسی روٹی  کھانے سے %99 بیماری کا علاج باسی روٹی یا رات کی روٹی زیادہ تر گھروں میں پھینک دی جاتی ہے لیکن اگر آپ کو باسی ...
19/05/2025

باسی روٹی کھانے سے %99 بیماری کا علاج

باسی روٹی یا رات کی روٹی زیادہ تر گھروں میں پھینک دی جاتی ہے لیکن اگر آپ کو باسی روٹی کے فائدے پتا لگ جاے آپ تازہ روٹی کو تو پھینک سکتے ہیں لیکن باسی روٹی کو کبھی نہیں پھینک سکتے

اس لیا آج ہم باسی روٹی کے استعمال ہونے والے فاہدہ کے بارے میں بتائیں گے بہت سے لوگ حیران ہوں گے باسی روٹی کے کس طرح فاہدے حاصل کیا جاسکتے ہیں ہم آپ کو یہ بتانے جا رہے ہیں حکیم لقمان بہت سی بڑی بڑی بیماری کا علاج باسی روٹی سے کیا کرتے تھے خاص طور پر جسمانی اور دماغی کمزوری کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے باسی روٹی انتہاہ مفید ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج کل بہت diet اور health expert بھی باسی روٹی کو بھی استعمال کرواتے ہیں خود نبی کریم نے بھی باسی روٹی کو استعمال کیا ہے آپ نہ رات باسی روٹی کو سرکہ کے ساتھ استعمال کیا اور بہت مزہ لے کر کھایا اور اس کے بعد خدا کا شکر بھی ادا کیا باسی روٹی کے ساتھ آپ کو صحت بھی حاصل ہو گی اور سنت نبوی کا بھی ثواب حاصل ہوگا۔

سب سے پہلے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ باسی روٹی اتنی فاہدہ مند کیوں ہے جب روٹی باسی ہو جاتی ہے تو روٹی پر good bacteria کی مقدار بہت زیادہ بڑ جاتی ہے روٹی میں موجود good bacteria گلوکوز کا استعمال کر تے ہیں جس کے بعد روٹی میں گلوکوز بے حد کم مقدار پائی جاتی ہیں جس وجہ سے باسی روٹی با آسانی سے ہضم ہو جاتی ہے

باسی روٹی میں fiber بھی زیادہ effective ہو چکا ہوتا ہے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں باسی روٹی سے ہاضمہ خراب ہو جاتا ہے اور یہ انہیں food poising ہو سکتی ہے باسی روٹی آپ کے ہاضمہ کے لیے بہترین ہے اور food poising سے بھی بچاتی ہے کیونکہ باسی روٹی میں good bacteria موجود ہوتے ہیں چونکہ آپ کے معدے اور آنتوں میں بیماری اور food poising پیدا کرنے والے bacteria کو مارتے ہیں

باسی روٹی کو آپ دن میں کسی بھی وقت استعمال کرسکتے ہیں لیکن باسی روٹی کا بہترین وقت صبح ناشتے میں رہتا ہے اگر صبح ناشتے میں باسی روٹی کو دہی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں تو باسی روٹی اور دہی کا استعمال دماغی کمزوری کو جڑ سے خاتمے کر دیتا ہے

ناشتے میں باسی روٹی اور دہی کے استعمال سے جسم میں طاقت آتی ہے آپ کے پھٹے مضبوط ہوتے ہیں آپ کا جسم مضبوط ہو تا ہے آپ کے دماغ کو طاقت ملتی ہے دماغی قوت پن کا خاتمہ ہو جاتاہے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو جاتا ہے

باسی روٹی میں عام روٹی کے مقابلے میں بہت زیادہ توانائی پای جاتی ہے اس لیے جو لوگ تھکے رہتے ہیں ان لوگوں کے لیے باسی روٹی کا استعمال بہت ہی بہترین رہتا ہے اس لئے آپ پر بھی سستی اور سارا دن نیند رہتی ہے اور کسی کام میں دل نہیں لگتا ہے تو آپ نہ کیا کرنا ہے آپ نہ دوپہر میں ایک پاؤ دہی لے لینا ہے ایک پاؤ دہی میں ایک کھانے کا چمچ شکر شامل کر دینی ہے اور اب آپ نہ باسی روٹی لے لینی ہے اور باسی روٹی کے ٹکڑے کر کے دہی میں شامل کر دینا ہے اور آدھے گھنٹے کے لئے باسی روٹی کو
دہی میں بھیگا رہنے دینا ہے اب آپ نہ آدھے گھنٹے بعد چمچ سے باسی روٹی اور دہی کو استعمال کر لینا ہے اگر آپ اس نسخہ کو دوپہر کے طور پر 15 دن استعمال کریں تو ہر قسم کی سستی تھکاوٹ جتنے بھی اس قسم کے مسائل ہو ان کا خاتمے ہو جاے گا
اور آپ پورا دن active رہا کریں گے اور بہترین طور پر آپ کے پورا دن آپ کے جسم میں energy رہے گی اور رات کو پر سکون نیند بھی آیا کرے گی اس نسخہ کو ایک دو دن میں results آنا شروع ہو جاے گے

اگر آپ جوان رہنا چاہتے ہیں تو اور آپ یہ نہیں چاہتے کہ آپ پر بڑھاپہ تاری ہو جاے تو ناشتے میں باسی روٹی اور سرکہ کا استعمال کرنا شروع کردیں ناشتے میں باسی روٹی کو استعمال کرنے سے آپ کی skin ہر نکھار ا جاے گا آپ کی سکن پر جھریاں نمودار ہو چکی ہیں تو کچھ عرصے کے استعمال سے جھریاں بھی غائب ہو جاے گی

باسی روٹی کا استعمال دماغی کمزوری کو دور کرتا ہے دماغ کو طاقت دیتا ہے اعصاب کو طاقت دیتا ہے نظر اور آنکھوں کی کمزوری کا خاتمہ کر دیتا ہے نظر اور اعصاب اور دماغی کمزوری کے لیے آپ نہ باسی روٹی کا استعمال اس طرح سے کرنا ہے اپ نہ ایک پاؤ نیم گرم گاے کا دودھ لے لینا ہے اور اس میں رات کی بچھی باسی روٹی کے ٹکڑے کر کے شامل کر دینا ہے اور اس میں ساتھ عدد بادام کا پاؤڈر بھی شامل کرلیں بھی اس میں شامل کر دینا ہے اور آدھے گھنٹے کے لئے اس کو چھوڑ دینا ہے باسی روٹی نرم ہو چکی ہو گی آپ نہ چمچ کی مدد سے دودھ اور باسی روٹی کو استعمال کر لینا ہے

اگر آپ لگاتار ایک مہینہ دوپہر کے وقت اس نسخہ کو استعمال کرتے ہیں تو دماغی اور اعصابی اور نظر کی کمزوری جڑ سے ختم ہو گی

باسی روٹی کے استعمال سے آپ کا وزن کم ہو گا اس کی وجہ ہوتی باسی روٹی میں good bacteria جو روٹی میں موجود گلوکوز کو زیادہ تر استعمال کر چکے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے باسی روٹی میں بہت کم calerioes موجود ہوتے ہیں یہی وجہ ہے باسی روٹی کی وجہ سے آپ کا وزن کم ہونے لگتا ہے باسی روٹی میں گندم کی تمام خصوصیات اور طاقت بھی موجود ہو تی ہے لیکن بھی گندم کی گرمی وی ختم ہو چکی ہو تی ہے

اس لیے آپ اگر باسی روٹی کو استعمال کرتے ہیں تو آپ کے جسم میں گرمی نہیں بیٹھتی ہے بلکہ آپ کے معدے اور جگر میں گرمی بھیٹی ہے تو وہ ختم ہو جاتی ہے

شوگر کے مریضوں کے لیے باسی روٹی کا استعمال اکسیر ہے کی حیثیت ہے کیونکہ باسی روٹی میں golocuse نہ ہو نے کے برابر موجود ہو تا ہے اگر شوگر کے مریض باسی روٹی کو استعمال کرتے ہیں تو اس کے استعمال سے ان کے خون کے لیول نہیں بڑھتا ہے جس کی وجہ سے بہت ساری complection سے محفوظ رہتے ہیں

روٹی اور debates کے مریضوں کے حوالے سے research کی گئی ہے اس research میں یہی بتایا گیا تھا کبھی بھی تازہ پکی روٹی کا استعمال sugar کے مریضوں کو استعمال نہیں کر نا چاہیے اگر وہ۔ 4 سے 5 گھنٹے روٹی کا استعمال کرتے ہیں تازہ روٹی کے مقابلے باسی روٹی بیت زیادہ بہتر ہوتی ہے اس لیے اگر آپ کی ہڈیاں کمزور ہو رہی ہیں جوڑوں میں درد رہتا ہے اور اٹھتے بھیٹے ہڈیوں اور جوڑوں میں شدید درد رہتا ہے تب بھی آپ باسی روٹی کو استعمال کر سکتے ہیں باسی روٹی آپ کی ہڈیاں کو مضبوط کرتے ہیں جو لوگ باڈی بلڈنگ کرتے ہیں انہیں باسی روٹی پر دیسی گھی لگا کر اسے استعمال کریں بہترین طور پر muscle develop ہونا شروع ہو جاے گی



کے مریضوں کے کیا باسی روٹی کسی بھی نعمت سے کم نہیں High blood pressure اگر وہ باسی روٹی کو ایک مخصوص طریقہ سے استعمال کرنا شروع کر دیں تو صرف وہ باسی روٹی کے استعمال سے وہ اپنے بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں

ہای بلڈ پریشر کے مریضوں کو چاہیے کہ وہ پودینہ دہنیہ اور ہری مرچ کی چٹنی تیار کرلیں اور اس ہری چٹنی کے ساتھ دوپہر کو باسی روٹی کے ساتھ کھایا کریں کیونکہ باسی روٹی بھی ٹھنڈی ہوتی ہے اور ہری چٹنی بھی اس کے استعمال سے خون کی حدت کم ہوتی ہے بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں بہت زیادہ مدد ملتی ہے

آپ کے معدے اور ہاضمہ کے نظام اور پیٹ کے لیے انتہائی مفید ہے باسی روٹی کو استعمال کرنے سے ہاضمہ مضبوط ہوتا ہے بدہضمی کا خاتمہ ہو تا ہے معدے میں پڑی بے جا تیزابیت جو۔ کہ بدہضمی گیس کھٹے ڈکار آنے کی main وجہ بنتی ہے اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے باسی روٹی کو استعمال کرنے سے معدے صاف ہوتا ہے آنتیں صاف ہوتی ہے آنتوں میں good bacteria کا اضافہ ہوتا ہے food poising جیسے مسائل کا خاتمہ ہوتا ہے

اگر آپ کو قبض رہتی ہے اس باسی روٹی کو 10سے 15 دن لگاتار اس کو استعمال کرتے رہیں پرانی سے پرانی قبض کا خاتمہ ہوگا

لیکن یہ سوال ہوتا ہے! باسی روٹی کہتے کس کو ہیں کتنے گھنٹے پرانی روٹی healthy رہتی ہے جب کہ کتنے گھنٹے گزار جانے کے بعد روٹی کو استعمال نہیں کرنا چاہیے

روٹی کو 24 گھنٹے اندر استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن 24 گھنٹے گزار جانے کے بعد روٹی قابل اعتماد نہیں رہتی ہے اور استعمال کے بھی اور unhealthy روٹی کو محفوظ اور صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ ایک صاف ستھرا رومال لے لینا ہے یہ کو بھی صاف ستھرا کپڑا لیں اس کو اچھی طرح لپیٹ کر روٹی کو رکھ دینا ہے کپڑا یہ رومال صاف ہوجا نا چاہیے تب ہی باسی روٹی healthy رہی گی

اگر کپڑا گندا ہوگا یہ اس پر جراثیم ہو گے تو اس پر روٹی پر اولی لگ سکتی ہے کوی بھی روٹی ساتھ گھنٹے گزار جانے کے بعد باسی روٹی کہلاتی ہے روٹی کو باسی بنانے کے لیے روٹی کو رومال میں لیپٹ کر رکھ نہ ہے کبھی بھی کھلا نہیں چھوڑنا ہے

باسی روٹی پر پانی چھڑک کر نرم کر لینا ہے اس کے بعد fry pan پر گرم کر لینا ہے باسی روٹی بلکل تازہ ہو جاے گئ اور اس بھی نرم اور اچھی لگی گی ہمشیہ چیک کریں کہ باسی روٹی پر اولی نہ لگی ہو اگر لگ گئی ہو تو اس کو استعمال نہیں کرنا کیونکہ وہ unhealthy ہو جاے گئ

رمضان میں باسی روٹی کا استعمال ضرور کریں اس سے جسم میں گرمی نہیں بیٹھتی ہے پیشاب چل کر نہیں آتا ہے پیاس کی شدت محسوس نہیں ہوتی ہے اور بھوک بھی کم لگتی ہے

رمضان کے وقت آپ کو چاہیے رات کے وقت روٹیاں پکا کر رکھ لیں اور صبح سحری کے وقت رات کی پکی روٹی کو استعمال کریں
کاپی پیسٹ

ماں کی نصیحت… جو دل چیر دے:جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حجاج کے لشکر سے لڑنے کا فیصلہ کیا،تو وہ اپنی ضعیف ماں حضرت...
12/05/2025

ماں کی نصیحت… جو دل چیر دے:

جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حجاج کے لشکر سے لڑنے کا فیصلہ کیا،
تو وہ اپنی ضعیف ماں حضرت اسماء کے پاس گئے،
جن کی بینائی جا چکی تھی اور عمر تقریباً 100 سال ہو چکی تھی۔

انہوں نے عرض کیا:

> "اماں! لوگ مجھے کہتے ہیں کہ میں لڑائی چھوڑ دوں، حجاج سے مصالحت کر لوں۔"

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے فرمایا:

> "بیٹے! اگر تم حق پر ہو، تو صبر کرو۔ قتل ہونے سے ڈرو مت، کیونکہ شہادت زندگی سے بہتر ہے۔"
(مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 7، صفحہ 591)

پھر عبداللہ نے کہا:

> "اماں! مجھے ڈر ہے کہ حجاج میرے جسم کی بے حرمتی کرے گا، میرے ساتھ عبرتناک سلوک کرے گا۔"

تو ماں نے کہا:

> "بیٹے! بکری ذبح ہونے کے بعد اسے کھال اتاری جائے یا نہ، کوئی فرق نہیں پڑتا!"

اللہ اکبر!
یہ تھیں صدیق اکبر کی بیٹی، اور شیر دل ماں، جن کی گود نے قربانی کا شیر پیدا کیا۔

جب بیٹے کی شہادت کی خبر ملی…

جب حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شہید کر دیے گئے اور لاش مکہ کے دروازے پر لٹکا دی گئی،
تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا خود لاش کے قریب آئیں اور فرمایا:

> "اے عبداللہ! تو نے دنیا کو حق پر چھوڑا۔ ربّ کی قسم، یہ ماں تجھ پر نازاں ہے!"

یہ وہ شان ہے جو اللہ والے شہداء اور سچّی ماؤں کی ہوتی ہے،
جن کی زبانوں سے نکلے الفاظ آسمانوں میں ثبت ہو جاتے ہیں۔

** غسیل الملائکہ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کا مقامِ عشق **ایک نوجوان صحابی حضرت حنظلہ بن ابو عامر رضی اللہ عنہ شادی کی پہل...
09/05/2025

** غسیل الملائکہ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کا مقامِ عشق **

ایک نوجوان صحابی حضرت حنظلہ بن ابو عامر رضی اللہ عنہ شادی کی پہلی رات اپنی بیوی کے ساتھ حجلۂ عروسی میں تھے کہ کسی پکارنے والے نے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر جہاد کے لئے پکارا۔ وہ صحابی اپنے بستر سے اُٹھے۔ دلہن نے کہا کہ آج رات ٹھہرجاؤ، صبح جہاد پر روانہ ہو جانا۔ مگر وہ صحابی جو صہبائے عشق سے مخمور تھے، کہنے لگے : اے میری رفیقۂ حیات! مجھے جانے سے کیوں روک رہی ہو؟ اگر جہاد سے صحیح سلامت واپس لوٹ آیا تو زندگی کے دن اکٹھے گزار لیں گے ورنہ کل قیامت کے دن ملاقات ہوگی۔‘‘

اس صحابی رضی اللہ عنہ کے اندر عقل و عشق کے مابین مکالمہ ہوا ہوگا۔ عقل کہتی ہوگی : ابھی اتنی جلدی کیا ہے؟ جنگ تو کل ہوگی، ابھی تو محض اعلان ہی ہوا ہے۔ شبِ عروسی میں اپنی دلہن کو مایوس کر کے مت جا۔ مگر عشق کہتا ہوگا : دیکھ! محبوب کی طرف سے پیغام آیا ہے، جس میں ایک لمحہ کی تاخیر بھی روا نہیں۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ اسی جذبۂ حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے اور مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔ اللہ رب العزت کے فرشتوں نے انہیں غسل دیا اور وہ ’غسیل الملائکہ‘ کے لقب سے ملقب ہوئے۔ حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ جب جنگ کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ملائکہ کو انہیں غسل دیتے ہوئے ملاحظہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے مخاطب ہوئے :

’’تمہارے ساتھی حنظلہ کو فرشتوں نے غسل دیا ان کے اہلِ خانہ سے پوچھو کہ ایسی کیا بات ہے جس کی وجہ سے فرشتے اسے غسل دے رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ محترمہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ جنگ کی پکار پر حالتِ جنابت میں گھر سے روانہ ہوئے تھے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہی وجہ ہے کہ فرشتوں نے اسے غسل دیا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے مقام و مرتبے کے لئے یہی کافی ہے۔‘‘

ابن اثير، اسد الغابة، 2 : 286
حاکم، المستدرک، 3 : 225، رقم : 34917
ابن حبان، الصحيح، 15 : 495، رقم : 47025
بيهقي، السنن الکبري، 4 : 15، رقم : 56605
ابن اسحاق، سيرة، 3 : 6312
ابن هشام، السيرة النبويه، 4 : 723
ابن کثير، البدايه والنهايه(السيرة)، 4 : 821
حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 9525
طبري، تاريخ الامم والملوک، 2 : 1069
ابو نعيم، دلائل النبوة، 1 : 11110
ابو نعيم، حلية الاولياء، 1 : 357

🌹فرض علوم سیکھنے کی ضرورت و اہمیت🌹یہاں   ’’علم اور علماء کی اہمیت‘‘ سے فرض علوم کی اہمیت و ضرورت پر ایک مضمون ملاحظہ ہو،...
04/05/2025

🌹فرض علوم سیکھنے کی ضرورت و اہمیت🌹

یہاں ’’علم اور علماء کی اہمیت‘‘ سے فرض علوم کی اہمیت و ضرورت پر ایک مضمون ملاحظہ ہو،
چنانچہ اس میں ہے کہ
🌴یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ہر آدمی پر اپنی ضرورت کے مسائل سیکھنا ضروری ہے نمازی پر نماز کے ، روزہ رکھنے والے پر روزے کے ، زکوٰۃ دینے والے پرزکوٰۃ کے ،حاجی پر حج کے، تجارت کرنے والے پر خرید وفروخت کے، قسطوں پر کاروبار کرنے والے کے لئے اس کاروبار کے ، مزدوری پر کام کرنے والے کے لئے اجارے کے ، شرکت پر کام کرنے والے کے لئے شرکت کے ، مُضاربت کرنے والے پر مضاربت کے (مضاربت یہ ہوتی ہے کہ مال ایک کا ہے اور کام دوسرا کرے گا)، طلاق دینے والے پر طلاق کے، میت کے کفن ودفن کرنے والے پر کفن ودفن کے، مساجد ومدارس، یتیم خانوں اور دیگر ویلفیئرز کے مُتَوَلّیوں پر وقف اور چندہ کے مسائل سیکھنا فرض ہے ۔ یونہی پولیس، بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں اوردیگر محکموں کے ملازمین نیز جج اور کسی بھی ادارے کے افسر وناظمین پر رشوت کے مسائل سیکھنا فرض ہیں ۔ اسی طرح عقائد کے مسائل سیکھنا یونہی حسد ، بغض ، کینہ ، تکبر، ریاوغیرہا جملہ اُمور کے متعلق مسائل سیکھنا ہر اس شخص پر لازم ہے جس کا ان چیزوں سے تعلق ہوپھر ان میں فرائض ومُحَرّمات کا علم فرض اور واجبات ومکروہِ تحریمی کا علم سیکھنا واجب ہے اور سنتوں کا علم سیکھنا سنت ہے۔
اس مفہوم کی ایک حدیث حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، سرکا رِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: علم کا طلب کرنا ہر مومن پر فرض ہے یہ کہ وہ روزہ، نماز اور حرام اور حدود اور احکام کو جانے۔
*( الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۶۸، الحدیث: ۱۵۷)*
اس حدیث کی شرح میں خطیب بغدادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں
: حضور پُر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اس فرمان ’’ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘ کا معنی یہ ہے کہ ہرشخص پر فرض ہے کہ وہ اپنی موجودہ حالت کے مسائل سیکھے جس پر اس کی لاعلمی کو قدرت نہ ہو۔
*( الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۷۱)*
اسی طرح کا ایک اور قول حضرت حسن بن ربیع رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے مروی ہے ،
وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مبارک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے پوچھا کہ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ کی تفسیر کیا ہے؟
آپ نے فرمایا :یہ وہ علم نہیں ہے جس کو تم آج کل حاصل کر رہے ہو بلکہ علم کاطلب کرنا اس صورت میں فرض ہے کہ آدمی کو دین کاکوئی مسئلہ پیش آئے تو وہ اس مسئلے کے بارے میں کسی عالم سے پوچھے یہا ں تک کہ وہ عالم اسے بتا دے۔
*( الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۷۱، روایت نمبر: ۱۶۲)*
حضرت علی بن حسن بن شفیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہے کہ
میں نے حضرت عبد اللہ بن مبارک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے پوچھا :علم سیکھنے کے اندر وہ کیا چیز ہے جو لوگوں پر فرض ہے؟ آپ نے فرمایا :وہ یہ ہے کہ آدمی کسی کام کی طرف قدم نہ اٹھائے جب تک اس کے بارے میں سوال کر کے اس کا حکم سیکھ نہ لے، یہ وہ علم ہے جس کا سیکھنا لوگوں پر واجب ہے ۔ اورپھر اپنے اس کلام کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اگر کسی بندے کے پاس مال نہ ہو تو اس پر واجب نہیں کہ زکوٰۃ کے مسائل سیکھے بلکہ جب اس کے پاس دو سو درہم (ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونا) آجائے تو اس پر یہ سیکھنا واجب ہوگا کہ وہ کتنی زکوٰۃ ادا کرے گا؟ اور کب نکالے گا؟ اور کہاں نکالے گا؟ اور اسی طرح بقیہ تمام چیزوں کے احکام ہیں ۔ (یعنی جب کوئی چیز پیش آئے گی تو اس کی ضرورت کے مسائل سیکھنا ضروری ہو جائے گا)
*( الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۷۱، روایت نمبر: ۱۶۳)*
امام ابوبکر احمد بن علی خطیب بغدادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
’’ہر مسلمان پر یہ بات واجب ہے کہ وہ کھانے پینے، پہننے میں او ر پوشیدہ امور کے متعلق ان چیزوں کا علم حاصل کرے جو اس کے لیے حلال ہیں اور جو اس پر حرام ہیں ۔ یونہی خون اور اموال میں جو اس پر حلال ہے یا حرام ہے یہ وہ تمام چیزیں ہیں جن سے بے خبر (غافل ) رہنا کسی کو بھی جائز نہیں ہے اور ہر شخص پر فرض ہے کہ وہ ان چیزوں کو سیکھے ۔ اور امام یعنی حاکمِ وقت عورتوں کے شوہروں کو اور لونڈیوں کے آقاؤں کو مجبور کرے کہ وہ انہیں وہ چیزیں سکھائیں جن کا ہم نے ذکر کیا اور حاکمِ وقت پر فرض ہے کہ وہ لوگوں کی اس بارے میں پکڑ کرے اور جاہلوں کو سکھانے کی جماعتیں ترتیب دے اور ان کے لئے بیت المال کے اندر رزق مقرر کرے اور علماء پر واجب ہے کہ وہ جاہلوں کو وہ چیزیں سکھائیں جن سے وہ حق وباطل میں فرق کرلیں ۔
*( الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۷۴)*
ان تمام اَقوال سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ علمِ دین سیکھنا صرف کسی ایک خاص گروہ کا کام نہیں بلکہ اپنی ضرورت کی بقدر علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت علمِ دین سے دور نظر آتی ہے ۔ نمازیوں کو دیکھیں تو چالیس چالیس سال نماز پڑھنے کے باوجود حال یہ ہے کہ کسی کو وضو کرنا نہیں آتا تو کسی کو غسل کا طریقہ معلوم نہیں ، کوئی نماز کے فرائض کو صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتا تو کوئی واجبات سے جاہل ہے، کسی کی قرأ ت درست نہیں تو کسی کا سجدہ غلط ہے۔ یہی حال دیگر عبادات کا ہے خصوصاً جن لوگوں نے حج کیا ہو ان کو معلوم ہے کہ حج میں کس قدر غلطیاں کی جاتی ہیں ! ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ بس حج کے لئے چلے جاؤ جو کچھ لوگ کر رہے ہوں گے وہی ہم بھی کرلیں گے۔ جب عبادات کا یہ حال ہے تو دیگر فرض علوم کا حال کیا ہوگا؟ یونہی حسد، بغض، کینہ، تکبر، غیبت، چغلی، بہتان اورنجانے کتنے ایسے امور ہیں جن کے مسائل کا جاننا فرض ہے لیکن ایک بڑی تعداد کو ان کی تعریف کا پتہ تک نہیں بلکہ ان کی فرضیت تک کا علم نہیں ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کا گناہ ہونا عموماً لوگوں کو معلوم ہوتا ہے اور وہ چیزیں جن کے بارے میں بالکل بے خبر ہیں جیسے خریدوفروخت، ملازمت، مسجدو مدرسہ اور دیگر بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے لوگوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ ان کے کچھ مسائل بھی ہیں ، بس ہر طرف ایک اندھیر نگری مچی ہوئی ہے ، ایسی صورت میں ہر شخص پر ضروری ہے خود بھی علم سیکھے اور جن پر اس کا بس چلتا ہو انہیں بھی علم سیکھنے کی طرف لائے اور جنہیں خود سکھا سکتا ہے انہیں سکھائے ۔
اگر تمام والدین اپنی اولاد کو اور تمام اساتذہ اپنے شاگردوں کو اور تمام پیر صاحبان اپنے مریدوں کو اور تمام افسران و صاحب ِ اِقتدار حضرات اپنے ماتحتوں کوعلمِ دین کی طرف لگا دیں تو کچھ ہی عرصے میں ہر طرف دین اور علم کا دَور دورہ ہو جائے گا اور لوگوں کے معاملات خود بخود شریعت کے مطابق ہوتے جائیں گے۔ فی الوقت جو نازک صورتِ حال ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ ایک مرتبہ سناروں کی ایک بڑی تعداد کو ایک جگہ جمع کیا گیا جب ان سے تفصیل کے ساتھ ان کا طریقۂ کار معلوم کیا گیا تو واضح ہوا کہ اس وقت سونے چاندی کی تجارت کا جو طریقہ رائج ہے وہ تقریباً اسی فیصد خلافِ شریعت ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہماری دیگر تجارتیں اور ملازمتیں بھی کچھ اسی قسم کی صورتِ حال سے دوچار ہیں ۔
جب معاملہ اتنا نازک ہے تو ہر شخص اپنی ذمہ داری کو محسوس کرسکتا ہے، اس لئے ہر شخص پر ضروری ہے کہ علمِ دین سیکھے اور حتّی الامکان دوسروں کو سکھائے یا اس راہ پر لگائے اور یہ محض ایک مشورہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے محبوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم ہے ،چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا پس شہر کا حکمران لوگوں پرحاکم ہے اس سے اس کے ماتحت لوگوں کے بارے میں پوچھا جائے گا اور مرد اپنے گھر والوں پر حاکم ہے اور اس سے اس کی بیوی کے بارے میں اور ان (غلام لونڈیوں ) کے بارے میں پوچھا جائے گا جن کا وہ مالک ہے۔
*( معجم صغیر، باب الدال، من اسمہ: داود، ص۱۶۱)*
مذکورہ بالا حدیث میں اگرچہ ہر بڑے کو اپنے ماتحت کو علم سکھانے کا فرمایا ہے لیکن والدین پر اپنی اولاد کی ذمہ داری چونکہ سب سے زیادہ ہے اس لئے ان کو بطورِ خاص تاکید فرمائی گئی ہے ، چنانچہ حضرت عثمان الحاطبی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے حضرت عبداللّٰہ بن عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَاکو سنا کہ آپ ایک شخص کو فرما رہے تھے: اپنے بیٹے کو ادب سکھاؤ، بے شک تم سے تمہارے لڑکے کے بارے میں پوچھا جائے گا جو تم نے اسے سکھایا اور تمہارے اس بیٹے سے تمہاری فرمانبرداری اور اطاعت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
*( شعب الایمان، الستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۶ / ۴۰۰، روایت نمبر: ۸۶۶۲)*
اس حدیث پر والدین کو خصوصاً غور کرنا چاہیے کیونکہ قیامت کے دن اولاد کے بارے میں یہی گرفت میں آئیں گے ،اگر صرف والدین ہی اپنی اولاد کی دینی تربیت و تعلیم کی طرف بھرپور توجہ دے لیں تو علمِ دین سے دوری کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ مگر افسوس کہ دُنْیَوی علوم کے سکھانے میں تو والدین ہرقسم کی تکلیف گوارا کرلیں گے ،اسکول کی بھاری فیس بھی دیں گے، کتابیں بھی خرید کر دیں گے اور نجانے کیاکیا کریں گے لیکن علمِ دین جو ان سب کے مقابلے میں ضروری اور مفید ہے اس کے بارے میں کچھ بھی توجہ نہیں دیں گے، بلکہ بعض ایسے بدقسمت والدین کو دیکھا ہے کہ اگر اولاد دین اور علمِ دین کی طرف راغب ہوتی ہے تو انہیں جبراً منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں کیا رکھا ہے ۔ہم دنیوی علم کی اہمیت و ضرورت کا انکار نہیں کرتے لیکن یہ دینی علم کے بعد ہے اور والدین کا یہ کہنا کہ علمِ دین میں رکھا ہی کیا ہے؟
*یہ بالکل غلط جملہ ہے۔ اول تو یہ جملہ ہی کفریہ ہے* کہ اس میں علمِ دین کی تحقیر ہے۔ دوم اسی پر غور کرلیں کہ علمِ دین سیکھنا اور سکھانا افضل ترین عبادت، انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وراثت، دنیا و آخرت کی خیر خواہی اور قبروحشر کی کامیابی کا ذریعہ ہے۔آج نہیں تو کل جب حساب کے لئے بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہونا پڑے گا اس وقت پتہ چلے گا کہ علمِ دین کیا ہے؟ بلکہ صرف اسی بات پر غور کرلیں کہ مرتے وقت آج تک آپ نے کسی شخص کو دیکھا ہے کہ جس کو دنیا کا علم حاصل نہ کرنے پر افسوس ہورہا ہو ۔ہاں علمِ دین حاصل نہ کرنے ، دینی راہ پر نہ چلنے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے کام نہ کرنے پر افسوس کرنے والے آپ کو ہزاروں ملیں گے اور یونہی مرنے کے بعد ایسا کوئی شخص نہ ہوگا جسے ڈاکٹری نہ سیکھنے پر، انجینئر نہ بننے پر، سائنسدان نہ بننے پر افسوس ہو رہا ہو البتہ علمِ دین نہ سیکھنے پر افسوس کرنے والے بہت ہوں گے۔ بلکہ خود حدیث پاک میں موجود ہے کہ کل قیامت کے دن جن آدمیوں کو سب سے زیادہ حسرت ہوگی ان میں ایک وہ ہے جس کو دنیا میں علم حاصل کرنے کا موقع ملا اور اس نے علم حاصل نہ کیا۔۔۔
*( ابن عساکر، حرف المیم، محمد بن احمد بن محمد بن جعفر۔۔۔ الخ، ۵۱ / ۱۳۷)*
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل ِسلیم دے اور انہیں علمِ دین کی ضرورت و اہمیت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے،۔۔۔۔۔۔۔اٰمین۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ⚂*  *❥_ ایک روز ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے ک...
03/05/2025

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ⚂*

*❥_ ایک روز ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے کہا :- بھتیجے ! میں ایک غریب آدمی ہوں، میرے حالات بہت سخت ہیں، بہت تنگی میں دن گزر رہے ہیں، یہاں ایک مالدار خاتون ہیں، وہ اپنا تجارت کا سامان شام وغیرہ کی طرف بھیجتی ہیں، یہ کام وہ تمہاری قوم کے یعنی قریش کے لوگوں سے لیتی ہیں، اس طرح وہ لوگ اس کے مال سے تجارت کرتے ہیں، خود بھی نفع حاصل کرتے ہیں اور اس خاتون کو بھی نفع حاصل ہو جاتا ہے، میرا مشورہ یہ ہے کہ تم ان کے پاس جاؤ، اس بات کا امکان ہے کہ وہ تمہیں اپنا مال تجارت دے دیں، وہ تمہیں جانتی ہیں، تمہاری صداقت اور پاکیزگی کے بارے میں انہیں علم ہے_,"*
*"__ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے مشورے پر عمل کیا, اس خاتون کی طرف چل پڑے, ابوطالب نے اپنی باندی نبعہ کو ان کے پیچھے بھیج دیا، وہ یہ جاننے کے لیے بے چین تھے کہ وہاں کیا ہوتا ہے، وہ خاتون آپ سے کیسے پیش آتی ہیں_,*
*"__ یہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما تھیں، وہ آپ سے خندہ پیشانی سے ملیں، آپ کو عزت سے بٹھایا، دراصل آپ کے بارے میں بہت کچھ جانتی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو باتیں وہاں کے معاشرے میں پھیل چکی تھیں وہ بھی ان تک پہنچی تھی، اس لیے اس ملاقات سے پہلے ہی آپ سے بہت متاثر ہو چکی تھیں _,*

*❥_ _ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آمد کا مقصد بیان فرمایا، اس پر حضرت خدیجہ نے فرمایا :- میں آپ کی سچائی امانتداری اور حسن اخلاق سے واقف ہوں, میں آپ کو دوسروں کی نسبت دوگنا مال دوں گی _,*
*" _ یہ سن کر آپ نے اطمینان محسوس کیا، ان کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے ابو طالب کے پاس آئے، انہیں بتایا :- انہوں نے اپنا مال تجارت مجھے دینے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے _,"*
*"_ابو طالب یہ سن کر خوش ہوئے اور بولے :- یہ رزق ہے جو اللہ تعالی نے آپ کی طرف بھیجا ہے _,"*
*" _ بعض روایات میں ہے کہ ابو طالب کی بہن عاتکہ بنت عبدالمطلب یعنی آپ کی پھوپھی نے بھی اس سلسلے میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما سے ملاقات کی تھی، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے کے بارے میں جب انہوں نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما سے ذکر کیا تو آپ نے جواب میں فرمایا :- مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ اس پیشے کا ارادہ رکھتے ہیں _,"*
*"_ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما اس سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں دیکھ چکی تھیں، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ عادات سے لاعلم نہیں تھیں_,*

*❥__ آپ رضی اللہ عنہا کا تعلق خاندان قریش سے تھا، آپ کے والد کا نام خویلد بن اسد بن عبدالعزی تھا، یہ عبد مناف کے بھائی تھے اور عبدمناف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے داداؤں میں سے تھے، عبدالعزی اور عبد مناف کے والد قصی بن کلاب تھے، اس طرح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا سلسلہ نسب چوتھی پشت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے, آپ کے والد خویلد زمانہ جاہلیت میں عربوں کے سپہ سالاروں میں سے تھے، فجار کی لڑائی میں اپنے قبیلے کی قیادت کی تھی، جب تبع حجر اسود کو اکھیڑ کر یمن لے گیا تو اس کے واپس لانے میں بھی خویلد کی کوشش کا دخل تھا _,"*
*" _ خویلد کی اولاد بہت تھیں، ان میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سب سے زیادہ مشہور ہیں، آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ بن الاعصم بن عاصم بن لوی ہے اور نانی کا نام ہالہ بنت عبد مناف ہے _, آپ کے والد خویلد بہت باعزت آدمی تھے، قریش میں انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، مکہ میں رہتے تھے، فاطمہ بنت زائدہ سے شادی ہوئی اور ان سے ہاتھیوں والے سال( ابرہہ کے حملے کا سال) سے پندرہ سال پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں، جن کے مقدر میں پہلی ام المومنین ہونا لکھا جا چکا تھا _,*

*📓 امہات المؤمنین ، قدم بہ قدم _,,*

🌹تقلید کا ثبوت 🌹💥تقلیدکی حجیت قرآن پاک و احادیث سے ثابت ہے۔ قرآن میں ہے{ فَاسْأَلُواْ أَہْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ...
17/04/2025

🌹تقلید کا ثبوت 🌹

💥تقلیدکی حجیت قرآن پاک و احادیث سے ثابت ہے۔ قرآن میں ہے{ فَاسْأَلُواْ أَہْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ } ترجمہ: تو اے لوگو! علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں ۔ (سورۃ النخل، سورت 16،آیت 43)
💥دوسری آیت میں ہے {یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُواْ اللّٰہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُوْلَ وَأُوْلِی الأَمْرِ مِنْکُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْء ٍ فَرُدُّوْہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ } ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو!حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں پھر اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اٹھے تو اسے اللہ اور رسول کے حضور رجوع کرو اگر اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو یہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا۔ (سورۃ النساء،سورت4،آیت59)
اس آیت میں جو فرمایا ہے کے جب کسی معاملے میں تنازع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹادو یہ حکم کن کو ہے اس کے بارے میں اہلحدیث کہلانے والوں کابڑا اور مشہور مولوی نواب صدیق حسن لکھتا ہے’’ والظاہرانہ خطاب مستقل مستأنف موجہ للمجتھدین ‘‘یعنی ظاہر یہ ہے کہ یہ خطاب مستقل نیا ہے جس میں خطاب مجتہدین سے ہے ۔ (تفسیر فتح البیان جلد2صفحہ 308 طبع مصر )

💥کثیر احادیث سے بھی تقلید کا ثبوت ہے چنانچہ ترمذی شریف کی حدیث پا ک میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا’’من نظر فی دینہ إلی من ہو فوقہ فاقتدی بہ‘‘ترجمہ:جو شخص دین کے معاملے میں اپنے سے بلند مرتبہ شخص کو دیکھے تو اس کی اقتداء کرے۔(جامع ترمذی،کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق ۔۔جلد4،صفحہ665،دار إحیاء التراث العربی ،بیروت)

💥صحابہ کرام علیہم الرضوان بھی اپنے سے اعلیٰ کی تقلید کیا کرتے تھے ۔امام بخاری کے استاد محترم ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں’’ عن عبید اللہ بن أبی یزید قال کان ابن عباس إذا سئل عن الامر ، وکان فی القرآن أخبر بہ ، وإن لم یکن فی القرآن فکان عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، أخبر بہ ، فإن لم یکن فعن أبی بکر وعمر رضی اللہ عنہما ، فإن لم یکن قال فیہ برأیہ‘‘ترجمہ:حضرت عبید اللہ بن ابی یزید فرماتے ہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے جب کسی مسئلہ کے بارے میں پوچھا جاتا ہے وہ اسکا جواب قرآن سے بتاتے،اگر قرآن میں نہ ہوتا تو حدیث سے بتاتے،اگر حدیث سے نہ ملتا تو جو ابو بکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا ہوتا وہی بتاتے اور اگر ان سے بھی کچھ منقول نہ ہوتا تو اپنی رائے سے کہتے ۔(مُصنف ابن أبی شیبۃ،کتاب البیوع والاقضیۃ ،جلد7،صفحہ242،مکتبہ الدار السلفیۃ ،الہندیۃ)

💥صحابہ کرام علیہم الرضوان میں بھی تقلید شخصی کا تصور موجود تھا،ہر کوئی اپنے شہر کے فقہی صحابی کی تقلید کرتا تھا۔بخاری شریف کی حدیث پاک میں ہے’’عن عکرمۃ أن أہل المدینۃ سألوا ابن عباس رضی اللہ عنہما عن امرأۃ طافت ثم حاضت قال لہم تنفر قالوا لا نأخذ بقولک وندع قول زید‘‘ترجمہ: حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے بعض اہل مدینہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اُس عورت کے بارے میں سوال کیا جو طواف فرض کے بعد حائضہ ہوگئی ہو(کہ وہ طوافِ وداع کے لئے پاک ہونے تک انتظار کرے یا طوافِ وداع اس سے ساقط ہوجائے گا اور بغیر طواف کے واپس آنا جائز ہوگا۔ )ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ وہ (طوافِ وداع کے بغیر) جا سکتی ہے ۔ اہل مدینہ نے کہا کہ ہم آپکے قول پر زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کو نہیں چھوڑیں گے۔(صحیح بخاری ،کتاب الحج،باب إذا حاضت المرأۃ بعدما أفاضت ،جلد2،صفحہ625،دار ابن کثیر ، الیمامۃ،بیروت)
شاہ ولی اللہ جن کو وہابی غیرمقلد بھی اپنا پیشوا مانتے ہیں وہ لکھتے ہیں:اگر کوئی جاہل شخص ہندوستان یا ماورالنہر کے علاقے میں ہو اور وہاں کوئی شافعی،مالکی یا حنبلی عالم موجود نہ ہو اور نہ ان مذاہب کی کوئی کتاب دستیاب ہو تو اس پرصرف امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید واجب ہوگی اور ان کے مذہب کو چھوڑنا اس کے لئے حرام ہوگا، کیونکہ اس صورت میں وہ شخص شریعت کی پابندیاں اپنے گلے سے اتار کر بالکل آزاد اور مہمل ہو جائے گا۔(الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف، صفحہ78،دارالنفائس)
تقلید کے ثبوت پر اور بھی کثیر دلائل ہیں اور بڑے بڑے ائمہ کرام جن کو غیر مقلد بھی اپنا پیشوا مانتے ہیں وہ مقلد تھے اور ان ہستیوں سے تقلید کے لازم ہونے کی صراحت موجود ہے۔ غیرمقلدوں کو چیلنج ہے کہ چاروں ائمہ میں سے کسی ایک کی تقلید کے ناجائز ہونے پر کسی قرآن وحدیث تو کیا کسی مستند عالم کا قول پیش کردیں۔

Address

Lala Musa

Telephone

+923013882298

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Naseem-Ul- Quran Islamic Center Lalamusa Pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share