Live Pakistan

Live Pakistan You are free you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place of worship in this State of Pakistan.

You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the State
Jinnah's

ملک نواب خضر حیات ٹوانہ پینتالیس ہزار ایکٹر زمین کا مالک بھی پاکستان کے وجود سے انکاری پر گمنام ہوگیاچند سال پہلے  #سرگو...
13/09/2025

ملک نواب خضر حیات ٹوانہ پینتالیس ہزار ایکٹر زمین کا مالک بھی پاکستان کے وجود سے انکاری پر گمنام ہوگیا

چند سال پہلے #سرگودھا میں #جھاوریاں شاہ پور صدر کے قریب ایک دوست کی شادی تھی۔ واپسی پر مجھے ایک جاننے والے #بوسال صاحب ایک بہت بڑی حویلی میں لے گئے اور پوچھا کہ یہ حویلی کس کی ہے ؟ مجھے علم نہیں تھا۔ تو انہوں نے بتایا کہ یہ متحدہ #پنجاب کے وزیراعلی خضر حیات #ٹوانہ کی حویلی ہے۔ ایسی حویلی پنجاب میں بہت کم کسی کی ہو گی لیکن مکمل طور پر بوسیدہ ہو چکی تھی۔ ٹوانہ صاحب یونینسٹ پارٹی میں تھے اور قائداعظم رح کے مخالف تھے۔ یہ تقریبا 1800 مربع اراضی یعنی 45000 ایکڑ کے مالک تھے۔ ان کے باقی ساتھی نون اور دولتانے مسلم لیگ میں شامل ہو گئے لیکن یہ مسلسل دو قومی نظریہ کے مخالف رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے رشتے دار ٹوانے ہندو بھی ہیں اور سکھ بھی اس لئے مزہب دو ہیں لیکن قوم ایک ہے۔ بہرحال اس نقطے پر آخر کار ان کا سیاسی تشخص بہت کم ہو گیا۔ 1947 کے بعد اپنی جائداد شملہ اور دہلی رہے پھر 1975 میں امریکہ چلے گئے۔ 1947 کے بعد ایک ایسا قانون بنا کہ ان کی بہت زیادہ جائداد بھی ضبط ہو گئی۔ #قائداعظم رح کا فرمانا یہ تھا کہ مسلمانوں کی ترجمان صرف مسلم لیگ ہے اور دو قومی نظریہ ہی اصل وجہ تقسیم ہے۔ اور پنجاب کے مسلمانوں کی اکثریت قائداعظم رح اور مسلم لیگ کے ساتھ تھی۔ آج کی نسل کو شاید ان ٹوانہ صاحب کا تعارف نہ ہو لیکن ان کی دوستی کا آغاز وائسرائے ہند سے شروع ہوتا تھا۔ یہ بندہ اپنے وقت میں عروج پر تھا۔ اگرچہ آج اس خاندان کا وہ وجود باقی نہیں رہا لیکن جو اس خاندان کے ماضی کا عکس ہے وہ آج بھی ان کی حویلی کی باقیات میں واضح ہیں۔ ان کے والد صاحب ایچی سن کالج کے پڑھے ہوئے تھے۔ خضر حیات ٹوانہ صاحب کے بارے میں مورخ لکھتا ہے کہ وضح قطع والے اچھے اور عاجز انسان تھے۔ رہے باقی نام صرف اللہ کریم کا !

دریا کے قریب رہنے والے اپنے جانوروں کے گلے میں لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹیگ بنا کے اوپر اپنا نام اور نمبر  پکی سیاہی یا پینٹ ...
03/09/2025

دریا کے قریب رہنے والے اپنے جانوروں کے گلے میں لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹیگ بنا کے اوپر اپنا نام اور نمبر پکی سیاہی یا پینٹ یا کھدائی کر کے لکھ کے لٹکائیں تاکہ جانور سیلابی پانی میں گم ہو جانے کے صورت میں واپسی کے لیے رابطہ کیا جا سکے

 #منگلا ڈیم کی کل ذخیرہ کرنے کی صلاحیت تقریباً 7.39 ایم اے ایف (9.11 ارب مکعب میٹر) ہے۔ اگر یہ آدھا بھرا ہوا ہو تو اس می...
31/08/2025

#منگلا ڈیم کی کل ذخیرہ کرنے کی صلاحیت تقریباً 7.39 ایم اے ایف (9.11 ارب مکعب میٹر) ہے۔ اگر یہ آدھا بھرا ہوا ہو تو اس میں تقریباً 4.55 ارب مکعب میٹر پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش باقی ہوتی ہے۔
اگر اچانک 11 لاکھ کیوسک پانی (31,148 مکعب میٹر فی سیکنڈ) منگلا ڈیم میں داخل ہو اور ڈیم کے آپریٹر نیچے کی طرف محفوظ اخراج تقریباً 4 لاکھ 6 ہزار کیوسک (11,500 مکعب میٹر فی سیکنڈ) تک محدود رکھیں تو باقی پانی ڈیم میں جمع ہونا شروع ہو جائے گا۔
اس حساب سے ہر سیکنڈ میں تقریباً 19,649 مکعب میٹر پانی ذخیرہ ہوگا۔
کل دستیاب گنجائش 4.55 ارب مکعب میٹر ہے۔
یعنی یہ اضافی پانی تقریباً 2.7 دن (64 گھنٹے) تک ڈیم میں محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
اس کا مطلب ہے اگر 11 لاکھ کیوسک کا سیلابی ریلہ ڈھائی دن سے کم وقت تک رہے تو منگلا ڈیم اسے سنبھال کر نیچے کی طرف بڑے سیلاب سے بچا سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ ریلہ ڈھائی دن سے زیادہ جاری رہے تو ڈیم کو زبردستی زیادہ پانی چھوڑنا پڑے گا جس سے نیچے سیلاب آنا لازمی ہے۔
یہ اضافی وقت لوگوں کو موقع دیتا ہے کہ وہ اپنے گھروں کو بچانے کے لیے حفاظتی اقدامات کریں، دریا کے کناروں کو مضبوط کریں، محفوظ مقامات پر منتقل ہوں اور اپنے مویشیوں کو بروقت نکال کر محفوظ جگہوں پر پہنچا سکیں۔
اگر پاکستان کے تمام بڑے دریا کے ساتھ موجود شہروں کو ایسا ہی ڈھائی دن کا بفر مل جاتا تو موجودہ سیلابی صورتحال بالکل مختلف ہوتی۔ اس وقت کی قیمتی مہلت شہروں کو خالی کرنے، امدادی سامان پہنچانے، جانوروں اور کھیتی کو محفوظ کرنے اور سب سے بڑھ کر جانی نقصان سے بچنے کے لیے کافی ہوتی۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ڈیمز کو صرف بجلی بنانے کے لیے نہیں بلکہ سیلابی کنٹرول اور انسانی جان و مال کے تحفظ کے لیے بنایا جاتا ہے۔

💨 پیٹ کی بدبودار گیس کو خوشبو میں بدلنے والی ایجاد انیسویں صدی کے وینس میں، نفاست اور خوبصورتی ہر چیز کا مرکز تھیں – حتی...
31/08/2025

💨 پیٹ کی بدبودار گیس کو خوشبو میں بدلنے والی ایجاد
انیسویں صدی کے وینس میں، نفاست اور خوبصورتی ہر چیز کا مرکز تھیں – حتیٰ کہ انسانی جسم کی سب سے فطری اور قدرتی کارروائیوں میں بھی! تصور کریں کہ اس دور میں، گیس خارج کرنا (یعنی پیٹ کی ہوا نکالنا) بھی ایک بے کلاس اور غیر مہذب فعل سمجھا جاتا تھا۔ اشرافیہ اور اعلیٰ طبقے کے لوگ اپنی سماجی تقریبات، محفلوں اور یہاں تک کہ مباشرت کے لمحات میں بھی اس "مسئلے" سے پریشان رہتے تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب ایک ایسی ایجاد نے جنم لیا جو اتنی ہی مضحکہ خیز لگتی ہے جتنی کہ ذہین اور عملی: "ونویرا" (Vanvera)۔ یہ آلہ خاص طور پر ڈیزائن کیا گیا تھا تاکہ لوگوں کی موجودگی میں گیسوں کے شور اور بدبو کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکے، اور اسے استعمال کرنے والا شخص اپنی عزت اور کلاس کو برقرار رکھ سکے۔

ونویرا کی تاریخ دلچسپ ہے۔ یہ 19ویں صدی کے اطالیہ میں، خاص طور پر وینس کی اشرافیہ میں مقبول ہوئی۔ کچھ ذرائع کے مطابق، یہ ایجاد قدیم روم اور مصر کی ایجادات سے متاثر تھی، جہاں ضیافتوں اور سماجی تقریبات میں ایسے "غیر مہذب" تاثرات کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ قدیم رومی اور مصری اشرافیہ بھی اس طرح کی چیزوں سے بچنے کے لیے مختلف آلات استعمال کرتے تھے، جیسے خوشبو دار جڑی بوٹیاں یا خاص کنٹینرز۔ ونویرا کو انہی قدیم آئیڈیاز کو جدید بنا کر تیار کیا گیا تھا۔ یہ آلہ عام طور پر انڈے کی شکل کا ہوتا، جو سرامک یا لکڑی سے بنایا جاتا تھا، اور اس میں دو سوراخ ہوتے جو ایک دوسرے سے جڑے ہوتے۔ اس کی اندرونی ساخت میں کمپارٹمنٹس ہوتے جہاں خوشبو دار جڑی بوٹیاں، جیسے لیوینڈر، روزمیری یا دیگر ارومیٹک ہربس بھری جاتیں۔ نتیجتاً، جو گیس خارج ہوتی، وہ نہ صرف بغیر شور کے ہوتی بلکہ خوشبو دار بھی بن جاتی – ایک طرح سے "پرفیومڈ" ہوا!

ونویرا کے دو اہم ورژن تھے، جو مختلف مواقع کے لیے ڈیزائن کیے گئے تھے:

1. **ونویرا دا پاسیجیو (Vanvera da Passeggio)**: یہ ورژن خاص طور پر عوامی محفلوں، میٹنگز، سیر اور سماجی تقریبات کے لیے تھا۔ عورتیں اسے اپنے اسکرٹس یا تہوں کے نیچے چھپا کر استعمال کرتیں۔ اس میں ایک نفیس اور پوشیدہ ڈوری ہوتی، جسے کھینچنے سے گیس بغیر کسی شور یا بدبو کے خارج ہو جاتی۔ یہ اتنا ڈسکریٹ تھا کہ آس پاس والے لوگوں کو کچھ پتہ بھی نہ چلتا! یہ ورژن خاص طور پر وکٹورین دور کی خواتین کے لیے مفید تھا، جہاں تنگ کورسٹس اور بھاری لباس کی وجہ سے پیٹ کی گیس ایک عام مسئلہ تھی۔ کچھ تاریخی روایات کے مطابق، یہ اشرافیہ کی لمبی ضیافتوں میں استعمال ہوتا، جہاں کھانے پینے کی وافر مقدار سے ایسے مسائل پیدا ہوتے۔

2. **ونویرا دا الکووا (Vanvera da Alcova)**: یہ زیادہ ایڈوانسڈ اور "پرو" ورژن تھا، جو خاص طور پر مباشرت اور بیڈروم کے لمحات کے لیے ڈیزائن کیا گیا۔ اس میں لمبی ٹیوبیں ہوتیں جو گیس اور بو کو کمرے سے باہر، شاید دوسرے کمرے یا یہاں تک کہ باہر کی طرف لے جاتیں۔ یہ نوبیاہتا جوڑوں کے لیے خاص طور پر مفید تھا – ایک ذریعہ بتاتا ہے کہ 17ویں صدی کے وینس میں، دولہے شادی کی پہلی رات کو اسے استعمال کرتے تاکہ اپنی دلہن کے سامنے شرمندہ نہ ہوں۔ اس ورژن کی ٹیوبیں اتنی لمبی ہوتیں کہ بو مکمل طور پر غائب ہو جاتی، اور خوشبو دار ہربس کی وجہ سے ماحول مزید رومانٹک بن جاتا!

ونویرا کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ صرف وینس تک محدود نہیں رہی بلکہ پورے اطالیہ کی اشرافیہ میں پھیل گئی۔ یہ ایک "سیکریٹ آرٹیفیکٹ" کی طرح تھا، جو اعلیٰ طبقے کے لوگوں کے درمیان چھپا راز تھا۔ آج کل کے دور میں، جب ہم اس کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہنسی آتی ہے، لیکن اس وقت کی سماجی معیارات کو دیکھتے ہوئے، یہ ایک انقلابی ایجاد تھی۔ بدقسمتی سے، آج ونویرا موجود نہیں ہے – شاید ٹیکنالوجی کی ترقی یا سماجی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ متروک ہو گئی۔ لیکن ایمانداری سے کہوں تو، آج کی عوامی ٹرانسپورٹ، بسوں، ٹرینوں اور میٹرو کی حالت دیکھ کر، جہاں کبھی کبھی بو اور شور ایک مسئلہ بن جاتے ہیں، کئی لوگ سوچیں گے کہ یہ ایجاد واپس لانے کی ضرورت ہے ! 😏✨ کیا آپ کو لگتا ہے کہ جدید دور میں ایسا کوئی گیجٹ کام کر سکتا ہے؟ یا یہ صرف ایک تاریخی مذاق ہے ؟

 #جہلم  ایک روایت کے مطابق جہلم کا نام ''جل ہم'' تھا جل کا مطلب پانی اور ہم کا مطلب  #ٹھنڈا اور  #میٹھا۔ ایک روایت کے مط...
30/08/2025

#جہلم

ایک روایت کے مطابق جہلم کا نام ''جل ہم'' تھا جل کا مطلب پانی اور ہم کا مطلب #ٹھنڈا اور #میٹھا۔ ایک روایت کے مطابق جہلم یونانی زبان میں ایک چھوٹا نیزہ نما ہتھیار کو کہا جاتا ہے۔ چونکہ #یونانی فوج نے راجہ #پورس کا مقابلہ انھی نیزوں سے کیا اس لیے اس مقام کا نام جہلم پڑ گیا۔ بعض روایات میں اس کا نام ''جائے الم'' بھی ہے یعنی پرچم کی جگہ ۔

ایک اور روایت کے مطابق حضرت سعید بن ابی وقاصؓ جو سعد بن وقاصؓ کے بھائی تھے انھیں دیگر صحابہ کے ساتھ چین روانہ کیا گیا۔ راستے میں جہلم شہر کے سامنے پہنچے تو چاند پوری آب و تاب سے روشن تھا اس کی چاندنی میں انھوں نے شہر کا عکس دریا کے جھلملاتے پانی کی سفید چادر پر دیکھا تو بے ساختہ فرمایا ''جلیلم'' ان کے یہ الفاظ امر ہوگئے، لہٰذا شہر کو جہلم کہا جانے لگا۔

جہلم کا موجودہ شہر ساڑھے چار سو سال قدیم ہے۔ دوسری نمک کی کان جو کھیوڑہ میں موجود ہے۔ #کھیوڑہ کا قصبہ انگریزوں نے 1876 میں آباد کیا۔ دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ 327 قبل از مسیح میں سکندر یہاں آیا اور اس کے گھوڑوں نے چمک چاٹا (چاٹنا شروع کیا) یوں کھیوڑہ کا نمک دریافت ہوا۔

جہلم کا محل وقوع کچھ اس طرح ہے کہ دریائے جہلم اور جرنیلی سڑک کے سنگم پر واقع ہے دریا کے دوسری طرف سرائے عالمگیر کا قصبہ ہے جہاں ملٹری کالج جہلم واقع ہے۔ جرنیلی سڑک دونوں آبادیوں سے گزرتی ہے۔ جہلم کی عوام فوج کی ملازمت کو ترجیح دیتے ہیں۔ 1849 میں برطانوی فوج پنجاب میں داخل ہوکر جہلم پر عملداری کی۔ برطانوی عہد میں جہلم میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں کی گئیں۔ یہاں ایک بڑی چھاؤنی تعمیر کی گئی۔ 1872میں تاریخی ریلوے پل دریائے جہلم پر تعمیر کیا گیا اور مختلف گرجہ گھر بنائے۔

جہلم کا رقبہ 3587 مربع کلو میٹر ہے، دریائے جہلم کوہ ہمالیہ میں چشمہ ودی ناک تلے نکل کر سری نگر کی ڈل جھیل سے پانی لیتا ہوا داخل ہوتا ہے اور جنوب مغرب میں دریائے چناب سے مل جاتا ہے۔ یہ مغربی پنجاب کے دریاؤں میں سے اہم دریا ہے۔ یہ سارے دریا پنج ہیڈ کے قریب دریائے سندھ میں جا ملتے ہیں۔ قصور کے مقام پر دریائے سندھ سے نہر لوئر جہلم نکالی گئی ہے جو ضلع شاہ پور کو سیراب کرتی ہے۔ قصور کی مین بجلی کا منصوبہ اسی کی مرہون منت ہے۔ نہرا پر جہلم منگلا، آزاد کشمیر کے مقام سے نکالی گئی ہے اور ''ضلع گجرات'' کے بعض علاقوں کو سیراب کرتی ہے۔ آب پاشی کے علاوہ آزاد کشمیر میں لکڑی کی برآمد کا سب سے بڑا اور آسان ذریعہ دریا ہے۔

جہلم شہر میں مشہور تاریخی مقام ''قلعہ روہتاس'' موجود ہے اس کی بنیاد 15 مئی 1541 کو شیرشاہ سوری نے رکھی۔ یہ قلعہ اس وقت شیرشاہ سوری نے گھگھڑوں پر نظر رکھنے کے لیے بنوایا تھا۔ اس کے علاوہ سکھوں کا مشہور گوردوارہ قلعہ روہتاس کے دامن میں موجود ہے یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے تعمیر کروایا ۔ ''ٹیلہ جوگیاں'' کے بارے میں کہا جاتا ہے یہاں جوگیوں کا بسیرا ہوا کرتا تھا اور ہر سال یہاں بڑیہ دھوم دھام سے شیوو کی یاد میں میلا منعقد کیا جاتا تھا۔ سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک صاحب نے بھی چند ایام ''ٹیلہ جوگیاں'' میں گزارے اس سے منسوب ایک گبند آج تک موجود ہے۔

کلا کا مطلب پہاڑی ہے ''کلا منگلا'' ایک دیوی کے نام سے منسوب ہے، اس دیوی کا ذکر مہا بھارت میں منگلا دے وی راجہ پورس کی بیٹی تھی۔ باپ اور بھائی کی موت کے بعد اس نے پہاڑی کو ہی اپنا مسکن بنا لیا۔ اپنے باپ کو یاد کرکے درد بھرے گیت گایا کرتی۔ لوگ دور دراز سے اس کے درد بھرے گیت سننے آیا کرتے، لوگ خصوصاً اس کے درشن کرنے آیا کرتے اور اس سے اپنی مرادیں مانگتے۔ اس کی موت کے بعد وہاں اس کا بت رکھا گیا اور اس کی پوجا کی جاتی رہی، اس کی پوجا پاٹ کرنے والوں کو سَنت کہا جاتا ہے۔

جہلم کی مشہور شخصیات جن میں مختلف اولیا کرام، شہدا، سیاستدان، تاریخ دان اور شعرا شامل ہیں۔ حضرت بابا پیر سلیمان پارس کا مزار دریائے جہلم کے کنارے ہے کہا جاتا ہے آپ نے حضرت سعید بن ابی وقاصؓ جو سعد بن ابی وقاصؓ کے بھائی تھے ان کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا۔ خاندانی نسبت سے سلیمان پورس بعد میں سلیمان پارس کہلائے۔
ایکسپریس نیوز ۔۔۔ایم قادر

28/08/2025

جب ملک پر مشکل وقت آتا ہے تو کوئی بھی پیچھے نہیں رہتا۔
😘پنجاب پولیس شہزادی پولیس

27/08/2025

یا الہی
میرے وطن کے گلی کوچوں کی خیر
میری بستیاں سلامت رہیں

ایک  #کیوسک پانی کتنا ہوتا ہے؟ رفاقت علی رانجھا ہر طرف بھیانک سیلابی ریلے سر چڑھ کر بول رہے ہیں۔ ایسے میں ایک لفظ کیوسک ...
27/08/2025

ایک #کیوسک پانی کتنا ہوتا ہے؟
رفاقت علی رانجھا
ہر طرف بھیانک سیلابی ریلے سر چڑھ کر بول رہے ہیں۔ ایسے میں ایک لفظ کیوسک ہر زبان پر ہے۔ فلاں #بیراج پہ اتنے کیوسک پانی کا ریلا آ رہا ہے۔ #راوی پل سے اتنے کیوسک پانی گزر سکتا ہے۔ کتنے کیوسک ہوں تو اونچے درجے کا سیلاب ہوتا ہے اور اتنے کیوسک پر نچلے درجے کا۔ آئیے عام اور سادہ لفظوں میں سیکھتے ہیں کہ یہ کیوسک آخر بلا کیا ہے۔ ایک سادی سی وضاحت ہے۔ کیوسک دراصل پانی کے گزرنے کا بہاؤ کا پیمانہ ہے

تصور کریں کہ ایک طرف سے #پانی آ رہا ہے مگر اس کے رستے میں ایک ایسی دیوار ہے جو ایک فٹ چوڑی/موٹی ہے۔ اس دیوار میں ہم ایک ایسا سوراخ بناتے ہیں جو ایک فٹ چوڑا اور ایک فٹ اونچا ہو۔ یہ ایک ایسا خانہ بن گیا ہے جو انچائی، چوڑائی اور موٹائی میں ایک مکعب فٹ ہے۔ اب اس خانے میں سے ایک سیکنڈ میں جتنا پانی گزرے کا وہ ایک کیوسک ( تقریباً 28 لیٹر) کہلائے گا۔ اس طرح کے ہزار سوراخ ہوں تو ان سب میں سے گزرنے والا پانی 1000 کیوسک ہو گا۔ یوں بھی ایک مکعب فٹ سے 28 لیٹر پانی گزرنے تو یہ ایک کیوسک ہے۔

چونکہ بیراج میں پانی روکنے اور خارج کرنے کیلئے گیٹ موجود ہوتے ہیں جن سے پانی کے اخراج کو مرضی سے کم یا زیادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس میں کیوسک کیلئے نشان بھی موجود ہوتے ہیں۔ ان نشانات سے پانی کا فی سیکنڈ اخراج آسانی سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ بیراج کا سائز، اس کے گیٹ کا ایریا جانچ کر ہی کیوسک پانی کی مقدار جانچی جا سکتی ہے۔

ایک خاص حد سے زیادہ کیوسک پانی کا ریلا آ جائے تو وہ بیراج کے ٹوٹنے کا خدشہ پیدا کر دیتا ہے۔ اس صورت میں بیراج کے سائیڈ والے پشتے بارود سے اڑا دئیے جاتے ہیں تاکہ بیراج کو بچایا جا سکے۔ پشتہ ٹوٹنے سے اچانک اٹھنے والے سیلاب کی یہ انتہائی، شدید ترین اور تباہ کن شکل ہے جو کسی ڈیم ٹوٹنے کے جیسا ہوتا ہے۔ یہ سیکنڈوں میں بستیوں کو نگلتا ہوا آگے گزر جاتا ہے۔
اور ہاں کیوسک انگریزی لفظ Cu اور Sec سے بنا ہے جس کا مطلب کیوب یعنی مکعب پانی ،اور Sec کا مطلب سیکنڈز ہے۔

یا اللہ پاک رحم فرما
27/08/2025

یا اللہ پاک رحم فرما

1990میں جب پاکستان میں پیجرسروس کا آغاز ہوا تو ٹیلی گرام کی چھٹی ہوگئی۔ٹیلی گرام کو تار سروس بھی کہا جاتا تھا۔۔ڈاکیا تا...
23/08/2025

1990میں جب پاکستان میں پیجرسروس کا آغاز ہوا تو ٹیلی گرام کی چھٹی ہوگئی۔
ٹیلی گرام کو تار سروس بھی کہا جاتا تھا۔۔ڈاکیا تار لاتا تو دل دھڑک جاتے۔۔کیونکہ یہ ارجنٹ پیغام رسانی کیلئے استعمال ہوتا تھا۔۔
تار بھیجنے کا طریقہ یہ تھا کہ پوسٹ آفس جاکر آپ نے مختصر پیغام لکھوانا ہوتاتھا۔جسے بجلی کے سگنل کے زریعے دوسرے شہر ٹرانسفر کردیا جاتا تھا۔ یہ ٹرانسفر ڈاٹ اور ڈیش کوڈ میں ہوتا۔ جسے ڈی کوڈ کرلیا جاتا اور ڈاکیا تار لیکر روانہ ہوجاتا۔خطوط کی ڈاک کے دور میں تار سروس ایک جدید سہولت مانی جاتی تھی۔۔
"تار" کی ایجاد کا سہرا امریکی سائنسدان سیموئل مورس اور ان کے ساتھی الفریڈ ویل کو جاتا ہے۔انہوں نے 1837 میں برقی ٹیلیگراف بنایا اور مورس کوڈ ایجاد کیا، جس کے ذریعے پیغامات ڈاٹ اور ڈیش میں بھیجے جاتے تھے۔
پہلا کامیاب عوامی ٹیلیگرام 1844 میں واشنگٹن سے بالٹی مور بھیجا گیا۔
1855میں برصغیر میں پہلی بار ٹیلیگراف لائن ڈالی گئی۔ کلکتہ سے آگرا پہلا تار بھیجا گیا۔۔
ٹیلیگرام سروس چلانے کے لیے شہروں کے درمیان کاپر کے تار بچھائے جاتے تھے، جو ٹیلیگراف پولز یعنی لکڑی یا لوہے کے کھمبے پر نصب ہوتے تھے۔
پاکستان بننے کے بعد پاکستان پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف نے یہ سروس سنبھالی۔۔۔
ٹیلیگرام سروس نےسوا صدی تک لوگوں کو ارجنٹ پیغام رسانی کی سہولت فراہم کی۔ساٹھ اور ستر کی دہائی میں لینڈ لائن فون عام ہونےلگا۔ جس نےدنیا میں ٹیلی گرام کی افادیت کو چیلنج کیا۔لیکن دنیا کی ایک بڑی آبادی ابھی ٹیلی گرام پر ہی انحصار کرتی تھی۔
1980میں ڈیجیٹل دور کی شروعات ہوئیں۔۔لینڈلائن فون بھی دیہات اورچھوٹے شہروں تک پہنچا۔۔فیکس مشین کا کمرشل استعمال شروع ہوا۔۔یہ وہ دور تھا جب ٹیلی گرام سروس کو ماضی کا حصہ قرار دیا جانےلگا۔۔
اسّی اور نوے کی دہائی میں وائرلیس مواصلاتی نظام سے دنیا میں انقلاب نظر آنےلگا۔۔اور ایس ایم سروس ، جو پیجر سروس کے نام سے مشہور ہوئی،اس نے ٹیلیگرام کو باقاعدہ رخصت ہونے کا اشارہ دےدیا۔۔۔
پیجر سروس یوں تو ایس ایم ایس ٹیکنالوجی تھی، لیکن آج کل کے دور کے لحاظ سے اس کا طریقہ بھی فرسودہ ہی تھا۔۔ یعنی پہلے کال سینٹر فون کرنا۔۔پھر ان کو میسیج لکھوانا۔۔اور پیجر نمبر بتانا جس پر میسیج بھیجنا مقصود ہوتا تھا۔۔ یوں ان صاحبِ پیجر کو آپ کا میسیج بیپ کے ساتھ موصول ہوجاتا تھا۔۔
پاکستان میں سن دو ہزار میں ٹیلی گرام سروس باقاعدہ ختم کردی گئی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے۔۔ کہ اس وقت پیجر سروس اور اس کے کال سینٹرز بھی ختم ہوچکے تھے۔۔ کیوں کہ سیلولر ٹیکنالوجی کی بدولت موبائل فونز میں ایس ایم سروس فراہم ہوچکی تھی۔۔اور بات اس سے بھی کہیں دور جاتی نظر آرہی تھی۔۔۔۔۔
بات نکلی تو دور تلک جانی تھی۔۔آج کا موبائل فون وہ نہیں رہا، جو آپ کو صرف کال اور ایس ایم ایس کی سہولت فراہم کرتا تھا۔۔۔۔
مزید کچھ بتانے کی شاید ضرورت نہیں۔۔آج موبائل فون ہر فرد کے ہاتھ میں ہے۔۔بات واقعی بہت دور جاچکی ہے۔

21/08/2025

جب آپکو دن رات آپکے وطن کے لاکھ عیب گنوائے جائیں لیکن پھر بھی آپکا دل یہ سوال کرے کہ پھر یہ وطن کیوں قائم ہے تو اسکا جواب اسکے وہ لاکھوں کروڑوں بیٹے بیٹیاں ہیں جو اللہ کریم کے فضل سے اس ملک کو بے ساختہ پیار کرتے ہیں۔

بھٹو صاحب نے کہا : نورا ! انہیں بتاو پہاڑ روتے نہیں ہیںتحریر :اظہر  عزمی (ایک اشتہاری کی باتیں)  کے ذاتی ملازم نور محمد ...
04/04/2025

بھٹو صاحب نے کہا : نورا ! انہیں بتاو پہاڑ روتے نہیں ہیں

تحریر :اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)

کے ذاتی ملازم نور محمد عرف نورا کے حالات و واقعات

#ضیاءالحق کو جنرل کے رینک پر پروموٹ کر کے چیف آف دی آرمی اسٹاف بنانے کے اعلان کے چند دنوں بعد ٓباد میں مقیم ایک امریکی سفارت کار نے جو کہ #اردو جانتا تھا، صحافیوں کے ایک گروپ کو بتایا تھا کہ بھٹو کو ایک اور “نورا” مل گیا ہے۔ (حوالہ انگریزی کتاب، پاکستان ضیا اینڈ آفٹر۔۔۔)

نورا کون تھا؟ کیا تھا؟
#بھٹو صاحب سے اس کا کیا تعلق تھا؟
وہ وفاداری، جاں نثاری، اطاعت پسندی اور وطن پرستی کے کس منصب پر فائز تھا کہ ضیاء الحق کو یہ کہا گیا؟
کیا وہ کابینہ کا کوئی بہت یی با اثر وزیر تھا جس کا Nick Name نورا رکھ دیا گیا تھا جو بعد ازاں Generic بن گیا؟
کیا وہ بھٹو خاندان کے کسی خدمت گار کا بیٹا تھا کہ جس کا بچپن بھٹو صاحب کے ساتھ گذرا ہو؟

یہ سب سوال #نورا کی شخصیت تک نہیں پہنچ سکتے۔ کوئی اور کو تو کیا خود نورا ان تک نہیں پہنچ سکتا تھا اگر وہ حیدرآباد سندھ کے میر احمد علی خان #تالپور اور میر رسول بخش تالپور کا خاندانی ملازم نہ ہوتا۔ نورا کا اصل نام نور محمد مغل تھا لیکن اسے سب نورا ہی کہا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو حیدرآباد گئے اور تالپور برادران کے مہمان ہوئے۔ اس کے بعد ان کو جلسہ سے خطاب کرنے سانگھڑ جانا تھا۔ جہاں مخالفین کی جانب سے مزاحمت کا خطرہ تھا۔ تالپور برادران نے اپنے ایک ملازم نورا کو بھٹو صاحب کے ساتھ روانہ کردیا۔ سانگھڑ میں ذوالفقار علی بھٹو پر فائرنگ ہو گئی۔ نورا کمال بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان پر لیٹ گیا اور ان کی جان بچائی۔ ذوالفقار علی بھٹو جہاندیدہ سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ نظر شناس زمیندار بھی تھے۔ ان میں وفادار و جانثار ملازم کی پرکھ تھی۔ بھٹو صاحب نے تالپور برادران سے نورا کو مانگ لیا اور ان فیاض مزاجوں نے نورا کو ہمیشہ کے لئے ان کے حوالے کردیا۔ بعد میں بھٹو صاحب کی تالپور برادران سے خاصی مخاصمت رہی لیکن نہ تو کبھی تالپور برادران نے نورا کو واپس مانگا اور نہ ہی کبھی نورا نے واپس جانے کی درخواست کی۔

اگر ذولفقار علی بھٹو سو رہے ہوں تو ماسوائے نورا کسی کو اجازت نہ تھی کہ وہ ان کو نیند سے بیدار کرے۔
آج کی نئی نسل شاید تالپور برادران سے واقف نہ ہو۔ میر احمد علی خان تالپور بڑے جبکہ میر رسول بخش تالپور چھوٹے بھائی تھے۔ رسول بخش تالپور بھٹو دور میں گورنر سندھ اور سینئر وزیر بھی رہے۔ ان سے متعلق مشہور ہے کہ جس روز وہ گورنر کے عہدے سے مستعفی ہونے تو یہ کہتے ہوئے گئے کہ میں آج کوفہ چھوڑ کر جارہا ہوں۔ بڑے بھائی میر احمد علی خان تالپور ضیا دور میں وزیر دفاع تھے۔ کسی نے پوچھا کہ آپ کو وزیر دفاع کیوں بنایا تو بولے کیونکہ پوری کابینہ میں سب بڑی مونچھوں میری ہیں۔ ابتدا میں یہ پیپلز پارٹی میں تھے۔ رسول بخش تالپور سندھ میں پارٹی چیئرمین تھے۔ بعد ازاں اختلافات ہوگئے جو ہمارے ہاں جمہوریت کا حسن ہیں۔

تالپور برادران کی پیپلز پارٹی سے وابستگی اور نور محمد نورا کی ذوالفقار علی بھٹو کو حوالگی سے متعلق جناب حسن مجتبی اپنے مضمون پی پی پی کے 45 سال، بھٹو سے زرداری میں لکھتے ہیں:

” اگرچہ پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد لاہور میں رکھی گئی تھی لیکن بہت کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ اس کا اصل جنم حیدرآباد سندھ میں ٹنڈو میر محمود میں المعروف میر برادران میر رسول بخش تالپور اور میر علی احمد تالپور کی رہائش گاہ پر ہوا تھا جب 16 ستمبر1967ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا تھا کہ وہ نئی پارٹی بنانے جا رہے ہیں جس کا اعلان لاہور کنونشن میں کیا جائے گا۔ میر برادران نے ہی اپنے دیرینہ اور بااعتماد ملازم نور محمد مغل جو کہ نورا کے نام سے مشہور ہے کی خدمات ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کی تھیں، نورا اس دن کے بعد اپنے آخری دنوں تک بھٹو کا ہی وفادار کہلایا۔ یہ نورا تھا جس نے پاکستان پیپلزپارٹی کے منشور کی کاپیاں بوریاں بھر کر بذریعہ خیبر میل ملک کے کونے کونے میں جاکر پہنچائی تھیں۔ بھٹو کا یہ انتہائی قریبی اور معتمد ملازم خاص جنرل ضیاء کی آمریت کے ابتدائی سالوں میں کراچی میں مردہ پایا گیا۔”

نور محمد نورا کی اہمیت و حیثیت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ذولفقار علی بھٹو سو رہے ہوں تو ماسوائے نورا کسی کو اجازت نہ تھی کہ وہ ان کو نیند سے بیدار کرے۔ نور محمد نورا کی میڈیائی شہرت کا آغاز کراچی کے ایک جلسہ سے ہوا۔ واقعہ کچھ یوں ہے جس روز بھٹو صاحب کو کراچی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا۔ اس روز ایک اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی کہ رات وزیر اعظم کسی بات پر آبدیدہ ہوگئے یا رو پڑے۔ بھٹو صاحب نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اس خبر کا حساب نورا کو مخاطب کرتے ہوئے چکتا کیا اور کہا:
نورا ! انہیں بتاو پہاڑ روتے نہیں ہیں۔

جلسہ تو ختم ہو گیا مگر اتنے بڑے جلسہ میں نورا کا یہ تعارف سب کو چونکا گیا۔ اب نور محمد نورا کا مرتبہ پیپلز پارٹی کے بڑے بڑے رہنماوں کے برابر ہوچکا تھا۔

نورا محض وفادار و جانثار ہی نہیں تھا۔ وہ زہین، حاضر دماغ اور زمانہ آگاہ تھا۔ وہ اپنے صاحب کے آبرو کے اشاروں کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ وہ ان کے ذہن کو بھی پڑھ لیتا تھا۔ بڑے بڑے بیوروکریٹس ذوالفقار علی بھٹو سے ملنے سے قبل نورا سے ملتے اور متعلقہ مسئلہ بتانے کے بعد پوچھتے کہ اس بات کے لئے وزیر اعظم کا موڈ اس وقت کیسا ہے؟ نورا بھٹو صاحب کا تو مزاج داں و نبض شناس تھا ہی اس کے ساتھ ملاقاتیوں سے متعلق بھٹو صاحب کیا رائے رکھتے ہیں۔ اس سے بھی اچھی طرح واقف تھا۔ وہ جانتا تھا کہ صاحب کی تیوریاں کسے دیکھ کر چڑ جاتی ہیں اور کسے دیکھ کر خوشگواری آجاتی ہے۔ نورا یہ بھی جانتا تھا کہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ صاحب آج جس سے ناخوش ہیں کل اس سے خوش بھی ہوسکتے ہیں۔اس لئے وہ موجودہ معاملات و حالات اور مستقبل بینی کے ساتھ متعلقہ شخص کے حفظ مراتب کا بھی خیال رکھتا تھا۔ اور وہ ایسا کیوں نہ کرتا؟ بھٹو صاحب جیسا شخص اگر کسی عام سے آدمی کو اتنا اختیار دے رہا ہے تو اس میں کوئی خاص بات تو ہوگی۔

نور محمد نورا ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ہی رہتا حتی کہ غیر ملکی دوروں تک میں ان کے ہمراہ ہوتا اور جہاز کی اکنامی کلاس میں سفر کرتا۔ ہر کوئی اس کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آتا۔ ہر کوئی اسے نورا صاحب کہہ کر مخاطب کرتا۔ بھٹو صاحب کو اگر دورے میں کسی شخص کو خاص اہمیت دینا یوتی تو نورا سے ان کا خیال رکھنے کو کہہ دیتے۔

مشہور صحافی اور کالم نگار جناب عبدالقادر حسن اپنے ایک کالم ’’بیش قیمت دوست اور بیش قیمت زیورات‘‘ میں رقم طراز ہیں:

“بھٹو خاندان کے بارے میں جب بھی ناگوار خبریں ملیں مجھے بہت دکھ ہوا کیونکہ بھٹو صاحب میرے مہربان تھے وہ جب حزب اقتدار میں آئے تو انھوں نے بڑی عجلت میں کوئی نو ملکوں کے دورے کیے۔ صبح کہیں دوپہر کہیں اور رات کہیں۔ میں اپنے اخبار کی طرف سے اس یاد گار دورے میں شامل تھا۔ بھٹو صاحب سے آمنا سامنا ہوتا رہتا تھا۔ کالے رنگ کی ایک صندوقچی ہر وقت اٹھائے ہوئے ان کا خاص ملازم نور محمد عرف نورا جو ہر وقت ان کے آس پاس رہتا تھا اسے بھٹو صاحب نے ہدایت کی تھی کہ وہ میرا خیال رکھے۔”

بھٹو کابینہ کے قدآور وزراء جو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے جب بھٹو صاحب کے پاس آتے تو نورا کے پاس بیٹھتے، حال احوال لیتے اور اگر یہ سمجھتے کہ وزیر اعظم اس وقت نہ سہی کسی اور وقت ان کے مسئلے کو مثبت انداز سے دیکھیں گے تو مسئلہ نورا کے گوش گذار کر جاتے یا فائل ہی وہیں رکھ کر چلے جاتے۔اب یہ نورا پر منحصر ہوتا کہ وہ فائل یا مسئلہ کب صاحب تک پہنچائے۔

نور محمد نورا کا تذکرہ اس کے نام کے ساتھ سیاست دانوں کی کتابوں میں مل جاتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے عہد عروج میں کتنا قابل ذکر رہا ہے۔ ملک حاکمین خان اپنی کتاب ’خار زار سیاست کے شب و روز‘‘میں ذوالفقارعلی بھٹو کے حوالے سے لکھتے ہیں:

“ذوالفقار علی بھٹو سے ان کی پہلی ملاقات 1970ء کے انتخابات میں ایم پی اے منتخب ہونے کے بعد انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل راولپنڈی میں اپنی پہلی ملاقات کا احوال بتاتے ہیں کہ بھٹو صاحب سے ملاقات کے بعد جب میں واپس جانے کے لیے ہوٹل کی لابی میں ڈرائیور کا انتظار کر رہا تھا کہ اس دوران بھٹو صاحب کا ملازم خاص نور محمد عرف نورا مغل دوڑتا ہوا آیا اور مسکراتے ہوئے مجھے مبارکباد دی اور بتایا کہ بھٹو صاحب نے غلام مصطفی کھر سے کہا کہ دنیا کا ہر انسان بے وفا ہو سکتا ہے لیکن یہ نوجوان کبھی بے وفائی نہیں کرے گا۔ میں اس نوجوان کی آنکھوں میں وفا دیکھ رہا ہوں۔ یہ بات وقت اور تاریخ ثابت کرے گی”۔ یہ بات بعدازاں فوٹو گرافر اور مصطفی کھر نے بھی بتائی۔”

وقت سدا ایک سا نہیں رہتا۔ بھٹو صاحب اقتدار سے ہٹا دیئے گئے اور ملک میں مارشل لاء نافذ ہوا تو اس وقت کی حکومت نے احتساب کا آغاز کر دیا اور غیر ملکی دوروں میں ملنے والے تحائف تک پر مقدمات قائم کر دیئے گئے۔ ایک قیمتی فانوس کو اپنے ذاتی گھر میں سجانے پر بھی مقدمہ بنا دیا گیا۔ یہاں بھی نور محمد نورا سمیت ذاتی ملازموں کو وعدہ معاف گواہ بنانے کی حتی المقدور کوشش کی گئی مگر کامیابی نہ ملی۔

4 اپریل 1979 کو ڈوالفقار علی بھٹو کو ٹختہ دار کے حوالے کر دیا گیا۔ جس کی آنکھوں کے آبرو کے اشارے نورا کے لئے لفظوں کا کام دیا کرتے تھے۔اب وہ دنیا سے آنکھیں موند کر منوں مٹی تلے جا سویا تھا۔ اس کے بعد نورا کی کوئی خبر نہ آئی۔ میڈیا بھی بھلا بیٹھا۔ پھر ایک دن نورا خبر بن گیا۔ ایک ایسی خبر جو وہ خود نہیں دے سکتا تھا۔اس کے اپنے مرنے کی خبر۔ خبر کے مطابق فیڈرل بی ایریا کراچی میں نصیر آباد پر واقع ایک فلیٹ میں نورا کی پر اسرار موت واقع ہوگی۔ کسی نے کچھ کہا تو کسی نے کچھ۔ اچھا ہوا وہ بھٹو صاحب کا ذاتی ملازم تھا، پڑھا لکھا نہیں تھا، پارٹی لیڈر نہیں تھا ورنہ جو کچھ اس کے سینے میں تھا اگر وہ اپنی سوانح عمری میں لکھ دیتا تو کتنے راز طشت از بام ہو جاتے، کتنے چہرے بے نقاب ہوجاتے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے صحیح کہا تھا:

“نورا ! انہیں بتاو پہاڑ روتے نہیں ہیں۔”

کوئی لاکھ اختلاف رکھے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخ کے صفحات پر ذوالفقار علی بھٹو کے خون کے چھینٹے تو ملیں گے مگر ندامت یا معافی کے لئے آنسو تو دور بات آنکھوں میں نمی نہ ملے گی۔

پہاڑ واقعی نہیں روتے مگر پہاڑ کے ساتھ کھڑے لوگ پھوٹ پھوٹ کر روتے ہیں۔ کوئی نور محمد نورا سے پوچھتا اگر وہ زندہ ہوتا۔

Address

Abdul Rehman Shaheed Road Gujrat
Gujrat
50700

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Live Pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share