16/10/2023
*یہ عام شہری نہیں حلف بردار یہودی ہیں*
(بقلم مفتی انورخان سرگروہ)
مؤرخہ: ۱۰/اکتوبر ۲۳۰۲
کچھ مضمون نویس انجانے میں یا جان بوجھ کر "غیرمربوط اشکال" پیدا کرتے ہیں اور ںےموقع "انسانی حقوق پر مبنی بحث" چھیڑ دیتے ہیں.
نصف صدی زائد عرصہ گزر گیا ہے اور فلسطین میں اسرائیلیوں کی آمد کا تانتا بندھا ہوا ہے،
شروعات میں وہ بمشکل پانچ فیصد زمین کے مالک تھے مگر آج وہ سارے فلسطین کے بلاشرکت غیرے مالک ہیں،
اگر حماس کی ہتھیاربند مزاحمت نہ ہوتی اور صرف یاسر عرفات کی "شانتی یاترائیں" ہوتیں تو باقی بچی کھچی زمینیں بھی اسرائیل کی نذر ہوجاتیں.
اور فلسطینیوں کی اراضی پر ظالمانہ قبضے کے معاملے میں اسرائیلی شہری برابر سرابر کے شریک ہیں،
بلکہ سازشوں میں پوری طرح سے ملوث ہیں.
اقبالؒ نے برطانویوں کے نوآبادیاتی نظام پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا:
"کلیسائی راہب یوں تو دنیا بیزاری دکھاوا کرتے ہیں مگر لوگوں کو غلام بنانے، ملکوں پر قبضہ کرنے اور ملکی وسائل کو لوٹنے کےلئے انگریز سپاہیوں کے ساتھ یہ بھی شانہ بہ شانہ جاپہنچتے ہیں اور انگریز کی عسکری جارحیت پر مذہبیت کا تڑکا لگاتے ہیں،
اسطرح لوٹ کھسوٹ میں وو دونوں یکساں رول ادا کرتے ہیں."
تھیوڈور ہرٹزل کی سربراہی اور روتھ چائلڈ کی سرمایہ کاری سے فلسطین کی جگہ "اسرائیل کے قیام" کا حلف اٹھایا گیا تھا،
اور دنیا بھر کے نظریاتی اسرائیلیوں نے ارضِ فلسطین پر "گریٹر اسرائیل" کی قسم کھائی ہے،
چنانچہ فلسطین میں قدم رکھنے والا ہر اسرائیلی شہری "نظریاتی" اور "حلفی سازش" کا حصہ ہے، جس کے تحت فلسطینیوں سے ان کی زمینیں چھین لی گئیں،
اور جب بھی نوآبادیاتی نظام کےلئے فلسطینی بستی پر بلڈوز چلادیا جاتا ہے تب اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ تماشا دیکھنے کے لئے اسرائیلی شہری بھی شریک ہوتے ہیں،
"پرامن پادریوں" کی طرح وہ بھی مقامی آبادی کو بےگھر ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور نسلی بےشرمی کےساتھ وہاں آباد ہوجاتے ہیں،
چنانچہ حلف اٹھانے، مشن پر اسرائیل روانہ ہونے اور جبراً دوسروں کی سرزمین بسنے والوں کو بھلا سویلین یا پرامن شہری کون کہےگا؟
ایسوں پر حماس کے راکٹ نہ گریں تو کیا آسمان سے "منّ وسلٌوی" نازل ہوگا؟