04/07/2025
افلا طون اپنے استاد سقراط کے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا آپ کا نوکر بازار میں کھڑے ہو کر آپ کے بارے میں ہرزہ سرائی کر رہا تھا‘ سقراط نے مسکرا کر پوچھا ’’ وہ کیا کہہ رہا تھا؟‘‘
افلاطون نے جذباتی لہجے میں جواب دیا ’’ آپ کے بارے میں کہہ رہ تھا…‘‘ سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کروایا اور کہا ’’
آپ یہ بات سنانے سے پہلے اسے تین کی کسوٹی پر رکھو‘ اس کا تجزیہ کرو اور اس کے بعد فیصلہ کرو کیا تمہیں یہ بات مجھے بتانی چاہیے۔
‘‘ افلاطون نے عرض کیا ’’ یا استاد تین کی کسوٹی کیا ہے‘‘؟
سقراط بولا ’’ کیا تمہیں یقین ہے تم مجھے جو بات بتانے لگے ہو یہ بات سو فیصد سچ ہے‘‘ افلاطون نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا۔
سقراط نے ہنس کر کہا ’’ پھر یہ بات بتانے کا تمہیں اور مجھے کیا فائدہ ہوگا‘‘ افلاطون خاموشی سے سقراط کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا‘ سقراط نے کہا ’’ یہ پہلی کسوٹی تھی‘
ہم اب دوسری کسوٹی کی طرف آتے ہیں۔ ’’مجھے تم جوبات بتانے لگے ہو کیا یہ اچھی بات ہے؟‘‘ افلاطون نے انکار میں سر ہلا کر جواب دیا ’’ جی نہیں یہ بری بات ہے‘‘ سقراط نے مسکرا کر کہا ’’ کیا تم یہ سمجھتے ہو تمہیں اپنے استاد کو بری بات بتانی چاہیے؟‘‘
افلاطون نے انکار میں سر ہلا دیا‘ سقراط بولا ’’گویا یہ بات دوسری کسوٹی پر بھی پورا نہیں اترتی‘‘ افلاطون خاموش رہا‘ سقراط نے ذرا سا رک کر کہا ’’
اور آخری کسوٹی‘ یہ بتائو وہ بات جو تم مجھے بتانے لگے ہو کیا یہ میرے لیے فائدہ مند ہے؟‘‘ افلاطون نے انکار میں سر ہلایا اور عرض کیا ’’ یا استاد یہ بات ہر گز ہرگز آپ کے لیے فائدہ مند نہیں‘‘ سقراط نے ہنس کر کہا ’’ اگر یہ بات میرے لیے فائدہ مند نہیں تو پھر اس کے بتانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
سقراط نے گفتگو کے یہ تین اصول آج سے چوبیس سو سال قبل وضع کر دیے تھے‘ سقراط کے تمام شاگرد اس پر عمل کرتے تھے‘ وہ گفتگو سے قبل بات کو تین کسوٹیوں پر پرکھتے تھے‘
کیا یہ بات سو فیصد درست ہے‘
کیا یہ بات اچھی ہے اور
کیا یہ بات سننے والوں کے لیے مفید ہے؟
اگر وہ بات تینوں کسوٹیوں پر پوری اترتی تھی تو وہ بے دھڑک بات کر دیتے تھے اور اگر وہ کسی کسوٹی پر پوری نہ اترتی یا پھر اس میں کوئی ایک عنصر کم ہوتا تو وہ خاموش ہو جاتے تھے‘
کاپیڈ