10/07/2025
انسان ہے کیا کچھ بھی نہیں تو بڑے بڑے دعوے باتیں کیوں
🕯️ "خوابوں کی چمک سے تنہائی کی خاموشی تک: حمیرا اصغر کی دردناک
موت کا معمہ"
اداکاری کی دنیا جگمگاتی روشنیوں سے بھری ہوتی ہے، لیکن اس کے پردے کے پیچھے ایک سنّاٹا چھپا ہوتا ہے۔ یہی سنّاٹا آخرکار اداکارہ و ماڈل حمیرا اصغر کی زندگی نگل گیا۔ ایک ایسی لڑکی جو کیمرے کے سامنے مسکراتی تھی، لیکن فلیٹ کے بند دروازے کے پیچھے تنہا، بے آواز موت مر گئی۔ اس کی موت صرف ایک خاتون فنکار کی موت نہیں، یہ ہمارے معاشرے کی بےحسی، تنہائی، اور شہرت کے پیچھے چھپے اندھیرے کا نوحہ ہے۔
حمیرا کی لاش ایک فلیٹ سے اُس وقت برآمد ہوئی جب اُنہیں مرے ہوئے اکیس دن گزر چکے تھے۔ پولیس اور میڈیکل رپورٹس کے مطابق لاش ایڈوانس ڈی کمپوزیشن میں تھی۔ مطلب یہ کہ جسم کے بیشتر ٹشوز گل سڑ چکے تھے، ہڈیوں کے سوا کچھ باقی نہ تھا۔ نہ کوئی چیخ، نہ آہ، نہ خبر، نہ کوئی قریبی دستک۔ صرف دیواریں تھیں جو ان کے سسکنے کی گواہ تھیں۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ سے انکشاف ہوا کہ حمیرا کی موت چھ ماہ قبل یعنی ممکنہ طور پر ستمبر 2024 کے آس پاس ہوئی۔ اسی ماہ ان کے موبائل سے آخری کال کی گئی، اور پھر خاموشی چھا گئی۔ ان کے فلیٹ کی بجلی اکتوبر 2024 میں بل کی عدم ادائیگی پر کاٹ دی گئی تھی، جبکہ آخری بل مئی 2024 میں جمع کرایا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ان مہینوں میں کسی نے ان کی خبر کیوں نہ لی؟
لاش کی حالت ایسی تھی کہ شناخت تقریباً ناممکن ہو چکی تھی۔ چہرہ مکمل بگڑ چکا تھا، جلد جگہ جگہ سے اُکھڑ چکی تھی، اور جسم کی رنگت سبز، سیاہی مائل یا براؤن ہو چکی تھی۔ نہ بدبو کی شدت باقی تھی، نہ زندگی کی کوئی نشانی۔ مکھیوں کے کیڑے بھی آخری مرحلے پر تھے، یعنی موت کو گزرے ہفتے نہیں، مہینے بیت چکے تھے۔
یہ وہ مقام تھا جہاں پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر بھی ذہنی اذیت سے گزرتے ہیں۔
کیا یہ ہے فلمی دنیا کا انجام؟
ایڈوانس ڈی کمپوزیشن کے مرحلے میں پوسٹ مارٹم ایک اذیت ناک، جذباتی اور سائنسی جنگ ہوتی ہے۔ ڈاکٹر لاش کی رنگت، بو، اور کیڑوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ جسم کے اندرونی اعضا اگر باقی ہوں تو اُن سے مدد لی جاتی ہے، ورنہ ہڈیاں، دانت، اور جسمانی مائع جات ٹیسٹ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ حمیرا کے معاملے میں، چونکہ جسم گل چکا تھا، زہریلے مادوں کے تجزیے (toxicology) اور ڈی این اے ہی واحد امید تھے۔ یہ عمل وہ آئینہ ہے جو موت کی حقیقت دکھاتا ہے۔
یہ صرف ایک لاش نہیں، ایک چیخ ہے… ایسی فنکارہ کی جو زندگی میں سب کو خوشی دیتی تھی، لیکن موت میں کوئی اس کے ساتھ نہ تھا۔ ان کے ورثا — والد، والدہ، ایک بہن اور دو بھائی — اب کراچی آ کر تدفین کریں گے، لیکن سوال یہ ہے کہ حمیرا کو اکیلے جینے اور مرنے پر کس نے مجبور کیا؟
کیا وہ صرف ایک ادھورا خواب تھیں؟
یا ہماری خود غرض دنیا کی وہ کہانی جس کا کوئی سننے والا نہیں؟
یہ واقعہ ایک یاددہانی ہے:
شہرت زندگی نہیں ہوتی، تنہائی موت بن جاتی ہے۔
اداکار، ماڈل، فلمی ستارے... یہ سب انسان ہوتے ہیں، لیکن ہم اُنہیں صرف اُس وقت یاد رکھتے ہیں جب وہ پردے پر ہوتے ہیں۔ جیسے ہی وہ سائے میں جاتے ہیں، وہ بھی ہماری یادداشت سے مٹ جاتے ہیں۔ حمیرا کی موت ہمیں جھنجھوڑتی ہے کہ ہم نے کتنے فنکاروں کو تنہا چھوڑا، جنہوں نے ساری عمر دوسروں کو خوش کرنے میں گزار دی، لیکن جب اُنہیں کسی کی ضرورت تھی، تو دروازہ کھولنے والا بھی کوئی نہ تھا۔
یہ صرف حمیرا کی کہانی نہیں، یہ فلمی دنیا کی کئی ادھوری کہانیوں کا المیہ ہے۔
روشنی کے پیچھے تنہائی، شہرت کے پیچھے خاموشی، اور ہنسی کے پیچھے آنسو چھپے ہوتے ہیں۔
💔 "فالورز کی بھیڑ میں تنہائی کی موت: حمیرا اصغر کا نوحہ"
کیا یہی ہے سوشل میڈیا کی زندگی؟ لاکھوں فالورز، ہزاروں لائیکس، دل بناتے کمنٹس… اور حقیقت میں موت کے کئی ماہ بعد تک کسی نے فون تک نہ کیا؟
نہ کسی نے پوچھا "حمیرا کیسی ہے؟"، نہ کسی نے سوچا "وہ زندہ بھی ہے یا مر چکی؟"
یہ آج کے دور کا سب سے بڑا المیہ ہے — جعلی تعلقات، جعلی ہمدردیاں، جعلی محبتیں۔
حقیقی رشتے خون سفید ہو چکے ہیں اور "آن لائن" دنیا میں دکھاوا اصل بن چکا ہے۔
حمیرا اصغر کے مرنے کے بعد بھی سوشل میڈیا پر ان کے فالورز کی گنتی ویسی ہی رہی، لیکن ان کے دروازے پر کسی نے دستک نہ دی، ان کا فون کئی ماہ تک بجا ہی نہیں۔
زندگی جینا آج سب سے مشکل اور مر جانا سب سے آسان ہو چکا ہے۔
اور افسوس! جب کوئی مر جائے تب ہی ہم "آخری پوسٹ"، "اداس آنکھیں"، اور "تنہائی" کے کیپشن تلاش کرتے ہیں۔
کیا موت ہی وہ واحد وقت ہے جب کوئی شخص "اصل میں" ہمیں یاد آتا