
27/06/2025
ایک ہی خاندان کے 15سےزائد افراد، جی ہاں، آج دریائے سوات کی بے رحم لہروں کی نذر ہو گئے، اور یہ سب کچھ ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا جو ایک گھنٹے سے زائد وقت تک ایک چھوٹے سے ٹیلے پر پھنسے، مدد کے منتظر رہے۔ مگر افسوس، آج ان کی قسمت میں جدائی لکھی تھی۔ یہ تصور بھی روح کو لرزا دیتا ہے کہ آخری لمحات میں ان پر کیا بیتی ہو گی۔
جن لوگوں کی زبان پر یہ سوال ہے کہ آخر یہ سیاح ایسی جگہوں پر جاتے ہی کیوں ہیں، انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انہی سیاحوں کی وجہ سے ہمارے شمالی علاقہ جات کی معیشت کا پہیہ گھومتا ہے۔ وہاں کے مقامی لوگوں کا روزگار، ان کا پورا نظام انہی سیاحوں کے دم سے چلتا ہے۔ لاکھوں خاندانوں کا چولہا انہی سیاحوں کی آمد سے جلتا ہے۔ اگر سیاح نہ جائیں تو وہاں غربت اور بھوک کا ایک نیا طوفان کھڑا ہو جائے۔ دکھ تو اصل میں ہماری حکومت پر ہوتا ہے، جو اتنے سالوں بعد بھی ان حسین مگر خطرناک علاقوں کو سیاحوں کے لیے محفوظ نہیں بنا سکی۔ مناسب انفراسٹرکچر، حفاظتی اقدامات اور فوری امداد کا نظام آج بھی ایک خواب ہے۔
یہ بات تو بجا ہے کہ قدرتی آفات کے سامنے انسان بے بس ہو جاتا ہے، لیکن جب یہ خاندان ایک گھنٹے سے زیادہ وقت تک پھنسا رہا، اور مدد کے لیے پکارتا رہا، تو کیا ہماری ریاست کے پاس ایک ہیلی کاپٹر بھی نہیں تھا جو ان کی جان بچانے پہنچ سکتا؟ کیا انسانی جانیں اتنی ارزاں ہیں کہ انہیں یوں بے بسی کے عالم میں موت کے منہ میں جاتے دیکھا جائے؟ یہ واقعہ صرف ایک حادثہ نہیں، یہ ہمارے نظام کی بے حسی اور لاپرواہی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ خدا کرے کہ یہ دلخراش سانحہ حکمرانوں کی آنکھیں کھول دے اور آئندہ ایسی ناگہانی آفت میں انسانی جانوں کو بچانے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کیے جائیں۔