11/12/2025
گلگت بلتستان ایک بار پھر منظم اور پلانٹڈ فرقہ واریت کی زد میں لایا جا رہا ہے، جو کسی بھی معاشرے کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ مختلف قوتیں معدنیات، وسائل اور سیاسی مفادات کی خاطر اس خطے کے امن کو داؤ پر لگا رہی ہیں۔ کبھی کسی مسلح گروہ کی طرف سے حساس اداروں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں، کبھی جبری گمشدگیاں اور جگہ جگہ دھرنے عوام کی زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں۔ “ایک ریاست، دو دستور” جیسے سوالات پہلے ہی لوگوں کو بے یقینی میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔
لیکن ان سب سے بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ فرقہ واریت کا زخم گلگت بلتستان پہلے ہی بہت گہرا بھگت چکا ہے۔ ماضی میں ہونے والے فسادات نے سینکڑوں گھروں کے چراغ بجھا دیے، ماؤں کی گودیں اجڑ گئیں، بہنوں کے ارمان خاک ہو گئے، نہ جانے کتنی خواتین بیوہ اور کتنے بچے یتیم ہوئے۔ یہ وہ درد ہے جو نہ شیعہ کا ہے نہ سنی کا یہ ہم سب کا سانجھا دکھ ہے۔
اب مزید نفرت، مزید تقسیم، مزید لاشیں اور مزید آنسو نہیں۔
گلگت بلتستان کے عوام کو چاہیے کہ ماضی کے زخموں سے سبق لے کر کسی بھی ایسے بیانیے، شخصیت یا گروہ کے بہکاوے میں نہ آئیں جو ہمیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرے۔ مسائل کا حل امن، قانون، بات چیت اور باہمی احترام میں ہے انتشار میں نہیں۔
یہ دھرتی ہم سب کی مشترکہ ماں ہے۔ آئیں، مل کر اس کے امن کی حفاظت کریں، تاکہ ہمارے بچوں کو ایک ایسا گلگت بلتستان ملے جہاں فرقہ نہیں، صرف انسانیت اور بھائی چارگی بسے۔
عباس میر