Media Max

Media Max Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Media Max, Digital creator, Hyderabad.

"چاہے کوئی آپ کو کتنا ہی اُکسائے، آپ اپنے رویے کے خود ذمہ دار ہیں۔پیچھے ہٹ جائیں، بحث سے انکار کریں، دور ہو جائیں، کمرہ ...
03/06/2025

"چاہے کوئی آپ کو کتنا ہی اُکسائے، آپ اپنے رویے کے خود ذمہ دار ہیں۔

پیچھے ہٹ جائیں، بحث سے انکار کریں، دور ہو جائیں، کمرہ چھوڑ دیں، نظر انداز کریں۔

جو بھی کرنا پڑے کریں جب کوئی آپ کو چبھتی ہوئی باتوں سے تنگ کر رہا ہو۔ خود کو یاد دلائیں کہ یہ اُن کا مسئلہ ہے۔

آپ اتنے اچھے ہیں کہ اُن کی فضول باتوں کو خود پر اثر انداز نہ ہونے دیں۔

اپنے آپ کو پرسکون کریں۔ لڑائی سے بچنے کے لیے جانا ہمیشہ بہتر ہوتا ہے۔

براہِ کرم اُنہیں خود کو اُن کے درجے تک گھسیٹنے نہ دیں۔"

ایک آدمی نے سالوں کی محنت سے پیسہ جوڑ جوڑ کر اپنی بیوی اور بچوں کے لیے ایک خوبصورت نیا گھر تعمیر کیا۔جب گھر مکمل ہوا تو ...
30/05/2025

ایک آدمی نے سالوں کی محنت سے پیسہ جوڑ جوڑ کر اپنی بیوی اور بچوں کے لیے ایک خوبصورت نیا گھر تعمیر کیا۔
جب گھر مکمل ہوا تو اس نے فیصلہ کیا کہ تین دن بعد اپنے اہل خانہ کے ساتھ نئے گھر میں شفٹ کرے گا۔

لیکن… شفٹنگ سے ایک دن پہلے رات میں زلزلہ آیا۔
وہ نیا، خوابوں جیسا گھر زمین بوس ہو گیا۔

اگلی صبح جب محلے والے، عزیز و اقارب افسوس کے لیے ملبے پر کھڑے تھے…
تو اچانک گھر کا مالک ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ لے کر پہنچا اور سب میں مٹھائی بانٹنے لگا۔

لوگ حیران رہ گئے!
ایک صاحب نے غصے سے پوچھا:

"کیا تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے؟
اتنا بڑا نقصان ہوا اور تم خوشیاں بانٹ رہے ہو؟"

گھر کے مالک نے مسکرا کر جواب دیا:

"نہیں...
میں تو اپنے رب کا شکر ادا کر رہا ہوں کہ زلزلہ ایک رات پہلے آیا۔
اگر میں اپنے بچوں کے ساتھ اس گھر میں ہوتا،
تو آج مٹھائی نہیں بانٹ رہا ہوتا بلکہ ملبے کے نیچے دفن ہوتا۔" 💔

زندگی میں ہمیشہ دو پہلو ہوتے ہیں:
✨ ایک شکایت کا
✨ دوسرا شکر کا

ہم کیا چنتے ہیں…
یہی ہماری سوچ اور ایمان کی پہچان ہے۔ 🤲

میرے پیچھے جو چاہو کہہ لو…لیکن رہو گے پیچھے، جیسے میں چاہتا ہوںیہ جملہ خوداعتمادی، وقار اور بے نیازی کی خوبصورت مثال ہے ...
28/05/2025

میرے پیچھے جو چاہو کہہ لو…
لیکن رہو گے پیچھے، جیسے میں چاہتا ہوں

یہ جملہ خوداعتمادی، وقار اور بے نیازی کی خوبصورت مثال ہے
لوگ باتیں کریں گے، الزام لگائیں گے، اپنی رائے دیں گے…
مگر جو آگے بڑھنا جانتا ہے، وہ پیچھے والوں کی آوازوں میں نہیں الجھتا
کیونکہ اصل طاقت یہ ہے کہ تمہیں کوئی روک نہ سکے
اور اصل جواب یہ ہے کہ تم اپنی جگہ پر قائم رہو،
اور دنیا کو ثابت کر دو کہ تمہارا راستہ تمہاری رفتار، اور تمہارا مقام… تمہارے اپنے فیصلے سے ہے، نہ کہ دوسروں کی باتوں سے

19/05/2025

ابو پچاس روپے ہیں
’’تم نے ابھی صبح تو ہزار روپے لیے تھے‘ اب دوبارہ مانگ رہے ہو‘‘ بزرگ نے حیرت سے پوچھا‘ دوست نے شرما کر جواب دیا ’’ابو اب چوہدری صاحب آ گئے ہیں‘ انھیں بھی کافی پلانی پڑے گی‘ صبح کے ہزار روپے صبح کے دوستوں پر خرچ ہو گئے‘‘۔

بزرگ نے جیب میں ہاتھ ڈالا‘ گن کر سو سو روپے کے دس نوٹ نکالے اور اس کے بعد لمبی دعا دی‘ ہم باہر آ گئے‘ کافی شاپ گھر سے ذرا سے فاصلے پر تھی‘ ہم پیدل چل پڑے‘ میں نے راستے میں دوست سے پوچھا ’’کیا تم اب بھی اپنے والد سے پیسے لیتے ہو؟‘‘ میرے دوست نے ہنس کر سر ہاں میں ہلایا اور بولا ’’بالکل میں روزانہ کئی مرتبہ والد صاحب سے پیسے لیتا ہوں‘کبھی پچاس روپے‘ کبھی سو روپے اور اگر تم جیسا کوئی معزز مہمان آ جائے تو پانچ سو اور ہزار روپے بھی لے لیتا ہوں‘‘۔

میں یہ سن کر حیران ہوا اور پھر پوچھا ’’آپ پچاس سال کی عمر میں والد سے پیسے لینے والے پہلے شخص ہو‘ اللہ نے آپ کو بہت کچھ دے رکھا ہے‘ آپ کے اپنے بچے بھی بڑے ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود والد سے روزانہ پیسے مانگنا مجھے منطق سمجھ نہیں آئی‘‘۔

میرا دوست مسکرایا‘ رکا‘ اپنا دایاں ہاتھ نیچے رکھا اور بایاں اس کے اوپر رکھ کر بولا ’’آپ بتاؤ ہمارے دو ہاتھ ہیں‘ ایک نیچے والا ہاتھ جسے ہم لینے والا ہاتھ کہتے ہیں اور دوسرا اوپر والا ہاتھ ہے جسے ہم دینے والا ہاتھ کہتے ہیں‘ ان دونوں میں سے افضل کون سا ہے؟‘‘۔

میں نے فوراً جواب دیا ’’اوپر والا یعنی دینے والا ہاتھ‘‘ اس نے مسکرا کر دیکھا اور پھر پوچھا ’’آپ اب ذرا فرض کرو آپ پوری زندگی اوپر والا ہاتھ رہے ہو‘ آپ نے عمر بھر اپنی اولاد اور دائیں بائیں موجود لوگوں کو صرف دیا ہو لیکن پھر اچانک آپ نیچے والا ہاتھ بن جائیں اور آپ کو معمولی معمولی ضرورت کے لیے دوسروں کی طرف دیکھنا پڑے تو پھر آپ کی فیلنگ کیا ہو گی؟‘‘ میں نے ذرا سا سوچ کر کہا ’’آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں‘ انسان اپنے آپ کو کمتر اور محتاج سمجھے گا‘‘۔

وہ مسکرایا اور پھر بولا ’’بالکل صحیح میرے والد پوری زندگی اوپر والا ہاتھ رہے‘ ہم جوانی تک ان سے مانگتے تھے‘ جوتے لینے ہوں یا کپڑے یا پھر مہمان ہوں ہم ابو سے پیسے مانگ کر اپنا خرچ چلاتے تھے‘ ابو ہمارا واحد سورس آف انکم تھے لیکن پھر ہم معاشی طور پر آزاد ہوتے چلے گئے اور والد کے سورس آف انکم کم ہوتے چلے گئے۔

ابو نے پوری زندگی کسی سے مانگا نہیں تھا‘ میں نے دیکھا یہ مجھ سے بھی نہیں مانگتے تھے‘ ان کی جیب مہینہ مہینہ خالی رہتی تھی‘ جوتے اور کپڑے بھی پرانے ہو جاتے تھے اور اگر ان کو دوا کی ضرورت پڑتی تھی تو بھی یہ خاموش رہتے تھے‘ میں شروع شروع میں اس رویے پر غصہ کرتا تھا۔

میرا خیال تھا والدین کا اپنی اولاد کی دولت پر حق ہوتا ہے لیکن مجھے اندازہ ہی نہیں تھا اوپر والا ہاتھ کبھی نیچے نہیں آ سکتا اور اگر اسے کبھی آنا پڑجائے تو اس کے لیے مر مٹنے کا مقام ہوتا ہے‘ میرے والد خود کو محتاج سمجھنے لگے تھے اور آہستہ آہستہ کمرے تک محدود ہو گئے تھے۔

میرا خیال تھا یہ بڑھاپے کی وجہ سے ہو رہا ہے‘ والد کی عمر 75 سال ہو چکی ہے‘ یہ علیل بھی رہنے لگے ہیں چناں چہ یہ ایکٹو لائف سے نکل رہے ہیں لیکن پھر میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا‘ میرا بیٹا 17 سال کا تھا‘ اس نے اچانک مجھ سے پیسے لینا بند کر دیے۔

میں نے تحقیق کی تو پتا چلا یہ تعلیم کے ساتھ ساتھ آن لائین کام کرتا ہے اور اسے اس سے ٹھیک ٹھاک آمدنی ہو جاتی ہے چنانچہ اب اسے جیب خرچ کی ضرورت نہیں رہتی‘ یہ ماں اور اپنی بہنوں کوبھی پیسے دینے لگا۔

آپ یقین کریں مجھے برا لگا اور میں خود کو غیر ضروری اور محتاج سا محسوس کرنے لگا‘ مجھے اس وقت سمجھ آئی اوپروالا ہاتھ جب نیچے والا بنتا ہے تو اسے کتنی تکلیف ہوتی ہے‘ مجھے اس وقت اپنے والد کی تکلیف کا اندازہ ہوا‘ میں سیدھا ان کے پاس گیا اور بچپن کی طرح ان سے پوچھا‘ ابو کیا آپ کے پاس پچاس روپے ہیں۔

میرے والد اس وقت اداس بیٹھے تھے‘ آپ یقین کریں یہ الفاظ ان کے کانوں سے ٹکرانے کی دیر تھی‘ ان کے جسم میں توانائی آ گئی‘ یہ سیدھے ہو کر بیٹھے‘ بے اختیار جیب میں ہاتھ ڈالا اور 50 روپے نکال کر میرے ہاتھ پر رکھ دیے‘ مجھے پچاس روپے دینے کے بعد ان کی باڈی لینگوئج ہی بدل گئی‘ یہ چہکنے لگے۔

بس وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں اپنے والد سے روزانہ ایک دو مرتبہ پیسے مانگتا ہوں‘ میں ان سے باہر جانے سے قبل اجازت بھی لیتا ہوں‘ یہ شروع میں انکار کرتے ہیں‘ حالات کی خرابی کا شکوہ کرتے ہیں‘ احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں اور اس کے بعد مجھے جانے کی اجازت دے دیتے ہیں‘ اس سے میرے ان کے ساتھ تعلقات بھی اچھے ہو گئے ہیں اور یہ خوش بھی ہیں‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔

میں نے اس سے پوچھا ’’لیکن تم والد کو پیسے کیسے دیتے ہو؟ ان کا سورس آف انکم تو کوئی نہیں‘‘ وہ ہنس کر بولا ’’میں نے اپنی تنخواہ کا آدھا حصہ ان کے نام ٹرانسفر کر دیا ہے‘ یہ رقم سیدھی ان کے اکاؤنٹ میں آتی ہے‘ چیک بک بھی ان کے پاس ہے‘ یہ رقم نکلواتے ہیں اور اپنی جیب اور الماری میں رکھ لیتے ہیں اور وہاں سے نکال نکال کر مجھے دیتے رہتے ہیں۔

میں نے سبزی اور فروٹ کی ذمے داری بھی ان کو سونپ دی ہے‘ ملازمین ان سے پیسے لیتے ہیں اور فروٹ اور سبزی خرید کر کچن میں دیتے ہیں‘ دودھ اور گوشت بھی ابو کی ڈیوٹی ہے‘ یہ خود دودھ خریدتے ہیں‘ دودھی کو ’’پے منٹ‘‘ بھی کرتے ہیں‘ گوشت کی دکان سے بھی انھی کا رابطہ ہے‘ جس دن قصاب کے پاس اچھا گوشت ہوتا ہے یہ ابو کو فون کر کے بتا دیتا ہے اور ابو جی خوش ہو جاتے ہیں۔

میں کپڑے بھی ان کی مرضی کے خریدتا ہوں اور اگر آپ جیسے دوست آ جائیں تو ان سے پیسے مانگ کر انھیں چائے کافی بھی پلاتا ہوں‘ اس سے میرے والد کی صحت بھی اچھی ہو گئی اور ہمارے تعلقات بھی‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ میں نے اس سے عرض کیا ’’آپ یہ بھی دیکھیں آپ کو یہ حقیقت اس وقت پتا چلی جب آپکا اپنا بیٹا خود مختار ہوا اور آپ نے خود کو نیچے والا ہاتھ محسوس کیا‘‘ اس نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

میں نے عرض کیا ’’ہم سب کی یہی ٹریجڈی ہے‘ ہمیں زندگی کی حقیقتوں کا ادراک اس وقت ہوتا ہے جب وقت کا پہیہ گھوم کر ہمارے

بس اک خُدا نہیں ہوتی💖ورنہ ماں کیا نہیں ہوتی💖خود غرضی سے بھری اِس دنیا میں  ماں سے بڑھ کر کوئی بھی آپ کا خیرخواہ ہو ہی نہ...
16/05/2025

بس اک خُدا نہیں ہوتی💖
ورنہ ماں کیا نہیں ہوتی💖

خود غرضی سے بھری اِس دنیا میں ماں سے بڑھ کر کوئی بھی آپ کا خیرخواہ ہو ہی نہیں سکتا اور جیسا آپ کی ماں آپ کیلئے چاہتی ہے ایسا کوئی چاہ ہی نہیں سکتا۔ سب دل وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں سوائے ماں کے دل کے جو ایک مستقل جنّت ہے...!!!!!

اللہ تعالیٰ ہم سب کی ماؤں کو سلامت رکھے جن کی مائیں حیات ہیں ان کو صحت و سلامتی کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے اـᷟـــ

11/05/2025

تم اس زمین پر زیادہ سے زیادہ ستر سال ہی جیو گے،
اور ممکن ہے کہ موت تمہیں اچانک اس عمر سے پہلے ہی لے جائے،
تو پھر تم خود کو کیوں غم، درد، لوگوں کے خوف اور مستقبل کی فکریں دے کر ہلاک کرتے ہو؟
اور کیوں ایک ایسے نظام کو درست کرنے کی کوشش میں لگے ہو،
جس میں تم صرف چند سال ہی رہنے والے ہو؟

— فیوڈور دوستوفسکی

کم ظرف لوگ اور پطرس بخاری پطرس بخاری کو کالج کا چوکیدار پیٹھ پیچھے گالیاں دیتا تھا۔ ایک دن ساتھی پروفیسر نے پطرس سے کہا ...
10/05/2025

کم ظرف لوگ اور پطرس بخاری
پطرس بخاری کو کالج کا چوکیدار پیٹھ پیچھے گالیاں دیتا تھا۔ ایک دن ساتھی پروفیسر نے پطرس سے کہا کہ چوکیدارکہتا ھے پطرس میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اس پہ پطرس بخاری نے تاریخی جواب دیا۔
"کہ وہ بلکل سچ کہتا ھے اسکے پاس نہ شہرت ہے، نہ عزت ھے اور نہ ہی غیرت اب میں اسکا کیا بگاڑ سکتا ہوں۔

ہم سب کی زندگی میں کچھ ایسے گِرے ہوئے کردار ضرور آتے ہیں جن کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔
اور وہ اپنا آپ دکھا کر یہ سوچتے ہیں کہ وہ بہت بڑی توپ چیز ہی‍ں جنکا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا.

ایسے کمظرف لوگوں کو جواب دیکر ان جیسے بننے کی کوشش مت کریں. وہ بلکل ٹھیک سوچتے ہیں۔

*کتا اور گدھا*ایک کسان کے پاس ایک کتا اور ایک گدھا تھا۔ کتا ہمیشہ کسان کے دروازے پر پہرہ دیتا، اور اگر کوئی اجنبی آتا تو...
06/05/2025

*کتا اور گدھا*
ایک کسان کے پاس ایک کتا اور ایک گدھا تھا۔ کتا ہمیشہ کسان کے دروازے پر پہرہ دیتا، اور اگر کوئی اجنبی آتا تو زور زور سے بھونک کر کسان کو خبردار کر دیتا۔ دوسری طرف، گدھا کھیت میں بوجھ اٹھانے کا کام کرتا اور کسان کے لیے وزنی چیزیں لے کر جاتا۔

ایک رات کسان اپنے گھر میں سو رہا تھا کہ اچانک چور آ گیا۔ چور نے دروازے کے پاس آ کر ادھر اُدھر دیکھنا شروع کیا۔ کتا سب کچھ دیکھ رہا تھا، مگر خاموش بیٹھا رہا۔ گدھے نے حیران ہو کر پوچھا:

"تم کیوں نہیں بھونک رہے؟ چور آیا ہے!"

کتا سست روی سے بولا:
"یہ کسان مجھے کھانے کو کم دیتا ہے، مجھے پیار بھی نہیں کرتا، پھر میں کیوں اس کی مدد کروں؟"
یہ سن کر گدھا بہت پریشان ہوا۔ اس نے سوچا کہ اگر چور کسان کا سارا سامان لے گیا تو گھر برباد ہو جائے گا۔ چنانچہ گدھے نے زور زور سے رینکنا (آواز نکالنا) شروع کر دیا تاکہ کسان جاگ جائے۔
گدھے کی آواز سن کر کسان غصے میں جاگ گیا۔ اسے لگا کہ گدھا بغیر کسی وجہ کے شور مچا رہا ہے، اس لیے کسان نے آ کر گدھے کو ڈنڈے مارے اور اسے خاموش کرا دیا۔
دوسری طرف، چور یہ دیکھ کر ڈر گیا اور بھاگ گیا۔
۔۔۔۔اگلی صبح۔۔۔
جب کسان صبح جاگا، تو اس نے کتے کو پیار کیا اور گوشت کھلایا، جبکہ گدھا خاموشی سے اپنے کونے میں بیٹھا رہا۔ گدھے نے دل میں سوچا:
"کبھی دوسروں کی ذمہ داری خود نہیں اٹھانی چاہیے، ورنہ نقصان اپنا ہی ہوتا ہے!"
سبق'"
ہر کام کا ایک ذمہ دار ہوتا ہے، ہمیں اپنی حد سے زیادہ مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
بعض اوقات نیکی کرنے پر بھی لوگ اسے سمجھ نہیں پاتے اور الٹا نقصان کر دیتے ہیں اس لیے سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیں۔

جب آپ اپنی زندگی کی ہر تفصیل اپنے دوستوں کو بتانا بند کردیتے ہیں، تو آپ کے دشمن معلومات سے محروم ہوجاتے ہیں۔کوئی افواہیں...
05/05/2025

جب آپ اپنی زندگی کی ہر تفصیل اپنے دوستوں کو بتانا بند کردیتے ہیں، تو آپ کے دشمن معلومات سے محروم ہوجاتے ہیں۔

کوئی افواہیں نہیں پھیلتی۔

آپ کے فیصلوں کا مذاق نہیں اُڑایا جاتا۔

تمام لوگ جنہیں آپ اپنے دوست سمجھتے ہیں، دراصل وہ آپ کے دوست نہیں ہوتے۔

کچھ لوگ آپ کے دشمنوں کو معلومات فراہم کرنے کے لیے صرف آپ کے ساتھ ہیں۔

یہ احتیاط کریں کہ آپ کس کو اپنا دوست کہتے ہیں کیونکہ دنیا کے سب سے خوفناک دشمن وہ لوگ ہوتے ہیں جو آپ کے دوست بن کر آپ کے ساتھ جُڑے ہوتے ہیں۔

پرائیویسی طاقت ہے، جو لوگ نہیں جانتے، وہ آپ کی زندگی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔

اپنے بچوں کا انتظار ماں کی تقدیر  میں ہوتا ہے۔تمھیں ان کا انتظار اس وقت کرنا پڑتا ہے جب وہ تمہارے بطن میں ہوتے ہیں۔تم ان...
26/04/2025

اپنے بچوں کا انتظار ماں کی تقدیر میں ہوتا ہے۔
تمھیں ان کا انتظار اس وقت کرنا پڑتا ہے جب وہ تمہارے بطن میں ہوتے ہیں۔
تم ان کا انتظار کرتی ہو جب وہ سکول سے لوٹتے ہیں۔
تم ان کا انتظار کرتی ہو جب وہ رات دیر سے گھر آتے ہیں۔
تم ان کا انتظار کرتی ہو جب وہ اپنی زندگی کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں۔
تم ان کا انتظار کرتی ہو جب وہ کام سے واپس آ کر ایک گرم گرم کھانے کی امید رکھتے ہیں۔
تم ان کا انتظار محبت سے کرتی ہو، اضطراب سے کرتی ہو، اور بعض اوقات غصے سے بھی،
مگر وہ غصہ اسی لمحے ختم ہو جاتا ہے جب تم انھیں اپنے سامنے پا کر گلے لگا لیتی ہو۔
ایسا مت ہونے دو کہ تمہاری ضعیف ماں مزید انتظار کرتی رہے۔
اسے فون کرو، اس سے ملو، اسے محبت دو، گلے لگاؤ،
اس ہستی کو جس نے تمہیں اس طرح چاہا ہے جیسے کوئی اور نہیں چاہ سکتا۔
اسے انتظار میں مت رکھو، وہ تمہاری راہ تک رہی ہے۔
کیونکہ جسم کمزور ہو جاتا ہے، جھریاں پڑ جاتی ہیں، مگر ایک ماں کا دل کبھی بوڑھا نہیں ہوتا۔
جتنا ہو سکے، اپنی ماں سے محبت کرو،
کیونکہ دنیا میں تم سے بے غرض محبت کرنے والا کوئی دوسرا نہیں ہوگا۔
اپنی ماں کو منتظر مت رکھو،
جتنا ہو سکے، اس سے محبت کرو۔

❣️❣️❣️

لمبی زندگی کا صرف ایک راز. خوشیٹریڈمل (چلنے کی مشین) بنانے والا شخص 54 سال کی عمر میں فوت ہو گیاجمناسٹک کھیل شروع کرنے و...
11/04/2025

لمبی زندگی کا صرف ایک راز. خوشی
ٹریڈمل (چلنے کی مشین) بنانے والا شخص 54 سال کی عمر میں فوت ہو گیا
جمناسٹک کھیل شروع کرنے والا شخص 57 سال کی عمر میں دنیا سے چلا گیا
دنیا کا مشہور باڈی بلڈر 41 سال کی عمر میں فوت ہو گیا
فٹبال کا بڑا کھلاڑی ماراڈونا 60 سال کی عمر میں چل بسا

امریکہ میں دوڑ لگانے کا شوق لوگوں میں پیدا کرنے والا James Fixx بھی دوڑتے ہوئے دل کا دورہ پڑنے سے 52 سال کی عمر میں فوت ہو گیا

اب ذرا دوسری طرف دیکھیے

نٹیلا چاکلیٹ بنانے والا آدمی 88 سال جیا
سگریٹ بنانے والا 102 سال تک زندہ رہا
افیون بنانے والا آدمی 116 سال تک جیتا رہا

خرگوش دن رات اچھلتا ہے، لیکن صرف دو سال تک جیتا ہے
جبکہ کچھوا جو کچھ نہیں کرتا 400 سال تک جیتا ہے

اس لیے پریشان مت ہو آرام سے جیو
جو دل چاہے کھاؤ پیو خوش رہو
کیونکہ زندگی اور موت صرف اللہ کے ہاتھ میں ھے

"جب میں گدھے کے پاس بیٹھا، تو میرے سامنے سچائی بیٹھ گئی!"میری ملاقات ایک گدھے سے: حکمت، آزمائش اور محبت کی گفتگو!ایک عام...
08/04/2025

"جب میں گدھے کے پاس بیٹھا، تو میرے سامنے سچائی بیٹھ گئی!"

میری ملاقات ایک گدھے سے: حکمت، آزمائش اور محبت کی گفتگو!

ایک عام سا دن تھا، جب میں نے شہر کے شور و غُل سے فرار کا فیصلہ کیا۔
نہ سیاستدانوں کی چیخ و پکار سننی تھی،
نہ دکھاوے کی نصیحتیں،
نہ تجزیہ نگاروں کے لمبے لیکچر،
اور نہ اُن لوگوں کا فریب جو خود کو دانا ظاہر کرتے ہیں۔
میں کچھ سچ تلاش کر رہا تھا، چاہے ایک لمحے کے لیے ہی سہی۔

میں ایک پُرسکون کھیت میں جا پہنچا،
وہاں ایک گدھا درخت سے بندھا ہوا تھا۔
میں اُس کے قریب گیا،
نہ جانے کیوں، اُس کی آنکھوں میں کوئی ایسی خاموش دعوت تھی، جو مجھے کھینچ لائی۔

میں ایک قریبی پتھر پر بیٹھ گیا اور کہا:
"اے دوست، لوگ تم پر ہنستے ہیں، کہتے ہیں کہ تم بےوقوف ہو۔ کیا واقعی ایسا ہے؟"

وہ دیر تک میری طرف دیکھتا رہا،
پھر آہستگی سے سر ہلایا، جیسے مسکرا رہا ہو،
اور کہا:
"میں نے کبھی عقل مند ہونے کا دعویٰ نہیں کیا،
لیکن میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا،
نہ کسی سے دغا کی، نہ کسی کو نقصان پہنچایا۔
تو کیا بےوقوفی یہ ہے کہ میں جیسا ہوں ویسا ہی رہوں؟
یا یہ کہ دو چہرے رکھوں اور وہ دکھاؤں جو میں نہیں ہوں؟"

میں نے کہا:
"لیکن لوگ تمہیں بےکار سمجھتے ہیں،
بس ایک بوجھ اٹھانے کا ذریعہ!"

اس نے خاموشی میں گہری دانائی سے جواب دیا:
"میں کم بولتا ہوں، مگر بہت کچھ اٹھاتا ہوں،
اور وہ بہت بولتے ہیں، لیکن کچھ نہیں اٹھاتے۔"

میں نے پوچھا:
"کیا تم تھکتے نہیں؟
اس خاموشی سے؟
اس آزمائش سے؟"

اس نے سر ہلایا اور کہا:
"تھکن زندگی کا حصہ ہے،
لیکن وہ مجھے نہیں توڑتی،
آزمائش اُسے نہیں مارتی جو اُسے قبول کر لیتا ہے،
بلکہ اُسے مارتے ہیں جو جھوٹ کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں۔
مجھے آزمائش ملی خاموشی کی، بوجھ اٹھانے کی،
لیکن نہ دغا کی، نہ لالچ کی،
یہی میری تسلی ہے۔"

میں نے پوچھا:
"تو زندگی کے بارے میں کیا رائے ہے؟"

کہنے لگا:
"زندگی آسان نہیں،
مگر اس کی سختی انسان کو درندہ بننے کا جواز نہیں دیتی۔
میں گدھا ہوں،
نہ کبھی کسی کو پھاڑا،
نہ دھوکہ دیا،
نہ کسی منصب کی دوڑ میں شامل ہوا،
نہ کسی سے نفرت رکھی۔"

میں اُس کی باتوں میں گم ہو گیا،
اور مجھے کئی چہرے یاد آئے:
ایک مذہبی شخص، جو عاجزی کی بات کرتا ہے،
مگر تنقید برداشت نہیں کر سکتا۔
ایک سیاستدان، جو عوام کے نام پر چیختا ہے،
مگر اُنہی کی دولت لوٹتا ہے۔
ایک نوجوان، جو گدھے کا مذاق اُڑاتا ہے،
مگر خود نہیں جانتا کہ وہ کون ہے،
اور جا کہاں رہا ہے۔

میں نے پوچھا:
"کیا تم نے کبھی محبت کی ہے؟"

وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا:
"بہت محبت کی،
اس زمین سے جس پر میں چلتا ہوں،
اُن لوگوں سے جو میرے ساتھ سختی کے بعد بھی مجھے معاف کر دیتے ہیں،
اُن سادہ دلوں سے جو مجھے پانی دیتے ہیں،
بغیر یہ پوچھے کہ میرا نسب کیا ہے۔
محبت، وہ نہیں جو تمہارے گانوں میں ہے،
محبت یہ ہے کہ تم وفادار رہو،
چاہے تمہیں بھلا دیا جائے،
نرم لہجے میں بات کرو،
چاہے لوگ تمہیں غلط سمجھیں۔"

میں نے کہا:
"کیا تم کبھی کچھ اور بننے کی خواہش رکھتے ہو؟"

کہا:
"اگر مجھے اختیار دیا جائے،
تو میں یہی رہنا پسند کروں گا۔
مجھے انسانوں کی وہ نظریں پسند نہیں جو صرف ظاہر دیکھتی ہیں،
اور حقیقت کو بھول جاتی ہیں۔
نہ اُن کی وہ لڑائیاں پسند ہیں،
جو ایک لفظ سے شروع ہو کر خون بہانے تک پہنچتی ہیں۔
میں گدھا ہوں،
نہ چہرہ بدلتا ہوں، نہ زبان، نہ موقف۔
اور جو مجھے جانتا ہے،
وہ مجھے پوری طرح جانتا ہے۔"

میں خاموش ہو گیا،
میرے پاس کہنے کو کچھ نہ رہا۔

پھر وہ میری طرف دیکھ کر بولا:
"یاد رکھو،
مجھ سے یہ نہ پوچھو کہ میں گدھا کیوں پیدا ہوا،
بلکہ خود سے یہ سوال کرو:
تم انسان کیوں نہیں رہے؟"

میں اُٹھا اور جانے لگا،
تو اُس نے کہا:
"تم سچ تلاش کر رہے ہو،
اور بعض اوقات،
یہ سچ تمہیں وہاں ملتا ہے جہاں تم نے کبھی گمان بھی نہ کیا ہو۔
کسی پتھر میں،
کسی فقیر میں،
یا، کسی گدھے میں۔"

میں اُس کی طرف دیر تک دیکھتا رہا،
پھر ادب سے جھکا، اور چل پڑا۔
اور میرے اندر ایک احساس جاگ اٹھا،
کہ میں گدھے سے نہیں ملا،
بلکہ ایک زندہ ضمیر سے ملاقات ہوئی،
جس نے مجھے وہ سکھایا جو شاید پوری زندگی نہ سکھا سکی۔

Address

Hyderabad
71000

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Media Max posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share