IsaKhel News

IsaKhel News On Isa Khel News عیسی خیل نیوز Page You can Find the latest breaking isakhel news and i IsaKhel News عیسیٰ خیل نیوز

ہائے یہ پردیس کے دکھ 😢---------------------ویکھ نی ماں میں بدل گیا واں 😥روٹی ٹھنڈی کھا لیندا واںگندے کپڑے پا لیندا واں 💯...
06/11/2025

ہائے یہ پردیس کے دکھ 😢
---------------------
ویکھ نی ماں میں بدل گیا واں 😥

روٹی ٹھنڈی کھا لیندا واں
گندے کپڑے پا لیندا واں 💯

غصہ سارا پی جاندا واں
ہر دکھ تے لب سی لیندا واں 🤐

ساریاں گلاں جر لیندا واں
ٹھنڈا ہوکا بھر لیندا واں 🌺

پر کسے نوں کجھ نئیں دسدا
ہر ویلے میں ریہندا ہسدا 💕

اندر جھاتی کوئی نا پاوے
دکھ تیرا مینوں کھائی جاوے 💯

تیرے باجھ مینوں کوئی نا پُچھدا
ہن تے میں کسے نال نئیں رُسدا 💔

ویکھ نی ماں میں بدل گیا واں 🌺

شاکر شجاع آبادی ❤️ جیویں   میکوں    آن    رُوایا    ہئی""توں وی میں وانگوں پل پل روسیں"    "اِک   واری   رو  کے  تھک باہ...
01/11/2025

شاکر شجاع آبادی ❤️
جیویں میکوں آن رُوایا ہئی"
"توں وی میں وانگوں پل پل روسیں"
"اِک واری رو کے تھک باہسیں"
"ول دل ڈُکھسیا توںں وَل روسیں"
"نہ ڈُکھڑے آن ونڈیسیا کوئی"
"توں لا کندھیاں کُوں گل روسیں"
"بس شاکر فرق میعاد دا ہے"
"میں اج رونداں تُوں کل روسیں"
شاکر شجاع آبادی
سرائیکی ڈوہڑہ
سرائیکی ڈوہڑے
سرائیکی شاعری
Shakir Shuja abadi
Dr. Shakir Shuja abadi
Saraiki Dohry
Saraiki Dohray
Saraiki poetry
#شاکرشجاع #سرائیکی

شاکر شجاع آبادی ❤️ رات کوں چندر تے تارے پچھدین؟؟ول   ول   تیڈے   بارے  پچھدین؟؟کیوے  آ کھا  رُس  گئے  میں توں؟؟سنگتی  سا...
28/10/2025

شاکر شجاع آبادی ❤️
رات کوں چندر تے تارے پچھدین؟؟
ول ول تیڈے بارے پچھدین؟؟
کیوے آ کھا رُس گئے میں توں؟؟
سنگتی ساتھی سارے پچھدین؟؟
کن تے. گئے بھیوال ہاں تیڈا؟؟
کھل کھل مار ٹھکارے پچھدین؟؟
واہ جو وعدے توڑ نبھائی نی؟؟
لوکیں مار کے نارے پچھدین؟؟
نیر آنکھیں توں کیوں نی رکدے؟؟
سجنڑ میڈے پیارے پچھدین؟؟
ڈس ہاں شاکر کون پیا ویندے؟؟
کر کے غیر اشارے پچھدین؟
شاکر شجاع آبادی
سرائیکی ڈوہڑہ
سرائیکی ڈوہڑے
سرائیکی شاعری
Shakir Shuja abadi
Dr. Shakir Shuja abadi
Saraiki Dohry
Saraiki Dohray
Saraiki poetry
#شاکرشجاع #سرائیکی

کبھی کبھی زہر دینے والے نقصان نہیں کرتے، بلکہ مرہم رکھنے والے مار دیتے ہیں۔ سانپ ڈستا ہے، تو زہر جسم میں جاتا ہے — مگر "...
24/10/2025

کبھی کبھی زہر دینے والے نقصان نہیں کرتے، بلکہ مرہم رکھنے والے مار دیتے ہیں۔ سانپ ڈستا ہے، تو زہر جسم میں جاتا ہے — مگر "ہمدرد" جب ڈستا ہے تو زہر روح میں اتر جاتا ہے۔ سانپ کا وار دکھائی دیتا ہے، اس کا نشان رہتا ہے، لیکن ہمدرد کا وار خاموش ہوتا ہے، اور جب تک سمجھ آتی ہے، انسان اندر سے ختم ہو چکا ہوتا ہے۔

زندگی میں ہمیں دشمن سے نہیں، ہمدرد سے ڈرنا چاہیے۔ دشمن کھلے عام مخالفت کرتا ہے، اس کے تیور پہچانے جاتے ہیں، مگر ہمدرد ہمیشہ مسکراہٹ اوڑھے ہوتا ہے۔ وہ آپ کو تسلی دیتا ہے، آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہے، اور پھر اسی ہاتھ سے آپ کی کمر میں خنجر گھونپ دیتا ہے۔

انسان کو نقصان دینے والا دشمن نہیں ہوتا، بلکہ وہ ہوتا ہے جو محبت، وفاداری یا مشورے کے پردے میں زہر گھول دے۔ جو آپ کے سامنے آپ کی ہاں میں ہاں ملاتا رہے، مگر پیچھے جا کر آپ کے اعتماد کو بیچ آئے۔

زندگی کا سبق یہ ہے کہ "سانپ" صرف ایک بار ڈستا ہے، مگر "ہمدرد" بار بار۔ سانپ سے زہر نکالنا ممکن ہے، مگر ہمدرد کے زہر کا کوئی تریاق نہیں۔ سانپ سے فاصلہ رکھنا آسان ہے، مگر ہمدرد کو پہچاننا مشکل۔

اس لیے بہتر ہے کہ دشمنوں کے بیچ زندہ رہو — کم از کم وہ وار کرنے سے پہلے پھن پھیلاتے ہیں۔ ہمدرد تو مسکرا کر مارتا ہے، اور مرنے والا آخری لمحے تک سمجھ نہیں پاتا کہ قاتل کون ہے۔

زندگی کا اصل خطرہ دشمن نہیں، وہ "دوست" ہے جو آپ کی کمزوری جانتا ہے، آپ کے راز جانتا ہے، اور وقت آنے پر انہی رازوں کو زخم بنا دیتا ہے۔

سانپوں سے بچنا آسان ہے، وہ رینگتے ہیں، سرکتے ہیں، ان کا زہر پہچانا جاتا ہے۔ مگر ہمدرد… وہ تو گلے لگ کر کاٹتا ہے۔
اس لیے — سانپوں کی خیر ہے، ہمدردوں سے بچو۔

19 نومبر 1969 کو حاجی غلام رسول خان شادی خیل مرحوم نے اس بس کے ذریعے شادی خیل ٹرانسپورٹ کمپنی نے میانوالی سے ملتان بس سر...
21/10/2025

19 نومبر 1969 کو حاجی غلام رسول خان شادی خیل مرحوم نے اس بس کے ذریعے شادی خیل ٹرانسپورٹ کمپنی نے میانوالی سے ملتان بس سروس کا آغاز کیا تھا۔

‏شاکر شجاع آبادی ❤️ تئیں ڈھول روواۓ میں رو پئ آں ، ہک رات تے بھانویں سال رنیمیں آپ رنی رخسار رنے ، میڈی ہر ڈسکی میڈے نال...
20/10/2025

‏شاکر شجاع آبادی ❤️

تئیں ڈھول روواۓ میں رو پئ آں ، ہک رات تے بھانویں سال رنی
میں آپ رنی رخسار رنے ، میڈی ہر ڈسکی میڈے نال رنی
میں اولے_گھن گھن روندی رہی ، میں مونہہ تے سٹ سٹ وال رنی
پچھ "شاکر" حال اے چنری توں ، جیڑھی بنڑ میڈی بھائیوال رنی
شاکر شجاع آبادی
سرائیکی ڈوہڑہ
سرائیکی ڈوہڑے
سرائیکی شاعری
Shakir Shuja abadi
Dr. Shakir Shuja abadi
Saraiki Dohry
Saraiki Dohray
Saraiki poetry
#شاکرشجاع #سرائیکی

‏شاکر شجاع آبادی ❤️ کل تیڈے شہر ہک شخص ملیےجیہڑا من  تقدیراں  روندا  ہائیہاسی  خط  کہیں  سنگدل  داپڑھ پڑھ  تحریراں  روند...
15/10/2025

‏شاکر شجاع آبادی ❤️

کل تیڈے شہر ہک شخص ملیے
جیہڑا من تقدیراں روندا ہائی
ہاسی خط کہیں سنگدل دا
پڑھ پڑھ تحریراں روندا ہائی
کدی بہہ ویندا ہائی خاک اتے
وت مار لکیراں روندا ہائی
ہائی "شاکر" کہیں دی تانگھ وچ
چم چم تصویراں روندا ہائی

شاکر شجاع آبادی
سرائیکی ڈوہڑہ
سرائیکی ڈوہڑے
سرائیکی شاعری
Shakir Shuja abadi
Dr. Shakir Shuja abadi
Saraiki Dohry
Saraiki Dohray
Saraiki poetry
#شاکرشجاع #سرائیکی

یہ تصویر ایک زمانے کی یاد ہے  1987 کا وہ لمحہ جب پولینڈ کی نیشنل ہاکی ٹیم میانوالی کے میدان میں اتری تھی۔تصویر میں تاریخ...
14/10/2025

یہ تصویر ایک زمانے کی یاد ہے
1987 کا وہ لمحہ جب پولینڈ کی نیشنل ہاکی ٹیم میانوالی کے میدان میں اتری تھی۔
تصویر میں تاریخ بولتی ہے، ماضی سانس لیتا ہے، اور غیرت مٹی سے جھانکتی ہے۔
سامنے صف میں سفید کپڑوں میں جو باوقار شخصیت کھڑی ہے، وہ ہیں محمد لطف اللہ خان روکھڑی مرحوم میانوالی ہاکی کے سرپرست، ان کے ساتھ کھڑا چہرہ، اعتماد اور قیادت کا استعارہ کرنل منصف اللہ خان روکھڑی، جنہوں نے اس دن ٹیم کی کپتانی کی
داہنی جانب وہی کرنل منصف اللہ میدان میں نظر آتے ہیں،
بائیں طرف سمیع اللہ خان کھڑے نظر آرہے ہیں ۔ اور درمیان میں سرگودھا کے قابل فخر کھلاڑی عبدالغنی، جو اپنی جادوئی ڈرِبلنگ سے میدان کے منظر بدل دیتے تھے۔
یہ تصویر صرف ایک میچ کی یاد نہیں، بلکہ میانوالی کے ہاکی کے عروج کی علامت ہے۔ وہ زمانہ جب اس خطے کے لڑکے مٹی کے میدانوں میں کھیل کر بڑی بڑی ٹیموں سے ٹکر لیتے تھے۔
پولینڈ کی ٹیم شاید سوچ بھی نہ سکی ہوگی کہ ایک چھوٹے سے ضلع کی ٹیم ان کے برابر کھیلے گی لیکن ہوا یہی۔ میچ ایک ایک گول سے برابر ختم ہوا، اور میانوالی نے یہ ثابت کیا کہ جذبہ اگر سچا ہو تو میدان چھوٹا نہیں پڑتا۔
آج یہ تصویر ہمیں یاد دلاتی ہے کہ میانوالی صرف سیاست، ریگستان اور دریا کا نام نہیں یہاں ایک زمانے میں ہاکی کا بھی عروج رہا ہے
یہ تصویر تاریخ کا ایک فریم ہے…
جس میں اسٹک، پسینہ اور مٹی تینوں مل کر ایک قوم کا فخر بنے کھڑے ہیں۔

ترگ ریلوے اسٹیشن — جہاں سیٹی بجنا بند ہو گئیدنیا میں کچھ جگہیں ایسی ہوتی ہیں جہاں وقت مر نہیں جاتا… صرف سونا شروع کر دیت...
12/10/2025

ترگ ریلوے اسٹیشن — جہاں سیٹی بجنا بند ہو گئی

دنیا میں کچھ جگہیں ایسی ہوتی ہیں جہاں وقت مر نہیں جاتا… صرف سونا شروع کر دیتا ہے۔
آپ وہاں کھڑے ہوں تو محسوس ہوتا ہے جیسے ہوا بھی پرانی یادوں سے بوجھل ہو گئی ہو۔
ترگ ریلوے اسٹیشن بھی انہی خوابیدہ جگہوں میں سے ایک ہے —
ایک ایسا اسٹیشن جس کی عمارت اب بھی کھڑی ہے، مگر اس کے اردگرد زندگی کب کی رخصت ہو چکی۔

کہانی شروع ہوتی ہے 27 نومبر 1978 سے —
جب انجن نمبر ZB201 بنوں سے چل کر شام 5 بج کر 30 منٹ پر ترگ اسٹیشن پہنچا۔
اس کے بعد رات کے اندھیروں میں ZB209 انجن والی ٹرین واپسی کے لیے 9 بج کر 45 منٹ پر یہاں رکی۔
اس لمحے کو ایک فوٹوگرافر نے اپنے کیمرے میں قید کیا —
آج وہ تصویر لندن کے ایک البم میں محفوظ ہے،
جس کے نیچے انگریزی میں لکھا ہے:
“Train arriving at Turg Station — 27 November 1978.”
لیکن اس تصویر کے پیچھے صرف الفاظ نہیں، ایک عہد کی سانسیں ہیں،
ایک زمانہ ہے جو اب صرف دھول بن کر فضا میں تحلیل ہو چکا ہے۔

ترگ اسٹیشن، داؤدخیل – لکی مروت برانچ لائن کا دل تھا۔
یہ وہ جگہ تھی جہاں روز دو ٹرینیں آمنے سامنے رکتی تھیں —
ایک آنے والی، دوسری جانے والی۔
کچھ لمحوں کے لیے زندگی رکتی تھی،
مسافروں کی نظریں ملتی تھیں،
ریلوے کی سیٹی گونجتی تھی،
اور پھر ہر کوئی اپنی منزل کی طرف چل پڑتا تھا۔
یہی تو ریل کی خوبصورتی تھی — ملنے کے بعد بچھڑ جانے کا فلسفہ۔

یہ اسٹیشن 1914 میں تعمیر ہوا،
اور 1990 تک یہاں سے ریل گاڑیاں گزرتی رہیں۔
یہ نیرو گیج لائن کا اہم اسٹیشن تھا کیونکہ یہاں سے ایک ضمنی پٹری مکڑوال جاتی تھی،
جہاں سے کوئلہ نکل کر پورے برصغیر کے کارخانوں میں پہنچتا۔
یعنی ترگ صرف ایک اسٹیشن نہیں تھا،
یہ صنعتی دور کی سانسوں کا مرکز تھا۔

پھر ایک دن کسی نے اس کی طرف دیکھنا چھوڑ دیا۔
پٹریاں اکھاڑ لی گئیں،
دیواروں پر زنگ نے قبضہ کر لیا،
اور اسٹیشن کی سیٹی ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔
اب وہاں صرف ایک ٹوٹا ہوا احاطہ باقی ہے —
جیسے کسی پرانے سپاہی کی جھونپڑی،
جو اپنی یادوں کے ملبے میں بیٹھا پرانے دنوں کو گن رہا ہو۔

جب ہوا چلتی ہے تو وہ زنگ آلود دروازہ بجتا ہے،
جیسے کوئی بھولی بسری ٹرین پھر گزرنے والی ہو۔
مگر وہ ٹرین کبھی نہیں آتی…
صرف یاد آتی ہے۔
ترگ ریلوے اسٹیشن آج بھی کھڑا ہے،
مگر اب وہ اسٹیشن نہیں —
وہ ایک یادگار ہے خاموشی کی، وفاداری کی، اور گزرے ہوئے وقت کی۔

پہچانئیں
12/10/2025

پہچانئیں

عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کی زندگی خود ایک دھن کی مانند ہے—آہستہ آہستہ بلند ہوتی ہوئی، پھر پوری شدت سے دلوں کو چھو لینے والی۔...
10/10/2025

عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کی زندگی خود ایک دھن کی مانند ہے—آہستہ آہستہ بلند ہوتی ہوئی، پھر پوری شدت سے دلوں کو چھو لینے والی۔
ایک ٹی وی شو میں، ریمبو اور صاحبہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اپنی ابتدائی جدوجہد کا قصہ سنایا۔ وہ دن یاد آئے جب جیب میں کرایہ تک نہیں ہوتا تھا، اور میانوالی سے ملتان جانے کے لیے ٹرک کی چھت پر بیٹھنا ہی واحد راستہ تھا۔
ریڈیو ملتان میں آڈیشن دینے پہنچتے، مگر ہر بار یہی جواب ملتا:
"پہلے کسی سے گانا سیکھ کر آؤ۔"
ریڈیو کے دروازے اُس زمانے میں صرف تربیت یافتہ آوازوں کے لیے کھلتے تھے—خود سیکھنے والے کی کوئی جگہ نہ تھی۔

مگر عطا اللہ کا سفر کسی اُستاد کے سہارے نہیں، بلکہ درد اور جنون کے سنگ طے ہوا۔ اُن کی آواز میں وہ سچائی تھی جو کسی موسیقی اسکول سے نہیں مل سکتی۔
جب دوسرے گلوکار ریڈیو اور فلم کے دروازوں پر اپنی باری کے منتظر تھے، عطا اللہ نے آڈیو کیسٹوں کے ذریعے پورے ملک کے گھروں میں جگہ بنا لی۔
وقت بدلا، اور وہی ریڈیو، جو کبھی انہیں مسترد کرتا تھا، خود اُنہیں بلانے لگا—
لیکن اب حالات پلٹ چکے تھے؛
اب عطا اللہ کے پاس وقت نہیں تھا۔

یوں قسمت نے ایک بار پھر دکھایا کہ
جو کل دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا، آج اُس کے در پر دنیا قطار میں کھڑی ہے۔

09/10/2025

انسان جب طاقتور بنتا ہے تو اکثر ان سہاروں کو غیر ضروری سمجھنے لگتا ہے جنہوں نے کمزوری کے دنوں میں اسے سہارا دیا تھا

Address

Isa Khel
42430

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when IsaKhel News posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share