
08/04/2025
طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد، افغانستان میں چھٹی جماعت کے بعد لڑکیوں اور خواتین کے اسکول اور یونیورسٹی میں داخلے پر پابندی ہے۔یہ پابندی اب چوتھے سال میں داخل ہوچکی ہے، جبکہ دیگر ممالک میں خواتین تعلیم سے محروم نہیں ہیں۔
طالبان وزارت برائے اعلیٰ تعلیم نے 20 دسمبر 2022 کو اعلان کیا کہ زنانہ طالبات کو یونیورسٹیوں میں داخلہ دینے سے توقعاً مستقل طور پر منع کر دیا گیا ہے۔
اس کے بعد اخلاقی ضوابط کے نام پر خواتین پر دیگر سماجی پابندیاں بھی سخت کر دی گئیں۔
یونیسکو کے مطابق افغانستان واحد ملک ہے جہاں لڑکیاں ثانوی اور اعلیٰ تعلیم سے مکمل طور پر محروم ہیں۔
یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق، تقریباً 2.2 ملین لڑکیوں کو تعلیم سے روکا گیا، جن میں سے صرف2025 میں ہی 4 لاکھ متاثرہ ہیں۔ اگر یہ پابندیاں برقرار رہیں، تو 2030 تک یہ تعداد 4 ملین سے تجاوز کر جائے گی۔
یونیسکو نے اندازہ لگایا ہے کہ اگر خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر پابندیاں جاری رہیں تو 2066 تک معاشی نقصان GDP کے دو تہائی یا تقریباً 9.6 بلین ڈالر تک ہو سکتا ہے۔
ہیتر بار (Human Rights Watch) کہتی ہیں کہ اس پابندی سے ملک میں ڈاکٹروں، اساتذہ اور دیگر خواتین پیشہ ور افراد کی کمی پیدا ہوگی—جس کا اثر معاشرے پر طویل مدت تک رہے گا۔
طالبان کی نائب وزیر خارجہ شیر عباس ستانکزی نے عوامی سطح پر کہا کہ یہ پابندی "اسلام میں منصفانہ نہیں" اور اس میں کوئی شرعی جواز نہیں۔
سابق صدر حامد کرزئی، انسانی حقوق کارکن اور عالمی شخصیات بھی پابندی واپس لینے اور لڑکیوں کو تعلیم کی اجازت دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ نے طالبان کو واضح خبردار کیا ہے کہ تعلیم اور روزگار کی مکمل بحالی تک افغانستان کے ساتھ باقاعدہ تعلقات بذریعہ بین الاقوامی شناخت ممکن نہیں۔
عالمی قانون عدالت (ICC) نے طالبان کے بہت سے رہنماؤں خصوصاً ہیبت اللہ اخوندزادہ کے خلاف تعلیم اور حقوق کے خلاف جرائم کے تحت گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہیں۔