
03/08/2025
“ذائقہ کہاں گیا؟”
اس سال آم کھاتے ہوئے عجیب سی بے مزگی محسوس ہوئی۔
نہ وہ مٹھاس، نہ وہ خوشبو، نہ وہ لطف جو پچھلے سال ہر آم کے ساتھ جُڑا ہوتا تھا۔
پچھلے سال تو میں روز آم کھاتا تھا، اور دل بھرتا نہیں تھا۔
مگر اس بار؟
دس بارہ دن بعد دل کرتا ہے کہ آم کھاؤں —
اور تب بھی ایسا لگتا ہے جیسے بس زبردستی کھا رہا ہوں۔
ہر بار یہی احساس ہوتا ہے کہ اصل آم نہیں نکلے۔ جیسے ذائقہ کہیں کھو گیا ہو۔
اسی الجھن میں، میں نے ایک پھل فروش سے پوچھا:
“یار، کیا وجہ ہے؟ اس بار آموں میں ذائقہ نہیں ہے۔ ہر بار کھا کے لگتا ہے جیسے کچھ کمی رہ گئی ہو۔”
پھل فروش نے میری طرف دیکھا، اور ہلکا سا مسکرا کر بولا:
“صاحب، آموں میں ذائقہ نہیں رہا، کیونکہ انسانوں میں ذائقہ نہیں رہا۔”
میں حیران ہو کر اسے دیکھتا رہا۔
وہ بولتا گیا:
“آم کیا بدلیں گے، اصل تبدیلی تو انسانوں میں آئی ہے۔
دیکھیں، وقت کے ساتھ لوگ ویسے کے ویسے نہیں رہے۔
نہ مزاج وہ رہے، نہ رویے، نہ اخلاق۔
آج ہر کسی کو بس پیسہ کمانے کی فکر ہے۔
رشتے، بات چیت، خیر خیریت — سب بس ضرورت کے گرد گھومنے لگے ہیں۔
پہلے جو بندے گلے لگ کے حال پوچھتے تھے، اب صرف اس وقت یاد کرتے ہیں جب کوئی مطلب ہو۔
یہی مادہ پرستی ہے جو انسانوں کے ذائقے کو بھی کھا گئی ہے۔”
میں خاموش ہو گیا۔
واقعی، جب انسان اپنے اخلاقی اصول بھلا دے،
جب محبت، خلوص اور وفا کی جگہ فائدہ، خودغرضی اور دولت لے لے،
تو پھر وہ کیسا انسان رہا؟
اور جب انسان ہی ذائقہ کھو دے،
تو پھلوں سے کیا گلہ؟
سبق:
جس طرح آم میں ذائقہ مٹی، پانی اور سورج سے آتا ہے،
اسی طرح انسان میں ذائقہ اس کی نیت، محبت اور اخلاق سے آتا ہے۔
جب نیت بدل جائے، دل سخت ہو جائے،
اور پیسہ مقصد بن جائے —
تو پھر نہ آم میں ذائقہ رہتا ہے،
نہ انسانوں میں۔