Daily Mail Chitral

Daily Mail Chitral Daily Mail Chitral is a Social Media Channel which bring the latest news of Chitral and Pakistan also

15/08/2025

خیبرپختونخوا میں سیلابی صورتحال، 206 افراد جاں بحق، وزیراعلیٰ، علی امین گنڈاپور کا کل سوگ کا اعلان، قومی پرچم سرنگوں رہے گا.

15/08/2025

اطلاع عام

تمام سیاح حضرات کے نوٹس میں یہ بات لائی جاتی ہے کہ اپر چترال خصوصاً یارخون کے مختلف جگہوں میں برف پگھلنے سے سیلاب اچکے ہیں۔ مذید برآں یارخون بروغل روڈ بھی جزوی طور پر متاثر ہوچکا ہے۔

لہذا تمام سیاح حضرات بروغل جانے سے گریز کریں اور ضلعی انتظامیہ سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔

ساتھ ساتھ یہ تاکید بھی کی جاتی ہے کہ سیاح حضرات دریا کے کنارے جانے اور نقل و حمل سے بھی گریز کریں تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہوں۔

شعبہ اطلاعات و تعلقات عامہ ضلعی انتظامیہ اپر چترال

14/08/2025

دیر پولیس کی غنڈا گردی اور چترالی ڈرائیورز

پچھلے دنوں چترال ،جغور سے تعلق رکھنے والے کاروباری شخصیت اختر حسین چغتائی جو کاروبار کے سلسلے میں تیمرگرہ گئے تھے دیر ٹریفک پولیس کی غنڈا گردی کا شکار ہو گئے، اختر حسین چغتائی کا کہنا ہے اُسے ٹریفک اہلکار نے رکھنے کا اشارہ کیا اور ڈرائیور لائیسنس دکھانے کا کہا لائیسنس دکھانے کے باوجود ٹریفک اہلکار نے بغیر وجہ بتائے اختر حسین کو ۵ ہزار کا پرچہ تھمایا اور چالان جمع نہ کرنے پر گاڑی تھانے میں بند کرنے کی دھمکی بھی دی، اختر حسین نے مجبوراً ۵ ہزار کا چالان جمع کروا کر اپنی جان چھڑائی ۔ ایسے کئی چترالی ڈرایئورز جو محنت مزدوری کے لیے دیر آتے جاتے ہیں ناجانے کتنے ان کرپٹ دیر ٹریفک پولیس کے ہتھے چھڑے ہونگے۔ ہماری دیر اپر اور دیر لوئر کی انتظامیہ، ڈی پی او اور ایس پی ٹریفک درخواست ہے کہ چترالی کاروباری شخصیت اور چترالی ڈرایئورز کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
تحریر: محمد عنایت اللہ
بشکریہ: دیر نیوز

ہزہائنس آغا خان سوم پاکستان کے قیام میں ایک خاموش مگر عظیم کردارچودہ  اگست کا دن ہمارے لیے محض ایک تاریخ نہیں، بلکہ قربا...
14/08/2025

ہزہائنس آغا خان سوم پاکستان کے قیام میں ایک خاموش مگر عظیم کردار

چودہ اگست کا دن ہمارے لیے محض ایک تاریخ نہیں، بلکہ قربانی، عزم اور نظریے کی جیتی جاگتی علامت ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اس دن ایک علیحدہ مملکت کی صورت میں اپنی منزل حاصل کی، جہاں وہ آزادانہ طور پر اپنی زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق بسر کر سکیں۔ اس جدوجہد میں جہاں ہمارے قائدین جیسے قائداعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال، اور دیگر رہنما صفِ اول میں نظر آتے ہیں، وہاں کچھ شخصیات ایسی بھی ہیں جن کا کردار پسِ پردہ ہونے کے باوجود نہایت فیصلہ کن اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ انہی شخصیات میں ایک نام سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم کا ہے، جنہیں ہم اکثر ایک روحانی پیشوا کے طور پر یاد کرتے ہیں، مگر ان کی سیاسی و تعلیمی خدمات بھی پاکستان کی تاریخ کے سنہری اوراق میں درج ہیں۔

آغا خان سوم 2 نومبر 1877 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ وہ اسماعیلی جماعت کے 48ویں امام تھے۔ اپنے عہدِ امامت کے دوران انہوں نے نہ صرف اپنی جماعت بلکہ برصغیر کے تمام مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے عملی اقدامات کیے۔ ان کی تعلیم و تربیت یورپی اور اسلامی علوم کے امتزاج سے ہوئی، جس نے انہیں ایک ہمہ جہت شخصیت بنایا۔
سر آغا خان کی سیاسی جدوجہد کا ایک نمایاں پہلو 1906 کا شملہ وفد ہے، جس کی قیادت انہوں نے کی۔ یہ وفد برطانوی وائسرائے لارڈ منٹو سے ملا تاکہ مسلمانوں کے سیاسی حقوق کو یقینی بنایا جا سکے۔ اسی ملاقات کے نتیجے میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب کا حق تسلیم کیا گیا، جو بعد میں مسلم لیگ کے قیام اور تحریکِ پاکستان کے لیے بنیاد ثابت ہوا۔

1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تو سر آغا خان اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ ان کے دورِ صدارت میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کے تعلیمی اور سیاسی حقوق کے لیے نہ صرف آواز بلند کی بلکہ باقاعدہ حکمتِ عملی بھی تیار کی۔ وہ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ مسلمان جدید تعلیم سے آراستہ ہوں، کیونکہ تعلیم ہی ایک مضبوط اور باشعور قوم کی ضمانت ہے۔

سر آغا خان کا سب سے بڑا کارنامہ مسلمانوں میں تعلیمی شعور بیدار کرنا ہے۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ترقی کے لیے گراں قدر مالی امداد دی اور مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے پلیٹ فارم سے مسلسل یہ پیغام دیا کہ مسلمانوں کی بقا تعلیم کے فروغ میں ہے۔ ان کا مشہور جملہ آج بھی رہنمائی کرتا ہے:
“اگر آپ دنیا میں عزت اور وقار چاہتے ہیں تو تعلیم کو اپنائیں۔”

بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کی نمائندگی

سر آغا خان صرف برصغیر تک محدود نہیں رہے۔ انہوں نے لیگ آف نیشنز میں برصغیر کے مسلمانوں کی نمائندگی کی اور بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کے موقف کو مؤثر انداز میں پیش کیا۔ اس سے برصغیر کے مسلمانوں کو عالمی سطح پر پہچان ملی اور ان کے مسائل دنیا کے سامنے اجاگر ہوئے۔

اگرچہ عملی سیاست میں 1930 کے بعد ان کی سرگرمیاں محدود ہو گئیں، مگر وہ تحریکِ پاکستان کے حامی رہے۔ قائداعظم سے ان کے قریبی تعلقات تھے اور وہ ان کی قیادت پر مکمل اعتماد رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی تقاریر اور تحریروں میں ہمیشہ مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے تصور کو تقویت دی اور اس کے لیے مالی امداد بھی فراہم کی۔

سر آغا خان سوم کی وفات 11 جولائی 1957 کو ہوئی، مگر ان کا چھوڑا ہوا تعلیمی، فلاحی اور سیاسی ورثہ آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ان کا پیغام واضح تھا “مسلمانوں کی ترقی تعلیم، اتحاد اور خود اعتمادی میں ہے۔”

یومِ آزادی کے موقع پر جب ہم پاکستان کی جدوجہدِ آزادی کو یاد کرتے ہیں، تو ہمیں سر آغا خان سوم جیسے رہنماؤں کو بھی خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہیے، جن کی خاموش لیکن مضبوط کاوشوں نے ہمارے لیے آزادی کی راہ ہموار کی۔ پاکستان کے قیام کی داستان میں یہ ایک ایسا باب ہے جو روشنی اور فخر سے بھرا ہوا ہے۔

پاکستان زندہ باد! 🇵🇰

تمام اہل وطن کو ڈیلی میل چترال کی طرف سے جشنِ آزادی کی مبارک، پاکستان زندہ باد
13/08/2025

تمام اہل وطن کو ڈیلی میل چترال کی طرف سے جشنِ آزادی کی مبارک، پاکستان زندہ باد

13/08/2025

چترال کے موجودہ سیاسی صورتحال کے حوالے سے سابق ایم این اے شہزادہ افتخارالدین کا پیغام

یومِ آزادی کی خوشبو ہر سو، لوئر چترال پولیس کا عوام میں سبز ہلالی پرچم تقسیم کرنے کا اقدام لوئر چترال پولیس نے یومِ آزاد...
12/08/2025

یومِ آزادی کی خوشبو ہر سو، لوئر چترال پولیس کا عوام میں سبز ہلالی پرچم تقسیم کرنے کا اقدام

لوئر چترال پولیس نے یومِ آزادی کی تیاریوں کے سلسلے میں اتالیق پل چترال میں ایک خوبصورت مہم کا انعقاد کیا، جس میں شہریوں میں پاکستان کے جھنڈے تقسیم کیے گئے۔ اس اقدام کا مقصد عوام کو اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر قومی پرچم آویزاں کرنے کی ترغیب دینا تھا، تاکہ 14 اگست کو ملی جوش و جذبے اور اتحاد کے ساتھ منایا جا سکے۔

اس موقع پر شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور پرچم تھام کر وطن سے محبت کا اظہار کیا۔ فضا میں سبز و سفید رنگ بکھر گئے اور جشنِ آزادی کی خوشیاں مزید رنگین ہو گئیں۔

تقریب میں ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹر لوئر چترال پولیس اکبر شاہ، ایس ایچ او سٹی حیدر حسین،انچارج ڈی ایس بی انسپکٹر علی احمد، انچارج ٹریفک وارڈن اے ایس آئی فضل کریم، سابق صدر تجار یونین شبیر احمد اور دیگر پولیس افسران شریک تھے، جنہوں نے عوام کے ساتھ مل کر اس ملی جوش و خروش کو مزید جِلا بخشی۔

یہ موت نہیں، زمین اور بستی کی زندگی کے لیے دی گئی قربانی ہے۔تحریر: ظاہر الدین گلگت بلتستان اس وقت شدید سیلابی صورتحال سے...
11/08/2025

یہ موت نہیں، زمین اور بستی کی زندگی کے لیے دی گئی قربانی ہے۔

تحریر: ظاہر الدین

گلگت بلتستان اس وقت شدید سیلابی صورتحال سے دوچار ہے۔ پانی کے قدرتی راستے تباہ، واٹر چینلز ٹوٹ پھوٹ کا شکار، فصلیں اور درخت برباد اور پینے کے پانی تک کی شدید قلت ہے یہ سب مل کر اس خطے کو ایک انسانی بحران کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ دنیور نالہ میں رات کے ایک بجے کے قریب مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت سیلاب سے تباہ شدہ واٹر چینل کی مرمت کر رہے تھے کہ اچانک پہاڑ سے بھاری ملبہ گر پڑا۔ اس ہولناک حادثے میں سات نوجوان ملبے تلے دب کر شہید ہوگئے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی نیند، آرام اور اپنی جان تک کی پرواہ نہ کرتے ہوئے گاؤں کے لیے پانی کی فراہمی بحال کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ ان کا مقصد اپنے علاقے کے کھیتوں، فصلوں اور باغات کو پانی فراہم کر کے زمین کو زندہ رکھنا تھا۔ یہ قربانی یقینا کسی عام حادثے کی موت نہیں بلکہ شہادت سے کم نہیں، بلکہ حقیقتاً شہادت کا رتبہ ہے کیونکہ انہوں نے اپنی جانیں اپنے علاقے اور اپنی قوم کی بقا کے لیے قربان کیں۔
یہ صرف ایک سانحہ نہیں ہے بلکہ یہ حکومت کی سنگین غفلت اور مجرمانہ بے حسی کا عملی ثبوت ہے۔ یہ حادثہ کسی اچانک آفت کا نہیں بلکہ اس حکومتی رویے کا نتیجہ ہے جو عوام کو اپنے حال پر چھوڑ کر اقتدار کی مراعات سے لطف اندوز ہوتا ہے

جب عوام سیلاب اور پانی کی قلت سے نبرد آزما ہیں وزیراعلیٰ حاجی گلبر خان اپنی پوری ٹیم کے ساتھ ترکی اور تاجکستان کی سیر و تفریح میں مصروف ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ریاست کو اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے پانی کی بحالی، متاثرہ علاقوں کی امداد، اور عوام کی زندگی بچانے کی خاطر ہنگامی اقدامات کرنے چاہئیں تھے حکومتی ایوانوں میں سکوت اور بے حسی چھائی ہوئی ہے۔ یہ طرزِ عمل اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عوامی مشکلات ان کی ترجیحات میں کہیں شامل ہی نہیں۔ جب قیادت ہی غائب ہو اور فیصلہ سازی میں خلا ہو تو عوام اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں اور مسائل کے حل کی ذمہ داری مقامی افراد کے کندھوں پر ڈال دی جاتی ہے۔

یہاں یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر گلگت بلتستان کا پانی خیبر پختونخواہ اور سندھ سے ہوتا ہوا بحرِ عرب تک جا سکتا ہے تو دنیور تک کیوں نہیں پہنچ سکتا؟ اگر حکومت کی نیت صاف ہو تو یہی پانی جو وادیوں کو سرسبز کرتا ہیں دنیور کے کھیتوں کو بھی سیراب کر سکتے ہیں۔ مسئلہ وسائل یا جغرافیے کا نہیں بلکہ ترجیحات کا ہے اور افسوس کہ گلگت بلتستان کی حکومت کی ترجیحات میں عوامی مفادات شامل ہی نہیں۔

یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ گلگت بلتستان کی عوام کو آفات کے دوران تنہا چھوڑ دیا گیا ہو۔ یہاں کا حکومتی ڈھانچہ بظاہر عوامی نمائندگی کا دعویٰ کرتا ہے مگر عملی طور پر اشرافیہ کے مفادات کا محافظ ہے۔ حالیہ مہینوں میں گلگت بلتستان میں ہونے والے مختلف احتجاجات نے اس غفلت کو مزید بے نقاب کیا ہے۔ اساتذہ نے تنخواہوں، مستقل تقرری، اور بنیادی تعلیمی ڈھانچے کی بہتری کے لیے طویل دھرنا دیا، مگر حکومت نے محض وعدوں پر اکتفا کیا اور عملی اقدامات سے گریز کیا۔ پولیس اہلکاروں نے سروس اسٹرکچر، مراعات اور جدید سہولیات کے لیے کئی روز تک احتجاج جاری رکھا جو امن و امان کی صورتحال پر حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سوست میں تاجر برادری نے وفاقی ٹیکسز، کسٹم پالیسی اور معاشی استحصال کے خلاف دھرنے دیے اور واضح کیا کہ جب گلگت بلتستان کو آئینی شناخت اور نمائندگی نہیں دی گئی تو ٹیکس عائد کرنا غیر آئینی اور غیر منصفانہ ہے۔

یہ تینوں تحریکیں بظاہر الگ الگ ہیں مگر ان کی جڑ ایک ہی ہے حکومتی بے عملی، عوامی مسائل پر دانستہ چشم پوشی، اور مختلف طبقات کو ایک دوسرے سے الگ رکھ کر اجتماعی مزاحمت کو کمزور کرنا ہے گلگت بلتستان میں ہر ہفتے کوئی نہ کوئی احتجاج یا دھرنا ہو رہا ہوتا ہے۔ یہ تسلسل اس خدشے کو جنم دیتا ہے کہ حکومت شعوری طور پر ایسے حالات پیدا کرتی ہے جن میں عوام ایک دوسرے کے مسائل سے لاتعلق رہیں اور کسی بڑے اجتماعی حق کی تحریک اٹھ نہ سکے یہ حکمتِ عملی نوآبادیاتی دور کی تقسیم کرو اور حکومت کرو پالیسی سے مماثلت رکھتی ہے۔

اس پس منظر میں گلگت بلتستان کے عوام، خصوصاً نوجوانوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کی تقدیر اس کے بیدار اور باشعور طبقے نے بدلی ہے۔ آج جب سیلاب، مہنگائی، بے روزگاری، تعلیمی زبوں حالی اور حکومتی جبر نے عوام کو جکڑ رکھا ہے تو خاموش رہنا اس جبر کو مزید مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ اپنے ذاتی، لسانی اور علاقائی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوں۔ اتفاق اور اتحاد سے اجتماعی مزاحمت کا ایسا مضبوط پیغام دیا جائے جو حکومتی ایوانوں تک گونج پیدا کرے۔ گلگت بلتستان کے وسائل اس کے پانی، پہاڑوں اور معدنیات پر سب سے پہلا حق یہاں کے عوام کا ہے اور اس حق کے تحفظ کے لیے ایک منظم پُرامن مگر بھرپور تحریک چلانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر یہ اتحاد نہ ہوا تو یہی جابرانہ پالیسیاں آنے والی نسلوں کو بھی غلامی اور محرومی کی زنجیروں میں جکڑتی رہیں گی۔

ریاست کا اولین فرض عوام کی جان و مال کی حفاظت اور بنیادی سہولیات کی فراہمی ہے۔ واٹر چینلز کی مرمت، سڑکوں کی بحالی، اور قدرتی آفات سے تحفظ یہ سب حکومت کی ذمہ داری ہے نہ کہ عوام کو اپنی مدد آپ پر مجبور کرنا۔ دنیور نالہ میں ملبے تلے دب کر شہید ہونے والے جوانوں کے خون کا حساب کون دے گا؟ کیا یہ صرف ایک اتفاق ہے یا اس کے پیچھے وہی مجرمانہ غفلت ہے جو ہر آفت میں حکومت کا رویہ بن چکی ہے؟

گلگت بلتستان کی موجودہ صورتحال کسی ایک قدرتی آفت کا نتیجہ نہیں بلکہ دہائیوں پر محیط بدعنوان، بے حس اور استحصالی حکمرانی کا حاصل ہے۔ اگر عوام اب بھی خاموش رہے تو یہی غفلت اور عیاشی آئندہ نسلوں کی تقدیر میں لکھی جائے گی۔ عوام کو چاہیے کہ علاقائی و سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اپنے بنیادی حقوق کے لیے متحد ہوں۔ یہی اتحاد اس حکومت کو اس کے آئینی و اخلاقی دائرے میں واپس لانے کا واحد راستہ ہے۔

11/08/2025

مستوج بروغل روڈ تعمیر تحریک کے تیسرے جلسے کی تیاری اور کامیاب بنانے کے سلسلے میں یارخون لشٹ سےلیکر مستوج تک آگاہی اور کارنر میٹنگز کامیابی کے ساتھ کل مستوج میں اختتام پزیر ہوا۔مستوج بروغل روڈ تحریک کے ہیڈ کواٹر مستوج کے عوام نے بہت حوصلہ افزائی کی۔تحریک کے صدر جناب محمد وزیر اور کبینٹ ممبران ،جنرل سیکریٹری وزیر پناہ، ایڈیشنل جنرل سیکرٹری صدیق العظم، فینانس سیکریٹری حاجی کمال، سنئر نائب صدر سبحان الدین کی طرف سے بروغل سے لیکر پرواک اور لاسپور سورلاسپور تک کے عوام کو کارنر میٹنگز کامیاب بنانے پر دل سے شکریہ۔آج سرزمین بریپ میں کبینٹ ممبران کے ساتھ ایک اہم میٹنگ ہوئی ۔ میٹنگ میں جلسے کی تاریخ مقرر کی گئ۔تیسرا احتجاجی جلسہ سر زمین مستوج کے مقام پر 8ستمبر 2025 بروز پیر بعمل 11بجے منعقد ہوگا۔ اس احتجاجی جلسے کے روز پرواک سے بروغل اور سورلاسپور تک تمام دکانیں سمیت سکول بند رہیںگے۔

فینانس سیکریٹری

اطلاع برائے تلاشِ گمشدہ بچہنام: سید ہلال شاہولدیت: گل نبی شاہپتہ: ریحانکوٹ، چترالتعلیم: جماعت ہفتم (7ویں) کا طالب علمادا...
11/08/2025

اطلاع برائے تلاشِ گمشدہ بچہ

نام: سید ہلال شاہ
ولدیت: گل نبی شاہ
پتہ: ریحانکوٹ، چترال
تعلیم: جماعت ہفتم (7ویں) کا طالب علم
ادارہ: امّہ ہائیر سیکنڈری چلڈرن اکیڈمی، جی ٹی روڈ، سوریا خیل، ضلع نوشہرہ
یہ بچہ کل صبح نماز کے وقت پشاور پہنچا اور مومن ٹاؤں دلہ زاک روڈ سے صبح 9 سے 10 بجے کے درمیان اچانک لاپتہ ہوگیا ہے۔
بچے کے پاس نہ کوئی موبائل فون ہے اور نہ ہی کسی قسم کا رابطے کا ذریعہ۔ اس کے ہمراہ ایک بیگ ہے جس میں کپڑے اور کتابیں موجود ہیں، اور وہ بیگ بھی ساتھ لے گیا ہے۔
تمام عوام الناس، ادارے، اور سیکیورٹی اداروں سے گزارش ہے کہ اگر اس بچے کے بارے میں کوئی معلومات ہوں تو فوری طور پر نیچے دیے گئے نمبرز پر رابطہ کریں:
03429575755

آپ کی ایک اطلاع کسی والدین کو اُن کے بچے سے ملا سکتی ہے۔
جزاکم اللہ خیر۔

نیب نے سابق وزیر اعظم و چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی اسلام آباد میں واقع جائیداد کی نیلامی کا اشتہار جاری کردیا
11/08/2025

نیب نے سابق وزیر اعظم و چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی اسلام آباد میں واقع جائیداد کی نیلامی کا اشتہار جاری کردیا

11/08/2025

ضلعی انتظامیہ چترال لوئیر، اپنے رٹ پر قائم، ہول سیل ڈیلر مرغی تول کرکے بیجنے پر راضی ، ڈپٹی کمشنر کی کاوشوں کو سراہا گیااور اس امید کا اظہار کیا گیا کہ یہ سلسلہ جاری رہیگا.

Address

Islamabad

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Daily Mail Chitral posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share