AAA News

AAA News News & Updates

14/09/2025

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا عمران خان کے آبائی ضلع میانوالی کا دورہ، عوامی امیدوں اور محرومیوں کے ازالے کی نئی نوید یا محض سیاسی علامت؟

عابد ایوب اعوان کی مکمل تحریر پڑھنے کے لئے پہلا کمنٹ کلک کریں

14/09/2025

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا عمران خان کے آبائی ضلع میانوالی کا دورہ، عوامی امیدوں اور محرومیوں کے ازالے کی نئی نوید یا محض سیاسی علامت؟

میانوالی کی دہلیز پر ترقی کی دستکتحریر: عابد ایوب اعوانوزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا عمران خان کے آبائی ضلع میانوالی کا د...
14/09/2025

میانوالی کی دہلیز پر ترقی کی دستک

تحریر: عابد ایوب اعوان
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا عمران خان کے آبائی ضلع میانوالی کا دورہ، عوامی امیدوں اور محرومیوں کے ازالے کی نئی نوید یا محض سیاسی علامت؟

بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا آبائی ضلع میانوالی سیاست کی اس مٹی کا نام ہے جس نے ہمیشہ ملک کو قیادت اور ہمت دی، مگر خود وسائل اور سہولیات کے معاملے میں پیچھے رہ گیا۔ دریائے سندھ کے کنارے آباد یہ خطہ گویا ریگستان کے بیچ سبزے کی جھلک ہے، جہاں لوگ محنت کو اپنا زیور اور صبر کو اپنی زندگی کا سہارا مانتے ہیں، مگر ترقی کے میٹھے پھل سے اکثر محروم رہے ہیں۔

ایسے میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا میانوالی کا دورہ صرف ایک سرکاری روٹین نہیں بلکہ امید کی کرن ہے۔ یہ اس شمع کی مانند ہے جو اندھیروں میں جلتی ہے اور راستہ دکھاتی ہے۔ عمران خان کے آبائی ضلع میں مسلم لیگ ن کی وزیراعلیٰ کا جانا ایک بڑا سیاسی اشارہ ہے کہ پنجاب کے سب اضلاع ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں اور حکومت کی توجہ کسی علاقے کی سیاسی وابستگی کے بجائے عوام کی ضرورتوں پر ہونی چاہیے۔ اگر مریم نواز نے اپنے اعلانات کو عملی جامہ پہنایا تو یہ میانوالی کے لیے خوشحالی کا نیا دور ثابت ہو سکتا ہے۔

یہاں سب سے زیادہ ضرورت تعلیم کے چراغ جلانے کی ہے۔ اگر اسکولوں اور کالجوں میں علم کی روشنی عام ہو اور ایک نیا یونیورسٹی کیمپس یا ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ قائم ہو تو میانوالی کے نوجوان اپنی تقدیر خود لکھنے کے قابل ہو جائیں گے۔ صحت کے شعبے میں بھی عوام عرصے سے اندھیروں میں ہیں، ایک جدید ضلعی ہسپتال اور دیہی مراکز صحت کا فعال ہونا عوام کے زخموں پر مرہم رکھ سکتا ہے۔ زرعی زمینیں جو کبھی زرخیزی کی علامت تھیں، آج پانی اور جدید سہولیات کی کمی کے باعث سوکھے کھیت کا منظر پیش کرتی ہیں۔ اگر چھوٹے ڈیم، نہریں اور جدید کھاد و بیج کسانوں تک پہنچا دیے جائیں تو یہ زمینیں پھر سے سونا اگل سکتی ہیں۔

میانوالی کے نوجوان بے روزگاری کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ اگر صنعتی زونز کے منصوبے اس ضلع سے جوڑ دیے جائیں اور سی پیک کے راستوں کو یہاں تک وسعت دی جائے تو یہ بوجھ کم ہو سکتا ہے۔ اسی طرح سڑکیں، بجلی اور صاف پانی وہ بنیادی ستون ہیں جن پر ترقی کی عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے۔ اور اگر سیاحت کو پروان چڑھایا جائے تو نمل جھیل کی ٹھنڈی ہوا، کمر مشانی کے پہاڑ اور دریائے سندھ کے کنارے نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان کے لیے کشش کا باعث بن سکتے ہیں۔

میانوالی کے عوام اب کانوں سے نہیں، آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وعدوں کی گونج سے نکل کر عملی قدموں کی چاپ سنائی دے۔ ان کی توقع یہ ہے کہ تعلیم ہر گھر میں چراغ جلائے، صحت ہر مریض کو سہارا دے، کسان اپنے کھیتوں میں خوشی کا پودا اُگتا دیکھے اور نوجوان اپنے گاؤں ہی میں روزگار حاصل کریں۔ اگر مریم نواز ان خوابوں کو حقیقت کا روپ دے سکیں تو میانوالی صرف عمران خان کا آبائی ضلع نہیں رہے گا بلکہ پنجاب کی ترقی کا روشن ستارہ بن کر چمکے گا۔

"عمران خان کے آبائی ضلع میں مریم نواز کا دورہ، سیاسی نقشہ بدلنے کی کوشش یا عوامی خدمت کا آغاز؟"

"میانوالی کے لوگ سوال کرتے ہیں: کیا یہ دورہ وعدوں کا سلسلہ ہے یا عملی اقدامات کی نوید؟"

"محرومیوں کے اندھیروں میں روشنی تب ہی آئے گی جب اعلان نہیں، عمل دکھائی دے گا۔"
"میانوالی کو وعدوں نہیں، عملی خدمت کی ضرورت ہے"

01/09/2025

✨ پشاور کی پہچان — نمک منڈی کا ذائقہ ✨
نثار چرسی تکہ ریسٹورنٹ میں دنبہ کڑاہی کا مزہ لیا، جو واقعی پشاور کی ثقافت اور مہمان نوازی کی بہترین جھلک ہے۔
اگر پشاور آئیں تو یہاں کا تجربہ مس نہ کریں! 🍲🔥

قیدی نمبر 804: طاقت کے کھیل کا نیا موڑشہرِ اقتدار سے — عابد ایوب اعوانسہیل وڑائچ کے تازہ کالم نے طاقت اور سیاست کے اس کھ...
17/08/2025

قیدی نمبر 804: طاقت کے کھیل کا نیا موڑ

شہرِ اقتدار سے — عابد ایوب اعوان

سہیل وڑائچ کے تازہ کالم نے طاقت اور سیاست کے اس کھیل میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے جس کے مرکزی کردار کو ہم قیدی نمبر 804 کے نام سے جانتے ہیں۔ کالم کے لبِ لباب سے یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ قیدی کو سرنڈر کرانے کے ایجنڈے پر فی الوقت کامیابی حاصل نہیں کر سکی، اور اب کہیں نہ کہیں سے یہ دباؤ محسوس کیا جا رہا ہے کہ اس کو راستہ دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ اس “نرم گوشے” کی تعمیر کیسے ہوگی؟ ہمارے ہاں روایت یہی رہی ہے کہ جب طاقت کے مراکز کسی نئی سمت میں قدم رکھتے ہیں تو سب سے پہلے بیانیہ سازی کا میدان گرم کیا جاتا ہے—اور بیانیہ بنانے کے لیے معتبر کالم نویس سب سے موزوں آلہ سمجھے جاتے ہیں۔

یہ کوئی راز نہیں کہ سیاست میں مکالمہ اور مفاہمت، ٹکراؤ اور مزاحمت کے بیچ کسی نہ کسی موڑ پر میڈیا اور صاحبانِ قلم کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ کالم نویس اپنی سماجی ساکھ اور قاری سے ذہنی رشتہ رکھتا ہے؛ اس کی تحریر ایک اشاریہ بھی ہوتی ہے اور سمت نما بھی۔ اگر پانچ ستاروں والے سپہ سالار کی خواہش یہ ہو کہ رائے عامہ کو کسی نئے امکان کی طرف مائل کیا جائے تو ایک موثر کالم اسی خواہش کو لسانی پیکر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وڑائچ صاحب کا کالم محض رائے نہیں لگتا، بلکہ ایک بڑے اسکرپٹ کے “پہلے صفحے” کی قرطاس معلوم ہوتا ہے۔

قیدی نمبر 804 اب صرف ایک شخصیت نہیں رہا؛ وہ ایک علامت ہے—نظام کے اندر طاقت کی کشمکش، عوامی مینڈیٹ کی تشریح اور ریاستی حکمتِ عملی کے توازن کا استعارہ۔ اس علامت کو دبانا، مسخ کرنا یا راستہ دے دینا—تینوں کے اپنے اپنے سیاسی، سماجی اور ریاستی اثرات ہیں۔ دبائیں گے تو مزاحمت بڑھے گی؛ مسخ کریں گے تو بیانیہ الٹ پلٹ ہو گا؛ راستہ دیں گے تو طاقت کے اندرونی توازن پر سوال اٹھیں گے۔ یہی وہ گرہ ہے جسے کھولنے کے لیے کبھی “ڈیل” کی سرگوشیاں جنم لیتی ہیں اور کبھی “ڈھیل” کی تاویلیں۔

اس پس منظر میں اگر واقعی آئندہ دنوں میں کالم نویسوں کا ایک دستہ قیدی نمبر 804 سے ملاقات کرتا ہے تو اسے محض “کوریج” نہ سمجھا جائے۔ یہ ایک باقاعدہ “نَیَریشن مینجمنٹ ایکسرسائز” ہوگی۔ ملاقاتیں قیدی کے لہجے میں نرمی یا سختی کی نئی جھلک دکھائیں گی؛ اور اسی سے طے ہوگا کہ اگلا فریم “مصالحانہ مفاہمت” کا ہے یا “اصولی مزاحمت” کا۔ میڈیا کے لیے یہ لمحات ریٹنگ اور ریچ کے لحاظ سے سونے کی کان ثابت ہوں گے—تجزیہ نگاروں کے تجزیے بکتی خبروں میں بدلیں گے، اور کالم نگاروں کا دھندا—یعنی ان کی رائے کی مارکیٹ—نئی بلندیوں کو چھوئے گی۔ مگر اس شور میں اصل سوال دب نہ جائے: عوام کو کیا ملے گا؟

یہاں چند محرکات قابلِ غور ہیں۔ اول، ملکی معیشت کی کسمپرسی ہر طاقت ور فریق کو کسی نہ کسی “سیاسی استحکام” کی طرف دھکیل رہی ہے۔ دوم، خارجہ محاذ پر شراکت دار ہمیشہ “قابلِ پیشگوئی” ماحول چاہتے ہیں جس میں پالیسیاں شخصیات سے بلند ہو کر ادارہ جاتی تسلسل اختیار کریں۔ سوم، عدالتی و قانونی پیچیدگیاں ایسی سطح پر پہنچ چکی ہیں کہ ہر قدم کی ایک قیمت ہے—اور وہ قیمت صرف ایک فریق نہیں چکاتا۔ ان محرکات کے بیچ اگر قیدی نمبر 804 کو راستہ دینے کی بحث شدت پکڑتی ہے تو اسے اصول و مفاد کے بیچ توازن کی ایک نئی کوشش سمجھا جائے۔

تاہم خطرات کم نہیں۔ سب سے بڑا خطرہ بیانیہ کی “اوور مینجمنٹ” ہے۔ اگر رائے عامہ یہ محسوس کر لے کہ کالم نگار محض ترسیلِ پیغام کے مہرے ہیں تو تحریر کی ساکھ متاثر ہوگی، اور سچ کے گرد کھڑی کی گئی کوئی بھی عمارت کمزور بنیادوں پر کھڑی نظر آئے گی۔ دوسرا خطرہ یہ کہ مفاہمتی اشارے اگر عملی اقدامات سے نہ جڑیں تو توقعات اور حقائق کے بیچ خلیج پیدا ہوگی—جو پھر کسی بھی وقت سیاسی ارتعاش کو فکری بھونچال میں بدل سکتی ہے۔ تیسرا، اسٹیبلشمنٹ کے اندر بھی تمام طبقات ہم آواز نہیں ہوتے؛ داخلی اختلاف کسی بھی “نئے فارمولے” کو نیم پختہ چھوڑ سکتا ہے۔

قیدی نمبر 804 کی حکمتِ عملی بھی کم اہم نہیں۔ اگر وہ اپنی علامتی طاقت کو ادارہ جاتی ڈھانچے کے ساتھ کسی “نیو سوشل کنٹریکٹ” میں ڈھالنے پر آمادہ ہوتے ہیں تو شاید سیاست ٹکراؤ سے مکالمے کی طرف لوٹ آئے۔ لیکن اگر وہ اپنی مقبولیت کو محض ماضی کے حساب چکانے کے لیے بروئے کار لائیں گے تو “وننگ نارٹیو” بھی نظامی تصادم سے تھک ہار کر ہنگامی بندوبست کے سپرد ہو سکتا ہے۔ یوں بیانیہ کی جیت، حکمرانی کی ہار میں بدل سکتی ہے—اور یہ وہ موڑ ہوگا جہاں سب جیت کر بھی ہار جائیں گے۔

کالم نگاروں کے لیے اس سارے منظرنامے میں اخلاقی سوال سب سے بڑا ہے: کیا قلم طاقت کی دربار داری کے لیے ہے یا عوامی مفاد کے نگہبان کے طور پر؟ صحیح مقام وہی ہے جہاں کالم نگار ریاستی اور سیاسی مفاد کے بیچ خطِ امتیاز کو روشن رکھے، خبر اور رائے کے فرق کو واضح رکھے، اور “رسائی” کی لذت کو “حقیقت” کی قیمت پر نہ بیچے۔ ورنہ تاریخ کے کوڑے دان میں سب سے پہلے وہی تحریریں پھینکی جاتی ہیں جو لمحاتی فائدے کے لیے ابدی اصول قربان کر دیتی ہیں۔

یہ مرحلہ گواہی مانگ رہا ہے: کیا ہم ایک ایسے سیاسی بیانیے کی طرف بڑھ رہے ہیں جو ادارہ جاتی احترام اور عوامی مینڈیٹ دونوں کو جگہ دے؟ یا پھر ایک بار پھر بیانیہ سازی کی مشق ہمیں وقتی سکون دے کر دیرپا بے سکونی کے سپرد کر دے گی؟ فیصلہ بہرحال بند کمروں میں نہیں، کھلے میدان میں ہوگا—جہاں قاری کا شعور، ووٹر کی مہر اور معیشت کی حقیقت، سب مل کر کسی بھی “لکھے گئے” اسکرپٹ کو “ہونے والے” انجام میں ڈھال دیتے ہیں۔
طاقت کے کھیل میں قیدی نمبر 804 اب محض ایک فرد نہیں بلکہ پورے نظام کے اعصاب پر سوار ایک سوال بن چکا ہے۔

پاکستان میں مون سون کے خوفناک دوسرے مرحلے کاآغازہوگیا ملک کے بالائی/شمالی علاقوں میں 14 سے 23 اگست کے دوران شدید ترین با...
14/08/2025

پاکستان میں مون سون کے خوفناک دوسرے مرحلے کاآغازہوگیا
ملک کے بالائی/شمالی علاقوں میں 14 سے 23 اگست کے دوران شدید ترین بارشوں کا امکان
سیاح 14 سے 19 اگست کے دوران تمام سیاحتی مقامات پر جانے سے مکمل اجتناب کریں

آج کا پاکستان — آزادی کی تکمیل کب ہوگی؟تحریر: عابد ایوب اعوان78 برس قبل 14 اگست 1947ء کو برصغیر کے مسلمانوں نے ایک ایسے ...
13/08/2025

آج کا پاکستان — آزادی کی تکمیل کب ہوگی؟
تحریر: عابد ایوب اعوان

78 برس قبل 14 اگست 1947ء کو برصغیر کے مسلمانوں نے ایک ایسے وطن کا خواب حقیقت بنایا، جہاں وہ آزادی، خودمختاری اور اپنی دینی اقدار کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ یہ آزادی لاکھوں جانوں کی قربانی، ہجرت اور بے شمار مشکلات کے بعد حاصل ہوئی۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آج کا پاکستان اس خواب کی حقیقی تصویر ہے؟

قیامِ پاکستان کے بعد سے ہم نے سیاسی عدم استحکام، آئینی بحران، آمریت اور جمہوریت کی کشمکش، معاشی مشکلات، بدانتظامی اور کرپشن کے ادوار دیکھے۔ دہشت گردی اور بیرونی دباؤ کے باوجود پاکستان نے ایٹمی قوت بن کر دنیا میں اپنی شناخت قائم کی، سی پیک جیسے منصوبے شروع کیے اور نوجوانوں نے کھیل، سائنس اور ٹیکنالوجی میں عالمی سطح پر نام کمایا۔

تاہم آج بھی مہنگائی، بیروزگاری، تعلیمی ناہمواری، قومی اتحاد کی کمی اور موسمیاتی چیلنجز ہمارے سامنے ہیں۔ آزادی کی اصل روح اس وقت پوری ہوگی جب ہر شہری کو انصاف، معیاری تعلیم، صحت، روزگار اور پرامن زندگی میسر ہو۔

14 اگست ہمیں ماضی کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے اور یہ پیغام دیتا ہے کہ ہم مایوسی، تقسیم اور انتشار سے نکل کر اتفاقِ رائے، محنت اور دیانت داری سے آگے بڑھیں۔ پاکستان کا مستقبل روشن ہے، مگر شرط یہ ہے کہ ہم خواب سے جاگ کر حقیقت کا سفر شروع کریں۔

10/08/2025

🌊 کوہ نمک کے پہاڑی سلسلہ سے بہتا بارشی نالہ ترپی، نمل جھیل کی جانب خوبصورت سفر پر رواں دواں 🌿⛰️
قدرت کے حسین مناظر، دل کو سکون دینے والا نظارہ! ❤️

#بارش

"نمل ڈیم: برطانوی ورثہ زوال کے دہانے پر"تحریر: عابد ایوب اعوانپاکستان کے خطہ پوٹھوہار کی سنگلاخ پہاڑیوں کے دامن میں، شہر...
10/08/2025

"نمل ڈیم: برطانوی ورثہ زوال کے دہانے پر"

تحریر: عابد ایوب اعوان

پاکستان کے خطہ پوٹھوہار کی سنگلاخ پہاڑیوں کے دامن میں، شہر اقتدار سے کراچی جانے والی ہائی وے کے کنارے واقع نمل ڈیم صرف ایک آبی ذخیرہ نہیں، بلکہ یہ برطانوی دور حکومت کی انجینئرنگ کا ایک نادر شاہکار ہے۔ 1913 میں تعمیر ہونے والا یہ ڈیم اُس وقت کے جدید ترین انجینئرنگ اصولوں کے تحت بنایا گیا تھا، جس کا مقصد نہ صرف مقامی آبادی کو پانی فراہم کرنا تھا بلکہ زراعت کو فروغ دینا اور اردگرد کے علاقوں کی معیشت کو سہارا دینا بھی تھا۔
برطانوی راج کے دوران نمل ڈیم کو سالٹ رینج (نمک کے پہاڑیوں) کے دامن میں اس لیے تعمیر کیا گیا کہ یہاں سے پانی کو نمل جھیل میں جمع کر کے قریبی دیہاتوں اور قصبوں کو سیراب کیا جا سکے۔ اس زمانے میں یہ منصوبہ اس خطے میں آبی وسائل کے بہترین انتظام کی علامت تھا۔ نمل جھیل، جو اس ڈیم کا بنیادی حصہ ہے، قدرتی خوبصورتی اور حیاتیاتی تنوع کا بھی ایک مرکز بن گئی، جہاں مچھلیاں، آبی پرندے اور مقامی نباتات پروان چڑھتے تھے۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ تاریخی ورثہ حکومتی عدم توجہی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں آ گیا۔ نمل جھیل میں گاد (سلٹ) بھرنے کے باعث ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں نمایاں کمی آ گئی ہے۔ اطراف میں غیر قانونی تعمیرات اور زرعی زمینوں میں بے تحاشہ پانی کے استعمال نے بھی ڈیم کی افادیت کو کم کر دیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں نے بارش کے پیٹرن کو متاثر کیا، جس کے نتیجے میں پانی کی آمد مزید گھٹ گئی ہے۔

مزید تشویش ناک بات یہ ہے کہ ڈیم کی انجینئرنگ ساخت پر وقت کے اثرات واضح نظر آ رہے ہیں۔ دراڑیں، کمزور پشتے اور ناقص مرمت اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ تاریخی ورثہ مکمل طور پر ناکارہ ہو سکتا ہے۔
نمل ڈیم صرف پانی کا ذخیرہ نہیں، بلکہ مقامی زراعت، مچھلی کی افزائش اور سیاحت کا بھی ایک اہم ذریعہ رہا ہے۔ جب پانی کی فراہمی کم ہوئی تو مقامی کسانوں کی پیداوار متاثر ہوئی، روزگار کے مواقع کم ہوئے اور نمل جھیل پر آنے والے سیاحوں کی تعداد بھی گھٹ گئی۔ اس سے نہ صرف مقامی معیشت بلکہ ثقافتی ورثے پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔
بدقسمتی سے نمل ڈیم کو نہ تو محکمہ آبپاشی کی ترجیحات میں وہ مقام ملا جو اس کے تاریخی اور عملی کردار کے لحاظ سے ملنا چاہیے تھا، اور نہ ہی محکمہ آثار قدیمہ نے اسے تحفظ فراہم کرنے کی سنجیدہ کوشش کی۔
1. بحالی منصوبہ: ماہر انجینئرز کی مدد سے ڈیم کی ساخت کی مرمت اور مضبوطی کی جائے۔

2. گاد نکاسی مہم: جھیل میں سے سلٹ نکال کر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بحال کی جائے۔

3. قانونی تحفظ: نمل ڈیم کو قومی ورثہ قرار دے کر اس کی غیر قانونی تعمیرات اور ماحولیاتی نقصان سے حفاظت کی جائے۔

4. سیاحت کا فروغ: نمل جھیل کو ایک محفوظ سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دی جائے، جس سے مقامی معیشت بہتر ہو۔

5. موسمیاتی حکمت عملی: بارش کے پانی کے بہتر ذخیرہ اور ماحولیاتی توازن کے لیے شجرکاری اور واٹر مینجمنٹ پالیسی اپنائی جائے۔
نمل ڈیم برطانوی دور حکومت کا ایک قیمتی ورثہ ہے جو آج اپنی بقا کی دہائی دے رہا ہے۔ اگر اربابِ اختیار نے بروقت نوٹس نہ لیا تو ہم نہ صرف ایک تاریخی یادگار سے محروم ہو جائیں گے بلکہ اس کے ساتھ جڑے قدرتی اور معاشی فوائد بھی ہمیشہ کے لیے کھو بیٹھیں گے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اس ورثے کو صرف کاغذی دعوؤں سے نہیں، بلکہ عملی اقدامات سے محفوظ بنائیں۔

05/08/2025

بھارت کی ریاست اترکھند میں خوفناک مناظر، پورے گاوں کو سیلابی ریلے نے چند سیکنڈ میں تباہ کردیا

24/07/2025
24/07/2025

9 مئی واقعات — انسداد دہشت گردی عدالت کی طرف سے پی ٹی آئی لیڈرز و کارکنان کو سنائی گئی سزائیں!
سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل ملک محمد خالد اعوان ایڈووکیٹ کا قانونی و آئینی تجزیہ ملاحظہ کریں۔
کیا یہ انصاف ہے یا سیاسی انتقام؟ سچ جاننے کے لیے مکمل ویڈیو دیکھیں۔

📺 ویڈیو دیکھیں، شیئر کریں اور اپنی رائے دیں۔

🗣️
⚖️
📆 #9مئی
📢
🚨
📰
🎥
🔴
📍
✍️
🔗

Address

Islamabad
46000

Telephone

+923015213602

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when AAA News posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share