23/11/2025
محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کا مینڈیٹ سے انحراف! پریس رجسٹرار کا پریس کلبوں سے ریکارڈ طلب کرنا محکمہ صنعت و حرفت کے اختیارات میں مداخلت قرار
غیر رجسٹرڈ اور غیر مستند اداروں کودرجنوں ایکریڈیشن کارڈ جاری! پریس رجسٹرار کی نااہلی سے جعلی صحافیوں کی بھرمار سامنے آ گئی
پریس کلبوں کے الیکشن اور ممبرشپ ریکارڈ کی طلبی پر سوالات؟ اصل ریکارڈ محکمہ صنعت و حرفت کے پاس پریس کلبوں سے تفصیلات کا حصول سمجھ سے بالا تر
قانون کے مطابق محکمہ اطلاعات کوصحافیوں کی پیشہ ورانہ تصدیق تک محدود رہنا چاہیے؛ پریس کلبوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت غیر قانونی عمل ہے
**تحقیق و رپورٹنگ: فیاض علی نور، فری لانس جرنلسٹ**
پشاور میں محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ خیبر پختون خوا کی جانب سے جاری ہونے والے ایک اہم مراسلے نے صحافتی حلقوں میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اس مراسلے میں صوبہ خیبر پختون خوا کےتمام پریس کلبوں کے صدور سے 2010 سے اب تک کے تمام انتخابات، کابینہ کے نام اور رجسٹرڈ ممبران کی مکمل فہرست مانگی گئی ہے۔ تاہم، قانونی اعتبار سے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے اسسٹنٹ پریس رجسٹرار سیکشن کا یہ عمل اپنے مینڈیٹ سے انحراف اور محکمہ صنعت و حرفت کے قانونی اختیار میں مداخلت قرار دی جا رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ پریس کلبوں کی رجسٹریشن اور الیکشن کا قانونی اختیار کس کے پاس ہے؟واضح رہے کہ پریس کلب سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ1860 کے تحت رجسٹر ہوتے ہیں، اور ان کی سالانہ تجدید، کابینہ کی فہرست، جنرل باڈی، اور ممبران کا مکمل ریکارڈمحکمہ صنعت و حرفت کے پاس جمع ہوتا ہے۔ قانون کے مطابق ہر پریس کلب کو 15 جنوری تک اپنی تازہ ترین فہرست جمع کرانی ہوتی ہے۔ اسی بنیاد پر اس کی سالانہ تجدید عمل میں آتی ہے۔قانون کے مطابق پریس کلب کے انتخابات، ممبرشپ، اور کابینہ کی توثیق محکمہ صنعت و حرفت کا مینڈیٹ ہے، نہ کہ محکمہ اطلاعات کا۔لیکن محکمہ اطلاعات کا غیر متعلقہ مراسلہ ”پرائے شادی میں عبداللہ دیوانہ کے مترادف ہے ۔جاری کردہ مراسلے میں پریس رجسٹرار نے واضح طور پر تین اہم تفصیلات طلب کی ہیں۔ جس میں 2010 سے اب تک تمام انتخابات کی تاریخ وار تفصیل اس کے علاوہ ہر مدت کے منتخب عہدیداروں کے نام اور عہدےاور ہر سال کے رجسٹرڈ ممبران کی مکمل فہرست کی تفصیلات مانگی گئی ہیں ۔ یہ تمام معلومات محکمہ صنعت و حرفت کے ریکارڈ میں پہلے ہی موجود ہوتی ہیں۔ اس لیے قانونی اعتبار سے یہ مکمل تفصیلات کی مصدقہ دستاویزات اور تفصیلات پریس کلبوں سے مانگنا محکمہ اطلاعات کی قانونی حدود سے تجاویز ہے۔ محکمہ اطلاعات اور اس کے ریجنل انفارمیشن آفیسرز کی بنیادی ذمہ داریوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ اخبارات اور چینلز کے ملازمین کی تصدیق کریں کہ آیا وہ واقعی صحافی ہیں۔ کیونکہ ہر سال میڈیا ادارے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے پاس اپنی سالانہ تجدید کے ساتھ ملازمین کی فہرست جمع کراتے ہیں۔لیکن کئی سالوں سے محکمہ اطلاعات اپنی اسی بنیادی ذمہ داری میں ناکام رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں درجن بھر سے زائد ایکریڈیشن کارڈ ایسے افراد کو جاری کیے گئے جن کا کوئی صحافتی ریکارڈ موجود نہیں۔نہ وہ کسی رجسٹرڈ ادارے سے وابستہ تھے، نہ ان کے ادارے PEMRA سے منظور شدہ تھے۔ اب انہی غیر مستند کارڈز کی منسوخی کے لیے محکمہ اطلاعات بھاگ دوڑ کر رہا ہے۔پریس کلبوں کی رجسٹریشن سے لے کر سالانہ تجدید تک تمام ریکارڈ کی سرکاری کاپی محکمہ صنعت و حرفت کے پاس ہوتی ہے۔ اسی بنیاد پر پریس کلبوں کو بطور تنظیم قانونی حیثیت دی جاتی ہے۔اس ضمن میں محکمہ اطلاعات کو چاہیے تھا کہ وہ براہ راست محکمہ صنعت و حرفت سے سرکاری ریکارڈ طلب کرتا، نہ کہ پریس کلبوں کو غیر ضروری نوٹس جاری کرتا رہے ۔ اس حوالے سے یہ تجاویز بھی عمل میں لانی چاہیے کہ محکمہ اطلاعات، محکمہ صنعت و حرفت سے ریکارڈ باضابطہ طور پر حاصل کرے اگر کوئی پریس کلب سالانہ تجدید نہیں کرا رہا تو اس کی رجسٹریشن معطل کی جائے۔* اس کلب کے صحافیوں کے ایکریڈیشن کارڈ بھی اس وقت تک معطل رہیں جب تک مکمل ریکارڈ محکمہ صنعت نہ بھیجے۔ محکمہ اطلاعات کو اپنے اصل مینڈیٹ یعنی **صحافیوں کی تصدیق** پر واپس لانا ضروری ہے۔ محکمہ اطلاعات کی جانب سے جاری ہونے والا مراسلہ نہ صرف قانونی دائرہ اختیار سے باہر ہے بلکہ یہ انتظامی کمزوریوں اور گزشتہ برسوں میں ہونے والی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی ایک کوشش بھی دکھائی دیتا ہے۔ پریس کلبوں کے معاملات میں مداخلت کے بجائے اصل حل یہ ہے کہ دونوں محکمے اپنے اپنے مینڈیٹ کے مطابق کام کریں تاکہ صحافتی اداروں کی ساکھ اور شفافیت برقرار رہ سکے۔
Kpk media
Associated Press of Pakistan
Chief Minister Khyber Pakhtunkhwa