Fayaz Ali Noor Journalist

Fayaz Ali Noor Journalist Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Fayaz Ali Noor Journalist, News & Media Website, Islamabad.

Fayaz Ali Noor is an accomplished investigative reporter active on both national and international platforms.


خیبر پختونخوا انفارمیشن کمیشن نے ڈی جی ہیلتھ سروسز کوصحافیوں کے  میڈیکل بلز کا ریکارڈ سمیت طلب کر لیا!ایک  سال گزر گیا، ...
05/08/2025

خیبر پختونخوا انفارمیشن کمیشن نے ڈی جی ہیلتھ سروسز کوصحافیوں کے میڈیکل بلز کا ریکارڈ سمیت طلب کر لیا!

ایک سال گزر گیا، محکمہ اطلاعات صحافیوں کے میڈیکل بلز کی تصدیق کی تفصیلات فراہم کرنے میں ناکام!

جرنلسٹ ویلفئیر انڈومنٹ فنڈ میں آئینی خلاف ورزی، ایک بھی بل ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کو نہ بھیجا گیا!

صحافیوں کے علاج کے فنڈز میں بے ضابطگیاں، جوڈیشل کمیشن کا قیام ناگزیر قرار!**

**پشاور ( فیاض علی نور فری لانس جرنلسٹ )**سینئر صحافی کی جانب سے "جرنلسٹ ویلفیئر انڈومنٹ فنڈ" میں مبینہ بے ضابطگیوں پر آواز بلند کیے جانے کے بعد خیبر پختونخوا انفارمیشن کمیشن نے ایک بڑا قدم اٹھا لیا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق سینئر صحافی کی جانب سے اس فنڈ کے تحت صحافیوں کے علاج کے لیے پیش کیے گئے میڈیکل بلز کی تصدیق کے حوالے سے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز پشاور سے مکمل تفصیلات طلب کی گئی تھیں، کیونکہ محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے ڈی جی نے یہ بلز تصدیق کے لیے ارسال کیے ہوں گے جو کہ ایک آئینی تقاضا تھا ۔تاہم ایک سال گزرنے کے باوجود متعلقہ محکمہ کسی بھی قسم کی معلومات فراہم کرنے میں ناکام رہا، جس پر خیبر پختونخوا انفارمیشن کمیشن نے سخت نوٹس لیتے ہوئے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈی جی ہیلتھ سروسز کو **5 اگست 2025** کو تمام ریکارڈ کے ساتھ پیش ہونے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ اس پورے عمل میں سنگین آئینی خلاف ورزی کرتے ہوئے، صحافیوں کی جانب سے علاج کی غرض سے پیش کیے گئے ایک بھی میڈیکل بل کو ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز کو تصدیق کے لیے ارسال ہی نہیں کیا گیا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تمام پراسس محض کاغذی کارروائی اور عوام کے ٹیکس سے جمع شدہ فنڈز کی بندر بانٹ کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔اس سکینڈل میں محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے ڈی جی اور جرنلسٹ ویلفیئر انڈومنٹ فنڈ کی کمیٹی کے دیگر ممبران براہ راست ملوث نظر آ رہے ہیں، جنہوں نے دانستہ طور پر حقیقی صحافیوں کو ان کے حق سے محروم رکھا تاکہ "مالِ مفت دلِ بے رحم" کے مصداق سرکاری فنڈز کی بندر بانٹ کی جا سکے۔اب یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ اگر فنڈز کے متعلقہ بلز ہی تصدیق کے لیے نہیں بھیجے گئے، تو منظوری کس بنیاد پر دی گئی؟ اور اس بدعنوانی کی بازپرس کس سے کی جائے گی؟ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس غیر آئینی اور مشکوک اقدام کی شفاف تحقیقات کے لیے فوری طور پر ایک **جوڈیشل کمیشن** کا قیام ناگزیر ہو گیا ہے تاکہ صحافی برادری کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے اور سرکاری فنڈز کے غلط استعمال میں ملوث عناصر کو بے نقاب کر کے انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔


Associated Press of Pakistan
Kpk media

**تجاوزات کے خلاف کارروائی پانی کا جھاگ ثابت، قبضہ مافیا نے دوبارہ جگہ سنبھال لی** **ٹی ایم اے عملہ صرف دفتری اوقات تک م...
28/07/2025

**تجاوزات کے خلاف کارروائی پانی کا جھاگ ثابت، قبضہ مافیا نے دوبارہ جگہ سنبھال لی**

**ٹی ایم اے عملہ صرف دفتری اوقات تک محدود، عوام شام کے بعد مستقل عذاب کا شکار**

**وزیر اعلیٰ، چیف سیکریٹری، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر سب خاموش! کوئی پائیدار حل نہ نکل سکا**

**پشاور ( فیاض علی نور فری لانس جرنلسٹ )**تحصیل شاہ عالم میں خزانہ شوگر ملز اور چارسدہ روڈ کے اطراف تجاوزات کے خلاف ٹی ایم اے کی حالیہ کارروائی صرف ایک نمائشی اقدام ثابت ہوئی۔ محض 24 گھنٹے کے اندر اندر وہی مافیا دوبارہ شام 5 بجے کے بعد سرگرم ہو گئی اور سرِعام سرکاری اراضی پر دوبارہ قابض ہو گئی۔ریڑھیوں، منی سبزی منڈی اور فٹ پاتھ پر قبضے نے ایک بار پھر عوام کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر دی ہیں، جبکہ ٹی ایم اے شاہ عالم کا عملہ صرف دفتری اوقات کار صبح 10 بجے سے سہ پہر 2 بجے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کے بعد پورے علاقے میں تجاوزات کے خلاف کوئی سرکاری نمائندہ دستیاب نہیں ہوتا۔مافیا کو اس انتظامی خلا کا بخوبی علم ہے۔ وہ جان چکے ہیں کہ جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو سرکاری دفاتر بند ہوتے ہیں، جبکہ پیر سے جمعرات تک بھی ٹی ایم اے کا عملہ بمشکل دن 11 بجے سے 2 بجے تک کسی حد تک متحرک نظر آتا ہے۔ یوں پورے ہفتے میں محض 8 گھنٹے کے لیے یہ عملہ حرکت میں آتا ہے ۔ اور وہ بھی ایسے وقت میں جب مافیا موقع سے غائب ہوتا ہے۔ باقی تمام اوقات میں عوام تجاوزات کی اذیت برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔افسوسناک امر یہ ہے کہ تجاوزات کے مستقل مسئلے پر نہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کوئی قابلِ عمل حکمت عملی بنا سکے، نہ چیف سیکریٹری شہاب علی شاہ حرکت میں آئے، اور نہ ہی کمشنر، ڈپٹی کمشنر یا اسسٹنٹ کمشنر کی سطح پر کوئی عملی قدم اٹھایا گیا۔مقامی نمائندوں اور اعلیٰ افسران کی مسلسل بے حسی نے عوام کو شدید مایوسی سے دوچار کر رکھا ہے۔ عوامی شکایات اور میڈیا رپورٹنگ کے باوجود کوئی پائیدار، مربوط اور 24 گھنٹے فعال نظام ابھی تک نافذ نہیں ہو سکا۔ سوال یہ ہے کہ اگر تجاوزات ایک دن میں واپس آ سکتی ہیں تو پھر ان نمائشی کارروائیوں کا مقصد کیا ہے؟عوام مطالبہ کر رہے ہیں کہ یا تو تجاوزات کے خلاف مؤثر اور مستقل اقدامات کیے جائیں، یا پھر سرکاری دعوؤں کو جھوٹا قرار دے کر ان اداروں کی کارکردگی کا کھل کر احتساب کیا جائے۔


Associated Press of Pakistan
Kpk media
ShahAlam ShahAlam
Chief Minister Khyber Pakhtunkhwa

کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گیا ڈرائیونگ لائسنس،اور کوئی ہماری طرح عمر بھر چکر میں رہا!وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور  اور س...
24/07/2025

کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گیا ڈرائیونگ لائسنس،اور کوئی ہماری طرح عمر بھر چکر میں رہا!

وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اور سیکرٹری ٹرانسپورٹ خواب خرگوش میں، عوام ذلیل و خوارہونے لگے

ڈرائیونگ لائسنس کارڈ کی پروکیورمنٹ کمیٹی صرف واٹس ایپ پر چل رہی ہے؟ تین ماہ سے اجلاس ملتوی ۔کارڈ خریداری ناممکن

نہ پرنٹنگ، نہ نظام، صرف بہانے!ڈرائیونگ لائسنس کا حصول عوام کے لیے بدترین عذاب۔ بیرون ملک جانے والے شدید متاثر

صوبہ بھر کے عوام کو لائسنس کے انتظار میں دانستہ طور پر مجبور کر کے رشوت لےکر منظور نظر کو فراہمی معمول بن گای ، محکمہ ٹرانسپورٹ مکمل مفلوج

پشاور (فیاض علی نور، فری لانس صحافی)کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گیا لائسنس، اور کوئی ہماری طرح عمر بھر چکر میں رہا۔ یہ آج کے خیبر پختونخوا کے ان ہزاروں شہریوں کا نوحہ ہے، جو ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے لیے محکمہ ٹرانسپورٹ کےدفتر واقع بنولنٹ فنڈ بلدنگ صدر کے باہر ذلیل و خوار ہو رہے ہیں ۔ جبکہ سیکرٹری ٹرانسپورٹ، پروکیورمنٹ انچارج اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا مبینہ طور پر مجرمانہ غفلت اور بے حسی کا مجسم نمونہ بنے ہوئے ہیں۔ ایک سنجیدہ اور چشم کشا سرکاری مراسلہے نے سارا پول کھول کر رکھ دیا ہے، جس میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر شوکت خان نے نہایت واضح انداز میں بتایا ہے کہ پروکیورمنٹ کمیٹی 14 اپریل 2025 کو تشکیل دی گئی، لیکن 3 ماہ گزرنے کے باوجود نہ صرف لائسنس کارڈز پرنٹنگ کا عمل شروع نہیں ہو سکا بلکہ **کمیٹی کے اجلاس تک منعقد نہیں ہو رہے**۔ واٹس ایپ گروپ پر "معذرت" کے پیغامات بھیجے جاتے ہیں، اور ڈرائیونگ لائسنس کے لیے مخصوص اور مہنگے کارڈز کے لیے اجلاس ملتوی کر دی جاتی ہیں۔ مراسلے میں انکشاف ہوا ہے کہ 7 جولائی کی میٹنگ بھی محض 14 منٹ قبل ملتوی کی گئی، وہ بھی واٹس ایپ پر۔ کیا عوامی مسائل اب سرکاری دفتروں میں نہیں بلکہ فون پر حل ہوں گے؟ سیکرٹری ٹرانسپورٹ اور پروکیورمنٹ کمیٹی انچارج کی یہ مجرمانہ سستی اور غیر سنجیدگی ناقابل معافی ہے۔ہزاروں کی تعداد میں شہری خصوصاً چارسدہ، بونیر، دیر، کوہاٹ، کرک، وزیرستان اور تورغر جیسے اضلاع سےروزانہ پشاور پہنچتے ہیں، لمبی قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں، مگر جواب ملتا ہے: "کارڈز ختم ہیں سسٹم بند ہے، پرنٹنگ نہیں ہو رہی"۔ عوام کا وقت، پیسہ اور امیدیں برباد ہو رہی ہیں، اور ذمہ دار افسران دفاتر میں آرام فرما رہے ہیں۔اس تمام تر صورت حال پر وزیراعلیٰ خیبر پختونخو ا علی امین گنڈا پور جس کے قول اور فعل میں ہمیشہ تضاد رہا ہے کی مسلسل خاموشی لمحۂ فکریہ ہے۔ اگر ایک چھوٹے سے محکمہ میں اتنی شدید بدنظمی ہو اور تین ماہ تک لائسنس جاری نہ ہو سکیں تو پھر "گڈ گورننس" کے دعوے کہاں گئے؟ کیا یہ نیا پاکستان ہے، یا "نئی ذلت"؟اس ضمن میں یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ پروکیورمنٹ کمیٹی کے سربراہ، سیکرٹری ٹرانسپورٹ، اور متعلقہ افسران کے خلاف فوری انکوائری کی جائے۔ جان بوجھ کر اوعر دانستہ طور پر تین ماہ سے زیر التواء پرنٹنگ پروسیس کو فوری بحال کیا جائے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا فوری طور پر عوام کو جواب دہ ہوں۔* تمام اجلاس کی کارروائی عوام کے سامنے لائی جائے تاکہ احتساب ممکن ہو۔



Associated Press of Pakistan
KP Elementary & Secondary Education Department
I am Pakistan with Faisal mumtaz.
Directorate Of Transport & Mass Transit Khyber Pakhtunkhwa
Chief Minister Khyber Pakhtunkhwa

صوبائی محتسب خیبر پختونخوا پر غیر قانونی بھرتیوں اور اختیارات کے غلط استعمال کے سنگین الزامات! تحقیقات  ناگزیر ** جعلی ا...
23/07/2025

صوبائی محتسب خیبر پختونخوا پر غیر قانونی بھرتیوں اور اختیارات کے غلط استعمال کے سنگین الزامات! تحقیقات ناگزیر **

جعلی این او سیز، سیاسی سفارشات اور بے ضابطہ ڈیپوٹیشنز ، رئیس احمد کی متنازع ترقیاتی داستان، لا منسٹر و محتسب بھی احتساب کے کٹہرے میں ؟**

(پشاور – خصوصی رپورٹ: فیاض علی نور، فری لانس صحافی)** صوبائی محتسب خیبر پختونخوا سید جمال الدین شاہ کے خلاف غیر قانونی بھرتیوں، اختیارات کے ناجائز استعمال اور سیاسی اثر و رسوخ کے تحت تقرریوں کے سنگین الزامات سامنے آئے ہیں۔ یہ الزامات ایک خفیہ تحریری بیان کی صورت میں ایک سینئر صحافی کو موصول ہوئے ہیں، جسے عوامی مفاد میں شائع کیا جا رہا ہے۔ تاہم یہ الزامات فی الحال یکطرفہ ہیں اور ان کی آزادانہ تحقیقات ضروری ہیں۔تاہم محکمہ اینٹی کرپشن کی جانب سے مراسلوں نے اس شک کو یقین میں بدلنے میں اہم کردار ادا کردیا ہے دیکھنا ہے کہ اینٹی کرپشن اس کی آزادانہ تحقیق اور تفتیش میں کیا بیاں جاری کرتی ہے وہ قبل ازوقت ہے ۔ ذرائع کے مطابق، سید جمال الدین شاہ نے اپنے عہدہ سنبھالنے کے بعد دفتر صوبائی محتسب میں جتنی بھی بھرتیاں کیں، وہ مبینہ طور پر ادارے کے سروس رولز کی عدم موجودگی کے باعث غیر قانونی تصور کی جا سکتی ہیں۔ دفتر کے رولز تاحال زیر التوا ہیں، اور اسمبلی سے اس بارے میں باضابطہ طور پر مطلع بھی کیا جا چکا ہے کہ جب تک رولز منظور نہیں ہوتے، نئی بھرتیاں خلافِ قانون ہوں گی۔مذکورہ الزامات میں ایک نمایاں نام رئیس احمد کا ہے، جنہیں سابق وزیر اعلیٰ محمود خان کے دور میں دفتر محتسب میں رجسٹرار کے طور پر تعینات کیا گیا۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ رئیس احمد کو قواعد کے بغیر بھرتی کیا گیا، اور بعد میں آفتاب عالم کی سفارش پر انہیں جعلی این او سی کے ذریعے بطور **پرسنل اسسٹنٹ (پی اے)** محکمہ قانون میں تعینات کیا گیا۔تحریری بیان میں مزید دعویٰ کیا گیا ہے کہ رئیس احمد نے بطور پی اے محکمہ قانون کے ماتحت اداروں میں بھرتیوں کے بدلے مبینہ طور پر مالی فوائد حاصل کیے۔ ان پر الزامات ہیں کہ انہوں نے قلیل مدت میں نئی گاڑی، قیمتی موبائل فونز، اور حیات آباد میں دو رہائش گاہیں حاصل کیں۔ جن کے ذرائع آمدن کی تحقیقات ہونی چاہیے۔رئیس احمد کو بعد ازاں صوبائی اسمبلی میں **ڈپٹی سیکریٹری** کے طور پر ڈیپوٹیشن پر بھیجنے کے لیے بھی مبینہ طور پر قواعد کو پامال کیا گیا۔ قانونی تقاضے کے مطابق، کوئی بھی ملازم ایک ڈیپوٹیشن مکمل کرنے کے بعد اپنے اصل محکمے میں کم از کم تین سال کی سروس کے بغیر نئی ڈیپوٹیشن نہیں لے سکتا۔ تاہم دعویٰ کیا گیا ہے کہ محتسب نے رئیس کو دوبارہ جعلی این او سی جاری کر کے غیر قانونی طریقے سے تعیناتی ممکن بنائی۔یہ بھی الزام ہے کہ دفتر محتسب میں خالی ہونے والی ڈپٹی سیکریٹری کی نشست کے لیے محکمے کے اندر موجود اہل ملازمین کو نظر انداز کر کے سمری تیار کی گئی کہ یہ سیٹ باہر سے پُر کی جائے گی۔ محکمے کے ملازمین نے اس پر احتجاج کیا اور چیف سیکریٹری کو شکایت کی، جس کے بعد سمری منسوخ کر دی گئی۔اس ساری صورت حال میں ایک بنیادی قانونی سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ محتسب جمال الدین شاہ خود کس قانونی بنیاد پر ایک سال سے زائد عرصے تک **بطور قائم مقام (ایکٹنگ) محتسب** خدمات سرانجام دیتے رہے، جبکہ محتسب کے ایکٹ میں ایسی کوئی گنجائش موجود نہیں۔یہ تمام الزامات ایک فرد کے بیان پر مبنی ہیں اور ان کی ابھی آزادانہ تحقیق نہیں ہوئی۔ صحافتی ضابطہ اخلاق کے مطابق کسی بھی خبر میں فریقین کا مؤقف شامل کیا جانا ضروری ہے۔ اس خبر کی اشاعت کا مقصد متعلقہ اداروں، بشمول اینٹی کرپشن، چیف سیکریٹری آفس، اور دیگر نگرانی کے اداروں کو تحقیق کی جانب متوجہ کرنا ہے۔خبر کی اشاعت کے وقت تک محتسب خیبر پختونخوا، رئیس احمد، آفتاب عالم، یا دیگر کسی متعلقہ فریق کا مؤقف حاصل نہیں ہو سکا۔ ان کا مؤقف موصول ہونے کی صورت میں اسے بھی اس خبر کا حصہ بنایا جائے گا۔
Everyone is Included-All People, All Places, All Ways


Kpk media

نوٹ !!!! خان بہادر صاحب  کو یہ خبر بطور ایک پیشہ ور اور اصلاحاتی تجویز کے پیش کی جا رہی ہے تاکہ ان کی فعال قیادت میں ایک...
20/07/2025

نوٹ !!!! خان بہادر صاحب کو یہ خبر بطور ایک پیشہ ور اور اصلاحاتی تجویز کے پیش کی جا رہی ہے تاکہ ان کی فعال قیادت میں ایک مثبت اور پائیدار تبدیلی کا آغاز ہو سکے۔

*ڈپٹی کمشنر پشاور کے دفتر میں سائلین کی رہنمائی کے لیے مستقل عوامی سہولت مرکز قائم کرنے کا مطالبہ*

*ڈی سی آفس کا عملہ عوامی خدمات رہنمائی اور رسائی میں مدد دینے میں ناکام، رہنمائی کاؤنٹر کی عدم دستیابی سائلین کے لیے اذیت بن گئی*

*پشاور کی پانچوں تحصیلوں میں رہنمائی کاؤنٹر قائم کرنے کی تجویز، ضلعی سطح پر سائلین کے لیے یکساں سہولت کا مطالبہ*

**پشاور (فیاض علی نور فری لانس جرنلسٹ )**پشاور کےخان صاحب بہادر بالفاظ دیگر ڈپٹی کمشنر سرمد سلیم اکرم، جو اپنی عوامی خدمات، فعال طرزِ حکمرانی اور شفاف اقدامات کے لیے جانے جاتے ہیں، کی توجہ ایک ایسے اہم معاملے کی طرف دلائی گئی ہے جو روزانہ کی بنیاد پردرجنوں سائلین کو مشکلات میں ڈالے ہوئے ہے۔صوبائی دارلخلافہ ہونے کے باعث ڈپٹی کمشنر پشاور کا دفتر اگرچہ شہریوں کے مسائل کے حل کا مرکز سمجھا جاتا ہے، تاہم اس دفتر کے ساتھ منسلک جوڈیشل کمپلیکس اور کچہری کے باعث مختلف اضلاع سے آنے والے سائلین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ عدالتوں میں پیش کیے گئے اہم دستاویزات کی تصدیق، محافظ خانہ، قانون گو دفتر، جائیداد کی ملکیت اور دیگر قانونی پیچیدگیوں میں الجھے شہری جب ڈی سی آفس کا رخ کرتے ہیں، تو انہیں کسی بھی قسم کی ابتدائی رہنمائی میسر نہیں ہوتی۔سینئر صحافی کو دفتر میں موجود ایک خدا ترس اور عوام دوست اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سائلین پورا دن کبھی ایک دفتر تو کبھی دوسرے دروازے کی خاک چھانتے رہتے ہیں۔ انہیں نہ کوئی منزل مقصود اور رہنمائی فراہم کیا جاتا ہے، نہ ہی کوئی ایسا مستقل معلوماتی کاؤنٹر موجود ہے جو ان کی رہنمائی کر سکے۔ اکثر سائل لاعلمی اور پریشانی کے باعث یا تو وقت ضائع کرتے ہیں یا مایوس لوٹ جاتے ہیں۔
اہلکار کے مطابق، اگر ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں داخلے پر سینئر یا کم از کم تربیت یافتہ جونئیر کلرک تعینات کیے جائیں جو روزانہ صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک عوام کی رہنمائی کریں، تو ایک بڑی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ دفتر میں موجود کمپیوٹر سسٹمز کو فلمیں دیکھنے یا غیر ضروری کاموں کے بجائے سائلین کی رجسٹریشن کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس عمل کے تحت آنے والے سائل کا شناختی کارڈ نمبر، موبائل نمبر، کام کی نوعیت اور متعلقہ سیکشن کا اندراج کیا جائے تاکہ نہ صرف عوام کو سہولت ملے بلکہ ڈپٹی کمشنر کے پاس بھی سائلین کی آمد و رفت اور دفتری کارکردگی کا مکمل ڈیٹا موجود ہو۔یہ اقدام نہ صرف شفافیت کو فروغ دے گا بلکہ سائلین کا ادارے پر اعتماد بھی بحال کرے گا۔ ہر ماہ ایک دن مخصوص کر کے سائلین سے فون پر ان کی شکایات اور اطمینان کی سطح کے بارے میں معلوم کیا جا سکتا ہے تاکہ دفتر کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے۔اہلکار نے یہ بھی انکشاف کیا کہ بعض سٹاف ممبران صرف نام کے کام کرتے ہیں جبکہ اپنی اصل ذمہ داریوں سے غافل ہوتے ہیں۔ وہ عوامی خدمت کے بجائے صرف 'خرچہ پانی' اور ذاتی مفادات کے چکر میں لگے رہتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ڈپٹی کمشنر پشاور سرمد سلیم اکرم کو نہ صرف فوری طور پر ایک باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کرنا چاہیے بلکہ اس سسٹم کو مستقل بنیادوں پر رائج کیا جانا چاہیے، تاکہ ان کے تبادلے کے بعد بھی یہ عوامی سہولت جاری و ساری رہے۔اہم تجویز یہ بھی دی گئی ہے کہ یہی رہنمائی کاؤنٹر کا نظام پشاور کی تمام پانچوں تحصیلوں میں بھی قائم کیا جائے تاکہ شہریوں کو داخل ہوتے ہی معلومات اور رہنمائی حاصل ہو اور وہ کسی غیر ضروری پریشانی سے بچ سکیں۔
Deputy Commissioner Peshawar

** محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے نالائق افسران  سابق سیکریٹری کو لے ڈوبے، موجودہ سیکریٹری  بھی خطرے کی زد میں****سپریم ...
19/07/2025

** محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے نالائق افسران سابق سیکریٹری کو لے ڈوبے، موجودہ سیکریٹری بھی خطرے کی زد میں**

**سپریم کورٹ سے شکست کے بعد صوبائی حکومت کے لیے شرمندگی کا خدشہ؛ ڈی جی انفارمیشن کی تعیناتی قانونی بحران میں بدل گئی**

**ایک پھول دو مالی ! سروس ٹریبونل میں معطل ڈی جی کی تنخواہ کے کیس میں تکنیکی پیچیدگیاں! عدالت کی برہمی کا سبب بن سکتی ہے ؟ **

**سیکریٹری انفارمیشن اور سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ عدالتی سرزنش سے بچنے کے لیے قانونی اور آئینی تقاضوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائے **

** ماورائے آئین اور زمینی حقائق کے برعکس جرنلسٹ ویلفیئر فنڈ میں مبینہ بندر بانٹ، بیشتر پریس کلب عدالت جانے کو تیار **

پشاور(فیاض علی نورفری لانس جرنلسٹ )محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ خیبر پختون خوا ہ میں گہرے ہوتے انتظامی انتشار اور اندرونی سازشوں نے نہ صرف ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچایا بلکہ قابل افسران کی راہ میں بھی کانٹے بچھا دیے۔ ذرائع کے مطابق سابق سیکریٹری کو محکمے کے اندر موجود ایک گروہ کی مسلسل ریشہ دوانیوں اور نااہلی کے باعث کروڑوں روپے لیپس ہونے کا الزام دے کر عہدے سے ہٹایا گیا، حالانکہ اصل ذمے دار وہ افسران تھے جو فائلیں روک کر اور فیصلے تاخیر سے لے کر پورے نظام کو مفلوج کیے ہوئے تھے۔اب یہی بحران حالیہ سیکریٹری انفارمیشن کے دروازے پر بھی دستک دے رہا ہے۔ اگرچہ موجودہ سیکریٹری کو ایک انتہائی قابل اور پیشہ ور افسر مانا جاتا ہے، لیکن ذرائع کے مطابق وہ اس وقت ’’پھونک پھونک کر قدم‘‘ رکھ رہے ہیں۔ ان کے گرد موجود ناتجربہ کار اور بدنیت عناصر ان کی کارکردگی کو متاثر کر رہے ہیں، جس کے باعث وہ کھل کر فیصلے نہیں کر پا رہے۔ اگر یہی حالات رہے تو ان کا انجام بھی سابق سیکریٹری جیسا ہو سکتا ہے۔جو کہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ جس کی ایک وجہ سروس ٹریبونل میں معطل ڈائریکٹر جنرل انفارمیشن کی تنخواہ بندش کا کیس تکنیکی پیچیدگیاں عدالت کی برہمی کا سبب بن سکتی ہیں۔ جو کہ بدنیتی اور ذاتی عناد تک پہنچ چکی ہے۔ معطل ڈی جی انفارمیشن کا تنخواہ بندش کا کیس ایک ایسی قانونی گتھی بن چکا ہے جو کھلنے کے بجائے اور الجھ رہی ہے۔ محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ نے سروس ٹریبونل کے سامنے یہ مؤقف پیش کیا ہے کہ عدالت کے احکامات کے تحت ان کی تنخواہ کیلئے اکاؤنٹنٹ جنرل آفس میں کاغذات جمع کئے گئے ہیں تاہم اصل حقائق سے عدالت کو لاعلم رکھا گیا ہے کونکہ تکنیکی رکاوٹوں کے باعث تنخواہ کی ادائیگی ممکن نہیں۔ جس کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ گریڈ 20 کے افسر کے لیے دستیاب اکاونٹنٹ جنرل کی جانب سے خاص پوزیشن کوڈ پہلے ہی موجودہ حالیہ ڈائریکٹر جنرل انفارمیشن کو الاٹ کیا جا چکا ہے۔ اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر کے مطابق ایک ہی وقت میں ایک پوزیشن کوڈ پر صرف ایک افسر کو تنخواہ دی جا سکتی ہے، اس لیے معطل ڈی جی کے لیے تنخواہ کی ادائیگی ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مبینہ کاروائی کے باوجود تنخواہ رُکی ہوئی ہے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عدالت اس تکنیکی کوتاہی کو نظرانداز نہیں کرے گی اور سیکریٹری انفارمیشن یا سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کو کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے۔اور اس نااہلی اور ذاتی عناد کی بنیاد پر کیا جانے والے عمل میں کرے کوئی اور بھرے کوئی والی کہانی بن سکتی ہے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے کیس ہارنے کے بعد صوبائی حکومت کے لیے مزید شرمندگی کا خدشہ پیدا ہو چکا ہے کیونکہ اب ڈائریکٹر جنرل انفارمیشن کی تعیناتی قانونی بحران میں بدل گئی ۔ کیونکہ یہ انکشاف ہوا تھا ۔ کہ موجودہ ڈی جی انفارمیشن کی تعیناتی ایک "خالی آسامی " ظاہر کی گئی پوسٹ پر کی گئی، جس کی تکنیکی اور قانونی حیثیت مشکوک ہے۔کیوں کہ حکومت نے جس پوسٹ کو خالی ظاہر کر کے تقرری کی، وہ درحقیقت قانونی طور پر خالی نہیں تھی، کیونکہ اس پر پہلے ہی ایک معطل افسر موجود ہے جس کی تنخواہ اب بھی عدالت کے فیصلے کی منتظر ہے۔
یہ تعیناتی نہ صرف غیر شفاف قرار دی جا رہی ہے بلکہ اس کی وجہ سے ایک باقاعدہ پوزیشن پر دو دعویدار بن چکے ہیں۔ محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے ایک ذمہ دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر صحافی کو بتایا کہ حکومت کو ممکنہ طور پر یہ فیصلہ واپس لینا پڑے گا یا ایک نئی پوزیشن تخلیق کرنی ہو گی۔جو کہ اس وقت ناممکن ہے ۔ اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو عدالت میں ہزیمت کے ساتھ ساتھ سیاسی شرمندگی کا سامنا بھی حکومت کو کرنا پڑ سکتا ہے۔
دوسری جانب ماورائے آئین اور زمینی حقائق کے برعکس جرنلسٹ ویلفیئر فنڈ میں مبینہ بندر بانٹ پر بیشتر پریس کلب عدالت جانے کو تیار ہو چکے ہیں ۔
اور جرنلسٹ ویلفئیر انڈومنٹ فنڈ کمیٹی مین غیر رجسٹرڈ یونین سمیت فنڈ کی تقسیم میں شدید بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔ صحافتی حلقوں اور بالخصوص محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ عوام دوست افسران میں اس حوالے سے سخت تشویش پائی جاتی ہے کہ فنڈز مخصوص چہروں کو نوازنے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں، جب کہ مستحق صحافی مسلسل نظر انداز ہو رہے ہیں۔داودزئی پریس کلب کے صدر اور متعدد سینیئر صحافی جو کہ دیگر پریس کلبوں کے عہدیداران نے اب اس معاملے پر عدالتی چارہ جوئی کی تیاری کر چکے ہیں۔ اس ضمن میں آئندہ چند دنوں میں پشاور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی جائے گی، جس میں عدالت سے استدعا کی جائے گی کہ فنڈز کی شفاف اور میرٹ پر تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔ اگر عدالت نے معاملے کو سنجیدگی سے لیا تو محکمہ اطلاعات ایک نئے قانونی بحران میں پھنس سکتا ہے، جس سے نہ صرف موجودہ سیکریٹری بلکہ صوبائی حکومت کی ساکھ بھی داؤ پر لگ سکتی ہے۔https://whatsapp.com/channel/0029Vb1RYN5Likg5oCUZO53G


Associated Press of Pakistan
Kpk media
Maharashtra DGIPR

*ڈیجیٹل خیبر پختون خوا یا کمیشن زدہ نظام؟ ڈیجیٹل کے نام پر دھوکہ! سٹیزن سنٹر صرف ڈومیسائل تک محدود، باقی نظام کمیشن خور ...
17/07/2025

*ڈیجیٹل خیبر پختون خوا یا کمیشن زدہ نظام؟ ڈیجیٹل کے نام پر دھوکہ! سٹیزن سنٹر صرف ڈومیسائل تک محدود، باقی نظام کمیشن خور مافیا کے شکنجے میں*

*جدید ٹیکنالوجی پر مٹی، پرانا کاغذی نظام زندہ باد! حکومت کرپٹ نظام بچانے کے لیے ای لائسنس سے خوفزدہ*

*اگر ای ڈومیسائل ممکن ہے تو ای اسلحہ و ڈرائیونگ لائسنس کیوں نہیں؟ حکومت کو کمیشن کی لت چھوڑنی ہوگی*

*"دستک" جیسی ناکام ایپس پر کروڑوں جھونکنے والے حکمران، عوامی سہولت کی ہر حقیقی کوشش سے منہ موڑ رہے ہیں*

**پشاور (خصوصی رپورٹ: فیاض علی نور فری لانس جرنلسٹ )**خیبر پختونخوا حکومت کی ڈیجیٹلائزیشن کے دعوے محض بیانات تک محدود ہوتے جا رہے ہیں، عملی اقدامات میں وہی پرانا کرپٹ نظام آج بھی پوری آب و تاب سے چل رہا ہے۔ خیبر پختونخوا انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (KPITB) کی جانب سے شہری سہولت مراکز (Citizen Facilitation Centers - CFCs) کا منصوبہ متعارف کرایا گیا، جس کا مقصد عوام کو ایک ہی چھت تلے اہم دستاویزات اور خدمات کی فراہمی ہے۔ مگر حیرت انگیز طور پر یہ شفاف اور جدید سہولت صرف " ای ڈومیسائل سرٹیفکیٹ" تک محدود رکھی گئی ہے، جب کہ باقی اہم خدمات جیسے ڈرائیونگ لائسنس، اسلحہ لائسنس، پیدائش و وفات کے سرٹیفکیٹ، نکاح و طلاق کی رجسٹریشن وغیرہ ابھی تک انہی پرانے کمیشن زدہ مراحل سے گزر رہی ہیں۔تفصیلات کے مطابق، KPITB کی پیش کردہ Citizen Facilitation Centers کا مقصد عوام کو ایک شفاف، آسان اور کم خرچ نظام فراہم کرنا ہے، جہاں تمام اہم سرکاری دستاویزات کا حصول ایک ہی جگہ ممکن ہو۔ اس کا وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ پہلے مرحلے میں پشاور میں مرکز قائم ہوگا اور بعد میں اسے دیگر اضلاع تک وسعت دی جائے گی۔
تاہم، جب KPITB جیسے اہم ادارے نے اس جدید ماڈل کی بنیاد رکھ دی، تو پھر "دستک" اور دیگر جیسی ناقص ایپ کا متعارف کرانا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ایک طرف عوام کے لیے ای ڈومیسائل جیسی سہولت دستیاب ہے، تو دوسری جانب مہنگے اور رنگ برنگی فیچرز کے حامل ڈرائیونگ لائسنس اور اسلحہ لائسنس کو ڈیجیٹل نظام سے باہر رکھ کر پرانے کاغذی نظام اور اس کے ساتھ وابستہ کمیشن اور کرپشن کو زندہ رکھا گیا ہے۔ کیا یہ محض غفلت ہے یا پھر شعوری طور پر کرپشن کا راستہ کھلا رکھا گیا ہے؟یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ڈرائیونگ لائسنس اور اسلحہ لائسنس کے روایتی طریقہ کار میں کروڑوں روپے کی کرپشن، کمیشن، اور سفارشی نظام پنپ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت اور اس سے وابستہ خوشامدی و مفاد پرست بیوروکریسی اس عمل کو شفاف بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ عوام کی سہولت کی باتیں صرف تقاریر اور کانفرنسوں تک محدود ہیں، زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔یہ عوام کا بنیادی حق ہے کہ انہیں ہر اہم دستاویز کی سہولت ایک ہی مرکز پر اور ایک ہی پلیٹ فارم سے دی جائے۔ حکومت اگر واقعی شفافیت کی دعویدار ہے تو وہ **فوری طور پر Citizen Facilitation Centers میں تمام اہم عوامی خدمات جیسے ڈرائیونگ لائسنس، اسلحہ لائسنس، پیدائش/وفات کے سرٹیفکیٹس، نکاح/طلاق رجسٹریشن، گاڑیوں کی منتقلی، شناختی کارڈ کی تصدیق** وغیرہ کو ای سسٹم میں شامل کرے۔اگر ای ڈومیسائل ممکن ہے تو ای لائسنس کیوں نہیں؟ اگر ایک کاغذی دستاویز کو ڈیجیٹل کیا جا سکتا ہے تو دوسرے کیوں نہیں؟ جواب حکومت کو دینا ہوگا!شہری سہولت مراکز ایک بہترین اور انقلابی قدم ہو سکتے ہیں بشرطیکہ اسے سنجیدگی سے اپنایا جائے۔ بصورتِ دیگر یہ منصوبہ بھی کئی دیگر سرکاری دعوؤں کی طرح صرف ایک فائل یا سلوگن بن کر رہ جائے گا۔ عوام کی نظریں حکومت پر ہیں، اور سوال واضح ہے: **ڈیجیٹل پاکستان یا کمیشن زدہ پاکستان؟**
@topfans
Associated Press of Pakistan
Khyber Pakhtunkhwa Information Technology Board - KPITB
Deputy Commissioner Peshawar
Kpk media
Federal Investigation Agency - FIA
Blue
Associated Press of Pakistan

HI BIJLI
15/07/2025

HI BIJLI

**بی آر ٹی کے سائے میں استحصال! جون کی تنخواہیں 14 جولائی تک بھی غائب،ملازمین  فاقہ کشی کا شکار** **ٹرانس پشاور کے مالیا...
14/07/2025

**بی آر ٹی کے سائے میں استحصال! جون کی تنخواہیں 14 جولائی تک بھی غائب،ملازمین فاقہ کشی کا شکار**

**ٹرانس پشاور کے مالیاتی حربے یا بدانتظامی؟ تنخواہوں کی تاخیر پر نجی سیکیورٹی کمپنیاں سود کمانے کا انکشاف؟**

**بی آر ٹی کی نجی کمپنیوں کا منافع صرف جرمانوں سے! ملازمین کی تنخواہ "ضمانت" بنا دی گئی**

**محکمہ ٹرانسپورٹ کیوں خاموش؟ بی آر ٹی میں نجی کمپنیوں کا استحصال کھلی کرپشن کی مثال بن گیا**

**پشاور (فیاض علی نورفری لانس جرنلسٹ ) بدنام زمانہ محکمہ ٹرانسپورٹ اینڈ ماس ٹرانزٹ خیبر پختون خوا کا سب سے متنازعہ پراجیکٹ بی آر ٹی زو پشاور جو کہ خیبرپختونخوا کا سب سے نمایاں اور اربوں روپے کا منصوبہ ہے، اس کے اندر جاری بدانتظامی اور ملازمین کے استحصال نے ایک بار پھر سر اٹھا لیا ہے۔ آج 14 جولائی ہے، لیکن بی آر ٹی ٹرانس پشاور کے تحت کام کرنے والی مختلف نجی کمپنیوں سے منسلک سینکڑوں ملازمین کو اب تک ماہ جون کی تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں۔تفصیلات کے مطابق بی آر ٹی میں کام کرنے والے اہلکاروں کو ہر ماہ 25 تاریخ تک تنخواہ کا ڈیٹا جمع کروا دیا جاتا ہے، تاکہ یکم تاریخ کو ادائیگی ممکن ہو۔ مگر مسلسل مشاہدے میں آیا ہے کہ ہر مہینے 10 سے 15 دن کی تاخیر معمول بن چکی ہے۔ اس تاخیر کے پیچھے چھپی حقیقت جب سامنے آئی تو حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ بعض باخبر ذرائع کے مطابق ان ایام میں تاخیر شدہ رقوم پر حاصل ہونے والا **بینک سود** بھی مخصوص عناصر کا "منافع" بن چکا ہے۔دوسری طرف جب ایک سیکیورٹی کمپنی کے نمائندے سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان کی کمپنی کا بی آر ٹی کا مرکزی معاہدہ کار ادارہ ایل ایم کے آر سے بھی معاہدہ ہے، جس کے مطابق وہ اپنے سیکیورٹی اہلکاروں کو دو ماہ کی ایڈوانس تنخواہیں خود ادا کرتے ہیں، جبکہ ٹرانس پشاور بعد میں وہ ادائیگی کرتا ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ کمپنی کو اس منصوبے میں کوئی خاطر خواہ منافع نہیں، بلکہ ان کا **واحد منافع** صرف وہ "جرمانے" ہیں جو وہ ڈیوٹی کے دوران کسی بھی خلاف ورزی پر اپنے ہی اہلکاروں سے وصول کرتے ہیں۔
یہ بیان بذات خود **لیبر قوانین کی صریح خلاف ورزی اور مزدور دشمن نظام کی عکاسی** کرتا ہے، جہاں ملازمین کی محنت پر منافع کا پہیہ گھمایا جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر سیکیورٹی کمپنی دو ماہ کی ایڈوانس دے رہی ہے، تو پھر جون کی تنخواہ 14 جولائی تک کیوں نہیں ملی؟ اور وہ لیبر جو صفائی، ٹکٹنگ اور اسٹیشن ڈیوٹی پر مامور ہے، ان کے لیے بھی کوئی شفاف نظام کیوں نہیں؟**محکمہ ٹرانسپورٹ، ٹرانس پشاور اور بی آر ٹی زو سمیت تمام متعلقہ ادارے اس مجرمانہ غفلت پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں**۔ نہ کسی قسم کی مانیٹرنگ، نہ جرمانہ، نہ بازپرس! بی آر ٹی کا یہ منصوبہ جہاں اربوں کی سرمایہ کاری کی جاتی ہے، وہاں غریب مزدوروں کو 45 دن بعد تنخواہ دینا ایک **ظالمانہ مذاق** ہے۔یہ صورتحال صرف مالی نااہلی نہیں بلکہ **اداروں کی اخلاقی دیوالیہ پن** کا آئینہ ہے۔سنجیدہ حلقے چیف سیکرٹری، صوبائی محتسب اور محکمہ لیبر سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ بی آر ٹی کی کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں کو شفاف بنایا جائے، تنخواہوں کے نظام کو وقت پر یقینی بنایا جائے اور **اداروں کے اندر بیٹھے ان کالی بھیڑوں** کو بے نقاب کیا جائے جو غریب ملازمین کے پیسوں پر سود کما کر اپنا پیٹ بھر رہے ہیں۔
Zu Peshawar
Chief Minister Khyber Pakhtunkhwa
Fayaz Ali Noor Journalist

With Associated Press of Pakistan – I just got recognized as one of their top fans! 🎉
14/07/2025

With Associated Press of Pakistan – I just got recognized as one of their top fans! 🎉

اِنّالَلّٰهِ وَاِنًااِلَیّه رَاجِعُون مولنا خانزیب شہید شو
10/07/2025

اِنّالَلّٰهِ وَاِنًااِلَیّه رَاجِعُون
مولنا خانزیب شہید شو

**محکمہ اطلاعات  نے صحافی کو معلومات کی فراہمی کے بجائے "پہیلیوں" پر مبنی جواب تھما دیا** **آر ٹی آئی قانون کے تحت طلب ک...
09/07/2025

**محکمہ اطلاعات نے صحافی کو معلومات کی فراہمی کے بجائے "پہیلیوں" پر مبنی جواب تھما دیا**

**آر ٹی آئی قانون کے تحت طلب کردہ معلومات کو مبہم فقروں اور بیوروکریسی کی زبان میں دفن کرنے کی کوشش**

**صحافیوں کے ایکریڈیشن کارڈ سے متعلق قواعد پر پردہ – محکمہ اطلاعات نے سوالات کو دھوکہ دہی سے ٹال دیا**

**آر ٹی آئی قانون کو مذاق بنانا بند کریں، صحافیوں کے سوالات کا جواب فائلوں میں دفن نہ کریں**

**قواعد کہاں ہیں؟ محکمہ اطلاعات کے مبہم جواب نے شفافیت پر سوال کھڑے کر دیے**

**معلومات کے بدلے بیوروکریسی کا جھانسہ – صحافی ہائی کورٹ جانے پر مجبور**

*پشاور (خصوصی رپورٹ: فیاض علی نور فری لانس جرنلسٹ )*محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ خیبرپختونخوا نے صحافیوں کے ایکریڈیشن کارڈ سے متعلق قواعد و ضوابط کی فراہمی کے بجائے سوالات و جوابات کی صورت میں مبہم اور غیر تسلی بخش تحریر روانہ کر دی ہے، جو معلومات تک رسائی کے حق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے محکمے نے صھافی کو مطلوبہ معلومات کی عدم فراہمی کی قسم کھا رکھی ہو۔اور جان بوجھ کر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہی ہیں ۔ جس کا خمیازہ محکمے کو بھگتنا پڑے گا۔ محکمے کی جانب سے ارسال کردہ جواب نہ صرف قانون کے تقاضوں سے انحراف ہے بلکہ سنجیدہ صحافتی سوالات کو بیوروکریسی کے پچیدہ اور گھماؤ دار جملوں میں الجھانے کی کوشش ہے۔ معلومات فراہم کرنے کے بجائے ایسی تحریر جو کسی الجبرے سے کم نہیں بھیجی گئی ہے جس میں ہر سوال کے جواب میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ "سب کچھ قواعد میں موجود ہے"، مگر نہ وہ قواعد دیے گئے اور نہ ہی ان تک رسائی کا طریقہ واضح کیا گیا۔جواب میں کہا گیا کہ، * ایکریڈیشن کارڈ سے متعلق قواعد میں ترمیم قانون محکمہ میں زیر غور ہے اور منظوری کے بعد فراہم کی جائے گی۔* دیگر تمام نکات جیسے اہلیت، درخواست کا عمل، جانچ، منظوری، معیاد اور منسوخی کی تفصیل "قواعد میں موجود" ہے۔* قواعد کے مطابق تجدید کی فیس نہیں، اور اپیل و معطلی کی شقیں بھی انہی قواعد میں ہیں۔یہ تحریر خود اس بات کا ثبوت ہے کہ محکمہ معلومات دینے کے بجائے قانونی تقاضوں سے جان چھڑا رہا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ محکمہ یہ واضح کرنے میں ناکام رہا کہ وہ "قواعد" کون سے ہیں، کب بنے، کہاں دستیاب ہیں اور ان کی دستیابی ویب سائٹ یا کتابی شکل میں شکایت کنندہ کو فراہم کی جائے گی۔یہ غیر شفاف طرزِ عمل نہ صرف خیبرپختونخوا رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کی خلاف ورزی ہے بلکہ صحافتی آزادی، حقِ معلومات اور ادارہ جاتی جوابدہی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ صحافیوں سے متعلق پالیسیوں کو چھپا کر، درحقیقت محکمہ اپنی بدنظمی، اقرباپروری اور مبہم پالیسی سازی کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔اور اس میں خیبر پختون خوا انفارمیشن کمیشن بھی خود سہولت کار ی کا کردار ادا کررہی ہے کہ شہری نے معلومات کیا مانگی ہے اور فراہم کیا کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کی جانب سے بھیجا گیا یہ مراسلہ ایک تحریری درخواست اور بعد ازاں انفارمیشن کمیشن کو شکایت کرنے کے جواب میں موصول ہوا جو کہ آر ٹی آئی قانون کے تحت دی گئی تھی۔درخواست میں مندرجہ ذیل معلومات طلب کی گئی تھیں:
کہ * ایکریڈیشن کارڈ سے متعلق تازہ ترین قواعد و پالیسی* صحافیوں کے لیے اہلیت اور معیار* درخواست، جانچ پڑتال اور منظوری کا طریقہ
* کارڈ کی معیاد، تجدید کا عمل اور ممکنہ فیس* معطلی، منسوخی یا اپیل سے متعلق قانونی شقیںکس قواعد اور ضوابط کے تحت ہیں ان کی تفصیلات فراہم کرے ۔چونکہ یہ معلومات رائٹ ٹو انفارمیشن قانون کی "لازمی افشاء" کیٹگری میں آتی ہیں، اس لیے ان کی بروقت فراہمی قانونی تقاضا ہے۔
اب جبکہ ادارے کی طرف سے رسمی، مبہم اور غیر تسلی بخش جواب موصول ہو چکا ہے، صحافی نے خیبرپختونخوا انفارمیشن کمیشن میں اپیل اور صوبائی محتسب سمیت پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ عوامی مفاد میں اصل معلومات تک رسائی حاصل کی جا سکے۔

Fayaz Ali Noor
I am Pakistan with Faisal mumtaz.
Associated Press of Pakistan
Daudzai Pressclub
Kpk media

Address

Islamabad
25000

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Fayaz Ali Noor Journalist posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share