Fayaz Ali Noor Journalist

Fayaz Ali Noor Journalist Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Fayaz Ali Noor Journalist, News & Media Website, Islamabad.

Fayaz Ali Noor is an accomplished investigative reporter active on both national and international platforms.


محکمہ اطلاعات  و تعلقات عامہ کا مینڈیٹ سے انحراف! پریس رجسٹرار کا پریس کلبوں سے ریکارڈ طلب کرنا محکمہ صنعت و حرفت کے اخت...
23/11/2025

محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کا مینڈیٹ سے انحراف! پریس رجسٹرار کا پریس کلبوں سے ریکارڈ طلب کرنا محکمہ صنعت و حرفت کے اختیارات میں مداخلت قرار

غیر رجسٹرڈ اور غیر مستند اداروں کودرجنوں ایکریڈیشن کارڈ جاری! پریس رجسٹرار کی نااہلی سے جعلی صحافیوں کی بھرمار سامنے آ گئی

پریس کلبوں کے الیکشن اور ممبرشپ ریکارڈ کی طلبی پر سوالات؟ اصل ریکارڈ محکمہ صنعت و حرفت کے پاس پریس کلبوں سے تفصیلات کا حصول سمجھ سے بالا تر

قانون کے مطابق محکمہ اطلاعات کوصحافیوں کی پیشہ ورانہ تصدیق تک محدود رہنا چاہیے؛ پریس کلبوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت غیر قانونی عمل ہے

**تحقیق و رپورٹنگ: فیاض علی نور، فری لانس جرنلسٹ**

پشاور میں محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ خیبر پختون خوا کی جانب سے جاری ہونے والے ایک اہم مراسلے نے صحافتی حلقوں میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اس مراسلے میں صوبہ خیبر پختون خوا کےتمام پریس کلبوں کے صدور سے 2010 سے اب تک کے تمام انتخابات، کابینہ کے نام اور رجسٹرڈ ممبران کی مکمل فہرست مانگی گئی ہے۔ تاہم، قانونی اعتبار سے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے اسسٹنٹ پریس رجسٹرار سیکشن کا یہ عمل اپنے مینڈیٹ سے انحراف اور محکمہ صنعت و حرفت کے قانونی اختیار میں مداخلت قرار دی جا رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ پریس کلبوں کی رجسٹریشن اور الیکشن کا قانونی اختیار کس کے پاس ہے؟واضح رہے کہ پریس کلب سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ1860 کے تحت رجسٹر ہوتے ہیں، اور ان کی سالانہ تجدید، کابینہ کی فہرست، جنرل باڈی، اور ممبران کا مکمل ریکارڈمحکمہ صنعت و حرفت کے پاس جمع ہوتا ہے۔ قانون کے مطابق ہر پریس کلب کو 15 جنوری تک اپنی تازہ ترین فہرست جمع کرانی ہوتی ہے۔ اسی بنیاد پر اس کی سالانہ تجدید عمل میں آتی ہے۔قانون کے مطابق پریس کلب کے انتخابات، ممبرشپ، اور کابینہ کی توثیق محکمہ صنعت و حرفت کا مینڈیٹ ہے، نہ کہ محکمہ اطلاعات کا۔لیکن محکمہ اطلاعات کا غیر متعلقہ مراسلہ ”پرائے شادی میں عبداللہ دیوانہ کے مترادف ہے ۔جاری کردہ مراسلے میں پریس رجسٹرار نے واضح طور پر تین اہم تفصیلات طلب کی ہیں۔ جس میں 2010 سے اب تک تمام انتخابات کی تاریخ وار تفصیل اس کے علاوہ ہر مدت کے منتخب عہدیداروں کے نام اور عہدےاور ہر سال کے رجسٹرڈ ممبران کی مکمل فہرست کی تفصیلات مانگی گئی ہیں ۔ یہ تمام معلومات محکمہ صنعت و حرفت کے ریکارڈ میں پہلے ہی موجود ہوتی ہیں۔ اس لیے قانونی اعتبار سے یہ مکمل تفصیلات کی مصدقہ دستاویزات اور تفصیلات پریس کلبوں سے مانگنا محکمہ اطلاعات کی قانونی حدود سے تجاویز ہے۔ محکمہ اطلاعات اور اس کے ریجنل انفارمیشن آفیسرز کی بنیادی ذمہ داریوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ اخبارات اور چینلز کے ملازمین کی تصدیق کریں کہ آیا وہ واقعی صحافی ہیں۔ کیونکہ ہر سال میڈیا ادارے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے پاس اپنی سالانہ تجدید کے ساتھ ملازمین کی فہرست جمع کراتے ہیں۔لیکن کئی سالوں سے محکمہ اطلاعات اپنی اسی بنیادی ذمہ داری میں ناکام رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں درجن بھر سے زائد ایکریڈیشن کارڈ ایسے افراد کو جاری کیے گئے جن کا کوئی صحافتی ریکارڈ موجود نہیں۔نہ وہ کسی رجسٹرڈ ادارے سے وابستہ تھے، نہ ان کے ادارے PEMRA سے منظور شدہ تھے۔ اب انہی غیر مستند کارڈز کی منسوخی کے لیے محکمہ اطلاعات بھاگ دوڑ کر رہا ہے۔پریس کلبوں کی رجسٹریشن سے لے کر سالانہ تجدید تک تمام ریکارڈ کی سرکاری کاپی محکمہ صنعت و حرفت کے پاس ہوتی ہے۔ اسی بنیاد پر پریس کلبوں کو بطور تنظیم قانونی حیثیت دی جاتی ہے۔اس ضمن میں محکمہ اطلاعات کو چاہیے تھا کہ وہ براہ راست محکمہ صنعت و حرفت سے سرکاری ریکارڈ طلب کرتا، نہ کہ پریس کلبوں کو غیر ضروری نوٹس جاری کرتا رہے ۔ اس حوالے سے یہ تجاویز بھی عمل میں لانی چاہیے کہ محکمہ اطلاعات، محکمہ صنعت و حرفت سے ریکارڈ باضابطہ طور پر حاصل کرے اگر کوئی پریس کلب سالانہ تجدید نہیں کرا رہا تو اس کی رجسٹریشن معطل کی جائے۔* اس کلب کے صحافیوں کے ایکریڈیشن کارڈ بھی اس وقت تک معطل رہیں جب تک مکمل ریکارڈ محکمہ صنعت نہ بھیجے۔ محکمہ اطلاعات کو اپنے اصل مینڈیٹ یعنی **صحافیوں کی تصدیق** پر واپس لانا ضروری ہے۔ محکمہ اطلاعات کی جانب سے جاری ہونے والا مراسلہ نہ صرف قانونی دائرہ اختیار سے باہر ہے بلکہ یہ انتظامی کمزوریوں اور گزشتہ برسوں میں ہونے والی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی ایک کوشش بھی دکھائی دیتا ہے۔ پریس کلبوں کے معاملات میں مداخلت کے بجائے اصل حل یہ ہے کہ دونوں محکمے اپنے اپنے مینڈیٹ کے مطابق کام کریں تاکہ صحافتی اداروں کی ساکھ اور شفافیت برقرار رہ سکے۔

Kpk media
Associated Press of Pakistan
Chief Minister Khyber Pakhtunkhwa

13/11/2025
13/11/2025

خیبر پختون خوا امن جرگہ کی جھلکیاں

“قلم خطرے میں؟  خواتین و فری لانس صحافیوں کے تحفظ کا عالمی سوال” تحریر : فیاض علی نور  (فری لانس صحافی )    دنیا بھر میں...
02/11/2025

“قلم خطرے میں؟ خواتین و فری لانس صحافیوں کے تحفظ کا عالمی سوال”

تحریر : فیاض علی نور (فری لانس صحافی )
دنیا بھر میں آج 2 نومبر “صحافیوں کے خلاف جرائم میں استثنیٰ کے خاتمے کا عالمی دن” منایا جا رہا ہے۔یہ دن ان سب آوازوں کے نام ہے جو سچ لکھنے اور بولنے کے جرم میں خاموش کر دی گئیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق 2014 سے اب تک دنیا بھر میں 1200 سے زائد صحافی قتل کیے جا چکے ہیں، لیکن افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے **نو میں سے آٹھ مقدمات میں انصاف آج تک نہیں ہو سکا۔**یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ آزادیِ صحافت کا مطلب صرف خبر کی اشاعت اور نشر کرنا نہیں بلکہ اس کے پیچھے کھڑے انسانوں کا تحفظ ہے۔اور ان انسانوں میں سب سے زیادہ غیر محفوظ وہ ہیں جنہیں ہم اکثر بھول جاتے ہیں — **خواتین اور فری لانس صحافی۔**ان میں سے بہت سی صحافی نہ کسی بڑے ادارے کی مستقل ملازم ہیں، نہ کسی تنظیم کی ممبر۔ وہ خود اپنی سچائی کی محافظ ہیں۔ایک رپورٹر جب کسی مظلوم یا جرائم کی کہانی بیان کرتا ہے تو وہ دراصل اپنی جان خطرے میں ڈالتا ہے، کیونکہ سچ اکثر طاقتوروں کو پسند نہیں آتا۔دنیا بھر میں آزادیِ صحافت کے حالات تشویشناک ہوتے جا رہے ہیں۔ یونیسکو اور رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (RSF) کی حالیہ رپورٹس کے مطابق،2025 میں بھی 60 سے زائد ممالک ایسے ہیں جہاں صحافیوں کے قتل یا تشدد پر مکمل استثنا حاصل ہے۔سب سے خطرناک خطے وہ ہیں جہاں جنگیں، سیاسی انتقام یا مذہبی انتہا پسندی موجود ہیں جیسے فلسطین، افغانستان، میکسیکو، فلپائن، پاکستان اور شام۔خواتین صحافیوں کے لیے یہ خطرہ کئی گنا زیادہ ہے۔یونیسکو کے ایک سروے کے مطابق، **آن لائن تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین صحافیوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ** ہے۔ان پر صرف رپورٹنگ کے حوالے سے نہیں بلکہ ان کی ذات، کردار، حتیٰ کہ خاندان پر بھی حملے کیے جاتے ہیں۔دنیا بھر میں خواتین رپورٹرز کو “نرم ہدف” سمجھا جاتا ہے۔افریقہ اور جنوبی ایشیا میں انہیں اکثر “ناموزوں کردار” یا “غیر عورتانہ عمل” کے طعنے سننے پڑتے ہیں۔یورپ اور امریکہ میں بھی آن لائن ٹرولنگ، کردار کشی، اور ڈیجیٹل اسٹاکنگ بڑھتی جا رہی ہے۔یہ سب اس وقت ہوتا ہے جب وہ محض اپنا پیشہ انجام دے رہی ہوتی ہیں۔ یعنی عوام کے سامنے سچ لانا۔اقوامِ متحدہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا: “صحافیوں کے خلاف جرم، دراصل معاشرے کے خلاف جرم ہے۔ کیونکہ جب سچ خاموش کیا جاتا ہے، تو انصاف بھی مر جاتا ہے۔”پاکستان ان ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں آزادیِ اظہار مسلسل دباؤ کا شکار ہے۔رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کی 2025 کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان **150 ممالک میں سے 148 ویں نمبر پر** ہے۔یہ اعدادوشمار صرف ایک درجہ بندی نہیں بلکہ ایک المیہ ہیں ۔ کہ یہاں سچ بولنا اب بھی ایک خطرناک فعل ہے۔گزشتہ چند سالوں میں صحافیوں پر حملوں، دھمکیوں اور کردار کشی کی مہمات میں واضح اضافہ ہوا ہے۔تحقیقاتی رپورٹرز پر غداری یا سائبر کرائم کے مقدمات قائم کیے گئے،کچھ کو فیلڈ سے اٹھا لیا گیا، اور کئی کو “حادثوں” میں مار دیا گیا۔اس کے علاوہ **خواتین صحافیوں** کے لیے یہ ماحول مزید کٹھن ہے۔آن لائن ٹرولنگ، سوشل میڈیا پر گالیوں، اور دھمکی آمیز پیغامات نے کئی خواتین کو خود سینسر شپ پر مجبور کر دیا ہے۔کچھ نے فیلڈ رپورٹنگ چھوڑ دی، کچھ نے خاموشی اختیار کر لی، اور کچھ نے ملک چھوڑنا بہتر سمجھا۔2022 میں پاکستانی خواتین صحافیوں نے “Digital Media Harassment” کے خلاف ایک کھلا خط لکھا تھا،جس پر درجنوں نامور رپورٹرز کے دستخط تھے۔انہوں نے لکھا: “ہمیں صرف آن لائن نہیں بلکہ حقیقی زندگی میں بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہمیں صرف اپنی رائے رکھنے کی سزا دی جا رہی ہے۔”دنیا بھر میں خواتین کے لیے صحافت صرف ایک پیشہ نہیں، بلکہ ایک امتحان ہے۔جہاں مرد رپورٹرز کو خطرہ فیلڈ سے ہوتا ہے، وہاں خواتین کو **دوہرا خطرہ** ہوتا ہے —ایک، میدان کی مشکلات؛ دوسرا، معاشرتی تعصب۔پاکستان میں اب بھی کئی اداروں میں خواتین رپورٹرز کو “نرم خبریں” یعنی فیشن، سماجی تقریبات یا خواتین کے صفحے تک محدود رکھا جاتا ہے۔جب وہ سیاسی یا کرائم رپورٹنگ کی خواہش ظاہر کرتی ہیں، تو اکثر جواب ملتا ہے:“یہ تمہارے لیے محفوظ نہیں۔”اس سوچ نے ایک غیر مرئی دیوار کھڑی کر دی ہے ۔جہاں عورت صحافی تو بن سکتی ہے، مگر صرف اتنی حد تک جتنی معاشرہ اجازت دے۔پھر بھی، درجنوں بہادر خواتین اس دیوار کو توڑ رہی ہیں۔کراچی، پشاور، لاہور اور کوئٹہ میں کئی نوجوان رپورٹرز نے کرپشن، انسانی حقوق اور تشدد کے کیسز پر تحقیقاتی رپورٹس لکھیں۔ان میں سے کچھ کو دھمکیاں ملیں، مگر انہوں نے قلم نہیں چھوڑا۔ان کی جدوجہد ہمیں یاد دلاتی ہے کہ “خبر صرف لکھنے کا نام نہیں، بلکہ سچ کو جینے کا حوصلہ ہے۔”ڈیجیٹل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثر نے ایک نئی صحافتی نسل کو جنم دیا ہے۔فری لانس رپورٹرز، سوشل میڈیا پروڈیوسرز، اور انڈیپنڈنٹ بلاگرز۔یہ وہ لوگ ہیں جو کسی ادارے سے وابستہ نہیں،اپنی تحقیق، ویڈیوز یا بلاگز کے ذریعے خبر عام کرتے ہیں۔بظاہر یہ آزادی کا نیا چہرہ ہے، لیکن اس کے اندر **شدید عدم تحفظ** چھپا ہے۔فری لانس صحافیوں کے پاس نہ کوئی کنٹریکٹ ہوتا ہے، نہ بیمہ، نہ قانونی مدد۔اگر انہیں دھمکی ملے، تشدد ہو، یا اغوا کر لیا جائے ۔تو ان کے لیے انصاف کے دروازے تقریباً بند ہوتے ہیں۔خواتین فری لانس رپورٹرز کے لیے یہ خطرہ دوگنا ہے۔انہیں اکثر “غیر سنجیدہ” یا “سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ” کہہ کر ان کی محنت کو کم کر کے دیکھا جاتا ہے۔حالانکہ یہی رپورٹرز وہ ہیں جو دور دراز علاقوں سے مظلوم عورتوں، اقلیتوں اور معاشرتی ناانصافیوں کی کہانیاں سامنے لاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج کا عالمی دن **ان فری لانس صحافیوں کی جدوجہد** کے اعتراف کا دن بھی ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو بغیر بکتر بند گاڑیوں کے، بغیر ٹیم کے، صرف اپنے موبائل فون کے ساتھ میدانِ خبر میں ہوتے ہیں۔اور اکثر ان کا واحد تحفظ ان کا ایمان اور قلم ہوتا ہے۔اقوامِ متحدہ نے 2012 میں “UN Plan of Action on the Safety of Journalists and the Issue of Impunity” کے تحت رکن ممالک کو ہدایت دی تھی کہ وہ قومی سطح پر ایسے میکانزم قائم کریں جو صحافیوں کے تحفظ، تفتیش اور انصاف کو یقینی بنائیں۔کئی ممالک میں یہ نظام فعال ہوا ۔مثلاً میکسیکو اور کولمبیا میں “National Protection Units”،جبکہ نیپال اور فلپائن میں صحافیوں کے لیے خصوصی قانونی سیل قائم کیے گئے۔**پاکستان میں بھی** 2021 میں “Protection of Journalists and Media Professionals Act” منظور ہوا،جس کے تحت صحافیوں کو تحفظ، معاوضہ، اور فوری انصاف کا حق دیا گیا۔لیکن عملی سطح پر اس قانون پر عملدرآمد ابھی بھی محدود ہے۔نہ صوبائی کمیٹیاں فعال ہو سکیں، نہ ہیلپ لائنیں کارآمد بن سکیں۔اسی طرح خواتین صحافیوں کے لیے مخصوص **Gender-Sensitive Safety Guidelines** کی کمی اب بھی ایک بڑا خلا ہے۔آن لائن ہراسانی یا ڈیجیٹل حملوں پر پولیس کا ردِعمل اکثر غیر سنجیدہ ہوتا ہے،جبکہ قانونی فریم ورک اب بھی ان نئے خطرات کا احاطہ نہیں کر پاتا۔جب کوئی صحافی قتل ہوتا ہے اور قاتل آزاد گھومتا ہے،تو یہ صرف ایک فرد نہیں بلکہ پورے نظام کی ناکامی ہوتی ہے۔ریاست کی ذمہ داری صرف مذمت نہیں، بلکہ مؤثر کارروائی ہے۔پولیس، عدلیہ، پیمرا، وزارتِ اطلاعات، اور خود میڈیا اداروں کوایسا باہمی نظام بنانا ہوگا جو **تحفظ، شفاف تفتیش، اور فوری انصاف** کو یقینی بنائے۔کیونکہ جب ایک رپورٹنگ ٹیم کے پیچھے تحفظ کا یقین ہو،تو خبر زیادہ آزاد، اور سچ زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ “خوف کے زمانے میں سچ لکھنا بغاوت نہیں، عبادت ہے۔”یہ دن صرف یادگار نہیں ایک عہد بھی ہے۔ایک عہد کہ سچ بولنے والے اکیلے نہیں۔کہ قلم کو بندوق سے خاموش نہیں کرایا جا سکتا۔کہ خواتین اور فری لانس صحافیوں کی حفاظت محض پیشہ ورانہ ضرورت نہیں بلکہ انسانی فریضہ ہے۔جب کوئی خاتون رپورٹر کیمرہ اٹھا کر میدان میں جاتی ہے،وہ دراصل معاشرے کو آئینہ دکھانے جا رہی ہوتی ہے۔اس آئینے کو توڑنے والے دراصل انسانیت کی روشنی بجھاتے ہیں۔دنیا اور پاکستان، دونوں کو اب یہ ماننا ہوگا کہ**آزادیِ صحافت دراصل آزادیِ انسان ہے۔**اور جب تک یہ آزادی محفوظ نہیں ہوتی،جمہوریت محض ایک خواب رہتی ہے۔


Kpk media
Associated Press of Pakistan

**خیبرپختونخوا میں جعلی صحافیوں کے خلاف پہلا بڑا ایکشن، رائل نیوز کے نمائندوں کے کارڈ منسوخ۔ رائل نیوز کا کوئی وجود نہ پ...
02/11/2025

**خیبرپختونخوا میں جعلی صحافیوں کے خلاف پہلا بڑا ایکشن، رائل نیوز کے نمائندوں کے کارڈ منسوخ۔ رائل نیوز کا کوئی وجود نہ پیمرا ریکارڈ میں، نہ ہی پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن (PBA) میں**

**محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ خیبر پختون خوا کا باضابطہ حکم نامہ، 8 نمائندوں کے اکریڈیشن کارڈ فوری منسوخ کر دیے گئے**

**غیر رجسٹرڈ چینلز، ڈمی اخبارات اور پی ڈی ایف اخبارات کے حامل جعلی نام نہاد صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز**

**محکمہ اطلاعات خیبرپختونخوا نے ’تصدیق شدہ صحافت‘ کی پالیسی پر عمل درآمد شروع کر دیا**

پشاور (خصوصی رپورٹ: فیاض علی نور، فری لانس جرنلسٹ)خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے جعلی، غیر رجسٹرڈ اور پی ڈی ایف اخبارات سے منسلک نام نہاد صحافیوں کے خلاف کارروائی کا پہلا نتیجہ سامنے آ گیا ہے۔ **ڈائریکٹوریٹ جنرل آف انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشنز (DGIPR) خیبرپختونخوا** نے ’’رائل نیوز‘‘ سے وابستہ **آٹھ افراد کے اکریڈیشن کارڈ منسوخ کر دیے** ہیں۔محکمہ کی جانب سے جاری باضابطہ **آفس آرڈر** کے مطابق، ’’رائل نیوز‘‘ کا نہ تو کوئی ریکارڈ پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن (PBA) میں موجود ہے، اور نہ ہی یہ چینل پیمرا (PEMRA) کے ساتھ رجسٹرڈ ہے۔ اس بنیاد پر اس ادارے سے وابستہ تمام نمائندوں کے صحافتی کارڈ **فوری طور پر منسوخ** کر دیے گئے ہیں۔ان میں شامل لال شیر خان — بیورو چیف (سوات) — **2022-04808** خان زمان — او ایس آر رپورٹر (ہنگو) — **2020-00028** دین محمد — رپورٹر (پشاور) — **2021-02072** فرحان احمد بنگش — بیورو چیف (کوہاٹ) — **2021-02154** ارشد محمود جمال — بیورو چیف (ایبٹ آباد) — **2023-07040** محمد شاہد خان — رپورٹر (خیبر) — **2023-07100** واجد خان — رپورٹر (پشاور) — **2024-09226** کریم اللہ — آؤٹ اسٹیشن رپورٹر (کرک) — **2025-12486** جن کے ایکریڈیشن کارڈ منسوخ کر دیئے گئے ہیں۔ محکمہ اطلاعات کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ اس وقت عمل میں آیا جب چیف منسٹر ڈیلیوری یونٹ (CMDU) کو موصول شکایت کی تصدیق کے بعد واضح ہوا کہ ’’رائل نیوز‘‘ نامی چینل کی کوئی قانونی یا رجسٹرڈ حیثیت نہیں۔ اس لیے مذکورہ نمائندے اب سرکاری و صحافتی سرگرمیوں میں کسی قسم کے اختیارات یا استحقاق کے اہل نہیں رہے۔
ذرائع کے مطابق، محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ خیبرپختونخوا نے پہلے ہی **نان رجسٹرڈ چینلز، ڈمی اخبارات اور پی ڈی ایف اخبارات** کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا تھا، تاکہ شعبۂ صحافت کو شفاف اور معتبر بنایا جا سکے۔اب ایسے تمام افراد جو محکمہ اطلاعات کے **ریجنل انفارمیشن آفس** سے تصدیق شدہ نہیں ہیں، انہیں ’’صحافی‘‘ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اس عمل کے بغیر جاری کیے گئے یا جعلی کارڈ رکھنے والوں کے خلاف کارروائی جاری ہے۔محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے ترجمان نے اس اقدام کو **صحافت کے وقار، شفافیت اور پیشہ ورانہ معیار** کی بحالی کی سمت ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔


Kpk media
Capital City Police Peshawar

خیبر پختونخوا کے محکموں میں "مجاز اتھارٹی" کی پرانی روایت برقرار — سپریم کورٹ کے احکامات ہوا میں اڑا دیے گئے!بورڈ آف ریو...
23/10/2025

خیبر پختونخوا کے محکموں میں "مجاز اتھارٹی" کی پرانی روایت برقرار — سپریم کورٹ کے احکامات ہوا میں اڑا دیے گئے!

بورڈ آف ریونیو کا نیا مراسلہ 2022 کے عدالتی فیصلے کی کھلی خلاف ورزی — افسران کے نام و عہدے تاحال پوشیدہ!

رسی جل گئی،پر بل نہیں گئے — کلرک مافیا نے "مجاز اتھارٹی" کی اصطلاح کو غلامی کا استعارہ بنا دیا!

پشاور (فیاض علی نور فری لانس جرنلسٹ )خیبر پختونخوا کے سرکاری محکمے تاحال پرانی نوآبادیاتی روش سے باہر نہیں نکل سکے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی واضح ہدایات کے باوجود سرکاری مراسلوں میں “مجاز اتھارٹی” جیسے مبہم اور غیر شفاف الفاظ کا استعمال مسلسل جاری ہے۔ تازہ مثال کے طور پر **محکمہ ریونیو اینڈ اسٹیٹ، حکومت خیبر پختونخوا** کی جانب سے **15 اکتوبر 2025** کو جاری ہونے والا **نوٹیفکیشن نمبر BOR/DE/1/8211-27** سامنے آیا ہے۔اس نوٹیفکیشن میں بورڈ آف ریونیو نے تمام **ڈیجیٹل خدمات فرد فیس، انتقال فیس اور ای اسٹامپ — کی **ادائیگیوں پر کیش لین دین پر مکمل پابندی** عائد کرتے ہوئے **کیش لیس سسٹم** کو فوری طور پر نافذ کرنے کا حکم دیا ہے۔مراسلہ عوامی مفاد کے نام پر جاری کیا گیا ہے، لیکن اس پر دستخط “مجاز اتھارٹی جو کہ گمنام ہے ، جبکہ نہ تو کسی افسر کا **نام درج ہے** اور نہ ہی **عہدہ** واضح کیا گیا ہے۔یہی وہ نکتہ ہے جو سپریم کورٹ آف پاکستان کے 2022 کے فیصلے کی **سیدھی خلاف ورزی** ہے۔واضح رہے کہ عدالتِ عظمیٰ نے تمام وفاقی و صوبائی محکموں کو حکم دیا تھا کہ کسی بھی سرکاری دستاویز، مراسلے یا نوٹیفکیشن میں “Competent Authority” یا “مجاز اتھارٹی” جیسے الفاظ استعمال کرنے کے بجائے متعلقہ **افسر کا نام اور عہدہ واضح طور پر تحریر کیا جائے**، تاکہ کسی عدالتی یا انتظامی کارروائی میں **ذمہ داری** کا تعین ممکن ہو سکے۔تاہم تین برس گزر جانے کے باوجود صوبائی بیوروکریسی نے اس عدالتی حکم کو عملاً نظرانداز کر دیا ہے۔سرکاری دفاتر میں تاحال ایسے “کلرک نما افسران” براجمان ہیں جو فائلوں پر محض دستخط کے ذریعے نظام کو مفلوج رکھے ہوئے ہیں۔یہ وہی طبقہ ہے جو “چپڑاسی سے کلرک اور کلرک سے اسسٹنٹ” بنتا ہے، مگر ان کی سوچ اب بھی **غلامانہ ذہنیت** کی عکاسی کرتی ہے ۔ کسی بھی انتظامی کارروائی میں اگر افسر کا نام اور عہدہ واضح نہ ہو تو کسی فرد کو **براہ راست جوابدہ ٹھہرانا ناممکن** بن جاتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ فائلوں میں موجود بدعنوان فیصلے “مبہم اتھارٹی” کے پردے میں چھپ جاتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ، چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا کو اس حوالے سے فوری نوٹس لینا چاہیے اور تمام محکموں کو پابند بنانا چاہیے کہ آئندہ جاری ہونے والے تمام **نوٹیفکیشن، مراسلے، اور احکامات** میں مجاز افسر کا **پورا نام، عہدہ، اور دستخط** واضح طور پر شامل ہوں، تاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روح کے مطابق **احتساب اور شفافیت** ممکن ہو۔


Kpk media

خیبر پختونخوا انفارمیشن کمیشن اور محکمہ داخلہ کی 392 دن کی خاموشی، شہری کی معلوماتی درخواست بے اثر!دستک ایپ سے پہلے اور ...
22/10/2025

خیبر پختونخوا انفارمیشن کمیشن اور محکمہ داخلہ کی 392 دن کی خاموشی، شہری کی معلوماتی درخواست بے اثر!

دستک ایپ سے پہلے اور بعد کی اسلحہ لائسنس فیس تفصیلات غائب، شفافیت کے دعوے بے نقاب!

محکمہ داخلہ کی ”سونے کی چڑیا“ — لائسنس فیس کی اربوں کی آمدن کہاں گئی؟

انفارمیشن کمیشن تین مراسلوں کے باوجود ناکام، حقِ معلومات قانون محض کاغذی خواب بن گیا!

اعلیٰ افسران اور پرانے ٹاؤٹس کا نیٹ ورک سرگرم، محکمہ داخلہ میں مالی بے ضابطگیوں کے خدشات گہرے!

کوہستان اسکینڈل سے بڑا انکشاف متوقع؟ دستک ایپ فیس میں مبینہ کرپشن کی تحقیقات ناگزیر قرار!

پشاور (رپورٹ: فیاض علی نور فری لانس جرنلسٹ )خیبر پختونخوا میں شفافیت کے دعووں پر ہمیشہ کی طرخ ایک اور بڑا سوالیہ نشان اس وقت ابھرا ہئ کیوں کہ اس بار محکمہ داخلہ و قبائلی امور اور خیبر پختونخوا انفارمیشن کمیشن، دونوں ادارے ایک عام شہری کی **حقِ معلومات** کے تحت درخواست کا جواب 392 دن گزرنے کے باوجود فراہم نہ کر سکے۔ درخواست میں شہری نے **اسلحہ لائسنس فیس کی مد میں حاصل کی گئی رقوم کی تفصیلات ** مانگی تھیں۔ یعنی *دستک ایپ* لانچ سے پہلے اور اس کے بعد جاری ہونے والے لائسنسز کی مالیاتی آمدن کا موازنہ کرنا تھا۔ کہ دستک ایپ کے اجراء سے پہلے محکمہ داخلہ کو کتنی آمدن ہو رہی تھی اور اب دستک ایپ جیسے متنازعہ اور نامکمل ایپ کے بعد حکومت کے خزانے میں کتنے رقوم جمع کیے گئے ۔ اس تفصیلات کے حصول کے لیے درخواست گزار نے **26 ستمبر 2024** کو باقاعدہ طور پر آر ٹی آئی فارم جمع کروایا، جس میں محکمہ داخلہ سے پوچھا گیا کہ "دستک ایپ سے پہلے جاری ہونے والے اسلحہ لائسنس کی فیس سے حاصل آمدن اور ایپ کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدن کی الگ الگ تفصٰلات فراہم کی جائے۔ قانونی طور پر 10 دن کے اندر جواب دینا لازمی تھا، مگر **22 اکتوبر 2025** تک، یعنی تقریباً **392 دن (268 دفتری دن)** گزرنے کے باوجود کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔ایک طرف خیبر پختونخوا انفارمیشن کمیشن، جو شہریوں کی معلوماتی درخواستوں پر نگرانی کا اختیار رکھتا ہے، اس معاملے میں **محکمہ داخلہ سے ڈیٹا حاصل کرنے میں ناکام** رہا۔ اس پورے عرصے میں صرف تین بار کمیشن نے محکمہ کو خانہ پوری کرتے ہوئے مراسلے ارسال کیے لیکن جواب ندارد یہ وہی کمیشن ہے جو معلومات تک رسائی کے تحت شہریوں کو حکومتی شفافیت کی ضمانت دیتا ہے۔دوسری جانب ذرائع کے مطابق، اسلحہ لائسنس فیس محکمے کے لیے ایک ’’سونے کی چڑیا‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ جہاں سالانہ لاکھوں کروڑوں روپے جمع ہوتے، مگر ان کا حساب کبھی عام نہیں ہوا۔ دستک ایپ کے بعد آمدن کی نوعیت میں واضح فرق آیا، جس پر شہری نے شفاف ڈیٹا طلب کیا۔تاہم نہ محکمہ داخلہ نے جواب دیا، نہ کمیشن نے رپورٹ۔درخواست گزار کے مطابق، "یہ وہ تفصیلات ہیں جن میں اعلیٰ افسران، پرانے افسران اور مخصوص ٹاؤٹس شامل ہیں جو برسوں سے ان عہدوں پر براجمان ہیں۔"ذرائع بتاتے ہیں کہ اندرونی سطح پر محکمانہ مالی انحراف کے خدشات موجود ہیں۔اگر اس معاملے کی آزاد عدالتی یا جوڈیشل کمیشن سے تفتیش ہوئی تو یہ *کوہستان کرپشن کیس* سے بھی بڑا اسکینڈل ثابت ہو سکتا ہے۔یہ کیس خیبر پختونخوا کے شفافیت نظام کی ناکامی کی جیتی جاگتی مثال بن چکا ہے۔جہاں شہری نے تمام قانونی تقاضے پورے کیے، مگر جواب ایک سال بعد بھی نہ ملا۔محکمہ داخلہ اور انفارمیشن کمیشن دونوں نے معلومات کی فراہمی سے پہلو تہی کی، جو ایک بڑے **مالیاتی ابہام** کو جنم دیتی ہے۔


Kpk media
Capital City Police Peshawar
















#پشاور
#خیبرپختونخوا

khyberpakhtunkhwa






خیبرپختونخوا میں نان رجسٹرڈ چینلز،  ڈمی اخبارات اور پی ڈی ایف  اخبارات کے حامل جعلی صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہدو...
14/10/2025

خیبرپختونخوا میں نان رجسٹرڈ چینلز، ڈمی اخبارات اور پی ڈی ایف اخبارات کے حامل جعلی صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ

دورانِ کاروائی پولیس سے مداخلت یا سوال کرنے پر گرفتاری ممکن، مائیک اور کارڈ ضبط کیے جا سکیں گے۔

محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ نے ’صحافیوں کی تصدیق‘ کے لیے پہلے ہی سے ویب سائٹ سے تصدیق کا عمل شروع کیا ہے ۔

ڈیجیٹل میڈیا پالیسی کا ڈرافٹ محکمہ قانون کو ارسال، آن لائن صحافیوں کو اشتہارات اور مراعات ملنے کا امکان**

پشاور (خصوصی رپورٹ: فیاض علی نور۔فری لانس جرنلسٹ) خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے میں پیمرا سے نان رجسٹرڈ چینلز، ڈمی اخبارات اور پی ڈی ایف اخبارات سے منسلک جعلی نام نہاد صحافیوں کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق محکمہ اطلاعات و تعلقاتِ عامہ خیبرپختونخوا نے قوانین میں ترامیم اور نئے ضوابط تیار کیے ہیں جن کے تحت صوبہ بھر میں ایسے تمام افراد جو محکمہ اطلاعات کے **ریجنل انفارمیشن آفس** سے تصدیق شدہ نہیں ہوں گے، انہیں **"صحافی"** کے طور پر تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق اس اقدام کا مقصد جعلی، غیر رجسٹرڈ اور پی ڈی ایف اخبارات کے نام پر سرگرم عناصر کے خلاف کارروائی کو یقینی بنانا ہے، جو سرکاری محکموں، پولیس یا عوامی مقامات پر خود کو صحافی ظاہر کر کے پیشہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔نئے ضوابط کے تحت دورانِ احتجاج، پولیس کارروائی یا کسی بھی عوامی مقام پر **پولیس سے براہِ راست سوال کرنے، ریکارڈنگ یا مداخلت** کی کوشش پر موقع پر ہی گرفتاری عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ پولیس کو اس سلسلے میں مائیک، لوگو، کارڈ اور موبائل وغیرہ ضبط کرنے کے مکمل اختیارات تفویض کیے گئے ہیں۔محکمہ اطلاعات کے مطابق، **صحافیوں کی تصدیق** اب صرف متعلقہ **ریجنل انفارمیشن آفس** سے ہی ممکن ہو گی۔ جبکہ پاکستان میں پہلی مرتبہ صحافیوں کی آن لائن تصدیق محکمہ کے ویب سائٹ پر پہلے ہی سے دستیاب ہے ، جس کی تصدیق dgipr سے ممکن ہے اور اس عمل کے بغیر کسی بھی فرد کو صحافی تسلیم نہیں کیا جائے گا، اور جعلی یا زائدالمعیاد کارڈ رکھنے والے افراد کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔مزید براں، محکمہ اطلاعات خیبرپختونخوا نے **ڈیجیٹل میڈیا پالیسی** کا ابتدائی مسودہ (ڈرافٹ) تیار کر کے محکمہ قانون کو ارسال کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، نئی پالیسی کے تحت آن لائن پلیٹ فارمز، یوٹیوب چینلز، ویب سائٹس اور سوشل میڈیا جرنلسٹس کو بھی سرکاری اشتہارات، سرٹیفیکیشن اور دیگر مراعات حاصل کرنے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔محکمہ اطلاعات و تعلقاتِ عامہ کے ذرائع نے کہا ہے کہ اس اقدام کا مقصد صحافت کے شعبے کو شفاف، پیشہ ورانہ اور منظم بنانا ہے تاکہ عوام تک مصدقہ اور ذمہ دارانہ خبریت پہنچائی جا سکے۔


Kpk media
Associated Press of Pakistan

گورنر خیبر پختون خوا  کی زیرِ صدارت ’’فخرِ پختونخوا ایوارڈز 2025‘‘ سرکاری اعزاز یا نجی تشہیری تقریب؟گورنر ہاؤس پشاور میں...
06/10/2025

گورنر خیبر پختون خوا کی زیرِ صدارت ’’فخرِ پختونخوا ایوارڈز 2025‘‘ سرکاری اعزاز یا نجی تشہیری تقریب؟

گورنر ہاؤس پشاور میں ہونے والی رنگارنگ تقریب پر شفافیت کے سوالات، بیشتر ایوارڈی پارٹنر یا سرمایہ کار نکلے

پشاور (فیاض علی نور فری لانس جرنلسٹ ) خیبر پختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے ہفتے کے روز ’’فخرِ پختونخوا ایوارڈز 2025‘‘ کے تحت صوبے کے 60 نوجوانوں کو مختلف شعبوں میں خدمات پر اعزازات سے نوازا۔ تاہم تقریب کے بعد یہ سوال شدت اختیار کر گیا کہ آیا یہ ایوارڈ واقعی سرکاری سطح پر تسلیم شدہ اعزاز تھا یا محض ایک نجی اور کاروباری نوعیت کی تشہیری سرگرمی جسے گورنر ہاؤس کے پلیٹ فارم سے پیش کیا گیا۔
یہ تقریب گورنر ہاؤس پشاور میں منعقد ہوئی جس میں رکن صوبائی اسمبلی نثار باز، چیئرمین ریڈ کریسنٹ خیبر پختونخوا فرزند علی وزیر، ڈاکٹر حمزہ جمشید، نبیل آفریدی، حاجی وحدت خان، سیاسی و سماجی شخصیات، ادیب، شاعر، انجینئر، ڈاکٹرز اور فنکار شریک ہوئے۔گورنر فیصل کریم کنڈی نے اپنے خطاب میں کہا کہ صوبہ اپنی باصلاحیت نوجوان نسل پر فخر کرتا ہے جن کی کامیابیاں نہ صرف خیبر پختونخوا کا نرم اور مثبت تشخص اجاگر کر رہی ہیں بلکہ ملک کی عزت و وقار میں بھی اضافہ کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی تقریبات نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ صوبے کے پُرامن چہرے کو نمایاں کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔تاہم ذرائع کے مطابق ایوارڈز کی **انتخابی کمیٹی میں کسی سرکاری محکمے یا سرکاری نمائندے کی شمولیت موجود نہیں تھی۔ دستیاب معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایوارڈ یافتگان میں سے متعدد وہ افراد تھے جو تقریب کے منتظمین، پارٹنرز یا مالی معاونین میں شامل تھے۔پشاور کے ایک سینئر صحافی نےبتایا کہ تقریب دراصل ’’تشہیر اور تعلقاتِ عامہ‘‘ کی نوعیت رکھتی تھی، جس میں کسی باقاعدہ یا شفاف نامزدگی کے طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا۔ ’’گورنر ہاؤس کا مقام تقریب کو سرکاری رنگ دیتا ہے مگر تنظیمی ڈھانچہ مکمل طور پر نجی تھا،‘‘ انہوں نے کہا۔منتظمین نے اس پروگرام کو ’’نوجوانوں کی حوصلہ افزائی‘‘ کے نام سے پیش کیا، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ دعوت نامے، اسپانسرشپ پیکیجز اور تشہیری بینرز سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقریب جزوی طور پر **کاروباری بنیادوں** پر ترتیب دی گئی تھی۔ایک ایوارڈ یافتہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’چاہے یہ تقریب نجی تھی یا سرکاری، گورنر ہاؤس کے اسٹیج پر کھڑے ہو کر اعزاز ملنا ہمارے لیے اعزاز اور حوصلہ افزائی کا باعث ہے۔‘‘گورنر فیصل کریم کنڈی نے تقریب کے اختتام پر نوجوانوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ صوبائی شناخت کے مثبت پہلو کو اجاگر کرنے کے لیے اس طرح کے اقدامات جاری رہیں گے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ مستقبل میں کھلاڑیوں اور کاشتکاروں کے لیے بھی الگ ایوارڈز منعقد کیے جائیں گے، البتہ یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا وہ ایوارڈز سرکاری سطح پر ہوں گے یا نجی اشتراک سے۔* کیا ’’فخرِ پختونخوا ایوارڈز‘‘ کی کمیٹی حکومتِ خیبر پختونخوا کی منظوری سے بنی؟* کیا کسی سرکاری محکمۂ اطلاعات، سماجی بہبود یا نوجوانان امور نے اس میں کردار ادا کیا؟* ایوارڈ یافتگان کے انتخاب کا طریقہ کیا تھا اور فنڈنگ کس نے فراہم کی؟* کیا گورنر ہاؤس صرف میزبانی کر رہا تھا یا باضابطہ شریکِ منتظم تھا؟جب تک ان سوالات کے واضح جوابات سامنے نہیں آتے، ’’فخرِ پختونخوا ایوارڈز 2025‘‘ ایک طرف صوبے کے باصلاحیت نوجوانوں کی کامیابیوں کا جشن ہے، تو دوسری طرف **سرکاری اعتراف اور نجی تشہیر کے درمیان دھندلی لکیر** کا مظہر بھی۔



Kpk media

"ڈیجیٹل میڈیا جرنلسٹس کے لیے مشاورتی اجلاس — داؤدزئی پریس کلب کی دعوت"پشاور (پریس ریلیز ) داؤدزئی پریس کلب کے آئین کے تح...
03/10/2025

"ڈیجیٹل میڈیا جرنلسٹس کے لیے مشاورتی اجلاس — داؤدزئی پریس کلب کی دعوت"
پشاور (پریس ریلیز ) داؤدزئی پریس کلب کے آئین کے تحت سوشل میڈیا کے فروغ اور آن لائن صحافت کی حوصلہ افزائی کے لیے اب سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور ڈیجیٹل میڈیا ورکرز کو اعزازی ممبرشپ دینے کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔ یہ ممبرشپ مستقبل قریب میں محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ خیبر پختون خوا (ڈی جی آئی پی آر) کے ڈائریکٹوریٹ آف ڈیجیٹل میڈیا کے تحت باقاعدہ طور پر تسلیم کی جائے گی۔
اس سلسلے میں داؤدزئی پریس کلب کی جانب سے ایک مشاورتی اجلاس بروز **ہفتہ، 11 اکتوبر 2025 بوقت صبح 11 بجے** داؤدزئی پریس کلب میں منعقد ہوگا۔
تمام سوشل میڈیا ایکٹوسٹ، فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک، یوٹیوب اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر سرگرم صحافی یا ورکرز جو تحصیل شاہ عالم، متھرا اور چمکنی کے رہائشی یا سرگرم ہیں، کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔
مزید معلومات اور شرکت کے لیے رابطہ کریں:
**فوکَل پرسن ڈیجیٹل میڈیا جرنلسٹ: 9589088-0335

"ڈیجیٹل میڈیا جرنلسٹس کے لیے مشاورتی اجلاس — داؤدزئی پریس کلب کی دعوت"پشاور (پریس ریلیز ) داؤدزئی پریس کلب کے آئین کے تح...
03/10/2025

"ڈیجیٹل میڈیا جرنلسٹس کے لیے مشاورتی اجلاس — داؤدزئی پریس کلب کی دعوت"

پشاور (پریس ریلیز ) داؤدزئی پریس کلب کے آئین کے تحت سوشل میڈیا کے فروغ اور آن لائن صحافت کی حوصلہ افزائی کے لیے اب سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور ڈیجیٹل میڈیا ورکرز کو اعزازی ممبرشپ دینے کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔ یہ ممبرشپ مستقبل قریب میں محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ خیبر پختون خوا (ڈی جی آئی پی آر) کے ڈائریکٹوریٹ آف ڈیجیٹل میڈیا کے تحت باقاعدہ طور پر تسلیم کی جائے گی۔
اس سلسلے میں داؤدزئی پریس کلب کی جانب سے ایک مشاورتی اجلاس بروز **ہفتہ، 11 اکتوبر 2025 بوقت صبح 11 بجے** داؤدزئی پریس کلب میں منعقد ہوگا۔
تمام سوشل میڈیا ایکٹوسٹ، فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک، یوٹیوب اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر سرگرم صحافی یا ورکرز جو تحصیل شاہ عالم، متھرا اور چمکنی کے رہائشی یا سرگرم ہیں، کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔
مزید معلومات اور شرکت کے لیے رابطہ کریں:
**فوکَل پرسن ڈیجیٹل میڈیا جرنلسٹ: 9589088-0335


Kpk media
CHAMKANI
Digital Media

Address

Islamabad
25000

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Fayaz Ali Noor Journalist posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share