
05/07/2025
جولائی 1789: قلعہ بیسٹیل کا زوال – جب عوام نے بندوقوں کے خلاف حوصلہ اٹھایا
جون 1789 کے بعد، جب تیسری کلاس نے خود کو ’’نیشنل اسمبلی‘‘ قرار دے دیا، پورے پیرس میں بے چینی پھیلنے لگی۔ غریبوں کے چہروں پر غصہ، اور دلوں میں امید جاگنے لگی تھی۔ لوگ جان چکے تھے کہ اب یا تو سب کچھ بدلے گا… یا کچھ باقی نہ رہے گا۔
لیکن بادشاہ لوئی شانزدہم (Louis XVI) نے طاقت کا سہارا لیا۔ اُس نے اپنے وفادار فوجی دستے پیرس کے گرد تعینات کرنے شروع کر دیے۔
لوگوں کو یہ خوف تھا کہ نیشنل اسمبلی کو بزورِ طاقت ختم کیا جائے گا، اور ایک نیا خونی باب شروع ہو گا۔
اسی وقت ایک اور خبر نے آگ پر تیل چھڑک دیا:
"بادشاہ نے نیشنل اسمبلی کے حامی وزیرِ خزانہ ژاک نیکر (Jacques Necker) کو برطرف کر دیا ہے۔"
یہ وزیر عوام میں مقبول تھا، کیونکہ وہ اشرافیہ پر بھی ٹیکس لگانے کا حامی تھا۔
جب اسے نکالا گیا، عوام کو یقین ہو گیا کہ اب بادشاہ بدترین جبر کے راستے پر ہے۔
پیرس کی گلیاں گرم ہو گئیں۔
12 سے 13 جولائی کو عوام نے ہتھیاروں کی تلاش شروع کر دی۔
لوگوں نے شہر کے ہتھیار خانوں پر دھاوا بولا، لوہے کے راڈ، کلہاڑیاں، بندوقیں، اور چھریاں اکٹھی کیں۔
مگر گولی چلانے کے لیے بارود چاہیے تھا — اور بارود کہاں تھا؟
قلعہ بیسٹیل میں۔
یہ پیرس کے وسط میں واقع ایک قلعہ تھا — کبھی بادشاہی خزانے اور دستاویزات کی حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا، مگر اب یہ سیاسی قیدیوں کی جیل بن چکا تھا۔
لوگوں کی نظر میں یہ ’’ظلم، جبر، اور بادشاہی طاقت کی علامت‘‘ تھا۔
قلعہ میں قیدی کم تھے، مگر اس کا مطلب بہت بڑا تھا۔
14 جولائی کی صبح سورج ابھی مکمل طلوع بھی نہیں ہوا تھا کہ ہزاروں شہری بیسٹیل کے باہر جمع ہو گئے۔
بندوقیں اُن کے ہاتھ میں تھیں، مگر بارود نہیں۔
عوام نے قلعے کے گورنر مارکی ڈی لونائے (de Launay) سے مطالبہ کیا:
’’بارود ہمیں دو! یہ ہمارا حق ہے!‘‘
گورنر نے پہلے ٹال مٹول کی۔ پھر فوجی دستوں کو دیواروں پر تعینات کر دیا۔
مذاکرات ناکام ہوئے… اور اچانک گولیاں چلنے لگیں۔عوام نے دروازے توڑنے کی کوشش کی۔ قلعے کے اوپر سے فوجی فائرنگ کر رہے تھے۔
درجنوں عام شہری مارے گئے، لیکن ہجوم پیچھے نہیں ہٹا۔
آخرکار دوپہر تک قلعے کے اندر موجود کچھ سپاہیوں نے بغاوت کر دی اور عوام کا ساتھ دیا۔
پھر کیا تھا…
قلعے کے دروازے ٹوٹے، عوام اندر داخل ہوئے۔
گورنر کو پکڑ لیا گیا — اور اُسے نہ صرف قتل کیا گیا بلکہ اس کا سر کاٹ کر نیزے پر چڑھا کر پورے شہر میں گھمایا گیا۔
انقلاب کا اعلان
بیسٹیل کا گرایا جانا کوئی فوجی کامیابی نہیں تھی — یہ ایک علامتی اعلان تھا:
"اب بادشاہ نہیں، ہم عوام فیصلہ کریں گے!"
پوری دنیا نے اس واقعے کو حیرت سے دیکھا۔
پیرس میں جشن منایا گیا، عوام ایک دوسرے کو گلے لگانے لگے۔
ایک شاعر نے لکھا:
اس دن گلیوں میں موت تھی — لیکن ساتھ ہی نئی زندگی کی سانس بھی۔"
بیسٹیل کے بعد: جب تخت لرزنے لگا اور اشرافیہ بھاگنے لگی
بیسٹیل پر حملہ صرف ایک قلعہ گرائے جانے کا واقعہ نہیں تھا — یہ بادشاہت کے خلاف اعلانِ جنگ تھا۔
پیرس کی فضا بدل چکی تھی۔
عوام کے ہاتھ میں بندوقیں تھیں، مگر اُن کے دل میں اب ایک نظریہ بھی جاگ چکا تھا:
> ’’ہم خود اپنے حکمران چنیں گے۔‘‘
جیسے ہی قلعہ بیسٹیل گرا، پیرس میں خوف کا سایہ پھیل گیا۔
اشرافیہ، جو کل تک عوام کو حکیر سمجھتے تھے، اب شہر چھوڑنے لگے۔
سینکڑوں نواب، درباری، اور جاگیردار اپنی دولت سمیت ملک سے فرار ہونے لگے — یہ دور "امیگریشن کی لہر" کہلایا۔
محلات خالی ہونے لگے۔
اشرافیہ کی زمینیں اب عوام کے غصے کا نشانہ بننے لگیں۔
بادشاہ کی بے بسی اور ردِعمل
جب شاہ لوئی شانزدہم کو بیسٹیل پر حملے کی خبر ملی، وہ ششدر رہ گیا۔
رات کو اُس نے صرف ایک لفظ کہا:
> ’’یہ بغاوت ہے؟‘‘
درجۂ دار نے آہستہ کہا:
’’نہیں حضور… یہ انقلاب ہے۔‘‘
بادشاہ نے فوراً فوج واپس بلائی، اور نیشنل اسمبلی کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔
مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔
لوگ اب صرف اسمبلی نہیں، آزادی، مساوات اور بھائی چارے (Liberté, Égalité, Fraternité) کا مطالبہ کر رہے تھے۔
نیشنل گارڈ اور انقلاب کی حفاظت
پیرس کی عوام نے "نیشنل گارڈ" نامی اپنی عوامی فورس تشکیل دی۔
اس کا کمانڈر بنایا گیا لافایئت (Lafayette) کو — جو امریکہ کی آزادی کی جنگ کا ہیرو رہ چکا تھا۔
پہلی بار فرانس میں فوج صرف بادشاہ کے حکم پر نہیں، عوام کے مفاد میں تعینات ہو رہی تھی۔
نیشنل گارڈ نے نہ صرف شہر کی حفاظت کی بلکہ عوامی امن قائم کیا۔
ہر طرف نئے قوانین، نئے جھنڈے، اور نئے نعرے گونجنے لگے۔
دیہات میں بغاوت: گریٹ فئیر (Great Fear)
پیرس کی آگ دیہات تک پھیل گئی۔
لوگوں نے جاگیرداروں کے کھیتوں، محلوں، اور ریکارڈز پر حملے شروع کر دیے۔
وہ دستاویزات جلائی جانے لگیں جن میں کسانوں سے جبری ٹیکس اور مشقت کا ریکارڈ ہوتا تھا۔
ہر طرف شور تھا:
’’اب ہمیں غلامی سے نجات چاہیے!‘‘
کلیسا (Church) کا زوال شروع ہوتا ہے
ایک طرف اشرافیہ بھاگ رہی تھی، دوسری طرف چرچ (کلیسا) کی طاقت بھی ڈگمگا رہی تھی۔
عوام کو اب یہ بات کھٹکنے لگی تھی کہ:
’’چرچ، جو خود کو خدا کا نمائندہ کہتا ہے، آخر کیوں بادشاہوں کی تاجپوشی کرتا ہے؟
اور کیوں ہر ظالم حکم کی حمایت کرتا ہے؟‘‘
بیشتر چرچ رہنما دولت اور زمین کے مالک تھے۔
وہ عام لوگوں پر نہ صرف مذہبی رعب ڈال کر ٹیکس لیتے تھے، بلکہ ’’عذابِ الٰہی‘‘ کا خوف پھیلا کر اپنی طاقت قائم رکھتے تھے۔
اب عوام بول پڑے:
"یہ خدا کے نمائندے نہیں… یہ ظلم کے وکیل ہیں!"
نیا فرانس جنم لے رہا تھا
قلعہ گر چکا تھا۔
محلات ویران ہو رہے تھے۔
کلیسا کے گرجے سنسان ہو چکے تھے۔
فرانس کے گلی کوچوں میں ایک نعرہ ابھرا:
"ہم اب خود فیصلے کریں گے۔"
یہ صرف انقلاب نہیں تھا…
یہ تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز تھا۔
نوٹ: یہ پوسٹ طویل ہونے کے باعث مکمل نہیں، باقی داستان اگلی قسط میں پوسٹ کی جائے گی۔
سائنس، تاریخ اور حالاتِ حاضرہ پر تحقیق شدہ مواد — سادہ زبان میں، بغیر کسی لنک کے۔
اگر آپ باخبر اور باشعور رہنا چاہتے ہیں، تو ہمارا پیج ضرور فالو کریں۔
Globe Teller