Globe Teller

Globe Teller Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Globe Teller, News & Media Website, Islamabad.

یہ پیج اُن لوگوں کے لیے ہے جو دنیا کو صرف خبروں سے نہیں، فہم و تجزیے سے سمجھنا چاہتے ہیں۔
سائنس، ٹیکنالوجی، ثقافت، تاریخ، اور روزمرہ حقائق — ہر پہلو پر تحقیق شدہ مواد،
بغیر کسی لنک کھولنے پر مجبور کرتے ہوئے اور سادہ زبان میں۔

جولائی 1789: قلعہ بیسٹیل کا زوال – جب عوام نے بندوقوں کے خلاف حوصلہ اٹھایاجون 1789 کے بعد، جب تیسری کلاس نے خود کو ’’نیش...
05/07/2025

جولائی 1789: قلعہ بیسٹیل کا زوال – جب عوام نے بندوقوں کے خلاف حوصلہ اٹھایا

جون 1789 کے بعد، جب تیسری کلاس نے خود کو ’’نیشنل اسمبلی‘‘ قرار دے دیا، پورے پیرس میں بے چینی پھیلنے لگی۔ غریبوں کے چہروں پر غصہ، اور دلوں میں امید جاگنے لگی تھی۔ لوگ جان چکے تھے کہ اب یا تو سب کچھ بدلے گا… یا کچھ باقی نہ رہے گا۔

لیکن بادشاہ لوئی شانزدہم (Louis XVI) نے طاقت کا سہارا لیا۔ اُس نے اپنے وفادار فوجی دستے پیرس کے گرد تعینات کرنے شروع کر دیے۔
لوگوں کو یہ خوف تھا کہ نیشنل اسمبلی کو بزورِ طاقت ختم کیا جائے گا، اور ایک نیا خونی باب شروع ہو گا۔

اسی وقت ایک اور خبر نے آگ پر تیل چھڑک دیا:

"بادشاہ نے نیشنل اسمبلی کے حامی وزیرِ خزانہ ژاک نیکر (Jacques Necker) کو برطرف کر دیا ہے۔"
یہ وزیر عوام میں مقبول تھا، کیونکہ وہ اشرافیہ پر بھی ٹیکس لگانے کا حامی تھا۔
جب اسے نکالا گیا، عوام کو یقین ہو گیا کہ اب بادشاہ بدترین جبر کے راستے پر ہے۔

پیرس کی گلیاں گرم ہو گئیں۔

12 سے 13 جولائی کو عوام نے ہتھیاروں کی تلاش شروع کر دی۔
لوگوں نے شہر کے ہتھیار خانوں پر دھاوا بولا، لوہے کے راڈ، کلہاڑیاں، بندوقیں، اور چھریاں اکٹھی کیں۔
مگر گولی چلانے کے لیے بارود چاہیے تھا — اور بارود کہاں تھا؟
قلعہ بیسٹیل میں۔
یہ پیرس کے وسط میں واقع ایک قلعہ تھا — کبھی بادشاہی خزانے اور دستاویزات کی حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا، مگر اب یہ سیاسی قیدیوں کی جیل بن چکا تھا۔
لوگوں کی نظر میں یہ ’’ظلم، جبر، اور بادشاہی طاقت کی علامت‘‘ تھا۔

قلعہ میں قیدی کم تھے، مگر اس کا مطلب بہت بڑا تھا۔
14 جولائی کی صبح سورج ابھی مکمل طلوع بھی نہیں ہوا تھا کہ ہزاروں شہری بیسٹیل کے باہر جمع ہو گئے۔
بندوقیں اُن کے ہاتھ میں تھیں، مگر بارود نہیں۔

عوام نے قلعے کے گورنر مارکی ڈی لونائے (de Launay) سے مطالبہ کیا:
’’بارود ہمیں دو! یہ ہمارا حق ہے!‘‘
گورنر نے پہلے ٹال مٹول کی۔ پھر فوجی دستوں کو دیواروں پر تعینات کر دیا۔
مذاکرات ناکام ہوئے… اور اچانک گولیاں چلنے لگیں۔عوام نے دروازے توڑنے کی کوشش کی۔ قلعے کے اوپر سے فوجی فائرنگ کر رہے تھے۔
درجنوں عام شہری مارے گئے، لیکن ہجوم پیچھے نہیں ہٹا۔
آخرکار دوپہر تک قلعے کے اندر موجود کچھ سپاہیوں نے بغاوت کر دی اور عوام کا ساتھ دیا۔

پھر کیا تھا…

قلعے کے دروازے ٹوٹے، عوام اندر داخل ہوئے۔
گورنر کو پکڑ لیا گیا — اور اُسے نہ صرف قتل کیا گیا بلکہ اس کا سر کاٹ کر نیزے پر چڑھا کر پورے شہر میں گھمایا گیا۔

انقلاب کا اعلان

بیسٹیل کا گرایا جانا کوئی فوجی کامیابی نہیں تھی — یہ ایک علامتی اعلان تھا:
"اب بادشاہ نہیں، ہم عوام فیصلہ کریں گے!"
پوری دنیا نے اس واقعے کو حیرت سے دیکھا۔
پیرس میں جشن منایا گیا، عوام ایک دوسرے کو گلے لگانے لگے۔
ایک شاعر نے لکھا:
اس دن گلیوں میں موت تھی — لیکن ساتھ ہی نئی زندگی کی سانس بھی۔"

بیسٹیل کے بعد: جب تخت لرزنے لگا اور اشرافیہ بھاگنے لگی

بیسٹیل پر حملہ صرف ایک قلعہ گرائے جانے کا واقعہ نہیں تھا — یہ بادشاہت کے خلاف اعلانِ جنگ تھا۔
پیرس کی فضا بدل چکی تھی۔
عوام کے ہاتھ میں بندوقیں تھیں، مگر اُن کے دل میں اب ایک نظریہ بھی جاگ چکا تھا:

> ’’ہم خود اپنے حکمران چنیں گے۔‘‘

جیسے ہی قلعہ بیسٹیل گرا، پیرس میں خوف کا سایہ پھیل گیا۔
اشرافیہ، جو کل تک عوام کو حکیر سمجھتے تھے، اب شہر چھوڑنے لگے۔
سینکڑوں نواب، درباری، اور جاگیردار اپنی دولت سمیت ملک سے فرار ہونے لگے — یہ دور "امیگریشن کی لہر" کہلایا۔

محلات خالی ہونے لگے۔
اشرافیہ کی زمینیں اب عوام کے غصے کا نشانہ بننے لگیں۔

بادشاہ کی بے بسی اور ردِعمل
جب شاہ لوئی شانزدہم کو بیسٹیل پر حملے کی خبر ملی، وہ ششدر رہ گیا۔
رات کو اُس نے صرف ایک لفظ کہا:

> ’’یہ بغاوت ہے؟‘‘
درجۂ دار نے آہستہ کہا:
’’نہیں حضور… یہ انقلاب ہے۔‘‘

بادشاہ نے فوراً فوج واپس بلائی، اور نیشنل اسمبلی کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔
مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔

لوگ اب صرف اسمبلی نہیں، آزادی، مساوات اور بھائی چارے (Liberté, Égalité, Fraternité) کا مطالبہ کر رہے تھے۔

نیشنل گارڈ اور انقلاب کی حفاظت
پیرس کی عوام نے "نیشنل گارڈ" نامی اپنی عوامی فورس تشکیل دی۔
اس کا کمانڈر بنایا گیا لافایئت (Lafayette) کو — جو امریکہ کی آزادی کی جنگ کا ہیرو رہ چکا تھا۔

پہلی بار فرانس میں فوج صرف بادشاہ کے حکم پر نہیں، عوام کے مفاد میں تعینات ہو رہی تھی۔
نیشنل گارڈ نے نہ صرف شہر کی حفاظت کی بلکہ عوامی امن قائم کیا۔
ہر طرف نئے قوانین، نئے جھنڈے، اور نئے نعرے گونجنے لگے۔
دیہات میں بغاوت: گریٹ فئیر (Great Fear)

پیرس کی آگ دیہات تک پھیل گئی۔
لوگوں نے جاگیرداروں کے کھیتوں، محلوں، اور ریکارڈز پر حملے شروع کر دیے۔
وہ دستاویزات جلائی جانے لگیں جن میں کسانوں سے جبری ٹیکس اور مشقت کا ریکارڈ ہوتا تھا۔

ہر طرف شور تھا:
’’اب ہمیں غلامی سے نجات چاہیے!‘‘

کلیسا (Church) کا زوال شروع ہوتا ہے
ایک طرف اشرافیہ بھاگ رہی تھی، دوسری طرف چرچ (کلیسا) کی طاقت بھی ڈگمگا رہی تھی۔
عوام کو اب یہ بات کھٹکنے لگی تھی کہ:
’’چرچ، جو خود کو خدا کا نمائندہ کہتا ہے، آخر کیوں بادشاہوں کی تاجپوشی کرتا ہے؟
اور کیوں ہر ظالم حکم کی حمایت کرتا ہے؟‘‘
بیشتر چرچ رہنما دولت اور زمین کے مالک تھے۔
وہ عام لوگوں پر نہ صرف مذہبی رعب ڈال کر ٹیکس لیتے تھے، بلکہ ’’عذابِ الٰہی‘‘ کا خوف پھیلا کر اپنی طاقت قائم رکھتے تھے۔

اب عوام بول پڑے:
"یہ خدا کے نمائندے نہیں… یہ ظلم کے وکیل ہیں!"
نیا فرانس جنم لے رہا تھا
قلعہ گر چکا تھا۔
محلات ویران ہو رہے تھے۔
کلیسا کے گرجے سنسان ہو چکے تھے۔

فرانس کے گلی کوچوں میں ایک نعرہ ابھرا:
"ہم اب خود فیصلے کریں گے۔"
یہ صرف انقلاب نہیں تھا…
یہ تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز تھا۔
نوٹ: یہ پوسٹ طویل ہونے کے باعث مکمل نہیں، باقی داستان اگلی قسط میں پوسٹ کی جائے گی۔

سائنس، تاریخ اور حالاتِ حاضرہ پر تحقیق شدہ مواد — سادہ زبان میں، بغیر کسی لنک کے۔
اگر آپ باخبر اور باشعور رہنا چاہتے ہیں، تو ہمارا پیج ضرور فالو کریں۔
Globe Teller

ایک ہجوم چیخ رہا ہے… گلیوں میں لال رومال باندھے انقلابی دوڑ رہے ہیں… ہاتھ چیک کیے جا رہے ہیں۔کسی کا ہاتھ نرم ہے؟"یہ محنت...
05/07/2025

ایک ہجوم چیخ رہا ہے… گلیوں میں لال رومال باندھے انقلابی دوڑ رہے ہیں… ہاتھ چیک کیے جا رہے ہیں۔
کسی کا ہاتھ نرم ہے؟
"یہ محنت نہیں کرتا… امیر ہے!"
گلوٹین کی صف میں لگا دو!
فرانس کی گلیوں میں اب محنتی ہاتھ ہی زندگی کا پروانہ تھے، اور نرمی — ایک جرم۔
یہ محض بادشاہ کے خلاف بغاوت نہیں تھی، بلکہ ایک ایسا انقلاب تھا جس نے مذہب، روایت، بادشاہت، اشرافیہ — سب کچھ بہا دیا۔

مگر یہ سب شروع کیوں ہوا؟
کیسے ایک عظیم سلطنت اندر سے گل سڑ کر زمین بوس ہو گئی؟
کیوں 14 جولائی 1789 کو عوام نے ’’بیسٹیل‘‘ قلعہ پر دھاوا بول دیا؟

چلیے تاریخ کے سب سے خونریز اور خطرناک انقلاب کی پہلی قسط میں جھانکتے ہیں۔
فرانسیسی انقلاب صرف فاقہ کش عوام کا غصہ نہیں تھا، یہ صدیوں پر پھیلے ظلم، ناانصافی اور طبقاتی تقسیم کا دھماکہ تھا۔

اور عوامی فاقہ کشی کے درمیان — جس نے ایک دن انقلاب کو جنم دیا۔
فرانسیسی انقلاب صرف فاقہ کش عوام کا غصہ نہیں تھا، یہ صدیوں پر پھیلے ظلم، ناانصافی اور طبقاتی تقسیم کا دھماکہ تھا۔

فرانس کا معاشرہ تین طبقات (Estates) پر مشتمل تھا:
پہلا طبقہ کلیسا (چرچ)، دوسرا اشرافیہ (نواب و جاگیردار)، اور تیسرا — جو سب سے بڑا اور سب سے مظلوم تھا — عام لوگ: کسان، مزدور، چھوٹے کاروباری اور نچلے طبقے کے شہری۔

پہلا طبقہ: کلیسا (چرچ)
یہ طبقہ بظاہر مذہب کا نمائندہ تھا، لیکن درحقیقت بادشاہت اور ظلم کا روحانی ہتھیار تھا۔
چرچ نہ صرف بادشاہوں کی تاج پوشی کرتا بلکہ ظلم اور استبداد کو "الٰہی مرضی" قرار دیتا۔
یہ پادری خود کو "خدا کا نمائندہ" کہتے، مگر ان کے محلات سونے سے بھرے ہوتے، کپڑے ریشم کے، اور برتن چاندی کے۔
انھوں نے جنت کے وعدوں کے بدلے لوگوں سے زکوٰۃ اور خیرات بٹور کر زمینیں خریدیں، اور ہر گناہ کو معاف کرنے کا اختیار بھی اپنے پاس رکھا۔
اگر کوئی بادشاہ عوام پر ظلم کرے، ٹیکس چڑھائے یا جنگیں چھیڑے — چرچ اس کا ساتھ دیتا۔
اور جو شخص چرچ سے اختلاف کرے، اسے "کافر" یا "خدا کا منکر" کہہ کر جلا دیا جاتا یا گلوٹین کے حوالے کر دیا جاتا۔

دوسرا طبقہ: اشرافیہ (نواب و جاگیردار)
یہ طبقہ بادشاہ کا حلقہ بگوش اور چرچ کا شریکِ جرم تھا۔
یہ لوگ محلوں میں رہتے، شان و شوکت سے جیتے، اور عوام کو محض خادم سمجھتے۔
یہ ہر ٹیکس سے محفوظ تھے، مگر اپنی زمینوں پر کام کرنے والے کسانوں سے اناج کا آخری دانہ بھی چھین لیتے۔
یہ طبقہ فیصلے کرتا تھا، قانون بناتا تھا، اور بادشاہ کے ساتھ مل کر سب کچھ قابو میں رکھتا۔

تیسرا طبقہ: عوام
یہ طبقہ فرانس کی 98 فیصد آبادی پر مشتمل تھا، مگر ان کی زندگی محض گنتی کا ہندسہ تھی۔
یہی لوگ دن رات کام کرتے، سارا ٹیکس بھرتے، مگر بدلے میں بھوک، ذلت اور جبر پاتے۔
کسان کھیتوں میں جھکتے، مزدور کارخانوں میں مرتے، اور چھوٹے کاروباری قرضوں میں ڈوبتے۔
یہ طبقہ ہر طرف سے دبا ہوا تھا — اوپر سے چرچ انھیں جنت کا لالچ دے کر خاموش رکھتا، اور بادشاہ تلوار کا خوف دے کر۔
یہ لوگ زمین پر رہتے تھے، مگر ان کے سر پر آسمان کلیسا اور تلوار اشرافیہ کی تھی۔
بادشاہ لوئی شانزدہم فرانسیسی سلطنت کا رسمی سربراہ تھا، مگر وہ کسی دانشمند، بہادر یا انقلابی حکمران کی بجائے ایک کمزور، فیصلہ نہ کر سکنے والا اور غیر حساس بادشاہ تھا۔
وہ انتظامی فیصلوں میں سست، معاشی پالیسیوں میں ناکام، اور عوام کی حالت سے بے خبر تھا۔

اس کا زیادہ تر وقت شکار، گھڑسواری، تالوں کو کھولنے کے شوق، یا شاہی دعوتوں میں گزر جاتا تھا۔
ریاست خزانے کے دیوالیہ پن کے قریب پہنچ چکی تھی، مگر بادشاہ اور اس کا دربار بدستور سونے چاندی کے برتنوں میں کھانے کھا رہا تھا۔

جب معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچی تو بھی بادشاہ نے اشرافیہ پر کوئی ٹیکس نہ لگایا، بلکہ تمام بوجھ تیسری کلاس — یعنی عوام — پر ڈال دیا۔
ایک موقع پر جب وزیروں نے بادشاہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ عوام بھوکوں مر رہی ہے، تو بادشاہ نے کندھے اچکا کر کہا: "انہیں برداشت کرنا سیکھنا چاہیے۔"

اس کی بیوی ملکہ میری اینٹونائٹ نے بھی جلتی پر تیل ڈال دیا۔
جب اسے بتایا گیا کہ عوام کے پاس کھانے کو روٹی نہیں، تو اس نے قہقہہ مار کر کہا:
"تو پھر کیک کھا لیں!"
یہ جملہ بعد میں پوری سلطنت کے خلاف عوامی غصے کی علامت بن گیا۔

شاہی محل "ورسے" (Versailles Palace) ایک الگ دنیا تھا — جہاں ہر لمحہ موسیقی، رقص اور دعوتوں سے بھرپور ہوتا، جبکہ صرف چند میل دور پیرس کی گلیوں میں لوگ اپنی لاشوں کو دفنانے کے لیے پیسے مانگتے۔
کی دہائی کے آخر میں فرانس کا خزانہ بالکل خالی ہو چکا تھا۔ مسلسل جنگیں، محل کی فضول خرچیاں، ملکہ کے شوق، شاہی تقریبیں — سب نے ریاست کو قرض میں ڈبو دیا تھا۔
یہ وہ وقت تھا جب حکومت کو نئی آمدن کی اشد ضرورت تھی۔ بادشاہ نے اپنی کونسل سے مشورہ کیا کہ مزید ٹیکس لگائے جائیں۔

لیکن یہاں ایک بڑا سوال تھا:
کیا ٹیکس پہلی کلاس (چرچ) اور دوسری کلاس (اشرافیہ) پر بھی لگے گا؟
جواب تھا: نہیں۔

بادشاہ کی تمام تر توجہ صرف تیسری کلاس — یعنی کسانوں، مزدوروں، نچلے درجے کے تاجروں اور عام شہریوں — پر تھی۔
یہ وہی لوگ تھے جو پہلے ہی تمام ٹیکس ادا کر رہے تھے، فوج میں بھرتی ہوتے تھے، اور ملک کی معیشت کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھے۔
اب ان پر مزید بوجھ ڈالنے کی تیاری تھی۔

یہ معاملہ اتنا سنگین ہو چکا تھا کہ بادشاہ کو 28 مئی 1789 کو "ایسٹٰیٹس جنرل" (Estates-General) نامی قومی اسمبلی بلانی پڑی۔
یہ اسمبلی تینوں طبقوں کی نمائندہ ہوتی تھی:

1. پہلا طبقہ: چرچ (Clergy)

2. دوسرا طبقہ: اشرافیہ (Nobles)

3. تیسرا طبقہ: عام لوگ (Commoners)

لیکن یہاں بھی ناانصافی چھپی ہوئی تھی۔
ہر طبقے کو برابر کی ایک ووٹ ملتی تھی — یعنی 1 + 1 + 1 = 3 ووٹس۔
چاہے تیسرا طبقہ 98 فیصد عوام پر مشتمل ہو، لیکن اس کی ووٹ کا وزن وہی تھا جو 1 فیصد چرچ یا 1 فیصد اشرافیہ کا۔

اب ہوتا یہ کہ اشرافیہ اور چرچ اکٹھے ہو کر ہمیشہ عوامی مطالبات کو رد کر دیتے۔
اور یہی ہوا — عوام نے کہا کہ ٹیکس سب پر برابر لگے، لیکن اشرافیہ اور کلیسا نے ایک زبان ہو کر انکار کر دیا۔

اسی دوران ایک انتہائی تاریخی واقعہ پیش آیا:
تیسرے طبقے کے نمائندوں نے اجلاس سے واک آؤٹ کر دیا۔
وہ اسمبلی کے ایک الگ ہال میں گئے اور کہا:

> "ہم ہی قوم ہیں، ہم ہی عوام ہیں، اور ہم ہی اصل قانون ساز ہیں۔"
ہم خود کو "نیشنل اسمبلی" قرار دیتے ہیں!

اس نئی "نیشنل اسمبلی" نے بادشاہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے فیصلوں کو تسلیم کرے اور تمام طبقوں پر برابر ٹیکس لگائے۔

جب بادشاہ کو یہ اطلاع ملی تو وہ بوکھلا گیا۔
اس نے فوجی دستے پیرس کی طرف روانہ کیے تاکہ عوام کو ڈرایا جا سکے۔

نوٹ: یہ پوسٹ طویل ہونے کے باعث مکمل نہیں، باقی اگلی قسط میں پوسٹ کی جائے گی۔

سائنس، تاریخ اور حالاتِ حاضرہ پر تحقیق شدہ مواد — سادہ زبان میں، بغیر کسی لنک کے۔
اگر آپ باخبر اور باشعور رہنا چاہتے ہیں، تو ہمارا پیج ضرور فالو کریں
Globe Teller

جیدی بوناکولٹا نے اپنے شعبے میں صرف ساڑھے چھ برس کی قلیل مدت میں پانچ بار ترقی حاصل کی اور ’لنکڈ اِن‘ سے ’گوگل‘ کی ملازم...
04/07/2025

جیدی بوناکولٹا نے اپنے شعبے میں صرف ساڑھے چھ برس کی قلیل مدت میں پانچ بار ترقی حاصل کی اور ’لنکڈ اِن‘ سے ’گوگل‘ کی ملازمت حاصل کرنے کا سفر کامیابی سے طے کیا۔
ان کی کامیابی کا راز دو سادہ مگر مؤثر سوالات میں پوشیدہ تھا جو وہ اپنے مینیجر سے اکثر پوچھا کرتی تھیں کہ
’میرے موجودہ عہدے کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟‘ اور ’ایک درجہ ترقی ملنے کے بعد یہ ذمہ داریاں کیسے بدلیں گی؟‘

کاروباری جریدے ’بزنس انسائیڈر‘ سے گفتگو کرتے ہوئے جیدی بوناکولٹا نے بتایا کہ اکثر ترقی تب ملتی ہے جب کوئی ملازم پہلے ہی اگلے درجے کی کارکردگی دکھا رہا ہوتا ہے۔
اسی سوچ کے تحت انہوں نے اپنے مینیجر کو نہ صرف اپنی پیشرفت سے باخبر رکھا بلکہ خود ہی اعلیٰ سطح کی ذمہ داریاں سنبھالنا شروع کر دیں۔

مثال کے طور پر جب وہ سیلز ٹیم میں ایسوسی ایٹ کے طور پر کام کر رہی تھیں تو صرف پریزنٹیشن تیار کرنے تک محدود نہیں رہیں بلکہ ان پریزنٹیشنز کو اعلیٰ افسران کے سامنے پیش بھی کرنے لگیں جو ان کے پیشہ وارانہ عہدے کے لحاظ سے غیر معمولی بات تھی۔
ان کی مستقل محنت اور اعلیٰ سطح کی کارکردگی کی بدولت پوری تنظیم میں انہیں سراہا گیا۔

کئی سینیئر افسران کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ صرف ایک ایسوسی ایٹ تھیں کیونکہ ان کا اندازِ کام کسی مینیجر سے کم نہ تھا۔
یہ ہی وہ لمحات تھے جنہوں نے ان کی ترقی کی راہ ہموار کی۔

جیدی بوناکولٹا ترقی کی دوڑ میں اندھا دھند بھاگنے کے بارے میں خبردار بھی کرتی ہیں۔
ان کے مطابق ’ذاتی دلچسپی اور پیشہ ورانہ ترقی کے درمیان توازن ضروری ہے تاکہ ذہنی دباؤ اور تھکن سے بچا جا سکے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’آپ کو متاثر ہونے کا احساس ہونا چاہیے۔‘

پیشہ ور افراد کو وہ یہ نصیحت کرتی ہیں کہ وہ اگلے مرحلے کی طرف بڑھنے کے باوجود اپنی موجودہ ذمہ داریوں کو نظرانداز نہ کریں۔

انہوں نے ان افراد کے لیے چار بنیادی اصول بھی بیان کیے جو تیز رفتاری سے ترقی چاہتے ہیں:

1. اپنے مینیجر سے بات کر کے ہر سطح کی ذمہ داریوں اور توقعات کی وضاحت حاصل کریں۔

2. خود سے اگلے درجے کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی پہل کریں۔

3. یہ یقینی بنائیں کہ ترقی کی راہ آپ کی دلچسپی سے ہم آہنگ ہو تاکہ ذہنی دباؤ سے بچا جا سکے۔

4. موجودہ کام کو کبھی نظرانداز نہ کریں، چاہے آپ کتنے ہی پرجوش ہوں۔

گوگل میں شامل ہونے کے بعد بھی جیدی بوناکولٹا نے یہی اصول اپنائے اور اس بات پر زور دیا کہ اضافی منصوبوں پر کام کرنے سے پہلے موجودہ کردار میں مہارت حاصل کرنا ضروری ہے۔
ان کا سفر اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ترقی کا تیز ترین راستہ یہ نہیں کہ کوئی آپ کو دیکھے اور پہچانے، بلکہ یہ ہے کہ آپ یہ ظاہر کریں کہ آپ پہلے ہی اگلی سطح کے لیے تیار ہیں۔
سائنس، تاریخ اور حالاتِ حاضرہ پر تحقیق شدہ مواد — سادہ زبان میں، بغیر کسی لنک کے۔
اگر آپ باخبر اور باشعور رہنا چاہتے ہیں، تو ہمارا پیج ضرور فالو کریں۔
Globe Teller

کابل اور ماسکو سے موصولہ اطلاعات کے مطابق روس نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کے نئے سفیر کی اسناد کو قبول کر لیا ہے، ج...
04/07/2025

کابل اور ماسکو سے موصولہ اطلاعات کے مطابق روس نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کے نئے سفیر کی اسناد کو قبول کر لیا ہے، جس سے روس طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق روسی وزارت خارجہ نے باضابطہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ "ہم سمجھتے ہیں کہ امارتِ اسلامیہ افغانستان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا عمل دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں نتیجہ خیز دوطرفہ تعاون کو فروغ دے گا۔"

دوسری جانب افغان وزارت خارجہ نے بھی ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر پوسٹ کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ ملک کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی اور روسی فیڈریشن کے سفیر دیمتری ژیرنوف کے درمیان کابل میں اہم ملاقات ہوئی ہے۔ اس ملاقات کے دوران روسی سفیر نے روسی حکومت کا وہ باضابطہ فیصلہ افغان حکام تک پہنچایا جس کے تحت روس نے افغانستان کی "امارتِ اسلامیہ" کو تسلیم کر لیا ہے۔

افغان وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق روسی سفیر نے اس فیصلے کو "تاریخی قدم" قرار دیا اور کہا کہ یہ اقدام دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے اور دوطرفہ تعاون کو فروغ دینے کے لیے سنگِ میل ثابت ہوگا۔ روس کا یہ فیصلہ عالمی منظرنامے پر ایک بڑی سفارتی تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو دیگر ممالک کے لیے بھی ایک مثال بن سکتا ہے۔

سائنس، تاریخ اور حالاتِ حاضرہ پر تحقیق شدہ مواد — سادہ زبان میں، بغیر کسی لنک کے۔
اگر آپ باخبر اور باشعور رہنا چاہتے ہیں، تو ہمارا پیج ضرور فالو کریں۔

Globe Teller

رواں برس جولائی اور اگست میں زمین کی گردش کی رفتار معمول سے کچھ بڑھنے کی پیشگوئی سامنے آئی ہے، جس کے باعث دن مختصر ہو سک...
04/07/2025

رواں برس جولائی اور اگست میں زمین کی گردش کی رفتار معمول سے کچھ بڑھنے کی پیشگوئی سامنے آئی ہے، جس کے باعث دن مختصر ہو سکتے ہیں۔ timeanddate.com کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق خاص طور پر 9 جولائی، 22 جولائی اور 5 اگست کو سب سے چھوٹے دن متوقع ہیں، اور 5 اگست کو دن اوسط سے تقریباً 1.51 ملی سیکنڈ کم ہوگا۔ یہ تبدیلی معمولی ہوگی مگر دلچسپ اس لیے ہے کہ یہ زمین کی گردش میں طویل مدتی سست روی کے رجحان کے برعکس ہے، جو چاند کی کششِ ثقل کے اثر کی وجہ سے ہوتا ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ زمین اپنی محور پر تقریباً 365 بار گردش کرتی ہے، جو ہمارے کیلنڈر کے دنوں کے برابر ہے۔ لیکن ماضی میں مختلف سائنسی کیلکیولیشنز سے معلوم ہوا ہے کہ زمین کو سورج کے گرد ایک چکر مکمل کرنے میں 490 سے 372 دن لگتے تھے۔ ماہرین کے مطابق زمین کے مرکز میں ہونے والی اندرونی حرکات، یا پگھلتے ہوئے گلیشیئرز کے سبب زمین کے ماس کی دوبارہ تقسیم، اس گردش میں تیزی کی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹینڈرڈز اینڈ ٹیکنالوجی کے ماہر طبیعیات جوڈا لیوین نے 2021 میں بتایا تھا کہ یہ تصور کیا جاتا رہا تھا کہ زمین کی رفتار کم ہوتی جائے گی اور ہمیں ’’لیپ سیکنڈ‘‘ شامل کرنا پڑیں گے، اس لیے یہ موجودہ نتیجہ حیران کن ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کی تیز گردش کے باعث عالمی وقت کی پیمائش میں تبدیلی کی ضرورت پیش آ سکتی ہے، اور ممکن ہے کہ 2029 میں پہلی بار ایک "لیپ سیکنڈ" منہا کیا جائے۔ ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرِ ارضیات لیونید زوتوف کے مطابق یہ غیر متوقع رفتار ابھی تک سائنسی طور پر مکمل طور پر واضح نہیں ہو سکی، اور غالب امکان ہے کہ یہ زمین کے اندرونی عوامل سے جڑی ہوئی ہو، کیونکہ سمندر اور فضا کے ماڈلز اس قدر تیز رفتاری کی وضاحت نہیں کر پا رہے۔

سائنس، تاریخ اور حالاتِ حاضرہ پر تحقیق شدہ مواد — سادہ زبان میں، بغیر کسی لنک کے۔
اگر آپ باخبر اور باشعور رہنا چاہتے ہیں، تو ہمارا پیج ضرور فالو کریں۔
Globe Teller

مئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان چار روزہ فضائی جھڑپوں کے بعد اب دونوں ممالک اپنی دفاعی تیاریوں کو نئی سطح پر لے جا ر...
03/07/2025

مئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان چار روزہ فضائی جھڑپوں کے بعد اب دونوں ممالک اپنی دفاعی تیاریوں کو نئی سطح پر لے جا رہے ہیں۔ بھارت نے اپنے اندرونِ ملک ففتھ جنریشن سٹیلتھ جنگی طیارے تیار کرنے کی منظوری دی ہے، جبکہ پاکستان کی نظریں چین کے جدید ترین J-35 سٹیلتھ فائٹر جیٹس پر ہیں۔

حکومتی ذرائع کے مطابق پاکستان کو چین کی جانب سے 40 عدد J-35 طیاروں، جدید KJ-500 ایئر سسٹم، HQ-19 دفاعی نظام اور 3.7 ارب ڈالر کے قرض کی مؤخر ادائیگی کی پیشکش ہوئی ہے۔ گو کہ چین کی طرف سے کوئی سرکاری تصدیق سامنے نہیں آئی، مگر عالمی منڈی میں چینی دفاعی کمپنیوں کے حصص میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان گزشتہ ایک سال سے J-35 طیاروں میں دلچسپی ظاہر کرتا آ رہا ہے، اور اب سرکاری سطح پر اس بات کا تذکرہ اس دلچسپی کو حقیقت کے قریب لے جاتا ہے۔

💠 J-35 کی اہم خصوصیات کیا ہیں؟

یہ فائٹر جیٹ ففتھ جنریشن طیاروں میں شمار ہوتا ہے، جو دنیا کے جدید ترین جنگی جہازوں میں شامل ہیں۔ اس میں درج ذیل صلاحیتیں موجود ہیں:

سٹیلتھ ڈیزائن: ریڈار پر دکھائی نہیں دیتا۔

سپرکروز: آواز کی رفتار سے بغیر ایندھن ضیاع کے پرواز۔

ایویانکس فیوژن: ریڈار، نیویگیشن اور ہتھیاروں کا باہم ہم آہنگ نظام۔

نیٹ ورک کنیکٹیویٹی: دوسرے جہازوں، ڈرونز اور زمین پر موجود دفاعی نظاموں سے مکمل ربط۔
سٹیلتھ ٹیکنالوجی یوتی کیا ہے ؟
جنگی میدان ہو یا دشمن کی فضائی حدود — آج کے دور میں اگر کوئی طیارہ دشمن کے ریڈار پر نظر ہی نہ آئے تو وہ میدانِ جنگ میں ایک خاموش قاتل ثابت ہوتا ہے۔
ایسے طیاروں کو "سٹیلتھ ایئرکرافٹ" کہا جاتا ہے — یعنی ایسے جنگی جہاز جو دشمن کے ریڈارز، سینسرز اور دفاعی نظاموں سے بچ کر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

سٹیلتھ طیارے کا تصور پہلی بار 1970 کی دہائی میں امریکہ میں سامنے آیا، جب امریکی دفاعی ماہرین نے محسوس کیا کہ اگر بمبار طیارے دشمن کے ریڈار پر نظر آنا بند کر دیں، تو وہ اکیلے بھی بڑے اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

اس تحقیق کی بنیاد ایک روسی سائنسدان "پیٹر یوفم سیپنوک" کے ایک مقالے پر رکھی گئی تھی، جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ کسی طیارے کی ریڈار کراس سیکشن (Radar Cross Section) کیسے کم کی جا سکتی ہے۔

اسی بنیاد پر امریکی کمپنی "لاک ہیڈ مارٹن" نے 1975 میں Have Blue نامی تجرباتی طیارہ تیار کیا۔ اس کے بعد 1981 میں دنیا کا پہلا مکمل آپریشنل سٹیلتھ فائٹر F-117 Nighthawk منظرِ عام پر آیا — جو صرف ریڈار سے ہی نہیں، بلکہ تھرمل اور صوتی لہروں سے بھی خود کو چھپانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

سٹیلتھ ٹیکنالوجی کوئی جادو نہیں بلکہ سائنسی انجینیئرنگ کا نچوڑ ہے۔ ان طیاروں میں درج ذیل خصوصیات ہوتی ہیں:

ریڈار جذب کرنے والا میٹریل (RAM): یہ مٹیریل ریڈار ویوز کو واپس ریفلیکٹ کرنے کے بجائے جذب کر لیتا ہے۔

زاویہ دار ڈیزائن: طیارے کا جسم اس انداز میں بنایا جاتا ہے کہ ریڈار ویوز کسی خاص سمت میں منتشر ہو جائیں اور ریڈار کو مکمل سگنل واپس نہ ملے۔

🔹 اندرونی ہتھیاروں کی Bay: سٹیلتھ طیارے اپنے ہتھیار طیارے کے اندر رکھتے ہیں تاکہ بیرونی سطح پر کوئی چیز ریڈار سگنل کو واپس نہ پھینکے۔

🔹 کم شور والے انجن اور ایگزاسٹ: خاص ڈیزائن اور کولنگ سسٹمز کے ذریعے طیارے کی تھرمل (گرمی) اور صوتی شناخت بھی کم کر دی جاتی ہے۔

اب تک کئی ممالک نے سٹیلتھ طیارے تیار کیے ہیں یا کر رہے ہیں:

🇺🇸 امریکہ

F-117 Nighthawk (پہلا آپریشنل سٹیلتھ)

F-22 Raptor

F-35 Lightning II

B-2 Spirit (بمبار طیارہ)

🇷🇺 روس

Su-57 Felon

🇨🇳 چین

J-20 Mighty Dragon

J-35 (بحری سٹیلتھ فائٹر، پاکستان کی دلچسپی کا مرکز)

🇮🇳 بھارت

AMCA (Advanced Medium Combat Aircraft، ابھی ترقی کے مرحلے میں)

🇬🇧 یورپ (برطانیہ، اٹلی، جاپان)

Tempest (تیاری میں)

🇹🇷 ترکی

KAAN (تعمیر جاری
سائنس، تاریخ اور حالاتِ حاضرہ پر تحقیق شدہ مواد — سادہ زبان میں، بغیر کسی لنک کے۔
اگر آپ باخبر اور باشعور رہنا چاہتے ہیں، تو ہمارا پیج ضرور فالو کریں۔
Globe Teller

آل پاکستان جیمز اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن کے مطابق آج سونے کی فی تولہ قیمت میں 6600 روپے اضافہ ہوا، جس کے بعد نئی قیمت 3 ل...
01/07/2025

آل پاکستان جیمز اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن کے مطابق آج سونے کی فی تولہ قیمت میں 6600 روپے اضافہ ہوا، جس کے بعد نئی قیمت 3 لاکھ 56 ہزار 800 روپے تک پہنچ گئی ہے۔

اسی طرح 10 گرام سونے کی قیمت 5658 روپے اضافے کے ساتھ 3 لاکھ 5 ہزار 898 روپے ہو چکی ہے۔

عالمی مارکیٹ میں بھی سونے کی فی اونس قیمت میں 66 ڈالر اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جس کے بعد عالمی قیمت 3348 ڈالر فی اونس ہو گئی ہے۔

گزشتہ روز بھی فی تولہ قیمت میں 800 روپے کا اضافہ دیکھا گیا تھا۔

سائنس، تاریخ اور حالاتِ حاضرہ پر تحقیق شدہ مواد — سادہ زبان میں، بغیر کسی لنک کے۔
اگر آپ باخبر اور باشعور رہنا چاہتے ہیں، تو ہمارا پیج ضرور فالو کریں۔

روایتی چینی دوا "ایجیاؤ" (Ejiao) کی بڑھتی ہوئی مانگ ہر سال دنیا بھر میں تقریباً 60 لاکھ گدھوں کی جان لے رہی ہے۔ یہ محض ج...
30/06/2025

روایتی چینی دوا "ایجیاؤ" (Ejiao) کی بڑھتی ہوئی مانگ ہر سال دنیا بھر میں تقریباً 60 لاکھ گدھوں کی جان لے رہی ہے۔ یہ محض جانوروں کا قتل نہیں، بلکہ افریقی دیہاتوں میں بسنے والے لاکھوں افراد کی روزمرہ زندگیوں پر ایک زبردست حملہ ہے۔

برطانوی فلاحی ادارے "دی ڈونکی سینکچوری" کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، یہ قتل عام اکثریت میں غیرقانونی، غیرانسانی اور غیرمحفوظ حالات میں انجام پاتا ہے۔ کئی گدھے سفر کے دوران ہی مر جاتے ہیں، اور جو بچ جاتے ہیں، انہیں گندگی اور بیماری سے بھرپور مقامات پر ذبح کر دیا جاتا ہے۔

6.8 ارب ڈالر کی صنعت، لاکھوں زندگیاں خطرے میں

ایجیاؤ ایک جیلی نما صحت افزا پراڈکٹ ہے جس میں گدھوں کی کھال سے حاصل شدہ کولیجن شامل ہوتا ہے۔ چین میں اس صنعت کی مالیت اس وقت 6.8 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے، اور یہ مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس لالچ کا خمیازہ صرف گدھے نہیں بلکہ غریب دیہاتی، عورتیں اور بچے بھی بھگت رہے ہیں — جو ان جانوروں پر اپنی روزمرہ زندگی، کھیتی باڑی، پانی لانے اور بازار پہنچنے کے لیے انحصار کرتے ہیں۔

صحت عامہ کا عالمی خطرہ

یہ مسئلہ صرف جانوروں یا غربت تک محدود نہیں۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ غیر علاج شدہ کھالوں کی نقل و حمل اور گدھوں کی باقیات کو غیر محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانا نہ صرف مہلک بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتا ہے بلکہ مقامی ماحولیاتی نظام کی تباہی بھی اس کا انجام ہو سکتی ہے۔

جنگ زدہ علاقوں میں لائف لائن

دلچسپ اور افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ فلسطین جیسے جنگ زدہ علاقوں میں یہی گدھے لوگوں کی لائف لائن بنے ہوئے ہیں۔ لیکن دوسری طرف انہیں ہی عالمی منڈیوں میں خوبصورتی کی اشیاء کے لیے بےدریغ قتل کیا جا رہا ہے۔

یہ نہ صرف ایک ماحولیاتی سانحہ ہے بلکہ ایک اخلاقی المیہ بھی ہے، جس پر عالمی سطح پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

Globe Teller

سائنس، تاریخ اور حالاتِ حاضرہ پر تحقیق شدہ مواد — سادہ زبان میں، بغیر کسی لنک کے۔
اگر آپ باخبر اور باشعور رہنا چاہتے ہیں، تو ہمارا پیج ضرور فالو کریں۔

یہ کہانی ہے شہزادہ جمال الدین افندی (Prince Cemaleddin Efendi) کی، جو خلافتِ عثمانیہ کے سلطان عبدالعزیز کے بیٹے تھے، اور...
30/06/2025

یہ کہانی ہے شہزادہ جمال الدین افندی (Prince Cemaleddin Efendi) کی، جو خلافتِ عثمانیہ کے سلطان عبدالعزیز کے بیٹے تھے، اور ایک ایسی عورت کی، جس کا نام تاریخ نے فلورنس لوفورے (Florence Leforêt) لکھا — اور جسے فرانس کی خفیہ ایجنسی نے خلافت کے دربار میں بھیجا تھا۔

انیسویں صدی کے آخر میں خلافتِ عثمانیہ سیاسی لحاظ سے کمزور ہو رہی تھی، یورپ کی نظریں اس کی زمین اور نظام پر تھیں۔ فرانس، جو خلافت کے خلاف خفیہ طور پر سرگرم تھا، نے فلورنس کو "کلچرل پینٹر" بنا کر دربارِ خلافت میں بھیجا۔ اس کا مشن تھا شہزادہ جمال الدین کے بارے میں معلومات حاصل کرنا، کیونکہ انہیں یورپ نواز اور اصلاح پسند شہزادہ سمجھا جاتا تھا۔

فلورنس نہ صرف پینٹنگ کی ماہر تھی بلکہ گفتگو، زبان، اور نفسیات کی بھی استاد۔ شہزادہ جمال الدین، جو خود بھی فنونِ لطیفہ سے شغف رکھتے تھے، اس مصورہ سے متاثر ہوئے۔ ابتدا میں رسمی ملاقاتیں، پھر مخصوص نشستیں، اور رفتہ رفتہ ایک قریبی تعلق قائم ہو گیا۔
جاسوسہ، جو ابتدا میں محض ایک مشن پر تھی، اب اپنے جذبات کو چھپانے میں ناکام ہو گئی۔

سن 1898 کے اوائل میں فلورنس نے فرانسیسی خفیہ ایجنسی کو اپنی آخری رپورٹ میں لکھا:

> "I cannot betray a man whose eyes have shown me the world differently. I resign."

فرانس نے اسے وطن واپس بلانے کی کوشش کی، لیکن وہ استنبول چھوڑنے کو تیار نہ ہوئی۔ خلافت کو جب شبہ ہوا کہ ایک غیر ملکی عورت شہزادے کے قریب ہو گئی ہے، تو تفتیش شروع ہوئی۔ فلورنس کو حراست میں لیا گیا، اور اس پر "غیر ملکی جاسوسی" کا مقدمہ شروع ہوا۔

شہزادہ جمال الدین افندی نے دربار میں آ کر اعلان کیا کہ:

> "اگر فلورنس نے جاسوسی کی، تو صرف اپنی قوم کے حکم پر، لیکن آج وہ صرف میری ہے — اور میں اس کے لیے سب کچھ چھوڑنے کو تیار ہوں۔"

یہ اعلان عثمانی دربار میں زلزلہ بن کر آیا۔
خلافت نے دونوں کو "سیاسی طور پر خطرناک" قرار دے کر جلاوطنی کا حکم دیا۔
دونوں کو جزیرہ قبرص کے قریب واقع ایک چھوٹے یونانی جزیرے "کاستیلوریزو (Kastellorizo)" پر زندگی گزارنے کی اجازت ملی، لیکن خلافت نے انہیں مکمل نظر بندی میں رکھا۔

فلورنس اور جمال الدین نے وہیں شادی کی۔ ان کی کوئی اولاد نہ تھی، لیکن ان کے بارے میں مقامی لوگ کہتے ہیں کہ وہ شام کو سمندر کے کنارے بیٹھ کر عثمانی موسیقی سنتے اور خاموشی سے ماضی کو یاد کرتے۔

سن 1913 میں جمال الدین افندی کا انتقال ہوا۔ فلورنس نے اس کے بعد ایک بھی دن جزیرے سے باہر قدم نہ رکھا۔ وہ 1924 میں فوت ہوئیں۔ دونوں کی قبریں ایک دوسرے کے ساتھ موجود ہیں، اور ان پر لکھی گئی تحریر آج بھی صاف پڑھی جا سکتی ہے:

> "Biz hain, iki vatan arasında kaybolan iki kalp."
(ہم ہیں — دو وطنوں کے درمیان کھوئے ہوئے دو دل)

ہمارے پیج کو فالو کریں جہاں آپ کو ملے گا دفاع، سائنس، تاریخ، عالمی سیاست، اور تازہ ترین خبریں — وہ سب کچھ جو آپ جاننا چاہتے ہیں، بغیر کسی لنک کھولے، سادہ اور صاف زبان میں!"
Globe Teller



حوالہ جات:

"The Princes of the Ottoman House" — Huseyin Koyuncu, 1981

"European Espionage in the Late Ottoman Empire" — Dr. Marc Dubois, University of Strasbourg

Ottoman Archives, Istanbul (Letter ID: 98/HR-LOF-1901)

Kastellorizo Cemetery Records, Registry No. 34-A, 1924

دنیا کی اعلیٰ جامعات کی درجہ بندی کرنے والے معتبر ادارے کیو ایس (QS) نے سال 2026 کی رینکنگ جاری کر دی ہے — اور افسوسناک ...
29/06/2025

دنیا کی اعلیٰ جامعات کی درجہ بندی کرنے والے معتبر ادارے کیو ایس (QS) نے سال 2026 کی رینکنگ جاری کر دی ہے — اور افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی دنیا کی 350 بہترین جامعات میں جگہ بنانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔

اس درجہ بندی میں دنیا بھر کے 100 ممالک سے تعلق رکھنے والی 1500 بہترین جامعات کو شامل کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کی نسبت 500 سے زائد اداروں نے اپنی کارکردگی میں بہتری دکھائی — جن میں ملائیشیا کی سن وے یونیورسٹی نے سب سے نمایاں ترقی کی، جس کی پوزیشن میں 120 درجہ سے زائد بہتری دیکھی گئی۔

پاکستان کی 18 جامعات کو تو فہرست میں جگہ ملی، لیکن کوئی بھی جامعہ ٹاپ 350 میں شامل نہ ہو سکی۔
پاکستان کی سب سے بہتر پوزیشن حاصل کرنے والی جامعہ قائداعظم یونیورسٹی ہے، جسے 354 واں نمبر دیا گیا، جبکہ نسٹ یونیورسٹی 371 ویں پوزیشن پر آئی۔

دیگر پاکستانی جامعات کی درجہ بندی درج ذیل ہے:

پنجاب یونیورسٹی – 542

LUMS (لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز) – 555

یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد – 654

کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد – 664

PIEAS (پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انجنئیرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز) – 721

یو ای ٹی لاہور – 801

پشاور یونیورسٹی – 901

لاہور یونیورسٹی – 951

بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی – 1201

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور – 1401+

سندھ کی صرف ایک جامعہ، جامعہ کراچی، فہرست میں شامل ہو سکی ہے — وہ بھی 1001+ کیٹیگری میں۔ باقی کوئی بھی ادارہ عالمی 1500 جامعات میں جگہ نہ بنا سکا۔

دوسری جانب، دنیا کی سرفہرست 10 جامعات میں حسبِ روایت امریکہ اور برطانیہ کی جامعات چھائی رہیں:

MIT (میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ ٹیکنالوجی)1 – امریکہ

2. امپیریل کالج لندن – برطانیہ

3. یونیورسٹی آف آکسفورڈ – برطانیہ

4. ہارورڈ یونیورسٹی – امریکہ

5. یونیورسٹی آف کیمبرج – برطانیہ

6. سٹینفورڈ یونیورسٹی – امریکہ

7. نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور – سنگاپور

8. یونیورسٹی آف لندن (UCL) – برطانیہ

9. کیلٹیک (California Institute of Technology) – امریکہ

10. ایتھ Zurich – سوئٹزرلینڈ

یہ درجہ بندی نہ صرف تعلیمی اداروں کی سطح ظاہر کرتی ہے بلکہ ایک قوم کی سائنسی، فکری اور تحقیقی سمت کا بھی عکاس ہوتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے یہ اعداد و شمار صرف مایوس کن نہیں بلکہ لمحہ فکریہ ہیں۔

---

سائنس، تاریخ اور حالاتِ حاضرہ پر تحقیق شدہ مواد — سادہ زبان میں، بغیر کسی لنک کے۔
اگر آپ باخبر اور باشعور رہنا چاہتے ہیں، تو ہمارا پیج ضرور فالو کریں۔

نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر (NEOC) نے الرٹ جاری کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ملک کے کئی علاقوں میں آئندہ 48 گھنٹوں کے دورا...
29/06/2025

نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر (NEOC) نے الرٹ جاری کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ملک کے کئی علاقوں میں آئندہ 48 گھنٹوں کے دوران شدید بارشوں کے باعث شہری سیلاب (Urban Flooding) کا خطرہ موجود ہے۔

جنوبی سندھ کے اضلاع — سجاول، ٹھٹھہ، بدین، کراچی، حیدرآباد اور میرپور خاص — کو زیادہ خطرہ لاحق ہے۔
اسی طرح شمال مشرقی پنجاب اور پوٹھوہار ریجن — خاص طور پر راولپنڈی، اسلام آباد، گوجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ اور لاہور — کی نشیبی شہری آبادیاں بھی متاثر ہو سکتی ہیں۔
انتظامیہ کو ہدایات جاری:
حکام نے مقامی انتظامیہ کو ہدایت دی ہے کہ الرٹ رہیں، نکاسی آب کے فوری انتظامات کریں اور ہنگامی امدادی ٹیموں کو متحرک رکھیں۔
عوام سے اپیل:
موسم کی تازہ ترین صورتحال سے باخبر رہیں

شدید بارش کے دوران غیر ضروری سفر سے گریز کریں
جان و مال کی حفاظت کے لیے احتیاطی تدابیر اپنائیں
مون سون کی شدت میں اضافے کے ساتھ، شہری انفراسٹرکچر میں خلل اور ممکنہ تباہی کا خدشہ موجود ہے۔

سائنس، تاریخ اور حالاتِ حاضرہ پر تحقیق شدہ مواد — سادہ زبان میں، بغیر کسی لنک کے۔
اگر آپ باخبر اور باشعور رہنا چاہتے ہیں، تو ہمارا پیج ضرور فالو کریں۔









1960 میں عالمی ثالثی کے تحت کیا گیا سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان دریائی پانی کی تقسیم کے لیے ایک تاریخی ب...
29/06/2025

1960 میں عالمی ثالثی کے تحت کیا گیا سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان دریائی پانی کی تقسیم کے لیے ایک تاریخی بنیاد بنا۔ یہ معاہدہ کئی جنگوں، اختلافات اور الزامات کے باوجود 65 برس تک قائم رہا، اور اب بھی خطے میں پانی کے پرامن اشتراک کا سب سے بڑا قانونی حوالہ ہے۔

انڈیا کا معاہدہ معطل کرنے کا اعلان

رواں برس اپریل میں انڈیا نے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا، جسے اس نے سیکیورٹی وجوہات اور مبینہ سرحد پار حملوں کا جواز بنا کر پیش کیا۔ انڈیا نے دعویٰ کیا کہ وہ بطور خودمختار ریاست، اس معاہدے پر عمل درآمد روک سکتا ہے۔

ثالثی عدالت کا فیصلہ

ہیگ میں قائم ثالثی عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر کہا کہ سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کی کوئی شق موجود نہیں۔ عدالت کے مطابق کوئی بھی فریق یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا، نہ ہی ثالثی کی کارروائی کو روک سکتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ انڈیا کا معاہدہ معطل کرنے کا اعلان، عدالت کے دائرہ اختیار یا اس کی کارروائی پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔

پاکستان کا مؤقف اور بین الاقوامی اثر

پاکستان نے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ہے، اور وزیراعظم نے اسے پاکستان کے بیانیے کی تائید قرار دیا۔ پاکستان کے ماہرین قانون نے کہا کہ یہ فیصلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کو قانونی اخلاقی برتری حاصل ہوئی ہے۔
دوسری طرف انڈیا نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے ثالثی عدالت کو ہی غیر قانونی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی تشکیل خود معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

انڈیا کے لیے عالمی چیلنج

انڈیا کی اندرونی سیاسی وضاحتوں کے باوجود، بین الاقوامی سطح پر ان سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر مسئلہ پاکستان کی حکومت یا فوج سے ہے تو عام شہریوں کو پانی سے محروم کیوں کیا جا رہا ہے؟
انڈیا کو اب عالمی سطح پر قانونی و اخلاقی دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ اس معاہدے کو بین الاقوامی اصولوں کے تحت تسلیم کرے، بجائے اس کے کہ یکطرفہ اقدامات سے خود کو متنازعہ بنائے۔

سائنس، تاریخ اور حالاتِ حاضرہ پر تحقیق شدہ مواد — سادہ زبان میں، بغیر کسی لنک کے۔
اگر آپ باخبر اور باشعور رہنا چاہتے ہیں، تو ہمارا پیج ضرور فالو کریں

Address

Islamabad

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Globe Teller posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share