19/09/2025
عدالت؟ جرم؟ ثبوت؟ کچھ بھی تو نہیں تھا
مجھے واقعی خوشی محسوس ہوئی۔
وہی بابا، جو مجھ سے دو سال پہلے اسلام آباد میں ملا تھا، آج دوبارہ نظر آیا۔ وہ اُن لوگوں کے ساتھ تھا جو اپنے لاپتہ پیاروں کو ڈھونڈنے کے لیے سڑکوں پر نکلے تھے، تھکے ہوئے، ٹوٹے ہوئے، لیکن ہار نہ ماننے والے۔ اُس دن اُس کے ہاتھ میں اپنے جوان بیٹے کی تصویر تھی۔ آنکھوں میں نیند نہیں، صرف درد اور سوال تھے۔ دل میں ایک امید تھی، شاید کوئی سنے، شاید کوئی انصاف دے۔
وہ اردو نہیں بول سکتا تھا۔ ہر آنے جانے والے کو تصویر دکھاتا، اشاروں سے سمجھانے کی کوشش کرتا۔ کبھی جذبات قابو سے باہر ہو جاتے تو بچوں کی طرح زار و قطار روتا۔ کبھی اپنے سینے پر ہاتھ مار کر دہائیاں دیتا۔ صاف لگتا تھا کہ وہ شخص اب خود کو سنبھالنے کے قابل نہیں رہا۔ اُس کا وہ بیٹا، جسے اُس نے محبت سے پالا، خواب دکھائے، دعائیں دیں — وہ بغیر کسی وجہ کے اُس سے چھین لیا گیا۔
لیکن آج، چار سال بعد، جب اُس نے اپنے بیٹے کو گلے لگایا، تو اُس کا سینہ جیسے تھوڑی دیر کے لیے ٹھنڈا ہوا۔ اُس کی آنکھوں میں سکون تھا۔ برسوں بعد شاید پہلی بار۔ لیکن افسوس، اُس کی آنکھوں میں سوال اب بھی باقی تھے۔
اب بھی کچھ سوال ہیں، جن کا جواب کوئی نہیں دیتا:
دو سال تک ایک باپ کو سڑکوں پر رُلانے سے کیا ملا؟
اُس نوجوان کو چار سال میں کبھی عدالت میں پیش کیا گیا؟
کیا اُس پر کوئی جرم ثابت ہوا تھا؟
اگر نہیں، تو پھر اُسے چار سال تک اذیت میں کیوں رکھا گیا؟
اُسے کہاں رکھا گیا؟ کیا اس کی جگہ کسی کو بتائی گئی؟
اُسے اغوا کس نے کیا؟
کون ہے جو اُس کے چار سال خاموشی سے چھین کر بیٹھا رہا؟
کیا دنیا میں اور کہیں ایسا ہوتا ہے کہ لوگ یوں غائب کر دیے جائیں؟
یہ صرف ایک بابا کی کہانی نہیں۔ یہ ان ہزاروں خاندانوں کی کہانی ہے جو اپنے پیاروں کی راہ تک رہے ہیں۔
کیا ریاست واقعی ماں جیسی ہوتی ہے؟
اگر ہوتی ہے، تو کیا ماں اپنے بچوں کو یوں غائب کر دیتی ہے؟
سوچیں... اگر یہ سب آپ کے اپنے بیٹے کے ساتھ ہوتا تو؟
اب بھی وقت ہے۔ خاموشی توڑیں۔ بولیں۔ اور یہ سوال صرف سوال نہ رہنے دیں
By Fayaz Baluch