Best Information Center

Best Information Center we create this page for authentic information like islamic and medical. So please like and follow my page.

19/11/2024

06/07/2024

_*ازدواجی "شکوہ اور جواب شکوہ"*_

کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں
زن مریدی ہی کروں میں اور مدہوش رہوں

طعنے بیگم کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں کوئی بزدل ہوں کہ خاموش رہوں

جرات آموز مری تاب ِسخن ہے مجھکو
شکوہ اک زوجہ سے ! خاکم بدہن ہے مجھکو

تجھکو معلوم ہے لیتا تھا کوئی رشتہ ترا
سر پٹختے ہوئے پھرتا تھا کبھی اّبا ترا

کس قدر خوش تھا میں جس دن تیرا ڈولا نکلا
تیرا ڈولا تو مگر موت کا گولا نکلا

تو جو سوتی ہے تو سالن بھی پکاتا ہوں میں
ٹیپو روتا ہے تو فیڈر بھی بناتا ہوں میں

گڈی جاگے ہے تو جھولا بھی جھلاتا ہوں میں
پّپو اٹھ بیٹھے جو راتوں کو کھلاتا ہوں میں

پھر بھی مجھ سے یہ گلا ہے کہ وفادار نہیں
میں وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں

ھےبجا حلقہ ازواج میں مشہور ھوں میں
تیرا بیرا، تیرا دھوبی ، تیرا مزدور ھوں میں

زن مریدی کا شرف پاکے بھی رنجور ھوں میں
قصہ درد سناتا ھوں کہ مجبور ھوں میں

میری مخدومہ میرے غم کی حکایت سن لے
ناز بردار سے تھوڑی سی شکایت سن لے

زچہ بن بن کے بجٹ میرا گھٹایا تو نے
ھر نۓ سال نیا گل ھے کھلایا تو نے

رشتہ داروں نے تیرے ، جان میری کھائ ھے
فوج کی فوج میرے گھرمیں جو در آئی ھے

کوئ ماموں ، کوئ خالو ، کوئ بھائی ھے
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ھرجائی ھے

کیسے غربت میں ، میں پالوں تیرے غمخواروں کو
ان ممولوں کو سمبھالوں یا چڑی ماروں کو

میں وہ شوھر ھوں کہ خود آگ جلائی جس نے
لا کے بستر پہ تجھے چاۓ پلائ کس نے

تو ھی کہہ دے تیرا حسن نکھارا کس نے
اس بلیک آؤٹ سے مکھڑے کو سنوارا کس نے

کون تیرے لیۓ درزی سے غرارا لایا
واسطہ دے کے غریبی کا خدارا لایا

پھر بھی مجھ سے گِلا کہ کماتا کم ھوں
لے کے شاپنگ کے لیۓ تجھ کو، میں جاتا کم ھوں

نوجوانی میں تجھے عیش کراتا کم ھوں
اور پلازا میں تجھے فلم دکھاتا کم ھوں

کاش نوٹوُں سے حکومت میری جیبیں بھردے
مشکلیں شوھرِ مظلوم کی آسان کر دے

محفلِ شعرو سخن میں تو چمک جاتا ھوں میں
تیری سرکار میں پہنچوں تو دبک جاتا ھوں میں

تو جو بلغم بھی کھنگارے تو ٹھٹک جاتا ھوں میں
گھور کر دیکھے تو پیچھے کو سرک جاتا ھوں میں

پھر بھی مجھ سے یہ گلا ھےکہ وفادار نہیں
توھے بیکار تیرے پاس کوئ کار نہیں....

⭕بیوی کا جوابِ شکوہ⭕

تیری بیوی بھی صنم تجھ پہ نظر رکھتی ہے
چاہے میکے ہی میں ہو تیری خبر رکھتی ہے

اُسکی سینڈل بھی میاں اتنا اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

شعر تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک ترا
دل، جگر چیر گیا نالہء بیباک ترا

آئی آواز ٹھہر تیرا پتا کرتی ہوں
تُو ہے اَپ سیٹ میں ابھی تیری دوا کرتی ہوں

میں تجھے پہلے بھی اکثر یہ کہا کرتی ہوں
ارے کمبخت! بہت تیری حیا کرتی ہوں

اور تو ہےکہ بڑی نظمیں ہے پڑھتا پھرتا
اپنے یاروں میں بڑا اب ہے اکڑتا پھرتا

میں دکھاتی ہوں ابھی تجھ کو بھی نقشہ تیرا
نہ کوئی قوم ہے تیری نہ ہے شجرہ تیرا

بھائی تیرے ہیں سبھی مجھ کو تو غُنڈے لگتے
یہ ترے کان کڑاہی کے ہیں کُنڈے لگتے

اپنی شادی پہ عجب رسم چلائی کس نے؟
نہ کوئی بس نہ کوئی کار کرائی کس نے؟

آٹو رکشے ہی پہ بارات بُلائی کس نے ؟
منہ دکھائی کی رقم میری چرائی کس نے ؟

کچھ تو اب بول ارے! نظمیں سنانے والے
مولوی سے میرا حق ِمہر چھڑانے والے

صاف کہہ دے مجھے کس کس پہ ہے اب کے مرتا؟
رات کے پچھلے پہر کس کو ہے کالیں کرتا ؟

کس کے نمبر پہ ہے سو سو کا تُو بیلنس بھرتا ؟
چل بتا دے مجھے‘ اب کاہے کو تُو ہے ڈرتا

ورنہ ابّے کو ابھی اپنے بُلاتی میں ہوں
آج جوتے سےمزا تجھکو چکھاتی میں ہوں

اپنی تنخواہ فقط ماں کو تھمائی تُو نے
آج تک مجھکو کبھی سیر کرائی تُو نے؟

کوئی ساڑھی، کوئی پشواز دلائی تُو نے؟
ایک بھی رسم ِوفا مجھسے نبھائی تو نے؟

لطف مرنے میں ہے باقی نہ مزا جینے میں
کتنے ارمان تڑپتے ہیں مرے سینے میں

بھول ابّا سے ہوئی اور سزا مجھ کو ملی
ماں بھی جان گئی کیسی بلا مجھ کو ملی

میں نے چاہی تھی وفا اور جفا مجھ کو ملی
میری تقدیر ہی دراصل خفا مجھ کو ملی

میرے میکے سے جو مہمان کوئی آتا ہے
رنگ ترے چہرے کا اسی وقت بدل جاتا ہے

سامنے آنے سے اّبا کے تُو کتراتا ہے
کتنا سادہ ہے کہتا ہے کہ ”شرماتا ہے“

تُو ہوا جس کا مخالف وہ تری ساس نہیں؟
میری عزت کا ذرا بھی تجھے احساس نہیں !

ہڈی پسلی میں تری توڑ کے گھر جاؤں گی
ارے گنجے! ترا سر پھوڑ کے گھر جاؤں گی

سَرّیا گردن کا تری موڑ کے گھر جاؤں گی
سارے بچوں کو یہیں چھوڑ کے گھر جاؤں گی

یاد رکھنا ! میں کسی سے بھی نہیں ڈرتی ہوں
آخری بار خبردار تجھے کرتی ہوں...!

_* محمد غضنام طیبی

05/07/2024

#چِپکُو_بیوی۔

جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے آج اس پر لکھتا ہوں سب کو پتا ہے کے اس دور میں ایسی بیوی ملنا ناممکن ہے لیکن پھر بھی لکھتا ہوں پڑھ کر دل خش کریں اپنا۔
تو دوستو چپکو بیوی، بیویوں کی ایک ایسی قسم ہے کہ اس پہ ہزار صفحات کی کتاب لکھی جاسکتی ہے،لیکن اتنا ٹائم دینا میرے لیے ممکن نہیں ہوگا، آپ تو چلو ویلے ہیں لیکن میں تو نہیں نا۔لہٰذا میں نے سوچا ہے کہ تحریر کو مختصر رکھنے کی ناکام کوشش کی جائے
یہ بیوی شدید قسم کی شوہر پرست ہوتی ہے،گھر کے کسی کام میں کبھی کوتاہی نہیں کرتی،بشمول سسرالی رشتے داروں کے ہر کسی کا خیال رکھتی ہے،اور آپ کے کم از کم تین سوٹ ہر وقت استری شدہ حالت میں الماری میں تیار رکھتی ہے،اور آپکو صرف قمیض پہن کے آدھہ گھنٹة شلوار استری ہونے کا انتظار نہیں کرنا پڑتا، ایسی بیوی بیمار بھی ہوجائے تو آپ کی خدمت میں کمی کوتاہی نہیں کرتی، کھانا پینا بروقت بلکہ وقت سے کچھ پہلے ہی تیار رکھے گی،خود چائے نا بھی پیتی ہو لیکن اگر خاوند چائے کا شوقین ہے تو دن میں دس بار بھی چائے بنانے میں سستی نہیں کرے گی،رومینٹک معاملات میں کسی بھی مشرقی خاتون سے بڑھ کر ہوگی، سردرد، کمر درد، منا جاگ رہا ہے، نیند آرہی ہے، جیسے بہانوں سے واقف نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔
(یہ سب پڑھ کے خوش ہورہے ہو؟؟ دانت نکل رہے ہیں؟؟ دل میں کچھ کچھ ہورہا ہے؟؟ ظاہر ہے باتیں ہی بڑی خوش آئند ہیں۔۔۔پڑھو پڑھو۔۔)
۔
لیکن۔۔۔۔۔۔۔😁
۔
چپکو بیوی آپ کو ایک سیکنڈ کیلیے بھی تنہا نہیں چھوڑے گی(ورنہ چپکو کا خطاب کیوں ملتا) اگر آپ پورا دن گھر پہ ہیں تو چپکو بیوی پورا دن آپکے ساتھ ساتھ ہی ہوگی، یہاں تک کہ ٹوائلٹ سیٹ پہ بیٹھتے ہی فطری آوازوں کا گلہ گھونٹنے کیلیے آپکو لوٹا نل کے نیچے رکھ کے پانی کا نل پورا کھولنے کی عادت ہوجائے گی کیونکہ یقیناً محترمہ ٹوائلٹ کے دروازے سے پانچ فٹ کے فاصلے تک موجود ہونگی اور لوٹے میں پانی گرنے کی پرشور آواز آپکو متوقع شرمندگی سے بچانے میں معاون ثابت ہوگی۔۔۔
آپ نے ایک انڈین گانے کے وہ بول سن رکھے ہونگے کہ "پیار سے تنگ آئے گی،پیار اتنا کرینگے" بس یہی سمجھ لیں کہ چپکو بیوی نے اسی گانے کو سیریس لے کے آپ کی زندگی اجیرن کرنے کی ٹھان رکھی ہے، اس کی نظر آپ کے چہرے کے تاثرات تو کیا آپ کی آنکھوں کی چمک سے کچھ نا کچھ الٹا اندازہ لگالے گی، آپ کے ہاتھ میں موبائل ہے تو اس کی نظر سکرین سے ہٹوانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ سکرین آف کردی جائے، اگر ایسے زاویے پہ بیٹھی ہو کہ سکرین نظر نہیں آتی تو آپکی آنکھوں میں موبائل کا عکس دیکھ کے بتاسکتی ہے کہ آپ واٹس ایپ پہ لگے ہو، فیسبک پہ ہو یا یوٹیوب پہ جھک مار رہے ہو۔
اگر کوئی بندہ چپکو بیوی کے ہتھے چڑھ جائے تو بہتر ہے وہ خود کو ایک مغوی تصور کرکے سمجھوتہ کرلے، یہی اس کے حق میں بہتر ہے،
اور اگر کوئی خاتون غلطی سے یہ پوسٹ پڑھتی ہوئی آخر تک آن پہنچی ہیں اور وہ ایک چپکو بیوی ہیں، یا چپکو بیوی بننے کا ارادہ رکھتی ہیں تو براہ مہربانی چپکو ضرور بہیں لیکن ایسان جتانے والی ہرگز نہ بن نا۔

#نوٹ

اب یہ نا سوچنا کے میں آپ بیتی بتا رہا ہوں ہرگز نہیں کیوں کے میری محترمہ چپکو بیویوں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہے؟

خالی جگہ پر کریں لیکن اخلاق کے دائرے میں رہ کر۔

💌 شادی کے بعد آپ کو محسوس ہو سکتا ہے کہ آپ کے شوہر کی محبت اور آپ کے ساتھ دلچسپی کم ہو گئی ہے اور مسائل اور پریشانیاں بڑ...
03/07/2024

💌 شادی کے بعد آپ کو محسوس ہو سکتا ہے کہ آپ کے شوہر کی محبت اور آپ کے ساتھ دلچسپی کم ہو گئی ہے اور مسائل اور پریشانیاں بڑھنے لگی ہیں۔ بعض اوقات یہ مسائل اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ آپ کو لگتا ہے کہ تمام جذبات ختم ہو گئے ہیں اور رومانوی الفاظ کا کوئی مطلب باقی نہیں رہا۔ ان حالات میں آپ کا دل ٹوٹ سکتا ہے اور آپ کو مسلسل تنہائی اور محبت کی کمی کا احساس ہو سکتا ہے، چاہے وہ آپ کے پاس ہی کیوں نہ ہوں۔

🛑 اس لیے ہم آپ کو کچھ طریقے بتاتے ہیں جن کے ذریعے آپ دوبارہ اپنے شوہر کا دل جیت سکتی ہیں۔🛑

1. **سچائی سے پیش آئیں**: مرد اس عورت کو پسند نہیں کرتا جو اس سے کچھ چھپاتی ہو یا اسے بیوقوف بناتی ہو، چاہے وہ باتیں معمولی اور غیر اہم ہی کیوں نہ ہوں۔ مثلاً، اگر آپ نے بچوں کی وجہ سے کوئی گھریلو کام مکمل نہیں کیا اور اسے یہ بتاتی ہیں، لیکن وہ حقیقتاً آپ کی دوست سے فون پر بات کرنے کی وجہ سے تھا، تو اسے سچ بتائیں۔ کیونکہ اگر اسے آپ کے جھوٹ کا علم ہو جائے تو اس کا غصہ اور زیادہ ہو جائے گا۔

2. **ذہانت کا استعمال**: مرد اس عورت کو پسند کرتا ہے جو اس کی پسند اور ناپسند کو جانتی ہو اور اس کے مطابق کام کرتی ہو۔ آپ کے ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے اس کے دل تک پہنچنے کا طریقہ اسے پسند آئے گا اور وہ آپ کی ہر بات مانے گا۔

3. **تعریفیں کرنا نہ بھولیں**: ہمیشہ تعریف کرنے کی کوشش کریں تاکہ آپ اس کا دل جیت سکیں، جیسے اس کی خوش پوشاکی، اس کا انداز، اس کی سوچ وغیرہ کی تعریف کریں۔ یہ تعریفیں ہر وقت کریں اور کسی خاص لمحے کا انتظار نہ کریں۔

4. **مزاح کا حس رکھیں**: آپ اپنے شوہر کا دھیان اور محبت حاصل کر سکتی ہیں جب آپ ہنسنے ہنسانے والی ہوں۔ مرد عام طور پر اس عورت کو پسند نہیں کرتا جو اداس رہتی ہو، کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اس کے مسائل اور ذہنی دباؤ کو کم کرے نہ کہ اس کے دکھ اور پریشانیوں میں اضافہ کرے۔

5. **اپنی خوبیوں کو جانیں**: اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ نے اپنے شوہر کی محبت کھو دی ہے تو یہ نہ سوچیں کہ آپ بری عورت ہیں جو محبت اور خوبصورت جذبات کی حقدار نہیں۔ بلکہ اپنی خوبیوں کو جانیں اور انہیں نمایاں کریں تاکہ آپ کا شوہر انہیں دیکھے۔

6. **جھگڑوں میں حکمت عملی اپنائیں**: جب آپ کا اپنے شوہر سے اختلاف ہو تو اس سے سکون سے بات کریں اور عقلمندی سے کام لیں۔ اپنے خاندان کے مفادات کو ترجیح نہ دیں یا اس بات کی فکر نہ کریں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ بلکہ آپ کے لیے سب سے اہم بات یہ ہونی چاہیے کہ آپ اپنے شوہر کو خوش رکھیں اور اپنے مسائل کو کسی سے بھی، یہاں تک کہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے بھی، شیئر نہ کریں۔ کیونکہ عموماً آپ کا خاندان آپ کے ساتھ ہمدردی کرے گا اور شوہر کے حق پر آ جائے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ آپ مسئلہ بھول سکتی ہیں، لیکن آپ کا خاندان اسے نہیں بھولے گا۔

منقول

کڑوا سچمرد کا دوسرا تیسرا نکاح کرنے کا جو سکون عورت ذات کو ہے وہ مردوں کو بھی نہیں ہے ۔ عورتوں کو اپنی مرضی سے آرام کرنے...
02/07/2024

کڑوا سچ

مرد کا دوسرا تیسرا نکاح کرنے کا جو سکون عورت ذات کو ہے وہ مردوں کو بھی نہیں ہے ۔ عورتوں کو اپنی مرضی سے آرام کرنے کا موقع مل جاتا ہے ماں باپ کے گھر جانے کیلیے وافر ٹائم مل جاتا ہے یہ ٹینشن نہیں ہوتی پیچھے شوہر کا کیا ہوگا اسکو کھانا کون دے گا کپڑے کون تیار کرے گا مرد حرام رشتوں اور حرام کاریوں اور حرام جگہ پیسہ برباد کرنے سے بچ جاتا ہے ۔۔ عورتوں کے اللہ کی طرف سے بنائی ہوئی ساخت کے مطابق ماہانہ بھی اس کو آرام مل جاتا ہے گھر کی کام والی بننے کی بجائے وہ گھر میں اور بھی بہت سے کاموں اور کورسسز کی طرف توجہ دے سکتی ہے لامحدود کام اور بچوں کو سنبھالنے کی وجہ سے جو عورتوں کی صحت کا حال ہوتا ہے ۔۔۔ 35 سال میں ہی ختم ہو جاتی ہیں ۔۔ نہ ظاہری حسن بچتا ہے ۔۔ نہ ہی باطنی حسن ۔۔ موٹاپا اور دوسرے امراض کا شکار ہو جاتی ہیں ۔ نماز اور دیگر عبادات یکسوئی سے نہیں کر سکتیں ۔ اپنے اللہ کو راضی کرنے کیلے وقت نہیں ملتا ۔ اور اس سب کے پیچھے ۔۔ کیا سوچ کار فرما ہے ۔۔۔۔ ؟ شوہر صرف میرا ہو ۔۔

شوہر آپکا ہی ہوتا ہے ۔ یہ جو انسیکورٹی جو کہ ایک بیماری بن چکی ہے ۔۔ یہ۔ چین نہیں لینے دیتی میری مرضی کے مطابق چلے ۔۔ ہر کام مجھ سے پوچھ کر کرے ۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔

آج بھی ترکی ، ایران ، عرب ممالک ۔۔ مصر ، شام ، الجزار سب میں آج تک مرد ک ایک سے زیادہ نکاح کرنا عام ہے آجکی عورت جو کہ یہود و ہنود کے پروپیگنڈا کا شکار ہے ۔۔۔۔ وہ خود ہی عورت ذات کی دشمن بنی ہوئی ہے ۔۔۔ کتنی بیچارہ کنواری اور ، بیوہ اور طلاق یافتہ لڑکیاں ، گھروں میں بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں۔۔ لیکن اکثر عورتوں نے جو فتنہ پھیلایا ہوا ہے کہ عورت کو یہی غم بہت ہے کہ اسکا مرد کسی اور کا شریک کیوں ہے ۔ انکا دور دیکھو ۔۔ 60 فیصد دنیا میں عورتیں ہیں اور چالیس فیصد مرد ہر گھر میں عورتوں کی تعداد دیکھ لو ۔۔۔ اللہ کے نظام میں رکاوٹ ڈالنے سے معاشرہ تباہی اور بربادی کی طرف جا رہا ہے یہی عورت مرد کے حرام افیئرز کا بھی رونا روتی ہے ۔ ایک سے زیادہ نکاح اللہ نے مرد کی جسمانی ضرورت کے لیے رکھے صحابہ کے دور میں جب صحابہ غزوات میں ، جہاد میں بڑی تعداد میں شہید ہو جاتے تو اس وقت بھی ۔۔۔ جو بیوہ لڑکیاں ہوتیں انکی مشکل سے گھروں میں عدت پوری ہوتی ۔۔. . . . . . اور انکو دو یا تین جگہوں سے نکاح کی پیغام آجاتے آج کی عورت نے خود ہی ہر چیز کو مشکل کیا ہوا ہے.

❤❤







🔹🔹
🔹🔹
🔹🔹
🔹🔹
🔹🔹














28/06/2024

*شادی شُدہ جوڑوں سے کچھ گزارشات!*

اگر آپ ایسا سوچتے ہیں تو ہر گز ایسا مت سوچیں، کہ ہماری”بےجوڑ“ شادی ہوئی ہے کیونکہ میرا جیون ساتھی مُجھ سے بالکل مُختلف بلکہ میری الٹ ہے.
یعنی میرے جیسا نہیں.

*تو جان لیجئے!!*
جوڑا ہمیشہ الٹ ہی ہوتا ہے تب ہی جوڑا بنتا ہے.
کُچھ نہیں تو اپنے جوتوں پر ہی غور کر لیجیے.
دونوں بظاہر ”پرفیکٹ“ لگتے ہیں لیکن غور کیجیے تو دونوں ہی ایک دوسرے سے مُختلف ہیں.
ایک جیسے ہوں تو انکا جوڑ پھر کوئی دوسرا ہے. یاد رکھئے...!!
دیکھیں ۔۔۔۔!!!
ہم اپنے دائیں ہاتھ میں دوسرے کا دائیاں ہاتھ لے کر ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ۔۔
کیا چل سکتے ہے ۔۔۔؟؟
نہیں نا ۔۔۔
تو یاد رکھیں ۔۔۔
ہم سب”پزل“ میں پیدا ہوئے ہیں اور جُڑ کر ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں.
ایک کی کمی دُوسرا پُوری کرتا ہے.
اس لئے اپنا جیون کسی غلط فہمی میں برباد نہ کریں.

چیزوں کو قبول کرنا سیکھیں.۔۔۔
نکاح کے وقت "قبول ہے" محض الفاظ نہ تھے بلکہ یہ عہد تھا کہ تمام کمی بیشی کے ساتھ سب کچھ قبول ہے.۔۔۔

دیکھیں ”Idealism“ ایک دھوکہ ہے، فریب ہے، سراب ہے، زندگی رومانوی ناولوں، ڈائجسٹوں کے فرضی قصے کہانیوں، ڈراموں اور فلموں سے یکسر مُختلف ہوتی ہے.

ایک دُوسرے کو ”جیسا ہے، جہاں ہے“ کی بُنیاد پر قبول کیجیے.
یہی قبولیت، یہی ایکسیپٹینس زندگی میں سکون لاتی ہے.
ایکسیپٹ کرنا سیکھئے. ایکسیپٹ کر لیئے جائیں گے.۔۔۔۔

خُوابوں اور سرابوں کے پیچھے دوڑنے والے بالآخر ”بند گلی“ میں جا پہنچتے ہیں جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا، واپسی کی ساری راہیں مفقود ہو جاتی ہیں.
اپنی سو فیصد پسند کا جوڑا بنانے کی جُستجو کرنا ایک مقبول فلسفہ ہے.
لیکن...
اگر ازدواجی زندگی کی رعنائیوں کو انجوائے کرنا ہے تو مقبولیت نہیں، قبولیت کو معیار بنائیے، زندگی آسان ہوجائے گی.
سدا خوش رہیں۔۔۔۔
الله ربّ العزت آپ کو صالح بنائے اور صالحین کا ساتھ دے دنیا و آخرت میں۔ آپکو ایسے زوج (ساتھی) سے نوازے جو آپکے ایمان کی تقویت، رب کے تقرب کا زریعہ بنے؛ جسکے ساتھ چلتے آپکا ہر لمحہ ربّ کی اطاعت میں بسر ہو ۔۔
آمین ۔۔۔۔ثم آمین۔۔

28/06/2024

شادی کے بعد میاں بیوی کا ایک دوسرے سے دل کیوں اکُتا جاتا ہے۔؟

اگرچ نکاح دنیا کا سب سے انمول تحفہ ہے تو کیوں آج کل لوگ اس رشتے کو نبھا نہیں پا رہے؟
کیوں وہ جیون ساتھی ہونے کے باوجود کسی اور شخص کو اپنی زندگی میں لے آتے ہیں؟
کیوں اپنے جیون ساتھی سے اُکتاہٹ ہو جاتی ہے؟
کیوں آہستہ آہستہ غلط فہمیاں رشتے کو کھوکھلا کر دیتی ہیں۔ کیوں اتنا قریب ہو کر انسان اتنا دور ہو جاتا ہے؟
اس پہ بہت سے لوگوں نے رائے دی ہے۔ میں تھوڑا اس پہ روشنی ڈالنا چاہوں گا، کے کس طرح آپ اپنی زندگی کو آسان بنا سکتے ہیں۔

1:-👈 شادی سے پہلے آج کل مرد اور عورت کی زندگی میں پہلے سے ہی کوئی اور شخص ہوتا ہے۔ جو کہ کسی وجہ سے زندگی میں نہیں آتا، جس کی وجہ نکاح کہیں ہو جاتا ہے اور جیون ساتھی کو وہ مقام نہیں ملتا، جو ملنا چاہیئے۔

2:-👈 اپنے جیون ساتھی کو کسی اور سے کمپیئر کرنا اور سوچنا کہ اس میں یہ خامی ہے، یہ برائی ہے اور پھر اس کی خامیوں کے خلاف ہو جانا گھر کی بربادی کا سبب بنتا ہیں۔

3:-👈کسی تیسرے شخص کی انوالمنٹ یعنی اپنی شادی شدہ زندگی میں کسی تیسرے شخص کو لے آنا۔ اس کی باتیں سُننا، اس کو وقت دینا۔ مکمل اگنور کرنا، یہ محسوس کروانا کہ بس تمہاری زندگی میں میری کوئی ویلیو ہی نہیں۔ اس کے بعد مرد اور عورت کو تیسرا بندہ اچھا لگنے لگ جاتا ہے۔

4:-👈چھوٹے چھوٹے مواقع پہ جیون ساتھی کو وش نا کرنا۔ یا اگر ایک شخص بالکل سادہ ہو تو اس کی سادگی کا مزاق اڑانا کہ دنیا یہاں پہنچ چکی ہے اور تمسخر اڑانا۔
اپنے جیون ساتھی کو وقت نا دینا، اس کا حال نا پوچھنا، ایسے رویہ سے بغاوت کا آغاز ہو جاتا ہے۔

5:-👈اگر شوہر خستہ حال ہو تو بات بات پہ اس کو طعنہ دینا کہ میرے گھر یہ تھا، یہ وہ تھا۔ یا میرا نصیب خراب کہ تم سے شادی ہو گئی۔ بے جا خواہشات شوہر کا خیال نا رکھنا، اس کے لئے سجنا سنورنا نہیں۔ اپنے آپ کو بس یہ سمجھنا کہ اب بوڑھے ہو گئے ہیں۔

6:-👈 نکاح کے بعد مرد اور عورت ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں۔ عورت کو پتا ہونا چاہیئے کہ اس کے شوہر کے کتنے وسائل ہیں۔ اس کی تکلیف پریشانی میں اس کو اس بات کا یقین دلوایا جائے کہ میں آپ کے ساتھ ہوں۔

7:-👈حد سے زیادہ اُمیدیں کبھی اپنے جیون ساتھی سے نہیں لگانی چاہیئے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو نظر انداز کرنا چاہیئے۔ سب کے سامنے تذلیل کرنے سے دوریاں جنم لیتیں ہیں۔

8:-👈 کبھی کبھی پیار کا اظہار کر لینا چاہیئے۔ اگر ہو سکے تو دن میں ایک دفعہ ضرور اس کا حال پوچھنا چاہیئے۔ اگر غلطی ہو جائے تو اس پہ سب کے چیخنے چلانے کی بجائے اس کو پیار سے سمجھنا چاہیئے۔ نا کہ سب کے سامنے تماشہ بنانا چاہیئے۔

9:-👈جو کچھ ہم اپنے بوائے فرینڈ یا گرل فرینڈ کے ساتھ کرنا چاہیتے ہیں۔ وہ خواب ہم اپنے حلال رشتے کے ساتھ پورا کر سکتے ہیں۔ اگر کہیں گھومنے جانا ہو تو اپنی وائف کے ساتھ جا سکتے ہیں۔ کہیں پہ کھڑے ہو کر آپ کچھ بھی کھا سکتے ہیں، کوئی آپ کو اعتراض نہیں کرے گا۔

10:-👈 زندگی نام کمپرومائز کا ہے، کوئی بھی پرفیکٹ نہیں ہوتا۔ جو چیز ہمیں نہیں ملتی، ہم اس کی طلب کرتے ہیں اور جو مل جاتی ہے، اس کی قدر نہیں کرتے۔ تعریف کے کچھ کلمات آپ کے جیون ساتھی کو آپ کا غلام بنا سکتے ہیں۔

عمل کرنے کی کوشش کریں اگر فائدہ نہ ہوا تو جو عیدی بھیجی ہے وہ پیسے واپس کردوں گا۔.

18/06/2024

۔

نوے کی دہائی تک جو خواتین ماں کے عہدے پر فائض ہوچکی تھیں، وہ اب اکثر ایک جملہ کہتی ہوئی پائی جاتی ہیں کہ بھئی جو ہم نہ کر سکے وہ ہماری بیٹی کر لے، اس لیے ہم بچی پر پابندیاں نہیں لگاتے۔
یعنی یوں کہا جائے تو زیادہ آسان ہوگا کہ جو خرافت ہمیں کرنے کی اجازت نہ ملی وہ ہم اپنی بیٹی کو کرنے دیں گے؟
بھلا یہ کون سا پیار ہوا بیٹی سے ؟
ایک مسلمان ماں کیسے اپنی بیٹی کو اس گناہ میں ملوث ہونے دے گی جس میں وہ خود نہ ہو سکی۔۔۔ لیکن اب یہ ہورہا ہے۔
چند مثالوں سے سمجھتے ہیں۔
1.👈ماؤں نے پردہ کیا۔ بیٹی کو نہیں کرواتی کیوں کہ ہمیں تو ابا، بھائی کے ڈر سے کروایا گیا تھا ( چلیں ابا بھائی کے ڈر سے ہی سہی پردہ تو کیا۔ اب بیٹی کو بے پردہ کرنا کیا گناہ نہیں ؟ )
2.👈میں نے جینس نہیں پہنی کیوں کہ ابا نے نہیں پہنے دی تو اب میری بیٹی پہنتی ہے اور جیسا چاہے پہنے میں نہیں روکتی یہ منع کرتے ہیں تو میں صاف کہہ دیتی ہوں کہ میرے ابا کی طرح ہٹلر نہ بنیں۔ تو کیا یہ گناہ نہیں؟ ).
3.👈ماں کہتی ہے کہ ہمیں تو ٹیپ ریکارڈر پر زیادہ آواز میں گانے سننے کی اجازت نہ تھی چھپ چھپ کر سنا کرتے تھے۔ کیسٹ منگوا کر یا ڈائجسٹ بھی چھپ کر پڑھتے تھے . ( بھئی میں نے تو اپنی بچی کو کھلی چھوٹ دی ہے۔ ناول پڑھو اس سے دنیا کا پتا چلتا ہے اور گانے سنوں یہی تو عمر ہے پھر تو شادی اور بچے ہو جائیں گے کہاں وقت ملتا ہے ؟ تو کیا یہ گناہ نہ ہوا )
4.👈ہم نے پہلے میکے اور پھر سسرال میں یہ بھر بھر کر روٹیاں پکائی ہیں ۔ ( نہ بابا میں تو اپنی بچی کو کچن میں نہیں جانے دیتی۔ اس کی پڑھنے کی عمر ہے اور رشتہ بھی وہاں کروں گی جہاں زیادہ بڑی فیملی نہ ہو۔ تو کیا بیٹی کو مٹھس، سست اور لتھارجک بنا دینا کوئی نیکی ہے ؟)
5.👈ہمیں تو کالج چھوڑنے ابا آتے جاتے تھے کہیں جانے کی اجازت نہ تھی۔ ( میری بیٹی پر مجھے اعتماد ہے کالج یا یونیورسٹی میں دوستوں کے گھر آنا جانا لگا رہتا ہے اس کا۔ میں منع نہیں کرتی یہ کوئی ہمارا والا دور نہیں ہے کہ گھٹ گھٹ کر جینا پڑے؟ بیٹی کو شتر بے مہار کی مانند ہر جگہ جانے کی اجازت دینا کون سی نیکی کے درجے میں آتا ہے ؟ )۔
6.👈ہم نے تو ہزار باتیں چپ کر کے برداشت کی ہیں۔ ( لیکن میری بیٹی منہ پر ایسا جواب دیتی ہے کہ سامنے والے کہ دانت تو کیا سب کچھ کھٹا ہو جائے۔ جو باتیں ہم نے برداشت کر لیں وہ ہماری بیٹیاں کیوں کریں؟ بیٹی کو منہ پھٹ اور بدتمیز بنا دینا کون سا اعلیٰ کام ہوا ؟ )
آج کل کی مائیں چاہتی ہیں کہ ہماری بیٹیاں ہم سے دو ہاتھ آگے ہوں۔ ہاں یہ والی بات نیک سیرتی میں تو اچھی لگے گی مگر بدسیرتی میں اس فارمولے کو اپلائی نہ کریں۔بھلا یہ کون سی عقل مندی ہوئی کہ اپنی غلطیوں اور اپنی اندر کی بری خواہشات کو اپڈیٹ کر کے اپنی ہی اولاد میں منتقل کر دیا جائے ؟
ذرا ذرا سی بات پر یہ کہنا کہ ہماری بیٹی ہماری طرح زندگی بسر نہ کرے یہ جملہ نامحسوس طریقے سے آپ کی بیٹی کے دل میں اس کے باپ کے لیے منفی جذبہ ڈالتا ہے کہ ہاں ابو نے میری امی کے ساتھ اچھا نہیں کیا وہ نامحسوس طریقے سے گھر کے مردوں سے بیزار اور دور ہونے لگتی ہے۔ اس کے زہن میں شک و شبہات جنم لینے لگتے ہیں کہ نہ جانے کون سے ظلم کے پہاڑ میری ماما پر توڑے گئے ہیں۔
بیٹی کی زندگی سکون میں دیکھنا چاہتی ہیں تو دین اسلام کے دئیے گئے اصولوں پر اس کی تربیت کریں اور یاد رکھیں کہ اللہ کسی بھی انسان کو اس کی استطاعت سے بڑھ کر بوجھ نہیں دیتا۔ جو آزمائشیں آئیں گی وہ آنے کے لیے ہی تھیں بس یہ سیکھائیں کہ زندگی میں سخت وقتوں میں کیسے برتاؤ کرنا ہے اور کس حکمت عملی سے چلنا ہے۔ آزمائشوں سے نفرت کرنا نہ سیکھائیں بلکہ ان کا سامنا کرنا سیکھائیں۔
مسلمان مائیں تو اپنے اندر موجود ہنر و نیک عادات کو بیٹیوں میں رچا بسا دیتی ہیں۔
دیکھیں نا! سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے صبر و قناعت سے زندگی بسر کی تو آپ کی پیاری دختر حضرت سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کربلا میں صبر و تحمل اور حکم ربی پر سر تسلیم خم کرنے کی کیسی تاریخ رقم کی یعنی بیٹی کا عمل ثابت کر دے کہ تربیت کرنے والی ہستی کون ہے۔
اسلام چاہتا ہے کہ ہم ایسی عظیم خواتین کے نقش قدم کو اپنے لیے راہ ہدایت بنائیں اور دور حاضر کی اتنی بےوقوف خواتین ہیں کہ اپنی بیٹی کو خود سے زیادہ آزاد و بےلگام دیکھ کر خوشی محسوس کرتی ہیں۔
بیٹیوں کو پڑھائیں، ان کی تربیت کریں، خوش رکھیں، بیٹوں کی طرح ان کی ہر چیز اور ضرورت کا خیال رکھیں مگر دین اسلام کے دائرے کار میں رہ کر اور یہ دائرے کار حقیقی شریعت پر مبنی ہو، لبرل اسلام یا اسلامک فیمنزم کے گروہ کا نظریہ نہ ہو۔
پیاری ماؤں سے ایک مدبانہ گزارش ہے۔
"میں اپنی بیٹی کو ہر وہ کام کرنے دوں گی جو مجھے نہیں کرنے دیا گیا" یہ کہنے کی بجائے آپ اس طرح کہیں کہ میں، میری بیٹی کو ہر وہ نیکی کرنے دوں گی جس کو میں خود نہ کر سکی۔ میں اپنی بیٹی کو دین کے ان کاموں میں لگا دوں گی جو حالات نے مجھے کرنے نہ دیے۔ میں اپنی لخت جگر سے ہر وہ خیر کا کام کرواں گی جو مجھے کرنے کا موقع نہ ملا اور میں اپنی بیٹی کو ہر اس گناہ سے بچاؤں گی کہ جس کا شکار میں بن چکی ہوں۔
میں اپنی بیٹی کو اپنے آپ سے بہتر مسلمان عورت بنانا چاہوں گی تاکہ میری نیک تربیت، میرے اور جنت کے درمیان حائل فاصلے کو کم کر سکے اور میری پیاری بیٹی میرے لیے صدقہ جاریہ بن جائے۔ اپنی بیٹیوں کو اپنی نیک خصلتوں کا عکس بنائیے انہیں ایسا بنائیے کہ آپ کے اس دنیا سے جانے کے بعد لوگ آپ کی تربیت دیکھ کر نہ صرف رشک کریں بلکہ آپ کے لیے دعائے مغفرت کریں۔.

وما علینا الاالبلاغ

18/05/2024

مرد کا سکون کہاں ؟؟؟؟؟؟

ایک جید مسلم سکالر کا بیان سن رہا تھا انہوں نے کہا
"
اللّٰہ نے مرد کا سکون اس کی بیوی میں رکھا ہے".

انہوں نے قرآن مجید سے وضاحت دینے کے بعد مثال پیش کی کہ
دنیا میں کوئ شخص کتنے بڑے عہدے پر فائز ہو کہ اس کے اگے پیچھے سیکیورٹی گارڈز ہو، لوگ اس کو سلوٹ کرتے ہوں ، ہر جگہ اسکی عزت ہو ، دولت کی ریل پیل ہو مگر

اس کو سکون رات کو بیوی کی قربت میں ہی ملے گا۔

ہمارے ہاں زیادہ تر لوگ شادی کی اہمیت اور اس رشتے کی خوبصورتی اور اسکو نبھانے کی فکر سے آگاہ نہیں۔

شادی سے پہلے کسی لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوتے ہیں ۔ اس سے شادی نہیں ہوتی تو اس کے غم میں ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں۔ کسی اور سے شادی ہوجائے تو پہلی محبت کو بھلا نہیں پاتے اپنی بیوی کو دل سے قبول نہیں کر پاتے اس کو محبت نہیں دے پاتے۔

اگر اپنی پسند سے شادی ہوجائے تو پھر پچھتاتے ہیں، وہ محبت جو پہلے تھی اب بے زاری میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ وہ عزت جو پہلے تھی اسکی اب اسکی بے عزتی میں بدل جاتی ہے۔ اب اس سے شادی کو اپنی بہت بڑی غلطی تصور ہو رہی ہوتی ہے۔

لب لباب یہ ہے کہ انسان ہر حال میں اللّٰہ کا ناشکرا ہی ہے۔ کہ اگر محبت حاصل نا ہوئی تو اس جدائی کے غم کو دل میں پالتا ہے اور ملنے والی بیوی کو قبول نہیں کرتا۔ جو حاصل ہے شریک حیات اس کے ساتھ خوش نہیں رہتا جو لاحاصل ہے اس کے لیے روتا ہے۔

اگر محبت حاصل ہوجائے تو بھی اللّٰہ کی شکر گزاری نہیں کرتا۔ اس حاصل شدہ محبت اور زوجہ کو اس کے حقوق نہیں دیتا۔ اب اس کی بے قدری کرتا ہے۔

سمجھداری کا تقاضہ یہ ہے کہ
اگر آپکی محبت حاصل ہوجائے تو خود کو خوش نصیب سمجھیے کہ اللّٰہ نے آپکی پسند کو آپکی تقدیر میں لکھ دیا مطلب اللّٰہ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے انسان کے چاہنے نا چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اللّٰہ نے آپکی محبت کو آپکے لیے پسند فرمایا تو ہی آپکے رشتہ ازدواج میں منسلک کیا۔ اب اس کی قدر کریں۔ لاکھوں وہ لوگ ہیں جو اپنی پسند کی شادی چاہتے تھے دونوں طرف سے محبت تھی مگر تقدیر میں ساتھ نہیں تھا۔ آپ وہ خوش نصیب ہیں جسکی تقدیر میں ساتھ بھی تھا۔ اللّٰہ کتنا آپ پر مہربان ہوا کہ آپکو آپکی پسند عطا کی اب اس کو وہ پیار محبت عزت احساس دیجیے جو شرعیت نے اس کے لیے آپ پر لازم کیا۔ اسکی ناقدری کرکے آپ اللّٰہ کی ناشکری کرتے ہیں ۔

اگر آپکو آپکی محبت نا ملی تو یہ ایسا غم ہے جو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ، لوگ ڈپریشن میں بھی چلے جاتے ہیں پھر کسی اور سے شادی ہو جاتی ہے تو آپ ایک بات یاد رکھیے شاید وہ آپکے نزدیک آپ کے لیے ایک بہت مناسب پارٹنر ثابت ہوسکتا تھا مگر حقیقت میں وہ مناسب نہیں تھا۔ کیا معلوم اس سے آپکو اتنے غم ملتے کہ آپ ہر وقت رنجیدہ رہتے۔ یا اس کو کوئی ایسی بیماری ہوجاتی جس میں آپکا اس کا ساتھ صرف کچھ ٹائم کا ہوتا۔ یا آگے آنے والے سالوں میں اتنی ناچاقی ہوتی کہ بات طلاق تک پہنچ جاتی۔ یا وہ آپ کی نسل کے لیے اچھی نا ہوتی یا آپکے دین کے لیے خطرے کا باعث ہوتی تو اللّٰہ نے آپکو اس سے دور کرکے جو عطا کی وہ آپ کے لیے بہتر ہے مگر آپ ماضی کی محبوبہ کو ہی بہتر سمجھتے ہیں اس بیوی کو محبت ہی نہیں دے رہے، اس کے ساتھ خوشگوار ٹائم ہی نہیں گزار رہے۔ اس کو وہ احساسات ہی نہیں دے رہے جو آپ اپنی محبت کے لیے رکھتے تھے۔ اس کو آپ قبول ہی نہیں کر رہے۔

یاد رکھیے جو حاصل نہیں اس کی یاد میں رو کر آپ حاصل کی قدر کھو بیٹھتے ہیں اور پھر ایک خوشی اور سکون والی زندگی نا آپ گزارتے ہیں نا آپکا حاصل شدہ پارٹنر ۔ جب آپ اس کو سکون نہیں دیں گے ماضی میں رہیں گے تو بھلا آپکو بھی کیسے سکون نصیب ہوسکتا ہے ۔ نا اس پارٹنر کو جو آپکا یہ سرد رویہ برداشت کر رہا ہے مگر خاموش ہے۔

اللّٰہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں

عجب نہیں ایک چیز تمہیں پسند ہو وہ تمہارے حق میں بہتر نا ہو اور جس چیز کو تم ناپسند کرتے ہو وہ تمہارے حق میں بہتر ہو۔

ہم اللّٰہ کی حکمتوں کو نہیں جانتے ہم بس لاحاصل کے لیے روتے ہیں اور حاصل کی بے قدری کرتے ہیں۔

جو حاصل ہے اس کی قدر کیجیے کیا معلوم وہ کسی کی چاہت یا ارمان، پسند یا کسی کی دعا ہو مگر اس کو حاصل نہیں ہوئی اور آپکو حاصل ہوگئی۔ جس کی آپ بے قدری کر رہے ہیں کیا معلوم وہ ایسا ہیرا ہو کہ لوگ اس کو پانے کی تمنا کرتے تھے۔ یا کسی کی زندگی کی امید ہو مگر اس کو حاصل نا ہو پائی ہو۔

آپ اپنے شریک حیات سے مخلص تو ہوئیے، اس کو اپنی چاہت تو بنائیں اس کے لیے اپنی انا تو ختم کیجیے اس کا خیال تو کیجیے اس کی دل کی باتیں تو سنیے اس کے لیے خود بنا سوار تو لیجیے ۔ پھر وہی پارٹنر بھی آپکو ہی اپنا سب کچھ سمجھے، آپ کو ہی اپنا محبوب بنائے آپ پر ہی فدا ہو۔ آپکی خوشیوں کا خیال رکھے آپ کے لیے ہی خود کو رکھے تو

میاب بیوی کے رشتے سے خوبصورت کوئی رشتہ نہیں دونوں پارٹنر اس رشتے کو جوڑے رکھنے اس کو حسین بنانے کی کوشش کریں تو جو سکون میاں بیوی کی محبت اور قربت میں ہے وہ دنیا میں کہیں نہیں ہے۔

حدیث سے بھی ثابت ہے کہ
جب دو میاں بیوی آپس میں محبت کرتے ہیں تو اللّٰہ تعالیٰ بہت خوش ہوتے ہیں۔

حدیث کے مطابق

میاں بیوی میں جدائی کروانے لڑائی کروانے سے شیطان بہت خوش ہوتا ہے وہ قتل سے بھی اتنا خوش نہیں ہوتا جتنا اس وقت ہوتا ہے جب دو میاں بیوی میں طلاق ہوتی ہے۔

شیطان کو شکست دیجیے اور اللّٰہ کو خوش کیجیے۔

ایک عالم نے اپنے بیان میں فرمایا

سارا دن روزہ رکھنا ساری رات عبادت کرنے سے بھی زیادہ افضل دو میاں بیوی کا آپس میں پیار کرنا ہے۔

شادی کی اہمیت کو جانیے اپنے شریک حیات کی قدر کیجیے اس سے پہلے کہ وہ آپ کے لیے زندگی بھر کا پچھتاوہ بن جائے۔

28/04/2024

.

موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو معاشرے میں فساد و فحاشی کی وجہ سے نوجوانوں کی بہت ہی کم تعداد ایسی ہے جو اپنی شادی تک کسی بھی قسم کے غلط کام میں نہیں پڑتے۔ ورنہ لڑکوں میں تو چند گنے چنے ہی ہوں گے جنہوں نے کبھی خود لذّتی بھی نہ کی ہو۔ اب تو یہ لڑکیوں میں بھی عام ہے۔ میڈیا اور ٹیلی ویژن کے فحاشی تو تھی ہی مگر رہی سہی کسر ساری انٹرنیٹ نے پوری کردی۔ انٹرنیٹ کی سہولت کے بعد سے دنیا کا سارا ننگا پن انگلیوں پر آ جاتا ہیں ویسے نئیں جنریشن خوش نصیب ہیں جو کچھ دیکھنے کے لیے مغل بادشاہوں کے خزانے خالی ہوجایا کرتے تھے وہ اب ہر نوجوان مفت میں انجوائے کرتا ہے۔😀
دوستو انسانی فطرت میں شہوت ہے۔ جب آپ اسے اسکے درست وقت (نکاح) میں استعمال نہیں کریں گے تو یہ غلط جگہ لازماً نکلے گی۔ اسکا تعلق تقوی سے نہیں بلکہ فطرت سے ہے جیسے کہ بھوک اور پیاس۔ فرق بس یہ ہے کہ متقی خود کو زیادہ دیر برداشت کرلے گا تھوڑا زیادہ صبر کرلے گا لیکن ہے تو وہ بھی انسان ہی ناں۔ اگر تقوی کے ذریعے شہوت کو ختم کیا جاسکتا ہوتا تو اللہ تعالیٰ نکاح کا نظام ہی نہ بناتے۔ فطرت کے مطابق بلوغت کے بعد انسان کے جنسی جذبات جاگ اٹھتے ہیں اور پھر اسے کھانے پینے کی طرح ہی جنسی تسکین کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب اگر اس وقت شادی نہ ہو تو جسمانی و ذہنی مسائل کے ساتھ ساتھ اخلاقی اعتبار سے جو نقصان ہوتا ہے اس کا ازالہ کسی صورت ممکن نہیں۔
آج کے دور کے نوجوان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو قحبہ خانے میں رہائش پر مجبور ہو۔ اب ایسے سخص کو اگر کوئی بولے کہ تو خدا کا خوف کر اور گناہ کی طرف مت جا۔ تو یہ کہنے والا حماقت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہے۔ اور بدقسمتی سے نوجوانوں کے والدین اور بڑے ایسی ہی حماقت پر مصمار ہیں۔
مانا کہ نوجوان بھی خراب ہیں۔ مگر جتنا اس میں نوجوانوں کا قصور ہے اتنا ہی والدین کا بھی قصور ہے۔ ہماری نوجوان نسل انتہائی درجے کی نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتی جارہی ہے اور اسکی سب سے بڑی وجہ یہیں ہے۔ کیونکہ ہم hyper sexual زمانے میں جی رہے ہیں۔ آپ لوگوں پر تو یہ چیزیں اب شاید اثر نہ کریں کیونکہ آپ تو اس عمر سے گزر چکے ہیں مگر یہ نوجوانوں کی بھڑکتی جوانی ہے یہ کھلکھلاتا ہوا شباب ہے جو آپ لوگوں کی حماقتوں زمانے کی تلخیوں اور نوجوانوں کی اپنی ہی حرکتوں کی نظر ہو گیا ہے۔
میں آج دینی اعتبار سے بات ہی نہیں کروں گا۔ میں آج اپنا طرز عمل چھوڑ کر بالکل لبرل انداز میں آج میں جذبات کو لے کر بات کروں گا۔
آج کے نوجوانوں کی نوعمری کی سنہری زندگی اسکولوں کالجوں اور پڑھائیوں میں صرف ہوجاتی ہے کم سے کم 25 سال تک نوجوان ڈگری حاصل کرنے میں گزار دیتے ہیں اور مزید 5 سال نوکری ڈھونڈنے میں لگ جاتے ہیں اگر کسی خش نصیب کو نوکری مل بھی جائے تو مزید 5 سال ماں باب لڑکی ڈھونڈھنے میں لگا لیتے ہیں ۔ اور تب تک سوشل میڈیا آپکے نوجوانوں کے فطری جذبات کو کچلنے کی حتی الامکان کوشش کرتا ہیں۔ آجکل کے نوجوان کی زندگی کے بہترین ایام سوشل میڈیا پر ضایع ہوجاتے ہیں ۔
جس وقت بچے معصوم ہوتے ہیں۔ انکی امنگیں سادہ اور ارمان مخلص ہوتے ہیں۔ جس وقت جذبات عروج پر ہوتے ہیں اور تخلیقی صلاحیتیں اپنی بہترین حالت پر ہوتی ہیں۔ جن کے جذبے پہاڑوں کی طرح بلند فولاد کی طرح مضبوط ہوتے ہیں۔۔۔۔
نوجوانوں کی زندگیوں کا وہ سنہری حصہ سوشل میڈیا نے تباہ کردیا۔
اب اس چلتے دور میں یہ سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔ نوجوانوں کی فطری حیا اور اندرونی معصومیت مر چکی ہے۔ نوجوانوں کے جذبات ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک عجیب سی اداسی سب پر طاری ہے۔ ایک خوفناک سی بے حسی کا احساس ہماری نوجوان نسل کے حواس پر طاری ہوتا جارہا ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ آپ لوگ کہیں گے کہ تم نے یہ اپنے سر پر سوار کر رکھا ہے۔ تم مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہو۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ میں نے خود کئی لوگوں کو ڈیل کیا ہے جو فحاشی میں مبتلا ہیں۔ میں حکمت سے رلیٹڈ ہوں آپ سوچ بھی نہیں سکتے کے نوجوان نسل کس حالت میں آتے ہیں میرے پاس۔ کتنے ہی ایسے ہیں کہ جو چاہتے ہوئے بھی ان چیزوں سے نکل نہیں پاتے۔ آپ لوگوں نے باقی دنیا دیکھی ہوگی مگر نئے دور کے ان مسائل سے آپ لاعلم ہیں مان لیجیے اور ہماری سن لیجیے۔ آپ اس کے درد کو نہیں سمجھ سکتے جو چاہتے ہوئے بھی پاکدامن نہ رہ سکے۔ آپ اس وقت کی بے بسی اور کرب کا اندازہ نہیں لگا سکتے جب دماغ اور جسم قابو سے باہر ہوجاتا ہے۔ آپ نے شہوت کی شدت کے باعث جنسی ہیجان میں مبتلا ہو کر حواس باختگی کا تجربہ نہیں۔ یہ کتنا تکلیفدہ عمل ہے اس شخص کے لیے جو پاکدامنی چاہتا ہو مگر اسکا دماغ اور جسم اسکا ساتھ چھوڑ دیں۔ آپ لوگ اس کرب کی کیفیت سے نہیں گزرے۔
جب پچیس سے تیس سال تک نوجوانوں کی پڑھائی ہی کروانی ہے تو ساتھ میں شادی نہیں ہوسکتی کیا ؟ شادی کی بات لاکھوں سے ہی کیوں شروع ہوتی ہے؟ غلاظتوں کے لیے تو کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ مگر شادی کے لیے اتنا کچھ چاہیے کہ جو صدیوں تک چلتا رہے؟ کیا انسان کی خود کی کوئی حیثیت نہیں ؟
نہیں بس بس۔۔۔۔ مجھے کوئی سوال نہیں اٹھانا۔
میں بس یہ کہنا چاہوں گا کہ ہم نوجوانوں کی بربادی میں ہمارے بڑے بھی ذمہ دار ہیں۔ اب ہمیں الزام تراشی چھوڑ کر باہم مل جل کر اسکا حل نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بلکہ حل بھی کیا نکالنا؟ حل تو سب کو معلوم ہے بس اس پر عمل کرنا ہے۔ اب فحاشی اور غلاظتوں سے پاک پرسکون زندگی کے لیے شادیاں ہی کرنی ہے۔

خدارا اپنے بچوں کا بھی کچھ سوچیں اور مادیت پرستی سے باہر آئیں۔ یہ ڈگریاں اور پیسہ ہی سب کچھ نہیں۔ اصل چیز انسان اور انسان کی خوشی ہے۔ اگر کوئی اپنی زندگی سے خوش ہو تو وہ کامیاب ہے ورنہ اگر زندگی میں خوشی نہ ہو تو زندہ کس لیے ہے؟
آج میں نے پوری کوشش کی ہے کہ کسی طرح لوگوں کو بات سمجھ آجائے۔ تحریر سمجھ نہ آئے تو دوبارہ پڑھ لیں۔
جزاک اللہ

Address

Islamabad

Telephone

+923027296369

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Best Information Center posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Category