04/04/2025
::کاہل قوم کے ذمہ دار والدین بھی::
اسٹیورٹ کا انتقال 103 سال کی عمر میں ہوا۔ یہ اور ان کی بیگم دونوں پچاس سال راولپنڈی میں پڑھاتے رہے ۔
پروفیسر اسٹیوارٹ نے 1960 میں الوداعی تقریر میں اس خطے کے بارے بڑی خوبصورت بات کی اس کا کہنا تھا ۔
پاکستانی ایک ناکارہ اور مفلوج قوم ہے۔
اس کا کہنا تھا :
اس قوم کو پہلے مائیں نکما بناتی ہیں۔
یہ اپنے بچوں کا ہر کام خود کرتی ہیں۔ان کے کپڑے دھوتی ہیں۔ استری کرتی ہیں۔ بچوں کو جوتے پالش کرکے دیتی ہیں۔ لنچ بکس تیار کرکے بچوں کے بستوں میں رکھتی ہیں۔ اور واپسی پر باکسز نکال کر دھو کر خشک کرتی ہیں ۔
بچوں کی کتابیں اور بستے مائیں صاف کرتی ہیں۔ اور ان کے بستر بھی خود لگاتی ہیں۔ چنانچہ بچے ناکارہ اور سست ہو جاتے ہیں۔ اور یہ پانی کے گلاس کیلئے بھی اپنے چھوٹے بہن بھائی کو آواز لگا دیتے ہیں یا ماں کو اونچی آواز میں کہتے ہیں امی پانی تو دے دو۔
پاکستانی بچے اس کلچر کیساتھ جوان ہوتے ہیں۔
اس کے بعد ان کی بیویاں آجاتی ہیں۔ یہ انہیں اپنا مجازی خدا سمجھتی ہیں
اور غلاموں کی طرح ان کی خدمت کرتی ہیں۔ یہ بھی ان کا کھانا بناتی ہیں۔ کپڑے دھو کر استری کرتی ہیں۔ ان کے واش روم صاف کرتی ہیں۔ ان کے بستر لگاتی ہیں۔ اور پھر ان کی نفرت اور غصہ بھی برداشت کرتی ہیں۔
چنانچہ اگر میں یہ کہوں پاکستانیوں کی مائیں بچوں کی نرسیں، بیویاں ملازمائیں اور چھوٹے بہن بھائی غلام ہوتے ہیں۔ تو یہ غلط نہیں ہوگا۔
جب سر پر پڑتی ہے، تو جینے کیلئے جائز ناجائز کی تمیز نہیں رہتی۔
لہذا سوال یہ ہے جو لوگ اس ماحول میں پل بڑھ کر جوان ہوتے ہیں۔ کیا وہ ناکارہ اور مفلوج نہیں ہوں گے؟
پروفیسر اسٹیوارٹ کا کہنا تھا اگر تم لوگوں نے واقعی قوم بننا ہے تو پھر تمہیں اپنے بچوں کو شروع سے اپنا کام خود کرنے اور دوسروں بالخصوص والدین کی مدد کی عادت ڈالنا ہوگی۔تاکہ یہ بچے جوانی تک پہنچ کر خود مختار بھی ہوسکیں اور ذمہ دار بھی تاکہ دوسروں کی مدد کریں۔
تم خود فیصلہ کرو جو بچہ خود اٹھ کر پانی کا گلاس نہیں لے سکتا وہ کل قوم کی ذمہ داری کیسے اٹھائے گا۔