
07/04/2025
سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں ظلم کے خلاف معاشی بائیکاٹ–ایک پرامن ہتھیار
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ظلم اور جبر کبھی مستقل نہیں رہتا، اور ہر فرعون کے لیے ایک موسیٰ پیدا ہوتا ہے۔ آج جب ہم فلسطین، کشمیر، یا دیگر مظلوم خطوں میں ظلم دیکھتے ہیں، خاص طور پر معصوم بچوں، عورتوں اور بے گناہوں کا قتلِ عام — تو ایک درد مند دل سوال کرتا ہے: ہم کیا کریں؟
کیا ہم صرف دعا پر اکتفا کریں؟
کیا ہم محض غصے کا اظہار کر کے بیٹھ جائیں؟
یا ہمیں سیرتِ نبوی سے کوئی رہنمائی مل سکتی ہے؟
آئیے سیرتِ طیبہ کی طرف پلٹتے ہیں۔
1. مدینہ میں یہودی قبائل کے ساتھ تعلقات: عدل اور امن کی بنیاد
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، تو وہاں کئی یہودی قبائل آباد تھے۔ آپ نے ان کے ساتھ میثاقِ مدینہ کیا — ایک ایسا معاہدہ جو بین المذاہب ہم آہنگی کی روشن مثال ہے۔
لیکن جب ان قبائل نے عہد شکنی کی، سازشیں کیں اور اسلامی ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف سیاسی اور دفاعی اقدامات کیے۔
یہاں تک کہ بنو نضیر کے محاصرے میں درخت کاٹنے کی اجازت دی گئی — لیکن اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں فرمایا:
> "مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ... فَبِإِذْنِ اللَّهِ"
(سورۃ الحشر، آیت 5)
یعنی: "جو درخت تم نے کاٹے یا چھوڑے، سب اللہ کے حکم سے تھا۔"
یہ نہ کوئی ذاتی انتقام تھا، نہ معاشی جنگ — بلکہ دشمن کو ظلم سے روکنے کے لیے ایک حکمت عملی تھی۔
---
2. معیشت کو بطور ہتھیار استعمال کرنا – سنتِ نبوی کی روشنی میں
ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے تجارت بھی کی، لیکن خیانت پر انہیں سزا بھی دی۔ سچائی یہ ہے کہ معاشی تعلقات صرف مفاد پر نہیں، اخلاقی بنیاد پر بھی ہوتے ہیں۔
اگر ایک قوم بچوں کو قتل کرے، بمباری سے گھروں کو مٹی میں ملا دے، ہسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنائے — اور ہم اس کے بنائے ہوئے مشروبات، کپڑے، موبائل، یا برانڈز خریدتے رہیں — تو کیا یہ خاموش شراکت داری نہیں؟
---
3. بائیکاٹ: پرامن، مؤثر، اور شرعی راستہ
معاشی بائیکاٹ کوئی نیا ہتھیار نہیں۔ یہ نہ جذباتی انتقام ہے، نہ غیر اخلاقی اقدام — بلکہ ایک باشعور، پرامن، اور غیر مسلح جدوجہد ہے جو ظلم کرنے والے کو انصاف کے ترازو میں لا کھڑا کرتی ہے۔
یہ وہی حکمت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی خیانت کے جواب میں اختیار فرمائی — جہاں کوئی تلوار نہ چلائی، مگر دشمن کو اس کے مقام پر لا کھڑا کیا۔
---
4. آج کے مسلمان کا فریضہ:
اگر ہم واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں، تو پھر ہمیں صرف جذباتی نعروں سے آگے بڑھنا ہو گا:
جس کمپنی کے ٹیکس سے ظالم حکومتیں اسلحہ خریدتی ہیں، اسے چھوڑ دیں۔
جس برانڈ کے مالک ظلم کی حمایت کرتے ہیں، اس کا متبادل تلاش کریں۔
جس میڈیا نے سچ کو دفن کر دیا، اس کا بائیکاٹ کریں۔
سیرتِ نبوی ہمیں سکھاتی ہے کہ معاشی حکمت عملی صرف تجارت کا نام نہیں، بلکہ اخلاقی قیادت کا ہتھیار بھی ہے۔
آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ مظلوموں پر ظلم بند ہو، تو ہمیں اپنی جیب اور ضمیر کو ایک صف میں کھڑا کرنا ہو گا۔
کیونکہ بعض اوقات سب سے بڑی مزاحمت، چیزیں نہ خریدنے میں ہوتی ہے۔