03/02/2024
اہم ترین معاملہ سپریم کورٹ پہنچ چکا،سپریم کورٹ سے ایک ایسا فیصلہ آ سکتا ہے جو ساری صورتحال کو یکسر بدل سکتا ہے،
سلمان اکرم راجہ صاحب نے اپنے وکلا سمیر کھوسہ اور ابو ذرسلمان نیازی کے ذریعےلاہور ہائی کورٹ میں ایک پیٹیشن کی جس میں کہا کہ ہم سے بلے کا نشان تو لے لیا گیا ہے لیکن ہم نے کاغذات نامزدگی جمع کراتے ہوئے لکھا تھا کہ ہم پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں،لہذا بلے کا نشان نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم آزاد امیدوار ہیں،پی ٹی آئی سے بلے کا نشان ضرور لے لیا گیا ہے لیکن جماعت رجسٹرڈ ہے،لہذا ہمیں آزاد امیدوار نہیں،پی ٹی آئی کا امیدوار قرار دیا جائے،چاہے الیکشن میں ہمارا نشان کوئی بھی ہو،
یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ نے یہ کہہ کر نمٹا دیا کہ آپ الیکشن کمیشن سے رجوع کریں،
سلمان اکرم راجہ صاحب اپنے وکلا کے ذریعے یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں تو لے کر گئے ہی لیکن ساتھ ہی ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے،
الیکشن کمیشن میں سماعت ہوئی اور فیصلہ محفوظ ہو چکا ہے،البتہ چیف الیکشن کمشنر اور تمام ممبران نے اپنے ریمارکس میں واضح کردیا ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدوار اب آزاد امیدوار ہیں،وہ جس پارٹی میں شامل ہونا چاہیں ہو سکتے ہیں لیکن پی ٹی آئی سے ان کا آئینی اور قانونی طور پر کوئی تعلق نہیں،اسی طرح پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی،صوبائی اسمبلیز کی مخصوص نشستوں میں سے بھی کچھ نہیں ملے گا،
اب آتے ہیں سپریم کورٹ کی طرف،سپریم کورٹ کے ممکنہ فیصلے سے پہلے یہ بات ضرور ذہن میں رکھیں کہ اگلا پورا پلان انہیں جیتنے والے پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں پر انحصار کررہا ہے،اداروں کا پلان یہ نظر آتا ہے کہ جیتنے والوں کو استحکام پاکستان،پیپلزپارٹی یا ن لیگ میں شامل کروا دیا جائے گا،اس طرح ان جماعتوں کے اراکین کی تعداد نہ صرف بڑھ جائے گی بلکہ مخصوص نشستیں بھی سب کی سب انہیں کے حصے میں آئیں گی،
اب سپریم کورٹ میں معاملہ پہنچ چکا ہے،اگلے ہفتے اس کو سماعت کے لیے مقرر کیا جا سکتا ہے،
اگلے ہفتے سپریم کورٹ اسلام آباد پرنسپل سیٹ پر تین مختلف ورکن ڈیز میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ،جسٹس سردار طارق مسعود،جسٹس جمال خان مندوخیل،جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس اطہر من اللہ مختلف دنوں میں موجود ہوں گے،
اب اگر یہ کیس لگتا ہے اور سپریم کورٹ یہ قرار دے دیتی ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس اگر انتخابی نشان نہ بھی ہو تو وہ بطور جماعت برقرار رہتی ہے ،اس لیے اس کی جانب سے نامزد کردہ امیدوار اسی جماعت کے ہی رہیں گے تو یہ فیصلہ ساری صورتحال کو یکسر بدل دے گا کیونکہ اس فیصلے کی صورت میں پی ٹی آئی کے جیتنے والے امیدوار نہ صرف کسی اور پارٹی میں نہیں جا سکیں گے بلکہ وزیراعظم کے انتخاب میں پارلیمانی پارٹی کے فیصلے کے پابند ہوں گے۔جب قاضی فائز عیسیٰ صاحب بلے والا کیس سن رہے تھے تو انہوں نے بارہا پی ٹی آئی کے وکلا سے کہا کہ آپ سے بلا کا نشان لے بھی لیا جائے تو آپ کو الیکشن لڑنے سے کون روک رہا ہے؟
یہ ضرور ہے کہ اگلے ہفتے جو پانچ ججز موجود ہوں گے ،ان میں سے دو ججز وہ ہیں جو بلا واپس لینے کا فیصلہ دے چکے ہیں اور ایک جج جسٹس سردار طارق مسعود وہ ہیں جو لیول پلئینگ فیلڈ کیس میں پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو غلط قرار دے چکے ہیں،جسٹس جمال خان مندوخیل بھی بہت کم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اختلاف کرتے ہیں،صرف ایک جج جسٹس اطہر من اللہ ایسے ہیں جو آزاد سوچ والے جج ہیں اور آئین کی نہ صرف بات کرتے ہیں بلکہ ایمان کی حد تک اس کے ساتھ بھی کھڑے ہوتے ہیں۔